۔ (۵۶۰)۔عَنْ عَلِیٍّ ؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ: ((لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِیْ لَأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ وَلَأَخَّرْتُ عِشَائَ الْآخِرَۃَ اِلَی ثُلُثِ اللَّیْلِ الْأَوَّلِ، فِاِنَّہُ اِذَا مَضٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْأَوَّلُ ہَبَطَ اللّٰہُ تَعَالٰی اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا، فَلَمْ یَزَلْ ہُنَاکَ حَتَّی یَطْلُعَ الْفَجْرُ فَیَقُوْلَ قَائِلٌ:
أَلَا سَائِلٌ یُعْطٰی، أَلَا دَاعٍ یُجَابُ، أَلَا سَقِیْمٌ یَسْتَشْفِیْ، فَیُشْفٰی، اَلَا مُذْنِبٌ یَسْتَغْفِرُ فَیُغْفَرَلَہُ۔)) (مسند أحمد: ۹۶۷)
سیدنا علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے اپنی امت پر مشقت ڈالنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ان کو ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا اور نمازِ عشا کو رات کے پہلے ایک تہائی حصے تک مؤخر کر دیتا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب رات کا پہلا ایک تہائی گزرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور طلوع فجر تک یہیں رہتے ہیں، اس دورانیے میں ایک کہنے والا یہ کہتا رہتا ہے: کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ اس کو دیا جائے، کیا کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کو جواب دیا جائے، کیا شفا طلب کرنے والا کوئی مریض ہے کہ اس کو شفا دے دی جائے اور بخشش طلب کرنے والا کوئی گنہگار ہے کہ اس کو بخش دیا جائے۔