۔ (۹۱۰۲)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ رضی اللہ عنہ ، اَنَّ اَصْحَابَ الصُّفْۃِ کَانُوْا اُنَاسًا فُقَرَائَ، وَاَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ مَرَّۃً: ((مَنْ کَانَ عِنْدَہُ طَعَامُ اثْنَیْنِ، فَلْیَذْھَبْ بِثَالِثٍ، مَنْ کَانَ عَنْدَہُ طَعَامُ اَرْبَعَۃٍ فَلْیَذْھَبْ بِخَامِسٍ، بِسَادِسٍ۔)) اَوْ کَمَا قَالَ: وَاَنَّ اَبَا بَکْرٍ جَائَ فَانْطَلَقَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِعَشَرَۃٍ وَاَبُوْبَکْرٍ بِثَـلَاثَۃٍ، قَالَ: فَھُوَ اَنَا وَاَبِیْ وَاُمِیِّ وَلا اَدْرِیْ ھَلْ قَالَ: وَاِمْرَاَتِیْ، وَخَادِمٌ بَیْنَ بَیْتِنَا وَبَیْتِ اَبِیْ بَکْرٍ، وَاِنَّ اَبَابَکْرٍ تَعَشّٰی عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثُمَّ لَبِثَ حَتّٰی صَلَّیْتُ الْعِشَائَ، ثُمَّ رَجَعَ، فَلَبِثَ حَتّٰی نَعَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَجَائَ بَعْدَ مَامَضٰی مِنَ اللَّیْلِ مَاشَائَ اللّٰہُ، قَالَتْ لَہُ امْرَاَتُہُ: مَاحَبَسَکَ عَنْ اَضْیَافِکَ، اَوْ قَالَتْ: ضَیْفِکَ؟ قَالَ: اَوْ مَاعَشَّیْتِھِمْ؟ قَالَتْ: اَبَوْا حَتّٰی تَجِیْئَ، قَدْ عَرَضُوْا عَلَیْھِمْ فَغَلَبُوْھُمْ، قَالَ: فَذَھَبْتُ اَنَا فَاخْتَبَاْتُ، قَالَ: یَا غُنْثَرُ اَوْ یَا عَنْتَرُ، فَجَدَّعَ، وَسَبَّ، وَقَالَ: کُلُوْا لا ھَنِیًّا، وَقَالَ: وَاللّٰہِ لااَطْعَمُہُ اَبَدًا، قَالَ: وَحَلَفَ الضَّیْفُ اَنْ لا یَطْعَمَہُ حَتّٰییَطْعَمَہُ اَبُوْبَکْرٍ، قَالَ: فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ:
ھٰذِہِ مِنَ الشَّیْطَانِ، قَالَ: فَدَعَا بِالطَّعَامِ فَاَکَلَ، قَالَ: فَاَیْمُ اللّٰہِ مَاکُنَّا نَاْخُذُ مِنْ لُقْمَۃٍ اِلَّا رَبَا مِنْ اَسْفَلِھَا اَکْثَرَ مِنْھَا قَالَ: حَتّٰی شَبِعُوْا، وَصَارَتْ اَکْثَرَ، مِمَّا کَانَتْ قَبْلَ ذٰلِکَ، فَنَظَرَ اِلَیْھَا اَبُوْبَکْرٍ، فَاِذَا ھِیَ کَمَا ھِیَ، اَوْ اَکْثَرُ، فَقَالَ لِاِمْرَاَتِہِ: یَااُخْتَ بَنِیْ فِرَاسٍ! مَاھٰذَا؟ قَالَتْ: لَا وَقُرَّۃِ عَیْنِیْ لَھِیَ الْآنَ اََکْثَرُ مِنْھَا قَبْلَ ذٰلِکَ بِثَـلَاثِ مِرَارٍ، فَاَکَلَ مِنْھَا اَبُوْبَکْرٍ، وَقَالَ: اِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ مِنَ الشَّیْطَانِ،یَعْنِیْیَمِیْنَہُ، ثُمَّ اَکَلَ لُقْمَۃً، ثُمَّ حَمَلَھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَاَصْبَحَتْ عِنْدَہُ، قَالَ: وَکَانَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ، فَمَضَی الْاَجَلُ، فَعَرَّفْنَا ا ثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا مَعَ کُلِّ رَجُلٍ اُنَاسٌ،وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ، کَمْ مَعَ کُلِّ رَجُلٍ، غَیْرَاَنَّہُ بَعَثَ مَعَھُمْ، فَاَکَلُوْا مِنْھَا اَجْمَعُوْنَ اَوْ کَمَا قَالَ۔ (مسند احمد: ۱۷۱۲)
۔ سیدنا عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اصحاب ِ صفہ فقیر لوگ تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار فرمایا: جس کے پاس دو افراد کا کھانا ہو، وہ تیسرا بندہ لے جائے، جس کے پاس چار افراد کا کھانا ہو، وہ پانچواں اور چھٹا بندہ لے جائے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس افراد کو اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ تین افراد کو لے گئے۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: گھر میں میں، میرے باپ، میری ماں اور ہمارے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر کاایک خادم تھا، راوی کو یہیاد نہیں رہا کہ انھوں نے بیوی کا ذکر کیا تھا یا نہیں۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شام کا کھانا کھا لیا، پھر وہیں ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ میں نے نماز کی عشاء پڑھی، پھر وہ واپس لوٹ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہی ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اونگھ آنے لگی، پھر وہ رات کا کافی حصہ گزر جانے کے بعد گھر واپس آئے، ان کی اہلیہ نے ان سے کہا: کس چیز نے آپ کو اپنے مہمانوں سے روکے رکھا؟ انھوں نے کہا: کیا تم نے ان کو شام کا کھانا نہیں کھلایا؟ انھوں نے کہا: انھوں نے آپ کی آمد تک انکار کر دیا، ہم نے ان کو کھانا پیش کیا تھا، لیکن ان کا انکار ہم پر غالب آیا۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں وہاں سے نکلاور چھپ گیا، انھوں نے کہا: اے غُنْثَر! یا اے عَنْتَر! پس انھوں نے مجھے بد دعا دی اور برا بھلا کہا، اور مہمانوں سے کہا: کھاؤ، خوشگوارنہ ہو، اللہ کی قسم! میں بالکل نہیں کھاؤں گا، اُدھر مہمان نے بھی قسم اٹھا لی کہ وہ ابھی اس وقت نہیں کھائے گا، جب تک ابو بکر نہیں کھائیں گے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تو شیطان کی طرف سے ہے، پھر انھوں نے کھانا منگوایا اور کھا لیا اور کہا: اللہ کی قسم! ہم جو لقمہ پکڑتے تھے، اس کے نیچے سے اس سے زیادہ بڑھ جاتا تھا، یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئے اور کھانا پہلے سے زیادہ پڑا تھا، جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف دیکھا کہ یہ کھانا تو اسی مقدار میں پڑا ہوا، بلکہ اس سے زیادہ ہے، پس انھوں نے اپنی بیوی سے کہا: اے بنو فراس کی بہن! یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم! یہ تو پہلے سے زیادہ لگ رہا ہے، انھوں نے یہ بات تین بار دوہرائی، پس ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس سے کھایا اور کہا: یہ قسم تو شیطان کی طرف سے تھی، پھر انھوں نے لقمہ کھایا اور پھر وہ کھانا اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طر ف لے گئے اور وہ کھانا صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھا، عبد الرحمن کہتے ہیں: ہمارے اور لوگوں کے ما بین معاہدہ تھا اور وہ مدت گزر گئی تھی، پس ہم نے بارہ نقیب بنائے، ہر نقیب کے ساتھ کچھ لوگ تھے، یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان کی تعداد کتنی کتنی تھی، بہرحال ان کو ان کے ساتھ بھیجا تھا، پس ان سب نے اس کھانے سے کھا لیا تھا۔