240 Results For Hadith (Mishkat-ul-Masabeh) Book (كتاب الْفَضَائِل وَالشَّمَائِل)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5739

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا حَتَّى كُنْتُ من القرنِ الَّذِي كنتُ مِنْهُ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں اولادِ آدم کے بہترین طبقات سے ہوتا ہوا اس طبقے میں پہنچا ہوں جس میں مَیں پیدا ہوا ہوں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5740

وَعَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنَى هَاشِمٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَفِي رِوَايَةٍ لِلتِّرْمِذِيِّ: «إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى مِنْ ولد إِبْرَاهِيم إِسْمَاعِيل وَاصْطفى من ولد إِسْمَاعِيل بني كنَانَة»
واثلہ بن اسقع ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اللہ نے اولادِ اسماعیل ؑ میں سے کنانہ کو منتخب فرمایا ، کنانہ میں سے قریش کو ، قریش میں سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا ۔‘‘ اور ترمذی کی روایت میں ہے :’’ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے اسماعیل ؑ کو منتخب فرمایا ، اور اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو ۔‘‘ رواہ مسلم و الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5741

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ روزِ قیامت آدم ؑ کی اولاد کا سردار میں ہوں گا ۔ سب سے پہلے مجھے قبر سے اٹھایا جائے گا ، سب سے پہلے میں سفارش کروں گا اور سب سے پہلے میری سفارش قبول کی جائے گی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5742

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَكْثَرُ الْأَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الجنةِ» . رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ روزِ قیامت تمام انبیا ؑ سے میرے متبعین زیادہ ہوں گے ، اور باب جنت پر سب سے پہلے میں دستک دوں گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5743

وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَسْتَفْتِحُ فَيَقُولُ الْخَازِنُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُولُ: مُحَمَّدٌ. فيقولُ: بكَ أمرت أَن لاأفتح لأحد قبلك . رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ قیامت کے دن میں جنت کے دروازے پر آؤں گا اور اس کے کھولنے کا مطالبہ کرو ں گا تو محافظ پوچھے گا : آپ کون ہیں ؟ میں کہوں گا : محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) ۔ وہ عرض کرے گا : آپ ہی کے متعلق مجھے حکم دیا گیا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے (اسے) نہ کھولوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5744

وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَوَّلُ شَفِيعٍ فِي الْجَنَّةِ لَمْ يُصَدَّقْ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ مَا صُدِّقْتُ وَإِنَّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيًّا مَا صَدَّقَهُ مِنْ أُمَّته إِلَّا رجل وَاحِد» . رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں جنت میں (داخلے کے لیے) سب سے پہلے سفارش کروں گا ، تمام انبیا ؑ میں سے میری تصدیق کرنے والے زیادہ ہوں گے بلا شبہ انبیا ؑ میں سے کوئی ایسا نبی بھی ہو گا جس کی ، اس کی امت میں سے ، صرف ایک آدمی نے تصدیق کی ہو گی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5745

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ كَمَثَلِ قَصْرٍ أُحْسِنَ بُنْيَانُهُ تُرِكَ مِنْهُ مَوضِع لبنة فَطَافَ النظَّارُ يتعجَّبونَ من حُسنِ بنيانِه إِلَّا مَوْضِعَ تِلْكَ اللَّبِنَةِ فَكُنْتُ أَنَا سَدَدْتُ مَوْضِعَ اللَّبِنَةِ خُتِمَ بِيَ الْبُنْيَانُ وَخُتِمَ بِي الرُّسُلُ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میرے اور دوسرے انبیا ؑ کی مثال اس طرح ہے جیسے ایک محل ہو جسے بہترین انداز میں تعمیر کیا گیا ہو ، لیکن ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی ہو ، دیکھنے والے اس کے گرد چکر لگاتے ہیں اور اس اینٹ کی جگہ کے علاوہ اس کے حسنِ تعمیر پر تعجب میں پڑ جاتے ہیں ، وہ میں تھا جس نے اس اینٹ کی جگہ کو پورا کیا ۔ میرے ساتھ ہی تعمیر مکمل کر دی گئی اور میرے ساتھ ہی رسالت بھی مکمل کر دی گئی ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5746

وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا قَدْ أُعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَى اللَّهُ إِلَيَّ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تمام انبیا ؑ کو معجزات عطا کیے گئے جن کے مطابق انسان ان پر ایمان لائے ، اور جو مجھے عطا کیا گیا وہ وحی (یعنی قرآن) ہے ، اللہ نے میری طرف وحی بھیجی ، میں امید کرتا ہوں کہ روز قیامت ان (انبیا ؑ) سے میرے متبعین زیادہ ہوں گے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5747

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتي أدركتْه الصَّلاةُ فليُصلِّ وأُحلَّتْ لي المغانمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَأَعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عامَّةً . مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں ، جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں : ایک مہینے کی مسافت سے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے ، تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاک بنا دی گئی ہے ، میرے امتی کو جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے تو وہ وہیں نماز پڑھ لے ، میرے لیے مال غنیمت حلال کر دیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لیے حلال نہیں تھا ، مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے اور ہر نبی اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث کیا جاتا تھا جبکہ مجھے عمومی طور پر تمام انسانوں کے لیے مبعوث کیا گیا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5748

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مجھے دوسرے انبیا ؑ پر چھ چیزوں سے فضیلت عطا کی گئی ہے : مجھے جوامع الکلم (بات مختصر ، مفہوم زیادہ) عطا کیے گئے ہیں ، رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے ، مال غنیمت میرے لیے حلال کیا گیا ہے ، میرے لیے تمام زمین سجدہ گاہ اور پاک قرار دی گئی ہے مجھے تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہے ، اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5749

وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وبَينا أَنا نائمٌ رأيتُني أُوتيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي» مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مجھے جوامع الکلم کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے ، رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے ، اور اس دوران کے میں سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں ، اور انہیں میرے ہاتھ میں رکھ دیا گیا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5750

وَعَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِيَ الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ: الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وإنَّ ربِّي قَالَ: يَا محمَّدُ إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وأنْ لَا أُسلطَ عَلَيْهِم عدُوّاً سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعضهم بَعْضًا . رَوَاهُ مُسلم
ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھ لیا ، اور جس قدر زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی وہاں تک میری امت کی حکومت پہنچے گی ، مجھے دو خزانے عطا کیے گئے ، سرخ اور سفید ، میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ عام قحط سالی کے ذریعے اسے ہلاک نہ کرے ، ان کے باہمی دشمنوں کے سوا کسی اور دشمن کو ان پر مسلط نہ کرے کہ وہ ان کا مرکز (صدر مقام) تباہ کر دے اور بلا شبہ میرے رب نے فرمایا : اے محمد ! میں جب کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ ٹل نہیں سکتا ، میں نے آپ کو آپ کی امت کے بارے میں یہ عہد دے دیا کہ میں اسے قحط سالی میں مبتلا کر کے تباہ نہیں کروں گا ، یہ بھی عہد دے دیا کہ ان پر ان کے باہمی دشمن کے علاوہ کوئی ایسا دشمن اس پر مسلط نہیں کروں گا جو ان کے مرکز کو تباہ کر دے ، اگرچہ ان کے تمام دشمن متحد ہو کر ان پر حملہ کر دیں ، البتہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور قیدی بنائیں گے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5751

وَعَنْ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ دَخَلَ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَدَعَا رَبَّهُ طَوِيلًا ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ: «سَأَلْتُ رَبِّي ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي ثِنْتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً سَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالسَّنَةِ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بأسهم بَينهم فَمَنَعَنِيهَا» . رَوَاهُ مُسلم
سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بنو معاویہ کی مسجد کے پاس سے گزرے تو آپ اس میں تشریف لے گئے ، آپ نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ (دو رکعتیں) پڑھیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے رب سے طویل دعا کی ، اور جب اس سے فارغ ہوئے تو فرمایا :’’ میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگی تھیں ، اس نے مجھے دو عطا فرما دیں اور ایک سے مجھے روک دیا ، میں نے اپنے رب سے سوال کیا تھا کہ وہ میری امت کو قحط کے ساتھ ہلاک نہ کرے ، اس نے یہ چیز مجھے عطا فرما دی ، میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ وہ میری امت کو غرق کے ذریعے ہلاک نہ کرے ، تو اس نے یہ بھی مجھے عطا کر دی ، اور میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ ان میں باہم لڑائی پیدا نہ کرے تو اس سے مجھے روک دیا گیا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5752

وَعَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صِفَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ قَالَ: أَجَلْ وَاللَّهِ إِنَّهُ لموصوف بِبَعْض صفتِه فِي القرآنِ: (يَا أيُّها النبيُّ إِنَّا أرسلناكَ شَاهدا ومُبشِّراً وَنَذِيرا) وحِرْزا للاُمِّيّينَ أَنْت بعدِي وَرَسُولِي سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّلَ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَدْفَعُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ وَلَنْ يَقْبِضَهُ اللَّهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ بِأَنْ يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيَفْتَحُ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا وَآذَانًا صُمًّا وَقُلُوبًا غُلْفًا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
عطا بن یسار ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ملاقات کی ، میں نے کہا : مجھے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس صفت کے متعلق بتائیں جو تورات میں مذکور ہے ، انہوں نے فرمایا : ٹھیک ہے ، اللہ کی قسم ! آپ کی جو صفات قرآن کریم میں ہیں ، ان میں سے بعض تورات میں مذکور ہیں ، جیسا کہ :’’ اے نبی ! ہم نے آپ کو خوشخبری سنانے والا ، ڈرانے والا اور اَن پڑھوں (عربوں) کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ، آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں ، میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے ، آپ نہ تو بد اخلاق ہیں اور نہ سخت دل ہیں ، آپ بازاروں میں شور و غل کرنے والے ہیں نہ برائی کا جواب برائی سے دیتے ہیں ، بلکہ آپ درگزر کرتے ہیں ، معاف کرتے ہیں ، اور اللہ ان کی روح قبض نہیں کرے گا حتی کہ وہ ان کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھا کرا لے ، اور وہ ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کا اقرار کر لیں اور وہ اس (کلمے) کے ذریعے اندھی آنکھوں کو قوت بینائی ، بہرے کانوں کو قوت سماعت اور غلاف میں بند دلوں کو کھول دے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5753

وَكَذَا الدَّارِمِيُّ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ سَلَامٍ نَحْوَهُ وَذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي هُرَيْرَةَ: «نَحْنُ الْآخَرُونَ» فِي «بَاب الْجُمُعَة»
اور اسی طرح دارمی نے عطاء عن ابن سلام کی سند سے اسی مثل روایت کیا ہے ، اور ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث ((نحن الآخرون .....)) ’’ باب الجمعۃ ‘‘ میں ذکر کی گئی ہے ۔ صحیح ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5754

عَن خبَّابِ بنِ الأرتِّ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ فَأَطَالَهَا. قَالُوا: يَا رَسُولَ الله صلَّيتَ صَلَاةً لَمْ تَكُنْ تُصَلِّيهَا قَالَ: «أَجَلْ إِنَّهَا صَلَاةُ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ وَإِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ فِيهَا ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِسَنَةٍ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ فمنعَنيها» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ
خباب بن ارت ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی تو اسے طویل کیا ، صحابہ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ نے ہمیں نماز پڑھائی ، جبکہ آپ نے ایسی نماز (پہلے کبھی) نہیں پڑھائی تھی ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ٹھیک ہے ، یہ امید اور خوف والی نماز ہے ، میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کی درخواست کی : اس نے مجھے دو عطا فرما دیں اور ایک سے روک دیا ، میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ قحط کے ذریعے میری امت کو ہلاک نہیں کرے گا اس نے اسے شرف قبولیت بخشا ، میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ ان کے علاوہ کسی اور دشمن کو ان پر مسلط نہیں کرے گا ، اس نے یہ بھی پوری فرما دی اور میں نے اس سے یہ بھی درخواست کی کہ ان کی آپس میں لڑائی (خانہ جنگی) نہ ہو تو اس نے اس سے مجھے روک دیا ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و النسائی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5755

وَعَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَجَارَكُمْ مِنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ: أَنْ لَا يَدْعُوَ عَلَيْكُمْ نَبِيُّكُمْ فَتَهْلَكُوا جَمِيعًا وَأَنْ لَا يُظْهِرَ أَهْلَ الْبَاطِلِ على أهلِ الحقِّ وَأَن لَا تجتمِعوا على ضَلَالَة . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابومالک اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ عزوجل نے تمہیں تین چیزوں سے محفوظ رکھا ہے ، تمہارا نبی تمہارے لیے یہ بددعا نہیں کرے گا کہ تم سب ہلاک ہو جاؤ ، اہل باطل ، اہل حق پر غالب نہیں ہوں گے ، اور تم گمراہی پر اکٹھے نہیں ہو گے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5756

وَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَنْ يَجْمَعَ اللَّهُ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ سَيْفَيْنِ: سَيْفًا مِنْهَا وسَيفاً منْ عدُوِّها رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عوف بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ اس امت پر دو تلواریں جمع نہیں کرے گا ، ایک ان کی اپنی تلوار اور ایک اس کے دشمن کی تلوار (یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بھی ہو اور دشمن بھی ان پر حملہ آور ہو) ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5757

وَعَن الْعَبَّاس أَنَّهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: «مَنْ أَنَا؟» فَقَالُوا: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ. فَقَالَ: «أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ ثمَّ جعلهم فرقتَيْن فجعلني فِي خير فِرْقَةً ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبيلَة ثمَّ جعله بُيُوتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا فَأَنَا خَيْرُهُمْ نفسا وَخَيرهمْ بَيْتا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عباس ؓ سے روایت ہے کہ وہ (غصے کی حالت میں) نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے گویا انہوں نے کچھ (نسب میں طعن) سنا تھا ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر کھڑے ہوئے تو فرمایا :’’ میں کون ہوں ؟‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ، آپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ہوں ، اللہ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہتر گروہ میں پیدا فرمایا ، پھر اس نے ان کے قبیلے بنائے تو مجھے ان سب سے بہتر قبیلے میں پیدا فرمایا ، پھر ان کو گھرانے گھرانے بنایا تو مجھے ان میں سے بہترین گھرانے میں پیدا فرمایا ، میں ان سے نفس و حسب کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں اور ان کے گھرانے کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5758

وَعَن أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ نبوت کے منصب سے کب نوازے گئے ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جب آدم ؑ روح اور جسم کے مابین تھے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5759

وَعَن العِرْباض بن ساريةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إِنِّي عِنْدَ اللَّهِ مَكْتُوبٌ: خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لِمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ وَسَأُخْبِرُكُمْ بِأَوَّلِ أَمْرِي دَعْوَةُ إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةُ عِيسَى وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ حِينَ وَضَعَتْنِي وَقَدْ خَرَجَ لَهَا نُورٌ أَضَاءَ لَهَا مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ «. وَرَاه فِي» شرح السّنة
عرباض بن ساریہ ؓ ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں تو اس وقت سے اللہ تعالیٰ کے ہاں خاتم النبیین لکھا ہوا ہوں جب آدم ؑ ابھی (ڈھانچے کی حالت میں) مٹی کی صورت میں پڑے ہوئے تھے ، اور میں ابھی اپنے معاملے (یعنی نبوت) کے بارے میں تمہیں بتاتا ہوں ، میں ابراہیم ؑ کی دعا ، عیسیٰ ؑ کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے قریب دیکھا تھا کہ ان کے لیے ایک نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات ان کے سامنے روشن ہو گئے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ فی شرح السنہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5760

وَرَوَاهُ أَحْمَدُ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ مِنْ قَوْلِهِ: «سأخبركم» إِلَى آخِره
اور امام احمد نے اسے ابوامامہ ؓ سے ((سأخبر کم)) سے لے کر آخر حدیث تک روایت کیا ہے ۔ حسن ، رواہ احمد ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5761

وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ. وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں روزِ قیامت آدم ؑ کی اولاد کا سردار ہوں گا ، اور میں یہ ازراہِ فخر نہیں کہتا ، حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہو گا ، اور میں یہ بات ازراہِ فخر نہیں کہتا ، اس روز آدم ؑ سمیت تمام انبیا ؑ میرے پرچم تلے ہوں گے ، سب سے پہلے مجھے قبر سے اٹھایا جائے گا ، اور میں یہ بات ازراہِ فخر نہیں کہتا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5762

وَعَن ابْن عَبَّاس قَالَ: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ قَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا وَقَالَ آخَرُ: مُوسَى كَلَّمَهُ اللَّهُ تَكْلِيمًا وَقَالَ آخَرُ: فَعِيسَى كَلِمَةُ الله وروحه. وَقَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «قَدْ سَمِعْتُ كَلَامَكُمْ وَعَجَبَكُمْ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ خَلِيل الله وَهُوَ كَذَلِكَ وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ وَهُوَ كَذَلِكَ أَلَا وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَهُ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ حَلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللَّهُ لِي فَيُدْخِلُنِيهَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَكْرَمُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخَرِينَ عَلَى اللَّهِ وَلَا فَخر» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ والدارمي
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کچھ صحابہ ؓ بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ باہر سے تشریف لائے اور ان کے قریب ہو گئے تو آپ نے انہیں باتیں کرتے ہوئے سنا ، کسی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو خلیل بنایا ، دوسرے نے کہا : اللہ تعالیٰ نے موسی ؑ سے کلام فرمایا ، کسی اور نے کہا : عیسیٰ ؑ تو وہ اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں ، کسی نے کہا : آدم ؑ کو کہ اللہ نے انہیں منتخب فرمایا : اس دوران رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس پہنچ گئے اور فرمایا :’’ میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں ، اور تمہارا تعجب کرنا کہ ابراہیم ؑ ، اللہ کے خلیل ہیں ، اور وہ اسی طرح ہیں ، موسی ؑ کلیم اللہ ہیں ، وہ بھی اسی طرح ہیں ، عیسیٰ ؑ اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ، وہ بھی اسی طرح بجا ہیں ، آدم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا ہے ، یہ بھی حقیقت ہے ، جبکہ میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں ، اور میں یہ بات ازراہِ فخر نہیں کہتا ، روزِ قیامت حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہو گا ، آدم ؑ اور باقی سب انبیا ؑ اسی کے نیچے ہوں گے اور میں یہ بات ازراہِ فخر نہیں کہتا ، روزِ قیامت میں سب سے پہلے سفارش کروں گا اور سب سے پہلے میری سفارش قبول ہو گی ، اور یہ میں ازراہِ فخر نہیں کہتا ، سب سے پہلے میں ہی جنت کے کنڈے ہلاؤں گا تو اللہ تعالیٰ میرے لیے کھول دے گا اور مجھے اس میں داخل فرمائے گا ، میرے ساتھ غریب ایماندار ہوں گے اور میں اس پر فخر نہیں کرتا ، اللہ تعالیٰ کے ہاں تمام اولین و آخرین سے سب سے زیادہ معزز میں ہوں اور میں اس پر فخر نہیں کرتا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5763

وَعَن عَمْرو بن قَيْسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَحْنُ الْآخِرُونَ وَنَحْنُ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِنِّي قَائِلٌ قَوْلًا غَيْرَ فَخْرٍ: إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ الله ومُوسَى صفي الله وَأَنا حبييب اللَّهِ وَمَعِي لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِنَّ اللَّهَ وَعَدَنِي فِي أُمَّتِي وَأَجَارَهُمْ مِنْ ثَلَاثٍ: لَا يَعُمُّهُمْ بِسَنَةٍ وَلَا يَسْتَأْصِلُهُمْ عَدُوٌّ وَلَا يجمعهُمْ على ضَلَالَة . رَوَاهُ الدَّارمِيّ
عمرو بن قیس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ہم (دنیا میں) آخر میں آنے والے ہیں ، اور روزِ قیامت (جنت میں داخل ہونے والوں میں) ہم سب سے آگے ہوں گے ، میں کسی فخر کے بغیر یہ بات کہتا ہوں کہ ابراہیم ؑ اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں ، موسی ؑ صفی اللہ ہیں اور میں حبیب اللہ ہوں ، روزِ قیامت حمد کا پرچم میرے ساتھ ہو گا ، اللہ تعالیٰ نے میری امت کے متعلق مجھ سے وعدہ فرما رکھا ہے ، اور اس نے انہیں تین چیزوں سے محفوظ رکھا ہے ، وہ انہیں عام قحط میں مبتلا نہیں کرے گا ، دشمن اس کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکے گا ، اور وہ ان سب کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5764

وَعَنْ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شافعٍ وَمُشَفَّع وَلَا فَخر» . رَوَاهُ الدَّارمِيّ
جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں تمام رسولوں کا قائد ہوں ، یہ بات میں ازراہِ فخر نہیں کہتا ، میں خاتم النبیین ہوں ، فخر سے نہیں کہتا ، میں سب سے پہلے سفارش کروں گا اور سب سے پہلے میری سفارش قبول کی جائے گی اور میں یہ بات ازراہِ فخر نہیں کہتا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5765

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ خُرُوجًا إِذَا بُعِثُوا وَأَنَا قَائِدُهُمْ إِذَا وَفَدُوا وَأَنَا خَطِيبُهُمْ إِذَا أَنْصَتُوا وَأَنَا مُسْتَشْفِعُهُمْ إِذَا حُبِسُوا وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوا الْكَرَامَةُ وَالْمَفَاتِيحُ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي وَلِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي وَأَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي يَطُوفُ عَلَيَّ أَلْفُ خادمٍ كأنَّهنَّ بَيْضٌ مُكْنُونٌ أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُورٌ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيب
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جب لوگوں کو (قبروں سے) اٹھایا جائے گا تو میں سب سے پہلے نکلوں گا ، جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو میں ان کا قائد ہوں گا ، جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ان کی طرف سے بات کروں گا ، جب انہیں روک لیا جائے گا (حساب شروع نہیں ہو گا) تو میں ان کی سفارش کروں گا ، جب وہ ناامید ہو جائیں گے تو میں انہیں (مغفرت و رحمت کی) خوشخبری سناؤں گا ، کرامت اور چابیاں اس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی ، اس روز حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہو گا ، میرے رب کے ہاں تمام انسانوں سے میری سب سے زیادہ عزت ہو گی ، ہزار خادم میرے اردگرد چکر لگا رہے ہوں گے ، گویا وہ پوشیدہ (بند کیے ہوئے) انڈے ہیں ، یا بکھرے ہوئے موتی ہیں ۔‘‘ ترمذی ، دارمی ، اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5766

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَأُكْسَى حُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ أَقُومُ عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ يقومُ ذلكَ المقامَ غَيْرِي» . رَوَاهُ الترمذيُّ. وَفِي رِوَايَة «جَامع الْأُصُول» عَنهُ: «أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ فَأُكْسَى»
ابوہریرہ ؓ ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مجھے ایک جنتی جوڑا پہنایا جائے گا ، پھر میں عرش کے دائیں طرف کھڑا ہوں گا ، اور میرے علاوہ مخلوق میں سے کوئی اور اس مقام پر کھڑا نہیں ہو گا ۔‘‘ ترمذی ۔ اور جامع الاصول میں ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے :’’ سب سے پہلے مجھے قبر سے اٹھایا جائے گا اور مجھے جوڑا پہنایا جائے گا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5767

وَعَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سلوا الله الْوَسِيلَةَ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَسِيلَةُ؟ قَالَ: «أَعْلَى دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ لَا يَنَالُهَا إِلَّا رجلٌ واحدٌ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
ابوہریرہ ؓ ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! وسیلہ کیا ہے ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جنت میں ایک اعلیٰ درجہ ہے ، وہ صرف ایک ہی آدمی کو نصیب ہو گا ، اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں گا ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5768

وَعَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ وَخَطِيبَهُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غيرَ فَخر» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابی بن کعب ؓ ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جب روزِ قیامت ہو گا تو میں انبیا ؑ کا امام ہوں گا ، ان کا خطیب اور (مقام محمود پر) ان کا صاحب شفاعت ہوں گا ، اور میں یہ بات فخر سے نہیں کہتا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5769

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: إِن لِكُلِّ نَبِيٍّ وُلَاةً مِنَ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ وَلِيِّيَ أَبِي وَخَلِيلُ رَبِّي ثُمَّ قَرَأَ: [إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمنُوا وَالله ولي الْمُؤمنِينَ] . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ہر نبی کے لیے انبیا ؑ میں سے ایک (نبی) رفیق ہے ، اور میرے لیے رفیق ، میرے باپ اور میرے رب کے خلیل (ابراہیم ؑ) ہیں ۔‘‘ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ بے شک ابراہیم ؑ کے تمام لوگوں میں سے زیادہ حق دار اور قریبی وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے ان کی اتباع کی اور یہ نبی (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ، اور اللہ تعالیٰ مومنوں کا دوست و حمایتی ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5770

وَعَنْ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قا ل: «إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي لِتَمَامِ مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَكَمَالِ محَاسِن الْأَفْعَال» . رَوَاهُ فِي شرح السّنة
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے مکارمِ اخلاق کے مکمل کرنے اور محاسنِ افعال کو کمال تک پہنچانے کے لیے ، مجھے مبعوث فرمایا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5771

وَعَنْ كَعْبٍ يَحْكِي عَنِ التَّوْرَاةِ قَالَ: نَجِدُ مَكْتُوبًا محمدٌ رسولُ الله عَبدِي الْمُخْتَار لَا فظٌّ وَلَا غَلِيظٍ وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ مَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ وَهِجْرَتُهُ بِطِيبَةَ وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ وَأُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ مَنْزِلَةٍ وَيُكَبِّرُونَهُ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ رُعَاةٌ لِلشَّمْسِ يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ إِذَا جَاءَ وَقْتُهَا يتأزَّرون على أَنْصَافهمْ ويتوضؤون عَلَى أَطْرَافِهِمْ مُنَادِيهِمْ يُنَادِي فِي جَوِّ السَّمَاءِ صَفُّهُمْ فِي الْقِتَالِ وَصَفُّهُمْ فِي الصَّلَاةِ سَوَاءٌ لَهُمْ بِاللَّيْلِ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ «. هَذَا لَفْظُ» الْمَصَابِيحِ وَرَوَى الدَّارِمِيُّ مَعَ تَغْيِير يسير
کعب ؓ تورات سے نقل کرتے ہیں کہ ہم تورات میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں : محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اللہ کے رسول ہیں ، میرے منتخب بندے ہیں ، وہ نہ تو بد اخلاق ہیں اور نہ سخت دل ، نہ بازاروں میں شور و غل کرنے والے ہیں اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں ، بلکہ وہ درگزر کرتے اور معاف کر دیتے ہیں ، ان کی جائے پیدائش مکہ ہے ، ان کی ہجرت طیبہ (مدینہ) کی طرف ہو گی ، ان کی حکومت ملکِ شام میں ہو گی ، ان کی امت بہت زیادہ حمد کرنے والی ہو گی ، وہ خوشحالی و تنگدستی (ہر حال) میں ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کریں گے ، ہر بلند جگہ پر اللہ تعالیٰ کی تکبیر بیان کریں گے ، وہ (نمازوں کے اوقات کے لیے) سورج کا خیال رکھتے ہوں گے ، جب نماز کا وقت ہو جائے گا تو وہ نماز پڑھیں گے ، ان کا ازار نصف پنڈلیوں تک ہو گا ، وہ اعضائے وضو تک وضو کریں گے ، ان کا مؤذن بلند جگہ پر (کھڑا ہو کر) اذان دے گا ، ان کی نماز کے دوران صفیں اور ان کی میدان جہاد میں صفیں برابر ہوں گی ، اور رات کے وقت ان (تہجد کے وقت تسبیح و تہلیل) کی آواز اس طرح ہو گی جس طرح شہد کی مکھی کی آواز ہوتی ہے ۔‘‘ یہ الفاظ مصابیح کے ہیں ، اور امام دارمی نے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اسے روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5772

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ وَعِيسَى بن مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ قَالَ أَبُو مَوْدُودٍ: وَقَدْ بَقِي فِي الْبَيْت مَوضِع قَبره رَوَاهُ الترمذيُّ
عبداللہ بن سلام ؓ بیان کرتے ہیں ، تورات میں محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صفت لکھی ہوئی ہے اور عیسیٰ ؑ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ دفن کیے جائیں گے ۔‘‘ ابو مودود (راوی) نے بیان کیا : (عائشہ ؓ کے) گھر میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5773

عَن ابْن عبَّاس قَالَ: إنَّ الله تَعَالَى فضل مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ وَعَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ فَقَالُوا يَا أَبَا عَبَّاسٍ بِمَ فَضَّله الله عَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ؟ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِأَهْلِ السَّمَاءِ [وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نجزي الظَّالِمين] وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: [إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تأخَّر] قَالُوا: وَمَا فَضْلُهُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ؟ قَالَ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: [وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاء] الْآيَةَ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: [وَمَا أَرْسَلْنَاك إِلَّا كَافَّة للنَّاس] فَأرْسلهُ إِلَى الْجِنّ وَالْإِنْس
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تمام انبیا ؑ اور آسمان والوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے ۔ انہوں نے کہا : ابو عباس ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان والوں پر کس چیز سے فضیلت عطا فرمائی ہے ؟ انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آسمان والوں سے فرمایا :’’ ان میں سے جس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا معبود ہوں تو ہم اسے جہنم کی سزا دیں گے ، ہم اسی طرح ظالموں کو سزا دیتے ہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے فرمایا :’’ ہم نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی تا کہ اللہ آپ کے تمام گناہ معاف فرما دے ۔‘‘ انہوں نے کہا : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دوسرے انبیا ؑ پر کون سی فضیلت ہے ؟ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ مبعوث فرمایا تا کہ وہ انہیں وضاحت کر سکے ، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے ۔‘‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے فرمایا :’’ ہم نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا ۔‘‘ سو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تمام جنوں اور تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الدارمی و الحاکم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5774

وَعَن أبي ذرّ الْغِفَارِيّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ عَلِمْتَ أَنَّكَ نَبِيٌّ حَتَّى اسْتَيْقَنْتَ؟ فَقَالَ: يَا أَبَا ذَر أَتَانِي ملكان وَأَنا ب بعض بطحاء مَكَّة فَوَقع أَحدهمَا على الْأَرْضِ وَكَانَ الْآخَرُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَهْوَ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَزِنْهُ بِرَجُلٍ فَوُزِنْتُ بِهِ فَوَزَنْتُهُ ثُمَّ قَالَ: زِنْهُ بِعَشَرَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ ثُمَّ قَالَ: زنه بِمِائَة فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَنْتَثِرُونَ عَلَيَّ مِنْ خِفَّةِ الْمِيزَانِ. قَالَ: فَقَالَ أَحَدُهُمَا لصَاحبه: لَو وزنته بأمته لرجحها . رَوَاهُمَا الدَّارمِيّ
ابوذر غفاری ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ نے کیسے جانا کہ آپ نبی ہیں ، حتی کہ آپ نے یقین کر لیا ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ابوذر ! میرے پاس دو فرشتے آئے جبکہ میں مکہ کی وادی بطحا میں تھا ، ان میں سے ایک زمین پر اتر آیا اور دوسرا آسمان اور زمین کے درمیان تھا ، ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : کیا یہ وہی ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں ، اس نے کہا : ان کا ایک آدمی کے ساتھ وزن کریں ، میرا اس کے ساتھ وزن کیا گیا تو میں اس پر بھاری تھا ، پھر اس نے کہا : ان کا دس افراد کے ساتھ وزن کرو ، میرا ان کے ساتھ وزن کیا گیا تو میں ان پر بھاری رہا ، پھر اس نے کہا : ان کا سو افراد کے ساتھ وزن کرو ، میرا ان کے ساتھ وزن کیا گیا تو میں ان پر بھی بھاری رہا ، پھر اس نے کہا : ان کا ایک ہزار کے ساتھ وزن کرو ، میرا ان کے ساتھ وزن کیا گیا تو میں ان پر بھی بھاری رہا ، گویا ترازو کے ہلکے ہونے کی وجہ سے ، میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ مجھ پر گر پڑیں گے ۔‘‘ فرمایا :’’ ان دونوں میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : اگر تم نے ان کا ان کی پوری امت کے ساتھ بھی وزن کر لیا تو یہ اس (امت) پر غالب آ جائیں گے ۔‘‘ دونوں احادیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5775

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُتِبَ عَلَيَّ النَّحْرُ وَلَمْ يُكْتَبْ عَلَيْكُمْ وَأُمِرْتُ بِصَلَاةِ الضُّحَى وَلَمْ تؤمَروا بهَا» . رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ قربانی کرنا مجھ پر فرض کیا گیا ہے ، جبکہ تم پر فرض نہیں کیا گیا ، اور نماز چاشت کا مجھے حکم دیا گیا ہے جبکہ تمہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الدارقطنی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5776

عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعَمٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إنَّ لي أَسْمَاءً: أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ . وَالْعَاقِب: الَّذِي لَيْسَ بعده شَيْء. مُتَّفق عَلَيْهِ
جبیر بن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ میرے بہت سے نام ہیں : میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں اللہ میرے ذریعے کفر کو مٹا دے گا ، میں حاشر ہوں کہ تمام لوگ میرے بعد اٹھائے جائیں گے ، اور میں عاقب ہوں ۔‘‘ اور عاقب اسے کہتے ہیں جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5777

وَعَن أبي مُوسَى الْأَشْعَرِيّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَمِّي لَنَا نَفْسَهُ أَسْمَاءً فَقَالَ: «أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَالْمُقَفِّي وَالْحَاشِرُ وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ وَنَبِيُّ الرَّحْمَة» . رَوَاهُ مُسلم
ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ذات مبارکہ کے نام ہمیں بتایا کرتے تھے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں آخر پر آنے والا ہوں ، (میرے بعد کوئی نبی نہیں) ، میں حاشر ہوں ، میں نبی توبہ ہوں (اللہ کے حضور بہت زیادہ رجوع کرنے والا) اور نبی رحمت ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5778

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ؟ يَشْتُمُونَ مُذَمَّمًا وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ کیا تم تعجب نہیں کرتے کہ اللہ قریش کے سب و شتم اور ان کے لعن طعن کرنے کو کس طرح مجھ سے دور کرتا ہے ؟ وہ مذمم (نعوذ باللہ جس کی مذمت کی گئی ہو) کہہ کر سب و شتم اور لعن طعن کرتے ہیں ، جبکہ میں محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) ہوں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5779

وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ وَكَانَ إِذَا ادَّهَنَ لَمْ يَتَبَيَّنْ وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُهُ تَبَيَّنَ وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ فَقَالَ رَجُلٌ: وَجْهُهُ مِثْلُ السَّيْفِ؟ قَالَ: لَا بَلْ كَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَكَانَ مُسْتَدِيرًا وَرَأَيْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ كَتِفِهِ مِثْلَ بَيْضَة الْحَمَامَة يشبه جسده . رَوَاهُ مُسلم
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر مبارک اور داڑھی کے اگلے حصے کے کچھ بال سفید ہو چکے تھے ، جب آپ تیل لگاتے تھے تو وہ نظر نہیں آتے تھے ، اور جب آپ کے سر کے بالوں میں کنگھی نہیں کی ہوتی تھی تو وہ نظر آ جاتے تھے ، آپ کی داڑھی کے بال گھنے تھے ، کسی آدمی نے کہا : آپ کا چہرہ مبارک (چمک کے لحاظ سے) تلوار کی طرح تھا ، جابر ؓ نے فرمایا : نہیں ، بلکہ سورج اور چاند کی طرح چمکتا تھا ، رخ انور گول تھا ، میں نے آپ کے کندھے کے پاس مہر نبوت دیکھی جو کہ کبوتری کے انڈے کی طرح تھی اور وہ آپ کے جسم اطہر (کے رنگ) کے مشابہ تھی ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5780

وَعَن عبدِ الله بن سرجسٍ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَكَلْتُ مَعَهُ خُبْزًا وَلَحْمًا - أَوْ قَالَ: ثَرِيدًا - ثُمَّ دُرْتُ خَلْفَهُ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عِنْدَ نَاغِضِ كَتِفِهِ الْيُسْرَى جُمْعًا عَلَيْهِ خيلال كأمثال الثآليل. رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن سرجس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا اور آپ کے ساتھ گوشت روٹی کھائی ، یا کہا : ثرید کھائی ، پھر میں گھوم کر آپ کے پچھلی جانب گیا اور میں نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے پاس مہر نبوت دیکھی ، وہ بند مٹھی کی طرح تھی اس پر دو تل تھے ، جیسے مسّے ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5781

وَعَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَتْ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثِيَابٍ فِيهَا خَمِيصَةٌ سَوْدَاءُ صَغِيرَةٌ فَقَالَ: «ائْتُونِي بِأُمِّ خَالِدٍ» فَأُتِيَ بِهَا تُحْمَلُ فَأَخَذَ الْخَمِيصَةَ بِيَدِهِ فَأَلْبَسَهَا. قَالَ: «أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي» وَكَانَ فِيهَا عَلَمٌ أَخْضَرُ أَوْ أَصْفَرُ. فَقَالَ: «يَا أُمَّ خَالِدٍ هَذَا سِنَاهْ» وَهِيَ بالحبشيَّةِ حسنَة. قَالَت: فذهبتُ أَلعبُ بخاتمِ النبوَّةِ فز برني أُبَيٍّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دعها» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ام خالد بنت خالد بن سعید ؓ بیان کرتی ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی کالی چادر تھی ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ام خالد کو میرے پاس لاؤ ، اسے اٹھا کر لایا گیا ، آپ نے اپنے دست مبارک سے وہ چادر پکڑی اور اسے پہنا دی ، اور فرمایا :’’ تم اسے بوسیدہ کرو اور تم اسے پرانا کرو (دیر تک جیتی رہو) ، تم اسے بوسیدہ کرو اور اسے پرانا کرو ۔‘‘ اس (چادر) میں سبز یا زرد رنگ کے نشانات تھے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ام خالد ! یہ ’’سناہ‘‘ ہے ۔‘‘ اور یہ (سناہ) حبشی زبان کا لفظ ہے یعنی خوبصورت ؟ وہ بیان کرتی ہیں ، میں مہر نبوت کے ساتھ کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اسے چھوڑ دو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5782

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيرِ وَلَيْسَ بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ وَلَا بِالْآدَمِ وَلَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبْطِ بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ وبالمدينة عشر سِنِين وتوفَّاه الله على رَأس سِتِّينَ سَنَةً وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ وَفِي رِوَايَةٍ يَصِفُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ أَزْهَرَ اللَّوْنِ. وَقَالَ: كَانَ شَعْرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ: بَيْنَ أُذُنَيْهِ وَعَاتِقِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ قَالَ: كَانَ ضَخْمَ الرَّأْسِ وَالْقَدَمَيْنِ لَمْ أَرَ بَعْدَهُ وَلَا قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَكَانَ سَبْطَ الكفَّينِ. وَفِي أُخْرَى لَهُ قَالَ: كَانَ شئن الْقَدَمَيْنِ وَالْكَفَّيْنِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زیادہ لمبے قد کے تھے نہ چھوٹے قد کے نہ بالکل سفید تھے اور نہ گندمی رنگ کے ، آپ کے بال نہ بہت زیادہ گھنگریالے تھے نہ سیدھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث فرمایا ، آپ نے مکہ میں دس سال قیام فرمایا اور مدینہ میں بھی دس سال قیام فرمایا ، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ساٹھ سال کی عمر میں وفات دی اور (اس وقت) آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے ۔ ایک دوسری روایت میں انس ؓ نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا : آپ کا قد درمیانہ تھا نہ لمبا تھا اور نہ چھوٹا ، کھلتا اور چمکتا ہوا رنگ تھا ، اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال کانوں کے نصف تک تھے ، ایک دوسری روایت میں ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال دونوں کانوں اور کندھوں کے درمیان تھے ۔ اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر اور پاؤں ضخیم تھے ، میں نے آپ کے بعد یا پہلے آپ جیسا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں ، صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ہے : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاؤں اور ہاتھ موٹے تھے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5783

وَعَنِ الْبَرَّاءِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْبُوعًا بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ لَهُ شَعْرٌ بَلَغَ شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ لَمْ أَرَ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَعْرُهُ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ بَعِيدٌ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم درمیانے قد کے تھے ، آپ کی چھاتی کشادہ تھی ، آپ کے سر کے بال کانوں کی لو تک تھے ، میں نے آپ کو سرخ جوڑے میں دیکھا ، میں نے آپ سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا ۔ اور مسلم کی روایت میں ہے ، میں نے کانوں کی لو تک بالوں والے اور سرخ جوڑے میں ملبوس کسی شخص کو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا آپ کے بال آپ کے کندھوں پر پڑتے تھے ، آپ کی چھاتی کشادہ تھی ، اور آپ نہ زیادہ لمبے تھے اور نہ چھوٹے تھے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5784

وَعَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَلِيعَ الْفَمِ أَشْكَلَ الْعَيْنَيْنِ مَنْهُوشَ الْعَقِبَيْنِ قِيلَ لَسِمَاكٍ: مَا ضَلِيعُ الْفَمِ؟ قَالَ: عَظِيمُ الْفَمِ. قِيلَ: مَا أَشْكَلُ الْعَيْنَيْنِ؟ قَالَ: طَوِيلُ شَقِّ الْعَيْنِ. قِيلَ: مَا مَنْهُوشُ الْعَقِبَيْنِ؟ قَالَ: قليلُ لحم الْعقب. رَوَاهُ مُسلم
سماک بن حرب ، جابر بن سمرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ضلیع الفم ، اشکل العین اور منھوش العقبین تھے ۔ سماک ؒ سے پوچھا گیا ، ضلیع الفم سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا : کشادہ چہرے والے ، پوچھا گیا ، اشکل العین سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھیں بڑی اور طویل تھیں ، پھر پوچھا گیا : منھوش العقبین سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایڑھیاں پتلی تھیں ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5785

وَعَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَبْيَضَ مَلِيحًا مقصدا . رَوَاهُ مُسلم
ابو طفیل ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ہے آپ کی رنگت سرخی مائل سفید تھی اور آپ کا قد درمیانہ تھا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5786

وَعَنْ ثَابِتٍ قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ عَنْ خِضَابِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَبْلُغْ مَا يُخْضَبُ لَوْ شِئْتُ أَنْ أَعُدَّ شَمَطَاتِهِ فِي لِحْيَتِهِ - وَفِي رِوَايَةٍ: لَوْ شِئْتُ أَنْ أَعُدَّ شَمَطَاتٍ كُنَّ فِي رَأسه - فعلت. مُتَّفق عَلَيْهِ
ثابت ؓ بیان کرتے ہیں کہ انس ؓ سے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خضاب کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : آپ کے بال اس قدر سفید نہیں تھے کہ انہیں خضاب کیا جاتا ، اگر میں آپ کی داڑھی کے سفید بال گننا چاہتا ، تو گن سکتا تھا ۔ ایک دوسری روایت میں ہے : اگر میں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر کے سفید بال گننا چاہتا تو گن سکتا تھا ۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عنفقہ (نچلے ہونٹ اور تھوڑی کے درمیان) میں ، آپ کی کن پٹیوں میں اور آپ کے سر میں چند سفید بال تھے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5787

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْهَرَ اللَّوْنِ كَانَ عَرَقُهُ اللُّؤْلُؤُ إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ وَمَا مَسَسْتُ دِيبَاجَةً وَلَا حَرِيرًا أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا شمَمتُ مسكاً وَلَا عَنْبَرَةً أَطْيَبَ مِنْ رَائِحَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رنگت میں چمک دمک تھی آپ کے پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح تھے ، جب آپ چلتے تو آگے کی طرف جھک کر چلتے تھے ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ، دیباج اور ریشم کو بھی نہیں پایا اور نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بدن اطہر سے زیادہ معطر ، کستوری یا عنبر کی خوشبو نہیں سونگھی ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5788

وَعَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِيهَا فَيَقِيلُ عِنْدَهَا فَتَبْسُطُ نِطْعًا فَيَقِيلُ عَلَيْهِ وَكَانَ كَثِيرَ الْعَرَقِ فَكَانَتْ تَجْمَعُ عَرَقَهُ فَتَجْعَلُهُ فِي الطِّيبِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا هَذَا؟» قَالَتْ: عَرَقُكَ نَجْعَلُهُ فِي طِيبِنَا وَهُوَ مِنْ أَطْيَبِ الطِّيبِ وَفِي رِوَايَةٍ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَرْجُو بَرَكَتَهُ لِصِبْيَانِنَا قَالَ: «أصبت» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ام سلیم ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں تشریف لایا کرتے اور وہیں قیلولہ فرمایا کرتے تھے ، وہ چمڑے کی چٹائی بچھا دیتیں اور آپ اس پر قیلولہ فرماتے ، آپ کو پسینہ بہت آتا تھا ، وہ آپ کا پسینہ جمع کر لیتیں اور پھر اسے خوشبو میں شامل کر لیتیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ام سلیم ! یہ کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : آپ کا پسینہ ہے ، ہم اسے اپنی خوشبو کے ساتھ ملا لیتے ہیں ، آپ کا پسینہ ایک بہترین خوشبو ہے ، ایک دوسری روایت میں ہے ۔ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم اس کے ذریعے اپنے بچوں کے لیے برکت حاصل کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تم نے ٹھیک کیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5789

وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْأُولَى ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَهْلِهِ وَخَرَجْتُ مَعَهُ فَاسْتَقْبَلَهُ وِلْدَانٌ فَجَعَلَ يَمْسَحُ خَدَّيْ أَحَدِهِمْ وَاحِدًا وَاحِدًا وَأَمَّا أَنَا فَمَسَحَ خَدِّي فَوَجَدْتُ لِيَدِهِ بردا وريحاً كَأَنَّمَا أَخْرَجَهَا مِنْ جُؤْنَةِ عَطَّارٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَذَكَرَ حَدِيثَ جَابِرٍ: «سَمُّوا بِاسْمِي» فِي «بَابِ الْأَسَامِي» وَحَدِيثُ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ: نَظَرْتُ إِلَى خاتمِ النبوَّةِ فِي «بَاب أَحْكَام الْمِيَاه»
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز اولی (فجر یا ظہر) پڑھی ، پھر آپ اپنے اہل خانہ کی طرف تشریف لے گئے ، میں بھی آپ کے ساتھ ہی (مسجد سے) نکل آیا ، راستے میں کچھ بچے آپ سے ملے تو آپ نے باری باری ان کے رخساروں پر دست شفقت پھیرا جبکہ آپ نے میرے دونوں رخساروں پر دستِ شفقت پھیرا ۔ میں نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دست مبارک کی ٹھنڈک اور خوشبو ایسے محسوس کی گویا آپ نے اسے عطار کے ڈبے سے نکالا ہے ۔ رواہ مسلم ۔ جابر ؓ سے مروی حدیث : ((سموا باسمی .....)) ’’باب الاسامی‘‘ میں اور سائب بن یزید ؓ سے مروی حدیث ((نظرت الیٰ خاتم النبوۃ .....)) ’’باب احکام المیاہ‘‘ میں بیان کی گئی ہے ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5790

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بالطويل وَلَا بالقصير ضخم الرَّأْس واللحية شئن الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ مُشْرَبًا حُمْرَةً ضَخْمَ الْكَرَادِيسِ طَوِيلَ المَسْرُبَةِ إِذا مَشى تكفَّأ تكفُّأً كَأَنَّمَا يَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
علی بن ابی طالب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لمبے قد کے تھے نہ چھوٹے قد کے ، سر مبارک ضخیم تھا ، داڑھی گھنی تھی ، ہاتھ اور پاؤں بھاری تھے ، سرخ و سفید رنگ تھا ، ہڈیوں کے جوڑ مضبوط تھے ، آپ کے سینے سے ناف تک بالوں کی لمبی لکیر تھی ، جب آپ چلتے تو آگے کو جھکے ہوتے گویا آپ بلندی سے نیچے اتر رہے ہیں ، اور میں نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ جیسا کوئی دیکھا نہ آپ کے بعد ۔ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5791

وَعَنْهُ كَانَ إِذَا وَصَفَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمْ يَكُنْ بِالطَّوِيلِ الْمُمَّغِطِ وَلَا بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ وَكَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ وَلَمْ يَكُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبْطِ كَانَ جَعْدًا رَجِلًا وَلَمْ يَكُنْ بِالْمُطَهَّمِ وَلَا بِالْمُكَلْثَمِ وَكَانَ فِي الْوَجْهِ تَدْوِيرٌ أَبْيَضُ مُشْرَبٌ أَدْعَجُ الْعَيْنَيْنِ أَهْدَبُ الْأَشْفَارِ جَلِيلُ الْمَشَاشِ وَالْكَتَدِ أَجْرَدُ ذُو مَسْرُبةٍ شئن الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ إِذَا مَشَى يَتَقَلَّعُ كَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صَبَبٍ وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ مَعًا بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ أَجْوَدُ النَّاسِ صَدْرًا وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيكَةً وَأَكْرَمُهُمْ عَشِيرَةً مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً هَابَهُ وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ يَقُولُ نَاعِتُهُ: لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
علی بن ابی طالب ؓ جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوصاف بیان کرتے تو فرماتے : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زیادہ لمبے تھے نہ زیادہ چھوٹے تھے بلکہ آپ درمیانہ قد تھے ، آپ کے بال بالکل گھنگریالے تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ ان دونوں صورتوں کے درمیان تھے ، آپ کا چہرہ مبارک بالکل گول نہیں تھا ، بلکہ قدرے گولائی میں تھا ، آپ کا رنگ سرخی مائل سفید تھا ، آنکھیں سیاہ ، دراز پلکیں ، جوڑوں کی ہڈیاں اٹھی ہوئی مضبوط تھیں ، کندھوں کا درمیانی حصہ بھی بڑا اور مضبوط تھا ، آپ کے بدن پر بال نہیں تھے ، بس سینے اور ناف تک ایک لکیر تھی ، ہاتھ اور پاؤں بھاری تھے ، جب آپ چلتے تو پاؤں اٹھا کر رکھتے گویا آپ بلندی سے اتر رہے ہیں ، جب آپ کسی کی طرف التفات فرماتے تو مکمل توجہ فرماتے ، آپ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی ، اور آپ خاتم النبیین ہیں ، آپ سب سے بڑھ کر دل کے سخی تھے ، سب سے زیادہ صاف گو تھے ، سب سے زیادہ نرم مزاج تھے ، قبیلے کے لحاظ سے سب سے زیادہ معزز تھے ، جو آپ کو اچانک دیکھتا تو وہ ہیبت زدہ ہو جاتا ، جو آپ کی صحبت اختیار کرتا اور واقفیت حاصل کر لیتا تو وہ آپ سے والہانہ محبت کرنے لگتا ، اور آپ کے وصف بیان کرنے والا (آخر پر) یہ کہتا : میں نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جیسا آپ کی حیات مبارکہ میں کوئی دیکھا نہ آپ کے بعد ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5792

وَعَنْ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْلُكْ طَرِيقًا فَيَتْبَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا عرفَ أَنه قد سلكه من طيب عرقه - أَوْ قَالَ: مِنْ رِيحِ عَرَقِهِ - رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ
جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جس راہ سے گزر جاتے تو آپ کے بعد اس راہ سے گزرنے والا آپ کی خوشبو سے یا آپ کے معطر پسینے سے پہچان لیتا کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہاں سے گزرے ہیں ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5793

وَعَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ: قُلْتُ لِلرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ: صِفِي لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: يَا بُنَيَّ لَوْ رأيتَه رأيتَ الشَّمسَ طالعة. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
ابو عبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں ، میں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ سے کہا : آپ ہمیں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوصاف سے آگاہ کریں ، انہوں نے فرمایا : بیٹے ! اگر تم انہیں دیکھتے تو تم (ان کے چہرے مبارک کو) چمکتا ہوا سورج دیکھتے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5794

وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى الْقَمَرِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ فَإِذَا هُوَ أَحْسَنُ عِنْدِي مِنَ الْقَمَرِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ والدارمي
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے چاندنی رات میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو میں (باری باری) رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور چاند کی طرف دیکھنے لگا ، آپ نے سرخ جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا ، اور اس وقت میری نظر میں آپ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت تھے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5795

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَن الشَّمْس تجْرِي على وَجْهِهِ وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَسْرَعَ فِي مَشْيِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّمَا الْأَرْضُ تُطْوَى لَهُ إِنَّا لَنُجْهِدُ أَنْفُسَنَا وَإنَّهُ لغير مكترث. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے زیادہ حسین چیز کوئی نہیں دیکھی ، گویا آپ کے چہرے مبارک پر سورج جلوہ ریز ہے ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے زیادہ تیز رفتار کسی کو نہیں دیکھا گویا آپ کے لیے زمین لپیٹی جا رہی ہے ، ہم پوری طرح تیز چلنے کی کوشش کرتے لیکن آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پروا کیے بغیر چلتے رہتے (پھر بھی ہم آپ تک نہیں پہنچ سکتے تھے) ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5796

وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ فِي سَاقَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُمُوشَةٌ وَكَانَ لَا يَضْحَكُ إِلَّا تَبَسُّمًا وَكُنْتُ إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْهِ قُلْتُ: أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ وَلَيْسَ بأكحل. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پنڈلیاں پتلی تھیں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صرف تبسم فرمایا کرتے تھے ، جب میں آپ کو دیکھتا تو میں کہتا کہ آپ نے آنکھوں میں سرمہ لگایا ہوا ہے ، حالانکہ آپ نے سرمہ نہیں لگایا ہوتا تھا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5797

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْلَجَ الثَّنِيَّتَيْنِ إِذَا تَكَلَّمَ رُئِيَ كَالنُّورِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ ثَنَايَاهُ. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کے دو دانت کشادہ تھے ، جب آپ گفتگو فرماتے تو ایسے معلوم ہوتا کہ آپ کے دو دانتوں سے نور برس رہا ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5798

وَعَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّ وَجْهَهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خوش ہوتے تھے تو آپ کا چہرہ چمک جاتا اور رخ انور ایسے لگتا جیسے کہ وہ چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم یہ چیز پہچان لیتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5799

وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ غُلَامًا يَهُودِيًّا كَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَوَجَدَ أَبَاهُ عِنْدَ رَأْسِهِ يَقْرَأُ التَّوْرَاةَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا يَهُودِيٌّ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ عَلَى مُوسَى هَلْ تَجِدُ فِي التَّوْرَاةِ نَعْتِي وَصِفَتِي وَمَخْرَجِي؟» . قَالَ: لَا. قَالَ الْفَتَى: بَلَى وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَجِدُ لَكَ فِي التَّوْرَاة نعتك وَصِفَتَكَ وَمَخْرَجَكَ وَإِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: «أَقِيمُوا هَذَا مِنْ عِنْدِ رَأْسِهِ وَلُوا أَخَاكُمْ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «دَلَائِل النُّبُوَّة»
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا ، وہ بیمار ہو گیا تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے آپ نے اس کے والد کو اس کے سر کے پاس تورات پڑھتے دیکھ کر فرمایا :’’ اے یہودی ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسی ؑ پر تورات نازل فرمائی ، (بتاؤ) کیا تم تورات میں میری ذات و صفات کے متعلق کچھ لکھا ہوا پاتے ہو ؟‘‘ اس نے کہا : نہیں لیکن وہ لڑکا کہنے لگا ، اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول ! ہم آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ذات و صفات اور آپ کی تشریف آوری کے متعلق تورات میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور آپ اللہ کے رسول ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا :’’ اس کو اس (لڑکے) کے سرہانے سے اٹھا دو اور تم اپنے (اسلامی) بھائی کی (تجہیز و تکفین کے متعلق) سر پرستی کرو ۔‘‘ حسن ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5800

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ» . رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
ابوہریرہ ؓ ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں بھیجی ہوئی رحمت ہوں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی و البیھقی فی شعب الایمان ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5801

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا قَالَ لِي: أُفٍّ وَلَا: لِمَ صَنَعْتَ؟ وَلَا: أَلَّا صَنَعْتَ؟ مُتَّفق عَلَيْهِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے دس سال نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کی ، لیکن آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہ کہا ، اور نہ ہی یہ کہا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا اور وہ کام کیوں نہیں کیا ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5802

وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا فَأَرْسَلَنِي يَوْمًا لِحَاجَةٍ فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَذْهَبُ وَفِي نَفْسِي أَنْ أَذْهَبَ لِمَا أَمَرَنِي بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجْتُ حَتَّى أَمُرَّ عَلَى صِبْيَانٍ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي السُّوقِ فَإِذَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَبَضَ بِقَفَايَ مِنْ وَرَائِي قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ: «يَا أُنَيْسُ ذَهَبْتَ حَيْثُ أَمَرْتُكَ؟» . قُلْتُ: نَعَمْ أَنَا أَذْهَبُ يَا رَسُول الله. رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمام لوگوں سے بہترین اخلاق کے حامل تھے ، آپ نے ایک روز مجھے کسی کام کے لیے بھیجا تو میں نے کہا ، اللہ کی قسم ! میں نہیں جاؤں گا ، جبکہ میرے دل میں تھا کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس کام کا مجھے حکم فرمایا ہے میں اس کے لیے ضرور جاؤں گا ، میں نکلا ، اور چند ایسے بچوں کے پاس سے گزرا جو بازار میں کھیل رہے تھے ۔ (میں وہاں کھڑا ہو گیا) اتنے میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے پیچھے سے میری گدی پکڑ لی ، وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اُنیس ! جہاں جانے کے متعلق میں نے تمہیں کہا تھا ، کیا وہاں گئے ہو ؟‘‘ میں نے عرض کیا : جی ہاں ، اللہ کے رسول ! میں جا رہا ہوں ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5803

وَعَنْهُ قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الْحَاشِيَةِ فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فجبذه جَبْذَةً شَدِيدَةً وَرَجَعَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَحْرِ الْأَعْرَابِيِّ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أثرت بِهِ حَاشِيَةُ الْبُرْدِ مِنْ شِدَّةِ جَبْذَتِهِ ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عنْدك فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ضَحِكَ ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چل رہا تھا ، آپ پر موٹے کنارے (چوڑی پٹی) والی نجرانی چادر تھی ، اتنے میں ایک اعرابی آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ کی چادر کے ساتھ آپ کو اتنے زور سے کھینچا کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس اعرابی کے سینے کے قریب پہنچ گئے ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھے پر دیکھا تو زور سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کے کنارے کے نشانات کندھے مبارک پر پڑ چکے تھے ، پھر اس نے کہا : محمد ! اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس میں سے میرے لیے بھی حکم فرمایئے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی طرف دیکھا ، اور ہنس دیے ، پھر اسے کچھ دینے کا حکم فرمایا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5804

وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَجْوَدَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ سَبَقَ النَّاس إِلَى الصَّوْت هُوَ يَقُولُ: «لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا» وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ مَا عَلَيْهِ سَرْجٌ وَفِي عُنُقِهِ سَيْفٌ. فَقَالَ: «لَقَدْ وَجَدْتُهُ بَحْرًا» . مُتَّفق عَلَيْهِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے زیادہ حسین ، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے ، ایک رات مدینہ والے گھبرا گئے تو لوگ اس کی آواز کی طرف چل پڑے ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے پہلے اس کی آواز کی طرف گئے تھے اور واپسی پر آپ لوگوں سے ملے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ گھبراؤ نہیں ، گھبراؤ نہیں ۔‘‘ آپ اس وقت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے ، اس پر زین نہیں تھی اور آپ کے گلے میں تلوار تھی ۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں نے اس (گھوڑے) کو نہایت تیز رفتار پایا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5805

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ: لَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، کبھی ایسے نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا گیا اور آپ نے نفی میں جواب دیا ہو ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5806

وَعَن أنس إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ فَأَتَى قَوْمَهُ فَقَالَ: أَي قوم أَسْلمُوا فو الله إِنَّ مُحَمَّدًا لَيُعْطِي عَطَاءً مَا يَخَافُ الْفَقْرَ. رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اتنی بکریاں مانگیں جس سے دو پہاڑوں کا درمیانی فاصلہ بھر جائے ، آپ نے اتنی ہی اسے دے دیں تو وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور انہیں کہا : میری قوم ! اسلام قبول کر لو ، اللہ کی قسم ! محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اس قدر عطا فرماتے ہیں ، کہ وہ فقر کا اندیشہ نہیں رکھتے ۔ (یا فقر کا اندیشہ نہیں رہتا) رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5807

وَعَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ بَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْفَلَهُ مِنْ حُنَيْنٍ فَعَلِقَتِ الْأَعْرَابُ يَسْأَلُونَهُ حَتَّى اضْطَرُّوهُ إِلَى سَمُرَةٍ فَخَطَفَتْ رِدَاءَهُ فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَعْطُونِي رِدَائِي لَوْ كَانَ لِي عَدَدَ هَذِهِ الْعِضَاهِ نَعَمٌ لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ ثُمَّ لَا تَجِدُونِي بَخِيلًا وَلَا كذوباً وَلَا جَبَانًا» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے ، اس اثنا میں کہ غزوۂ حنین سے واپسی پر وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چل رہے تھے ، (راستے میں) اعرابی چمٹ کر آپ سے سوال کرنے لگے ، حتی کہ انہوں نے آپ کو ببول کے درخت کی طرف دھکیل دیا ، وہ (کانٹے) آپ کی چادر سے الجھ گئے تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا :’’ میری چادر مجھے دے دو ، اگر میرے پاس ان (کانٹے دار) درختوں جتنے اونٹ ہوتے تو میں وہ بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا ، لہذا تم مجھے بخیل پاؤ گے نہ جھوٹا اور نہ بزدل ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5808

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ الْمَدِينَةِ بِآنِيَتِهِمْ فِيهَا الْمَاءُ فَمَا يَأْتُونَ بإناءٍ إِلَّا غمسَ يدَه فِيهَا فرُبما جاؤوهُ بِالْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ فَيَغْمِسُ يَدَهُ فِيهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو مدینہ کے خادم اپنے برتن لے آتے ، ان میں پانی ہوتا تھا ، وہ جو بھی برتن لاتے ، آپ اس میں اپنا دستِ مبارک ڈبو دیتے تھے ، بسا اوقات تو وہ موسم سرما میں صبح کے وقت آپ کے پاس آ جاتے تھے ، تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں اپنا ہاتھ ڈبو دیا کرتے تھے ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5809

وَعَنْهُ قَالَ: كَانَتْ أَمَةٌ مِنْ إِمَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ تَأْخُذُ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَنْطَلِقُ بِهِ حَيْثُ شَاءَتْ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، مدینے والوں کی لونڈیوں میں کوئی بھی لونڈی وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پکڑتی اور وہ جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی تھی ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5810

وَعَنْهُ أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ فِي عَقْلِهَا شَيْءٌ فَقَالَت: يَا رَسُول الله إِنِّي لِي إِلَيْكَ حَاجَّةً فَقَالَ: «يَا أُمَّ فُلَانٍ انْظُرِي أَيَّ السِّكَكِ شِئْتِ حَتَّى أَقْضِيَ لَكِ حَاجَتَكِ» فَخَلَا مَعَهَا فِي بَعْضِ الطُّرُقِ حَتَّى فرغت من حَاجَتهَا. رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت تھی جس کی عقل کچھ کم تھی ، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے آپ سے کچھ کام ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ام فلاں ! دیکھو ! جس گلی میں تم چاہو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں تا کہ میں تمہارا کام پورا کر سکوں ، آپ ایک راستے میں اس کے ساتھ گئے حتی کہ اس کا کام ہو گیا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5811

وَعَنْهُ قَالَ: لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا لَعَّانًا وَلَا سَبَّابًا كَانَ يَقُولُ عِنْدَ الْمَعْتَبَةِ: «مَا لَهُ تربَ جَبينُه؟» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدگو تھے نہ لعنت کرنے والے تھے ، اور نہ ہی گالی دیتے تھے ، ناراضی کے عالم میں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بس یہی فرماتے :’’ اسے کیا ہوا ؟ اس کی پیشانی خاک آلود ہو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5812

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ عَلَى الْمُشْرِكِينَ. قَالَ: «إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا گیا ، اللہ کے رسول ! مشرکوں کے لیے بددعا فرمائیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مجھے لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ، مجھے تو باعث رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5813

وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا فَإِذَا رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ عَرَفْنَاهُ فِي وَجْهِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے ، جب آپ کوئی ایسی چیز دیکھتے جو آپ کو ناگوار گزرتی تو ہم اسے آپ کے چہرے مبارک سے پہچان لیتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5814

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِكًا حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ وَإِنَّمَا كَانَ يتبسم. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس طرح کھلکھلا کر ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا آخری حصہ دیکھ سکوں کیونکہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صرف تبسم فرمایا کرتے تھے ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5815

وَعَنْهَا قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَسْرُدُ الْحَدِيثَ كَسَرْدِكُمْ كَانَ يُحَدِّثُ حَدِيثًا لَوْ عَدَّهُ الْعَادُّ لَأَحْصَاهُ. مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہاری طرح نہایت تیز گفتگو نہیں فرماتے تھے ، بلکہ آپ اس طرح گفتگو فرماتے تھے کہ اگر کوئی (الفاظ) شمار کرنے والا شمار کرنا چاہتا تو شمار کر سکتا تھا ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5816

وَعَنِ الْأَسْوَدِ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ فِي بَيْتِهِ؟ قَالَتْ: كَانَ يَكُونُ فِي مَهْنَةِ أَهْلِهِ - تَعْنِي خدمَة أَهله - فَإِذا حضرت الصَّلَاة خرج إِلَى الصَّلَاة. رَوَاهُ البُخَارِيّ
اسود ؒ بیان کرتے ہیں ، میں نے عائشہ ؓ سے دریافت کیا ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : آپ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں مصروف رہتے تھے ، جب نماز کا وقت ہو جاتا تو آپ نماز کے لیے تشریف لے جاتے تھے ۔ متفق علیہ ، رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5817

وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا أَنْ يُنتهك حرمةُ الله فينتقم لله بهَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب بھی رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دو کاموں میں سے ایک کا اختیار دیا جاتا تو آپ ان دونوں میں سے آسان تر کو اختیار فرماتے تھے ، بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا ، اگر اس میں گناہ ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ذات کے متعلق کسی معاملے میں انتقام نہیں لیا ، اگر اللہ کی حدود پامال کی جاتیں تو آپ اس میں اللہ کی رضا کی خاطر انتقام لیا کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5818

وَعَنْهَا قَالَتْ: مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لنَفسِهِ شَيْئًا قَطُّ بِيَدِهِ وَلَا امْرَأَةً وَلَا خَادِمًا إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا نِيلَ مِنْهُ شَيْءٌ قَطُّ فَيَنْتَقِمُ مِنْ صَاحِبِهِ إِلَّا أَنْ يُنْتَهَكَ شَيْءٌ مِنْ مَحَارِمِ اللَّهِ فينتقم لله. رَوَاهُ مُسلم
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے علاوہ اپنے ہاتھ سے کسی چیز کو مارا نہ کسی خادم کو اور نہ ہی کسی عورت کو ، اور اگر آپ کو کسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچتی تو آپ اس تکلیف پہنچانے والے سے انتقام نہیں لیتے تھے ، آپ صرف اس صورت میں انتقام لیتے تھے جب اللہ کی حدود پامال ہوتی ہوں اور وہ انتقام بھی محض اللہ کی رضا کی خاطر ہی لیتے تھے ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5819

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: خَدَمْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ ثَمَانِ سِنِينَ خَدَمْتُهُ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا لَامَنِي عَلَى شَيْءٍ قَطُّ أَتَى فِيهِ عَلَى يَدَيَّ فَإِنْ لَامَنِي لَائِمٌ مِنْ أَهْلِهِ قَالَ: «دَعُوهُ فَإِنَّهُ لَوْ قُضِيَ شَيْءٌ كَانَ» . هَذَا لَفَظُ «الْمَصَابِيحِ» وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» . مَعَ تَغْيِيرٍ يَسِيرٍ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں آٹھ برس کی عمر میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کے لیے حاضر ہوا اور دس سال آپ کی خدمت کی ، آپ نے اس عرصے میں میرے ہاتھوں ہونے والے کسی نقصان پر مجھے ملامت نہیں کی ، اگر آپ کے اہل خانہ میں سے کوئی مجھے ملامت کرتا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے :’’ اسے چھوڑ دو ، کیونکہ جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے وہ ہو کر رہتا ہے ۔‘‘ یہ الفاظِ حدیث مصابیح کے ہیں ، اور امام بیہقی نے کچھ تبدیلی کے ساتھ شعب الایمان میں روایت کیا ہے ۔ صحیح ، رواہ فی شرح السنہ و البیھقی فی شعب الایمان ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5820

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا سَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طبعاً فحش گو تھے نہ تکلفاً فحش گو تھے ، آپ بازاروں میں شور و غل کرتے تھے نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے ، بلکہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم درگزر فرماتے تھے ، اور معاف فرما دیتے تھے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5821

وَعَنْ أَنَسٍ يُحَدِّثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كانَ يعودُ المريضَ وَيتبع الْجِنَازَة ويجيب دَعْوَة الْمَمْلُوك ويركب الْحمار لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَوْمَ خَيْبَرَ عَلَى حِمَارٍ خِطَامُهُ لِيفٌ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
انس ؓ ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ بیماروں کی عیادت کرتے تھے ، جنازوں میں شریک ہوتے تھے ، غلاموں کی دعوت قبول کرتے تھے ، اور گدھے پر سواری کرتے تھے ، خیبر کے دن میں نے آپ کو گدھے پر دیکھا جس کی لگام کھجور کے پتوں کی تھی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ و البیھقی فی شعب الایمان ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5822

وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْصِفُ نَعْلَهُ وَيَخِيطُ ثَوْبَهُ وَيَعْمَلُ فِي بَيْتِهِ كَمَا يَعْمَلُ أَحَدُكُمْ فِي بَيْتِهِ وَقَالَتْ: كَانَ بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ يَفْلِي ثَوْبَهُ وَيَحْلُبُ شَاتَهُ وَيَخْدُمُ نَفْسَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنا جوتا مرمت کرتے تھے ، اپنا کپڑا خود سی لیتے تھے اور اپنے گھر میں تمہاری طرح ہی کام کرتے تھے ۔ اور انہوں نے فرمایا : آپ بھی ایک انسان تھے ، آپ اپنے کپڑے میں جوئیں دیکھ لیا کرتے تھے ، اپنی بکری کا دودھ خود دھوتے تھے اور اپنے ذاتی کام خود کیا کرتے تھے ۔ حسن ، رواہ الترمذی فی الشمائل و البخاری فی الأدب المفرد ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5823

وَعَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: دَخَلَ نَفَرٌ عَلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فَقَالُوا لَهُ: حَدِّثْنَا أَحَادِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كُنْتُ جَارَهُ فَكَانَ إِذَا نزل الْوَحْيُ بَعَثَ إِلَيَّ فَكَتَبْتُهُ لَهُ فَكَانَ إِذَا ذَكَرْنَا الدُّنْيَا ذَكَرَهَا مَعَنَا وَإِذَا ذَكَرْنَا الْآخِرَةَ ذَكَرَهَا مَعَنَا وَإِذَا ذَكَرْنَا الطَّعَامَ ذَكَرَهُ مَعَنَا فَكُلُّ هَذَا أُحَدِّثُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
خارجہ بن زید بن ثابت بیان کرتے ہیں ، کچھ افراد زید بن ثابت ؓ کے پاس آئے تو انہوں نے ان سے کہا ، آپ ہمیں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی احادیث سناؤ ، انہوں نے کہا ، میں آپ کا پڑوسی تھا ، جب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ مجھے بلاتے اور میں وحی کو لکھ دیتا تھا ، جب ہم دنیا کا ذکر کرتے تھے تو آپ ہمارے ساتھ اس کا ذکر فرماتے تھے ، جب ہم آخرت کا ذکر کرتے تو آپ ہمارے ساتھ اس کا ذکر فرماتے تھے ، اور جب ہم کھانے کا ذکر کرتے تو آپ ہمارے ساتھ کھانے کا ذکر فرماتے تھے ۔ میں یہ ساری باتیں تمہیں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کر رہا ہوں ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی فی الشمائل و فی شرح السنہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5824

وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَافَحَ الرَّجُلَ لَمْ يَنْزِعْ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَنْزِعُ يَدَهُ وَلَا يَصْرِفُ وَجْهَهُ عَنْ وَجْهِهِ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَصْرِفُ وَجْهَهُ عَن وَجهه وَلم يُرَ مقدِّماً رُكْبَتَيْهِ بَين يَدي جليس لَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب آدمی سے مصافحہ فرماتے تھے تو آپ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے حتی کہ وہ آدمی خود اپنا ہاتھ چھڑا لیتا تھا ، آپ اپنا چہرہ مبارک (توجہ) اس شخص سے نہیں ہٹاتے تھے حتی کہ وہ شخص خود اپنا چہرہ آپ کے چہرۂ مبارک سے ہٹا لیتا (کسی اور طرف متوجہ کر لیتا) اور آپ کو مجلس میں اپنے ہم نشین سے آگے گھٹنے نکال کر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5825

وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَّخِرُ شَيْئًا لِغَدٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ذات کے لیے کسی چیز کا ذخیرہ نہیں کیا کرتے تھے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5826

وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَوِيلَ الصَّمْتِ. رَوَاهُ فِي «شرح السّنة»
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زیادہ تر خاموش رہا کرتے تھے ، (بلا ضرورت تکلم نہیں فرماتے تھے) ۔ حسن ، رواہ فی شرح السنہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5827

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ فِي كَلَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْتِيلٌ وَتَرْسِيلٌ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کلام میں ترتیل اور ٹھہراؤ تھا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5828

وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْرُدُ سَرْدَكُمْ هَذَا وَلَكِنَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ بَيْنَهُ فَصْلٌ يَحْفَظُهُ من جَلَسَ إِلَيْهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہاری طرح نہایت تیز گفتگو نہیں فرماتے تھے ، بلکہ آپ کا کلام الگ الگ ہوتا تھا ، آپ کے پاس بیٹھنے والا اسے یاد کر لیتا تھا ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5829

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عبداللہ بن حارث بن جزء ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5830

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ يَتَحَدَّثُ يُكْثِرُ أَنْ يَرْفَعَ طَرْفَهُ إِلَى السَّمَاء. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن سلام ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب گفتگو فرمانے کے لیے بیٹھتے تو آپ (نزول وحی کے انتظار میں) آسمان کی طرف بہت دیکھتے تھے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5831

عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَرْحَمَ بِالْعِيَالِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُهُ مُسْتَرْضَعًا فِي عَوَالِي الْمَدِينَةِ فَكَانَ يَنْطَلِقُ وَنَحْنُ مَعَهُ فَيَدْخُلُ الْبَيْتَ وَإِنَّهُ لَيُدَّخَنُ وَكَانَ ظِئْرُهُ قَيْنًا فَيَأْخُذُهُ فَيُقَبِّلُهُ ثُمَّ يَرْجِعُ. قَالَ عَمْرٌو: فَلَمَّا تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ إِبْرَاهِيمَ ابْنِي وَإِنَّهُ مَاتَ فِي الثَّدْيِ وَإِنَّ لَهُ لَظِئْرَيْنِ تُكْمِلَانِ رَضَاعَهُ فِي الْجَنَّةِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
عمرو بن سعید ، انس ؓ سے روایت کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے بچوں کے ساتھ مہربان نہیں دیکھا ، آپ کے بیٹے ابراہیم مدینے کے دیہات میں زیر رضاعت تھے ، آپ (وہاں) تشریف لے جایا کرتے تھے ، ہم بھی آپ کے ساتھ ہوتے تھے ، آپ اس گھر میں داخل ہو جاتے ، اس میں دھواں ہوتا تھا ، کیونکہ ابراہیم کی دایہ کا شوہر لوہار تھا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے پکڑتے اس کا بوسہ لیتے اور پھر واپس آ جاتے تھے ۔ عمرو بیان کرتے ہیں ، جب ابراہیم فوت ہوئے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میرا بیٹا ابراہیم چونکہ شیر خوارگی کے عالم میں فوت ہوا ہے اس لئے جنت میں اس کے لیے دو دایہ ہیں جو مدت رضاعت مکمل کریں گی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5832

وَعَن عَليّ أَنَّ يهوديّاً يُقَالُ لَهُ: فُلَانٌ حَبْرٌ كَانَ لَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَنَانِيرُ فَتَقَاضَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ: «يَا يَهُودِيُّ مَا عِنْدِي مَا أُعْطِيكَ» . قَالَ: فَإِنِّي لَا أُفَارِقُكَ يَا مُحَمَّدُ حَتَّى تُعْطِيَنِي. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذًا أَجْلِسُ مَعَكَ» فَجَلَسَ مَعَهُ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ الْآخِرَةَ وَالْغَدَاةَ وَكَانَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَدَّدُونَهُ وَيَتَوَعَّدُونَهُ فَفَطِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا الَّذِي يَصْنَعُونَ بِهِ. فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَهُودِيٌّ يَحْبِسُكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنَعَنِي رَبِّي أَنْ أَظْلِمَ مُعَاهِدًا وَغَيْرَهُ» فَلَمَّا تَرَجَّلَ النَّهَارُ قَالَ الْيَهُودِيُّ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ وَشَطْرُ مَالِي فِي سبيلِ الله أَمَا وَاللَّهِ مَا فَعَلْتُ بِكَ الَّذِي فَعَلْتُ بِكَ إِلَّا لِأَنْظُرَ إِلَى نَعْتِكَ فِي التَّوْرَاةِ: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ وَمُهَاجَرُهُ بِطَيْبَةَ وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا مُتَزَيٍّ بِالْفُحْشِ وَلَا قَوْلِ الْخَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ وَهَذَا مَالِي فَاحْكُمْ فِيهِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَكَانَ الْيَهُودِيُّ كَثِيرَ المالِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي «دَلَائِل النُّبُوَّة»
علی ؓ سے روایت ہے کہ فلاں نام سے موسوم ایک یہودی عالم تھا ، اس کا رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر کچھ دینار قرض تھا ، اس نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تقاضا کیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا :’’ یہودی ! تمہیں دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ۔‘‘ اس نے کہا : محمد ! میں تو لے کر ہی یہاں سے ہلوں گا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اچھا پھر میں تمہارے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں ۔‘‘ آپ اس کے ساتھ بیٹھ گئے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر کی نماز اس کے ساتھ ادا کی ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ اسے ڈراتے دھمکاتے رہے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو صحابہ کرام کے اس عمل کی اطلاع ہو گئی ، تو انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ایک یہودی نے آپ کو روک رکھا ہے ؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میرے رب نے کسی ذمی وغیرہ پر ظلم کرنے سے مجھے منع فرمایا ہے ۔‘‘ جب سورج بلند ہوا (دن چڑھا) تو اس یہودی نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ میرا نصف مال اللہ کی راہ میں وقف ہے ؟ سن لو ، اللہ کی قسم ! میں نے آپ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ محض اس لیے کیا تا کہ میں تورات میں آپ کا مذکورہ تعارف دیکھ سکوں ، محمد بن عبداللہ ان کی جائے پیدائش مکہ ، دارِ ہجرت طیبہ (مدینہ منورہ) ، ان کی سلطنت شام تک ، وہ بد زبان ہیں نہ سخت دل اور نہ ہی بازاروں میں شور و غل کرنے والے ہیں ، وہ فحش پوش ہیں نہ فحش گو ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اور یہ مال ہے آپ اللہ کے احکامات کی روشنی میں اس میں جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں ، اور یہودی بہت زیادہ مال دار تھا ۔ اسنادہ موضوع ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5833

وَعَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ الذِّكْرَ وَيُقِلُّ اللَّغْوَ وَيُطِيلُ الصَّلَاةَ وَيُقْصِرُ الْخُطْبَةَ وَلَا يَأْنَفُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَ الْأَرْمَلَةِ والمسكين فَيَقْضِي الْحَاجة. رَوَاهُ النَّسَائِيّ والدارمي
عبداللہ بن ابی اوفی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذکر کثرت سے کیا کرتے تھے ، بے مقصد بات بہت ہی کم کیا کرتے تھے ، نماز (خاص طور پر جمعہ کی نماز) لمبی پڑھا کرتے تھے ۔ خطبہ مختصر دیا کرتے تھے ، آپ بیواؤں اور مساکین کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے اور آپ ان کے کام کرتے اور ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ النسائی و الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5834

وَعَنْ عَلِيٍّ أَنَّ أَبَا جَهْلٍ قَالَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: إنَّا لَا نُكذِّبكَ ولكنْ نكذِّبُ بِمَا جئتَ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِمْ: [فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ ولكنَّ الظالمينَ بآياتِ اللَّهِ يَجْحَدونَ] رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
علی ؓ سے روایت ہے کہ ابوجہل نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا : ہم آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ ہم تو اس چیز کی تکذیب کرتے ہیں ، جو آپ لے کر آئے ہیں ، تب اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی :’’ یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے ، بلکہ ظالم لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5835

وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَائِشَةُ لَوْ شِئْتُ لَسَارَتْ مَعِي جِبَالُ الذَّهَبِ جَاءَنِي مَلَكٌ وَإِنَّ حُجْزَتَهُ لَتُسَاوِي الْكَعْبَةَ فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَ يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَيَقُولُ: إِنْ شِئْتَ نَبِيًّا عَبْدًا وَإِنْ شِئْتَ نَبِيًّا مَلِكًا فَنَظَرْتُ إِلَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَأَشَارَ إِلَيَّ أَنْ ضَعْ نَفْسَكَ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ عائشہ ! اگر میں چاہوں تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چلیں ، ایک فرشتہ میرے پاس آیا ، اس کی کمر (کی چوڑائی) کعبہ (کے طول) کے برابر تھی ، اس نے (آ کر) کہا : تمہارا رب تمہیں سلام کہتا ہے ، اور وہ کہتا ہے : اگر آپ چاہیں تو آپ کو عابد نبی بنا دیتے ہیں اور اگر آپ پسند فرمائیں تو آپ کو بادشاہ پیغمبر بنا دیتے ہیں ، میں نے جبریل ؑ کی طرف دیکھا تو انہوں نے میری طرف اشارہ کیا کہ اپنے آپ کو پست و عاجز رکھو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5836

وَفِي رِوَايَة ابْن عبَّاسٍ: فَالْتَفَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيلَ كَالْمُسْتَشِيرِ لَهُ فَأَشَارَ جِبْرِيلُ بِيَدِهِ أَنْ تَوَاضَعْ. فَقُلْتُ: «نَبِيًّا عَبْدًا» قَالَتْ: فَكَانَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ ذَلِكَ لَا يَأْكُلُ متكأ يَقُولُ: «آكُلُ كَمَا يَأْكُلُ الْعَبْدُ وَأَجْلِسُ كَمَا يَجْلِسُ العبدُ» رَوَاهُ فِي «شرح السّنة»
اور ابن عباس ؓ کی روایت میں ہے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل ؑ کی طرف دیکھا جیسے آپ ان سے مشورہ کر رہے ہیں ، جبریل ؑ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آپ تواضع اختیار کریں ، میں نے کہا : میں عبادت گزار نبی بننا پسند کرتا ہوں ۔ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، اس کے بعد رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ٹیک لگا کر نہیں کھایا کرتے تھے ، اور فرمایا کرتے تھے :’’ میں ایسے کھاؤں گا ، جیسے (عام) بندہ ، کھاتا ہے ، اور میں ایسے بیٹھوں گا ، جیسے بندہ بیٹھتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5837

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَرْبَعِينَ سَنَةً فَمَكَثَ بِمَكَّةَ ثلاثَ عَشْرَةَ سَنَةً يُوحَى إِلَيْهِ ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ فهاجرَ عشر سِنِينَ وَمَاتَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ سَنَةً. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث کیا گیا ، آپ (نبوت کے) تیرہ سال مکے میں رہے اور آپ پر وحی آتی رہی ، پھر آپ کو ہجرت کا حکم دیا گیا تو آپ نے ہجرت کے دس سال (مدینے میں) قیام فرمایا ، اور آپ نے تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5838

وَعَنْهُ قَالَ: أَقَامَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً يَسْمَعُ الصَّوْتَ وَيَرَى الضَّوْءَ سَبْعَ سِنِينَ وَلَا يَرَى شَيْئًا وَثَمَانِ سِنِينَ يُوحَى إِلَيْهِ وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرًا وَتُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ میں پندرہ برس رہے ، آپ سات سال تک آواز سنتے اور روشنی دیکھتے رہے ، اور (اس کے علاوہ) آپ کوئی چیز نہیں دیکھتے تھے ، اور آٹھ سال آپ کی طرف وحی آتی رہی ، آپ نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا : اور پینسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5839

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: تَوَفَّاهُ اللَّهُ على رَأس سِتِّينَ سنة. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ساٹھ سال مکمل ہونے پر وفات دی ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5840

وَعَنْهُ قَالَ: قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ وَعُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ: ثَلَاث وَسِتِّينَ أَكثر
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جب روح قبض کی گئی تو اس وقت آپ کی عمر تریسٹھ برس تھی ، ابوبکر اور عمر ؓ کی بھی روح جب قبض کی گئی تو اس وقت ان کی عمریں بھی تریسٹھ برس کی تھیں ۔ رواہ مسلم ۔ محمد بن اسماعیل امام بخاری ؒ نے فرمایا : تریسٹھ برس کی عمر کے متعلق روایات زیادہ ہیں ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5841

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إليهِ الخَلاءُ وكانَ يَخْلُو بغارِ حِراءٍ فيتحنَّثُ فِيهِ - وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ - قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدَ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعَ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدَ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقَالَ: «مَا أَنَا بِقَارِئٍ» . قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجهد ثمَّ أَرْسلنِي فَقَالَ: [اقرَأْ باسمِ ربِّكَ الَّذِي خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ. الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لم يعلم] . فَرجع بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ: «زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي» فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لخديجةَ وأخبرَها الخبرَ: «لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي» فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وتقْرِي الضيفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ ابْنِ عَمِّ خَدِيجَةَ. فَقَالَتْ لَهُ: يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ. فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى. فَقَالَ وَرَقَةُ: هَذَا هُوَ النَّامُوسُ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ؟» قَالَ: نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرُكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوَفِّيَ وَفَتَرَ الوحيُ. مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کا آغاز سچے و پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا ، آپ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح (سچا) ثابت ہو جاتا ، پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے ، آپ غار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے ، آپ اپنے اہل خانہ کے پاس آنے سے پہلے کئی کئی راتیں وہاں عبادت میں مشغول رہتے تھے ، ان ایام کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جایا کرتے تھے ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لاتے اور اتنی ہی مدت کے لیے پھر زادِراہ ساتھ لے جاتے تھے ، حتی کہ آپ غارِ حرا ہی میں تھے کہ آپ پر حق (وحی) آ گیا ، فرشتہ (جبریل ؑ) آپ کے پاس آیا تو اس نے کہا پڑھیے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں قاری نہیں (پڑھنا نہیں جانتا) ہوں ۔‘‘ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اس نے مجھے پکڑا اور اتنی شدت سے دبایا جس سے مجھے کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اور کہا : پڑھیے ، میں نے کہا : میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ اس نے مجھے پکڑ کر دوسری مرتبہ خوب دبایا ، مجھے اس بار بھی کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اور کہا : پڑھیے ، میں نے کہا : میں پڑھنا نہیں جانتا ، اس نے مجھے تیسری مرتبہ دبایا اس بار بھی مجھے کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا : پڑھیے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا فرمایا ، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا فرمایا ، پڑھیے ، آپ کا رب بہت ہی کرم کرنے والا ہے ، جس نے قلم کے ذریعے سکھایا ، انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے بعد واپس ہوئے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دل (خوف کی وجہ سے) دھڑک رہا تھا ، آپ خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لائے ، اور فرمایا :’’ مجھے کمبل اوڑھا دو ، مجھے کمبل اوڑھا دو ، انہوں نے آپ کو کمبل اوڑھا دیا حتی کہ آپ کا خوف جاتا رہا تو آپ نے خدیجہ ؓ سے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا :’’ مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہے ۔‘‘ خدیجہ ؓ نے عرض کیا : ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، راست گو ہیں ، درد مندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، تہی دستوں کے لیے کماتے ہیں ، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں ، اور مصیبت زدہ افراد کی اعانت کرتے ہیں ، پھر خدیجہ ؓ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ، انہوں نے ان سے کہا : میرے چچا کے بیٹے !اپنے بھتیجے کی بات سنیں ، ورقہ نے آپ سے کہا : بھتیجے ! آپ کیا دیکھتے ہو ؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو دیکھا تھا وہ کچھ اسے بتا دیا ، ورقہ نے کہا : یہ تو وہی ناموس ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے موسی ؑ کی طرف وحی دے کر بھیجا تھا ، کاش ! میں اس وقت توانا ہوتا ، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟‘‘ اس نے کہا : ہاں جب کسی کو منصب نبوت پر فائز کیا گیا تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پا لیا تو میں تمہاری زبردست مدد کروں گا ، پھر ورقہ جلد ہی وفات پا گئے اور کچھ عرصہ کے لیے وحی رک گئی ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5842

وَزَادَ الْبُخَارِيُّ: حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِيمَا بَلَغَنَا - حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مرَارًا كي يتردَّى منْ رؤوسِ شَوَاهِقِ الْجَبَلِ فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ نَفْسَهُ مِنْهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا. فَيَسْكُنُ لذلكَ جأشُه وتقرُّ نفسُه
اور امام بخاری ؒ نے یہ اضافہ نقل کیا ہے : حتی کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غمگین ہو گئے ، ہمیں جو روایات پہنچی ہیں ، ان کے مطابق یہ ہے کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شدید غمگین ہو گئے ، کئی دفعہ ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ پہاڑ کی چوٹی سے اپنے آپ کو نیچے گرا لیں ، وہ جب بھی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر اپنے آپ کو گرانے لگتے تو جبریل ؑ آپ کے سامنے آ جاتے اور کہتے : محمد ! آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، اس سے آپ کا قلبی اضطراب ختم ہو جاتا اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سکون محسوس کرتے ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5843

وَعَنْ جَابِرٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَجُئِثْتُ مِنْهُ رُعْبًا حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الأرضِ فجئتُ أَهلِي فقلتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَأنْزل اللَّهُ تَعَالَى: [يَا أيُّها الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ. وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ. وَالرجز فاهجر] ثمَّ حمي الْوَحْي وتتابع . مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو وحی کے رک جانے کے زمانے کے متعلق حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ، فرمایا :’’ اس اثنا میں کہ میں چلا جا رہا تھا تو میں نے آسمان میں ایک آواز سنی ، میں نے اپنی نظر اٹھائی تو میں نے دیکھا کہ وہی فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا ، آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے ، میں اس کے رعب سے خوف زدہ ہوا اور زمین پر گر پڑا ، اس کے بعد میں اپنے اہل خانہ کے پاس آ گیا ، اور میں نے کہا : مجھے کمبل اوڑھا دو ، مجھے کمبل اوڑھا دو ، چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :’’ کمبل اوڑھ کر لیٹنے والے ! اٹھ جائیں اور لوگوں کو (عذاب الٰہی سے) ڈرائیں ، اپنے رب کی بڑائی بیان کریں ، اپنے کپڑوں کو صاف ستھرا رکھیں اور گندگی سے دور رہیں ۔‘‘ پھر وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5844

وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيَفْصِمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ» . قَالَتْ عَائِشَةُ: وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا. مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام ؓ نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کرتے ہوئے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ کبھی وہ میرے پاس گھنٹی کی سی آواز کی صورت میں آتی ہے ، اور وہ مجھ پر نہایت سخت ہوتی ہے ، اور اس سے پسینہ جاری ہو جاتا ہے ، اور جو وہ کہتا ہے ، میں اسے یاد کر لیتا ہوں ، اور کبھی فرشتہ آدمی کی شکل میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے ، وہ جو کہتا ہے میں اسے یاد کر لیتا ہوں ۔‘‘ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ شدید سردی کے دن آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ سے پسینے پھوٹ پڑتے اور آپ کی پیشانی پسینے سے شرابور ہو جاتی ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5845

وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذا نزل عَلَيْهِ الْوَحْيُ كُرِبَ لِذَلِكَ وَتَرَبَّدَ وَجْهُهُ. وَفِي رِوَايَة: نكَّسَ رأسَه ونكَّسَ أصحابُه رؤوسَهم فَلَمَّا أُتْلِيَ عَنْهُ رَفَعَ رَأْسَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں ، جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہوتی تو اس وجہ سے آپ کرب محسوس کرتے اور آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہو جاتا تھا ۔ ایک دوسری روایت میں ہے : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر جھک جاتا ، اور آپ کے صحابہ اپنے سر جھکا لیتے تھے ، اور جب وحی ختم ہو جاتی تو آپ اپنا سر اٹھا لیتے تھے ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5846

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ [وَأَنْذِرْ عشيرتك الْأَقْرَبين] خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَجَعَلَ يُنَادِي: «يَا بَنِي فِهْرٍ يَا بني عدي» لبطون قُرَيْش حَتَّى اجْتَمعُوا فَجَعَلَ الرَّجُلُ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَخْرُجَ أَرْسَلَ رَسُولًا لِيَنْظُرَ مَا هُوَ فَجَاءَ أَبُو لَهَبٍ وَقُرَيْشٌ فَقَالَ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خيَلاً تخرجُ منْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ - وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ بِالْوَادِي تُرِيدُ أَنْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ - أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ قَالُوا: نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا. قَالَ: «فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٌ شديدٍ» . قَالَ أَبُو لهبٍ: تبّاً لكَ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟ فَنَزَلَتْ: [تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ] مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب یہ آیت :’’ اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیں ۔‘‘ نازل ہوئی تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور صفا پر چڑھ کر آواز دینے لگے :’’ بنو فہر ! بنو عدی !‘‘ آپ نے قریش کے قبیلوں کو آواز دی ، حتی کہ وہ سب جمع ہو گئے ، اگر کوئی آدمی خود نہیں آ سکتا تھا تو اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا تھا تا کہ وہ دیکھے کہ کیا معاملہ ہے ، چنانچہ ابو لہب اور قریشی بھی آ گئے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مجھے بتاؤ ، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آنے والا ہے ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ اس وادی کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے ، کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟‘‘ انہوں نے کہا : ہاں ، کیونکہ ہم نے آپ کو سچا ہی پایا ہے ۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں سخت عذاب سے ، جو تمہارے سامنے آ رہا ہے ، تمہیں ڈراتا ہوں ۔‘‘ ابولہب بول اٹھا ، (نعوذ باللہ) تم ہلاک ہو جاؤ ، تم نے اس لیے ہمیں جمع کیا تھا ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی :’’ ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ برباد ہو گیا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5847

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عِنْدَ الْكَعْبَةِ وَجُمِعَ قُرَيْشٌ فِي مَجَالِسِهِمْ إِذْ قَالَ قَائِلٌ: أَيُّكُمْ يَقُومُ إِلَى جَزُورِ آلِ فُلَانٍ فَيَعْمِدُ إِلَى فَرْثِهَا وَدَمِهَا وَسَلَاهَا ثُمَّ يُمْهِلُهُ حَتَّى إِذَا سَجَدَ وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَثَبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا فَضَحِكُوا حَتَّى مَالَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنَ الضَّحِكِ فَانْطَلَقَ مُنْطَلِقٌ إِلَى فَاطِمَةَ فَأَقْبَلَتْ تَسْعَى وَثَبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا حَتَّى أَلْقَتْهُ عَنْهُ وَأَقْبَلَتْ عَلَيْهِمْ تَسُبُّهُمْ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ» ثَلَاثًا - وَكَانَ إِذَا دَعَا دَعَا ثَلَاثًا وَإِذَا سَأَلَ سَأَلَ ثَلَاثًا -: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِعَمْرِو بْنِ هِشَام وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَعُمَارَةَ بن الْوَلِيد» . قَالَ عبد الله: فو الله لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأُتْبِعَ أَصْحَابُ القليب لعنة» . مُتَّفق عَلَيْهِ
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں اس اثنا میں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے جبکہ قریشی اپنی مجالس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے کہا : تم میں سے کون فلاں قبیلے کے ذبح کیے ہوئے اونٹوں کے پاس جائے اور وہ وہاں سے اس کا گوبر ، خون اور پوست اٹھا لائے ، پھر وہ انتظار کرے اور جب وہ سجدے میں جائیں تو وہ ان چیزوں کو ان کی گردن پر رکھ دے ؟ چنانچہ ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا ، (اور وہ سب چیزیں لے آیا) جب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سجدے میں گئے تو اس نے وہ چیزیں آپ کی گردن پر رکھ دیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سجدے ہی کی حالت میں رہے ، وہ (مشرکین) دیکھ کر ہنس رہے تھے اور ہنسی کی وجہ سے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے ، چنانچہ ایک شخص فاطمہ ؓ کے پاس گیا (اور انہیں بتایا) تو وہ دوڑتی ہوئی تشریف لائیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سجدے ہی کی حالت میں تھے فاطمہ ؓ نے اس (غلاظت) کو آپ سے اتار پھینکا ، اور انہیں برا بھلا کہا ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اے اللہ ! تو قریش کو پکڑ لے ، اے اللہ ! تو قریش کو پکڑ لے ، اے اللہ ! تو قریش کو پکڑ لے ۔‘‘ تین بار فرمایا ، اور آپ کا معمول تھا کہ جب آپ دعا کرتے تو تین بار دعا کرتے تھے ، اور جب (اللہ سے) کوئی چیز طلب فرماتے تو تین بار طلب فرماتے تھے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اے اللہ ! عمرو بن ہشام ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عتبہ ، امیہ بن خلف ، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو پکڑ لے ۔‘‘ عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، اللہ کی قسم ! بدر کے دن میں نے ان سب کو مقتول پایا ، پھر انہیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا ، پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ قلیب والوں پر لعنت برسا دی گئی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5848

وَعَن عَائِشَة أَنَّهَا قَالَت: هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ؟ فَقَالَ: لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ فَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ إِذْ عرضتُ نَفسِي على ابْن عبد يَا لِيل بْنِ كُلَالٍ فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ فَانْطَلَقْتُ - وَأَنا مهموم - على وَجْهي فَلم أفق إِلَّا فِي قرن الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ فَنَادَانِي فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ . قَالَ: فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ وَأَنَا مَلَكُ الْجِبَالِ وَقَدْ بَعَثَنِي رَبُّكَ إِلَيْكَ لِتَأْمُرَنِي بِأَمْرك إِن شِئْت أطبق عَلَيْهِم الأخشبين فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ وَلَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئا» . مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن گزرا ہے ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مجھے تمہاری قوم کی طرف سے بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے ، لیکن عقبہ کے دن مجھے ان کی طرف سے بہت تکلیف پہنچی ہے ، جب میں نے ابن عبد یا لیل بن کلال پر دعوت پیش کی اور اس نے میری دعوت قبول نہ کی ، میں حیران و پریشان واپس چل پڑا ، مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کس سمت چل رہا ہوں ، قرن ثعالب پر پہنچ کر مجھے کچھ پتہ چلا ، میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے ، اس میں جبرائیل ؑ ہیں ، انہوں نے مجھے آواز دی ، اور کہا کہ اللہ نے آپ کی قوم کی بات اور ان کا جواب سن لیا ہے ، اور اس نے پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی طرف بھیجا ہے تا کہ آپ ان کے متعلق جو چاہیں حکم فرمائیں ۔‘‘ فرمایا :’’ پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی ، اس نے مجھے سلام کہہ کر عرض کیا ، محمد ! اللہ نے آپ کی قوم کی بات سن لی ہے ، اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں ، آپ کے رب نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے تا کہ آپ جو چاہیں مجھے حکم فرمائیں ، اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ لا کر ان پر ملا دوں ۔‘‘ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ نہیں ، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کے صلب سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5849

وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَشُجَّ رَأْسِهِ فَجَعَلَ يَسْلُتُ الدَّمَ عَنْهُ وَيَقُولُ: «كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا رَأْسَ نَبِيِّهِمْ وَكَسَرُوا رَبَاعِيَتَهُ» . رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ احد میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کے چار دانت ٹوٹ گئے اور آپ کا سر مبارک زخمی کر دیا گیا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خون صاف کر رہے تھے اور فرما رہے تھے :’’ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کر دیا اور اس کے سامنے کے چار دانت شہید کر دیے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5850

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ فَعَلُوا بِنَبِيِّهِ» يُشِيرُ إِلَى رَبَاعِيَتِهِ «اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى رَجُلٍ يَقْتُلُهُ رَسُولُ اللَّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا الْبَابُ خَالٍ عَنِ: الْفَصْلِ الثَّانِي
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ اس قوم پر سخت ناراض ہے جس نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا سلوک کیا ۔‘‘ اور اس سے آپ کا اشارہ اپنے سامنے کے چار دانتوں کی طرف تھا ’’ اور ایسے شخص پر بھی اللہ کا غضب شدید ہوتا ہے جسے اللہ کا رسول اللہ کی راہ میں قتل کر دے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5851

عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَوَّلِ مَا نزل من الْقُرْآن؟ قَالَ: [يَا أَيهَا المدثر] قلت: يَقُولُونَ: [اقْرَأ باسم ربِّك] قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ ذَلِكَ. وَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ الَّذِي قُلْتَ لِي. فَقَالَ لِي جَابِرٌ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا بِمَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ شَهْرًا فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ عَنْ خَلْفِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ شَيْئًا فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي فَدَثَّرُونِي وصبُّوا عليَّ مَاء بَارِدًا فَنزلت: [يَا أَيهَا الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ. وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ. وَالرجز فاهجر] وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
یحیی بن ابی کثیر بیان کرتے ہیں ، میں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے پوچھا : قرآن کا کون سا حصہ سب سے پہلے نازل ہوا ؟ انہوں نے کہا : (یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ) میں نے کہا : وہ (بعض علما) کہتے ہیں : (اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ) ابوسلمہ نے فرمایا : میں نے جابر سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا ، اور میں نے بھی ان سے اسی طرح کہا تھا جس طرح تم نے مجھے کہا ہے ، تو جابر ؓ نے مجھے بتایا کہ میں تمہیں وہی کچھ بیان کر رہا ہوں جو کچھ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں بتایا تھا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں نے حرا میں ایک ماہ خلوت اختیار کی ، جب میں نے اپنی خلوت پوری کر لی ، تو میں نیچے اتر آیا ، مجھے آواز دی گئی ، میں نے اپنے دائیں دیکھا تو مجھے کوئی چیز نظر نہ آئی ، میں نے اپنے بائیں دیکھا تو مجھے کچھ نظر نہ آیا ، میں نے اپنے پیچھے دیکھا تو میں نے کوئی چیز نہ دیکھی ، میں نے اوپر دیکھا تو میں نے کوئی چیز نہ دیکھی ، پھر میں خدیجہ ؓ کے پاس آ گیا تو میں نے کہا : مجھے چادر اوڑھا دو ، انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی ، اور انہوں نے مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالا ، اور پھر مجھ پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (جس کا ترجمہ اس طرح ہے) ’’ اے چادر اوڑھنے والے ! کھڑے ہو جائیں ، اور ڈرائیں ، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کریں ، اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھیں اور شرک سے کنارہ کشی اختیار کریں ۔‘‘ اور یہ نماز فرض ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5852

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً. فَقَالَ: هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ لَأَمَهُ وَأَعَادَهُ فِي مَكَانِهِ وَجَاءَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ يَعْنِي ظِئْرَهُ. فَقَالُوا: إِنْ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقَعُ اللَّوْنِ قَالَ أَنَسٌ: فَكُنْتُ أَرَى أَثَرَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ. رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جبرائیل ؑ تشریف لائے ، آپ اس وقت بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ، انہوں نے آپ کو پکڑ کر لٹایا ، آپ کا سینہ چاک کر کے دل سے خون کا ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا : یہ آپ کے (جسم میں) شیطان کا حصہ تھا ، پھر اس (دل) کو سونے کی ایک طشت میں (رکھ کر) آب زم زم سے دھویا اور پھر اسے جوڑ کر اس کی جگہ پر دوبارہ رکھ دیا ، یہ (ماجرہ دیکھ کر) بچے دوڑ کر آپ کی والدہ یعنی آپ کی دایہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا : محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) کو قتل کر دیا گیا ہے ۔ وہ فوراً آپ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ آپ کا رنگ تبدیل ہو چکا تھا ، انس ؓ نے فرمایا ، میں نے سلائی کا نشان آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سینہ مبارک پر دیکھا تھا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5853

وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبعث إِني لأعرفه الْآن» . رَوَاهُ مُسلم
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں مکہ میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو کہ میری بعثت سے قبل مجھے سلام کیا کرتا تھا ، اور میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5854

وَعَن أنسٍ قَالَ: إِنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً فَأَرَاهُمُ الْقَمَرَ شِقَّتَيْنِ حَتَّى رَأَوْا حِرَاءً بَيْنَهُمَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، مکہ والوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں کوئی معجزہ دکھائیں ، تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں چاند کے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دکھایا ، حتی کہ انہوں نے حرا کو ان دو ٹکڑوں کے درمیان دیکھا ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5855

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِرْقَتَيْنِ: فِرْقَةً فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْقَةً دُونَهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اشْهَدُوا» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دور میں چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے ، ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور ایک ٹکڑا اس کے نیچے (گرا) تھا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ (میری نبوت کی) گواہی دو ۔‘‘ (دوسرا معنی) :’’ (معجزہ) دیکھ لو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5856

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: هَلْ يُعَفِّرُ مُحَمَّدٌ وَجْهَهُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ؟ فَقِيلَ: نَعَمْ. فَقَالَ: وَاللَّاتِ وَالْعُزَّى لَئِنْ رَأَيْتُهُ يَفْعَلُ ذَلِكَ لَأَطَأَنَّ عَلَى رَقَبَتِهِ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي - زَعَمَ لِيَطَأَ عَلَى رَقَبَتِهِ - فَمَا فَجِئَهُمْ مِنْهُ إِلَّا وَهُوَ يَنْكُصُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَيَتَّقِي بِيَدَيْهِ فَقِيلَ لَهُ مَالك؟ فَقَالَ: إِنَّ بَيْنِي وَبَيْنَهُ لَخَنْدَقًا مِنْ نَارٍ وَهَوْلًا وَأَجْنِحَةً. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ دَنَا مِنِّي لَاخْتَطَفَتْهُ الْمَلَائِكَةُ عُضْواً عُضْواً» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوجہل نے کہا : کیا محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) تمہارے سامنے اپنا چہرہ خاک آلود (یعنی سجدہ) کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : ہاں ، اس نے کہا : لات و عزی کی قسم ! اگر میں نے اسے ایسے کرتے ہوئے دیکھا تو میں اس کی گردن پر اپنا پاؤں رکھوں گا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور نماز شروع کر دی ابوجہل نے اس دوران آپ کی گردن پر پاؤں رکھنے کا ارادہ کیا ، وہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا لیکن وہ فوراً الٹے پاؤں دوڑا اور خود کو اپنے دونوں ہاتھوں سے بچانے لگا ، اس سے پوچھا گیا ، تجھے کیا ہوا ؟ اس نے کہا : میرے اور اس (محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) کے درمیان آگ کی خندق ، ہیبت اور (فرشتوں کے) پر ہیں ۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اگر وہ میرے قریب آ جاتا تو فرشتے اسے اچک لیتے اور اس کا جوڑ جوڑ توڑ دیتے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5857

وَعَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْد النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَكَا إِلَيْهِ الْفَاقَةَ ثُمَّ أَتَاهُ الْآخَرُ فَشَكَا إِلَيْهِ قَطْعَ السَّبِيلِ. فَقَالَ: يَا عدي هَل رَأَيْتَ الْحِيرَةَ؟ فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ فَلَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ وَلَئِنْ طَالَتْ بك حَيَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يَخْرُجُ مِلْءَ كَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ فَلَا يجد أحدا يقبله مِنْهُ وَلَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ فَلَيَقُولَنَّ: أَلَمْ أَبْعَثْ إِليك رَسُولا فليبلغك؟ فَيَقُولُ: بَلَى. فَيَقُولُ: أَلَمْ أُعْطِكَ مَالًا وَأُفْضِلْ عَلَيْكَ؟ فَيَقُولُ: بَلَى فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ وَيَنْظُرُ عَنْ يَسَارِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ قَالَ عَدِيٌّ: فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللَّهَ وَكُنْتُ فِيمَنِ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكُمْ حَيَاةٌ لَتَرَوُنَّ مَا قَالَ النَّبِيُّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْرُجُ ملْء كفيه» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا تو اس نے فاقے کی شکایت کی ، پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے رہزنی کی شکایت کی ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ عدی ! کیا تو نے حیرہ دیکھا ہے ؟ اگر تیری عمر دراز ہوئی تو تم دیکھو گے عورت حیرہ (کوفے کے پاس ایک بستی) سے ہودج میں سوار ہو کر آئے گی اور وہ کعبہ کا طواف کرے گی ، اسے اس دوران اللہ کے سوا کسی کا ڈر خوف نہیں ہو گا ۔ اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم پر کسریٰ کے خزانے کھول دیے جائیں گے ، اور اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو تم دیکھو گے کہ آدمی ہاتھ میں سونا یا چاندی لے کر ایسے آدمی کی تلاش میں نکلے گا جو اسے قبول کر لے لیکن اسے ایسا کوئی آدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کر لے ، اور تم میں سے ہر ایک قیامت کے دن اللہ سے ملاقات کرے گا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا جو کہ اس کی ترجمانی کر سکے ، وہ فرمائے گا : کیا میں نے تیری طرف رسول نہیں بھیجے تھے کہ وہ تیری طرف میرا پیغام پہنچائے ؟ وہ شخص کہے گا ، کیوں نہیں ضرور آئے تھے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں نے تجھے مال نہیں دیا تھا اور میں نے تجھے فضیلت عطا نہیں کی تھی ؟ وہ عرض کرے گا : کیوں نہیں ، ضرور عطا کی تھی ، وہ اپنے دائیں دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی ، پھر وہ اپنے بائیں دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی ۔ جہنم سے بچ جاؤ ، خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو ، چنانچہ جو شخص یہ بھی نہ پائے تو وہ اچھی بات کے ذریعے (آگ سے بچ جائے) ۔‘‘ عدی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے ہودج میں سوار عورت کو دیکھا کہ وہ حیرہ سے آئی اور اس نے کعبہ کا طواف کیا ، اور اسے اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر خوف نہیں تھا ، اور جن کے لیے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے کھولے گئے میں بھی ان میں موجود تھا ، اور اگر تمہاری عمر دراز ہوئی تو تم وہ کچھ ضرور دیکھو گے ، جس کی ابوالقاسم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ’’ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا اور چاندی لے کر نکلے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5858

وَعَن خبَّاب بن الأرتِّ قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ وَقد لَقينَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ شِدَّةً فَقُلْنَا: أَلَا تَدْعُو اللَّهَ فَقَعَدَ وَهُوَ مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ وَقَالَ: «كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ فَيُجَاءُ بِمِنْشَارٍ فَيُوضَعُ فَوْقَ رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَيْنِ فَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَاللَّهِ لَيَتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرُ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا الله أَو الذِّئْب على غنمه ولكنَّكم تَسْتَعْجِلُون» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
خباب بن ارت ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے (کفار کی ایذا رسانی کی) شکایت کی ، آپ اس وقت کعبہ کے سائے میں دھاری دار چادر کا سرہانہ بنائے تشریف فرما تھے ، ہمیں مشرکین سے بہت تکلیف پہنچ چکی تھی ، ہم نے عرض کیا ، کیا آپ اللہ سے دعا نہیں فرماتے ؟ آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تم سے پہلے ایسے لوگ بھی تھے کہ ان میں سے کسی کے لیے زمین میں گڑھا کھود دیا جاتا اور پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ دیا جاتا ، اور اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے ، یہ چیز بھی اسے اس کے دین سے نہیں روکتی تھی ۔ لوہے کے کنگھے ان کے گوشت ہڈیوں اور پٹھوں میں دھنسا دیے جاتے اور یہ چیز بھی انہیں ان کے دین سے نہیں روکتی تھی ، اللہ کی قسم ! یہ دین مکمل ہو گا حتی کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک سفرکرے گا اور اسے صرف اللہ ہی کا خوف ہو گا ، اور اسے اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیے کا خوف بھی نہیں ہو گا ، لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5859

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَدَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ ثُمَّ جَلَسَتْ تَفْلِي رَأسه فَنَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ» . فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَدَعَا لَهَا ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُضْحِكُكَ؟ قَالَ: «نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ» . كَمَا قَالَ فِي الأولى. فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ. قَالَ: «أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ» . فَرَكِبَتْ أُمُّ حَرَامٍ الْبَحْرَ فِي زَمَنِ مُعَاوِيَةَ فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَهَلَكَتْ. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، عبادہ بن صامت ؓ کی اہلیہ ام حرام بنت ملحان ؓ کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے ، ایک روز آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا ، پھر بیٹھ کر آپ کے سر مبارک سے جوئیں دیکھنے لگیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سو گئے پھر (جب) اٹھے تو آپ ہنس رہے تھے ، وہ بیان کرتی ہیں ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میری امت سے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مجھے دکھائے گئے ، وہ اس سمندر میں سوار اس طرح جا رہے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں یا وہ بادشاہوں کی طرح تختوں پر براجمان تھے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی انہی میں سے کر دے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی ، پھر آپ اپنا سر رکھ کر سو گئے ، پھر بیدار ہوئے تو آپ ہنس رہے تھے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مجھے دکھائے گئے ۔‘‘ جیسا کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پہلی بار فرمایا تھا ۔ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ان میں سے کر دے ۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ آپ اولین میں سے ہیں ۔‘‘ ام حرام ؓ نے معاویہ ؓ کے دور میں بحری سفر کیا ، جب وہ سمندر سے باہر نکلیں تو وہ اپنی سواری سے گر کر وفات پا گئیں ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5860

وَعَن ابْن عبَّاس قَالَ: إِنَّ ضِمَادًا قَدِمَ مَكَّةَ وَكَانَ مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ وَكَانَ يَرْقِي مِنْ هَذَا الرِّيحِ فَسَمِعَ سُفَهَاءَ أَهْلِ مَكَّةَ يَقُولُونَ: إِنَّ مُحَمَّدًا مَجْنُونٌ. فَقَالَ: لَوْ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا الرَّجُلَ لَعَلَّ اللَّهَ يَشْفِيهِ عَلَى يَدَيَّ. قَالَ: فَلَقِيَهُ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَرْقِي مِنْ هَذَا الرِّيحِ فَهَلْ لَكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ» فَقَالَ: أَعِدْ عَلَيَّ كَلِمَاتِكَ هَؤُلَاءِ فَأَعَادَهُنَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مَرَّاتٍ فَقَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ وَقَوْلَ السَّحَرَةِ وَقَوْلَ الشُّعَرَاءِ فَمَا سَمِعْتُ مِثْلَ كَلِمَاتِكَ هَؤُلَاءِ. وَلَقَدْ بَلَغْنَ قَامُوسَ الْبَحْرِ هَاتِ يَدَكَ أُبَايِعْكَ عَلَى الْإِسْلَامِ قَالَ: فَبَايَعَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَفِي بَعْضِ نُسَخِ «الْمَصَابِيحِ» : بَلَغْنَا نَاعُوسَ الْبَحْر وَذَكَرَ حَدِيثَا أَبِي هُرَيْرَةَ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ «يهْلك كسْرَى» وَالْآخر «ليفتحنَّ عِصَابَةٌ» فِي بَابِ «الْمَلَاحِمِ» وَهَذَا الْبَابُ خَالٍ عَن: الْفَصْل الثَّانِي
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، ضماد مکہ آیا اور وہ قبیلہ ازدشنوءہ سے تھا ، اور وہ آسیب وغیرہ کا منتر جانتا تھا اس نے مکے کے نادانوں سے سنا کہ محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) مجنون ہیں ، اس نے کہا : اگر میں اس آدمی کو دیکھوں (اور اس کا علاج کروں) تو شاید اللہ میرے ہاتھوں اسے شفا عطا فرما دے ، راوی بیان کرتے ہیں ، وہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملا اور اس نے کہا : محمد ! میں آسیب وغیرہ کا منتر جانتا ہوں کیا آپ کو علاج کی رغبت ہے ؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : ((إن الحمد للہ ..... عبدہ و رسولہ)) ’’ بے شک ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ، جس کو اللہ ہدایت عطا فرما دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، جس کو وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘ اما بعد ! اس نے عرض کیا ، یہی کلمات مجھے دوبارہ سنائیں چنانچہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین مرتبہ یہ کلمات اسے سنائے ، تو اس نے عرض کیا ، میں نے کاہنوں ساحروں اور شاعروں کا کلام سنا ہے ، لیکن میں نے آپ کے کلمات جیسا کوئی کلام نہیں سنا ، یہ تو انتہائی فصیح و بلیغ کلمات ہیں ، اپنا دست مبارک لائیں ، میں اسلام پر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کرتا ہوں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے بیعت لی ۔ رواہ مسلم ۔ مصابیح کے بعض نسخوں میں ((ناعوس البحر)) کے الفاظ ہیں ، اور ابوہریرہ ؓ اور جابر بن سمرہ ؓ سے مروی حدیث : ((یھلک الکسریٰ)) اور دوسری : ((لتفتحن عصابۃ)) باب الملاحم میں ذکر کی گئی ہے ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5861

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ قَالَ: انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَبينا أَنا بِالشَّام إِذْ جِيءَ بِكِتَاب النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ. قَالَ: وَكَانَ دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ فَقَالَ هِرَقْلُ: هَلْ هُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ قَالُوا: نَعَمْ فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ: أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ: قُلْ لَهُمْ: إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ. قَالَ أَبُو سُفْيَانُ: وَايْمُ اللَّهِ لَوْلَا مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْكَذِبُ لَكَذَبْتُهُ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ. قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قُلْتُ: لَا. قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لَا. قَالَ: وَمَنْ يَتْبَعُهُ؟ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ. قَالَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ قُلْتُ: لَا بَلْ يَزِيدُونَ. قَالَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ؟ قَالَ: قلت: لَا. قلت: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ. قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قُلْتُ: لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي هَذِهِ الْمُدَّةِ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا؟ قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ. قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ: لَا. ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ: إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فِيكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا. وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ. قُلْتُ: رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ. وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعه أضعافاؤهم أَمْ أَشْرَافُهُمْ؟ فَقُلْتَ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ. وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبُ فَيَكْذِبُ عَلَى اللَّهِ. وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ. وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا يَنَالُ مِنْكُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهَا الْعَاقِبَةُ. وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ: رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ. قَالَ: ثُمَّ قَالَ: بِمَا يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْنَا: يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ. قَالَ: إِنْ يَكُ مَا تَقُولُ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمَ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَكُنْ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ. ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَقَدْ سَبَقَ تَمَامُ الْحَدِيثِ فِي «بَاب الْكتاب إِلى الكفَّار»
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوسفیان بن حرب ؓ نے بلا واسطہ حدیث بیان کی ، انہوں نے فرمایا : میں نے اس مدت کے دوران جو کہ میرے اور آپ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) کے درمیان (صلح حدیبیہ کا) معاہدہ ہوا تھا ، سفر کیا ، وہ بیان کرتے ہیں ، میں اس وقت شام ہی میں تھا جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خط ہرقل کو موصول ہوا ، اور انہوں نے فرمایا : دحیہ کلبی یہ خط لے کر آئے تھے ، انہوں نے اسے امیر بصری کو دیا اور اس نے اسے ہرقل کے حوالے کیا ، ہرقل نے کہا : کیا اس شخص کی قوم کا کوئی فرد یہاں موجود ہے جو خود کو اللہ کا رسول خیال کرتا ہے انہوں نے کہا : جی ہاں ، مجھے بلایا گیا ، میرے ساتھ کچھ قریشی بھی تھے ، ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو ہمیں اس کے سامنے بٹھا دیا گیا ، اس نے پوچھا : یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے ، آپ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار کون ہے ؟ ابوسفیان کہتے ہیں ، میں نے کہا : میں ، انہوں نے مجھے اس کے سامنے بٹھایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا ، پھر اس نے اپنے ترجمان کو بلایا ، اور کہا : ان سے کہہ دو کہ میں اس (ابوسفیان) سے اس شخص کے متعلق ، جو چند سوالات کروں گا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ، اگر یہ مجھ سے جھوٹ بولے تو تم اسے جھٹلا دینا ، ابوسفیان بیان کرتے ہیں ، اللہ کی قسم ! اگر جھوٹ بولنے کی بدنامی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے متعلق ضرور جھوٹ بولتا ، پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا : اس سے پوچھو ، اس کا حسب و نسب کیسا ہے ؟ وہ کہتے ہیں میں نے کہا ، وہ ہم میں نہایت عمدہ حسب و نسب والے ہیں ، اس نے کہا : کیا ان کے آباو اجداد میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں ، اس نے کہا : کیا اس نے تم سے اس بات سے پہلے جو اب وہ کہتا ہے کوئی ایسی بات کہی جس پر تم نے اسے جھوٹا کہا ہو ؟ میں نے کہا : نہیں ، اس نے کہا : اس کے پیروکار کون ہیں ، بڑے لوگ یا کمزور لوگ ؟ وہ کہتے ہیں ، میں نے کہا : بلکہ کمزور لوگ ، اس نے کہا : کیا وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم ؟ وہ کہتے ہیں ، میں نے کہا : نہیں ، بلکہ وہ زیادہ ہو رہے ہیں ، اس نے کہا : کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اسے برا خیال کر کے اس سے منحرف ہوا ہے ؟ وہ کہتے ہیں ، میں نے کہا : نہیں ، اس نے پوچھا : کیا تم نے اس سے جنگ کی ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ، اس نے کہا : تمہاری اس سے جنگ کیسی رہی ؟ وہ کہتے ہیں ، میں نے کہا : جنگ ہم دونوں کے درمیان برابر ہے ، کبھی اسے ہماری طرف سے زک پہنچتی ہے اور کبھی ہمیں اس کی طرف سے زک پہنچتی ہے ، اس نے کہا : کیا وہ بد عہدی بھی کرتا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں ، البتہ ہم اس وقت اس کے ساتھ صلح کی مدت گزار رہے ہیں ، معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرے گا ۔ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! اس جملے کے علاوہ مجھے اور کہیں کوئی بات داخل کرنے کا موقع نہ ملا ، اس نے پوچھا : کیا یہ بات اس سے پہلے بھی کسی نے کی تھی ؟ میں نے کہا : نہیں ، پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا : اسے کہو ، میں نے تجھ سے اس کے حسب و نسب کے متعلق پوچھا تو تم نے کہا : وہ تم میں سب سے زیادہ عمدہ حسب و نسب والا ہے ، اور رسول ایسے ہی ہوتے ہیں ، انہیں ان کی قوم کے اونچے حسب و نسب میں مبعوث کیا جاتا ہے ، میں نے تجھ سے سوال کیا ، کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ تھا ؟ تو نے کہا : نہیں ، اگر اس کے آباؤ اجداد میں سے کوئی بادشاہ ہوتا تو میں خیال کرتا کہ وہ اپنے آبا کی بادشاہت کا طلب گار ہے ، میں نے تجھ سے اس کے متبعین کے متعلق پوچھا : کیا وہ ضعیف لوگ ہیں یا بڑے لوگ ہیں ، تو نے کہا : بلکہ وہ کمزور لوگ ہیں ، اور رسولوں کے پیروکار ایسے ہی ہوتے ہیں ، میں نے تجھ سے پوچھا : کیا اس نے جو بات کی ہے اس کے کہنے سے پہلے تم اسے جھوٹ سے متہم کرتے تھے ، تو نے کہا : نہیں ، میں نے پہچان لیا کہ اگر وہ لوگوں پر جھوٹ نہیں بولتا تو پھر وہ اللہ پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہے ؟ میں نے تجھ سے سوال کیا : کیا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اسے برا خیال کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے ؟ تو نے کہا : نہیں ، اور ایمان کی یہی حالت ہوتی ہے کہ جب اس کی بشاشت (فرحت و لذت) دلوں میں راسخ ہو جاتی ہے تو پھر وہ نکلتا نہیں ، میں نے تجھ سے دریافت کیا : کیا وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم ؟ تو نے کہا ، وہ زیادہ ہو رہے ہیں ، اور ایمان اسی طرح ہوتا ہے حتی کہ وہ مکمل ہو جاتا ہے ، میں نے تجھ سے پوچھا : کیا تم نے اس سے جنگ کی ہے ؟ تو نے بتایا کہ تم نے اس سے جنگ کی ہے اور جنگ تمہارے درمیان برابر رہی ، رسولوں کا معاملہ اسی طرح ہوتا ہے کہ ان پر دور ابتلا آتا ہے اور انجام بخیر انہی کا ہوتا ہے ، میں نے تجھ سے پوچھا : کیا وہ بد عہدی کرتا ہے ؟ تو نے کہا : نہیں ، اور رسولوں کی یہی شان ہے ؟ وہ بد عہدی نہیں کرتے ، میں نے تجھ سے سوال کیا : کیا ایسی بات اس سے پہلے بھی کسی نے کی ہے ؟ تو نے کہا : نہیں ، اگر اس سے پہلے ایسی بات کسی نے کی ہوتی تو میں خیال کرتا کہ یہ آدمی ویسی ہی بات کر رہا ہے جو اس سے پہلے کی گئی ہے ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، پھر اس نے پوچھا : وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے ؟ ہم نے کہا : وہ ہمیں نماز پڑھنے ، زکوۃ دینے ، صلہ رحمی کرنے اور پاک دامنی کا حکم دیتا ہے ، اس نے کہا : تم نے جو کچھ کہا ہے اگر تو وہ صحیح ہے تو پھر وہ نبی ہیں ، مجھے یہ تو پتہ تھا کہ ان کا ظہور ہونے والا ہے ، لیکن میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے ، اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے شرف ملاقات حاصل کرنا پسند کرتا ، اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کے پاؤں دھوتا ، اور ان کی بادشاہت میرے ان دونوں قدموں کی جگہ تک پہنچ جائے گی ، پھر اس نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خط مبارک منگا کر پڑھا ۔ متفق علیہ ۔ اور یہ مکمل حدیث باب الکتاب الی الکفار میں گزر چکی ہے ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5862

عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالك بن صعصعة أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدثهمْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ: «بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ - وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ - مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ» يَعْنِي مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ «فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ ثُمَّ أُعِيدَ» - وَفِي رِوَايَةٍ: ثُمَّ غُسِلَ الْبَطْنُ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثمَّ ملئ إِيماناً وَحِكْمَة - ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ يُقَالُ لَهُ: الْبُرَاقُ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ. قَالَ: نَعَمْ. قيل: مرْحَبًا بِهِ فَنعم الْمَجِيء جَاءَ ففُتح فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ فَقَالَ: هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَام ثمَّ قَالَ: مرْحَبًا بالابن الصَّالح وَالنَّبِيّ الصَّالح ثمَّ صعد بِي حَتَّى السَّماءَ الثانيةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ. فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا خَالَةٍ. قَالَ: هَذَا يَحْيَى وَهَذَا عِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ. ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ففُتح فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ قَالَ: هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ. ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِدْرِيسُ فَقَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفتح فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ: هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَهل أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى قَالَ: هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالح فَلَمَّا جَاوَزت بَكَى قيل: مَا بيكيك؟ قَالَ: أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرَ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ: هَذَا أَبُوكَ إِبْرَاهِيمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرد السَّلَام ثمَّ قَالَ: مرْحَبًا بالابن الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ [ص:1637] رُفِعْتُ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبِقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ: هَذَا سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ: نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ. قُلْتُ: مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ ثُمَّ رُفِعَ لِيَ الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ: هِيَ الْفِطْرَةُ أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَاةُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ. قَالَ: إِنَّ أمتك لَا تستطع خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلى مُوسَى فَقَالَ مثله فَرَجَعت فَوضع عني عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنَى عَشْرًا فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ. قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ قَالَ: سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ. قَالَ: فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ: أَمْضَيْتُ فريضتي وخففت عَن عبَادي . مُتَّفق عَلَيْهِ
قتادہ ؒ انس بن مالک ؓ سے اور انہوں نے مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شب معراج کے متعلق انہیں بتایا کہ ’’میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا ، اور بعض روایات میں ہے ، میں حجر میں لیٹا ہوا تھا ، کہ اچانک ایک آنے والا میرے پاس آیا تو اس نے میرا سینہ چاک کیا ، میرے دل کو نکالا ، پھر میرے پاس ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا ، میرے دل کو دھویا گیا ، پھر اسے بھر دیا گیا ، پھر اسے واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ پھر (میرے) پیٹ کو آب زم زم سے دھویا گیا ، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا ، پھر خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی سفید رنگ کی براق نامی ایک سواری میرے پاس لائی گئی ، وہ اپنی انتہائے نظر تک اپنا قدم رکھتی تھی ، مجھے اس پر سوار کیا گیا ، جبریل ؑ مجھے ساتھ لے چلے ، حتی کہ وہ آسمان دنیا پر پہنچے تو انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، ان سے پوچھا گیا ، آپ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : جبریل ، پوچھا گیا : اور آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) ، پوچھا گیا ، کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ، اور تشریف لانے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں وہاں پہنچا تو میں نے وہاں آدم ؑ کو دیکھا ، جبریل ؑ نے بتایا : یہ آپ کے والد آدم ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر انہوں نے فرمایا : صالح بیٹے ! اور صالح نبی خوش آمدید ، پھر جبریل ؑ مجھے اوپر لے گئے حتی کہ وہ دوسرے آسمان پر پہنچ گئے ، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، پوچھا گیا : کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا : جبریل ؑ ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا : محمد ! پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ! آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں وہاں پہنچا تو یحیی اور عیسیٰ ؑ سے ملاقات ہو گئی ، اور وہ دونوں خالہ زاد تھے ۔ فرمایا : یہ یحیی ؑ ہیں اور یہ عیسیٰ ؑ ہیں ، ان دونوں کو سلام کریں ، میں نے سلام کیا ، تو ان دونوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی ! خوش آمدید ، نبی صالح خوش آمدید ، پھر مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے جایا گیا ، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، پوچھا گیا ، کون ہے ؟ فرمایا : جبریل ، کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا : محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ، آنے والے کیا ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں ادھر پہنچا تو وہاں یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے بتایا ، یہ یوسف ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی اور صالح نبی خوش آمدید ، پھر مجھے اوپر لے جایا گیا ، حتیٰ کہ چوتھے آسمان پر پہنچے ، پھر دروازہ کھولنے کے لیے درخواست کی ، پوچھا کون ہے ؟ کہا : جبریل ، پوچھا گیا : آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا : محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، پوچھا گیا : کیا ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ! کہا گیا : خوش آمدید ، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، جب میں وہاں پہنچا تو ادریس ؑ سے ملاقات ہوئی ، تو انہوں نے کہا ، یہ ادریس ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا : صالح نبی خوش آمدید ، پھر مجھے اوپر لے جایا گیا حتیٰ کہ وہ پانچویں آسمان پر پہنچے اور انہوں نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی تو ان سے پوچھا گیا ، آپ کون ہیں ؟ کہا : جبریل ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا : محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، پھر کہا گیا : خوش آمدید ، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی فرمایا : یہ ہارون ؑ ہیں انہیں سلام کریں ، پس میں نے انہیں سلام کیا ، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی ، اور نبی صالح خوش آمدید ، پھر وہ مجھے اور اوپر لے گئے ، حتیٰ کہ ہم چھٹے آسمان پر پہنچے تو انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، انہوں نے پوچھا : کون ہیں ؟ فرمایا : جبریل ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا : محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا ، خوش آمدید ، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں وہاں پہنچا تو وہاں موسی ؑ تشریف فرما تھے ، جبریل ؑ نے فرمایا : یہ موسیٰ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے انہیں سلام کیا ، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی اور صالح نبی خوش آمدید جب میں ان سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے ، ان سے پوچھا گیا : آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : میں اس لیے روتا ہوں کہ ایک نوجوان میرے بعد مبعوث کیا گیا ، اور اس کی امت کے جنت میں جانے والے افراد ، میری امت کے جنت میں جانے والے افراد سے زیادہ ہوں گے ، پھر مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا ، جبریل ؑ نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی ، تو پوچھا گیا : آپ کون ہیں ؟ فرمایا : جبریل ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا : محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ، کتنے ہی اچھے ہیں آنے والے ؟ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ابراہیم ؑ تشریف فرما تھے ، جبریل نے فرمایا ، یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، چنانچہ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بیٹے اور صالح نبی خوش آمدید ، پھر مجھے سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا ، اس کے میوے (بیر) حجر کے مٹکوں کی طرح تھے ، اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے ، انہوں نے بتایا ، یہ سدرۃ المنتہی ہے ، وہاں چار نہریں تھیں : دو باطنی تھیں اور دو ظاہری تھیں میں نے کہا : جبریل ! یہ دو چیزیں کیا ہیں ، انہوں نے فرمایا : دو باطنی نہریں ، یہ دو نہریں جنت میں بہتی ہیں ، اور دو ظاہری نہریں ، اور یہ نیل و فرات ہیں ، پھر مجھے بیت المعمور کی طرف لے جایا گیا ، پھر میرے پاس شراب ، دودھ اور شہد کا برتن لایا گیا ، میں نے دودھ والا برتن اٹھا لیا ، انہوں نے فرمایا : یہ وہ فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی امت ہے ، پھر مجھ پر دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں ، میں واپس آیا اور موسی ؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کیا حکم ملا ہے ؟ میں نے کہا : مجھے ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ، انہوں نے فرمایا : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھے گی ، اللہ کی قسم ! میں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں ، اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہو چکا ہے ، آپ اپنے رب کے پاس دوبارہ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں ، میں دوبارہ گیا تو مجھ سے دس کم کر دی گئیں ، پھر میں موسی ؑ کے پاس آیا ، انہوں نے پھر وہی بات کی ، میں پھر حاضر خدمت ہوا ، اللہ تعالیٰ نے پھر دس نمازوں کی تخفیف فرما دی ، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی ، میں پھر حاضر خدمت ہوا ، اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں ، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات دہرائی ، میں پھر اللہ کے پاس گیا تو مجھ سے دس کم کر دی گئیں ، اور مجھے ہر روز دس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر ویسے ہی فرمایا ، میں پھر (رب کے حضور) گیا تو مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا : آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے ؟ میں نے کہا : مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ، انہوں نے فرمایا : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھے گی ، کیونکہ میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہو چکا ہے ، آپ اپنے رب کے پاس پھر جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : میں نے اپنے رب سے (تخفیفِ نماز کے لیے اتنی مرتبہ) سوال کیا ہے لہذا اب مجھے حیا آتی ہے ، اب میں راضی ہوں اور تسلیم کرتا ہوں ، فرمایا : جب میں وہاں سے چلا تو آواز دینے والے نے آواز دی ، میں نے (پانچ نمازوں کا) اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف فرما دی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5863

وَعَن ثابتٍ البُنانيِّ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُتيتُ بالبُراق وَهُوَ دابَّة أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ يَقَعُ حَافِرُهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ فَرَكِبْتُهُ حَتَّى أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي تَرْبُطُ بِهَا الْأَنْبِيَاءُ» . قَالَ: ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثمَّ خرجتُ فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لبن فاختَرتُ اللَّبن فَقَالَ جِبْرِيل: اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ . وَسَاقَ مِثْلَ مَعْنَاهُ قَالَ: «فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ فرحَّبَ بِي وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ» . وَقَالَ فِي السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ: «فَإِذا أَنا بِيُوسُف إِذا أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ بِي وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ» . وَلَمْ يَذْكُرْ بُكَاءَ مُوسَى وَقَالَ فِي السَّمَاءِ السَّابِعَةِ: فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ ثمَّ ذهب بِي إِلَى سِدْرَة الْمُنْتَهى فَإِذا وَرقهَا كآذان الفيلة وَإِذا ثمارها كَالْقِلَالِ فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللَّهِ مَا غَشَّى تَغَيَّرَتْ فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا وَأَوْحَى إِلَيَّ مَا أوحى فَفرض عَليّ خمسين صَلَاة كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَنَزَلْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلَاة كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ. قَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَإِنِّي بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ. قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي فَقُلْتُ: يَا رَبِّ خَفِّفْ عَلَى أُمَّتِي فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقُلْتُ: حَطَّ عَنِّي خَمْسًا. قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ . قَالَ: فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي وَبَيْنَ مُوسَى حَتَّى قَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلَاةً مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُكْتَبْ لَهُ شَيْئًا فَإِنَّ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً . قَالَ: فَنَزَلْتُ حَتَّى انتهيتُ إِلى مُوسَى فَأَخْبَرته فَقَالَ: ارجعْ إِلى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَقُلْتُ: قَدْ رَجَعْتُ إِلَى رَبِّي حَتَّى استحييت مِنْهُ . رَوَاهُ مُسلم
ثابت بنانی ؒ انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میرے پاس براق لائی گئی ، وہ سفید لمبا چوپایہ تھا ، جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا ، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر جاتی تھی ، میں اس پر سوار ہوا ، اور بیت المقدس پہنچا وہاں میں نے اسے اس حلقے (کنڈے) کے ساتھ باندھ دیا جس کے ساتھ انبیا ؑ اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے ۔‘‘ فرمایا :’’ پھر میں مسجد میں داخل ہوا تو وہاں دو رکعتیں پڑھیں ، پھر وہاں سے نکلا تو جبریل ؑ میرے پاس ایک برتن شراب اور ایک برتن دودھ کا لائے تو میں نے دودھ کا برتن منتخب کیا ، اس پر جبرائیل ؑ نے فرمایا : آپ نے فطرت کا انتخاب فرمایا ہے ، پھر ہمیں آسمان کی طرف لے جایا گیا ۔‘‘ اس کے بعد راوی نے حدیث سابق کے ہم معنی روایت بیان کی ، فرمایا :’’ میں آدم ؑ سے ملا تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا ، اور میرے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی ۔‘‘ اور فرمایا :’’ تیسرے آسمان پر یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی ، ان کی شان یہ ہے کہ انہیں نصف حسن عطا کیا گیا ہے ، انہوں نے بھی مجھے خوش آمدید کہا ، اور دعائے خیر فرمائی ۔‘‘ اس روایت میں راوی نے موسی ؑ کے رونے کا ذکر نہیں کیا ، اور فرمایا :’’ ساتویں آسمان پر ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی ، آپ بیت المعمور سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ، وہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر دوبارہ ان کی باری نہیں آتی ، پھر مجھے سدرۃ المنتہی لے جایا گیا ، اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے ، جبکہ اس کا پھل مٹکوں کی طرح تھا ، جب اس کو اللہ کے حکم سے جس چیز نے ڈھانپنا تھا ڈھانپ لیا ، تو اس کی حالت بدل گئی ، اللہ کی مخلوق میں سے اس کے حسن کی کوئی تعریف بیان نہیں کر سکتا ، چنانچہ اس نے میری طرف جو وحی کرنی تھی ، وہ کر دی ، اور دن رات میں مجھ پر پچاس نمازیں فرض کر دی گئیں ، میں (یہ حکم لے کر) موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا : آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا : ہر روز پچاس نمازیں ، انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس دوبارہ جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی ، کیونکہ میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور ان کا تجربہ کر چکا ہوں ۔‘‘ فرمایا :’’ میں اپنے رب کے پاس گیا ، تو عرض کیا ، رب جی ! میری امت پر تخفیف فرمائیں ، مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دی گئیں ، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہیں بتایا کہ مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دی گئیں ہیں ، انہوں نے فرمایا : آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ، آپ اپنے رب کے پاس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں ۔‘‘ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں اپنے رب اور موسی ؑ کے درمیان آتا جاتا رہا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : محمد ! ہر روز یہ پانچ نمازیں ہیں ، اور ہر نماز کے لیے دس گنا اجر ہے ، اس طرح یہ پچاس نمازیں ہوئیں ، جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور وہ اسے نہ کر سکے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے ، اور اگر وہ اس نیکی کو کر لے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں ، اور جو شخص کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے لیکن وہ اس برائی کا ارتکاب نہیں کرتا تو اس کے لیے کچھ بھی نہیں لکھا جاتا ، اور اگر وہ اس کا ارتکاب کر لیتا ہے تو اس کے لیے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے ۔‘‘ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں نیچے آیا حتیٰ کہ موسی ؑ کے پاس آ کر انہیں بتایا تو انہوں نے پھر بھی یہی فرمایا : اپنے رب کے پاس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں ۔‘‘ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں نے کہا : میں اتنی بار اپنے رب کے پاس گیا ہوں لہذا اب مجھے (اس تخفیف کی درخواست کرتے ہوئے) حیا آتی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5864

وَعَن ابْن شهَاب عَن أنسٍ قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُرِجَ عني سقفُ بَيْتِي وَأَنا بِمَكَّة فَنزل جِبْرِيل فَفَرَجَ صَدْرِي ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٌ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهُ فِي صَدْرِي ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ أَخَذَ بيَدي فعرج بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا. قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ: افْتَحْ. قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ جِبْرِيلُ. قَالَ: هَل مَعَك أحد؟ قَالَ: نعم معي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ فَلَمَّا فَتَحَ عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا إِذَا رَجُلٌ قَاعِدٌ عَلَى يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ وَعَلَى يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ إِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شَمَالِهِ بَكَى فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ. قُلْتُ لِجِبْرِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا آدَمُ وَهَذِهِ الْأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ فَأَهْلُ الْيَمين مِنْهُم أهل الْجنَّة والأسودة عَن شِمَاله أهلُ النَّار فَإِذا نظر عَن يَمِينِهِ ضَحِكَ وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شَمَالِهِ بَكَى حَتَّى عَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ فَقَالَ لِخَازِنِهَا: افْتَحْ فَقَالَ لَهُ خَازِنُهَا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُ قَالَ أَنَسٌ: فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَاوَاتِ آدَمَ وَإِدْرِيسَ وَمُوسَى وَعِيسَى وَإِبْرَاهِيمَ وَلَمْ يُثْبِتْ كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ غَيْرَ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا حَبَّةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولَانِ. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «ثمَّ عرج بِي حَتَّى وصلت لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ» وَقَالَ ابْنُ حَزْمٍ وَأَنَسٌ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَفَرَضَ اللَّهُ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلَاةً فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى. فَقَالَ: مَا فَرْضُ اللَّهِ لَكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِينَ صَلَاةً. قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِن أُمَّتكَ لَا تطِيق فراجعت فَوَضَعَ شَطْرَهَا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقُلْتُ: وَضَعَ شَطْرَهَا فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَرَاجَعْتُهُ فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ. فَقُلْتُ: اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي ثُمَّ انْطُلِقَ بِي حَتَّى انْتُهِيَ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ؟ ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابن شہاب ، انس ؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا : ابوذر ؓ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں مکہ میں تھا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی تو جبریل ؑ نازل ہوئے انہوں نے میرا سینہ چاک کیا ، پھر اسے آب زم زم کے ساتھ دھویا ، پھر وہ حکمت و ایمان سے بھری ہوئی سونے کی طشت لائے ، اسے میرے سینے میں ڈال دیا ، پھر اسے جوڑ دیا ، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے گئے ، جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبریل نے آسمان کے محافظ سے کہا ، دروازہ کھولو ، اس نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟ فرمایا ، جبریل ، اس نے پوچھا : آپ کے ساتھ کوئی ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، میرے ساتھ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا ان کی طرف بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، جب دروازہ کھول دیا گیا تو ہم آسمان دنیا پر چلے گئے ، وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا کچھ لوگ اس کے دائیں طرف تھے اور کچھ اس کے بائیں طرف ، جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب اپنی بائیں جانب دیکھتے تو رونا شروع کر دیتے ، انہوں نے کہا : خوش آمدید نبی صالح اور بیٹے صالح ، میں نے جبریل ؑ سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ آدم ؑ ہیں ، اور ان کے دائیں اور بائیں جانب جو گروہ ہیں ، یہ ان کی اولاد کی روحیں ہیں ، ان کے دائیں طرف والا گروہ اہل جنت کا ہے ، اور ان کے بائیں طرف والا گروہ جہنمیوں کا ہے ، جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے ہیں تو مسکراتے ہیں ، اور جب اپنی بائیں جانب دیکھتے ہیں تو رو دیتے ہیں ، پھر مجھے دوسرے آسمان تک لے جایا گیا ، جبریل ؑ نے اس کے محافظ سے کہا : دروازہ کھولو ، اس کے محافظ نے بھی انہیں ویسے ہی کہا جیسا پہلے آسمان والے محافظ نے کہا تھا ۔‘‘ انس ؓ بیان کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ذکر فرمایا کہ انہوں نے آسمانوں میں آدم ، ادریس ، موسیٰ ، عیسیٰ اور ابراہیم ؑ سے ملاقات کی ، اور ابوذر ؓ نے یہ بیان نہیں کیا کہ ان کی منازل کیسی ہیں ، البتہ انہوں نے یہ ذکر کیا کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آدم ؑ کو آسمان دنیا پر اور ابراہیم ؑ کو چھٹے آسمان پر پایا ، ابن شہاب نے بیان کیا ، ابن حزم نے مجھے خبر دی کہ ابن عباس اور ابوحبہ انصاری ؓ دونوں بیان کیا کرتے تھے ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ پھر مجھے اوپر لے جایا گیا حتیٰ کہ میں اس قدر بلند جگہ پر پہنچ گیا کہ میں قلموں کے لکھنے کی آواز سنتا تھا ۔‘‘ ابن حزم اور انس ؓ نے بیان کیا ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں ، میں یہ (حکم) لے کر واپس ہوا ، اور میرا گزر موسی ؑ کے پاس سے ہوا تو انہوں نے فرمایا : اللہ نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا : پچاس نمازیں ، انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت طاقت نہیں رکھے گی ، انہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا ، تو اللہ تعالیٰ نے ان (نمازوں) کا کچھ حصہ کم کر دیا ، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو میں نے بتایا کہ اس نے ان میں سے کچھ کم کر دی ہیں ، انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکے گی ، میں واپس گیا اور اپنی بات دہرائی تو اس نے ان میں سے کچھ اور کم کر دیں ، میں پھر ان کے پاس واپس آیا ، تو انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی ، میں نے پھر اس سے درخواست کی تو اس نے فرمایا : وہ (ادائیگی میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) وہ پچاس ہیں میرے ہاں بات تبدیل نہیں کی جاتی ، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس پھر جائیں ، میں نے کہا : مجھے اپنے رب کے (پاس بار بار جانے) سے شرم آتی ہے ، پھر مجھے سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا ، کئی رنگوں نے اسے ڈھانپ رکھا تھا ، میں نہیں جانتا وہ کیا ہیں ؟ پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا ، وہاں موتیوں کے گنبد تھے اور اس کی مٹی کستوری کی تھی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5865

وَعَن عبدِ الله قَالَ: لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتُهِيَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَهِيَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ إِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا يُعْرَجُ بِهِ مِنَ الْأَرْضِ فَيُقْبَضُ مِنْهَا وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا يُهْبَطُ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا فَيُقْبَضُ مِنْهَا قَالَ: [إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى] . قَالَ: فِرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ: فَأُعْطِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا: أُعْطِيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَغُفِرَ لمن لَا يشرِكُ باللَّهِ من أمته شَيْئا الْمُقْحمَات. رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو معراج کرائی گئی تو انہیں سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا ، وہ چھٹے آسمان پر ہے ، زمین سے اوپر جانے والی ہر چیز کی حد یہاں تک ہے ، اسی مقام سے احکامات لئے جاتے ہیں اور اوپر سے جو حکم آتا ہے وہ یہیں آ کر رکتا ہے ، اور پھر یہاں سے احکام لیے جاتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جس چیز نے سدرہ کو ڈھانپنا تھا اس نے اسے ڈھانپ رکھا تھا ۔‘‘ ابن مسعود ؓ نے بیان کیا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ سونے کے پروانے اور پتنگے تھے ۔ فرمایا : رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تین چیزیں عطا کی گئیں ، آپ کو پانچ نمازیں عطا کی گئیں ، سورہ بقرہ کی آخری آیات اور آپ کی امت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے جیسے کبیرہ گناہ نہیں کرے گا اس کو بخش دیا جائے گا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5866

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا فَكُرِبْتُ كَرْبًا مَا كُرِبْتُ مِثْلَهُ فَرَفَعَهُ اللَّهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ مَا يَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّي. فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جعد كَأَنَّهُ أَزْد شَنُوءَةَ وَإِذَا عِيسَى قَائِمٌ يُصَلِّي أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شبها عروةُ بن مسعودٍ الثَّقفيُّ فإِذا إِبْرَاهِيمُ قَائِمٌ يُصَلِّي أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُكُمْ - يَعْنِي نَفْسَهُ - فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ لِي قَائِلٌ: يَا مُحَمَّدُ هَذَا مَالِكٌ خَازِنُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَهَذَا الْبَابُ خَالٍ عَنِ: الْفَصْلِ الثَّانِي
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں نے اپنے آپ کو حجر (حطیم) میں (کھڑے ہوئے) دیکھا ، جبکہ قریش مجھ سے میرے سفر معراج کے متعلق سوال کر رہے تھے ، انہوں نے بیت المقدس کی کچھ چیزوں کے متعلق مجھ سے سوالات کیے لیکن مجھے وہ یاد نہیں تھیں ، میں اس قدر غمگین ہوا کہ اس طرح کا غم مجھے کبھی نہیں ہوا تھا ، چنانچہ اللہ نے اسے میری نظروں کے سامنے بلند کر دیا میں اسے دیکھ رہا تھا ، اس لئے وہ مجھ سے جس بھی چیز کے متعلق سوال کرتے تو میں انہیں بتا دیتا تھا ، میں نے اپنے آپ کو انبیا ؑ کی جماعت میں دیکھا ، میں نے اچانک موسی ؑ کو حالت قیام میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، ان کا قد میانہ ہے اور بال گھنگھریالے ہیں ، گویا وہ شنوءہ قبیلے کے آدمی ہیں ، پھر میں نے عیسیٰ ؑ کو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، عروہ بن مسعود ثقفی ؓ کی ان سے بہت زیادہ مشابہت ہے ، اور ابراہیم ؑ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ، میں ان سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں ، نماز کا وقت ہوا تو میں نے ان کی امامت کرائی ، چنانچہ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو کسی کہنے والے نے مجھے کہا : محمد ! یہ جہنم کا داروغہ مالک ہے ، آپ اسے سلام کریں ، میں نے اس کی طرف توجہ کی تو اس نے مجھے سلام میں پہل کی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5867

عَن جَابِرٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَّى اللَّهُ لِيَ بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جب قریش نے (واقعہ معراج کے متعلق) مجھے جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا ، اللہ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کر دیا ، چنانچہ میں نے اسے دیکھ کر اس کی علامات بیان کرنی شروع کر دیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5868

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصّديق رَضِي الله عَنهُ قا ل: نظرتُ إِلى أقدامِ المشركينَ على رؤوسنا وَنَحْنُ فِي الْغَارِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ إِلَى قَدَمِهِ أَبْصَرَنَا فَقَالَ: «يَا أَبَا بَكْرٍ مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثالثهما»
انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا ہم غار میں تھے ، میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ مشرکین کے پاؤں نظر آ رہے تھے گویا وہ ہمارے سروں پر ہوں ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں کی طرف نظر کر لے تو وہ ہمیں دیکھ لے گا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ابوبکر ! ایسے دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ، جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5869

وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ: يَا أَبَا بَكْرٍ حَدِّثْنِي كَيْفَ صَنَعْتُمَا حِينَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا وَمِنَ الْغَدِ حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ وَخَلَا الطَّرِيقُ لَا يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ فَرُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ لَهَا ظِلٌّ لَمْ يَأْتِ عَلَيْهَا الشَّمْسُ فَنَزَلْنَا عِنْدَهَا وَسَوَّيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانًا بِيَدَيَّ يَنَامُ عَلَيْهِ وَبَسَطْتُ عَلَيْهِ فَرْوَةً وَقُلْتُ نَمْ يَا رسولَ الله وَأَنَا أَنْفُضُ مَا حَوْلَكَ فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ فَإِذَا أَنَا بِرَاعٍ مُقْبِلٍ قُلْتُ: أَفِي غنمكَ لبنٌ؟ قَالَ: نعم قلتُ: أفتحلبُ؟ قَالَ: نَعَمْ. فَأَخَذَ شَاةً فَحَلَبَ فِي قَعْبٍ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ وَمَعِي إِدَاوَةٌ حَمَلْتُهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْتَوَى فِيهَا يَشْرَبُ وَيَتَوَضَّأُ فَأَتَيْتُ الْنَبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ فَوَافَقْتُهُ حَتَّى اسْتَيْقَظَ فَصَبَبْتُ مِنَ الْمَاءِ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ فَقُلْتُ: اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَشَرِبَ حَتَّى رضيت ثمَّ قَالَ: «ألم يَأن الرحيل؟» قلتُ: بَلى قَالَ: فارتحلنا بعد مَا مَالَتِ الشَّمْسُ وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ فَقُلْتُ: أُتِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ: «لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا» فَدَعَا عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَطَمَتْ بِهِ فَرَسُهُ إِلَى بَطْنِهَا فِي جَلَدٍ مِنَ الْأَرْضِ فَقَالَ: إِنِّي أَرَاكُمَا دَعَوْتُمَا عَلَيَّ فَادْعُوَا لِي فَاللَّهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا الطَّلَبَ فَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَجَا فَجَعَلَ لَا يلقى أحدا إِلا قَالَ كفيتم مَا هَهُنَا فَلَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا رَدَّهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
براء بن عازب ؓ اپنے والد (عازب ؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوبکر ؓ سے کہا : ابوبکر ! جب آپ رات کے وقت رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ (ہجرت کے لیے) روانہ ہوئے تو آپ کا یہ سفر کیسے گزرا ؟ انہوں نے فرمایا : ہم رات بھر اور اگلے روز دوپہر تک چلتے رہے ، راستہ خالی تھا وہاں سے کوئی بھی نہیں گزر رہا تھا ، ہمیں ایک طویل چٹان نظر آئی جس کا سایہ تھا ، ابھی وہاں دھوپ نہیں آئی تھی ، ہم نے وہاں قیام کیا ، میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آرام کے لیے اپنے ہاتھوں سے جگہ برابر کی اس پر ایک پوستین بچھائی ، اور پھر میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ سو جائیں ، اور میں اردگرد کے حالات کا جائزہ لیتا ہوں ، آپ سو گئے اور میں جائزہ لینے کے لیے باہر نکل آیا ، میں نے ایک چرواہا آتے ہوئے دیکھا اور اسے کہا : کیا تیری بکریاں دودھ دیتی ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں ، میں نے کہا : کیا تم (میرے لیے) دودھ نکالو گے ؟ اس نے کہا : ہاں ، اس نے ایک بکری پکڑی اور لکڑی کے پیالے میں دودھ دوہا ، اور میرے پاس ایک برتن تھا جسے میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ساتھ رکھا تھا ، آپ اس سے سیراب ہوتے اور اسی سے پانی پیتے اور وضو کیا کرتے تھے ، میں دودھ لے کر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا ، میں نے انتظار کیا حتیٰ کہ آپ بیدار ہوئے ، میں نے دودھ پر پانی ڈالا حتیٰ کہ اس کا نچلا حصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! نوش فرمائیں ، آپ نے دودھ نوش فرمایا تو مجھے فرصت میسر آئی پھر آپ نے فرمایا :’’ کیا کوچ کرنے کا وقت نہیں ہوا ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، کیوں نہیں ، ہو گیا ہے ، فرمایا ہم نے زوال آفتاب کے بعد کوچ کیا ، اور سراقہ بن مالک نے ہمارا پیچھا کیا تو میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! پیچھا کرنے والا ہمیں آ لینا چاہتا ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ غم نہ کرو ، اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے بددعا فرمائی تو اس کا گھوڑا پیٹ تک سخت زمین میں دھنس گیا ، اس نے کہا : میں نے تمہیں دیکھا کہ تم نے میرے لیے بددعا کی ہے ، تم میرے لیے دعا کرو اور میں تمہیں اللہ کی ضمانت دیتا ہوں کہ میں تمہاری تلاش میں نکلنے والوں کو تمہارے پیچھے نہیں آنے دوں گا ، چنانچہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی تو وہ نجات پا گیا ، پھر وہ جسے بھی ملتا اس سے یہی کہتا : اس طرف تمہیں جانے کی ضرورت نہیں ، میں ادھر سے ہو آیا ہوں ، اس طرح وہ ہر ملنے والے کو واپس کر دیتا ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5870

وَعَن أنس قا ل سَمِعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ بِمَقْدَمِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي أَرْضٍ يَخْتَرِفُ فَأَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ: فَمَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَمَا أَوَّلُ طَعَامِ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ وَمَا يَنْزِعُ الولدُ إِلَى أبيهِ أَو إِلَى أمه؟ قا ل: «أَخْبرنِي بهنَّ جِبْرِيلُ آنِفًا أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ الْحُوت وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ نَزْعَ الْوَلَدَ وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الْمَرْأَةِ نَزَعَتْ» . قَالَ: أشهد أَن لاإله إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهْتٌ وَإِنَّهُمْ إِنْ يعلمُوا بِإِسْلَامِي من قبل أَن تَسْأَلهُمْ يبهتوني فَجَاءَتِ الْيَهُودُ فَقَالَ: «أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ فِيكُمْ؟» قَالُوا: خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا وَسَيِّدُنَا وَابْنُ سيدِنا فَقَالَ: «أرأَيتم إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ؟» قَالُوا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ. فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَقَالُوا: شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا فَانْتَقَصُوهُ قَالَ: هَذَا الَّذِي كُنْتُ أَخَافُ يَا رسولَ الله رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، عبداللہ بن سلام ؓ نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تشریف آوری کے متعلق سنا تو وہ اس وقت پھل توڑ رہے تھے ، وہ فوراً نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور عرض کیا ، میں آپ سے تین سوال کرتا ہوں جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے ، (بتائیں) علامات قیامت میں سے سب سے پہلی نشانی کیا ہے ؟ اہل جنت کا سب سے پہلا کھانا کیا ہو گا ؟ بچہ کب اپنے والد کے مشابہ ہوتا ہے اور کب اپنی والدہ کے مشابہ ہوتا ہے ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جبریل نے ابھی ابھی ان کے متعلق مجھے بتایا ہے ، جہاں تک علامات قیامت کا تعلق ہے تو پہلی علامت ایک آگ ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر دے گی ، رہا جنتیوں کا پہلا کھانا تو وہ مچھلی کے جگر کا ایک کنارہ ہو گا ، اور جب آدمی کا پانی عورت کے پانی (منی) پر غالب آ جاتا ہے تو بچہ والد کے مشابہ ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی غالب آ جاتا ہے تو بچہ عورت کے مشابہ ہو جاتا ہے ۔‘‘ (یہ جواب سن کر) انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں ، (پھر فرمایا) اللہ کے رسول ! یہودی بڑے بہتان باز ہیں ، اگر انہیں ، اس سے پہلے کہ آپ ان سے میرے متعلق پوچھیں ، میرے اسلام قبول کرنے کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ پر بہتان لگائیں گے ، چنانچہ اتنے میں یہودی آ گئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ عبداللہ کا تمہارے ہاں کیا مقام ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ہم میں سب سے بہتر ، ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے ، ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مجھے بتاؤ اگر عبداللہ بن سلام اسلام قبول کر لیں (تو پھر) ؟ انہوں نے کہا ، اللہ انہیں اس سے پناہ میں رکھے ، عبداللہ اسی دوران باہر تشریف لے آئے اور انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور یہ کہ محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اللہ کے رسول ہیں ، پھر یہ (یہودی ان کے بارے میں) کہنے لگے : وہ ہم میں سب سے برا ہے اور ہم میں سے سب سے برے کا بیٹا ہے ، اور وہ ان کی تنقیص و توہین کرنے لگے ، عبداللہ بن سلام ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہی وہ چیز تھی جس کا مجھے اندیشہ تھا ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5871

وَعنهُ قا ل: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاوَرَ حِينَ بَلَغَنَا إِقْبَالُ أَبِي سُفْيَانَ وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا. قَالَ: فَنَدَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسُ فَانْطَلَقُوا حَتَّى نَزَلُوا بَدْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ» وَيَضَعُ يدَه على الأرضِ هَهُنَا وَهَهُنَا قا ل: فَمَا مَاطَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ابو سفیان کی آمد کا ہمیں پتہ چلا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشورہ کیا تو سعد بن عبادہ ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر آپ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم فرمائیں گے تو ہم اس میں کود جائیں گے ، اور اگر آپ برک غماد تک جانے کا حکم فرمائیں گے تو ہم وہاں تک بھی پہنچیں گے ، راوی بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو بلایا ، پھر کوچ کیا حتیٰ کہ بدر کے مقام پر پڑاؤ ڈالا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ یہاں فلاں قتل ہو گا ۔‘‘ اور آپ اپنے دست مبارک سے زمین پر نشان لگا رہے تھے ، یہاں اور یہاں ، راوی بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نشان کی جگہ سے کوئی بھی آگے پیچھے قتل نہیں ہوا تھا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5872

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ يَوْمَ بَدْرٍ: «اللَّهُمَّ أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ اللَّهُمَّ إِنْ تَشَأْ لَا تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ» فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بيدِه فَقَالَ حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ فَخَرَجَ وَهُوَ يَثِبُ فِي الدِّرْعِ وَهُوَ يقولُ: « [سيُهزَمُ الجمعُ ويُوَلُّونَ الدُّبُرَ] » . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ بدر کے موقع پر اپنے خیمے میں یوں دعا فرمائی :’’ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے عہد و امان اور تیرے وعدے کا سوال کرتا ہوں ، اے اللہ ! کیا تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے ؟‘‘ اتنے میں ابوبکر ؓ نے آپ کا دست مبارک پکڑ لیا اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! بس کیجیے ! آپ نے رب سے کس قدر اصرار سے دعا کی ہے ، پھر آپ باہر تشریف لائے اس وقت آپ خوب تیز چل رہے تھے اور آپ نے زرہ پہن رکھی تھی ، اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرما رہے تھے :’’ عنقریب یہ گروہ شکست کھا جائے گا ، اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5873

وَعَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ بَدْرٍ: «هَذَا جِبْرِيلُ آخِذٌ بِرَأْسِ فرسه عَلَيْهِ أَدَاة الْحَرْب» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ بدر کے روز نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ یہ جبریل ؑ آلاتِ حرب سجائے اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تشریف لا رہے تھے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5874

وَعنهُ قا ل: بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ يَشْتَدُّ فِي إِثْرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ أَمَامَهُ إِذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ فَوْقَهُ وَصَوْتُ الْفَارِسِ يَقُولُ: أَقْدِمْ حَيْزُومُ. إِذْ نَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِ أَمَامَهُ خَرَّ مُسْتَلْقِيًا فَنَظَرَ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُهُ وَشُقَّ وَجْهُهُ كَضَرْبَةِ السَّوْطِ فَاخْضَرَّ ذَلِكَ أَجْمَعُ فَجَاءَ الْأَنْصَارِيُّ فَحَدَّثَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «صَدَقْتَ ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ» فَقَتَلُوا يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ وَأَسَرُوا سبعين. رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، اس روز ایک مسلمان ، ایک مشرک کا پیچھا کر رہا تھا ، اس کے آگے اس (مسلمان) نے اس (مشرک) کے اوپر ایک کوڑے کی آواز سنی ، اور گھڑ سوار کو یہ کہتے ہوئے سنا : حیزوم (گھوڑے کا نام ہے) آگے بڑھ ، اچانک اس (مسلمان) نے مشرک کو اپنے سامنے چت گرا ہوا پایا اور اس نے اسے دیکھا کہ کوڑا پڑنے سے اس کی ناک اور اس کا چہرہ پھٹ چکا تھا اور جہاں کوڑا پڑا تھا وہ جگہ کالی ہو گئی تھی ، وہ انصاری آیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا :’’ تم نے سچ کہا ، یہ تیسرے آسمان سے مدد آئی تھی ۔‘‘ اس دن انہوں نے ستر (کافروں) کو قتل کیا اور ستر کو قیدی بنایا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5875

وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَنْ يَمِينُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنْ شِمَالِهِ يَوْمَ أُحُدٍ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيضٌ يُقَاتِلَانِ كَأَشَدِّ الْقِتَالِ مَا رأيتُهما قبلُ وَلَا بعد يَعْنِي جِبْرِيل وَمِيكَائِيل. مُتَّفق عَلَيْهِ
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے احد کے روز رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دائیں بائیں دو آدمی دیکھے ان پر سفید کپڑے تھے اور وہ بڑی شدت کے ساتھ لڑ رہے تھے ، میں نے ان دونوں کو اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں ، یعنی وہ جبریل اور میکائیل ؑ تھے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5876

وَعَن الْبَراء قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا إِلَى أَبِي رَافِعٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيكٍ بَيْتَهُ لَيْلًا وَهُوَ نَائِمٌ فَقَتَلَهُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيكٍ: فَوَضَعْتُ السَّيْف فِي بَطْنه حَتَّى أَخذ فِي ظَهره فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الْأَبْوَابَ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى دَرَجَةٍ فَوَضَعْتُ رِجْلِي فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ فَانْكَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبَتُهَا بِعِمَامَةٍ فَانْطَلَقْتُ إِلَى أَصْحَابِي فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ فَقَالَ: «ابْسُطْ رِجْلَكَ» . فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا فَكَأَنَّمَا لَمْ أَشْتَكِهَا قَطُّ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چند آدمیوں کو ابورافع (یہودی) کی طرف بھیجا ، عبداللہ بن عتیک ؓ رات کے وقت اس کے گھر میں داخل ہو گئے اور اسے قتل کر دیا ، عبداللہ بن عتیک ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے تلوار اس کے پیٹ میں اتار دی حتیٰ کہ وہ اس کی پشت تک پہنچ گئی ، جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے ، تو میں دروازے کھولنے لگا حتیٰ کہ میں آخری زینے تک پہنچ گیا ، میں نے اپنا پاؤں رکھا اور میں گر گیا ، چاندنی رات تھی ، میری پنڈلی ٹوٹ گئی ، میں نے عمامے کے ساتھ اس پر پٹی باندھی ، اور میں اپنے ساتھیوں کے پاس چلا آیا پھر میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پورا واقعہ بیان کیا ، تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اپنا پاؤں پھیلاؤ ۔‘‘ میں نے اپنا پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا تو وہ ایسے ہو گیا جیسے کبھی اس میں تکلیف ہوئی ہی نہ تھی ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5877

وَعَن جَابر قا ل إِنَّا يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ فَعَرَضَتْ كُدْيَةٌ شَدِيدَةٌ فجاؤوا الْنَبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: هَذِهِ كُدْيَةٌ عَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ فَقَالَ: «أَنَا نَازِلٌ» ثُمَّ قَامَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ وَلَبِثْنَا ثَلَاثَةَ أَيَّام لانذوق ذوقا فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِعْوَلَ فَضَرَبَ فَعَادَ كَثِيبًا أَهْيَلَ فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِي فَقُلْتُ: هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ؟ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْصًا شَدِيدًا فَأَخْرَجَتْ جراباً فِيهِ صاعٌ من شعير وَلنَا بَهْمَةٌ دَاجِنٌ فَذَبَحْتُهَا وَطَحَنَتِ الشَّعِيرَ حَتَّى جَعَلْنَا اللَّحْمَ فِي الْبُرْمَةِ ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فساررتُه فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنْتُ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَكَ فَصَاحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أهلَ الخَنْدَق إِن جَابِرا صَنَعَ سُوراً فَحَيَّ هَلًا بِكُمْ» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ وَلَا تَخْبِزُنَّ عَجِينَكُمْ حَتَّى أَجِيءَ» . وَجَاءَ فَأَخْرَجْتُ لَهُ عَجِينًا فَبَصَقَ فِيهِ وَبَارَكَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرمْتنا فبصقَ وَبَارك ثمَّ قَالَ «ادعِي خابزة فلتخبز معي وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَلَا تُنْزِلُوهَا» وَهُمْ أَلْفٌ فَأَقْسَمَ بِاللَّهِ لَأَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَانْحَرَفُوا وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ كَمَا هِيَ وَإِنَّ عَجِينَنَا لَيُخْبَزُ كَمَا هُوَ. مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے تو ایک بہت سخت چٹان نکل آئی ، صحابہ کرام ؓ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : خندق میں یہ ایک چٹان نکل آئی ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ (اچھا) میں اترتا ہوں ۔‘‘ پھر آپ کھڑے ہوئے ، اس وقت آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا ، تین دن گزر چکے تھے اور ہم نے کوئی چیز چکھ کر بھی نہیں دیکھی تھی ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کدال پکڑ کر ماری تو وہ (چٹان) ایسی ریت کی مانند ہو گئی جو آسانی سے گرتی ہے ، میں اپنی اہلیہ کے پاس آیا تو پوچھا : کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے ؟ کیونکہ میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سخت بھوک کے عالم میں دیکھا ہے ، اس نے ایک تھیلی نکالی اس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا ایک بچہ تھا ، میں نے اسے ذبح کیا ، جو پیسے حتیٰ کہ ہم نے گوشت کو ہنڈیا میں رکھا ، پھر میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور سرغوشی کے انداز میں عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم نے اپنا بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا گوندھا ہے ، لہذا آپ تشریف لائیں اور کچھ ساتھیوں کو بھی ساتھ لے چلیں ، لیکن نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زور سے آواز دی :’’ خندق والو ! جابر نے ضیافت کا اہتمام کیا ہے ، آؤ جلدی کرو ۔‘‘ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تم میرے آنے تک اپنی ہنڈیا چولہے سے اتارنا نہ روٹی پکانا شروع کرنا ۔‘‘ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کے سامنے آٹا نکالا ، آپ نے اس میں اپنا لعاب ملایا اور برکت کی دعا کی ، پھر فرمایا :’’ روٹی پکانے والی کو بلاؤ وہ تمہارے ساتھ روٹی پکائے اور ہنڈیا سے سالن نکالتے رہو ، لیکن اسے چولہے سے نیچے نہ اتارو ۔‘‘ وہ ایک ہزار کی تعداد میں تھے ، میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ ان سب نے کھا لیا حتیٰ کہ وہ بچ گیا ، اور وہ واپس چلے گئے جبکہ ہماری ہنڈیا پہلے کی طرح بھری ہوئی تھی اور آٹے کی روٹیاں پہلے کی طرح پکائی جا رہی تھیں ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5878

وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَمَّارٍ حِينَ يَحْفِرُ الْخَنْدَقَ فَجَعَلَ يَمْسَحُ رَأسه وَيَقُول: «بؤس بن سميَّة تقتلك الفئة الباغية» . رَوَاهُ مُسلم
ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ خندق کھودتے وقت رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمار ؓ سے فرمایا ، آپ اس وقت ان کے سر پر ہاتھ پھیر رہے تھے اور فرما رہے تھے :’’ سمیہ کے بیٹے ! تجھے تکالیف کا سامنا ہو گا اور تجھے باغی گروہ شہید کرے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5879

وَعَن سليمانَ بن صُرَد قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَجْلَى الْأَحْزَابَ عَنْهُ: «الْآنَ نَغْزُوهُمْ وَلَا يغزونا نَحن نسير إِلَيْهِم» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
سلیمان بن صرد ؓ بیان کرتے ہیں ، جب گروہ متفرق ہو گئے تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے ، وہ ہم پر چڑھائی نہ کر سکیں گے ، اب ہم ان کی طرف پیش قدمی کریں گے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5880

وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ الخَنْدَق وضع السِّلاحَ واغتسل أَتاه جِبْرِيل وَهُوَ يَنْفُضُ رَأْسَهُ مِنَ الْغُبَارِ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ وَاللَّهِ مَا وَضَعْتُهُ اخْرُجْ إِلَيْهِمْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَيْنَ فَأَشَارَ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ فَخَرَجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خندق سے واپس آئے ، ہتھیار رکھ دیے اور غسل فرما لیا تو جبریل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے ، وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے ، انہوں نے فرمایا :’’ آپ نے ہتھیار اتار دیے ہیں ، اللہ کی قسم ! میں نے ابھی تک زیب تن کر رکھے ہیں ، ان کی طرف چلیں ۔‘‘ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ کہاں ؟‘‘ انہوں نے قریظہ کی طرف اشارہ فرمایا چنانچہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی طرف روانہ ہوئے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5881

وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ قَالَ أَنَسٌ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْغُبَارِ سَاطِعًا فِي زُقَاقِ بَنِيَ غَنْمٍ موكبَ جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَامُ حِينَ سَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بني قُرَيْظَة
صحیح بخاری کی روایت میں ہے ، انس ؓ نے بیان کیا ، گویا میں بنو غنم کی گلیوں میں اٹھتی ہوئی غبار دیکھ رہا ہوں جو جبریل ؑ کے ساتھیوں کی وجہ سے اڑ رہی تھی ، یہ اس وقت ہوا جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بنو قریظہ کی طرف چلے تھے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5882

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ يَدَيْهِ رِكْوَةٌ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا ثُمَّ أَقْبَلَ النَّاسُ نَحْوَهُ قَالُوا: لَيْسَ عَنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ بِهِ وَنَشْرَبُ إِلَّا مَا فِي رِكْوَتِكَ فَوضَعَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَدَه فِي الرِّكْوَةِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَفُورُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ كَأَمْثَالِ الْعُيُونِ قَالَ فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قِيلَ لِجَابِرٍ كَمْ كُنْتُمْ قَالَ لَوْ كُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَكَفَانَا كُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
جابر ؓ بیان کرتے ہیں حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام ؓ کو پیاس لگی ، جبکہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پانی کا ایک برتن تھا ، آپ نے اس سے وضو کیا ، پھر لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے ، اور عرض کیا ، ہمارے پاس پانی نہیں جس سے ہم وضو کر سکیں اور پی سکیں ، فقط وہی ہے جو آپ کی چھاگل میں ہے ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا دست مبارک چھاگل میں رکھا ، اور آپ کی انگلیوں سے چشموں کی طرح پانی بہنے لگا ، راوی بیان کرتے ہیں ، ہم نے پانی پیا اور وضو کیا ، جابر سے دریافت کیا گیا ، اس وقت تمہاری تعداد کتنی تھی ؟ انہوں نے فرمایا : اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی ہمیں کافی ہوتا ، البتہ ہم اس وقت پندرہ سو تھے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5883

وَعَن الْبَراء بن عَازِب قا ل: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ فَنَزَحْنَاهَا فَلَمْ نَتْرُكْ فِيهَا قَطْرَةً فَبَلَغَ النبيَّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فأتاهافجلس عَلَى شَفِيرِهَا ثُمَّ دَعَا بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ مَضْمَضَ وَدَعَا ثُمَّ صَبَّهُ فِيهَا ثُمَّ قَالَ: دَعُوهَا سَاعَةً فَأَرْوَوْا أَنْفُسَهُمْ وَرِكَابَهُمْ حَتَّى ارتحلوا. رَوَاهُ البُخَارِيّ
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، حدیبیہ کے روز ہم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چودہ سو کی تعداد میں تھے ، حدیبیہ ایک کنواں تھا ، ہم نے اس سے سارا پانی نکال لیا تھا اور اس میں ایک قطرہ تک نہیں چھوڑا تھا ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ وہاں تشریف لائے اور اس کے کنارے پر بیٹھ گئے ، پھر آپ نے پانی کا ایک برتن منگایا ، وضو فرمایا ، پھر کلی کی ، دعا کی ، پھر اس کو اس (کنویں) میں انڈیل دیا ، پھر فرمایا :’’ کچھ دیر اسے رہنے دو ۔‘‘ چنانچہ (اس کے بعد) انہوں نے خود پیا ، اپنے جانوروں کو پلایا اور کوچ کرنے تک یہ (پینے ، پلانے کا) سلسلہ جاری رہا ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5884

وَعَن عَوْف عَن أبي رَجَاء عَن عمر بن حُصَيْن قا ل: كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ مِنَ الْعَطَشِ فَنَزَلَ فَدَعَا فُلَانًا كَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَاءٍ وَنَسِيَهُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِيًّا فَقَالَ: «اذْهَبَا فَابْتَغِيَا الْمَاءَ» . فَانْطَلَقَا فتلقيا امْرَأَة بَين مزادتين أَو سطحتين من مَاء فجاءا بهاإلى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فاستنزلوهاعن بَعِيرِهَا وَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ وَنُودِيَ فِي النَّاسِ: اسْقُوا فَاسْتَقَوْا قَالَ: فَشَرِبْنَا عِطَاشًا أَرْبَعِينَ رَجُلًا حَتَّى رَوِينَا فَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أَقْلَعَ عَنْهَا وإنَّهُ ليُخيّل إِلينا أنّها أشدُّ ملئةً مِنْهَا حِين ابْتَدَأَ. مُتَّفق عَلَيْهِ
عوف ؒ ابورجاء سے اور وہ عمران بن حصین ؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا : ہم ایک سفر میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے ، لوگوں نے آپ سے پیاس کی شکایت کی ، آپ سواری سے نیچے اترے ، اور آپ نے فلاں شخص کو آواز دی ، ابورجاء نے اس شخص کا نام لیا تھا لیکن عوف اس کا نام بھول گئے ، اور آپ نے علی ؓ کو بھی بلایا اور فرمایا :’’ دونوں جاؤ اور پانی تلاش کرو ، وہ دونوں گئے اور پانی کی تلاش شروع کی ، وہ چلتے گئے حتیٰ کہ وہ ایک عورت سے ملے جو پانی کے دو مشکیزے اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے اور خود ان کے درمیان بیٹھی جا رہی تھی ، وہ دونوں اسے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے آئے ، انہوں نے اس کو اس کے اونٹ سے نیچے اتار لیا اور نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک برتن منگایا اور دونوں مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دیے ، اور تمام لوگوں میں اعلان کرا دیا گیا کہ خود بھی پیو اور جانوروں کو بھی پلاؤ ، راوی بیان کرتے ہیں ، ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور ہم نے اپنے تمام مشکیزے اور برتن بھی بھر لیے ، اللہ کی قسم ! جب ان سے پانی لینا بند کر دیا تو ہمیں ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ اب ان میں پانی پہلے سے بھی زیادہ ہے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5885

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَزَلْنَا وَادِيًا أَفْيَحَ فَذَهَبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا يَسْتَتِرُ بِهِ وَإِذَا شَجَرَتَيْنِ بِشَاطِئِ الْوَادِي فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى إِحْدَاهُمَا فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا فَقَالَ انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَالْبَعِيرِ الْمَخْشُوشِ الَّذِي يُصَانِعُ قَائِدَهُ حَتَّى أَتَى الشَّجَرَةَ الْأُخْرَى فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا فَقَالَ انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَذَلِكَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْمَنْصَفِ مِمَّا بَيْنَهُمَا قَالَ الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ فَالْتَأَمَتَا فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي فَحَانَتْ مِنِّي لفتة فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا وَإِذَا الشَّجَرَتَيْنِ قَدِ افْتَرَقَتَا فَقَامَتْ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا عَلَى سَاقٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے حتیٰ کہ ہم نے ایک وسیع وادی میں پڑاؤ کیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے ، آپ نے اوٹ کے لیے کوئی چیز نہ دیکھی البتہ وادی کے کنارے پر دو درخت دیکھے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان میں سے ایک کی طرف چل دیے ، اور اس کی ایک شاخ پکڑ کر فرمایا :’’ اللہ کے حکم سے مجھ پر پردہ کر ۔‘‘ چنانچہ اس نے نکیل دیئے ہوئے اونٹ کی طرح جھک کر آپ کے اوپر پردہ کیا ، جس طرح وہ اپنے قائد کی اطاعت کرتا ہے ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی ایک شاخ کو پکڑ کر فرمایا :’’ اللہ کے حکم سے مجھ پر پردہ کر ۔‘‘ وہ بھی اسی طرح آپ پر جھک گیا ، حتیٰ کہ جب وہ دونوں نصف فاصلے پر پہنچ گئے تو فرمایا :’’ اللہ کے حکم سے مجھ پر سایہ کر دو ۔‘‘ چنانچہ وہ دونوں قریب ہو گئے (حتیٰ کہ آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے) میں بیٹھا اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ اتنے میں اچانک رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے ، اور میں نے دونوں درختوں کو دیکھا کہ وہ الگ الگ ہو گئے ، اور ہر ایک اپنے تنے پر کھڑا ہو گیا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5886

عَن يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ: رَأَيْتُ أَثَرَ ضَرْبَةٍ فِي سَاقِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ فَقُلْتُ يَا أَبَا مُسلم مَا هَذِه الضَّربةُ؟ فَقَالَ: هَذِه ضَرْبَةٌ أَصَابَتْنِي يَوْمَ خَيْبَرَ فَقَالَ النَّاسُ أُصِيبَ سَلَمَةُ فَأَتَيْتُ الْنَبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَفَثَ فِيهِ ثَلَاثَ نَفَثَاتٍ فَمَا اشْتَكَيْتُهَا حَتَّى السَّاعَة. رَوَاهُ البُخَارِيّ
یزید بن ابی عبید ؒ بیان کرتے ہیں ، میں نے سلمہ بن اکوع ؓ کی پنڈلی پر چوٹ کا نشان دیکھا تو میں نے کہا : ابومسلم ! یہ چوٹ کیسی ہے ؟ انہوں نے فرمایا : یہ چوٹ مجھے غزوۂ خیبر کے موقع پر لگی تھی ، لوگوں نے تو کہہ دیا تھا : سلمہ ؓ شہید ہو گئے ، میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے وہاں تین بار دم کیا اور پھر آج تک مجھے اس کی کوئی شکایت نہیں ہوئی ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5887

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ نَعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَن يَأْتِيهِ خَبَرُهُمْ فَقَالَ أَخْذَ الرَّايَةَ زِيدٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّى أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ من سيوف الله حَتَّى فتح الله عَلَيْهِم. رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زید ، جعفر اور ابن رواحہ ؓ کی خبر شہادت آنے سے پہلے ہی ان کی شہادت کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ زید نے پرچم تھام لیا اور وہ شہید کر دیے گئے ، پھر جعفر نے تھام لیا وہ بھی شہید کر دیے گئے پھر ابن رواحہ نے تھام لیا تو وہ بھی شہید کر دیے گئے ۔‘‘ اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔’’ حتیٰ کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار یعنی خالد بن ولید نے پرچم تھام لیا اور اللہ نے انہیں فتح عطا فرمائی ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5888

وَعَن عَبَّاسٍ قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَى الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ وَلَّى الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِينَ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْكُفَّارِ وَأَنَا آخِذٌ بِلِجَامِ بَغْلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكُفُّهَا إِرَادَةَ أَن لَا تسرع وَأَبُو سُفْيَان آخِذٌ بِرِكَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْ عَبَّاسُ نَادِ أَصْحَابَ السَّمُرَةِ فَقَالَ عَبَّاسٌ وَكَانَ رَجُلًا صَيِّتًا فَقُلْتُ بِأَعْلَى صَوْتِي أَيْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَةِ فَقَالَ وَاللَّهِ لَكَأَنَّ عَطْفَتَهُمْ حِينَ سَمِعُوا صَوْتِي عَطْفَةُ الْبَقَرِ عَلَى أَوْلَادِهَا فَقَالُوا يَا لَبَّيْكَ يَا لَبَّيْكَ قَالَ فَاقْتَتَلُوا وَالْكُفَّارَ وَالدَّعْوَةُ فِي الْأَنْصَارِ يَقُولُونَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ قَالَ ثُمَّ قُصِرَتِ الدَّعْوَةُ عَلَى بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ كَالْمُتَطَاوِلِ عَلَيْهَا إِلَى قِتَالِهِمْ فَقَالَ حِينَ حَمِيَ الْوَطِيسُ ثُمَّ أَخَذَ حَصَيَاتٍ فَرَمَى بِهِنَّ وُجُوهَ الْكُفَّارِ ثُمَّ قَالَ انْهَزَمُوا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ بِحَصَيَاتِهِ فَمَا زِلْتُ أَرَى حَدَّهُمْ كَلِيلًا وَأَمْرَهُمْ مُدبرا. رَوَاهُ مُسلم
عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوۂ حنین کے موقع پر میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا ، جب مسلمانوں اور کافروں کا آمنا سامنا ہوا تو کچھ مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جبکہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے خچر کو کفار کی طرف بھگا رہے تھے اور میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھا ، میں اس (خچر) کو روک رہا تھا کہ وہ تیز نہ دوڑے جبکہ ابوسفیان بن حارث رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رکاب تھامے ہوئے تھے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ عباس ! درخت (کے نیچے بیعت رضوان کرنے) والوں کو آواز دو ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، عباس ؓ کی آواز بلند تھی ، وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے اپنی بلند آواز سے کہا : درخت (کے نیچے بیت کرنے) والے کہاں ہیں ؟ وہ بیان کرتے ہیں ، اللہ کی قسم ! جب انہوں نے میری آواز سنی تو وہ اس طرح واپس آئے جس طرح گائے اپنی اولاد کے پاس آتی ہے ، انہوں نے عرض کیا ، ہم حاضر ہیں ! ہم حاضر ہیں ! راوی بیان کرتے ہیں ، انہوں نے کفار سے قتال کیا اس روز انصار کا نعرہ یا انصار تھا ، راوی بیان کرتے ہیں ، پھر یہ نعرہ بنو حارث بن خزرج تک محدود ہو کر رہ گیا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے خچر پر سے میدانِ جنگ کی طرف دیکھا تو فرمایا :’’ اب میدانِ جنگ گرم ہو گیا ہے ۔‘‘ پھر آپ نے کنکریاں پکڑیں اور انہیں کافروں کے چہروں پر پھینکا ، پھر فرمایا :’’ محمد کے رب کی قسم ! وہ شکست خوردہ ہیں ۔‘‘ اللہ کی قسم ! ان کی طرف کنکریاں پھینکنا ہی ان کی شکست کا باعث تھا ، میں ان کی حدت ، ان کی لڑائی اور ان کی تلواروں کو کمزور ہی دیکھتا رہا ، اور ان کے معاملے کو ذلیل ہی دیکھتا رہا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5889

وَعَن أبي إِسْحَق قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَاءِ يَا أَبَا عُمَارَةَ فَرَرْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ لَا وَاللَّهِ مَا وَلِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ خَرَجَ شُبَّانُ أَصْحَابِهِ لَيْسَ عَلَيْهِمْ كَثِيرُ سِلَاحٍ فَلَقَوْا قَوْمًا رُمَاةً لَا يَكَادُ يَسْقُطُ لَهُمْ سَهْمٌ فَرَشَقُوهُمْ رَشْقًا مَا يَكَادُونَ يُخْطِئُونَ فَأَقْبَلُوا هُنَاكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ يَقُودُهُ فَنَزَلَ وَاسْتَنْصَرَ وَقَالَ أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبَ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ثُمَّ صفهم. رَوَاهُ مُسلم. وللبخاري مَعْنَاهُ
ابو اسحاق بیان کرتے ہیں ، کسی آدمی نے براء ؓ سے کہا : ابو عمارہ ! غزوۂ حنین کے موقع پر تم لوگ بھاگ گئے تھے ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نہیں پھرے تھے ، لیکن آپ کے صحابہ میں سے کچھ نوجوان ، جن کے پاس زیادہ اسلحہ نہیں تھا ، ان کا سامنا ایسے ماہر تیر اندازوں سے ہوا ، جن کا کوئی تیر خطا نہیں جاتا تھا ، انہوں نے ان پر تیر برسائے ، وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف آئے ۔ اس وقت رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے ، اور ابوسفیان بن حارث آپ کے آگے تھے ، آپ خچر سے نیچے اترے اور اللہ سے مدد طلب کی ، اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت فرما رہے تھے :’’ میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ۔‘‘ پھر آپ نے ان کی صف بندی فرمائی ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5890

وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا قَالَ الْبَرَاءُ كُنَّا وَاللَّهِ إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ نَتَّقِي بِهِ وَإِنَّ الشُّجَاعَ مِنَّا لَلَّذِي يُحَاذِيهِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم
اور صحیح بخاری میں اسی کے ہم معنی ہے ۔ اور صحیحین کی روایت میں ہے ، براء ؓ بیان کرتے ہیں : اللہ کی قسم ! جب لڑائی شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ کے ذریعے بچاؤ کرتے تھے اور ہم میں سے سب سے زیادہ شجاع وہ تھا جو (میدانِ جنگ میں) نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے برابر رہتا ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5891

وَعَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا فَوَلَّى صَحَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا غَشُوا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ عَنِ الْبَغْلَةِ ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ مِنَ الْأَرْضِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ بِهِ وُجُوهَهُمْ فَقَالَ شَاهَتِ الْوُجُوهُ فَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْهُمْ إِنْسَانًا إِلَّا مَلَأَ عَيْنَيْهِ تُرَابًا بِتِلْكَ الْقَبْضَةِ فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَزَمَهُمْ الله عز وَجل وَقَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غنائمهم بَين الْمُسلمين رَوَاهُ مُسلم
سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم غزوۂ حنین میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چند صحابہ ؓ پیٹھ پھیر گئے ، جب وہ (کافر) رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر حملہ آور ہوئے تو آپ خچر سے نیچے اترے اور زمین سے مٹی کی مٹھی بھری ، پھر اسے ان کے چہروں کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا :’’ (ان کے) چہرے جھلس جائیں ۔‘‘ اس مٹھی سے ان تمام انسانوں (کافروں) کی آنکھیں مٹی سے بھر گئیں اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے ، اللہ نے انہیں شکست سے دوچار کر دیا اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے حاصل ہونے والا مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم فرمایا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5892

وَعَن أبي هريرةَ قَالَ شَهِدْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مِمَّنْ مَعَهُ يَدَّعِي الْإِسْلَامَ هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلَمَّا حَضَرَ الْقِتَالُ قَاتَلَ الرَّجُلُ مِنْ أَشَدِّ الْقِتَالِ وَكَثُرَتْ بِهِ الْجِرَاحُ فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ الله أَرأيتَ الَّذِي تحدثت أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ قَدْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مِنْ أَشَدِّ الْقِتَالِ فَكَثُرَتْ بِهِ الْجِرَاحُ فَقَالَ أَمَّا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَكَادَ بَعْضُ النَّاسِ يَرْتَابُ فَبَيْنَمَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ إِذْ وَجَدَ الرَّجُلُ أَلَمَ الْجِرَاحِ فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى كِنَانَتِهِ فَانْتَزَعَ سَهْمًا فَانْتَحَرَ بِهَا فَاشْتَدَّ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَدَّقَ اللَّهُ حَدِيثَكَ قَدِ انْتَحَرَ فُلَانٌ وَقَتَلَ نَفْسِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ يَا بِلَالُ قُمْ فَأَذِّنْ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَإِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدينَ بِالرجلِ الْفَاجِر. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوۂ حنین میں ہم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شریک تھے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ایسے شخص کے بارے میں ، جو آپ کے ساتھ تھا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا تھا ، فرمایا :’’ یہ جہنمیوں میں سے ہے ۔‘‘ جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ شخص بہت جرأت کے ساتھ لڑا اور بہت زیادہ زخمی ہو گیا ، ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں کہ آپ نے جس شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ جہنمیوں میں سے ہے اس نے تو اللہ کی راہ میں بہت جرأت کے ساتھ لڑائی لڑی ہے اور اس نے بہت زیادہ زخم کھائے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ سن لو ! وہ جہنمیوں میں سے ہے ۔‘‘ قریب تھا کہ بعض لوگ شک و شبہ کا شکار ہو جاتے ، وہ آدمی ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ اس آدمی نے زخموں کی تکلیف محسوس کی اور اپنے ترکش کی طرف ہاتھ بڑھا کر ایک تیر نکالا اور اسے اپنے سینے میں پیوست کر لیا ، مسلمان یہ منظر دیکھ کر دوڑتے ہوئے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اللہ کے رسول ! اللہ نے آپ کی بات سچ کر دکھائی ، فلاں شخص نے اپنے سینے میں تیر پیوست کر کے خودکشی کر لی ہے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : اللہ اکبر ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ، بلال ! کھڑے ہو کر اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مومن ہی جائیں گے ، بے شک اللہ اپنے دین کی مدد فاجر شخص سے بھی لے لیتا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5893

وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سُحِرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ فَعَلَ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ حَتَّى إِذا كَانَ ذَات يَوْم وَهُوَ عِنْدِي دَعَا اللَّهَ وَدَعَاهُ ثُمَّ قَالَ أَشَعَرْتِ يَا عَائِشَةُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا استفتيته جَاءَنِي رجلَانِ فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلِي ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ مَا وَجَعُ الرَّجُلِ قَالَ مَطْبُوبٌ قَالَ وَمَنْ طَبَّهُ قَالَ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ الْيَهُودِيُّ قَالَ فِي مَاذَا قَالَ فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةِ ذَكَرٍ قَالَ فَأَيْنَ هُوَ قَالَ فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِلَى الْبِئْرِ فَقَالَ هَذِهِ الْبِئْرُ الَّتِي أُريتها وَكَأن ماءَها نُقاعةُ الْحِنَّاء ولكأن نخلها رُءُوس الشَّيَاطِين فاستخرجه مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر جادو کر دیا گیا حتیٰ کہ آپ کو خیال گزرتا کہ آپ نے کوئی کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے اسے نہیں کیا ہوتا تھا ، حتیٰ کہ ایک روز آپ میرے ہاں تشریف فرما تھے ، آپ اللہ سے بار بار دعا کر رہے تھے ، پھر فرمایا :’’ عائشہ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے جس چیز کے بارے میں اللہ سے سوال کیا تھا اس نے وہ چیز مجھے دے دی ہے : دو آدمی میرے پاس آئے ، ان میں سے ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس پھر ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : انہیں کیا تکلیف ہے ؟ اس نے کہا : ان پر جادو کیا گیا ہے ، اس نے پوچھا : ان پر کس نے جادو کیا ہے ؟ اس نے کہا : لبید بن الاعصم یہودی نے ، اس نے کہا : کس چیز میں ؟ اس نے کہا : کنگھے اور بالوں میں اور نر کھجور کے خوشے میں ہے ، اس نے پوچھا : وہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا : ذروان کے کنویں میں ۔‘‘ چنانچہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے چند صحابہ ؓ کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور فرمایا :’’ یہ وہ کنواں ہے جو مجھے دکھایا گیا ہے ، اور اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا ہے اور اس کے کھجور کے درخت شیاطین کے سروں جیسے ہیں ۔‘‘ پس آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے نکلوا دیا ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5894

وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قَسْمًا أَتَاهُ ذُو الْخوَيْصِرَة وَهُوَ رجلٌ من بني تَمِيم فَقَالَ يَا رسولَ الله اعْدِلْ فَقَالَ وَيلك وَمن يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِن لم أكن أعدل فَقَالَ عمر لَهُ ائْذَنْ لي أضْرب عُنُقه فَقَالَ دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ يُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ إِلَى رُصَافِهِ إِلَى نَضِيِّهِ وَهُوَ قِدْحُهُ إِلَى قُذَذِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَى عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ وَيخرجُونَ على حِين فِرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ فَأَمَرَ بذلك الرجل فالْتُمِسَ فَأُتِيَ بِهِ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَى نَعْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَهُ وَفِي رِوَايَةٍ: أَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ نَاتِئُ الجبين كَثُّ اللِّحْيَةِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ فَقَالَ يَا مُحَمَّد اتَّقِ الله فَقَالَ: «فَمن يُطِيع اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ فَيَأْمَنُنِي اللَّهُ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي» فَسَأَلَ رَجُلٌ قَتْلَهُ فَمَنَعَهُ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ: «إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ من الإِسلام مروق السهْم من الرَّمية يقتلُون أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لأقتلنهم قتل عَاد» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھے اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے ، اتنے میں بنو تمیم قبیلے سے ذوالخویصرہ نامی شخص آیا اور اس نے کہا : اللہ کے رسول ! انصاف کریں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تجھ پر افسوس ! اگر میں عدل نہیں کروں گا تو پھر اور کون عدل کرے گا ، اگر میں عدل نہ کروں تو میں بھی خائب و خاسر ہو جاؤں ۔‘‘ عمر ؓ نے عرض کیا ، مجھے اجازت فرمائیں کہ میں اس کی گردن مار دوں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اسے چھوڑ دو کہ اس کے کچھ ساتھی ہوں گے تم میں سے کوئی اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں ، اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں معمولی سمجھے گا ، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے ، اس (تیر) کے پیکان ، اس کے پٹھے پر جو کہ پیکان پر لپیٹا جاتا ہے اور تیر کے اس حصے کو جو کہ پر اور پیکان کے درمیان ہوتا ہے کو دیکھا جائے تو اس پر کوئی نشان نظر نہیں آئے گا ، حالانکہ وہ (تیر) گوبر اور خون میں سے گزرتا ہے ، ان کی نشانی یہ ہے کہ ایک سیاہ فام شخص ہے اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا ہلتے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کی طرح ہو گا ، اور وہ لوگوں کے بہترین گروہ کے خلاف بغاوت کریں گے ۔‘‘ ابوسعید ؓ نے فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب ؓ نے ان سے لڑائی لڑی ہے اور میں علی ؓ کے ساتھ تھا ، اس شخص کے متعلق حکم دیا گیا تو اسے تلاش کیا گیا اور اسے لایا گیا حتیٰ کہ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل اسی طرح تھا جس طرح نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا حلیہ بیان کیا تھا ۔ ایک دوسری روایت میں ہے ، ایک آدمی آیا ، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں ، پیشانی ابھری ہوئی تھی ، داڑھی گھنی تھی ، گالیں پھولی ہوئی تھیں ، سر منڈا ہوا تھا ، اس نے کہا ، محمد ! اللہ سے ڈر جائیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اور کون اس سے ڈرے گا ، اللہ نے زمین والوں پر مجھے امین بنا کر بھیجا ہے جبکہ تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو ۔‘‘ ایک آدمی نے اسے قتل کرنے کی درخواست کی تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے روک دیا ، جب وہ واپس گیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اس شخص کے نسب سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ اسلام سے اس طرح خارج ہو جائیں گے جس طرح تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے ، وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ، اگر میں نے انہیں پا لیا تو میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5895

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أكره فَأَتَيْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَهْدِيَ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ» . فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا صِرْتُ إِلَى الْبَابِ فَإِذَا هُوَ مُجَافٍ فَسَمِعَتْ أُمِّي خَشْفَ قَدَمَيَّ فَقَالَتْ مَكَانَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَة وَسمعت خضخضة المَاء قَالَ فَاغْتَسَلَتْ فَلَبِسَتْ دِرْعَهَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا فَفَتَحَتِ الْبَابَ ثُمَّ قَالَتْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي مِنَ الْفَرح فَحَمدَ الله وَأثْنى عَلَيْهِ وَقَالَ خيرا. رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں اپنی مشرکہ والدہ کو اسلام کی دعوت پیش کرتا تھا ، ایک روز میں نے اسے دعوت پیش کی تو اس نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شان میں کچھ ایسے الفاظ کہے جو مجھے ناگوار گزرے ، میں روتا ہوا رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت نصیب فرما دے ۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اے اللہ ! ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت عطا فرما ۔‘‘ میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعا پر خوش ہوتا ہوا وہاں سے چلا ، جب میں دروازے پر پہنچا تو وہ بند تھا ، میری والدہ نے میرے قدموں کی آہٹ سن کر فرمایا : ابوہریرہ ! اپنی جگہ پر ٹھہر جاؤ ، میں نے پانی گرنے کی آواز سن لی تھی ، انہوں نے غسل کیا ، اپنی قمیص پہنی ، اور عجلت میں چادر بھی نہ لی اور دروازہ کھول کر فرمایا : ابوہریرہ ! میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، میں خوشی کے آنسو بہاتا ہوا رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس آیا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور دعائے خیر فرمائی ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5896

وَعنهُ إِنَّكُمْ تَقُولُونَ أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ الْمَوْعِدُ وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنَ الْمُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفِقُ بِالْأَسْوَاقِ وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمْ عَمَلُ أَمْوَالِهِمْ وَكُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا أَلْزَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَلْءِ بَطْنِي وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا: «لَنْ يَبْسُطَ أَحَدٌ مِنْكُمْ ثَوْبَهُ حَتَّى أَقْضِيَ مَقَالَتِي هَذِهِ ثُمَّ يَجْمَعَهُ إِلَى صَدْرِهِ فَيَنْسَى مِنْ مَقَالَتِي شَيْئًا أَبَدًا» فَبَسَطْتُ نَمِرَةً لَيْسَ عَلَيَّ ثَوْبٌ غَيْرَهَا حَتَّى قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ ثُمَّ جَمَعْتُهَا إِلَى صَدْرِي فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا نَسِيتُ مِنْ مقَالَته تِلْكَ إِلَى يومي هَذَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، تم لوگ کہتے ہو کہ ابوہریرہ ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بہت زیادہ احادیث بیان کرتا ہے ۔ اللہ کی قسم ! ایک دن اللہ کے پاس جانا ہے ، میرے مہاجر بھائی بازاروں میں خرید و فروخت میں مشغول رہا کرتے تھے اور میرے انصار بھائی اپنے اموال (کھیتوں اور باغات) میں مشغول رہا کرتے تھے ، میں ایک مسکین آدمی تھا ، میں اپنا پیٹ بھرنے کے بعد پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہتا ، ایک روز نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے جو شخص میری اس گفتگو کے پورا ہونے تک کپڑا بچھائے رکھے گا ، پھر اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لے گا تو وہ میرے فرامین میں سے کچھ بھی نہیں بھولے گا ۔‘‘ میں نے دھاری دار چادر بچھا دی اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور کپڑا نہیں رہتا تھا ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب اپنی گفتگو مکمل فرمائی ، تو میں نے چادر کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! میں اس روز سے آج تک آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرامین سے کچھ نہیں بھولا ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5897

وَعَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ؟» فَقُلْتُ: بَلَى وَكُنْتُ لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَرَبَ يَدَهُ عَلَى صَدْرِي حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ يَدِهِ فِي صَدْرِي وَقَالَ: «اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا» . قَالَ فَمَا وَقَعْتُ عَنْ فَرَسِي بَعْدُ فَانْطَلَقَ فِي مِائَةٍ وَخَمْسِينَ فَارِسًا مِنْ أحمس فحرقها بالنَّار وَكسرهَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
جریر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا :’’ کیا تم مجھے ذوالخلصہ (بت) سے آرام نہیں پہنچاتے ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، کیوں نہیں ، ضرور ، لیکن میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا ، میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا حتیٰ کہ میں نے آپ کے ہاتھ کے اثرات اپنے سینے میں محسوس کئے ، اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اے اللہ ! اس کو (گھوڑے کی پشت پر) ثبات عطا فرما ، اسے ہدایت کی راہ دکھانے والا اور ہدایت یافتہ بنا ۔‘‘ وہ بیان کرتے ہیں ، اس کے بعد میں اپنے گھوڑے سے نہیں گرا ، وہ احمس قبیلے کے ڈیڑھ سو گھڑ سواروں کے ساتھ روانہ ہوئے اور اسے آگ کے ساتھ جلا دیا اور اسے توڑ دیا ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5898

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا كَانَ يَكْتُبُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَدَّ عَنِ الْإِسْلَامِ وَلَحِقَ بِالْمُشْرِكِينَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْأَرْضَ لَا تَقْبَلُهُ» . فَأَخْبَرَنِي أَبُو طَلْحَةَ أَنَّهُ أَتَى الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيهَا فَوَجَدَهُ مَنْبُوذًا فَقَالَ: مَا شَأْنُ هَذَا؟ فَقَالُوا: دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبَلْهُ الأَرْض. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے (وحی) لکھا کرتا تھا ، وہ اسلام سے مرتد ہو کر مشرکین سے جا ملا تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ زمین اسے قبول نہیں کرے گی ۔‘‘ ابوطلحہ ؓ نے مجھے بتایا کہ وہ شخص جس جگہ فوت ہوا تھا وہ وہاں گئے تو انہوں نے اسے سطح زمین پر پڑا ہوا دیکھا تو پوچھا : اس کا کیا معاملہ ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ہم نے اسے کئی مرتبہ دفن کیا مگر زمین (قبر) اسے قبول نہیں کرتی ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5899

وَعَن أبي أَيُّوب قا ل: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَجَبَتِ الشَّمْسُ فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ: «يَهُودُ تُعَذَّبَ فِي قبورها» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوایوب ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اس وقت سورج غروب ہو چکا تھا ، آپ نے ایک آواز سنی تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5900

وَعَن جَابر قا ل: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ فَلَمَّا كَانَ قُرْبَ الْمَدِينَةِ هَاجَتْ رِيحٌ تَكَادُ أَنْ تَدْفِنَ الرَّاكِبَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بُعِثَتْ هَذِهِ الرِّيحُ لِمَوْتِ مُنَافِقٍ» . فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ فَإِذَا عَظِيمٌ مِنَ الْمُنَافِقين قد مَاتَ. رَوَاهُ مُسلم
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک سفر سے واپس تشریف لائے ، جب آ پ مدینہ کے قریب پہنچے تو ایسی تند ہوا چلی ، قریب تھا کہ وہ سوار کو چھپا دیتی ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ یہ ہوا کسی منافق کی موت کے وقت چلائی گئی ہے ۔‘‘ آپ مدینہ پہنچے تو منافقوں کا ایک بڑا آدمی فوت ہو چکا تھا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5901

وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَدِمْنَا عُسْفَانَ فَأَقَامَ بِهَا لَيَالِيَ فَقَالَ النَّاس: مَا نَحن هَهُنَا فِي شَيْءٍ وَإِنَّ عِيَالَنَا لَخُلُوفٌ مَا نَأْمَنُ عَلَيْهِمْ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا فِي الْمَدِينَةِ شِعْبٌ وَلَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكَانِ يَحْرُسَانِهَا حَتَّى تَقْدَمُوا إِلَيْهَا» ثُمَّ قَالَ: «ارْتَحِلُوا» فَارْتَحَلْنَا وَأَقْبَلْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ فَوَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ مَا وَضَعْنَا رِحَالَنَا حِينَ دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ حَتَّى أَغَارَ عَلَيْنَا بَنُو عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ وَمَا يُهَيِّجُهُمْ قَبْلَ ذَلِكَ شَيْءٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے حتیٰ کہ ہم عسفان پہنچے تو آپ نے چند روز وہاں قیام فرمایا ، تو بعض (منافق) لوگوں نے کہا : یہاں تو ہم بلا مقصد ٹھہرے ہیں ، ہمارے اہل و عیال پیچھے ہیں ، ہمیں ان کا خطرہ ہے ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! مدینہ کی ہر گھاٹی اور ہر درے پر دو فرشتے پہرہ دے رہے ہیں حتیٰ کہ تم وہاں واپس چلے جاؤ ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ کوچ کرو ۔‘‘ ہم نے کوچ کیا اور مدینہ کی طرف واپس پلٹے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب ہم مدینہ میں داخل ہوئے تو ہم نے ابھی اپنا سامان نہیں اتارا تھا کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کر دیا ، اس سے پہلے کوئی چیز انہیں آمادہ نہیں کرتی تھی ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5902

وَعَن أنسٍ قَالَ أَصَابَت النَّاس سنَةٌ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم يخْطب فِي يَوْم جُمُعَة قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِيَالُ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا وَضَعَهَا حَتَّى ثَارَ السَّحَابُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِهِ حَتَّى رَأَيْت الْمَطَر يتحادر على لحيته صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فمطرنا يَوْمنَا ذَلِك وَمن الْغَد وَبعد الْغَد وَالَّذِي يَلِيهِ حَتَّى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى وَقَامَ ذَلِكَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ قَالَ غَيْرُهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَ الْبِنَاءُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَمَا يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ السَّحَابِ إِلَّا انْفَرَجَتْ وَصَارَتِ الْمَدِينَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ وَسَالَ الْوَادِي قَنَاةُ شَهْرًا وَلَمْ يَجِئْ أَحَدٌ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: «اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اللَّهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ» . قَالَ: فَأَقْلَعَتْ وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشّمسِ مُتَّفق عَلَيْهِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں لوگ قحط سالی کا شکار ہو گئے ، اس دوران کے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے ، ایک اعرابی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مال مویشی ہلاک ہو گئے ، بال بچے بھوک کا شکار ہو گئے ، اللہ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں ، آپ نے ہاتھ بلند فرمائے ، اس وقت ہم آسمان پر بادل کا ٹکڑا تک نہیں دیکھ رہے تھے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! آپ نے ابھی انہیں نیچے نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح بادل چھا گئے ، پھر آپ اپنے منبر سے نیچے نہیں اترے تھے کہ میں نے بارش کے قطرے آپ کی داڑھی مبارک پر گرتے ہوئے دیکھے ، اس روز اگلے روز یہاں تک کہ دوسرے جمعے تک بارش ہوتی رہی پھر دوسرے جمعہ کو وہی اعرابی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مکان گر گئے ، مال ڈوب گیا ، آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی :’’ اے اللہ ! ہمارے آس پاس بارش برسا ، ہم پر نہ برسا ۔‘‘ آپ بادلوں کے جس کونے کی طرف اشارہ فرماتے تو ادھر سے بادل چھٹ جاتا اور مدینہ حوض کی طرح بن چکا تھا ، جبکہ وادی قناۃ کا نالہ مہینہ بھر بہتا رہا ، اور مدینہ کے آس پاس سے جو بھی آتا وہ خوب سیرابی کی بات کرتا ۔ ایک دوسری روایت میں ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اے اللہ ہمارے آس پاس بارش برسا ، ہم پر نہ برسا ، اے اللہ ! ٹیلوں پر ، پہاڑوں پر ، وادیوں میں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر بارش برسا ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، بارش تھم گئی اور ہم نکلے تو ہم دھوپ میں چل رہے تھے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5903

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ اسْتَنَدَ إِلَى جِذْعِ نَخْلَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَلَمَّا صُنِعَ لَهُ الْمِنْبَرُ فَاسْتَوَى عَلَيْهِ صَاحَتِ النَّخْلَةُ الَّتِي كَانَ يَخْطُبُ عِنْدَهَا حَتَّى كَادَت تَنْشَقَّ فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَخَذَهَا فَضَمَّهَا إِلَيْهِ فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِينَ الصَّبِيِّ الَّذِي يُسَكَّتُ حَتَّى اسْتَقَرَّتْ قَالَ بَكَتْ عَلَى مَا كَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّكْرِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ مسجد کے ستونوں میں سے کھجور کے تنے کے ساتھ ٹیک لگایا کرتے تھے ، جب آپ کے لیے منبر بنا دیا گیا تو آپ اس پر کھڑے ہو گئے ، چنانچہ آپ جس کھجور کے تنے کے پاس خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے وہ چیخنے چلانے لگا : حتیٰ کہ قریب تھا کہ وہ پھٹ جاتا ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (منبر سے) نیچے اترے ، اسے پکڑا اور اسے اپنے ساتھ ملایا تو وہ اس بچے کی طرح رونے لگا جسے خاموش کرایا جاتا ہے ، حتیٰ کہ وہ خاموش ہو گیا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ وہ جو ذکر سنا کرتا تھا اب وہ اس سے محروم ہو گیا ہے اس لیے وہ رویا تھا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5904

وَعَن سَلمَة بن الْأَكْوَع أَنَّ رَجُلًا أَكَلَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَمَالِهِ فَقَالَ: «كُلْ بِيَمِينِكَ» قَالَ: لاأستطيع. قَالَ «لَا اسْتَطَعْتَ» . مَا مَنَعَهُ إِلَّا الْكِبْرُ قا ل: فَمَا رَفعهَا إِلَى فِيهِ. رَوَاهُ مُسلم
سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ ۔‘‘ اس نے کہا : میں طاقت نہیں رکھتا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تو استطاعت نہ رکھے ۔‘‘ اس شخص کو تکبر ہی نے روکا تھا ، راوی بیان کرتے ہیں ، وہ پھر اس (دائیں ہاتھ) کو اپنے منہ تک نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5905

وَعَن أنسٍ أَنَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَزِعُوا مَرَّةً فَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ بَطِيئًا وَكَانَ يَقْطِفُ فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ: «وَجَدْنَا فَرَسَكُمْ هَذَا بَحْرًا» . فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ لَا يُجَارَى وَفِي رِوَايَةٍ: فَمَا سُبِقَ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْم. رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ والے گھبراہٹ کا شکار ہو گئے ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر ، جس پر زین نہیں تھی ، سوار ہو گئے ، وہ سست رفتار تھا ، جب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لائے تو فرمایا :’’ ہم نے تمہارے اس گھوڑے کو دریا (یعنی تیز رفتار) پایا ۔‘‘ پھر اس کے بعد یہ گھوڑا کسی دوسرے گھوڑے کو قریب پھٹکنے نہیں دیتا تھا ، ایک دوسری روایت میں ہے : اس روز کے بعد کوئی گھوڑا اس کے آگے نہیں بڑھ سکا ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5906

وَعَن جابرٍ قَالَ: تُوُفِّيَ أَبِي وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَعَرَضْتُ عَلَى غُرَمَائه أَن يأخذو االتمر بِمَا عَلَيْهِ فَأَبَوْا فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي استُشهدَ يَوْم أحد وَترك عَلَيْهِ دَيْنًا كَثِيرًا وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَاءُ فَقَالَ لِيَ: اذْهَبْ فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَةٍ فَفَعَلْتُ ثُمَّ دَعَوْتُهُ فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ كَأَنَّهُمْ أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ طَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: «ادْعُ لِي أَصْحَابَكَ» . فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ عَنْ وَالِدِي أَمَانَتَهُ وَأَنَا أَرْضَى أَن يُؤدِّي الله أَمَانَة وَالِدي وَلَا أرجع إِلَى أَخَوَاتِي بِتَمْرَةٍ فَسَلَّمَ اللَّهُ الْبَيَادِرَ كُلَّهَا وَحَتَّى إِني أنظر إِلى البيدر الَّذِي كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّهَا لم تنقصُ تَمْرَة وَاحِدَة. رَوَاهُ البُخَارِيّ
جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت میرے والد فوت ہوئے تو وہ مقروض تھے ، میں نے ان کے قرض خواہوں کو پیش کش کی کہ وہ اس کے قرض کے برابر کھجوریں لے لیں ، لیکن انہوں نے انکار کر دیا ، میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ، آپ جانتے ہی ہیں کہ میرے والد غزوۂ احد میں شہید کر دیے گئے تھے ، اور انہوں نے بہت سا قرض چھوڑا ہے ، اور میں چاہتا ہوں کہ وہ قرض خواہ آپ کو (میرے ہاں) دیکھ لیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا :’’ جاؤ ہر قسم کی کھجور الگ الگ جمع کرو ۔‘‘ میں نے ایسے ہی کیا ، پھر آپ کو دعوت دی ، جب قرض خواہوں نے آپ کی طرف دیکھا تو مجھ پر سخت ناراض ہوئے ، جب آپ نے ان کا طرز عمل دیکھا تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے پھر اس پر بیٹھ گئے ، پھر فرمایا :’’ اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ ۔‘‘ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہیں ناپ کر ادا فرماتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے میرے والد کا سارا قرض ادا کر دیا اور میں خوش تھا کہ اللہ نے میرے والد کا قرض ادا فرما دیا ، اور (میرا خیال تھا کہ) میں اپنی بہنوں کے لیے ایک کھجور بھی لے کر نہ جا سکوں گا ، لیکن اللہ نے سارے ڈھیر بچا دیے حتیٰ کہ میں اس ڈھیر کی طرف ، جس پر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھے ہوئے تھے ، دیکھ رہا ہوں کہ وہ اسی طرح ہے کہ جس طرح اس سے ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5907

وَعَنْهُ قَالَ: إِنَّ أُمَّ مَالِكٍ كَانَتْ تُهْدِي لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُكَّةٍ لَهَا سَمْنًا فَيَأْتِيهَا بَنُوهَا فَيَسْأَلُونَ الْأُدُمَ وَلَيْسَ عِنْدَهُمْ شَيْءٌ فَتَعْمِدُ إِلَى الَّذِي كَانَتْ تُهْدِي فِيهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَجِدُ فِيهِ سَمْنًا فَمَا زَالَ يُقِيمُ لَهَا أُدُمَ بَيْتِهَا حَتَّى عَصَرَتْهُ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «عَصَرْتِيهَا» قَالَتْ نَعَمْ قَالَ: «لَوْ تَرَكْتِيهَا مَا زَالَ قَائِمًا» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ام مالک ؓ اپنے ایک مشکیزے میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گھی کا ہدیہ پیش کیا کرتی تھیں ، ان کے بیٹے ان کے پاس آتے اور سالن مانگتے اور ان کے پاس کچھ نہ ہوتا تو وہ اس مشکیزے کا قصد کرتیں جس میں وہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہدیہ بھیجا کرتی تھیں ، وہ اس میں گھی پاتیں ، اور ان کے گھر میں ہمیشہ ہی سالن رہا حتیٰ کہ اس نے اس (مشکیزے) کو نچوڑ لیا ، وہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ کیا تم نے اسے نچوڑ لیا ہے ؟‘‘ ام مالک ؓ نے عرض کیا : جی ہاں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اگر تم اسے چھوڑ دیتیں تو وہ ویسے ہی رہتا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5908

وَعَن أنسٍ قَالَ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ من شَيْء؟ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟» قُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْت أَبَا طَلْحَة فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ فَقَالَتْ اللَّهُ وَرَسُوله أعلم قَالَ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بذلك الْخبز فَأمر بِهِ ففت وعصرت أم سليم عكة لَهَا فأدمته ثمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثمَّ خَرجُوا ثمَّ أذن لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ لمُسلم أَنه قَالَ: «أذن لِعَشَرَةٍ» فَدَخَلُوا فَقَالَ: «كُلُوا وَسَمُّوا اللَّهَ» . فَأَكَلُوا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَكَ سُؤْرًا وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ قَالَ: «أَدْخِلْ عَلَيَّ عَشَرَةً» . حَتَّى عَدَّ أَرْبَعِينَ ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ هَلْ نَقَصَ مِنْهَا شَيْءٌ؟ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: ثُمَّ أَخَذَ مَا بَقِيَ فَجَمَعَهُ ثُمَّ دَعَا فِيهِ با لبركة فَعَاد كَمَا كَانَ فَقَالَ: «دونكم هَذَا»
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوطلحہ ؓ نے ام سلیم ؓ سے کہا : میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز کمزور سی سنی ہے ، جس سے میں نے بھوک کا اندازہ لگایا ہے ، کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ، انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں ، پھر اپنی اوڑھنی نکالی اور روٹیوں کو لپیٹ کر چادر کے ایک کونے میں باندھ کر میرے ہاتھ میں تھما دیا ، پھر مجھے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھیج دیا ، میں وہ لے کر چلا گیا ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مسجد میں پایا اور آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے ، میں نے انہیں سلام کیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا :’’ تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا :’’ کھانا دے کر ؟‘‘ میں نے عرض کیا : جی ہاں ! رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حاضرین سے فرمایا :’’ کھڑے ہو جاؤ ۔‘‘ آپ چلے اور میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا حتیٰ کہ میں نے ابوطلحہ ؓ کے پاس پہنچ کر انہیں بتایا تو ابوطلحہ ؓ نے فرمایا : ام سُلیم ! رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چند ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے ہیں ، جبکہ ہمارے پاس تو ایسی کوئی چیز نہیں جو انہیں کھلانے کے لیے پیش کر سکیں ، انہوں نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ، ابوطلحہ ؓ گئے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات کی ، پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابوطلحہ ؓ کے ساتھ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ام سلیم ! تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ لے آؤ ۔‘‘ وہ وہی روٹیاں لے آئیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرمان پر ان روٹیوں کو چورا کیا گیا اور ام سلیم ؓ نے ان پر گھی کا مشکیزہ نچوڑا اور اسے سالن بنایا ، پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کھانے کے بارے میں وہ دعا فرمائی جو اللہ تعالیٰ نے چاہی پھر فرمایا :’’ دس آدمیوں کو بلاؤ ، انہیں بلایا گیا انہوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا ، پھر وہ چلے گئے ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ دس کو بلاؤ ، اس طرح سب لوگوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا ، وہ ستر یا اسّی افراد تھے ۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ دس افراد کو بلاؤ ۔‘‘ وہ آئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ کا نام لے کر کھاؤ ۔‘‘ انہوں نے کھایا حتیٰ کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسّی افراد سے ایسے ہی فرمایا ، پھر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور گھر والوں نے کھایا اور کھانا بچ بھی گیا ۔ اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میرے پاس دس آدمی بھیجو ، حتیٰ کہ آپ نے چالیس افراد گنے ، پھر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھانا کھایا ، میں دیکھنے لگا کہ کیا اس میں کوئی کمی آتی ہے ؟ اور صحیح مسلم کی روایات میں ، پھر جو کھانا بچ گیا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اکٹھا کیا ، پھر اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو وہ جتنا تھا اتنا ہی ہو گیا ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اسے لے لو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5909

وَعنهُ قا ل: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ وَهُوَ بِالزَّوْرَاءِ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ قَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: كَمْ كُنْتُمْ؟ قَالَ: ثلاثمائةٍ أَو زهاءَ ثلاثمائةٍ. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زوراء کے مقام پر تھے کہ ایک برتن آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ، آپ نے اپنا دست مبارک برتن میں رکھا تو آپ کی انگلیوں سے پانی پھوٹنے لگا ، صحابہ کرام ؓ نے اس سے وضو کیا ، قتادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے انس ؓ سے پوچھا : تم کتنے تھے ؟ انہوں نے فرمایا ، تین سو یا تقریباً تین سو ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5910

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنَّا نَعُدُّ الْآيَاتِ بَرَكَةً وَأَنْتُمْ تَعُدُّونَهَا تَخْوِيفًا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَقَلَّ الْمَاءُ فَقَالَ: «اطْلُبُوا فَضْلَةً مِنْ مَاءٍ» فَجَاءُوا بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ قَلِيلٌ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ ثُمَّ قَالَ: «حَيَّ على الطَّهورِ الْمُبَارك وَالْبركَة من الله» فَلَقَد رَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَقَد كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم تو آیات و معجزات کو باعث برکت شمار کیا کرتے تھے جبکہ تم انہیں باعث تخویف سمجھتے ہو ، ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شریک سفر تھے کہ پانی کم پڑ گیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جو پانی بچ گیا ہے اسے لے کر آؤ ۔‘‘ وہ ایک برتن لائے جس میں تھوڑا سا پانی تھا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا دست مبارک برتن میں داخل فرمایا ، پھر فرمایا :’’ مبارک پانی حاصل کرو اور برکت اللہ کی طرف سے ہوئی ہے ۔‘‘ اور میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیوں سے پانی پھوٹتے ہوئے دیکھا ، اور کھانا کھانے کے دوران ہم کھانے کی تسبیح سنا کرتے تھے ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5911

وَعَن أبي قتادةَ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّكُمْ تَسِيرُونَ عَشِّيَتَكُمْ وَلَيْلَتَكُمْ وَتَأْتُونَ الْمَاءَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ غَدًا فَانْطَلَقَ النَّاسُ لَا يَلْوِي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ قَالَ أَبُو قَتَادَةَ فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ فَمَالَ عَنِ الطَّرِيقِ فَوَضَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ احْفَظُوا عَلَيْنَا صَلَاتَنَا فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالشَّمْسُ فِي ظَهْرِهِ ثُمَّ قَالَ ارْكَبُوا فَرَكِبْنَا فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ نَزَلَ ثُمَّ دَعَا بِمِيضَأَةٍ كَانَتْ معي فِيهَا شيءٌ من مَاء قَالَ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا وُضُوءًا دُونَ وُضُوءٍ قَالَ وَبَقِيَ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ ثُمَّ قَالَ احْفَظْ عَلَيْنَا مِيضَأَتَكَ فَسَيَكُونُ لَهَا نَبَأٌ ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ صَلَّى الْغَدَاةَ وَرَكِبَ وَرَكِبْنَا مَعَهُ فَانْتَهَيْنَا إِلَى النَّاسِ حِينَ امْتَدَّ النَّهَارُ وَحَمِيَ كُلُّ شَيْءٌ وَهُمْ يَقُولُونَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْنَا وَعَطِشْنَا فَقَالَ لَا هُلْكَ عَلَيْكُمْ وَدَعَا بِالْمِيضَأَةِ فَجَعَلَ يَصُبُّ وَأَبُو قَتَادَةَ يَسْقِيهِمْ فَلَمْ يَعْدُ أَنْ رَأَى النَّاسُ مَاءً فِي الْمِيضَأَةِ تَكَابُّوا عَلَيْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسِنُوا الْمَلَأَ كُلُّكُمْ سَيُرْوَى قَالَ فَفَعَلُوا فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُبُّ وَأَسْقِيهِمْ حَتَّى مَا بَقِيَ غَيْرِي وَغَيْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَبَّ فَقَالَ لِيَ اشْرَبْ فَقُلْتُ لَا أَشْرَبُ حَتَّى تَشْرَبَ يَا رَسُولَ الله قَالَ إِن ساقي الْقَوْم آخِرهم شربا قَالَ فَشَرِبْتُ وَشَرِبَ قَالَ فَأَتَى النَّاسُ الْمَاءَ جَامِّينَ رِوَاءً. رَوَاهُ مُسْلِمٌ هَكَذَا فِي صَحِيحِهِ وَكَذَا فِي كتاب الْحميدِي وجامع الْأُصُولِ وَزَادَ فِي الْمَصَابِيحِ بَعْدَ قَوْلِهِ آخِرُهُمْ لَفْظَة شربا
ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو اس میں فرمایا :’’ تم رات بھر سفر کرنے کے بعد ان شاء اللہ کل پانی تک پہنچ جاؤ گے ۔‘‘ صحابہ کرام ؓ چلتے گئے کوئی کسی طرف التفات نہیں کر رہا تھا ، ابوقتادہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر کر رہے تھے حتیٰ کہ آدھی رات ہو گئی تو آپ راستے سے ہٹ کر ایک جگہ سر مبارک رکھ کر سونے لگے اور فرمایا :’’ ہماری نماز کا خیال رکھنا ۔‘‘ سب سے پہلے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی بیدار ہوئے اس وقت سورج طلوع ہو چکا تھا ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ سواریوں پر سوار ہو جاؤ ۔‘‘ ہم سوار ہو گئے اور سفر شروع کر دیا حتیٰ کہ جب سورج بلند ہو گیا تو آپ نے پڑاؤ ڈالا ، پھر آپ نے پانی کا برتن منگایا جو کہ میرے پاس تھا ، اس میں کچھ پانی تھا ، آپ نے احتیاط کے ساتھ اس سے وضو فرمایا ، راوی بیان کرتے ہیں ، اس میں تھوڑا سا پانی بچ گیا ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ہمارے لیے اس پانی کی حفاظت کرو ، عنقریب اس برتن کو بڑی عظمت حاصل ہو گی ۔‘‘ پھر بلال ؓ نے نماز کے لیے اذان دی تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں ، پھر نماز فجر ادا کی ، آپ سوار ہوئے تو ہم بھی آپ کے ساتھ ہی سوار ہو گئے ، اور ہم لوگوں کے پاس پہنچے تو دن اچھی طرح چڑھ چکا تھا اور ہر چیز گرم ہو چکی تھی ، لوگ کہہ رہے تھے : اللہ کے رسول ! ہم (لُو کی وجہ سے) ہلاک ہو گئے اور پیاسے ہو گئے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تم ہلاک نہیں ہو گے ۔‘‘ آپ نے پانی کا برتن منگایا ، آپ انڈیل رہے تھے اور ابوقتادہ ؓ انہیں پلا رہے تھے ، لوگوں نے پانی کا برتن دیکھا تو وہ اس پر جھک گئے (امڈ آئے) رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اپنے اخلاق سنوارو ، تم سب سیراب ہو جاؤ گے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، انہوں نے تعمیل کی تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انڈیل رہے تھے اور میں انہیں پلا رہا تھا ، حتیٰ کہ میں اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی باقی رہ گئے ، پھر آپ نے پانی انڈیلا اور مجھے فرمایا :’’ پیو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں آپ سے پہلے نہیں پیوں گا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ لوگوں کو پلانے والا سب سے آخر پر پیتا ہے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، میں نے پیا اور پھر آپ نے پیا ، راوی بیان کرتے ہیں ، لوگ سیراب ہو کر راحت کے ساتھ پانی پر آئے ۔ رواہ مسلم ۔ اسی طرح صحیح مسلم میں ہے اور کتاب الحمیدی اور جامع الاصول میں اسی طرح ہے ، اور مصابیح میں لفظ ((آخرھم)) کے بعد لفظ ((شربا)) کا اضافہ ہے ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5912

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ غزوةِ تَبُوك أصابَ النَّاس مجاعةٌ فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُهُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ ثُمَّ ادْعُ اللَّهَ لَهُمْ عَلَيْهًا بِالْبَرَكَةِ فَقَالَ: نعم قَالَ فَدَعَا بِنِطَعٍ فَبُسِطَ ثُمَّ دَعَا بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِكَفِّ ذُرَةٍ وَيَجِيءُ الْآخَرُ بِكَفِّ تَمْرٍ وَيَجِيءُ الْآخَرُ بِكِسْرَةٍ حَتَّى اجْتَمَعَ عَلَى النِّطَعِ شَيْءٌ يَسِيرٌ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَرَكَةِ ثُمَّ قَالَ خُذُوا فِي أوعيتكم فَأَخَذُوا فِي أَوْعِيَتِهِمْ حَتَّى مَا تَرَكُوا فِي الْعَسْكَر وعَاء إِلا ملؤوه قَالَ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَفَضَلَتْ فَضْلَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ لَا يَلْقَى اللَّهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرُ شاكٍّ فيحجبَ عَن الْجنَّة» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوۂ تبوک کے موقع پر صحابہ کرام ؓ سخت بھوک کا شکار ہو گئے تو عمر ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ان سے زائد زادِ راہ طلب فرمائیں پھر اللہ سے ان کے لیے اس میں برکت کی دعا فرمائیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ہاں ، ٹھیک ہے ۔‘‘ آپ نے چمڑے کا دسترخوان منگایا ، اسے بچھا دیا گیا ، پھر آپ نے ان سے بچا ہوا زادِ راہ طلب فرمایا ، کوئی آدمی مٹھی بھر مکئی لایا ، کوئی مٹھی بھر کھجور لایا ، اور کوئی روٹی کا ٹکڑا لایا ، حتیٰ کہ دسترخوان پر تھوڑی سی چیز جمع ہو گئی تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے برکت کے لیے دعا فرمائی پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اپنے برتن بھر لو ۔‘‘ انہوں نے اپنے برتن بھر لیے حتیٰ کہ انہوں نے لشکر کے تمام برتن بھر لیے ، راوی بیان کرتے ہیں ، انہوں نے خوب سیر ہو کر کھایا حتیٰ کہ کھانا بچ بھی گیا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، جو شخص یقین کے ساتھ شہادتین کا اقرار کرتا ہے تو وہ جنت سے نہیں روکا جائے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5913

وَعَن أَنَسٍ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا بِزَيْنَبَ فَعَمَدَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى تَمْرٍ وَسَمْنٍ وَأَقِطٍ فَصَنَعَتْ حَيْسًا فَجَعَلَتْهُ فِي تَوْرٍ فَقَالَتْ يَا أَنَسُ اذْهَبْ بِهَذَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْ بَعَثَتْ بِهَذَا إِلَيْكَ أُمِّي وَهِيَ تُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَتَقُولُ إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ الله قَالَ فَذَهَبْتُ فَقُلْتُ فَقَالَ ضَعْهُ ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا رِجَالًا سَمَّاهُمْ وَادْعُ مَنْ لَقِيتَ فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّى وَمَنْ لَقِيتُ فَرَجَعْتُ فَإِذَا الْبَيْتُ غَاصٌّ بِأَهْلِهِ قِيلَ لأنس عدد كم كَانُوا؟ قَالَ زهاء ثَلَاث مائَة. فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى تِلْكَ الْحَيْسَةِ وَتَكَلَّمَ بِمَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ جَعَلَ يَدْعُو عَشَرَةً عَشَرَةً يَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَقُول لَهُم: «اذْكروا اسْم الله وليأكلْ كُلُّ رَجُلٍ مِمَّا يَلِيهِ» قَالَ: فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا. فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ حَتَّى أَكَلُوا كُلُّهُمْ قَالَ لِي يَا أَنَسُ ارْفَعْ. فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ وَضَعْتُ كَانَ أَكْثَرَ أَمْ حِين رفعت. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زینب ؓ سے شادی ہوئی تو میری والدہ ام سلیم ؓ نے کھجور ، گھی اور پنیر لے کر حیس بنایا اور اسے ہنڈیا جیسے برتن میں رکھا ، اور فرمایا : انس ! اسے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے جاؤ ، اور انہیں کہو : اسے میری والدہ نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے اور وہ آپ کو سلام عرض کرتی ہیں ، اور انہوں نے یہ بھی عرض کیا ہے کہ اللہ کے رسول ! یہ ہماری طرف سے آپ کی خدمت میں قلیل (یعنی حقیر) سا ہدیہ ہے ، میں گیا ، اور عرض کیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اسے رکھ دو ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ جاؤ ! فلاں فلاں اور فلاں شخص کو بلا لاؤ ۔‘‘ اور آپ نے ان کے نام بھی بتائے ’’ اور جو بھی تجھے ملے اسے بلا لاؤ ۔‘‘ آپ نے جن کے نام بتائے تھے ، میں انہیں اور جو لوگ راستے میں مجھے ملے تو میں انہیں بلا لایا ، میں واپس آیا تو گھر بھر چکا تھا ، انس ؓ سے دریافت کیا گیا : تم کتنے لوگ تھے ؟ انہوں نے فرمایا : تقریباً تین سو ، میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اس حیسہ (حلوے) میں اپنا دست مبارک رکھا اور جو اللہ نے چاہا وہ دعا فرمائی ، پھر آپ دس دس آدمیوں کو بلاتے رہے اور وہ اس سے کھاتے رہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہیں فرماتے :’’ اللہ کا نام لو ، اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، ان سب نے خوب سیر ہو کر کھا لیا ، ایک گروہ نکلتا تو دوسرا گروہ داخل ہو جاتا ، حتیٰ کہ ان سب نے کھا لیا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا :’’ انس ! (اسے) اٹھا لو ۔‘‘ میں نے اٹھا لیا ، میں نہیں جانتا کہ جب میں نے (حیس) رکھا تھا تب زیادہ تھا یا جب میں نے اٹھایا تھا تب زیادہ تھا ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5914

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنا على نَاضِح لنا قَدْ أَعْيَا فَلَا يَكَادُ يَسِيرُ فَتَلَاحَقَ بِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لي مَا لبعيرك قلت: قدعيي فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فزجره ودعا لَهُ فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الْإِبِلِ قُدَّامَهَا يسير فَقَالَ لي كَيفَ ترى بعيرك قَالَ قُلْتُ بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَكَتُكَ قَالَ أَفَتَبِيعُنِيهِ بِوُقِيَّةٍ. فَبِعْتُهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ حَتَّى الْمَدِينَةِ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ غَدَوْتُ عَلَيْهِ بِالْبَعِيرِ فَأَعْطَانِي ثمنَهُ وردَّهُ عَليّ. مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شریک تھا ، میں پانی لانے والے ایک اونٹ پر سوار تھا ، وہ تھک چکا تھا اور وہ چلنے کے قابل نہیں رہا تھا ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے تو فرمایا :’’ تیرے اونٹ کو کیا ہوا ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، وہ تھک چکا ہے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پیچھے گئے اور اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا فرمائی ، پھر وہ دوسرے اونٹوں کے آگے آگے چلتا رہا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا :’’ تمہارے اونٹ کا کیا حال ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا : بہتر ہے ، آپ کی برکت کا اس پر اثر ہو گیا ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ کیا تم اسے چالیس درہم کے بعوض بیچو گے ؟‘‘ میں نے اس شرط پر اسے بیچ دیا کہ مدینہ تک میں اسی پر سفر کروں گا ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ پہنچے تو اگلے روز میں اونٹ لے کر حاضر خدمت ہوا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اس کی قیمت عطا فرما دی وہ اونٹ بھی مجھے واپس دے دیا ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5915

وَعَن أبي حميد السَّاعِدِيّ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ فَأَتَيْنَا وَادِيَ الْقُرَى عَلَى حَدِيقَةٍ لِامْرَأَةٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْرُصُوهَا» فَخَرَصْنَاهَا وَخَرَصَهَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ أَوْسُقٍ وَقَالَ: «أَحْصِيهَا حَتَّى نَرْجِعَ إِلَيْكِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ» وَانْطَلَقْنَا حَتَّى قَدِمْنَا تَبُوكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَهُبُّ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُمْ فِيهَا أَحَدٌ مِنْكُم فَمَنْ كَانَ لَهُ بَعِيرٌ فَلْيَشُدَّ عِقَالَهُ» فَهَبَّتْ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَقَامَ رَجُلٌ فَحَمَلَتْهُ الرِّيحُ حَتَّى أَلْقَتْهُ بِجَبَلَيْ طَيِّئٍ ثُمَّ أَقْبَلْنَا حَتَّى قَدِمْنَا وَادِيَ الْقُرَى فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْأَةُ عَنْ حَدِيقَتِهَا كَمْ بَلَغَ ثَمَرهَا فَقَالَت عشرَة أوسق. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوحمید ساعدی ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے ، ہم وادی قریٰ میں ایک عورت کے باغ کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اس (کے پھلوں) کا اندازہ لگاؤ ۔‘‘ ہم نے اندازہ لگایا اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا دس وسق کا اندازہ لگایا ، اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اس کو یاد رکھنا حتیٰ کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم تمہارے پاس واپس آئیں گے ۔‘‘ اور ہم چلتے گئے حتیٰ کہ ہم تبوک پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی ، اس میں کوئی شخص کھڑا نہ ہو اور جس شخص کے پاس اونٹ ہو تو وہ اسے باندھ لے ۔‘‘ زور کی آندھی چلی ، ایک آدمی کھڑا ہوا تو آندھی نے اسے اٹھا کر جبل طیئ پر جا پھینکا ۔ پھر ہم واپس آئے حتیٰ کہ ہم وادی قریٰ پہنچے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس عورت سے اس کے باغ کے پھل کے متعلق پوچھا کہ ’’ اس کے پھل کتنے ہوئے تھے ؟‘‘ اس نے عرض کیا : دس وسق ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5916

وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكُمْ سَتَفْتَحُونَ مِصْرَ وَهِيَ أَرْضٌ يُسَمَّى فِيهَا الْقِيرَاطُ فَإِذَا فَتَحْتُمُوهَا فَأَحْسِنُوا إِلَى أَهْلِهَا فَإِنَّ لَهَا ذِمَّةً وَرَحِمًا أَوْ قَالَ: ذِمَّةً وَصِهْرًا فَإِذَا رَأَيْتُمْ رَجُلَيْنِ يَخْتَصِمَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ فَاخْرُجْ مِنْهَا . قَالَ: فَرَأَيْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بن شُرَحْبِيل بن حَسَنَة وأخاه يَخْتَصِمَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ فَخَرَجْتُ مِنْهَا. رَوَاهُ مُسلم
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تم عنقریب مصر فتح کرو گے ، اور وہ ایسی سرزمین ہے جس کی کرنسی قراط ہے ۔ جب تم اسے فتح کر لو تو وہاں کے باشندوں سے حسن سلوک کرنا ۔ کیونکہ انہیں حرمت اور قرابت کا حق حاصل ہے ۔‘‘ یا فرمایا :’’ انہیں حرمت اور رشتہ سسرال کا حق حاصل ہے ۔ اور جب تم دو آدمیوں کو اینٹ برابر جگہ پر جھگڑا کرتے ہوئے دیکھو تو وہاں سے کوچ کر جانا ۔‘‘ اور میں نے عبد الرحمن بن شرحبیل بن حسنہ اور اس کے بھائی ربیعہ کو ایک اینٹ برابر پر جھگڑا کرتے ہوئے دیکھا تو میں وہاں سے نکل آیا ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5917

وَعَنْ حُذَيْفَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فِي أَصْحَابِي وَفِي رِوَايَة قا ل: فِي أُمَّتِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدُونَ رِيحَهَا حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سم الْخياط ثَمَانِيَة مِنْهُم تَكُ (فيهم الدُّبَيْلَةُ: سِرَاجٌ مِنْ نَارٍ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ حَتَّى تَنْجُمَ فِي صُدُورِهِمْ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَسَنَذْكُرُ حَدِيثَ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: «لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا» فِي «بَابِ مَنَاقِبِ عَلِيٍّ» رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَحَدِيثَ جَابِرٍ «مَنْ يَصْعَدُ الثَّنِيَّةَ» فِي «بَابِ جَامِعِ الْمَنَاقِبِ» إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى
حذیفہ ؓ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میرے صحابہ میں ۔‘‘ ایک روایت میں ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میری امت میں بارہ منافق ہوں گے وہ جنت میں داخل ہوں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے ، حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گزر جائے ۔ ان میں سے آٹھ کو تو وہ پھوڑا ہی کافی ہے ، (اس کے علاوہ) آگ کا ایک شعلہ جو ان کے کندھوں کے درمیان ظاہر ہو گا حتیٰ کہ اس کی حرارت کا اثر ان کے سینوں (یعنی دلوں) پر محسوس ہو گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔ اور ہم سہل بن سعد ؓ سے مروی حدیث : ((لأ عطین ھذا الرأیۃ غدا)) باب مناقب علی ؓ اور جابر ؓ سے مروی حدیث ((من یصعد الشنیۃ)) باب جامع المناقب میں ان شاء اللہ تعالیٰ ذکر کریں گے ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5918

عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَى الشَّام وَخرج مَعَه النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَى الرَّاهِبِ هَبَطُوا فَحَلُّوا رِحَالَهُمْ فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ وَكَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ يَمُرُّونَ بِهِ فَلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ قَالَ فَهُمْ يَحُلُّونَ رِحَالَهُمْ فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ حَتَّى جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِينَ هَذَا رسولُ ربِّ الْعَالِمِينَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْعَالِمِينَ فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ مَا عِلْمُكَ فَقَالَ إِنَّكُمْ حِينَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ كَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَّاحَةِ ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ وَكَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الْإِبِلِ فَقَالَ أَرْسِلُوا إِلَيْهِ فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْم وجدهم قد سَبَقُوهُ إِلَى فَيْء الشَّجَرَة فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيْءُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ فَقَالَ انْظُرُوا إِلَى فَيْءِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ فَقَالَ أنْشدكُمْ بِاللَّه أَيُّكُمْ وَلِيُّهُ قَالُوا أَبُو طَالِبٍ فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّى رَدَّهُ أَبُو طَالِبٍ وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُو بَكْرٍ بِلَالًا وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْكَعْكِ وَالزَّيْت. (علق الشَّيْخ أَن ذكر بِلَال فِي الحَدِيث خطأ إِذْ لم يكن خلق بعد)
ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں ابوطالب ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ قریش کے اکابرین کی معیت میں شام کے لیے روانہ ہوئے ، جب وہ راہب کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس کے ہاں پڑاؤ ڈال کر اپنی سواریوں کے کجاوے کھول دیے ، اتنے میں راہب ان کے پاس آیا ، وہ اس سے پہلے بھی یہاں سے گزرا کرتے تھے ، لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا ، راوی بیان کرتے ہیں ، وہ اپنی سواریوں کے کجاوے اتار رہے تھے تو راہب ان کے درمیان کسی کو تلاش کرتا پھر رہا تھا حتیٰ کہ وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچ گیا ، اس نے آپ کا دست مبارک پکڑ کر کہا : یہ سید العالمین ہیں ، یہ رب العالمین کے رسول ہیں ، اللہ انہیں رحمتہ للعالمین بنا کر مبعوث فرمائے گا ۔ اس پر اکابرین قریش نے پوچھا : تمہارے علم کی بنیاد کیا ہے ؟ اس نے کہا : جب تم گھاٹی پر چڑھے تو ہر شجر و حجر آپ کے سامنے جھک گیا ، اور وہ صرف کسی نبی کی خاطر ہی جھکتے ہیں ، اور میں مہر نبوت سے بھی انہیں پہچانتا ہوں جو ان کے شانے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مانند ہے ، پھر وہ واپس گیا اور ان کے لیے کھانے کا اہتمام کیا ، جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو اس وقت آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اونٹوں کی چراگاہ میں تھے ، اس نے کہا : انہیں بلا بھیجو ، جب آپ تشریف لائے تو بادل کا ٹکڑا آپ پر سایہ فگن تھا ، جب آپ اکیلے قوم کے پاس آئے تو وہ لوگ آپ سے پہلے ہی درخت کے سایہ میں جا چکے تھے ۔ جب آپ بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ جھک گیا ، اس نے کہا : درخت کے سائے کو دیکھو کہ وہ ان پر جھک گیا ہے ، اس نے کہا : میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں سے ان کا سرپرست کون ہے ؟ انہوں نے بتایا ، ابوطالب ، وہ مسلسل ان کو قسم دیتا رہا (کہ آپ انہیں واپس لے جائیں) حتیٰ کہ ابوطالب نے انہیں واپس بھیج دیا ، اور ابوبکر نے بلال کو آپ کے ساتھ روانہ کیا ، اور راہب نے روٹی اور زیتون بطور زادراہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عطا کیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5919

وَعَنْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُولُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ والدارمي
علی بن ابی طالب ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مکہ میں موجود تھا ، ہم اس کی ایک جانب نکلے تو سامنے آنے والا ہر شجر و حجر کہہ رہا تھا : اللہ کے رسول ! السلام علیکم ! اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5920

وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرجاً فاستصعب عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيل: أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا؟ قَالَ: فَمَا رَكِبَكَ أَحَدٌ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْهُ قَالَ: فَارْفَضَّ عَرَقًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
انس ؓ سے روایت ہے کہ معراج کی رات نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس براق لائی گئی جسے لگام ڈالی گئی تھی اور اس پر زین سجائی گئی تھی ، اس نے آپ کے بیٹھنے میں رکاوٹ پیدا کی تو جبریل ؑ نے اسے فرمایا : کیا تم محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ یہ سلوک کرتی ہو ؟ اللہ کے ہاں ان سے بڑھ کر معزز کسی شخصیت نے تجھ پر سواری نہیں کی ہو گی ۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ (یہ سن کر) وہ (براق) پسینے سے شرابور ہو گئی ۔ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5921

وَعَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ جِبْرِيل بِأُصْبُعِهِ فَخَرَقَ بِهَا الْحَجَرَ فَشَدَّ بِهِ الْبُرَاقَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبریل نے اپنی انگلی سے اشارہ فرمایا تو اس کے ساتھ پتھر میں سوراخ کر دیا اور اس کے ساتھ براق کو باندھ دیا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5922

وَعَن يعلى بن مرَّةَ الثَّقفي قَالَ ثَلَاثَةُ أَشْيَاءَ رَأَيْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَه إِذ مَرَرْنَا بِبَعِير يُسْنَى عَلَيْهِ فَلَمَّا رَآهُ الْبَعِيرُ جَرْجَرَ فَوَضَعَ جِرَانَهُ فَوَقَفَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَيْنَ صَاحِبُ هَذَا الْبَعِيرِ فَجَاءَهُ فَقَالَ بِعْنِيهِ فَقَالَ بَلْ نَهَبُهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنَّهُ لِأَهْلِ بَيْتٍ مَا لَهُمْ مَعِيشَةٌ غَيْرُهُ قَالَ أَمَا إِذْ ذَكَرْتَ هَذَا مِنْ أَمْرِهِ فَإِنَّهُ شَكَا كَثْرَةَ الْعَمَلِ وَقِلَّةَ العلفِ فَأحْسنُوا إِلَيْهِ قَالَ ثمَّ سرنا فنزلنا مَنْزِلًا فَنَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَتْ شَجَرَةٌ تَشُقُّ الْأَرْضَ حَتَّى غَشِيَتْهُ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَى مَكَانِهَا فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُكِرَتْ لَهُ فَقَالَ هِيَ شجرةٌ استأذَنَتْ ربّها عز وَجل أَنْ تُسَلِّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنَ لَهَا قَالَ ثُمَّ سِرْنَا فَمَرَرْنَا بِمَاءٍ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ بِابْنٍ لَهَا بِهِ جِنَّةٌ فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بمنخره فَقَالَ اخْرُج إِنِّي مُحَمَّد رَسُول الله قَالَ ثمَّ سرنا فَلَمَّا رَجعْنَا من سفرنا مَرَرْنَا بِذَلِكَ الْمَاءِ فَسَأَلَهَا عَنِ الصَّبِيِّ فَقَالَتْ وَالَّذِي بَعثك بِالْحَقِّ مَا رأَينا مِنْهُ رَيباً بعْدك. رَوَاهُ فِي شرح السّنة
یعلی بن مرہ ثقفی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تین معجزات دیکھے ، ہم سفر کر رہے تھے کہ ہم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے اس پر پانی لایا جاتا تھا ، جب اس اونٹ نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو وہ بلبلا اٹھا اور اپنی گردن (زمین پر) رکھ دی ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں ٹھہر گئے اور فرمایا :’’ اس اونٹ کا مالک کہاں ہے ؟‘‘ وہ آپ کی خدمت میں آیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اسے مجھے فروخت کر دو ۔‘‘ اس نے عرض کیا ، نہیں ، ہم اللہ کے رسول ! آپ کو ویسے ہی ہبہ کر دیتے ہیں ، لیکن عرض یہ ہے کہ یہ جس گھرانے کا ہے ان کی معیشت کا انحصار صرف اسی پر ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ سن لے جب تو نے اس کی یہ صورت بیان کی تو اس نے کثرت عمل اور قلت خوراک کی شکایت کی تھی تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔‘‘ پھر ہم نے سفر شروع کیا حتیٰ کہ ہم نے ایک جگہ قیام کیا تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سو گئے ، ایک درخت زمین پھاڑتا ہوا آیا حتیٰ کہ اس نے آپ کو ڈھانپ لیا ، اور پھر واپس اپنی جگہ پر چلا گیا ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہوئے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ یہ وہ درخت ہے جس نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کرے لہذا اسے اجازت دی گئی ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں : پھر ہم نے سفر شروع کیا تو ہم پانی کے قریب سے گزرے وہاں ایک عورت اپنے مجنون بیٹے کو لے کر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اس کی ناک سے پکڑ کر فرمایا :’’ نکل جا ، کیونکہ میں محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اللہ کا رسول ہوں ۔‘‘ پھر ہم نے سفر شروع کر دیا ، جب ہم واپس آئے اور اسی پانی کے مقام سے گزرے تو آپ نے اس عورت سے اس بچے کے متعلق دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! ہم نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد اس کی طرف سے کوئی ناگوار چیز نہیں دیکھی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5923

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ بابنٍ لَهَا إِلى رَسُول اللَّهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يارسول اللَّهِ إِنَّ ابْنِي بِهِ جُنُونٌ وَأَنَّهُ لَيَأْخُذُهُ عِنْدَ غَدَائِنَا وَعَشَائِنَا (فَيَخْبُثُ عَلَيْنَا) فَمَسَحَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ وَدَعَا فَثَعَّ ثَعَّةً وَخَرَجَ مِنْ جَوْفِهِ مِثْلُ الجرو الْأسود يسْعَى. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک عورت اپنا بیٹا لے کر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میرے بیٹے کو جنون ہے ، اور اسے صبح و شام اس کا دورہ پڑتا ہے ۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی تو اس نے ایک زور دار قے کی تو اس کے پیٹ سے کالے کتے کا پلا دوڑتا ہوا نکل گیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5924

وَعَن أنس بن مَالك قَالَ جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالس حَزِين وَقد تخضب بِالدَّمِ من فعل أهل مَكَّة من قُرَيْش فَقَالَ جِبْرِيل يَا رَسُول الله هَل تحب أَن أريك آيَةً قَالَ نَعَمْ فَنَظَرَ إِلَى شَجَرَةٍ مِنْ وَرَائِهِ فَقَالَ ادْعُ بِهَا فَدَعَا بِهَا فَجَاءَتْ وَقَامَت بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ مُرْهَا فَلْتَرْجِعْ فَأَمَرَهَا فَرَجَعَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حسبي حسبي. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، جبریل ؑ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تشریف لائے جبکہ آپ غمگین بیٹھے ہوئے تھے اور آپ مکہ والوں کے ناروا سلوک سے خون سے رنگین ہو چکے تھے ، انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ ہم آپ کو ایک نشانی دکھائیں ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ جبریل ؑ نے آپ کے پیچھے سے ایک درخت دیکھا ، اور فرمایا : اسے بلائیں ، آپ نے اسے بلایا تو وہ آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا ، پھر آپ نے کہا : اسے واپس جانے کا حکم فرمائیں ، انہوں نے اسے حکم فرمایا تو وہ واپس چلا گیا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5925

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَقْبَلَ أَعْرَابِي فَلَمَّا دنا مِنْهُ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولَهُ قَالَ وَمَنْ يَشْهَدُ عَلَى مَا تَقُولُ؟ قَالَ: «هَذِهِ السَّلَمَةُ» فَدَعَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِشَاطِئِ الْوَادِي فَأَقْبَلَتْ تَخُدُّ الْأَرْضَ حَتَّى قَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ فَاسْتَشْهِدْهَا ثَلَاثًا فَشَهِدَتْ ثَلَاثًا أَنَّهُ كَمَا قَالَ ثُمَّ رجعتْ إِلى منبتِها. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے ، ایک اعرابی آیا ، جب وہ قریب آ گیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا :’’ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘ اس نے کہا ، آپ جو فرما رہے ہیں اس پر کون گواہی دیتا ہے ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ یہ خار دار درخت ۔‘‘ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بلایا اور وہ وادی کے کنارے پر تھا ، وہ زمین پھاڑتا ہوا آیا حتیٰ کہ وہ آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔ آپ نے اس سے تین مرتبہ گواہی طلب کی تو اس نے تین مرتبہ گواہی دی کہ آپ کی شان وہی ہے جیسے کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے ، پھر وہ اپنی اگنے کی جگہ پر چلا گیا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5926

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بِمَا أَعْرِفُ أَنَّكَ نَبِيٌّ؟ قَالَ: «إِنْ دَعَوْتَ هَذَا الْعِذْقَ مِنْ هَذِهِ النَّخْلَةِ يَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ» فَدَعَاهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتَّى سَقَطَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «ارْجِعْ» فَعَادَ فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَصَححهُ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک اعرابی رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور اس نے عرض کیا ، مجھے کس طرح پتہ چلے کہ آپ نبی ہیں ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اگر میں کھجور کے اس درخت سے اس خوشے کو بلاؤں اور وہ گواہی دے کہ میں اللہ کا رسول ہوں (تو پھر ٹھیک ہے) ۔‘‘ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بلایا تو وہ کھجور کے درخت سے اتر کر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش ہو گیا ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ واپس چلے جاؤ ۔‘‘ وہ واپس چلا گیا ، اور اعرابی نے اسلام قبول کر لیا ۔ ترمذی ، اور انہوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5927

وَعَن أبي هريرةَ قَالَ جَاءَ ذِئْبٌ إِلَى رَاعِي غَنَمٍ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً فَطَلَبَهُ الرَّاعِي حَتَّى انْتَزَعَهَا مِنْهُ قَالَ فَصَعِدَ الذئبُ على تل فأقعى واستذفر فَقَالَ عَمَدت إِلَى رزق رزقنيه الله عز وَجل أخذتُه ثمَّ انتزعتَه مِنِّي فَقَالَ الرَّجُلُ تَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ ذئبا يَتَكَلَّمُ فَقَالَ الذِّئْبُ أَعْجَبُ مِنْ هَذَا رَجُلٌ فِي النَّخَلَاتِ بَيْنَ الْحَرَّتَيْنِ يُخْبِرُكُمْ بِمَا مَضَى وَبِمَا هُوَ كَائِن بعدكم وَكَانَ الرجل يَهُودِيّا فجَاء الرجل إِلَى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَأسلم وَخَبره فَصَدَّقَهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا أَمارَة من أَمَارَاتٌ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ قَدْ أَوْشَكَ الرَّجُلُ أَن يخرج فَلَا يرجع حَتَّى تحدثه نعلاه وَسَوْطه مَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ . رَوَاهُ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک بھیڑیا بکریوں کے ریوڑ کے چرواہے کے پاس آیا اور اس نے وہاں سے ایک بکری اٹھا لی ، چرواہے نے اس کا پیچھا کیا حتیٰ کہ اس کو اس سے چھڑا لیا ، راوی بیان کرتے ہیں ، بھیڑیا ایک ٹیلے پر چڑھ گیا ، اور وہاں سرین کے بل بیٹھ گیا اور دم دونوں پاؤں کے درمیان داخل کر لی ، پھر اس نے کہا : میں نے روزی کا قصد کیا جو اللہ نے مجھے عطا کی تھی اور میں نے اسے حاصل کر لیا تھا ، مگر تو نے اسے مجھ سے چھڑا لیا ۔ اس آدمی نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے آج کے دن کی طرح کوئی بھیڑیا بولتے ہوئے نہیں دیکھا ، بھیڑیے نے کہا : اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ آدمی (محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) جو دو پہاڑوں کے درمیان واقع نخلستان (مدینہ) میں رہتا ہے ، وہ تمہیں ماضی اور حال کے واقعات کے متعلق بتاتا ہے ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، وہ شخص یہودی تھا ، وہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا تو اس نے اس واقعہ کے متعلق آپ کو بتایا اور اسلام قبول کر لیا ۔ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی ، پھر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ یہ قیامت سے پہلے کی نشانیاں ہیں ، قریب ہے کہ آدمی (گھر سے) نکلے ، پھر وہ واپس آئے تو اس کے جوتے اور اس کا کوڑا اسے ان حالات کے متعلق بتائیں جو اس کے بعد اس کے اہل خانہ کے ساتھ پیش آئے ہوں ۔‘‘ صحیح ، رواہ فی شرح السنہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5928

وَعَنْ أَبِي الْعَلَاءِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَتَدَاوَلُ مِنْ قَصْعَةٍ مِنْ غُدْوَةٍ حَتَّى اللَّيْلِ يَقُومُ عَشَرَةٌ وَيَقْعُدُ عَشَرَةٌ قُلْنَا: فَمِمَّا كَانَتْ تُمَدُّ؟ قَالَ: مِنْ أَيْ شَيْءٍ تَعْجَبُ؟ مَا كَانَت تمَدّ إِلا من هَهنا وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى السَّمَاءِ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ
ابوالعلاء ، سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : ہم نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک برتن سے دن بھر باری باری تناول کرتے رہے ، وہ اس طرح کہ دس کھا جاتے اور دس آ جاتے ۔ ہم نے کہا : کہاں سے بڑھایا جا رہا تھا ؟ انہوں (سمرہ ؓ) نے فرمایا : تم کس چیز سے تعجب کرتے ہو ؟ اس میں اضافہ تو اس طرف سے ہو رہا تھا ، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5929

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ بَدْرٍ فِي ثَلَاثِمِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ حُفَاةٌ فَاحْمِلْهُمْ اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ عُرَاةٌ فَاكْسُهُمْ اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ جِيَاعٌ فَأَشْبِعْهُمْ» فَفَتَحَ اللَّهُ لَهُ فَانْقَلَبُوا وَمَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَقَدْ رَجَعَ بِجَمَلٍ أَوْ جَمَلَيْنِ وَاكْتَسَوْا وَشَبِعُوا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدر کے روز تین سو پندرہ صحابہ کرام کے ساتھ روانہ ہوئے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اے اللہ ! یہ ننگے پاؤں ہیں تو انہیں سواری عطا فرما ، اے اللہ ! یہ ننگے بدن ہیں تو انہیں لباس عطا فرما ، اے اللہ ! یہ بھوک کا شکار ہیں تو انہیں شکم سیر فرما ۔‘‘ اللہ نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فتح عطا فرمائی ، آپ واپس آئے تو ان میں سے ہر آدمی کے پاس ایک یا دو اونٹ تھے ، ان کے پاس لباس بھی تھا اور وہ شکم سیر بھی تھے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5930

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قا ل: «إِنَّكُمْ مَنْصُورُونَ وَمُصِيبُونَ وَمَفْتُوحٌ لَكُمْ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ وَلْيَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَلْيَنْهَ عَن الْمُنكر» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن مسعود ؓ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تمہاری (دشمن کے خلاف) مدد کی جائے گی ، تم مال غنیمت حاصل کرو گے ، تم (بہت سے ملک) فتح کرو گے ، تم میں سے جو شخص یہ مذکورہ چیزیں پا لے تو وہ اللہ سے ڈرے ، نیکی کا حکم کرے اور برائی سے منع کرے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5931

وَعَن جَابر بِأَن يَهُودِيَّةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَّةً ثُمَّ أَهْدَتْهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذِّرَاعَ فَأَكَلَ مِنْهَا وَأَكَلَ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ وَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَدَعَاهَا فَقَالَ سممتِ هَذِهِ الشَّاةَ فَقَالَتْ مَنْ أَخْبَرَكَ قَالَ أَخْبَرَتْنِي هَذِه فِي يَدي للذِّراع قَالَت نعم قَالَت قلت إِن كَانَ نَبيا فَلَنْ يضرّهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا اسْتَرَحْنَا مِنْهُ فَعَفَا عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُعَاقِبهَا وَتُوفِّي بعض أَصْحَابُهُ الَّذِينَ أَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ وَاحْتَجَمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كَاهِلِهِ مِنْ أَجْلِ الَّذِي أَكَلَ مِنَ الشَّاةِ حَجَمَهُ أَبُو هِنْدٍ بِالْقَرْنِ وَالشَّفْرَةِ وَهُوَ مَوْلًى لِبَنِي بَيَاضَةَ مِنَ الْأَنْصَارِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ
جابر ؓ سے روایت ہے کہ اہل خیبر کی ایک یہودی عورت نے ایک بھنی ہوئی بکری میں زہر ملا دی ، پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر بھیج دیا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دستی لی اور اس سے کھایا ، اور آپ کے چند صحابہ کرام ؓ نے بھی آپ کے ساتھ کھایا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اپنے ہاتھ (کھانے سے) اٹھا لو ۔‘‘ آپ نے یہودی عورت کو بلا بھیجا اور فرمایا :’’ کیا تو نے اس بکری میں زہر ملائی تھی ؟‘‘ اس نے کہا : آپ کو کس نے بتایا ہے ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میرے ہاتھ میں یہ جو دستی ہے اس نے مجھے بتایا ہے ۔‘‘ اس نے عرض کیا : جی ہاں ، میں نے کہا : اگر تو وہ سچے نبی ہوئے تو یہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گی ، اور اگر وہ سچے نبی نہ ہوئے تو ہم اس سے آرام پا جائیں گے ۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو معاف فرما دیا اور اسے سزا نہ دی ، اور آپ کے جن صحابہ کرام نے بکری کا گوشت کھایا تھا وہ فوت ہو گئے ، جبکہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بکری کا گوشت کھانے کی وجہ سے اپنے کندھوں کے درمیان پچھنے لگوائے ، ابوہند جو کہ انصار قبیلے بنو بیاضہ کے آزاد کردہ غلام تھے ، انہوں نے سینگ اور چھری کے ساتھ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پچھنے لگائے تھے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5932

وَعَن سهل ابْن الْحَنْظَلِيَّةِ أَنَّهُمْ سَارُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ فَأَطْنَبُوا السَّيْرَ حَتَّى كَانَت عَشِيَّةً فَجَاءَ فَارِسٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي طَلِعْتُ عَلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا فَإِذَا أَنَا بِهَوَازِنَ عَلَى بَكْرَةِ أَبِيهِمْ بِظُعُنِهِمْ وَنَعَمِهِمُ اجْتَمَعُوا إِلَى حُنَيْنٍ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ تِلْكَ غَنِيمَةٌ الْمُسْلِمِينَ غَدا إِن شَاءَ الله ثمَّ قَالَ مَنْ يَحْرُسُنَا اللَّيْلَةَ قَالَ أَنَسُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيُّ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ارْكَبْ فَرَكِبَ فَرَسًا لَهُ فَقَالَ: «اسْتَقْبِلْ هَذَا الشِّعْبَ حَتَّى تَكُونَ فِي أَعْلَاهُ» . فَلَمَّا أَصْبَحْنَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مُصَلَّاهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ هَلْ حسستم فارسكم قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَسِسْنَا فَثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَهُوَ يَلْتَفِتُ إِلَى الشِّعْبِ حَتَّى إِذَا قَضَى الصَّلَاةَ قَالَ أَبْشِرُوا فَقَدْ جَاءَ فَارِسُكُمْ فَجَعَلْنَا نَنْظُرُ إِلَى خِلَالِ الشَّجَرِ فِي الشِّعْبِ فَإِذَا هُوَ قَدْ جَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسلم فَقَالَ إِنِّي انْطَلَقْتُ حَتَّى كُنْتُ فِي أَعْلَى هَذَا الشِّعْبِ حَيْثُ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصبَحت اطَّلَعت الشِّعْبَيْنِ كِلَيْهِمَا فَلَمْ أَرَ أَحَدًا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ نَزَلْتَ اللَّيْلَةَ قَالَ لَا إِلَّا مُصَلِّيَا أَوْ قَاضِيَ حَاجَةٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلَا عَلَيْكَ أَنْ لَا تَعْمَلَ بعدَها» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سہل بن حنظلیہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ حنین کے موقع پر انہوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سفر کیا ، انہوں نے سفر جاری رکھا حتیٰ کہ پچھلا پہر ہو گیا ، ایک گھڑ سوار آیا اور اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں فلاں فلاں پہاڑ کے اوپر چڑھا ہوں اور میں نے اچانک ہوازن قبیلے کو دیکھا ہے کہ وہ سب کے سب اپنے مویشیوں اور اپنے اموال کے ساتھ حنین کی طرف اکٹھے ہو رہے ہیں ، اس پر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرائے اور فرمایا :’’ ان شاء اللہ تعالیٰ کل وہ مسلمانوں کا مال غنیمت ہو گا ۔‘‘ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ آج رات ہمارا پہرہ کون دے گا ؟‘‘ انس بن ابی مرثد الغنوی ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ سوار ہو جاؤ ۔‘‘ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اس گھاٹی کی طرف جاؤ حتیٰ کہ تم اس کی چوٹی پر پہنچ جاؤ ۔‘‘ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی جائے نماز پر تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز ادا کی ، پھر فرمایا :’’ کیا تم نے اپنے گھڑ سوار کو محسوس کیا ؟‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم نے محسوس نہیں کیا ، نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوران نماز اس گھاٹی کی طرف التفات فرماتے رہے حتیٰ کہ جب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز پڑھ چکے تو فرمایا :’’ خوش ہو جاؤ ، تمہارا گھڑ سوار آ گیا ہے ۔‘‘ ہم بھی درختوں کے درمیان اس گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے تو وہ اچانک آ گیا حتیٰ کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تو اس نے عرض کیا ، میں چلتا گیا حتیٰ کہ میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرمان کے مطابق اس گھاٹی کے بلند ترین حصے پر تھا ، جب صبح ہوئی تو میں ان دونوں گھاٹیوں کے اطراف سے ہو آیا ہوں ، لیکن میں نے کسی کو نہیں دیکھا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پوچھا :’’ کیا رات کے وقت تم (اپنے گھوڑے سے) نیچے اترے تھے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : نماز پڑھنے یا قضائے حاجت کے علاوہ میں نہیں اترا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اگر تم اس (رات) کے بعد کوئی بھی نیک عمل نہ کرو تو تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5933

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمَرَاتٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةِ فَضَمَّهُنَّ ثُمَّ دَعَا لي فِيهِنَّ بِالْبركَةِ فَقَالَ خذهن واجعلهن فِي مِزْوَدِكَ كُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيهِ يَدَكَ فَخُذْهُ وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِكَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَكُنَّا نَأْكُلُ مِنْهُ وَنُطْعِمُ وَكَانَ لَا يُفَارِقُ حَقْوِي حَتَّى كَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ فَإِنَّهُ انْقَطَعَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں کچھ کھجوریں لے کر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ان میں برکت کے لیے دعا فرمائیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اکٹھا کیا پھر میرے لیے ان میں برکت کی دعا فرمائی ، اور فرمایا :’’ انہیں لے لو اور انہیں اپنے توشہ دان میں رکھ لو ، جب بھی تم ان میں سے کچھ لینا چاہو تو اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر لے لینا اور انہیں مکمل طور پر باہر نہ نکالنا ۔‘‘ میں نے ان میں سے اتنے اتنے وسق کھجور اللہ کی راہ میں عطا کیے ، ہم خود بھی اس میں سے کھاتے تھے اور کھلاتے بھی تھے ، اور وہ میری کمر سے الگ نہیں ہوتا تھا حتیٰ کہ عثمان ؓ کی شہادت کے روز وہ منقطع ہو کر گر پڑا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5934

وَعَن ابْن عبَّاس قَالَ تَشَاوَرَتْ قُرَيْشٌ لَيْلَةً بِمَكَّةَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِذَا أَصْبَحَ فَأَثْبِتُوهُ بِالْوِثَاقِ يُرِيدُونَ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلِ اقْتُلُوهُ وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ أَخْرِجُوهُ فَأطلع الله عز وَجل نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ فَبَاتَ عَليّ عَلَى فِرَاشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى لَحِقَ بِالْغَارِ وَبَاتَ الْمُشْرِكُونَ يَحْرُسُونَ عَلِيًّا يَحْسَبُونَهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبحُوا ثَارُوا إِلَيْهِ فَلَمَّا رَأَوْا عَلِيًّا رَدَّ اللَّهُ مَكْرَهُمْ فَقَالُوا أَيْنَ صَاحِبُكَ هَذَا قَالَ لَا أَدْرِي فَاقْتَصُّوا أَثَرَهُ فَلَمَّا بَلَغُوا الْجَبَلَ اخْتَلَطَ عَلَيْهِمْ فَصَعِدُوا فِي الْجَبَلَ فَمَرُّوا بِالْغَارِ فَرَأَوْا عَلَى بَابِهِ نَسْجَ الْعَنْكَبُوتِ فَقَالُوا لَوْ دَخَلَ هَاهُنَا لَمْ يَكُنْ نَسْجُ الْعَنْكَبُوتِ عَلَى بَابِهِ فَمَكَثَ فِيهِ ثَلَاثَ لَيَال. رَوَاهُ أَحْمد
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، قریش نے ایک رات مکہ میں (دار الندوہ میں) مشورہ کیا تو ان میں سے کسی نے کہا جب صبح ہو تو اس کو قید کر دو ، ان کی مراد نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھے ، کسی نے کہا : نہیں ، بلکہ اسے قتل کر دو ، اور کسی نے کہا ، نہیں بلکہ اسے (مکہ سے) نکال باہر کرو ، اللہ نے اپنے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس (منصوبے) پر مطلع کر دیا ، اس رات علی ؓ نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بستر پر رات بسر کی اور نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے چل دیئے حتیٰ کہ آپ غار میں پہنچ گئے ، جبکہ مشرکین پوری رات علی ؓ پر پہرہ دیتے رہے اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں ۔ جب صبح ہوئی تو وہ ان پر حملہ آور ہوئے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو علی ؓ ہیں ، اللہ نے ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا ، انہوں نے پوچھا : تمہارا ساتھی کہاں ہے ؟ انہوں نے فرمایا : میں نہیں جانتا ۔ انہوں نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قدموں کے نشانات کا کھوج لگایا ، جب وہ پہاڑ پر پہنچے تو ان پر معاملہ مشتبہ ہو گیا ، وہ پہاڑ پر چڑھ گئے اور غار کے پاس سے گزرے ، انہوں نے اس کے دروازے پر مکڑی کا جالا دیکھا ، اور انہوں نے کہا : اگر وہ اس میں داخل ہوئے ہوتے تو اس کے دروازے پر مکڑی کا جالا نہ ہوتا ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں تین روز قیام فرمایا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5935

وَعَن أبي هُرَيْرَة أَنه قَالَ لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرُ أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ فِيهَا سُمٌّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اجْمَعُوا لي من كَانَ هَا هُنَا من الْيَهُود فَجمعُوا لَهُ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي سَائِلُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صادقي عَنهُ فَقَالُوا نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَبُوكُمْ قَالُوا فلَان فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذبْتُمْ بل أبوكم فلَان فَقَالُوا صدقت وبررت قَالَ: «هَلْ أَنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ» قَالُوا نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ وَإِنْ كَذَبْنَاكَ عَرَفْتَ كَمَا عَرَفْتَهُ فِي أَبِينَا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَهْلُ النَّارِ قَالُوا نَكُونُ فِيهَا يَسِيرًا ثمَّ تخلفوننا فِيهَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْسَئُوا فِيهَا وَاللَّهِ لَا نَخْلُفُكُمْ فِيهَا أبدا ثمَّ قَالَ لَهُم فَهَلْ أَنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنهُ قَالُوا نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ قَالَ: «هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِه الشَّاة سما» . قَالُوا نعم فَقَالَ مَا حملكم على ذَلِك فَقَالُوا أردنَا إِن كنت كذابا نستريح مِنْك وَإِن كنت نَبيا لم يَضرك. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک بکری کا ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر تھا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ یہاں جتنے یہودی موجود ہیں انہیں میرے پاس جمع کرو ۔‘‘ چنانچہ وہ سب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کر دیئے گئے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں فرمایا :’’ میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کرنے لگا ہوں کیا تم اس کے متعلق مجھے سچ سچ بتاؤ گے ؟‘‘ انہوں نے کہا : جی ہاں ! ابوالقاسم ! رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پوچھا :’’ تمہارا باپ کون تھے ؟‘‘ انہوں نے بتایا : فلاں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تم جھوٹ بولتے ہو ، بلکہ تمہارا باپ تو فلاں ہے ۔‘‘ انہوں نے کہا : آپ نے سچ فرمایا اور اچھا کیا پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اگر میں تم سے کسی چیز کے متعلق دریافت کروں تو تم مجھے سچ سچ بتاؤ گے ؟‘‘ انہوں نے کہا : جی ہاں ، ابوالقاسم ! اگر ہم نے آپ سے جھوٹ بولا تو آپ سمجھ جائیں گے جس طرح آپ نے ہمارے باپ کے بارے میں (ہمارا جھوٹ) جان لیا تھا ۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پوچھا :’’ جہنمی کون ہیں ؟‘‘ انہوں نے کہا : کچھ مدت کے لیے ہم اس میں جائیں گے ، پھر ہماری جگہ تم وہاں آ جاؤ گے ۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تم ہی اس میں ذلیل ہو کر رہو گے ، کیونکہ ہم اس میں تمہاری جگہ کبھی بھی داخل نہیں ہوں گے ۔‘‘ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں تم سے ایک چیز کے بارے میں سوال کرتا ہوں کیا تم مجھے سچ سچ جواب دو گے ؟‘‘ انہوں نے کہا : ہاں ، ابوالقاسم ! آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا :’’ کیا تم نے اس بکری (کے گوشت) میں زہر ملایا ہے ؟‘‘ انہوں نے کہا : جی ہاں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ کس چیز نے تمہیں اس پر آمادہ کیا ؟‘‘ انہوں نے کہا : ہم نے اس لیے کیا کہ اگر آپ جھوٹے ہوئے تو ہمیں آپ سے آرام مل جائے گا اور اگر آپ سچے ہوئے تو آپ کو نقصان نہیں پہنچے گا ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5936

وَعَن عَمْرو بن أخطَب الْأنْصَارِيّ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا الْفجْر وَصعد الْمِنْبَرِ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الظُّهْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّى ثمَّ صعِد الْمِنْبَر فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَأَخْبَرَنَا بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَأَعْلَمُنَا أحفظنا. رَوَاهُ مُسلم
عمر بن اخطب انصاری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف لے گئے ، ہمیں خطاب فرمایا حتیٰ کہ ظہر کا وقت ہو گیا پھر آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف لے گئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتیٰ کہ نماز عصر کا وقت ہو گیا ، پھر آپ نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی ، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور (خطاب فرمایا) حتیٰ کہ سورج غروب ہو گیا آپ نے قیامت تک ہونے والے واقعات کے متعلق ہمیں بیان فرمایا ، راوی بیان کرتے ہیں ، ہم میں سے زیادہ عالم وہ ہے جو اس خطبے کو ہم میں سے زیادہ یاد رکھنے والا ہے ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5937

وَعَنْ مَعْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ: سَأَلْتُ مَسْرُوقًا: مَنْ آذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِنِّ لَيْلَةَ اسْتَمَعُوا الْقُرْآنَ؟ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُوكَ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ ابْن مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ: آذَنَتْ بِهِمْ شَجَرَةٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
معن بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں میں نے اپنے والد سے سنا ، انہوں نے کہا : میں نے مسروق سے دریافت کیا جس رات جنوں نے قرآن سنا تھا اس کی خبر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کس نے دی تھی ؟ انہوں نے بتایا : مجھے تمہارے والد یعنی عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ ان کے متعلق ایک درخت نے اطلاع دی تھی ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5938

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَتَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ وَكُنْتُ رَجُلًا حَدِيدَ الْبَصَرِ فَرَأَيْتُهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَآهُ غَيْرِي قَالَ فجعلتُ أقولُ لعُمر أما ترَاهُ فَجعل لَا يَرَاهُ قَالَ يَقُولُ عُمَرُ سَأَرَاهُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَى فِرَاشِي ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بدر فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُرِينَا مَصَارِعَ أَهْلِ بَدْرٍ بِالْأَمْسِ يَقُولُ هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاءَ الله قَالَ فَقَالَ عمر فوالذي بَعثه بِالْحَقِّ مَا أخطئوا الْحُدُود الَّتِي حد رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ فَجُعِلُوا فِي بِئْرٍ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ فَانْطَلَقَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِمْ فَقَالَ يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ وَيَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ حَقًّا فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَني الله حَقًا قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تُكَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاحَ فِيهَا قَالَ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَن يَردُّوا عليَّ شَيْئا . رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم عمر ؓ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے ، ہم نے چاند دیکھنے کا اہتمام کیا ، میری نظر تیز تھی ، لہذا میں نے اسے دیکھ لیا ، اور میرے سوا کسی نے نہ کہا کہ اس نے اسے دیکھا ہے ، میں عمر ؓ سے کہنے لگا : کیا آپ اسے دیکھ نہیں رہے ؟ وہ اسے نہیں دیکھ پا رہے تھے ، راوی بیان کرتے ہیں ، عمر ؓ فرمانے لگے ، میں عنقریب اسے دیکھ لوں گا ۔ میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا ، پھر انہوں نے اہل بدر کے متعلق ہمیں بتانا شروع کیا ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدر کے موقع پر کفار کے قتل گاہوں کے متعلق ایک روز پہلے ہی بتا رہے تھے :’’ کل ان شاء اللہ یہاں فلاں قتل ہو گا ، اور کل ان شاء اللہ یہاں فلاں قتل ہو گا ۔‘‘ عمر ؓ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس جس جگہ کی نشان دہی فرمائی تھی اس میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا (وہ وہیں وہیں قتل ہوئے تھے) راوی بیان کرتے ہیں ، ان سب کو ایک دوسرے پر کنویں میں ڈال دیا گیا پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں تشریف لائے اور فرمایا :’’ اے فلاں بن فلاں ! ، اے فلاں بن فلاں ! اللہ اور اس کے رسول نے تم سے جو وعدہ فرمایا تھا کیا تم نے اسے سچا پایا ، کیونکہ اللہ نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا تھا میں نے تو اسے سچا پایا ہے ؟‘‘ عمر ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ بے روح جسموں سے کیسے کلام فرما رہے ہیں ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں ان سے جو کہہ رہا ہوں وہ اسے تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن وہ مجھے کسی چیز کا جواب نہیں دے سکتے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5939

وَعَنْ أُنَيْسَةَ بِنْتِ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ عَنْ أَبِيهَا إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى زَيْدٍ يَعُودُهُ مِنْ مَرَضٍ كَانَ بِهِ قَالَ: «لَيْسَ عَلَيْكَ مِنْ مَرَضِكَ بَأْسٌ وَلَكِنْ كَيْفَ لَكَ إِذَا عُمِّرْتَ بَعْدِي فَعَمِيتَ؟» قَالَ: أَحْتَسِبُ وَأَصْبِرُ. قَالَ: «إِذًا تَدْخُلِ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَاب» . قَالَ: فَعَمِيَ بَعْدَ مَا مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم ثمَّ ردَّ اللَّهُ بَصَره ثمَّ مَاتَ
اُنیسہ بنت زید بن ارقم اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زید کی بیماری میں ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تمہاری بیماری خطرناک نہیں ، لیکن تمہاری اس وقت کیا حالت ہو گی جب میرے بعد تمہاری عمر دراز ہو گی اور تم اندھے ہو جاؤ گے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : میں ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کروں گا ۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تب تم بغیر حساب جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔‘‘ راویہ بیان کرتی ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد وہ نابینا ہو گئے پھر اللہ نے انہیں بصارت عطا فرمائی اور پھر انہوں نے وفات پائی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5940

وَعَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «من تَقول عَليّ مالم أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . وَذَلِكَ أَنَّهُ بَعَثَ رَجُلًا فَكَذَبَ عَلَيْهِ فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ مَيِّتًا وَقد انشقَّ بَطْنه وَلم تقبله الأَرْض. رَوَاهُمَا الْبَيْهَقِيّ فِي دَلَائِل النُّبُوَّة
اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص نے میرے ذمے ایسی بات لگائی جو میں نے نہ کہی ہو تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔‘‘ اور آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ آپ نے کسی آدمی کو (کہیں) بھیجا تو اس نے آپ پر جھوٹ بولا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے بددعا فرمائی ، اسے مردہ پایا گیا ، اس کا پیٹ چاک ہو چکا تھا اور زمین نے اسے قبول نہیں کیا ۔ دونوں احادیث کو امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5941

وَعَن جابرٍ أنَّ رسولَ الله جَاءَهُ رَجُلٌ يَسْتَطْعِمُهُ فَأَطْعَمَهُ شَطْرَ وَسَقِ شَعِيرٍ فَمَا زَالَ الرَّجُلُ يَأْكُلُ مِنْهُ وَامْرَأَتُهُ وَضَيْفُهُمَا حَتَّى كَالَهُ فَفَنِيَ فَأَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَوْ لَمْ تَكِلْهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ ولقام لكم» رَوَاهُ مُسلم
جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کھانا طلب کیا ، آپ نے اسے ایک وسق جو دیئے ، وہ آدمی ، اس کی بیوی اور ان کا مہمان اس سے کھاتے رہے لیکن جب اس شخص نے وہ ناپ لئے تو وہ ختم ہو گئے ، وہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اگر تم اسے نہ ناپتے تو تم اس سے کھاتے رہتے اور وہ تمہارے لیے ہمیشہ رہتا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5942

وَعَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْقَبْرِ يُوصِي الْحَافِرَ يَقُولُ: «أَوْسِعْ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيْهِ أَوْسِعْ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ» فَلَمَّا رَجَعَ اسْتَقْبَلَهُ دَاعِيَ امْرَأَتِهِ فَأَجَابَ وَنَحْنُ مَعَه وَجِيء بِالطَّعَامِ فَوَضَعَ يَدَهُ ثُمَّ وَضَعَ الْقَوْمُ فَأَكَلُوا فَنَظَرْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يلوك لقْمَة فِي فَمه ثُمَّ قَالَ أَجِدُ لَحْمَ شَاةٍ أُخِذَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ أَهْلِهَا فَأَرْسَلَتِ الْمَرْأَةُ تَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَرْسَلْتُ إِلَى النَّقِيعِ وَهُوَ مَوْضِعٌ يُبَاعُ فِيهِ الْغَنَمُ لِيُشْتَرَى لِي شَاةٌ فَلَمْ تُوجَدْ فَأَرْسَلْتُ إِلَى جَارٍ لِي قَدِ اشْتَرَى شَاة أَن أرسل إِلَيّ بهَا بِثَمَنِهَا فَلَمْ يُوجَدْ فَأَرْسَلْتُ إِلَى امْرَأَتِهِ فَأَرْسَلَتْ إِلَيَّ بِهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَطْعِمِي هَذَا الطَّعَامَ الْأَسْرَى» رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ والْبَيْهَقِيُّ فِي دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ
عاصم بن کلیب اپنے والد سے اور وہ انصار میں سے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : ہم ایک جنازہ میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تو میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک قبر پر گورکن کو ہدایات دیتے ہوئے سنا :’’ اس کے پاؤں کی جانب سے کھلی کرو ، اس کے سر کی جانب سے کھلی کرو ۔‘‘ جب آپ واپس آئے تو اس (میت) کی عورت کی طرف سے دعوت کا پیغام دینے والا آپ کو ملا تو آپ نے دعوت قبول فرمائی اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے ، کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا ، پھر لوگوں نے (ہاتھ) بڑھایا ، انہوں نے کھانا کھایا ، ہم نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنے منہ میں لقمہ چباتے ہوئے فرمایا :’’ میں ایک ایسی بکری کا گوشت پاتا ہوں جو اپنے مالک کی اجازت کے بغیر حاصل کی گئی ہے ۔‘‘ اس عورت نے اپنے وضاحتی پیغام میں عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں نے نقیع کی طرف ، جو کہ بکریوں کی خرید و فروخت کا مرکز ہے ، آدمی بھیجا تھا تا کہ وہ میرے لیے ایک بکری خرید لائے ، لیکن وہاں نہ ملی تو میں نے اپنے پڑوسی کی طرف بھیجا ، اس نے ایک بکری خریدی ہوئی تھی ، کہ وہ اس کی قیمت کے عوض اسے میری طرف بھیج دے ، لیکن وہ (پڑوسی) نہ ملا تو میں نے اس عورت کی طرف پیغام بھیجا تو اس نے اسے میری طرف بھیج دیا ۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ یہ کھانا قیدیوں کو کھلا دو ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد و البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5943

وَقد يرقى إِلَى الْحسن بِتَعَدُّد طرقه) وَعَن حَازِم بْنِ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ حُبَيْشِ بن خَالِد - وَهُوَ أَخُو أمِّ مَعْبَد - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُخْرِجَ مِنْ مَكَّةَ خَرَجَ مُهَاجِرًا إِلَى الْمَدِينَةِ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ وَمَوْلَى أَبِي بَكْرٍ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ وَدَلِيلُهُمَا عَبْدُ اللَّهِ اللَّيْثِي مَرُّوا عَلَى خَيْمَتَيْ أُمِّ مَعْبَدٍ فَسَأَلُوهَا لَحْمًا وَتَمْرًا لِيَشْتَرُوا مِنْهَا فَلَمْ يُصِيبُوا عِنْدَهَا شَيْئًا من ذَلِك وَكَانَ الْقَوْمُ مُرْمِلِينَ مُسْنِتِينَ فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَاةٍ فِي كِسْرِ الْخَيْمَةِ فَقَالَ: «مَا هَذِهِ الشَّاةُ يَا أُمَّ معبد؟» قَالَتْ: شَاةٌ خَلَّفَهَا الْجَهْدُ عَنِ الْغَنَمِ. قَالَ: «هَلْ بِهَا مِنْ لَبَنٍ؟» قَالَتْ: هِيَ أَجْهَدُ مِنْ ذَلِكَ. قَالَ: «أَتَأْذَنِينَ لِي أَنْ أَحْلِبَهَا؟» قَالَتْ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنْ رَأَيْتَ بِهَا حَلباً فاحلبها. فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَ بِيَدِهِ ضَرْعَهَا وَسَمَّى اللَّهَ تَعَالَى وَدَعَا لَهَا فِي شَاتِهَا فتفاجت عَلَيْهِ وَردت وَاجْتَرَّتْ فَدَعَا بِإِنَاءٍ يُرْبِضُ الرَّهْطَ فَحَلَبَ فِيهِ ثجَّاً حَتَّى علاهُ الْبَهَاءُ ثُمَّ سَقَاهَا حَتَّى رَوِيَتْ وَسَقَى أَصْحَابَهُ حَتَّى رَوُوا ثُمَّ شَرِبَ آخِرَهُمْ ثُمَّ حَلَبَ فِيهِ ثَانِيًا بَعْدَ بَدْءٍ حَتَّى مَلَأَ الْإِنَاءَ ثُمَّ غَادَرَهُ عِنْدَهَا وَبَايَعَهَا وَارْتَحَلُوا عَنْهَا. رَوَاهُ فِي «شَرْحِ السُّنَّةِ» وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي «الِاسْتِيعَابِ» وَابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي كِتَابِ «الْوَفَاءِ» وَفِي الحَدِيث قصَّةٌ
حزام بن ہشام اپنے والد سے ، وہ اپنے دادا حبیش بن خالد ، جو کہ ام معبد کے بھائی ہیں ، سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جب مکہ سے نکالا گیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ سے مدینہ کی طرف مہاجر کی حیثیت سے روانہ ہوئے ۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ابوبکر اور ابوبکر کے آزاد کردہ غلام عمار بن فہیرہ تھے اور ان کی راہنمائی کرنے والے عبداللہ اللیشی تھے ، وہ ام معبد کے دو خیموں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے اس سے گوشت اور کھجور کے متعلق دریافت کیا تا کہ وہ اس سے خرید لیں ۔ لیکن انہیں اس کے ہاں کوئی چیز نہ ملی ، جبکہ ان کے پاس زادِراہ نہیں تھا اور وہ قحط سالی کا شکار ہو چکے تھے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیمے کے ایک کونے میں ایک بکری دیکھی تو فرمایا :’’ ام معبد ! یہ بکری کیسی ہے ؟‘‘ اس نے بتایا کہ یہ لاغر پن کی وجہ سے ریوڑ کے ساتھ نہیں جا سکتی ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ کیا یہ دودھ دیتی ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا : یہ اس لائق نہیں ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دھو لوں ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، میرے والدین قربان ہوں ، اگر آپ اس میں دودھ دیکھتے ہیں تو ضرور دھو لیں ، چنانچہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے طلب فرمایا ، اس کے تھن کو اپنا دست مبارک لگایا ، اللہ تعالیٰ کا نام لیا ، ام معبد کے لیے اس بکری کے بارے میں دعائے خیر فرمائی ، اس نے پاؤں کھول دیئے ، دودھ چھوڑ دیا ، اور وہ جگالی کرنے لگی ، آپ نے ایک برتن منگایا جو ایک جماعت کو آسودہ کر سکتا تھا ، اس میں دودھ دھویا اور اتنا دھویا کہ اس پر جھاگ آ گیا ، پھر آپ نے ام معبد کو پلایا حتیٰ کہ وہ خوب سیراب ہو گئی ، پھر اپنے ساتھیوں کو پلایا حتیٰ کہ وہ سیراب ہو گئے ، پھر آپ نے ان سب کے آخر پر خود پیا ، پھر آپ نے اس برتن میں دوسری مرتبہ دودھ دھویا حتیٰ کہ برتن بھر گیا ، اس (دودھ) کو ام معبد کے پاس چھوڑ دیا ، پھر آپ نے اس سے اسلام پر بیعت لی پھر سب اس کے پاس سے کوچ کر گئے ۔ حسن ، رواہ فی شرح السنہ ۔ شرح السنہ ، ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں اور ابن الجوزی نے اسے کتاب الوفاء میں روایت کیا ہے ، اور حدیث میں طویل قصہ ہے ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5944

عَن أَنس أَنَّ أُسَيْدَ بْنَ حُضَيْرٍ وَعَبَّادَ بْنَ بِشْرٍ تَحَدَّثَا عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ لَهُمَا حَتَّى ذَهَبَ مِنَ اللَّيْلِ سَاعَةٌ فِي لَيْلَةٍ شَدِيدَةِ الظُّلْمَةِ ثُمَّ خَرَجَا مِنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ينقلبان وبيد كل مِنْهُمَا عُصَيَّةٌ فَأَضَاءَتْ عصى أَحَدِهِمَا لَهُمَا حَتَّى مَشَيَا فِي ضَوْئِهَا حَتَّى إِذَا افْتَرَقَتْ بِهِمَا الطَّرِيقُ أَضَاءَتْ لِلْآخَرِ عَصَاهُ فَمَشَى كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فِي ضَوْءِ عَصَاهُ حَتَّى بلغ أَهله رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس ؓ سے روایت ہے کہ اُسید بن حضیر اور عبادہ بن بشیر ؓ اپنے کسی مسئلہ کے بارے میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے گفتگو کرتے رہے حتیٰ کہ شدید تاریک رات میں رات کا کافی حصہ گزر گیا ، پھر وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے واپسی کے لیے روانہ ہوئے ، ہر ایک کے ہاتھ میں چھوٹی سی لاٹھی تھی ، چنانچہ ان دونوں میں سے ایک کی لاٹھی نے روشنی پیدا کر دی حتیٰ کہ وہ اس کی روشنی میں چلنے لگے ، لیکن جب ان دونوں کی راہیں الگ الگ ہوئیں تو دوسرے کے لیے اس کی لاٹھی نے روشنی پیدا کر دی ، دونوں میں ہر ایک اپنی لاٹھی کی روشنی میں چلنے لگا حتیٰ کہ وہ اپنے گھر پہنچ گیا ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5945

وَعَن جَابر قَالَ: لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ دَعَانِي أَبِي مِنَ اللَّيْلِ فَقَالَ مَا أُرَانِي إِلَّا مَقْتُولًا فِي أَوَّلِ مَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنِّي لَا أَتْرُكُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْكَ غَيْرَ نَفْسِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ عَلَيَّ دَيْنًا فَاقْضِ وَاسْتَوْصِ بِأَخَوَاتِكَ خَيْرًا فَأَصْبَحْنَا فَكَانَ أَوَّلَ قَتِيلٍ وَدَفَنْتُهُ مَعَ آخَرَ فِي قبر رَوَاهُ البُخَارِيّ
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، جب غزوۂ احد کا وقت آیا تو رات کے وقت میرے والد نے مجھے بلایا اور کہا : میں اپنے متعلق سمجھتا ہوں کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ ؓ میں سے سب سے پہلے میں شہید ہوں گا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ذات مبارک کے علاوہ میں اپنے بعد تجھ سے زیادہ عزیز شخص کوئی نہیں چھوڑ کر جا رہا ، میرے ذمے کچھ قرض ہے اسے ادا کرنا اور اپنی بہنوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، صبح ہوئی تو وہ پہلے شہید تھے ، میں نے انہیں ایک دوسرے شخص کے ساتھ ایک قبر میں دفن کیا ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5946

وَعَن عبد الرَّحْمَن بن أبي بكر إِنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فَقُرَاءَ وَإِنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَ عِنْده طَعَام اثْنَيْنِ فليذهب بثالث وَإِن كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ أَوْ سادس» وَأَن أَبَا بكر جَاءَ بِثَلَاثَة فَانْطَلق النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَإِنَّ أَبَا بكر تعَشَّى عِنْد النبيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صُلِّيَتِ الْعِشَاءُ ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ الله. قَالَت لَهُ امْرَأَته: وَمَا حَبسك عَن أضيافك؟ قَالَ: أوما عَشَّيْتِيهِمْ؟ قَالَتْ: أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ فَغَضِبَ وَقَالَ: لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا فَحَلَفَتِ الْمَرْأَةُ أَنْ لَا تَطْعَمَهُ وَحَلَفَ الْأَضْيَافُ أَنْ لَا يَطْعَمُوهُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَانَ هَذَا مِنَ الشَّيْطَانِ فَدَعَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلَ وَأَكَلُوا فَجَعَلُوا لَا يَرْفَعُونَ لُقْمَةً إِلَّا رَبَتْ مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا. فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا؟ قَالَتْ: وَقُرَّةِ عَيْنِي إِنَّهَا الْآنَ لَأَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلَاثِ مِرَارٍ فَأَكَلُوا وَبَعَثَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذُكِرَ أَنَّهُ أَكَلَ مِنْهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَذُكِرَ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَام فِي «المعجزات»
عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ بیان کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے کو ساتھ لے جائے ، جس شخص کے پاس چار افراد کا کھانا ہو تو وہ پانچویں کو یا چھٹے کو ساتھ لے جائے ۔‘‘ اور ابوبکر ؓ تین کو ساتھ لے کر آئے ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دس کو ساتھ لے کر گئے ، ابوبکر ؓ نے شام کا کھانا نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں کھایا ، پھر وہیں ٹھہر گئے حتیٰ کہ نماز عشاء پڑھ لی گئی ، پھر واپس تشریف لے آئے اور وہیں ٹھہر گئے حتیٰ کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھانا کھایا ، پھر جتنا اللہ نے چاہا رات کا حصہ گزر گیا تو وہ واپس اپنے گھر چلے گئے ، ان کی اہلیہ نے ان سے کہا : آپ کو آپ کے مہمانوں کے ساتھ آنے سے کس نے روکا تھا ؟ انہوں نے پوچھا : کیا تم نے انہیں کھانا نہیں کھلایا ؟ انہوں نے عرض کیا : انہوں نے انکار کر دیا حتیٰ کہ آپ تشریف لے آئیں ، وہ ناراض ہو گئے اور کہا : اللہ کی قسم ! میں بالکل کھانا نہیں کھاؤں گا ۔ عورت نے بھی قسم کھا لی کہ وہ اسے نہیں کھائے گی اور مہمانوں نے بھی قسم اٹھا لی کہ وہ بھی کھانا نہیں کھائیں گے ۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا : یہ (حلف اٹھانا) شیطان کی طرف سے تھا ۔ انہوں نے کھانا منگایا ، خود کھایا اور ان کے ساتھ مہمانوں نے بھی کھایا ، وہ لقمہ اٹھاتے تو اس کے نیچے سے اور زیادہ ہو جاتا تھا ، انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا : بنو فراس کی بہن ! یہ کیا معاملہ ہے ؟ انہوں نے کہا : میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم ! یہ اب پہلے سے بھی تین گنا زیادہ ہے ۔ چنانچہ انہوں نے کھایا اور اسے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھی بھیجا ، بیان کیا گیا کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں سے تناول فرمایا ۔ متفق علیہ ۔ اور عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث ((کُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِیْحَ الطَّعَامِ)) باب المعجزات میں گزر چکی ہے ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5947

عَن عَائِشَة قَالَتْ: لَمَّا مَاتَ النَّجَاشِيُّ كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّهُ لَا يَزَالُ يُرَى عَلَى قَبْرِهِ نُورٌ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب نجاشی فوت ہوئے تو ہم باہم گفتگو کرتے تھے کہ ان کی قبر پر مسلسل روشنی نظر آ رہی ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5948

وَعَنْهَا قَالَتْ: لَمَّا أَرَادُوا غُسْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: لَا نَدْرِي أَنُجَرِّدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ثِيَابه كَمَا تجرد مَوْتَانَا أَمْ نُغَسِّلُهُ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ؟ فَلَمَّا اخْتَلَفُوا أَلْقَى اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّوْمَ حَتَّى مَا مِنْهُمْ رجل إِلَّا وذقته فِي صَدْرِهِ ثُمَّ كَلَّمَهُمْ مُكَلِّمٌ مِنْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ لَا يَدْرُونَ مَنْ هُوَ؟ اغْسِلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ فَقَامُوا فَغَسَّلُوهُ وَعَلَيْهِ قَمِيصُهُ يَصُبُّونَ الْمَاءَ فَوْقَ الْقَمِيصِ وَيُدَلِّكُونَهُ بِالْقَمِيصِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ»
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب صحابہ کرام ؓ نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا : معلوم نہیں کہ جس طرح ہم اپنے فوت ہونے والے دیگر افراد کے (بوقت غسل) کپڑے اتار دیتے تھے اسی طرح رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بھی کپڑے اتار دیں یا ہم کپڑوں سمیت غسل دیں ، جب انہوں نے اختلاف کیا تو اللہ نے ان پر نیند طاری کر دی حتیٰ کہ ان میں سے ہر شخص کی تھوڑی اس کے سینے کے ساتھ لگنے لگی ۔ پھر گھر کے ایک کونے سے کسی نے ان سے بات کی مگر صحابہ کو اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کون تھا ، (اس نے کہا) نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کپڑوں سمیت غسل دو ، وہ کھڑے ہوئے اور آپ کو اس طرح غسل دیا کہ آپ کی قمیص آپ پر تھی ، وہ قمیص کے اوپر پانی گراتے تھے اور آپ کی قمیص کے ساتھ ملتے تھے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5949

وَعَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ أَنَّ سَفِينَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْطَأَ الْجَيْشَ بِأَرْضِ الرُّومِ أَوْ أُسِرَ فَانْطَلَقَ هَارِبًا يَلْتَمِسُ الْجَيْشَ فَإِذَا هُوَ بِالْأَسَدِ. فَقَالَ: يَا أَبَا الْحَارِثِ أَنَا مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنْ أَمْرِي كَيْتَ وَكَيْتَ فَأَقْبَلَ الْأَسَدُ لَهُ بَصْبَصَةٌ حَتَّى قَامَ إِلَى جَنْبِهِ كُلَّمَا سَمِعَ صَوْتًا أَهْوَى إِلَيْهِ ثُمَّ أَقْبَلَ يَمْشِي إِلَى جَنْبِهِ حَتَّى بَلَغَ الْجَيْشَ ثُمَّ رَجَعَ الْأَسَدُ. رَوَاهُ فِي «شَرْحِ السُّنَّةِ»
ابن منکدر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آزاد کردہ غلام سفینہ ؓ سرزمین روم میں لشکر سے بچھڑ گئے ، یا انہیں قید کر لیا گیا ، وہ لشکر کی تلاش میں دوڑنے لگے تو اچانک شیر سے سامنا ہو گیا ، انہوں نے فرمایا : ابو الحارث (شیر کی کنیت) ! میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا آزاد کردہ غلام ہوں ، میرے ساتھ یہ یہ مسئلہ بنا ہے ، شیر دم ہلاتا ہوا آپ کے سامنے آیا ، حتیٰ کہ وہ آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا ، جب وہ کہیں سے (خوفناک) آواز سنتا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ، پھر وہ ان کی طرف آ جاتا حتیٰ کہ وہ لشکر کے ساتھ جا ملے پھر شیر واپس چلا گیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5950

وَعَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ قَالَ: قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطًا شَدِيدًا فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ: انْظُرُوا قبر النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فاجعلوا مِنْهُ كُوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ فَفَعَلُوا فَمُطِرُوا مَطَرًا حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الْإِبِلُ حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ
ابو الجوزاء بیان کرتے ہیں ، مدینہ والے شدید قحط کا شکار ہو گئے تو انہوں نے عائشہ ؓ سے عرض کیا تو انہوں نے فرمایا : نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قبر کی طرف دیکھو (جاؤ) اور اس میں سے آسمان کی طرف کچھ سوراخ بنا دو حتیٰ کہ ان پر کوئی پردہ نہ ہو ، انہوں نے ایسے ہی کیا تو ان پر خوب بارش ہوئی حتیٰ کہ گھاس اگ آئی اونٹ اس قدر فربہ ہو گئے کہ وہ چربی سے پھول گئے اور اس سال کا نام عام الفتق یعنی (خوشحالی کا سال) رکھا گیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5951

وَعَن سعيد بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: لَمَّا كَانَ أَيَّامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا وَلَمْ يُقَمْ وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ الْمَسْجِدَ وَكَانَ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلَاةِ إِلَّا بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
سعید بن عبد العزیز بیان کرتے ہیں ، جب حرا کا واقعہ ہوا تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مسجد میں تین روز تک اذان ہوئی نہ نماز اور نہ ہی سعید بن مسیّب مسجد سے باہر نکل سکے ، انہیں نماز کا وقت ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قبر مبارک سے آنے والی مبہم سی آواز سے معلوم ہوتا تھا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5952

وَعَنْ أَبِي خَلْدَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي الْعَالِيَةِ: سَمِعَ أَنَسٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: خَدَمَهُ عَشْرَ سِنِينَ وَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ لَهُ بُسْتَانٌ يَحْمِلُ فِي كُلِّ سَنَةٍ الْفَاكِهَةَ مَرَّتَيْنِ وَكَانَ فِيهَا رَيْحَانٌ يَجِيءُ مِنْهُ رِيحُ الْمِسْكِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ابو خلدہ بیان کرتے ہیں ، میں نے ابو العالیہ سے کہا ، کیا انس ؓ نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے احادیث سنی ہیں ؟ انہوں نے کہا : انہوں نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دس سال خدمت کی ہے اور نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی جس کی وجہ سے ان کا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیا کرتا تھا ، اور اس میں کستوری جیسی خوشبو آتی تھی ۔ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5953

عَن عُرْوَة بن الزبير أَنَّ سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ خاصمته أروى بنت أويس إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ وَادَّعَتْ أَنَّهُ أَخَذَ شَيْئًا مِنْ أَرْضِهَا فَقَالَ سَعِيدٌ أَنَا كُنْتُ آخُذُ مِنْ أَرْضِهَا شَيْئًا بَعْدَ الَّذِي سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وماذا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا طُوِّقَهُ إِلَى سَبْعِ أَرَضِينَ فَقَالَ لَهُ مَرْوَانُ لَا أَسْأَلُكَ بَيِّنَةً بَعْدَ هَذَا فَقَالَ اللَّهُمَّ إِن كَانَت كَاذِبَة فَعم بَصَرَهَا وَاقْتُلْهَا فِي أَرْضِهَا قَالَ فَمَا مَاتَتْ حَتَّى ذهب بصرها ثمَّ بَينا هِيَ تَمْشِي فِي أَرْضِهَا إِذْ وَقَعَتْ فِي حُفْرَةٍ فَمَاتَتْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِمَعْنَاهُ وَأَنَّهُ رَآهَا عَمْيَاءَ تَلْتَمِسُ الْجُدُرَ تَقُولُ: أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعِيدٍ وَأَنَّهَا مَرَّتْ على بئرٍ فِي الدَّار الَّتِي خاصمته فَوَقَعت فِيهَا فَكَانَت قبرها
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سے متعلق ارویٰ بنت اوس نے مروان بن حکم کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے میری کچھ زمین حاصل کر لی ہے ، سعید ؓ نے جواب دیا : کیا میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے حدیث سن لینے کے بعد بھی ان کی زمین کے کچھ حصہ پر قبضہ کروں گا ؟ مروان نے کہا : تم نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیا سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جس نے بالشت بھر زمین ناحق حاصل کی تو اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا ۔‘‘ تب مروان نے کہا : اس کے بعد میں آپ سے کوئی ثبوت نہیں مانگتا ۔ سعید نے دعا فرمائی : اے اللہ ! اگر وہ جھوٹی ہے تو اسے اندھی بنا دے اور اسے اس کی زمین میں موت دے ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، جب وہ فوت ہوئی تو وہ اندھی ہو چکی تھی اور وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ ایک گڑھے میں گری اور فوت ہو گئی ۔ اور صحیح مسلم میں محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر سے اس کے ہم معنی روایت ہے کہ انہوں نے اسے بینائی سے محروم دیواروں کو ٹٹولتے ہوئے دیکھا ، اور وہ کہتی تھی : مجھے سعید کی بددعا لگ گئی اور وہ گھر کے اس کنویں کے پاس سے گزری جس کے متعلق اس نے ان (سعید ؓ) سے مقدمہ کیا تھا ، وہ اس میں گری اور وہی اس کی قبر بنی ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5954

وَعَن ابْن عمر أَنَّ عُمَرَ بَعَثَ جَيْشًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ فَبَيْنَمَا عُمَرُ يَخْطُبُ فَجَعَلَ يَصِيحُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَقِيَنَا عَدُوُّنَا فَهَزَمُونَا فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: يَا سَارِيَ الْجَبَلَ. فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا إِلَى الْجَبَلِ فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي دَلَائِل النُّبُوَّة
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ عمر ؓ نے ایک لشکر روانہ کیا ، اور ساریہ نامی شخص کو اس کا امیر مقرر کیا ، اس اثنا میں کہ عمر ؓ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ زور سے کہنے لگے : ساریہ ! پہاڑ کی طرف ، پھر لشکر کی طرف سے ایک قاصد آیا تو اس نے کہا : امیر المومنین ! ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوا تو اس نے ہمیں شکست سے دوچار کر دیا تھا مگر اچانک کسی نے زور سے آواز دی : ساریہ ! پہاڑ کو نہ چھوڑو ۔ ہم نے اپنی پشتیں پہاڑ کی جانب کر لیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست سے دوچار کر دیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5955

وَعَنْ نُبَيْهَةَ بْنِ وَهْبٍ أَنَّ كَعْبًا دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ كَعْبٌ: مَا مِنْ يَوْمٍ يَطْلُعُ إِلَّا نَزَلَ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ حَتَّى يَحُفُّوا بِقَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْرِبُونَ بِأَجْنِحَتِهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوا وَهَبَطَ مِثْلُهُمْ فَصَنَعُوا مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِي سَبْعِينَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ يَزُفُّونَهُ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ
نُبیہہ بن وہب سے روایت ہے کہ کعب ، عائشہ ؓ کے پاس گئے ، اہل مجلس نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا تذکرہ کیا ، تو کعب نے فرمایا : ہر روز ستر ہزار فرشتے نازل ہوتے ہیں اور وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں ، وہ اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر درود بھیجتے ہیں ، جب شام ہوتی ہے تو وہ اوپر چڑھ جاتے ہیں ، اور اتنے ہی فرشتے اور اتر آتے ہیں اور وہ بھی اسی طرح کرتے ہیں ، حتیٰ کہ جب (روز قیامت) آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی قبر مبارک سے نکلیں گے تو آپ ستر ہزار فرشتوں کی معیت میں ہوں گے وہ آپ کو لے کر جلدی بھاگیں گے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5956

عَن الْبَراء قَالَ: أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَجَعَلَا يُقْرِآنِنَا الْقُرْآنَ ثُمَّ جَاءَ عَمَّارٌ وَبِلَالٌ وَسَعْدٌ ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي عِشْرِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا رَأَيْتُ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَرِحُوا بِشَيْءٍ فَرَحَهُمْ بِهِ حَتَّى رَأَيْتُ الْوَلَائِدَ وَالصِّبْيَانَ يَقُولُونَ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَ فَمَا جَاءَ حَتَّى قرأتُ: [سبِّح اسْم ربِّك الْأَعْلَى] فِي سُوَرٍ مِثْلِهَا مِنَ الْمُفَصَّلِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کرام ؓ میں سے سب سے پہلے ہمارے پاس مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم ؓ تشریف لائے ، انہوں نے ہمیں قرآن پڑھانا شروع کیا ، پھر عمار ، بلال اور سعد ؓ آئے ، پھر عمر بن خطاب ؓ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیس صحابہ ؓ کے ساتھ تشریف لائے ، پھر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے ۔ میں نے مدینہ والوں کو کسی چیز پر اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا میں نے انہیں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد پر خوش دیکھا ، حتیٰ کہ میں نے چھوٹی چھوٹی بچیوں اور بچوں کو کہتے ہوئے سنا : رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لا چکے ہیں ، جب آپ تشریف لائے تو میں سورۂ الاعلی کے ساتھ مفصل سورتوں میں سے کئی سورتیں پڑھ چکا تھا ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5957

وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: «إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ» . فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ قَالَ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتنَا فعجبنا لَهُ فَقَالَ النَّاس: نظرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ وَهُوَ يَقُولُ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْمُخَير وَكَانَ أَبُو بكر هُوَ أعلمنَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا :’’ اللہ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو چاہے اپنے لیے پسند کر لے یا پھر وہ اس چیز کو اختیار کر لے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ۔‘‘ (یہ سن کر) ابوبکر ؓ رونے لگے ، اور عرض کیا : ہمارے والدین آپ پر فدا ہوں ! ہمیں ان کی اس حالت پر تعجب ہوا ، لوگوں نے کہا : اس بزرگ کو دیکھو ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک بندے کے متعلق بتا رہے ہیں کہ اللہ نے اسے اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا کی نعمتیں پسند کر لے یا اس چیز کو پسند کر لے جو اس کے پاس ہے ، اور وہ کہہ رہا ہے ہمارے والدین آپ پر فدا ہوں ۔ چنانچہ جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی تھے ، اور ابوبکر ؓ ہم سب سے زیادہ اس بات کو جاننے والے تھے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5958

وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أحد بعد ثَمَانِي سِنِينَ كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: «إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فَرَطٌ وَأَنَا عَلَيْكُمْ شَهِيدٌ وَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْحَوْضُ وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَيْهِ من مَقَامِي هَذَا وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بعدِي وَلَكِنِّي أخْشَى عَلَيْكُم الدُّنْيَا أَن تنافسوها فِيهَا» . وَزَادَ بَعْضُهُمْ:: «فَتَقْتَتِلُوا فَتَهْلِكُوا كَمَا هَلَكَ من كَانَ قبلكُمْ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آٹھ سال بعد شہدائے احد پر ایسے نماز جنازہ ادا کی جیسے آپ زندوں اور فوت شدہ لوگوں سے رخصت ہو رہے ہوں ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا :’’ میں تم سے آگے آگے ہوں ، میں تم پر گواہ رہوں گا ، مجھ سے تمہاری ملاقات حوض پر ہو گی ، میں اسے دیکھ رہا ہوں حالانکہ میں اپنی اس جگہ پر ہوں ، اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں ، مجھے تمہارے متعلق یہ خدشہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے ، لیکن مجھے تمہارے متعلق دنیا کا خدشہ ہے کہ تم اس کے متعلق باہم سبقت لے جانے کی کوشش کرو گے ۔‘‘ اور بعض راویوں نے یہ اضافہ نقل کیا ہے :’’ تم باہم لڑو گے اور تم بھی اسی طرح ہلاک ہو جاؤ گے جس طرح تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے تھے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5959

وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنَّ مِنْ نِعَمِ اللَّهِ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوِفِّيَ فِي بَيْتِي وَفِي يَوْمِي وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي وَإِنَّ اللَّهَ جَمَعَ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ دَخَلَ عَلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَبِيَدِهِ سِوَاكٌ وَأَنَا مُسْنِدَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَيْتُهُ يَنْظُرُ إِلَيْهِ وَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُحِبُّ السِّوَاكَ فَقُلْتُ: آخُذُهُ لَكَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ أَنْ نَعَمْ فَتَنَاوَلْتُهُ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ وَقُلْتُ: أُلَيِّنُهُ لَكَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ أَنْ نَعَمْ فَلَيَّنْتُهُ فَأَمَرَّهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ رَكْوَةٌ فِيهَا مَاءٌ فَجَعَلَ يُدْخِلُ يَدَيْهِ فِي الْمَاءِ فَيَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ وَيَقُولُ: «لَا إِلَهَ إِلَّا الله إِنَّ للموتِ سَكَراتٍ» . ثمَّ نصب يَده فَجَعَلَ يَقُولُ: «فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى» . حَتَّى قُبِضَ ومالت يَده. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے انعامات میں سے یہ بھی مجھ پر انعام ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے گھر میں اور میری باری میں وفات پائی اس وقت آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ، اور اللہ نے آپ کی وفات کے وقت میرے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لعاب کو ایک ساتھ جمع کر دیا ، (وہ اس طرح کہ) عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ میرے پاس آئے تو ان کے ہاتھ میں مسواک تھی ، اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ، میں نے دیکھا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں ، میں نے پہچان لیا کہ آپ مسواک پسند کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، میں اسے آپ کے لیے لے لوں ، آپ نے اپنے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں ، میں نے اسے حاصل کیا ، لیکن آپ کے لیے اسے چبانا مشکل تھا ، میں نے عرض کیا : کیا میں اسے آپ کی خاطر نرم کر دوں ؟ آپ نے اپنے سر مبارک سے اشارہ فرمایا کہ ہاں ، میں نے اسے نرم کر دیا ، اور آپ کے سامنے چمڑے کا ایک برتن تھا جس میں پانی تھا ، آپ اپنے ہاتھ پانی میں داخل فرماتے اور انہیں اپنے چہرے پر پھیرتے اور فرماتے :’’ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، موت کی سختیاں ہوتی ہیں ۔‘‘ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا دست مبارک اٹھایا اور فرمانے لگے : (اے اللہ !) اعلی ساتھ نصیب فرما ۔‘‘ حتیٰ کہ آپ کی روح قبض ہو گئی اور آپ کا دست مبارک جھک گیا ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5960

وَعَنْهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «مامن نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ» . وَكَانَ فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ شَدِيدَةٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ من الصديقين والنبيين وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ. فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو نبی (مرض الموت میں) بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا و آخرت کے مابین اختیار دیا جاتا ہے ۔‘‘ اور جس مرض میں آپ کی روح قبض کی گئی ، اس مرض میں آپ پر ہچکی کا سخت حملہ ہوا تھا ، میں نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ ان لوگوں کے ساتھ جن پر تو نے انعام فرمایا ، انبیا ؑ ، صدیقین ، شہداء اور صالحین (کے ساتھ) ۔‘‘ میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5961

وَعَن أنس قَالَ: لما ثقل النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ الْكَرْبُ. فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: وَاكَرْبَ آبَاهْ فَقَالَ لَهَا: «لَيْسَ عَلَى أَبِيكِ كَرْبٌ بَعْدَ الْيَوْمِ» . فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ: يَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ يَا أَبَتَاهُ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ يَا أَبَتَاهُ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهُ. فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَةُ: يَا أَنَسُ أَطَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ؟ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مرض شدت اختیار کر گیا تو آپ پر کرب و تکلیف چھانے لگی ، تو فاطمہ ؓ نے عرض کیا ، ابا جان کو کتنی تکلیف ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں فرمایا :’’ آج کے بعد آپ کے ابا جان کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی ۔‘‘ جب آپ وفات پا گئے تو فاطمہ ؓ نے کہا : ابا جان ! آپ نے اپنے رب کے بلاوے پر لبیک کہا ، ابا جان ! آپ جن کا ٹھکانا جنت الفردوس ہے ، ابا جان ! ہم جبریل ؑ کو آپ کی موت کی خبر سناتے ہیں ، جب آپ کو دفن کر دیا گیا تو فاطمہ ؓ نے فرمایا : انس ! تمہارے دل رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر مٹی ڈالنے کے لیے کیسے آمادہ ہو گئے ؟ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5962

عَن أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ لَعِبَتِ الْحَبَشَةُ بِحِرَابِهِمْ فَرَحًا لِقُدُومِهِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَفِي رِوَايَةِ الدَّارِمِيِّ (صَحِيح) قَالَ: مَا رَأَيْتُ يَوْمًا قَطُّ كَانَ أَحْسَنَ وَلَا أَضْوَأَ مِنْ يَوْمٍ دَخَلَ عَلَيْنَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا رَأَيْت يَوْمًا كَانَ أقبح وأظلم مِنْ يَوْمٍ مَاتَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيِّ قَالَ: لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ وَمَا نَفَضْنَا أَيْدِيَنَا عَنِ التُّرَابِ وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبنَا
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو حبشیوں نے آپ کی آمد کی خوشی پر اپنے نیزوں کا کھیل پیش کیا ۔ اور دارمی کی روایت میں ہے ، فرمایا : میں نے اس روز سے ، جس روز رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ تشریف لائے ، زیادہ حسین اور زیادہ روشن کوئی دن نہیں دیکھا ، اور میں نے اس دن سے ، جس دن رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی ، زیادہ قبیح اور زیادہ تاریک کوئی اور دن نہیں دیکھا ۔ اور ترمذی کی روایت میں ہے : فرمایا : جس روز رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینے میں داخل ہوئے تھے تو اس سے ہر چیز روشن ہو گئی تھی ، چنانچہ جس دن آپ نے وفات پائی تھی اس سے ہر چیز تاریک ہو گئی تھی ، ہم نے اپنے ہاتھ مٹی سے صاف نہیں کیے تھے اور ابھی ہم آپ کی تدفین میں مصروف تھے کہ ہم نے اپنے دلوں کو اجنبی پایا ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد و الدارمی و الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5963

وَرُوِيَ صَحِيحا من وَجه آخر) وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا. قَالَ: «مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يحبُ أَن يُدْفَنَ فِيهِ» . ادفنوه فِي موضعِ فراشِهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح قبض کی گئی تو آپ کی تدفین کے متعلق صحابہ میں اختلاف پیدا ہو گیا ، ابوبکر ؓ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے (اس بارے میں) کچھ سنا ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ نبی کی روح اسی جگہ قبض فرماتا ہے جہاں وہ پسند فرماتا ہے کہ اس کی تدفین ہو ۔‘‘ تم آپ کو آپ کے بستر کی جگہ پر دفن کرو ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5964

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ صَحِيح: «لَنْ يُقْبَضَ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يُرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرَ» . قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَمَّا نَزَلَ بِهِ ورأسُه على فَخذِي غُشِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَأَشْخَصَ بَصَرُهُ إِلَى السَّقْفِ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى» . قُلْتُ: إِذَنْ لَا يَخْتَارُنَا. قَالَتْ: وَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَدِيثُ الَّذِي كَانَ يُحَدِّثُنَا بِهِ وَهُوَ صَحِيحٌ فِي قَوْلِهِ: «إِنَّهُ لَنْ يُقْبَضَ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يُرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرَ» قَالَتْ عَائِشَةُ: فَكَانَ آخِرُ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا النَّبِيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى» . مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حالت صحت میں فرمایا کرتے تھے :’’ کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک انہیں ان کا جنتی ٹھکانا نہیں دکھا دیا جاتا ہے ، پھر انہیں اختیار دیا جاتا ہے ۔‘‘ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب آپ پر موت طاری ہوئی اس وقت آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا ، آپ پر بے ہوشی طاری ہوئی ، پھر افاقہ ہوا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نظر چھت کی طرف اٹھائی ، پھر فرمایا :’’ اے اللہ ! اعلی ساتھ نصیب فرما ، میں نے کہا : تب تو آپ ہمیں اختیار نہیں کریں گے ۔ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں میں نے جان لیا کہ وہ حدیث جو آپ ہمیں بیان کیا کرتے تھے ۔ جب کہ آپ صحت مند تھے :’’ کسی نبی کی روح قبض نہیں کی جاتی حتیٰ کہ وہ اپنا جنتی ٹھکانا دیکھ لیتا ہے ، پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے ۔‘‘ عائشہ ؓ نے فرمایا : نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو آخری بات فرمائی وہ یہ تھی :’’ اے اللہ ! اعلی ساتھ نصیب فرما ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5965

وَعَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: «يَا عَائِشَةُ مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ وَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبهري من ذَلِك السم» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے مرض وفات میں فرما رہے تھے :’’ عائشہ ! میں نے جو کھانا خیبر کے موقع پر کھایا تھا اس کی تکلیف مسلسل اٹھاتا رہا ہوں ، اور یہ وہ وقت آ گیا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس زہر کی وجہ سے میری شہ رگ کٹ جائے گی ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5966

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلُمُّوا أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ» . فَقَالَ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُكُمْ كِتَابُ اللَّهِ فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم. وَمِنْهُم يَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ. فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغَطَ وَالِاخْتِلَافَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُومُوا عَنِّي» . قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَكَانَ ابنُ عباسٍ يَقُول: إِن الرزيئة كل الرزيئة مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيَّنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ لِاخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ وَفِي رِوَايَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الْأَحْوَلِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى. قُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ فَقَالَ: «ائْتُونِي بِكَتِفٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا» . فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ. فَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ فَذَهَبُوا يَرُدُّونَ عَلَيْهِ. فَقَالَ: «دَعُونِي ذَرُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ» . فَأَمَرَهُمْ بِثَلَاثٍ: فَقَالَ: «أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ» . وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ أَوْ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا قَالَ سُفْيَانُ: هَذَا مِنْ قَول سُلَيْمَان. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر مرض الموت کے آثار ظاہر ہونے لگے ، تو اس وقت (آپ کے) گھر میں کچھ افراد تھے ان میں عمر بن خطاب ؓ بھی تھے ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ لاؤ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوں گے ۔‘‘ عمر ؓ نے فرمایا : آپ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے ، تمہارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے ، اس پر گھر میں موجود افراد میں اختلاف پڑ گیا ، اور وہ جھگڑ پڑے ، کوئی کہہ رہا تھا ، لاؤ ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہیں لکھ دیں ، اور کوئی وہی کہہ رہا تھا جو عمر ؓ نے کہا تھا ، چنانچہ جب شور و غوغہ اور اختلاف زیادہ ہو گیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میرے پاس سے اٹھ جاؤ ۔‘‘ عبید اللہ نے بیان کیا ، ابن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے : سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ ان کا اختلاف اور شور و شغب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گیا ۔ اور سلیمان بن ابی مسلم الاحول کی روایت میں ہے ، ابن عباس ؓ نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا ، اور جمعرات کے دن کیا ہوا ؟ پھر وہ رونے لگے ، اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں نے سنگریزوں کو تر کر دیا ۔ میں نے کہا : ابن عباس ! جمعرات کے دن کیا ہوا ؟ انہوں نے فرمایا : اس روز رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تکلیف شدت اختیار کر گئی ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مجھے شانے کی ہڈی دو میں تمہیں تحریر لکھ دوں ، اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو گے ۔‘‘ انہوں نے اختلاف کر لیا ، حالانکہ نبی کے ہاں تنازع مناسب نہیں ، انہوں نے کہا : ان کی کیا حالت ہے ؟ کیا آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (مرض کی وجہ سے) ایسی بات فرما رہے ہیں ، انہیں سمجھنے کی کوشش کرو ، پھر وہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بار بار پوچھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مجھے چھوڑ دو ، مجھے میرے حال پر رہنے دو میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے ، جس کے لیے تم کہہ رہے ہو ، بہتر ہے ۔‘‘ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں تین باتوں کی وصیت فرمائی :’’ مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دینا ، وفود کو اسی طرح عطیات دیتے رہنا جس طرح میں انہیں عطیات دیا کرتا تھا ۔‘‘ اور راوی نے تیسری بات نہیں کی یا اس کے متعلق انہوں نے کہا : میں اسے بھول گیا ہوں ، سفیان ؒ نے کہا ، یہ (کہنا کہ انہوں نے تیسری بات بیان نہیں کی) سلیمان کا قول ہے ۔ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5967

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ. فَقَالَا لَهَا: مَا يُبْكِيكِ؟ أَمَا تَعْلَمِينَ أَنَّ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: إِنِّي لَا أَبْكِي أَنِّي لَا أَعْلَمُ أَنَّ مَا عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى خَيْرٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ أَبْكِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى الْبُكَاءِ فَجعلَا يَبْكِيَانِ مَعهَا. رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوبکر ؓ نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد عمر ؓ سے فرمایا : ام ایمن ؓ کے پاس چلیں ان کی زیارت کریں جس طرح رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی زیارت کیا کرتے تھے ، جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں ، ان دونوں حضرات نے انہیں کہا : آپ کیوں روتی ہیں ، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ کے ہاں جو ہے وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے بہتر ہے ؟ انہوں نے فرمایا : میں اس لیے نہیں رو رہی کہ مجھے علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ہے وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے بہتر ہے ، میں تو اس لیے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی کا آنا منقطع ہو چکا ہے ، ام ایمن ؓ نے ان دونوں حضرات کو بھی رونے پر آمادہ کر دیا ، وہ بھی ان کے ساتھ رونا شروع ہو گئے ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5968

وَعَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَنَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ عَاصِبًا رَأْسَهُ بِخِرْقَةٍ حَتَّى أَهْوَى نَحْوَ الْمِنْبَرِ فَاسْتَوَى عَلَيْهِ وَاتَّبَعْنَاهُ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي؟ لَأَنْظُرُ إِلَى الْحَوْضِ مِنْ مَقَامِي هَذَا» ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ عَبْدًا عُرِضَتْ عَلَيْهِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا فَاخْتَارَ الْآخِرَةَ» قَالَ: فَلَمْ يَفْطِنْ لَهَا أَحَدٌ غَيْرُ أَبِي بَكْرٍ فَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ فَبَكَى ثُمَّ قَالَ: بَلْ نَفْدِيكَ بِآبَائِنَا وأمَّهاتِنا وأنفسنا وأموالِنا يَا رسولَ الله قَالَ: ثُمَّ هَبَطَ فَمَا قَامَ عَلَيْهِ حَتَّى السَّاعَة. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے مرض وفات میں (اپنے حجرے سے) باہر تشریف لائے ، ہم اس وقت مسجد میں تھے ، آپ نے اپنے سر پر پٹی باندھ رکھی تھی ، آپ منبر کی طرف بڑھے اور اس پر جلوہ افروز ہوئے ، ہم بھی آپ کے قریب ہوئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں اپنی اس جگہ سے حوض (کوثر) کو دیکھ رہا ہوں ۔‘‘ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ایک بندے پر دنیا اور اس کی زیب و زینت پیش کی گئی لیکن اس نے آخرت کو پسند کیا ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں صرف ابوبکر ؓ ہی اس بات کو سمجھ سکے ، ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور آپ زارو قطار رونے لگے ، پھر عرض کیا : اللہ کے رسول ! نہیں ، بلکہ ہم آپ پر اپنے والدین ، اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر دیں گے ، راوی بیان کرتے ہیں ، پھر آپ منبر سے نیچے تشریف لائے ، پھر وفات تک دوبارہ منبر پر جلوہ افروز نہیں ہوئے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5969

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ [إِذَا جَاءَ نصر الله وَالْفَتْح] دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ قَالَ: «نُعِيَتْ إِلَيَّ نَفْسِي» فَبَكَتْ قَالَ: «لَا تَبْكِي فَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لَاحِقٌ بِي» فَضَحِكَتْ فَرَآهَا بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَ: يَا فَاطِمَةُ رَأَيْنَاكِ بَكَيْتِ ثُمَّ ضَحِكْتِ. قَالَتْ: إِنَّهُ أَخْبَرَنِي أَنَّهُ قَدْ نُعِيَتْ إِلَيْهِ نَفْسُهُ فَبَكَيْتُ فَقَالَ لِي: لَا تبْكي فإِنك أوَّلُ أَهلِي لاحقٌ بِي فضحكتُ. وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا جَاءَ نصرُ الله وَالْفَتْح وَجَاءَ أَهْلُ الْيَمَنِ هُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً وَالْإِيمَانُ يمانٍ وَالْحكمَة يَمَانِية» . رَوَاهُ الدَّارمِيّ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب سورۂ نصر نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فاطمہ ؓ کو بلایا اور فرمایا :’’ مجھے میری وفات کی اطلاع دی گئی ہے ۔‘‘ وہ رونے لگیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مت روئیں ، کیونکہ میرے اہل خانہ میں سے سب سے پہلے آپ مجھے ملیں گی ۔‘‘ اس پر وہ ہنس دیں ۔ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کسی زوجہ محترمہ نے انہیں دیکھ لیا تو انہوں نے کہا : فاطمہ ! ہم نے آپ کو روتے ہوئے دیکھا پھر آپ کو ہنستے ہوئے دیکھا ، (کیا معاملہ تھا ؟) انہوں نے فرمایا : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بتایا کہ مجھے میری وفات کی اطلاع دی گئی ہے تو اس پر میں رونے لگی ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا :’’ آپ مت روئیں ، کیونکہ میرے اہل خانہ میں سے سب سے پہلے آپ مجھے ملیں گی ۔‘‘ تو اس پر میں ہنس دی ۔ اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جب اللہ کی نصرت اور فتح آ گئی ۔‘‘ اور اہل یمن آئے ، وہ نرم دل ہیں ، اور ایمان یمنی ہے اور حکمت یمنی ہے ۔‘‘ سندہ حسن ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5970

وَعَن عَائِشَة أَنَّهَا قَالَت: وَا رأساه قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرُ لَكِ وَأَدْعُو لَكِ» فَقَالَتْ عَائِشَةُ: وَاثُكْلَيَاهْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي فَلَوْ كَانَ ذَلِكَ لَظَلِلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعْرِسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: بل أَنا وَا رأساه لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ وَأَعْهَدُ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ: يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : ہائے سر پھٹا جا رہا ہے (اور انہوں نے موت کی طرف اشارہ کیا) تب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اگر ایسی صورت ہوئی (تمہاری موت واقع ہو گئی) اور میں زندہ ہوا تو میں تمہارے لیے مغفرت طلب کروں گا اور تمہارے لیے دعا کروں گا ۔‘‘ عائشہ ؓ نے فرمایا : افسوس ! اللہ کی قسم ! میں آپ کے متعلق یہ خیال کرتی ہوں کہ آپ میری موت پسند فرماتے ہیں ، اگر ایسے ہو گیا تو آپ اگلے ہی روز کسی دوسری عورت سے شادی کر لیں گے ۔ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ نہیں ، بلکہ میں اپنے سر پھٹنے کا اظہار کرتا ہوں ، میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں ابوبکر اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور ان (ابوبکر ؓ) کو خلیفہ نامزد کر دوں ، تا کہ کوئی دعویٰ کرنے والا اس کا دعویٰ نہ کرے یا کوئی خواہش رکھنے والا اس کی خواہش نہ رکھے ، پھر میں نے کہا : اللہ خود ہی (کسی اور کی خلافت کا) انکار فرما دے گا اور مومن (کسی اور کو خلافت سے) دور کر دیں گے ۔ یا اللہ (کسی اور کی خلافت) ہٹا دے گا اور مومن انکار کر دیں گے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5971

وَعَنْهَا : قَالَتْ: رَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَات يومٍ من جنازةٍ مِنَ الْبَقِيعِ فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا وَأَنَا أَقُولُ: وَارَأْسَاهْ قَالَ: «بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَارَأْسَاهْ» قَالَ: «وَمَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي فَغَسَّلْتُكِ وَكَفَّنْتُكِ وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ وَدَفَنْتُكِ؟» قُلْتُ: لَكَأَنِيِّ بِكَ وَاللَّهِ لَوْ فَعَلْتَ ذَلِكَ لَرَجَعْتَ إِلَى بَيْتِي فَعَرَّسْتَ فِيهِ بِبَعْضِ نِسَائِكَ فَتَبَسَّمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ بُدِيءَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، ایک روز رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جنازے سے فارغ ہو کر بقیع سے واپس میرے پاس تشریف لائے اور آپ نے مجھے اس حال میں پایا کہ میرے سر میں درد تھا ، اور میں کہہ رہی تھی : ہائے درد کی وجہ سے سر پھٹا جا رہا ہے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ نہیں بلکہ عائشہ ! میں ، اور میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے ۔‘‘ فرمایا :’’ اگر تم مجھ سے پہلے وفات پا گئیں تو یہ تمہارے لئے مضر نہیں کیوں کہ اس صورت میں ، میں تمہیں غسل دوں گا ، تجھے کفن پہناؤں گا ، تمہاری نماز جنازہ پڑھوں گا اور تمہیں دفن کروں گا ۔‘‘ میں نے کہا : اللہ کی قسم ! آپ کے متعلق میرا بھی یہی خیال ہے ، اگر آپ نے اس طرح (غسل و کفن اور دفن وغیرہ) کیا تو آپ میرے گھر واپس آئیں گے ، وہاں اپنی کسی بیوی سے صحبت کریں گے ، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا دیے ، پھر آپ کو تکلیف ظاہر ہوئی جس میں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5972

وَعَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ دَخَلَ عَلَى أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقَالَ أَلَا أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: بَلَى حَدِّثْنَا عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ تَكْرِيمًا لَكَ وَتَشْرِيفًا لَكَ خَاصَّةً لَكَ يَسْأَلُكَ عَمَّا هُوَ أَعْلَمُ بِهِ مِنْكَ يَقُولُ: كَيْفَ تجدك؟ قَالَ: أجدُني يَا جِبْرِيل مغموماً وأجدني يَا جِبْرِيل مَكْرُوبًا . ثُمَّ جَاءَهُ الْيَوْمُ الثَّانِي فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ فَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا رَدَّ أَوَّلَ يَوْمٍ ثُمَّ جَاءَهُ الْيَوْمَ الثَّالِثَ فَقَالَ لَهُ كَمَا قَالَ أَوَّلَ يَوْمٍ وَرَدَّ عَلَيْهِ كَمَا رَدَّ عَلَيْهِ وَجَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ يُقَالُ لَهُ: إِسْمَاعِيلُ عَلَى مِائَةِ أَلْفِ مَلَكٍ كُلُّ مَلَكٍ عَلَى مِائَةِ أَلْفِ مَلَكٍ فَاسْتَأْذَنَ عَلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهُ. ثُمَّ قَالَ جِبْرِيل: هَذَا مَلَكُ الْمَوْتِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْكَ. مَا اسْتَأْذَنَ عَلَى آدَمِيٍّ قَبْلَكَ وَلَا يَسْتَأْذِنُ عَلَى آدَمِيٍّ بَعْدَكَ. فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ فَأَذِنَ لَهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ فَإِنْ أَمَرْتَنِي أَنْ أَقْبِضَ رُوحَكَ قَبَضْتُ وَإِنْ أَمَرْتَنِي أَنْ أَتْرُكَهُ تَرَكْتُهُ فَقَالَ: وَتَفْعَلُ يَا مَلَكَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: نَعَمْ بِذَلِكَ أُمرتُ وأُمرتُ أَن أطيعَك. قَالَ: فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ جِبْرِيلُ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ قَدِ اشْتَاقَ إِلَى لِقَائِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَلَكِ الْمَوْتِ: «امْضِ لِمَا أُمِرْتَ بِهِ» فَقَبَضَ رُوحَهُ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَتِ التَّعْزِيَةُ سَمِعُوا صَوْتًا مِنْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ إِنَّ فِي اللَّهِ عَزَاءً مِنْ كُلِّ مُصِيبَةٍ وَخَلَفًا مِنْ كُلِّ هالكٍ ودَرَكاً من كلِّ فَائت فبالله فثقوا وَإِيَّاهُ فَارْجُوا فَإِنَّمَا الْمُصَابُ مَنْ حُرِمَ الثَّوَابَ. فَقَالَ عَلِيٌّ: أَتَدْرُونَ مَنْ هَذَا؟ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَامُ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ»
جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قریش میں سے ایک آدمی ان کے والد علی بن حسین کے پاس آیا اور اس نے کہا : کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث نہ سناؤں ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، ابوالقاسم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث ہمیں سناؤ ، اس آدمی نے کہا : جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیمار ہوئے تو جبریل ؑ آپ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : محمد ! اللہ نے آپ کی تکریم و تعظیم کی خاطر مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے ، وہ آپ کے لیے خاص ہے ، وہ آپ سے اس چیز کے متعلق دریافت کرتا ہے ، جس کے متعلق وہ آپ سے بہتر جانتا ہے ، وہ فرماتا ہے : آپ اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہیں ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جبریل ! میں اپنے آپ کو مغموم پاتا ہوں ، اور جبریل ! میں اپنے آپ کو کرب میں محسوس کرتا ہوں ۔‘‘ پھر وہ دوسرے روز آئے تو انہوں نے آپ سے یہی کہا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہی جواب دیا جو آپ نے پہلے روز دیا تھا ۔ پھر وہ تیسرے روز آپ کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے وہی کچھ کہا جو پہلے روز کہا تھا ، اور آپ نے بھی انہیں وہی جواب دیا ، اور آخری بار جبریل ؑ کے ساتھ اسماعیل نامی فرشتہ آیا جو ایک لاکھ فرشتے کا سردار ہے ، اور اس کا ہر ماتحت فرشتہ لاکھ فرشتے کا سردار ہے ، اس نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت طلب کی ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل ؑ سے اس (فرشتوں) کے متعلق دریافت کیا ، تو جبریل ؑ نے عرض کیا : یہ موت کا فرشتہ ہے ، وہ آپ کے پاس آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے ، اس نے آپ سے پہلے کسی آدمی سے اجازت طلب کی ہے نہ آپ کے بعد کسی آدمی سے اجازت طلب کرے گا ۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اسے اجازت دے دیں ۔‘‘ اسے اجازت دے دی گئی ، اس نے سلام کیا ، پھر کہا : محمد ! اللہ نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے ، اگر آپ اپنی روح قبض کرنے کی مجھے اجازت دیں تو میں قبض کر لوں گا ، اور اگر آپ نے اجازت نہ فرمائی تو میں اسے قبض نہیں کروں گا ۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ موت کے فرشتے ! کیا تم ایسے کرو گے ؟‘‘ اس نے کہا : ہاں ، کیونکہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ کی چاہت کا احترام کروں ، راوی بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل ؑ کی طرف دیکھا تو جبریل ؑ نے کہا : محمد ! اللہ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے ، تب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ملک الموت سے فرمایا :’’ تمہیں جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کرو ۔‘‘ اس نے آپ کی روح قبض کی ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی اور تعزیت کرنے والے حاضر ہوئے تو انہوں نے گھر کے کونے سے آواز سنی : اہل بیت ! تم پر سلامتی ہو ، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں ، بے شک اللہ کی کتاب میں ہر مصیبت سے عزا و تسلی ہے ، ہر ہلاک ہونے والی چیز کا معاوضہ ہے ، اور ہر نقصان کا تدراک ہے ، اللہ کی توفیق کے ساتھ اللہ سے ڈرو ، صرف اس سے امید وابستہ کرو ، خسارے والا شخص وہ ہے جو ثواب سے محروم ہو گیا علی (زین العابدین ؒ) نے کہا : کیا تم جانتے ہو کہ وہ شخص کون تھا ؟ وہ خضر ؑ تھے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5973

عَن عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَلَا شَاةً وَلَا بَعِيرًا وَلَا أَوْصَى بِشَيْءٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (ترکہ میں) کوئی دینار چھوڑا نہ درہم ، کوئی بکری چھوڑی نہ اونٹ اور نہ ہی کسی چیز کی وصیت کی ۔ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5974

عَن عَمْرو بن الْحَارِث أخي جوَيْرِية قَالَ: مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِهِ دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَلَا عَبْدًا وَلَا أَمَةً وَلَا شَيْئًا إِلَّا بَغْلَتَهُ الْبَيْضَاءَ وَسِلَاحَهُ وَأَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً. رَوَاهُ البُخَارِيّ
جویریہ ؓ کے بھائی عمرو بن حارث ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی وفات کے وقت کوئی دینار چھوڑا نہ درہم ، کوئی غلام چھوڑا نہ لونڈی ، آپ نے اپنا سفید خچر ، اپنا اسلحہ اور کچھ زمین چھوڑی تھی ، اور اس (زمین) کو بھی صدقہ قرار دے دیا تھا ۔ رواہ البخاری ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5975

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمُؤْنَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میرا ورثہ دینار کی صورت میں تقسیم نہیں ہو گا ، میں نے اپنی ازواج مطہرات کے خرچے اور عاملوں کی ضروریات کے اخراجات کے بعد جو چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5976

وَعَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوبکر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ہماری وراثت نہیں ہوتی ، ہمارا ترکہ صدقہ ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5977

وَعَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَرَادَ رَحْمَةَ أُمَّةٍ مِنْ عِبَادِهِ قَبَضَ نَبِيَّهَا قَبْلَهَا فَجَعَلَهُ لَهَا فَرَطًا وَسَلَفًا بَيْنَ يَدَيْهَا وَإِذَا أَرَادَ هَلَكَةَ أُمَّةٍ عَذَّبَهَا وَنَبِيُّهَا حَيٌّ فَأَهْلَكَهَا وَهُوَ يَنْظُرُ فَأَقَرَّ عَيْنَيْهِ بِهَلَكَتِهَا حِينَ كذَّبُوه وعصَوْا أمره» . رَوَاهُ مُسلم
ابوموسی ؓ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جب اللہ امت کے افراد پر رحمت کا ارادہ فرماتا ہے تو اس (امت) سے پہلے اس کے نبی کی روح قبض فرما لیتا ہے ، اور وہ اس (نبی) کو اس (امت) کے لیے اس کے آگے میر منزل اور پیشرو بنا دیتا ہے ، اور جب وہ کسی امت کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے تو نبی کی زندگی میں اس (امت) پر عذاب نازل فرما کر اس کو ہلاک کر دیتا ہے اور وہ (نبی) ان کی ہلاکت کے منظر کا مشاہدہ کر کے اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے کیونکہ انہوں نے اس کی تکذیب کی ہوتی ہے اور اس کے حکم کی نافرمانی کی ہوتی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5978

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أَحَدِكُمْ يَوْمٌ وَلَا يَرَانِي ثُمَّ لَأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ ومالهِ مَعَهم» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) کی جان ہے ! تم میں سے کسی پر ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ وہ مجھے نہیں دیکھے گا ، پھر اگر وہ مجھے دیکھ لے تو یہ اسے اپنے اہل و عیال اور اپنے مال کے ملنے سے بھی زیادہ پسندیدہ ہو گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Icon this is notification panel