۔ (۷۱۶۰)۔حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ قَالَ سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ عَنْ الرَّجُلِ یُخَیِّرُ امْرَأَتَہُ فَتَخْتَارُہُ قَالَ حَدَّثَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ أَتَانِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّی سَأَعْرِضُ عَلَیْکِ أَمْرًا فَلَا عَلَیْکِ أَنْ لَا تَعْجَلِی فِیہِ حَتّٰی تُشَاوِرِی أَبَوَیْکِ فَقُلْتُ وَمَا ہٰذَا الْأَمْرُ قَالَتْ فَتَلَا عَلَیَّ {یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الْآخِرَۃَ فَإِنَّ اللّٰہَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیمًا۔} قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقُلْتُ وَفِی أَیِّ ذٰلِکَ تَأْمُرُنِی أُشَاوِرُ أَبَوَیَّ بَلْ أُرِیدُ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الْآخِرَۃَ، قَالَتْ فَسُرَّ بِذٰلِکَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَعْجَبَہُ وَقَالَ: ((سَأَعْرِضُ عَلٰی صَوَاحِبِکِ مَا عَرَضْتُ عَلَیْکِ۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ لَہُ: فَلَا تُخْبِرْہُنَّ بِالَّذِی اخْتَرْتُ، فَلَمْ یَفْعَلْ وَکَانَ یَقُولُ لَہُنَّ کَمَا قَالَ لِعَائِشَۃَ
ثُمَّ یَقُولُ: ((قَدْ اِخْتَارَتْ عَائِشَۃُ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الْآخِرَۃَ۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ قَدْ خَیَّرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نَرَ ذٰلِکَ طَلَاقًا۔ (مسند احمد: ۲۶۰۳۳)
۔ جعفر بن برقان کہتے ہیں: میں نے امام زہری رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ ایک آدمی اپنی بیوی کورہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیتا ہے، وہ اپنے خاوند کو اختیار کر لیتی ہے، اس کے متعلق کیا رائے ہیں؟ زہری نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا، وہ کہتی ہیں: میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ((میں تجھ پر ایک معاملہ پیش کر رہا ہوں،تو نے جواب دینے میں جلدی نہیں کرنا، بلکہ اپنے ماں باپ سے مشورہ کرنا۔ میں نے عرض کیا: وہ کیا معاملہ ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یہ آیات پڑھ کر سنائیں: {یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا۔ وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۔} … اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آؤ میں تمھیں کچھ سامان دے دوں اور تمھیں رخصت کردوں، اچھے طریقے سے رخصت کرنا۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخری گھر کا ارادہ رکھتی ہو تو بے شک اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: بھلا یہ کونسی چیز ہے کہ میںاپنے ماں باپ سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں، اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش ہوئے اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت پسند آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! جوبات میں نے تمہارے سامنے پیش کی ہے، یہی میں تمہاری دیگر سوکنوں پر پیش کرنے والا ہوں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لیکن میں نے جو چیز پسند کی ہے، اس کے بارے میں آپ نے میری سوکنوں کو نہیں بتانا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا نہیں کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری بیویوں پر یہی بات پیش کی اور سیدہ عائشہ نے جس کو اختیار کیا تھا، وہ بھی ان کو بتایا کہ عائشہ نے اللہ تعالی اور اس کے رسول اور آخرت کو چن لیا ہے۔ تو انہوں نے بھی وہی جواب دیا، جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیا اورہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اختیار کر لیا،لیکن اس کو طلاق شمار نہ کیا تھا۔