۔ (۸۴۱۰)۔ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ قَالَ: حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ ہَمْدَانَ مِنْ أَ صْحَابِ عَبْدِاللّٰہِ وَمَا سَمَّاہُ لَنَا قَالَ: لَمَّا أَ رَادَ عَبْدُاللّٰہِ أَ نْ یَأْتِیَ الْمَدِینَۃَ جَمَعَ أَ صْحَابَہُ، فَقَالَ: وَاللّٰہِ، إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ یَکُونَ قَدْ أَصْبَحَ الْیَوْمَ فِیکُمْ مِنْ أَ فْضَلِ مَا أَصْبَحَ فِی أَجْنَادِ الْمُسْلِمِینَ مِنْ الدِّینِ وَالْفِقْہِ وَالْعِلْمِ بِالْقُرْآنِ، إِنَّ ہٰذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلٰی حُرُوفٍ، وَاللّٰہِ! إِنْ کَانَ الرَّجُلَانِ لَیَخْتَصِمَانِ أَ شَدَّ مَا اخْتَصَمَا فِی شَیْئٍ قَطُّ، فَإِذَا قَالَ الْقَاریِئُ: ہٰذَا أَ قْرَأَ نِی قَالَ: أَحْسَنْتَ، وَإِذَا قَالَ الْآخَرُ: قَالَ: کِلَاکُمَا مُحْسِنٌ، فَأَ قْرَأَ نَا إِنَّ الصِّدْقَ یَہْدِی إِلَی الْبِرِّ وَالْبِرَّ یَہْدِی إِلَیالْجَنَّۃِ، وَالْکَذِبَ یَہْدِی إِلَی الْفُجُورِ، وَالْفُجُورَ یَہْدِی إِلَی النَّارِ، وَاعْتَبِرُوا ذَاکَ بِقَوْلِ أَ حَدِکُمْ لِصَاحِبِہِ کَذَبَ وَفَجَرَ وَبِقَوْلِہِ إِذَا صَدَّقَہُ صَدَقْتَ وَبَرِرْتَ، إِنَّ ہٰذَا الْقُرْآنَ لَا یَخْتَلِفُ وَلَا یُسْتَشَنُّ وَلَا یَتْفَہُ لِکَثْرَۃِ الرَّدِّ، فَمَنْ قَرَأَ ہُ عَلَی حَرْفٍ فَلَا یَدَعْہُ رَغْبَۃً عَنْہُ، وَمَنْ قَرَأَ ہُ عَلَی شَیْئٍ مِنْ تِلْکَ الْحُرُوفِ
الَّتِی عَلَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَلَا یَدَعْہُ رَغْبَۃً عَنْہُ، فَإِنَّہُ مَنْ یَجْحَدْ بِآیَۃٍ مِنْہُ یَجْحَدْ بِہِ کُلِّہِ، فَإِنَّمَا ہُوَ کَقَوْلِ أَ حَدِکُمْ لِصَاحِبِہِ: اِعْجَلْ، وَحَیَّ ہَلًا، وَاللّٰہِ! لَوْ أَ عْلَمُ رَجُلًا أَ عْلَمَ بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰہُ عَلَی مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنِّی لَطَلَبْتُہُ حَتّٰی أَ زْدَادَ عِلْمَہُ إِلٰی عِلْمِی إِنَّہٗسَیَکُونُ قَوْمٌ یُمِیتُونَ الصَّلَاۃَ فَصَلُّوا الصَّلَاۃَ لِوَقْتِہَا، وَاجْعَلُوْا صَلَاتَکُمْ مَعَہُمْ تَطَوُّعًا، وَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُعَارَضُ بِالْقُرْآنِ فِی کُلِّ رَمَضَانَ، وَإِنِّی عَرَضْتُ فِی الْعَامِ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ مَرَّتَیْنِ، فَأَ نْبَأَ نِی أَ نِّی مُحْسِنٌ، وَقَدْ قَرَأْتُ مِنْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سَبْعِینَ سُورَۃً۔ (مسند احمد: ۳۸۴۵)
۔ عبدالرحمن بن عابس کہتے ہیں: ہمدان کے ایک آدمی نے ہمیںبتایا، وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے، ان کا نام نہیں لیا، انھوں نے ہمیں بیان کیا کہ جب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کوفہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہونا چاہا تو انھوں نے اپنے شاگردں کو جمع کیا اور کہا اللہ کی قسم! میں امید رکھتا ہوں کہ تم مسلمانوں کے لشکروں میں سے سب سے بہترین ہو، تم دین، فقہ، علم اور قرآن پڑھ رہے ہو، یہ قرآن سات قراء توں پر نازل ہوا،اللہ کی قسم! دو آدمی قرآن کے بارے میں سخت ترین جھگڑا کرتے ہیں، لیکن ایسا نہ کرنا، جب کوئی کہے کہ اس نے مجھے یوں پڑھایا ہے تو اسے کہو کہ وہ بہتر کہتا ہے، جب کوئی دوسرا کہے کہ مجھے فلاں نے اس طرح پڑھایا ہے تو تم دونوں کو بہتر کہو، کیونکہ دونوں نے علیحدہ علیحدہ قراء توں میں پڑھایا ہے، سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی جانب لے جاتی ہے، جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے، جب تم میں سے کوئی اپنے ساتھی سے کہے کہ اس نے جھوٹ بولا یا فسق و فجور کیا اور جب کسی نے سچ کہا تو اس سے کہو تو نے سچ کہا اور نیکی کی،یقینایہ قرآن نہ اختلاف پیدا کرتا ہے، نہ یہ بوسیدہ ہوتا ہے اور نہ یہ حقیر چیز ہے، چاہے کس قدر اس کا تکرار کیا جائے، جو اسے ایک قراء ت پر پڑھے، اسے بے رغبتی کرتے ہوئے نہ چھوڑے اور جواسے ان قراء توں کے مطابق پڑھے، جن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم دی ہے، تو وہ انہیں بھی بے رغبتی کی وجہ سے نہ چھوڑے جوایک آیت کا انکار کرے گا، گویا اس نے اس کی تمام آیتوں کا انکار کیا، اسی طرح ان قراء توں کا معاملہ ہے، قراء ت کا اختلاف اس طرح ہے کہ جس طرح کسی نے کہا: اِعْجَلْ، وَحَیَّ ہَلًا۔ اللہ کی قسم! اگر مجھے علم ہو کہ جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرنازل کیا ہے، کوئی مجھ سے زیادہ اس کا علم رکھتا ہے تو میں اسے ضرور تلاش کروں گا تا کہ اپنے علم میں اضافہ کرسکوں۔ عن قریب ایسے لوگ ہوں گے جو نمازوں کو ان کے وقت سے فوت کریں گے، لیکن تم نماز بروقت ادا کر لینا اور اگر تاخیر کرنیوالوں کے ساتھ موقع مل جائے توان کے ساتھ بھی پڑھا لینا،یہ تمہاری نفل ہو گی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر رمضان میں قرآن مجید کا دور کرتے تھے، جس سال آپ فوت ہوئے میں نے آپ پر دو مرتبہ قرآن پڑھا تھا۔ آپ نے مجھے بتایا کہ میں نے اچھا کیا ہے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ مبارک سے ستر (۷۰) سورتیں سنی ہیں۔