۔ (۷۰۹۱)۔ عَنْ اَبِیْ نَضْرَۃَ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الطُّفَاوَۃِ قَالَ: نَزَلْتُ عَلٰی اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: وَلَمْ اُدْرِکْ مِنْ صَحَابَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَجُلًا أَشَدَّ تَشْمِیْرًا وَلَا أَقْوَمَ عَلٰی ضَیْفٍ مِنْہُ، بَیْنَمَا اَنَا عِنْدَہُ وَھُوَ عَلٰی سَرِیْرٍ لَہُ وَأَسْفَلَ مِنْہُ جَارِیَۃٌ سَوْدَائُ وَمَعَہُ کِیْسٌ فِیْہِ حَصًی اَوْ نَوًییَقُوْلُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ حَتّٰی اِذَا أَنْفَذَ مَا فِی الْکِیْسِ اَلْقَاہُ اِلَیْہَا فَجَمَعَتْہُ فَجَعَلَتْہُ فِی الْکِیْسِ ثُمَّ دَفَعَتْہُ اِلَیْہِ، فَقَالَ لِیْ: اَلَا أُحَدِّثُکَ عَنِّیْ وَعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: فَاِنّیْ بَیْنَمَا اَنَا أُوْعَکُ فِیْ مَسْجِدِ الْمَدِیْنَۃِ اِذْ دَخَلَ عَلیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْمَسْجِدَ فَقَالَ: ((مَنْ أَحَسَّ الْفَتَی الْدَوْسِیَّ مَنْ اَحَسَّ الْفَتَی الْدَوْسِیَّ؟)) فَقَالَ لَہُ قَائِلٌ: ھُوَ ذَاکَ یُوْعَکُ فِیْ جَانِبِ الْمَسْجِدِ حَیْثُ تَرٰییَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، فَجَائَ فَوَضَعَ یَدَہُ عَلَیَّ وَقَالَ لِیْ مَعْرُوْفًا فَقُمْتُ فَانْطَلَقَ حَتّٰی قَامَ فِیْ مَقَامِہِ الَّذِیْیُصَلِّیْ فِیْہِ وَمَعَہُ، یَوْمَئِذٍ صَفَّانِ مِنْ رِجَالٍ وَصَفٌّ مِنْ نِسَائٍ أَوْصَفَّانِ مِنْ نِسَائٍ وَصَفٌّ مِنْ رِجَالٍ، فَاَقْبَلَ عَلَیْہِمْ فَقَالَ:
((اِنْ أَنْسَانِی الشَّیْطَانُ شَیْئًا مِنْ صَلَاتِیْ فَلْیُسَبِّحِ الْقَوْمُ وَلَیُصَفِّقِ النِّسَائُ، فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَلَمْ یَنْسَ مِنْ صَلَاتِہِ شَیْئًا، فَلَمَّا سَلَّمَ أَقْبَلَ عَلَیْہِمْ بِوَجْہِہِ فَقَالَ: ((مَجَالِسَکُمْ، ھَلْ مِنْکُمْ مَنْ اِذَا أَتٰی اَھْلَہُ أَغْلَقَ بَابَہُ، وَاَرْخٰی سِتْرَہُ، ثُمَّ یَخْرُجُ فَیَتَحَدَّثُ فَیَقُوْلُ: فَعَلَتُ بِاَھْلِیْ کَذَا وَفَعَلْتُ بِاَھْلِیْ کَذَا؟)) فَسَکَتُوْا فَأَقْبَلَ عَلَی النِّسَائِ فَقَالَ: ((ھَلْ مِنْکُنَّ مَنْ تُحَدِّثُ؟)) فَجَثَتْ فَتَاۃٌ کَعَابٌ عَلٰی إِحْدٰی رُکْبَتَیْہَا وَتَطَاوَلَتْ لِیَرَاھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَیَسْمَعَ کَلَامَہَا، فَقَالَتْ: إِیْ وَاللّٰہِ! إِنَّہُمْ لَیُحَدِّثُوْنَ وَإِنَّہُنَّ لَیُحَدِّثْنَ، فَقَالَ: ((ھَلْ تَدْرُوْنَ مَا مَثَلُ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ؟ اِنَّ مَثَلَ مَنْ فَعَلَ ذَالِکَ مَثَلُ شَیْطَانٍ وَ شَیْطَانَۃٍ لَقِیَ اَحَدُھُمَا صَاحِبَہُ بِالسِّکَّۃِ قَضٰی حَاجَتَہُ مِنْہَا وَالنَّاسُ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْہِ۔))، ثُمَّ قَالَ: ((أَلَا! لَا یُفْضِیَنَّ رَجُلٌ اِلٰی رَجُلٍ وَلَا امْرَأَۃٌ اِلَی امْرَأَۃٍ اِلَّا اِلٰی وَلَدٍ أَوْ وَالِدٍ۔))، قَالَ: وَذَکَرَ ثَالِثَۃً فَنَسِیْتُہَا، ((أَلَا إِنَّ طِیْبَ الرَّجُلِ مَا وُجِدَ رِیْحُہُ، وَلَمْ یَظْہَرْ لَوْنُہُ، أَلَا اِنَّ طِیْبَ النِّسَائِ مَا ظَہَرَ لَوْنُہُ وَلَمْ یُوْجَدْ رِیْحُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۰۹۹۰)
۔ بنو طفاوہ کے ایک آدمی سے مروی ہے، وہ کہتا ہے: میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بطور مہمان ٹھہرا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں کسی کو ان سے زیادہ خدمت گزار نہیں پایا اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی مہمان کا خیال رکھنے والا تھا، میں ایک دفعہ ان کے پاس ایک چار پائی پر بیٹھا ہوا تھا اور ایک سیاہ فام لونڈی نیچے بیٹھی ہوئی تھی، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک تھیلی تھی، جس میں کنکریاںیا گٹھلیاں تھیں، وہ سبحان اللہ، سبحان اللہ کہہ رہے تھے، یہاں تک جو کچھ تھیلے میں تھا، وہ ختم ہو گیا، پھر انھوں نے وہ تھیلی لونڈی کی جانب پھینکدی، اس نے وہ کنکریاں اس تھیلی میں جمع کیں اور تھیلی پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تھمادی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تجھے اپنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعہ نہ بتائوں؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور بتائیں، انھوں نے کہا: مدینہ کی مسجد میں میں سخت بخار میں مبتلا پڑا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس مسجد میں تشریف لائے اور پوچھا: کسی نے دوسی نوجوان کو دیکھاہے؟دوسی نوجوان کو کسی نے دیکھا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ مسجد کے ایک کونے میں جہاں آپ دیکھ رہے ہیں، بخار میں مبتلا پڑاہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لے آئے اور اپنا دست مبارک میرے اوپر رکھا اور مجھ سے اچھے انداز پر بات کی، میں کھڑا ہوا اور آپ چل دئیے،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس مقام پر کھڑے ہو گئے، جس میں نماز پڑھاتے تھے، اس دن آپ کے ساتھ مردوں کی دو صفیں اور عورتوں کی ایک صف تھی،یا عورتوں کی دو صفیں اور مردوں کی ایک صف تھی،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی جانب رخ کیا اور فرمایا: اگر شیطان مجھے میری نماز میں سے کچھ بھلا دے تو مردوں کو چاہیے کہ وہ سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھائی اور آپ بھولے نہیں،جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اپنی اپنی جگہ پر بیٹھیں رہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا ایسے ہوا ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے، دروازہ بند کر لے اور پردہ لٹکا دے، پھر وہ باہر نکلے اور لوگوں میںیہ بات کرنا شروع کر دے کہ اس نے اپنی کے ساتھ یہ کچھ کیا ہے اور اس نے اپنی اہلیہ کے ساتھ یہ کاروائی کی ہے؟ لوگ خاموش ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورتوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں ایسی باتیں کرنے والی کوئی ہے؟ ایک ابھری ہوئی چھاتی والی نوجوان لڑکی ایک گھٹنے کے بل کھڑی ہوئی اور اپنے آپ کو لمبا کیا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو دیکھ لیں اور اس کی بات سن لیں، اور اس نے کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! مرد بھی ایسی باتیں کرتے ہیں اور عورتیں بھی ایسی باتیں کرتی ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں پتہ ہے کہ ایسا کرنے والے کی مثال کیا ہے؟ اس کی مثال اس شیطان اور شیطاننی کی سی ہے، جو ایک گلی میں ایک دوسرے کو ملے اور وہیں اپنی حاجت پوری کرنا شروع کر دے، جبکہ لوگ ان کو دیکھ رہے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی کسی آدمی کے ساتھ اور کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ اس طرح نہ لیٹے کہ بیچ میں کوئی پردہ نہ ہو،ما سوائے والدین اور اولاد کے۔ راوی کی ذکر کردہ تیسری چیز میں بھول گیا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبردار ! آدمی کی خوشبو وہ ہے جس کی مہک ہو، رنگ ظاہر نہ ہو۔ خبر دار! عورتوں کی خوشبو وہ ہے، جس کی رنگت نمایاں ہو اور اس کی مہک نہ ہو۔