۔ (۶۳۳۱)۔ عَنْ ذَیَّالِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ حَنْظَلَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ حَنْظَلَۃَ بْنَ حِذْیَمٍ جَدِّیْ أَنَّ جَدَّہُ حَنِیْفَۃَ قَالَ لِحِذْیَمٍ: اجْمَعْ لِیْ بَنِیَّ فَإِنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أُوْصِیَ، فَجَمَعَہُمْ فَقَالَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا أُوْصِیْ أَنَّ لِیَتِیْمِیْ ھٰذَا الَّذِیْ فِیْ حِجْرِیْ مِائَۃً مِنَ الْإِبِلِ الَّتِیْ کُنَّا نُسَمِّیْہَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ الْمُطَیَّبَۃَ، فَقَالَ حِذْیَمٌ: یَا أَبَتِ إِنِّیْ سَمِعْتُ بَنِیْکَیَقُوْلُوْنَ: إِنَّمَا نُقِرُّ بِہٰذَا عِنْدَ اَبِیْنَا فَاِذَا مَاتَ رَجَعْنَا فِیْہِ، قَالَ: بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فَقَالَ حِذْیَمٌ: رَضِیْنَا، فَارْتَفَعَ حِذْیَمٌ وَحَنِیْفَۃُ وَحَنْظَلَۃُ مَعَہُمْ غَلَامٌ وَھُوَ رَدِیْفٌ لِحِذْیَمٍ، فَلَمَّا أَتَوُا
النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سَلَّمُوْا عَلَیْہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((وَمَا رَفَعَکَ یَا أَبَا حِذْیَمٍ؟)) فَقَالَ: ھٰذَا وَضَرَبَ بِیَدِہِ عَلٰی فَخِذِ حِذْیَمٍ، فَقَالَ: إِنِّیْ خَشِیْتُ أَنْ یَفْجَأَنِی الْمَوْتُ فَأَرَدْتُّ أَنْ أُوْصِیَ وَأَنِّیْ قُلْتُ: إِنَّ أَوَّلَ مَا أُوْصِیْ أَنَّ لِیَتِیْمِیْ ھٰذَا الَّذِیْ فِیْ حِجْرِیْ مِائَۃً مِنَ الْاِبِلِ کُنَّا نُسَمِّیْہَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ الْمُطَیَّبَۃَ، فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتّٰی رَأَیْنَا الْغَضَبَ فِیْ وَجْہِہِ، وَکَانَ قَاعِدًا فَجَثٰی عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَقَالَ: ((لَا لَا لَا، الصَّدَقَۃُ خَمْسٌ وَاِلَّا فَعَشْرٌ واِلَّا فَخَمْسَ عَشَرَۃَ واِلَّا فَعِشْرُوْنَ وَاِلَّا فَخَمْسٌ وَعِشْرُوْنَ وَاِلَّا فَثَلَاثُوْنَ وَاِلَّا فَخَمْسٌ وَثَلَاثُوْنَ فَاِنْ کَثُرَتْ فَأَرْبَعُوْنَ۔)) قَالَ: فَوَدَّعُوْہُ وَ مَعَ الْیَتِیْمِ عَصًا وَ ھُوَ یَضْرِبُ جَمَلًا، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((عَظُمَتْ ھٰذِہٖھِرَاوَۃُیَتِیْمٍ؟)) قَالَ حَنْظَلَۃُ: فَدَنَابِیْ إِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: إِنَّ لِیْ بَنِیْنَ ذَوِیْ لِحًی وَدُوْنَ ذٰلِکَ وَأَنَّ ذَا أَصْغَرُھُمْ فَادْعُ اللّٰہَ لَہُ، فَمَسَحَ رَأْسَہُ وَقَالَ: ((بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ، أَوْ بُوْرِکَ فِیْہِ۔)) قَالَ ذَیَّالٌ: فَلَقَدْ رَأَیْتُ حَنْظَلَۃَیُؤْتٰی بِالْاِنْسَانِ الْوَارِمِ وَجْہُہُ أَوِ الْبَہِیْمَۃِ الْوَارِمَۃِ الضَّرْعُ فَیَتْفُلُ عَلٰییَدَیْہِوَیَقُوْلُ: بِسْمِ اللّٰہِ وَیَضَعُیَدَہُ عَلٰی رَأْسِہِ وَیَقُوْلُ: عَلٰی مَوْضِعِ کَفِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَیَمْسَحُہُ عَلَیْہِ وَقَالَ ذَیَّالٌ: فَیَذْھَبُ الْوَرَمُ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۴۱)
۔ حنظلہ بن حذیم کہتے ہیں میرے دادا سیدنا حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سیدنا حذیم رضی اللہ عنہ سے کہا: اے میرے بیٹے! میرے تمام بیٹوں کو ایک جگہ جمع کرو، میں انہیں وصیت کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے انہیں اکٹھا کیا، پس سیدنا حنیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سب سے پہلی وصیتیہ کرتا ہوں کہ جو یتیم میری کفالت میںہے، میں اسے سو اونٹ دیتا ہوں، ہم جاہلیت میں اس عطیہ کو مطیبہ کہتے تھے۔ سیدنا حذیم رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابا جان! میرے بھائی کہہ رہے ہیں کہ جب تک ہمارا باپ زندہ ہے ہم اس چیز پر برقار رہیں گے، لیکن جب وہ فوت ہو جائے گا تو ہم یہ عطیہ واپس لے لیں گے۔ سیدنا حنیفہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: تو پھر میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔سیدنا حذیم رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اس پر راضی ہو گئے، پس سیدنا حذیم، سیدنا حنیفہ، سیدنا حنظلہ اور سیدنا حذیم کے پیچھے بیٹھنے والا ایک غلام روانہ ہو گئے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: اے ابو حذیم! کس لئے آئے ہو؟ سیدنا حنیفہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا حذیم رضی اللہ عنہ کی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا: یہ حذیم آنے کا سبب بنا ہے، تفصیلیہ ہے کہ مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ اب موت اچانک بھی آ سکتی ہے، اس لئے میں نے وصیت کرنے کا ارادہ کیا اور کہا: میری پہلی وصیتیہ ہے کہ میں اپنے زیر کفالت بچے کو سو اونٹ دیتا ہوں، ہم دورِ جاہلیت میں اس عطیے کو مطیَّبہ کہتے تھے۔ یہ بات سنتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غضبناک ہو گئے اور غصے کے آثار چہرے پر دکھائے دینے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے تو بیٹھے ہوئے تھے، لیکن اب گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور فرمایا: نہیں ، نہیں، نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوگا، پانچ اونٹ صدقہ کر دے یا دس، نہیں تو پندرہ یا پھر بیس، وگرنہ پچیس، اگر مزید گنجائش نکالنی ہو تو تیس، وگرنہ پینتیس اور اگر بہت زیادہ کرنا ہو تو چالیس۔ پھر انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الوداع کہا، یتیم بچے کے پاس ایک لاٹھی تھی، وہ اس کے ذریعے اونٹ کو ضرب لگاتا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یتیم کی لاٹھی کتنی بڑی ہو گئی ہے۔ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے باپ نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب بٹھایا اور کہا: میرے بعض بیٹے داڑھی والے ہیں اور اس کے بغیر ہیں اور یہ سب سے چھوٹا ہے، اس کے لئے دعا تو فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھ میں برکت دے یا تجھ میں برکت کی جائے۔ ذیال کہتے ہیں: میں نے خود دیکھا کہ سیدنا حنظلہ کے پاس ایسے انسان لائے جاتے، جن کے چہر پر ورم ہوتا، اس طرح ایسے حیوان لائے جاتے، جن کے تھن سوجے ہوئے ہوتے تھے، لیکن جب وہ اپنے ہاتھ پر تھوکتے اور بسم اللہ کہتے اوراپنا ہاتھ اپنے سر کے اس مقام پر رکھتے، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا تھا اور پھر وہ ہاتھ اس ورم والی جگہ پر پھیر دیتے۔ ذیال کہتے ہیں: پس وہ ورم ختم ہو جاتا تھا۔