۔ (۶۲۳۵)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ مُزَیْنَۃَیَسْأَلُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! جِئْتُ أَسْأَلُکَ عَنِ الضَّالَّۃِ مِنَ الْاِبِلِ؟ قَالَ: ((مَعَہَا حِذَاؤُھَا وَسِقَاؤُھَا تَأْکُلُ الشَّجَرَ
وَتَرِدُ الْمَائَ فَدَعْہَا حَتّٰییَأْتِیَہَا بَاغِیْہَا۔)) قَالَ: الضَّالَۃُ مِنَ الْغَنَمِ؟ قَالَ: ((لَکَ أَوْ لِأَخِیْکِ أَوْ لِلذِّئْبِ، تَجْمَعُہَا حَتّٰییَأْتِیَہَا بَاغِیْہَا۔)) قَالَ: الْحَرِیْسَۃُ الَّتِیْ تُوْجَدُ فِیْ مَرَاتِعِہَا؟ قَالَ: بِہَا ثَمَنُہَا مَرَّتَیْنِ وَضَرْبُ نَکَالٍ، وَمَا اُخِذَ مِنْ عَطَنِہِ فَفِیْہِ الْقَطْعُ اِذَا بَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ۔)) قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَالثِّمَارُ وَمَا أُخِذَ مِنْہَا فِیْ أَکْمَامِہَا؟ قَالَ: ((مَنْ أَخَذَ بِفَمِہِ وَلَمْ یَتَّخِذْ خُبْنَۃً فَلَیْسَ عَلَیْہِ شَیْئٌ وَمَنِ احْتَمَلَ، عَلَیْہِ ثَمَنُہُ مَرَّتَیْنِ وَضَرْبًا وَنَکَالًا، وَمَا اَخَذَ مِنْ اَجْرَانِہِ فَفِیْہِ الْقَطْعُ اِذَا بَلَغَ مَا یُؤْخَذُ مِنْ ذٰلِکَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ۔)) قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَاللُّقْطَۃُ نَجِدُھَا فِیْ سَبِیْلِ الْعَامِرَۃِ؟ قَالَ: ((عَرِّفْہَا حَوْلًا فَإِنْ وَجَدَ بَاغِیْہَا فَأَدِّھَا إِلَیْہِ وَاِلَّا فَہِیَ لَکَ۔)) قَالَ: مَا یُوْخَذُ فِی الْخَرِبِ الْعَادِیِّ؟ قَالَ: ((فِیْہِ وَفِی الرِّکَازِ الْخُمُسُ۔)) (مسند احمد: ۶۶۸۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گم شدہ اونٹ کا حکم دریافت کرنے کے لیے آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: چونکہ اس کا جوتا اور مشکیزہ اس کے پاس موجود ہے، پس وہ درختوں سے چرتا رہے گا اور پانی پیتا رہے گا، یہاں تک کہ اس کا مالک اس کو پا لے گا، اس لیے تو اس کو چھوڑ دے۔ اس نے کہا: گم شدہ بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ تیرے لیے ہے یا تیرے بھائی کے لیے ہے یا پھر بھیڑیئے کے لیے، اس لیے اس کو اپنے پاس رکھ لے، یہاں تک کہ اس کا تلاش کرنے والا آ جائے۔ اس نے کہا: اس بکری کا کیا حکم ہے، جس کو چراگاہ سے چرا لیا گیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کی دوگنا قیمت لی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ سزا بھی دی جائے گی اور جو چیز اونٹوں کے باڑے سے چرا لی جائے اور اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو اس میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھل کے متعلق کیا حکم ہے، نیز جو پھل شگوفوں سے ہی کھا لیا جائے، اس کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے وہیں (باغ میں) کھا لیا اور کپڑے میں اٹھا کر نہ لے گیا، تو اس پر کوئی حرج نہیں ہو گا، لیکن جو آدمی پھل اٹھا کر لے گیا، اس نے اس کی دو گنا قیمت ادا کرنا ہو گی اور اس کو سزا بھی دی جائے گی، لیکن جو چیز (کھلیانوں جیسے) محفوظ مقامات سے اٹھا لی جائے گی اور وہ ڈھال کی قیمت کے برابر ہو گی تو اس میں ہاتھ کاٹا جائے گا، ۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! شارع عام میں گری پڑی چیز کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک سال تک اس کا اعلان کر، اگر اس کو تلاش کرنے والا مالک مل جائے تو اس کو دے دے، وگرنہ وہ تیری ہو جائے گی۔ اس نے کہا:جو چیز ویران ہو جانے والے قدیم مقام سے ملے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس میں اور رکاز میں پانچواں حصہ ہے۔