۔ (۵۷۷)۔ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَۃَؓ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْوُضُوْئِ، قَالَ: ((مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ یَقْرَبُ وَضُوْئَہُ ثُمَّ یَتَمَضْمَضُ وَیَسْتَنْشِقُ وَیَنْتَثِرُ اِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَاہُ مِنْ فَمِہِ وَ خَیَاشِیْمِہِ مَعَ الْمَائِ حِیْنَ یَنْتَثِرُ، ثُمَّ یَغْسِلُ وَجْہَہُ کَمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ تَعَالَی اِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا وَجْہِہِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْیَتِہِ مَعَ الْمَائِ، ثُمَّ یَغْسِلُ یَدَیْہِ اِلَی الْمِرْفَقَیْنِ اِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا یَدَیْہِ مِنْ أَطْرَافِ أَنَامِلِہِ ثُمَّ یَمْسَحُ رَأْسَہُ اِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا رَأْسِہِ مِنْ أَطْرَافِ شَعْرِہِ مَعَ الْمَائِ، ثُمَّ یَغْسِلُ قَدَمَیْہِ اِلَی الْکَعْبَیْنِ کَمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا قَدَمَیْہِ مِنْ أَطْرَافِ أَصْابِعِہِ مَعَ الْمَائِ، ثُمَّ یَقُوْمُ فَیَحْمَدُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَیُثْنِیْ عَلَیْہِ بِالَّذِیْ ہُوَ لَہُ أَھْلٌ ثُمَّ یَرْکعُ رَکْعَتَیْنِ اِلَّا خَرَجَ مِنْ ذَنْبِہِ کَہَیْئَتِہِ یَوْمَ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ۔)) قَالَ أَبُوْ أُمَامَۃَ: یا عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ! اُنْظُرْ مَا تَقُوْلُ، أَسَمِعْتَ ھٰذَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟ أَیُعْطَی الرَجُلُ ھٰذَا کُلَّہُ فِیْ مَقَامِہِ؟ قَالَ: فَقَالَ عَمْرٌو بْنُ عَبَسَۃَ: یَا أَبَا أُمَامَۃَ! لَقَدْ کَبِرَتْ سِنِّیْ وَرَقَّ عَظَمِیْ
وَاقْتَرَبَ أَجَلِیْ وَمَا بِیْ مِنْ حَاجَۃٍ أَنْ أَکْذِبَ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلَی رَسُوْلِہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، لَوْ لَمْ أَسْمَعْہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِلَّا مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا، لَقَدْ سَمِعْتُہُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ۔ (مسند أحمد: ۱۷۱۴۴)
سیدنا عمرو بن عبسہ ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وضو کے بارے میں مجھے بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں جو آدمی بھی وضو کا پانی قریب کرتا ہے، پھر کلی کرتا ہے، ناک میںپانی چڑھاتا ہے اور ناک کوجھاڑتا ہے، مگر جب وہ ناک کو جھاڑتا ہے تو پانی کے ساتھ اس کے منہ اور نتھنوں سے گناہ نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چہرہ دھوتا ہے تو داڑھی کے کناروں سے پانی کے ساتھ اس کے چہرے کے گناہ خارج ہو جاتے ہیں، پھر جب وہ کہنیوں سمیت بازوؤں کو دھوتا ہے تو انگلیوں کے پوروں سے بازوؤں کی غلطیاں نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے بالوں کے کناروں سے پانی کے ساتھ اس کے سر کے گناہ خارج ہو جاتے ہیں، پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ٹخنوں تک پاؤں دھوتا ہے تو اس کی انگلیوں کے کناروں سے اس کے پاؤں کے گناہ نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد و ثنا بیان کرتا ہے، جو اس کے شایانِ شان ہوتی ہے اور پھر دو رکعتیں ادا کرتا ہے تو وہ گناہوں سے اس طرح نکل جاتا ہے، جیسے اس دن تھا، جس دن اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا۔ ابو امامہ نے کہا: اے عمرو بن عبسہ!ذرا اپنی کہی ہوئی بات پر غور کرو، کیا تم نے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہیں؟ کیا بندے کو یہ سب کچھ ایک مقام پر ہی عطا کر دیا جاتا ہے؟ سیدنا عمرو بن عبسہؓ نے کہا: اے ابو امامہ! میری عمر بڑی ہو گئی ہے، ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں، میری موت کا وقت قریب آ چکا ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اگر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک یا دو یا تین دفعہ سنا ہوتا (تو میں یہ حدیث بیان نہ کرتا) تو میں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سات یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ سنا ہے۔