۔ (۹۱۸۴)۔ عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ ، اَنَّ رَجُلًا شَتَمَ اَبَا بَکْرٍ رضی اللہ عنہ ، وَالنَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جَالِسٌ، فَجَعَلَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَعْجَبُ وَیَتَبَسَّمُ فَلَمَّا اَکَثَرَ رَدَّ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ، فَغَضِبَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَقَامَ، فَلَحِقَہُ اَبُوْ بَکْرٍ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کَانَ یَشْتُمُنِی وَاَنْتَ جَالِسٌ فَلَمَّا رَدَدْتُّ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ غَضِبْتَ وَقُمْتَ قَالَ: ((اِنَّہٗکَانَمَعَکَمَلَکٌیَرُدُّ عَنْکَ، فَلَمَّا رَدَدْتَّ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ وَقَعَ الشَّیْطَانُ، فَلَمْ اَکُنْ لِاَقْعُدَ مَعَ الشَّیْطَانِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا اَبَا بَکْرٍ ثَلَاثٌ کُلُّھُنَّ حَقٌّ: مَا مِنْ عَبْدٍ ظُلِمَ بِمَظْلِمَۃٍ فَیُغْضِی عَنْھَا لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اِلَّا اَعَزَّ اللّٰہُ بِھَا نَصْرَہُ، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ عَطِیَّۃٍیُّرِیْدُ بِھَا صِلَۃً اِلَّا زَادَہُ اللّٰہُ بِھَا کَثْرَۃً، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ المَسْاَلَۃِیُرِیْدُ بِھَا کَثْرَۃً، اِلَّا زَادَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِھَا قِلَّۃً۔)) (مسند احمد: ۹۶۲۲)
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاس تشریف فرماتھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعجب کررہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ جب اُس شخص نے زیادہ گالیاں دیں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بعض گالیوں کا جواب دیا۔لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے اور چلے گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جاملے اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہ مجھ پر سب و شتم کرتا رہا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے رہے، جب میں نے اس کی بعض گالیوں کا جواب دیا تو آپ غصے میں آگئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دراصل تیرے ساتھ ایک فرشتہ تھا، جو تیری طرف سے جواب دے رہا تھا، لیکن جب تم نے خود جوابی کاروائی شروع کی تو شیطان آ گھسا، اب میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا۔ پھر آپ نے فرمایا: ابو بکر! تین چیزیں برحق ہیں: (۱)جس آدمی پر ظلم کیا جائے اور وہ آگے سے چشم پوشی کر جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی زبردست مدد کرتے ہیں، (۲) جو آدمی تعلقات جوڑنے کے لیے عطیے دینا شروع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو کثرت سے عطا کرتے ہیں اور (۳) جو آدمی اپنے مال کو بڑھانے کے لیے (لوگوں سے) سوال کرنا شروع کرتاہے، اللہ تعالیٰ (اس کے مال کی) کمی میں اضافہ کرتے ہیں۔