۔ (۶۳۱۷)۔ عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ حَزْنِ نِ الْقُشَیْرِیِّ قَالَ: شَھِدْتُّ الدَّارَ یَوْمَ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ فَطَلَعَ
عَلَیْہِمْ اِطْلَاعَۃً فَقَالَ: ادْعُوْا لِیْ صَاحِبَیْکُمُ اللَّذَیْنِ اَلَّبَاکُمْ عَلَیَّّ فَدُعِیَا لَہُ، فقَالَ: نَشَدْتُّکُمَا اللّٰہَ أَتَعْلَمَانِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَمَّا قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ ضَاقَ الْمَسْجِدُ بِأَھْلِہِ فَقَالَ: ((مَنْ یَشْتَرِیْ ھٰذِہِ الْبُقْعَۃَ مِنْ خَالِصِ مَالِہِ فَیَکُوْنُ فِیْہَا کَالْمُسْلِمِیْنَ وَلَہُ خَیْرٌ مِنْہَا فِیْ الْجَنَّۃِ۔)) فَاشْتَرَیْتُہَا مِنْ خَالِصِ مَالِیْ فَجَعَلْتُہَا بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنِ وَأَنْتُمْ تَمْنَعُوْنِیْ أَنْ أُصَلِّیَ فِیْہَا رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ أَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَمَّا قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ لَمْ یَکُنْ فِیْہَا بِئْرٌ یُسْتَعْذَبُ مِنْہُ اِلَّا رُوْمَۃَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((مَنْ یَشْتَرِیْہَا مِنْ خَالِصِ مَالِہِ فَیَکُوْنُ دَلْوُہُ فِیْہَا کَدُلِیِّ الْمُسْلِمِیْنَ وَلَہُ خَیْرٌ مِنْہَا فِیْ الْجَنَّۃِ؟)) فَاشْتَرَیْتُہَا مِنْ خَالِصِ مَالِیْ فَأَنْتُمْ تَمْنَعُوْنِیْ اَنْ أَشْرَبَ مِنْہَا، ثُمَّ قَالَ: ھَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّیْ صَاحِبُ جَیْشِ الْعُسْرَۃِ؟ قَالُوْا: اَللّٰہُمَّ نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۵۵۵)
۔ ثمامہ بن حزن قشیری کہتے ہیں: جس دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا، میں اس دن موجود تھا، وہ محاصرہ کرنے والوں پر جھانکے اور کہا: میرے پاس ان دو آدمیوں کو بلا کر لائو، جنہوں نے تمہیں میرے خلاف ابھارا ہے، (ان کی مراد محمد بن ابی بکر اور محمد بن ابی حذیفہ تھی،) چنانچہ انہیں بلایا گیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تومسجد میں نمازیوں کی گنجائش نہ رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو اپنے خالص مال میں سے یہ زمین خریدے گا اور پھر وہ عام مسلمانوں کی طرح رہے گا، تو اس کے لیے اس کے عوض لیکن اس سے بہتر گھر جنت میں ہو گا۔ پس میں نے وہ جگہ اپنے خالص مال سے خریدی اور اس کو مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا، لیکن آج تم مجھے اس میں دورکعت نمازپڑھنے سے روک رہے ہو۔پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس میں بئر رومہ کے سوا میٹھے پانی والا کوئی کنواں نہیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنے خالص مال سے یہ کنواں خریدے گا اور پھر اس میں دوسروں مسلمانوں کے ڈولوں کی طرح ڈول ڈالے گا، تو اس کے لیے اس سے بہتر چیز جنت میں ہوگی۔ پھر کہا: کیا تم جانتے ہو تنگی والے لشکر یعنی غزوئہ تبوک کو تیار کرنے والا میں ہی تھا؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔