۔ (۶۲۸۱)۔ عَنْ ذِی الْجَوْشَنِ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بَعْدَ أَنْ فَرَغَ مِنْ أَھْلِ بَدْرٍ بِابْنِ فَرَسٍ لِیْیُقَالُ لَھَا: الْقَرْحَائُ، فَقُلْتُ: یَا مُحَمَّدُ! إِنِّیْ قَدْ جِئْتُکَ بِاِبْنِ الْعَرْجَائِ لِتَتَّخِذَہُ قَالَ: ((لَا حَاجَۃَ لِیْ فِیْہِ، وَلٰکِنْ إِنْ شِئْتَ أَنْ أَقِیْضَکَ بِہِ الْمُخْتَارَۃَ مِنْ دُرُوْعِ بَدْرٍ، فَعَلْتُ۔)) فَقُلْتُ: مَاکُنْتُ لِأَقِیْضَکَ الْیَوْمَ بِغُرَّۃٍ، قَالَ: ((فَلا حَاجَۃَ لِیْ فِیْہِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا ذَا الْجَوْشَنِ! اَلَا تُسْلِمُ فَتَکُوْنَ مِنْ أَوَّلِ ھٰذَا الْأَمْرِ؟)) قُلْتُ: لَا، قَالَ: ((لِمَ؟)) قُلْتُ: إِنِّیْ رَأَیْتُ قَوْمَکَ قَدْ وَلَعُوْا بِکَ، قَالَ: ((فَکَیْفَ بَلَغَکَ عَنْ مَصَارِعِہِمْ بِبَدْرٍ؟)) قَالَ: قُلْتُ: بَلَغَنِیْ اَنْ تَغْلِبْ عَلٰی مَکَّۃَ وَتَقْطُنْہَا، قَالَ: ((لَعَلَّکَ اِنْ عِشْتَ أَنْ تَرٰی ذٰلِکَ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ: ((یَا بِلَالُ! خُذْ حَقِیْبَۃَ الرَّجُلِ فَزَوِّدْہُ مِنَ الْعَجْوَۃِ۔)) فَلَمَّا أَنْ أَدْبَرْتُ قَالَ: ((أَمَا إِنَّہُ مِنْ خَیْرِ بَنِیْ عَامِرٍ۔)) قَالَ: فَوَاللّٰہِ! اِنِّیْ بِأَھْلِیْ بِالْغَوْرِ إِذْ أَقْبَلَ رَاکِبٌ فَقُلْتُ: مِنْ أَیْنَ؟ قَالَ: مِنْ مَکَّۃَ، فَقُلْتُ: مَا فَعَلَ النَّاسُ؟ قَالَ: قَدْ غَلَبَ عَلَیْہَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: قُلْتُ: ھَبَلَتْنِیْ أُمِّیْ فَوَاللّٰہِ! لَوْ أُسْلِمُ یَوْمَئِذٍ ثُمَّ أَسْئَلُہُ الْحِیْرَۃَ لِأَقْطَعَنِیْہَا۔ (مسند احمد: ۱۶۷۵۰)
۔ سیدنا ذوالجوشن کہتے ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ بدر سے فارغ ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس گھوڑی کا بچہ لایا ہوں، جس کے چہرے پر تھوڑی سی سفیدی ہوتی ہے، تاکہ آپ اس کو بطور تحفہ قبول فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس کی ضرورت نہیں،لیکن اگر تو چاہتا ہے کہ میں تجھے اس کے بدلے میں بدر کی عمدہ زرہیں دے دوں، تو ٹھیک ہے۔ اس نے کہا: جی نہیں،میں تو آج اس کے عوض لونڈی بھی نہیں لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ذوالجوشن! کیا تو اسلام قبول نہیں کر لیتا، تاکہ اس دین کے پہلے والے لوگوں میں سے ہو جائے؟ اس نے کہا: جی نہیں، میں ایسا نہیں کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیوں، اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ ابھی تک آپ کی قوم (قریش) آپ سے لڑ رہی ہے، (معلوم نہیں کہ کس کے حق میں نتیجہ نکلتا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میدان بدر میں ہونے والی ان کی ہلاکتوں کی اطلاع تجھے نہیں ملی؟ اس نے کہا: جییہ بات تو مجھے پتہ چلی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم تیرے لیے وضاحت کریں گے۔ اس نے کہا: اگر آپ کعبہ پر غالب آ کر اس کو اپنا مسکن بنا لیں تو پھر بات بنے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تو زندہ رہا تو اپنی آنکھوں سے اس چیز کو بھی دیکھ لے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! اس آدمی کا توشہ دان لو اور اس میں عجوہ کھجوریں ڈال کر دو۔ سیدنا ذوالجوشن کہتے ہیں: جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں سے واپس لوٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبردار! یہ بنو عامر کا سب سے بہترین گھوڑ سوار ہے۔ سیدنا ذو الجوشن کہتے ہیں: (ایک عرصہ گزر جانے کے بعد) میں نے دیکھا کہ ایک سوار میری طرف آ رہا تھا، جبکہ میں اس وقت اپنے اہل کے ساتھ (یمن کی) ایک پست جگہ میں تھا، میں نے کہا: کہاں سے آئے ہو؟ اس نے کہا: مکہ سے، میں نے کہا: کیا بنا لوگوں کا؟ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ پر غالب آ گئے ہیں۔ میں نے کہا: میری ماں مجھے گم پائے، اگر میں اسی دن مسلمان ہو چکا ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیرہ کا سوال کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دے دینا تھا۔