۔ (۸۹۷۸)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: احْتَبَسَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذَاتَ غَدَاۃٍ عَنْ صَلاۃِ الصُّبْحِ، حَتّٰی کِدْنَا نَتَرَائٰی قَرْنَ الشَّمْسِ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سَرِیْعًا فَثُوِّبَ بِالصَّلاۃِ، وَصَلّٰی وَتَجَوَّزَ فِیْ صَلَاتِہِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ: ((کَمَا اَنْتُمْ عَلٰی مَصَافِّکُمْ۔)) ثُمَّ اَقْبَلَ اِلَیْنَا فَقَالَ: ((اِنِّیْ سَاُحَدِّثُکُمْ مَا حَبَسَنِیْ عَنْکُمُ الْغَدَاۃَ،اَنِّیْ قُمْتُ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّیْتُ مَا قُدِّرَ لِیْ فَنَعِسْتُ فِیْ صَلاتِیْ حَتَّی اسْتَیْقَظْتُ، فَاِذَا اَنَا بِرَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فِیْ اَحْسَنِ صُوْرَۃٍ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! اَتَدْرِیْ فِیْمَیَخْتَصِمُ الْمَلَاُ الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: لا اَدْرِیْیَارَبِّ! قَالَ: یَامُحَمَّدُ! فِیْمَیَخْتَصِمُ الْمَلَاُ الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: لا اَدْرِیْیَارَبِّ! فَرَاَیْتُہُ وَضَعَ کَفَّہُ
بَیْنَ کَتِفَیَّ حَتّٰی وَجَدْتُّ بَرْدَ اَنَامِلِہِ بَیْنَ صَدْرِیْ فَتَجَلّٰی لِیْ کُلُّ شَیْئٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ فِیْمَیَخْتَصِمُ الْمَلَاُ الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: فِیْ الْکَفَّارَاتِ، قَالَ: وَمَا الْکَفَّارَاتُ ؟ قُلْتُ: نَقْلُ الْاَقْدَامِ اِلَی الْجُمُعَاتِ وَجُلُوْسٌ فِی الْمَسْجِدِ بَعْدَ الصَّلاۃِ وَاِسْبَاغُ الْوُضُوئِ عَنْدَ الْکَرِیْھَاتِ، قَالَ: وَمَا الدَّرَجَاتُ ؟ قُلْتُ: اِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَلِیْنُ الْکَلامِ، وَالصَّلاۃُ وَالنَّاسُ نِیَامٌ، قَالَ: سَلْ، قُلْتُ: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَاَنْ تَغْفِرَلِیْ وَتَرْحَمَنِیْ، وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ، وَاَسْاَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمْلٍ یُّقَرِّبُنِیْ اِلٰی حُبِّکَ۔)) وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((أَنَّھَا حَقٌّ فَادْرُسُوْھَا وَتُعَلِّمُوْھَا۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۶۰)
۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک صبح کو نماز فجر سے اتنی دیر تک رکے رہے کہ قریب تھا کہ سورج کا کنارہ نظر آ جاتا، بہرحال پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی جلدی تشریف لائے، نماز کے لیے اقامت کہی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختصر سی نماز پڑھائی اور جب سلام پھیرا تو فرمایا: جیسے ہو، اپنی صفوں پر بیٹھے رہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: بیشک میں تم کو بیان کرتا ہوں کہ آج صبح کس چیز نے مجھے روکے رکھا، میں رات کو کھڑا ہوا اور جتنی نصیب میں تھی، نماز پڑھی، ابھی میں نماز میں ہی تھا کہ اونگھ آگئی، پھر جب بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے ربّ تعالیٰ کے سامنے ہوں، اللہ تعالیٰ بہت ہی خوبصورت شکل میں تھے، اللہ تعالیٰ نے کہا: اے محمد! مقرب فرشتے کن امور میں بحث مباحثہ کرتے ہیں؟ میں نے کہا: اے میرے ربّ! میں تو نہیں جانتا، اللہ تعالیٰ نے پھر کہا: مقرب فرشتے کس چیز میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے کہا: اے میرے رب! مجھے تو علم نہیں ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی پر میرے کندھوں کے درمیان رکھی، مجھے اپنے سینے میں اس کے پورں کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اور ہر چیز میرے لیے واضح ہو گئی اور مجھے معرفت حاصل ہو گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے کہا: اے محمد! (اب بتاؤ کہ) مقرب فرشتے کس چیز میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے کہا: کفارات میں، اس نے کہا: کفّارات کیا ہوتے ہیں؟ میں نے کہا: جماعتوں کی طرف چل کر جانا، نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنا اور ناپسند امور کے باوجود مکمل وضو کرنا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کہا: درجات کیا ہیں؟ میں نے کہا: کھانا کھلانا، نرم کلام کرنا اور اس وقت نماز ادا کرنا، جب لوگ سو رہے ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کہا: سوال کرو، میں نے کہا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ فَعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَاَنْ تَغْفِرَلِیْ وَتَرْحَمَنِیْ، وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ، وَاَسْاَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمْلٍ یُّقَرِّبُنِیْ اِلٰی حُبِّکَ۔ (اے اللہ! میں تجھ سے نیکی کے کام نیکیاں کرنے، برائیوں کو ترک کرنے، مسکینوں سے محبت کرنا، مجھے بخشنے اور مجھ پر رحم کرنے کا سوال کرتا ہوں اور جب تو کسی قوم میں فتنہ برپا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے اس فتنے میں مبتلا کیے بغیر فوت کر دینا اور میں تجھ سے تیری محبت کا، تجھ سے محبت کرنے والے کی محبت کااور ایسے عمل کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ حق ہے، لہٰذا اس کو سیکھوں اور سکھاؤ۔