۔ (۹۲۹۹)۔ عَنْ مُجَاھِدٍ، اَنَّ اَبَا ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ کَانَ یَقُوْلُ: وَاللّٰہِ! اِنْ کُنْتُ لَاَعْتَمِدُ بِکَبِدِیْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْجُوْعِ، وَاِنْ کَنْتُ لَاَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَی بَطَنِی مِنَ الْجُوْعِ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ یَوْمًا عَلَی طَرِیْقِھِمُ الَّذِیْیَخْرُجُوْنَ مِنْہُ، فَمَرَّ اَبُوْبَکْرٍ فَسَاَلْتُہُ عَنْ آیَۃٍ مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، مَا سَاَلْتُہُ اِلَّا لِیَسْتَتْبِعَنِی، فَلَمْ یَفْعَلْ، فَمَرَّ عُمَرُ رضی اللہ عنہ فَسَاَلْتُہُ عَنْ آیَۃٍ مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، مَا سَاَلْتُہُ اِلَّا لِیَِسْتَتْبِعَنِی فَلَمْ یَفْعَلْ، فَمَرَّ اَبُوْ الْقَاسِمِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَعَرَّفَ مَا فِی وَجْھِی، وَمَا فِی نَفْسِی، فَقَالَ: ((اَبَاھُرَیْرَۃَ۔)) قُلْتُ لَہُ: لَبَّیْکَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((الْحَقْ۔))، وَاسْتَاْذَنْتُ فَاَذِنَ لِی فَوَجَدْتُ لَبَنًا فِی قَدَحٍ قَالَ: ((مِنْ اَیْنَ لَکُمْ ھٰذَا اللَّبَنُ؟۔)) فَقَالُوْا: اَھْدَاہُ لَنَا فَلَانٌ اَوْ آلُ فَلَانٍ، قَالَ: ((اَبَا ھُرَیْرَۃَ۔))، قُلْتُ: لَبَّیْکَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((انْطَلِقْ اِلٰی اَھْلِ الصُّفَّۃِ فَادْعُھُمْ لِی۔))، قَالَ: وَاَھْلُ الصُّفَّۃِ اَضْیَافُ
الْاِسْلَامِ، لَمْ یَاْوُوْا اِلیٰ اَھْلٍ وَلَا مَالٍ، اِذَا جَائَ تْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھَدِیَّۃٌ اَصَابَ مِنْھَا، وَبَعَثَ اِلَیْھِمْ مِنْھَا، قَالَ: وَاَحْزَنَنِی ذٰلِکَ، وَکُنْتُ اَرْجُوْا اَنْ اُصِیْبَ مِنَ اللَّبَنِ شَرْبَۃً اَتَقَوٰی بِھَا بَقِیَّۃَیَوْمِی وَلَیْلَتِی، فَقُلْتُ: اَنَا الرَّسُوْلُ فَاِذَا جَائَ الْقَوْمُ کُنْتُ اَنَا الَّذِییُعْطِیْھِمْ فَقُلْتُ: مَا یَبْقٰی لِی مِنْ ھٰذَا اللَّبَنِ ، وَلَمْ یَکُنْ مِنْ طَاعَۃِ اللّٰہِ وَطَاعَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بُدٌّ، فَانْطَلَقْتُ فَدَعَوْتُھُمْ، فَاَقْبَلُوْا، فَاسْتَاْذَنُوْا فَاَذِنَ لَھُمْ، فَاَخْذُوْا مَجَالِسَھُمْ مِنَ الْبَیْتِ ثُمَّ قَالَ: ((اَبَاھِرٍّ! خُذْ فَاَعْطِھِمْ۔))، فَاَخَذْتُ الْقَدَحَ فَجَعَلْتُ اُعْطِیْھِمْ، فَیَاْخُذُ الرَّجُلُ الْقَدَحَ فَیَشْرَبُ حَتّٰییَرْوٰی، ثُمَّ یَرُدُّ الْقَدَحَ فَاُعْطِیْہِ الْآخَرَ فَیَشْرَبُ حَتّٰییَرْوٰی، ثّمَّ یَرُدَّ الْقَدْحَ حَتّٰی اَتَیْتُ عَلیٰ آخِرِھِمْ، وَدَفَعْتُ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَاَخَذَ الْقَدَحَ فَوَضَعَہُ فِییَدِہِ وَبَقِیَ فِیْہِ فَضْلَۃٌ، ثُمَّ رَفَعَ رَاْسَہُ فَنَظَرَ اِلَیْہِ وَتَبَسَّمَ فَقَالَ: ((اَبَاھِرٍّ!)) قُلْتُ: لَبَّیْکَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، قَالَ: بَقِیْتُ اَنَا وَاَنْتَ، فَقُلْتُ: صَدَقْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ: ((فَاقْعُدْ فَاشْرَبْ۔))، قَالَ: فَقَعَدْتُ فَشَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِی: ((اِشْرَبْ۔)) فَشَرِبْتُ، فَمَا زَالَ یَقُوْلُ لِی: ((اِشْرَبْ۔)) فَاَشْرَبُ حَتّٰی قُلْتُ: لا وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا اَجِدُ لَھَا فِیَّ مَسْلَکًا، قَالَ: ((نَاوِلْنِی الْقَدَحَ۔)) فَرَدَدْتُ اِلَیْہِ الْقَدَحَ فَشَرِبَ مِنَ الْفَضْلَۃِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۰۶۹۰)
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں بھوک کی وجہ سے اپنے جگر کو زمین پر ٹیک دیتا تھا، اور میں بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھتا تھا، ایک دن ایسے ہوا کہ میں اس راستے پر بیٹھ گیا، جہاں سے لوگ گزرتے تھے، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے پا س سے گزرے، میں نے ان سے قرآن مجید کی ایک آیت کے بارے میں سوال کیا، میرا مقصد یہ تھا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں (اور کھانا کھلائیں گے)، لیکن انھوں نے ایسے نہ کیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گزرے، میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں سوال کیا، ان سے بھی سوال کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے، لیکن انھوں نے بھی ایسے نہ کیا، اتنے میں ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے چہرے اور میرے نفس کی بات پہچان لی اور فرمایا: ابو ہریرہ! میں نے کہا: جی، اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے ساتھ چلو۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر کے اندر چلے گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر جانے کی اجازت طلب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی، پس میں نے وہاں دودھ کا ایک پیالہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ گھر والوں نے کہا: جی فلاں یا آل فلاں نے ہمارے لیے تحفہ بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابو ہریرہ! میں نے کہا: جی، اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اہل صفہ کو بلا کر لاؤ۔ صفہ والے لوگ اسلام کے مہمان تھے، ان کا نہ کوئی اہل خانہ تھا اور نہ مال و دولت، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کوئی تحفہ آتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں کچھ حصہ ان کو بھی بھیجتے تھے، لیکن اب کی بار تو مجھے اس چیز نے غمگین کر دیا، کیونکہ مجھے امید تھی کہ میں یہ دودھ پیوں گا اور دن رات کا باقی حصہ قوت حاصل کروں گا، لیکن اب مسئلہ یہ بنا ہے کہ قاصد بھی میں ہوں، جب اہل صفہ آ جائیں گے تو میں نے ہی ان کو پلانا ہو گا اور میرے لیے دودھ باقی نہیں رہے گا، لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کی رسول کی اطاعت کے بغیر بھی کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ سو میں گیا اور اُن کو بلا کر لے آیا، پس وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی، وہ گھر میں آکر اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابو ہر! دودھ پکڑو اور اِن کو پلاؤ۔ پس میں نے پیالہ پکڑا اور اُن کو دینا شروع کیا، ایک آدمی پیالہ پکڑتا اور پیتا،یہاں تک کہ سیراب ہو جاتا، پھر وہ پیالہواپس کر دیتا اور میں دوسرے کو دیتا، پس وہ پیتا ،یہاں تک سیراب ہو جاتا اور پھر پیالہ واپس کر دیتا،یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ میں آخری بندے تک پہنچ گیا، اور پھر میں نے وہ پیالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکڑایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پکڑا اور اور اس کو اپنے ہاتھ پر رکھا، ابھی تک اس میں دودھ کی کچھ مقدار باقی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا، پس اس کی دیکھا اور مسکرانے لگے اور فرمایا: ابو ہر! میں نے کہا: جی، اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اور تو، ہم دو باقی رہ گئے ہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ سچ فرما رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سو بیٹھو اور پیو۔ پس میں بیٹھ گیا اور پیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: اور پیو۔ میں نے اور پیا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی فرماتے رہے کہ اور پیو۔ اور میں پیتا رہا، یہاں تک کہ میں نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر پیالہ مجھے پکڑا دو۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیالہ دے دیا، پھر باقی ماندہ دودھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پی لیا۔