۔ (۶۹۶۷)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا أَنَّ أَبَا حُذَیْفَۃَ تَبَنّٰی سَالِمًا وَھُوَ مَوْلٰی لِِاِمْرَأَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ کَمَا تَبَنَّی النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زَیْدًا، وَکَانَ مَنْ تَبَنّٰی رُجْلًا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ دَعَاہُ النَّاسُ ابْنَہُ وَ وَرِثَ مِنْ مِیْرَاثِہِ حَتّٰی أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {اُدْعُوْھُمْ لِآبَائِہِمْ ھُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ، فَاِنْ لَمْ تَعْلَمُوْا آبَائَ ھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ} فَرُدُّوْا إِلٰی آبَائِہِمْ، فَمَنْ لَمْ یُعْلَمْ لَہُ أَبٌ فَمَوْلًی وَأَخٌ فِیْ الدِّیْنِ، فَجَائَتْ سَہْلَۃُ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کُنَّا نَرٰیسَالِمًا وَلَدًا یَأْوِیْ مَعِیَ وَمَعَ اَبِیْ حُذَیْفَۃَ وَیَرَانِیْ فُضُلًا (وَفِیْ لَفْظٍ: وَقَدْ بَلَغَ مَا یَبْلُغُ الرِّجَالُ) وَقَدْ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْہِمْ مَا قَدْ عَلِمْتَ، فَقَالَ: ((اَرْضِعِیْہِ خَمْسَ رَضَعَاتٍ۔)) وَفِیْ لَفْظٍ: ((اَرْضِعِیْہِ
تَحْرُمِیْ عَلَیْہِ۔)) فَکَانَ بِمِنْزِلَۃِ وَلَدِھَا مِنَ الرَّضَاعِ (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ:) فَاَرْضَعْتُہُ خَمْسَ رَضَعَاتٍ فَکَانَ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِھَا مِنَ الرَّضَاعَۃِ فَبِذَالِکَ کَانَتْ عَائِشَۃُ تَأْمُرُ أَخَوَاتِہَا وَبَنَاتِ أَخَوَاتِہَا أَنْیُرْضِعْنَ مَنْ أَحَبَّتْ عَائِشَۃُ أَنْ یَرَاھَا وَیَدْخُلَ عَلَیْہَا وَاِنْ کَانَ کَبِیْرًا خَمْسَ رَضَعَاتٍ ثُمَّ یَدْخُلُ عَلَیْہَا، وَأَبَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ وَسَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنْ یُدْخِلْنَ عَلَیْہِنَّ بِتِلْکَ الرَّضَاعَۃِ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ حَتّٰییَرْضَعَ فِی الْمَہْدِ وَقُلْنَ لِعَائِشَۃَ: وَاللّٰہِ! مَانَدْرِیْ لَعَلَّہَا کَانَتْ رُخْصَۃً مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِسَالِمٍ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ۔ (مسند احمد: ۲۶۱۶۹)
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا سالم رضی اللہ عنہ کو منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا، سالم انصار کی ایک عورت کا غلام تھا، اس نے اس کو آزاد کر دیا تھا اورسیدنا ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو متبنی بیٹا بنا لیا تھا، دورِجاہلیت میں لوگ ایسا کرتے تھے، پھر جو منہ بولا بیٹا بناتا تھا اس کو بیٹا کہہ کر ہی آواز دیتا تھا اور وہ وراثت کا حقدار بننا تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے یہ حکم اتار دیا: {اُدْعُوْھُمْ لِآبَائِہِمْ……فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ} انہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارو، اللہ تعالیٰ کے نزدیکیہ بات زیادہ انصا ف والی ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔ (سورۂ احزاب:۵)اس آیت کے بعد منہ بولے بیٹے اصلی باپ کے نام کی جانب پھیر دئیے گئے، جن کے باپوں کے نام معلوم نہ تھے، ان کو دوست یا بھائی کہہ کر پکارا جاتا، سیدنا ابو حذیفہ کی اہلیہ سیدہ سہلہ رضی اللہ عنہا ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے تو سالم کو بیٹا بنا رکھا تھا، وہ میرے اور ابو حذیفہ کے پاس آتا تھا اور کام کاج کے عام کپڑوں میں دیکھتا رہتا تھا، اب وہ بڑا ہو چکا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے بارے میںیہ حکم بھی اتار دیا ہے کہ منہ بولا بیٹا، حقیقی نہیں ہوتا، انہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اس کو پانچ مرتبہ دودھ پلا دے، اس وجہ سے تو اس پر حرام ہو جائے گی اور وہ رضاعی بیٹا بن جائے گا۔ ایک روایت میں ہے: پس سہلہ نے اسے پانچ مرتبہ دودھ پلایا اور یہ ان کے رضاعی بیٹا بن گیا۔ اس واقعہ سے استدلال کرتے ہوئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جن افراد کو دیکھنا چاہتی تھیں، اپنی بہنوں کو اور بھانجیوں کو حکم دیتیں کہ وہ ان کو دودھ پلا دیں، اگرچہ وہ بڑی عمر کے ہوتے، جب وہ اسے پانچ مرتبہ دودھ پلا دیتیں تو وہ داخل ہو سکتا تھا، مگر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور نبیکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری ازواج مطہرات کسی کو اس رضاعت کی وجہ سے داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تھیں، وہ اس رضاعت کو معتبر سمجھتی تھیں، جو دودھ کی عمر میں ہوتی تھی، اور وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہتی تھیں کہ ممکن ہے یہ رخصت دوسرے لوگوں کے لیے نہ ہو، بلکہ صرف سیدنا سالم کے لئے ہو کہ انہوں نے بڑی عمر میں بھی دودھ پی لیا تو رضاعت ثابت ہوگئی۔