۔ (۸۹۰۵)۔ حَدَّثَنَا ھُشَیْمٌ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَمُغِیْرَۃَ الضَّبِّیِّ عَنْ مُجَاھِدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: زَوَّجَنِیْ اَبِیْ امْرَاَۃً مِّنْ قُرَیْشٍ، فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیَّ جَعَلْتُ لَا اَنْحَاشُ لَھَا عَمَّا بِیْ مِنَ الْقُوَّۃِ عَلَی الْعِبَادَۃِ مِنَ الصَّوْمِ
وَالصَّلاۃِ، فَجَائَ عَمْرُوبْنُ الْعَاصِ اِلٰی کَنَّتِہِ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْھَا، فَقَالَ لَھَا: کَیْفَ وَجَدْتِّ بَعْلَکِ؟ قَالَتْ: خَیْرُ الرِّجَالِ، اَوْ کَخَیْرِ الْبُعُوْلَۃِ، مِنْ رَجُلٍ، لَمْ یُفَتِّشْ لَنَا کَنَفًا، وَلَمْ یَعْرِفْ لَنَا فِرَاشًا، فَاَقْبَلَ عَلَیَّ، فَعَذَمَنِیْ، وَعَضَّنِیْ بِلِسَانِہٖ،فَقَالَ: اَنْکَحْتُکَامْرَاَۃً مِّنْ قُرَیْشٍ ذَاتَ حَسَبٍ فَعَضَلْتَھَا، وَفَعَلْتَ وَفَعَلْتَ! ثُمَّ انْطَلَقَ اِلَّی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَشَکَانِیْ، فَاَرْسَلَ اِلَیَّ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَاَتَیْتُہُ، فَقَالَ لِیْ: ((اَتَصُوْمُ النَّھَارَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((وَتَقُوْمُ اللَّیْلَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((لٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ، وَاُصَلِّیْ وَاَنَامُ، وَاَمَسُّ النِّسَائَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔)) قَالَ: ((اقْرَاِ الْقُرْآنَ فِیْ کُلِّ شَہْرٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَجِدُنِیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ عَشَرَۃِ اَیَّامٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَجِدُنِیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ اَحَدُھُمَا اِمَّا حُصِیْنٌ وَاِمَّا مُغِیْرَۃُ، قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ ثَلاثٍ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ سَبْعٍ لَا تُزِیْدَنَّ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ: (( صُمْ فِیْ کُلِّ شَھْرٍ ثَلاثَۃَ اَیَّامٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: فَلَمْ یَزَلْیَرْفَعُنِیْ، حَتّٰی قَالَ: ((صُمْ یَوْمًا وَاَفْطِرْ یَوْمًا فَاِنَّہُ اَفْضَلُ الصِّیَامِ، وَھُوَ صِیَامُ اَخِیْ دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔)) قَالَ: حُصَیْنٌ فِیْ حَدِیْثِہِ ثُمَّ قَالَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : (( فَاِنَّ لِکُلِّ عَابِدٍ شِرَّۃً، وَلِکُلِّ شِرَّۃٍ فَتْرَۃٌ، فَاِمَّا اِلٰی سُنَّۃٍ، وَاِمَّا اِلٰی بِدْعَۃٍ، فَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی سُنَّۃٍ فَقَدِ اھْتَدٰی، وَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ فَقَدْ ھَلَکَ۔)) قَالَ مُجَاھِدٌ: فَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، حَیْثُ قَدْ ضَعُفَ وَکَبِرَ، یَصُوْمُ الْاَیَّامَ کَذٰلِکَ،یَصِلُ بَعْضَھَا اِلٰی بَعْضٍ، لِیَتَقَوّٰی بِذٰلِکَ، ثُمَّ یُفْطِرُ بَعْدَ تِلْکَ الْاَیَّامِ، قَالَ: وَکَانَ یَقْرُاُ فِیْ کِلِّ حِزْبٍ کَذٰلِکَ، یَزِیْدُ اَحْیَانًا، وَیَنْقُصُ اَحْیَانًا، غَیْرَ اَنَّہٗیُوفِی الْعَدَدَ، اِمَّا فِیْ سَبْعٍ، وَاِمَّا فِیْ ثَلاثٍ، قَالَ: ثُمَّ کَانَ یَقُوْلُ بَعْدَ ذٰلِکَ: لَاَنْ اَکُوْنَ قَبِلْتُ رُخْصَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا عُدِلَ بِہٖ (اَوْعَدَلَ)،لٰکِنِّیْ فَارَقْتُہُ عَلٰی اَمْرٍ اَکْرَہُ اَنْ اُخَالِفَہُ اِلیٰ غَیْرِہِ۔ (مسند احمد: ۶۴۷۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میرے باپ نے ایک قریشی عورت سے میری شادی کر دی، جب میں اس پر داخل ہوا تو میں نے اس کا کوئی اہتمام نہ کیا اور نہ اس کو وقت دیا، کیونکہ مجھے روزے اور نماز کی صورت میں عبادت کرنے کی بڑی قوت دی گئی تھی، جب سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی بہو کے پاس آئے اور اس سے پوچھا: تو نے اپنے خاوند کو کیسا پایا ہے؟ اس نے کہا: وہ بہترین آدمی ہے، یا وہ بہترین خاوند ہے، اس نے نہ میرا پہلو تلاش کیا اور نہ میرے بچھونے کو پہچانا (یعنی وہ عبادت میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنی بیوی کے قریب تک نہیں گیا )۔ یہ کچھ سن کر میرا باپ میری طرف متوجہ ہوا اور میری خوب ملامت کی اور مجھے برا بھلا کہا اور کہا: میں نے حسب و نسب والی قریشی خاتون سے تیری شادی کی ہے اور تو اس سے الگ تھلگ ہو گیا اور تو نے ایسے ایسے کیا ہے، پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میرا شکوہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلایا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تو دن کو روزہ رکھتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور رات کو قیام کرتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لیکن میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور حق زوجیت بھی ادا کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے بے رغبتی اختیار کی، وہ مجھ سے نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو ایک ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کیا کر۔ میںنے کہا: میں اپنے آپ کو اس سے زیادہ قوی پاتاہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر دس دنوں میں مکمل کر لیا کرو۔ میں نے کہا: جی میں اپنے آپ کو اس سے زیادہ قوت والا سمجھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تین دنوں میں ختم کر لیا کرو۔ ایک روایت میں ہے: تو سات دنوں میں تلاوت مکمل کر لیا کر اور ہر گز اس سے زیادہ تلاوت نہ کر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر ماہ میں تین روزے رکھا کر۔ میں نے کہا: جی میں اس سے زیادہ طاقتور ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے آگے بڑھاتے گئے، یہاں تک کہ فرمایا: ایک دن روزہ رکھ لیا کر اور ایک دن افطار کر لیا کر، یہ افضل روزے ہیں اور یہ میرے بھائی داود علیہ السلام کے روزے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر عبادت گزار میں حرص اور رغبت پیدا ہوتی ہے، پھر ہر رغبت کے بعد آخر سستی اور کمی ہو تی ہے، اس کا انجام سنت کی طرف ہوتا ہے یا بدعت کی طرف، پس جس کا انجام سنت کی طرف ہوتا ہے، وہ ہدایت پا جائے گا، اور جس کا انجام کسی اور شکل میں ہو گا، وہ ہلاک ہو جائے گا۔ امام مجاہد کہتے ہیں: جب سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کمزور اور بوڑھے ہو گئے تو وہ اسی مقدار کے مطابق روزے رکھتے تھے، بسا اوقات چند روزے لگاتار رکھ لیتے، پھر اتنے ہی دن لگاتار افطار کر لیتے، اس سے ان کا مقصد قوت حاصل کرنا ہوتا تھا، اسی طرح کا معاملہ اپنے حزب میں کرتے تھے، کسی رات کو زیادہ حصہ تلاوت کر لیتے اور کسی رات کو کم کر لیتے، البتہ ان کی مقدار وہی ہوتی تھی،یا تو سات دنوں میں قرآن مجید مکمل کر لیتے،یا تین دنوں میں۔ اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بعد میں کہا کرتے تھے: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رخصت قبول کر لی ہوتی تو وہ مجھے دنیا کی ہر اس چیز سے محبوب ہوتی، جس کا بھی اس سے موازنہ کیا جاتا، لیکن میں عمل کی جس روٹین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہوا تھا، اب میں ناپسند کرتا ہوں کہ اس کی مخالفت کروں۔