۔ (۶۴۲۵)۔ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْأِمَامِ أَحْمَدَ:
حَدَّثَنَا اَبُوْ کَامِلٍ الْجَحْدَرِیُّ ثَنَا الْفُضَیْلُ بْنُ سُلَیْمَانَ ثَنَا مُوْسَی بْنُ عُقْبَۃَ عَنْ اِسْحَاقَ بْنِ یَحْیَ بْنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ عُبَادَۃَ قَالَ: إِنَّ مِنْ قَضَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّ الْمَعْدِنَ جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَالْعَجْمَائُ جَرْحُہَا جُبَارٌ، وَالْعَجْمَائُ: اَلْبَہِیْمَۃُ مِنَ الْأَنْعَامِ وَغَیْرِھَا، وَالْجُبَارُ: ھُوَ الْھَدْرُ وَالَّذِیْ لَا یُغَرَّمُ، (وَقَضٰی) فِی الرِّکَازِ الْخُمْسُ، (وَقَضٰی) اَنَّ تَمْرَ النَّخْلِ لِمَنْ أَبَّرَھَا اِلَّا أَنْ یَشْتَرِطُ الْمُبْتَاعُ، (وَقَضٰی) اَنَّ مَالَ الْمَمْلُوْکِ لِمَنْ بَاعَہُ اِلَّا أَنْ یَشْتَرِطُ الْمُبْتَاعُ، (وَقَضٰی) أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَرُ، (وَقَضٰی بِِالشُّفْعَۃِ بَیْنَ الشُّرَکَائِ فِی الْاَرْضِیْنَ وَالدُّوْرِ، (وَقَضٰی) لِحَمَلِ (بِفَتْحِ الْحَائِ وَالْمِیْمِ) بْنِ مَالِکٍ الْھُذَلِیِّ بِمِیْرَاثِہِ عَنْ اِمْرَأَتِہِ الَّتِیْ قَتَلَتْہَا الْأُخْرٰی، (وَقَضٰی) فِی الْجَنِیْنِ الْمَقْتُوْلِ بِغُرَّۃٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَۃٍ، قَالَ: فَوَرِثَہَا بَعْلُہَا وَبَنُوْھَا، قَالَ: وَکَانَ لَہُ مِنْ إِمرَأَتَیْہِ کِلْتَیْہِمَا وَلَدٌ، قَالَ: فَقَالَ اَبُوْ الْقَاتِلَۃِ الْمَقْضِیُّ عَلَیْہِ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کَیْفَ اَغْرَمُ مَنْ لَاصَاحَ وَلا اسْتَہَلَّ وَلَا شَرِبَ وَلَا اَکَلَ فَمِثْلُ ذٰلِکَ یُطَلُّ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((ھٰذَا مِنَ الْکُہَّانِ۔))، قَالَ: (وَقَضٰی) فِی الرَّحْبَۃِ تَکُوْنُ بَیْنَ الطَّرِیْقِ ثُمَّ یُرِیْدُ أَھْلُہَا الْبُنْیَانَ فِیْہِمَا فَقَضٰی اَنَّ یُتْرَکَ لِلطَّرِیْقِ فِیْہَا سَبْعَۃُ اَذْرُعٍ وَقَالَ: وَکَانَتْ تِلْکَ الطَّرِیْقُ سُمِّیَ الْمِیْتَائُ، (وَقَضٰی) فِی النَّخْلَۃِ أَوِ النَّخْلَتَیْنِ أَوِ الثَّلَاثِ فَیَخْتَلِفُوْنَ فِیْ حُقُوْقِ ذٰلِکَ فَقَضٰی أَنَّ لِکُلِّ نَخْلَۃٍ مِنْ اُوْلٰئِکَ مَبْلَغُ جَرِیْدَتِہَا حَیِّزٌ لَھَا، (وَقَضٰی) فِیْ شُرْبِ النَّخْلِ مِنَ السَّیْلِ أَنَّ الْأَعْلٰییُشْرَبُ قَبْلَ الْأَسْفَلِ وَیُتْرَکُ الْمَائُ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ثُمَّ یُرْسَلُ الْمَائُ اِلَی الْأَسْفَلِ الَّذِیْیَلِیْہِ وَکَذٰلِکَ تَنْقَضِی الْحَوَائِطُ أَوْ یَفْنَی الْمَائُ، (وَقَضٰی) أَنَّ الْمَرْأَۃَ لَا تُعْطِی مِنْ مَالِھَا شَیْئًا اِلَّا بِاِذْنِ زَوْجِہَا، (وَقَضٰی) لِلْجَدَّتَیْنِ مِنِ الْمِیْرَاثِ بِالسُّدُسِ بَیْنَہُمَا بِالسَّوَائِ، (وَقَضٰی) أَنَّ مَنْ اَعْتَقَ شِرْکًا لَہُ فِیْ مَمْلُوْکٍ فَعَلَیْہِ جَوَازُ عِتْقِہِ إِنْ کَانَ لَہُ مَالٌ، (وَقَضٰی) أَنْ لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ، (وَقَضٰی) أَنَّہُ لَیْسَ لِعِرْقِ ظَالِمٍ حَقٌّ، (وَقَضٰی) بَیْنَ أَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ فِی النَّخْلِ لَا یُمْنَعُ نَقْعُ بِئْرٍ، (وَقَضٰی) بَیْنَ أَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ أَنَّہُ لَا یُمْنَعُ فَضْلُ مَائٍ لِیُمْنَعَ فَضْلُ الْکَلَائِ، (وَقَضٰی) فِیْ دِیَۃِ الْکُبْرَی الْمُغَلَّظَۃِ ثَلَاثِیْنَ ابْنَۃَ لَبُوْنٍٍ وَ ثَلَاثِیْنَ حِقَّۃً وَاَرْبَعِیْنَ خَلِفَۃً، (وَقَضٰی) فِیْ دِیَۃِ الصُّغْرٰی ثَلَاثِیْنَ ابْنَۃَ لَبُوْنٍ وَثَلَاثِیْنَ حِقَّۃً وَعِشْرِیْنَ ابْنَۃَ مَخَاضٍ وَعِشْرِیْنَ بَنِیْ مَخَاضٍ ذُکُوْرًا، ثُمَّ غَلَتِ الْاِبِلُ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَھَانَتِ الدَّرَاھِمُ فَقَوَّمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ إِبِلَ الْمَدِیْنَۃِ سِتَّۃَ آلافِ دِرْھَمٍ حِسَابَ اَوْ قِیَۃٍ وَنِصْفٍ لِکُلِّ بَعِیْرٍ، ثُمَّ غَلَتِ الْاِبِلُ وَھَانَتِ الْوَرِقُ فَزَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ اَلْفَیْنِ حِسَابَ أُوْقِیَتَیْنِ لِکُلِّ بَعِیْرٍ، ثُمَّ غَلَتِ الْأِبِلُ وَھَانَتِ الدَّرَاھِمُ فَأَتَمَّھَا عُمَرُ اثْنَیْ عَشَرَ اَلْفًا حِسَابَ ثَلَاثِ أَوَاقٍ لِکُلِّ بَعِیْرٍ، قَالَ: فَزَادَ ثُلُثُ الدِّیَۃِ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ وَثُلُثٌ آخَرُ فِی الْبَلَدِ الْحَرَامِ قَالَ: فَتَمَّتْ دِیَۃُ الْحَرَمَیْنِ عِشْرِیْنَ اَلْفًا، قَالَ: فَکَانَ یُقَالُ: یُؤْخَذُ مِنْ أَھْلِ الْبَادِیَۃِ مِنْ مَاشِیَتِہِمْ لَا یُکَلَّفُوْنَ الْوَرَقَ وَلَا الذَّھَبَ، وَیُؤْخَذُ مِنْ کُلِّ قَوْمٍ مَالَھُمْ قِیْمَۃُ الْعَدْلِ مِنْ أَمْوَالِھِمْ۔ (مسند احمد: ۲۳۱۵۹)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ کان بھی رائیگاں ہے، کنواں بھی رائیگاں ہے، چوپائے کا زخم بھی رائیگاں ہے۔ عَجْمَائ سے مراد چوپایہ ہے اور جُبَار سے مراد ہدر ہو جانے والی وہ چیز ہے، جس کی چٹی نہیں بھری جاتی۔ رکاز میں پانچویں حصے کافیصلہ فرمایا۔ یہ فیصلہ فرمایا کہ کھجور کے درخت کا پھل اس کاہے جس نے اس کو پیوند لگایا ہے، الا یہ کہ خریدار خریدتے وقت لینے کی شرط لگا لے۔ یہ فیصلہ فرمایا کہ فروخت ہونے والے غلام کا مال بیچنے والے کی ملکیت ہوگا، الا یہ کہ خریدار سودا کرتے وقت اس کی شرط لگا لے۔ یہ فیصلہ فرمایا کہ اولاد اس کی ہے، جس کے بستر پر پیدا ہوئی ہو، اور زانی کیلئے پتھر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین اور گھروں میں حصہ داروں کیلئے شفعہ کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ یہ فیصلہ فرمایا کہ سیدنا حمل بن مالک رضی اللہ عنہ کو اس کی بیوی کی میراث سے حصہ دیا جائے گا، جس کو اس کی دوسری بیوی نے قتل کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیٹ کے مقتول بچے کی دیت کا فیصلہ دیا کہ ایک لونڈییا غلام دیا جائے اور فرمایا کہ قتل ہونے والی عورت کا خاوند اور اسکے بیٹے وارث ہوں گے اور حمل بن مالک رضی اللہ عنہ کی دونوں بیویوں سے اولاد تھی، قتل کرنے والی کے باپ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس کی چٹی کیسے بھروں، جس نے نہ توآواز نکالی، نہ چیخا، نہ پیا اور نہ کھایا۔اس قسم کا معاملہ تو باطل اور ہدر ہو جانا چاہیے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کاہنوں کی قافیہ بندی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس چبوترے کے بارے میں فیصلہ کیا جو راستے میں تھا اور اس کے مالکوں نے عمارت تعمیر کر نے کا ارادہ کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ سات سات ہاتھ راستہ چھوڑ کر عمارت بنائی جائے۔ اور وہ چلنے کا عام راستہ ہو گا۔ یہ فیصلہ فرمایا کہ جب لوگ ایکیا دو یا تین کھجوروں کے درختوں میں اختلاف کریں تو ہر درخت کی ٹہنیوں کی مقدار تک کی جگہ مالک کی ملکیت قرار پائے گی۔ یہ فیصلہ فرمایا کہ نالوں میں بہتے ہوئے پانی سے کھجوروں کو سیراب کرتے وقت نیچے والی زمین سے پہلے اوپر والی زمین اس طرح سیراب کی جائے کہ پانی ٹخنوں تک آ جائے، پھر اس کو اس سے متصل نیچے والی زمین کی طرف چھوڑا جائے، پھر اسی طریقے سے پانی آگے کی طرف پہنچایا جائے، یہاں تک کہ باغات ختم ہو جائیںیا پانی ختم ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ کہ عورت اپنا مال بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں دے گی۔ یہ فیصلہ فرمایا کہ دو جدّات کومیراث سے چھٹا حصہ ملے گا، وہ دونوں میں برابر تقسیم ہوگا۔ یہ فیصلہ فرمایا کہ جس نے مشترک غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اگراس کے پاس مال ہواتو اسے سارا غلام آزاد کرنا ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ فرمایا (اپنے بھائی کو اس کے حق میں کمی کر دینے والا ) نقصان پہچانا اور (پہنچائی گئی اذیت سے ) زیادہ ضرر پہنچانا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ظالم جڑ کا کوئی حق نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ والوں کے درمیان کھجوروں کے بارے میںیہ فیصلہ کیا کہ کنوئیں کا زائد پانی نہ روکا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیہات والوں کے درمیانیہ فیصلہ کیا کہ زائد پانی اس لیے نہ روکا جائے کہ زائد گھاس سے لوگوں کو روک دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ کیا دیت ِ کبری میں تیس اونٹنیاں دو دو سالوں کی، تیس تین تین سالوں کی اور چالیس حاملہ اونٹنیاں ہونی چاہئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیت ِ صغری میں فیصلہ کیا کہ تیس دو دو سال کی اونٹنیاں، تیس تین تین سال کی ، بیس ایک ایک سال کی اونٹنیاں اور بیس ایک ایک سال کے اونٹ ہونے چاہئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اونٹ مہنگے ہوگئے اور درہم سستے ہوگئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیت کے اونٹوں کی قیمت چھ ہزار درہم مقرر کی، ایک اونٹ کی ایک اوقیہ کے برابر قیمت لگائی، بعد میں پھر جب اونٹ مہنگے ہوئے اور درہم گر گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہر اونٹ کے دو دو اوقیے قیمت لگا کر دو ہزار درہم کی قیمت بڑھا دی، پھر جب تیسری مرتبہ اونٹ مہنگے ہو گئے اور درہم گر گئے تو ہر اونٹ کی تین اوقیے قیمت لگا کر بارہ ہزار درہم کر دی۔ دیت کے ایک تہائی حصے کا اضافہ حرمت والے مہینے میںکیا اور مزید ایک تہائی کا حرمت والے شہر میںکیا، ان دو حرمتوں کی دیت بیس ہزار درہم ہو گئی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ دیہاتیوں سے ان کے مویشیوں میں سے دیت لی جائے، انہیں سونے اور چاندی کا پابند نہ بنایا جائے، ہر قوم کے مال سے اندازہ لگا کر وہی چیز دیت میں لی جائے، جو ان کے پاس ہے۔