۔ (۶۷۶۶)۔ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِیٍّ الْمُقَدَّمِیُّ قَالَ: سَمِعْتُ حَجَّاجًا یَذْکُرُ عَنْ مَکْحُوْلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُحَیْرِیْزٍ قَالَ: قُلْتُ لِفَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ: اَرَاَیْتَ تَعْلِیْقَیَدِ السَّارِقِ فِی الْعُنُقِ، أَمِنَ السُّنَّۃِ؟ قَالَ: نَعَمْ، رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أُتِیَ بِسَارِقٍ فَأَمَرَ بِہِ فَقُطِعَتْ یَدُہُ ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَعُلِّقَتْ فِی عُنُقِہِ، قَالَ حَجَّاجٌ: وَکَانَ فَضَالَۃُ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ، قَالَ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰن عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اَحْمَدَ: قُلْتُ لِیَحْیَی بْنِ مَعِیْنٍ: سَمِعْتَ مِنْ عُمَرَ بْنِ عَلِیٍّ الْمُقَدَّمِیِّ شَیْئًا؟ قال: أَیُّ شَیْئٍ کَانَ عِنْدَہُ؟ قُلْتُ: حَدِیْثُ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ فِی تَعْلِیْقِ الْیَدِ، فَقَالَ: لا، حَدَّثَنَا عَفَّانُ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۴۴)
۔ عبد الرحمن بن محیریز سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا چور کا ہاتھ کاٹنے کے بعد اس کی گردن میں لٹکانا سنت ہے، اس بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، پس اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا اور وہ ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا گیا۔ حجاج کہتے ہیں: سیدنا فضالہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن معین سے کہا: کیا آپ نے عمر بن علی مقدمی سے کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے کہا: ان کے پاس کیا تھا جو میں سنتا؟ میں نے کہا: سیدنا فضالہ بن عبید والی وہ حدیث، جس میں چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کی گردن میں لٹکانے کا ذکر ہے، انہوں نے کہا: نہیں، البتہ عفان نے ہمیں ان سے بیان کیا ہے۔