۔ (۹۳۱۴)۔ حَدَّثَنَا الْھُذَیْلُ بْنُ مَیْمُوْنٍ الْکُوْفِیُّ الْجُعْفِیُّ، کَانَ یَجْلِسُ فِی مَسْجِدِ الْمَدِیْنَۃِیَعْنِی مَدِیْنَۃَ اَبِی جَعْفَرٍ، قَالَ عَبْدُاللّٰہِ: ھٰذَا شَیْخٌ قَدِیْمٌ کُوْفِیٌّ، عَنْ مُطَرِّحِ بْنِ یَزِیْدَ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ یَزِیْدَ، عَنِ الْقَاسِمِ (یَعْنِی ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ)، عَنْ اَبِی اُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ فَوَجَدْتُّ فِیْھَا خَشْفَۃً بَیْنَیَدَیَّ، فَقُلْتُ: مَاھٰذَا؟ قَالَ: بِلَالٌ، قَالَ: فَمَضَیْْتُ فَاِذَا اَکْثَرُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فُقَرَائُ الْمُھَاجِرِیْنَ وَذرَارِیُّ الْمُسْلِمِیْنَ، وَلَمْ اَرَ اَحَدًا اَقَلَّ مِنَ الْاِغْنِیَائِ وَالنِّسَائِ، فَقَیْلِ لِی: اَمَّا الْاَغْنِیَائُ فَھُمْ ھَاھُنَا بِالْبَابِ یُحَاسَبُوْنَ وَیُمَحَّصُوْنَ، وَاَمَّا النِّسَائُ فَاَلْھَاھُنَّ الْاَحْمَرَانِ الذَّھَبُ وَالْحَرِیْرُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا مِنْ اَحَدِ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ الثَّمَانِیَۃِ، فَلَمَّا کُنْتُ عِنْدَ الْبَابِ اَتَیْتُ بِکِفَّۃٍ فَوُضِعْتُ فِیْھَا وَوُضِعَتْ اُمَّتِی فِی کِفَّۃٍفَرَجَحَتُ بِھَا، ثُّمَّ اُتِیَ بِاَبِی بَکْرٍ رضی اللہ عنہ فَوُضِعَ فِی کِفَّۃٍ وَجِیْیئَ بِجَمِیْعِ اُمَّتِی فِی کِفَّۃٍ فَوُضِعُوْا فَرَجَحَ اَبُوْبَکْرٍ رضی اللہ عنہ ، وَجِیْئَ بِعُمَرَ فَوُضِعَ فِی کِفَّۃٍ وَجِیْیئَ بِجَمِیْعِ اُمَّتِی فَوُضِعُوْا فَرَجَحَ عُمَرُ رضی اللہ عنہ ، وَعُرِضَتْ اُمَّتِی رَجُلًا رَجُلًا فَجَعَلُوْا
یَمرُّوْنَ فَاسْتَبْطَاْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ ثُمَّ جَائَ بَعْدَ الْاِیَاسِ، فَقُلْتُ: عَبْدَ الرَّحْمٰنِ۔ فَقاَلَ: بِاَبِیْ وَاُمِّیْیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَاخَلَصْتُ اِلَیْکَ حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنِّیْ لَا اَنْظُرُ اِلَیْکَ اَبَدًا اِلاَّ بَعْدَ الْمَشِیْبَاتِ، قَالَ: وَمَا ذَاکَ؟ قَالَ: مِنْ کَثْرَۃِ مَالِیْ، اُحَاسَبُ وَاُمَحَّصُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۵۸۷)
۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا اور اپنے سامنے سے آہٹ سنی، میں نے پوچھا کہ یہ کون سی آواز ہے؟ اس نے کہا: یہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ہیں، پھر میں آگے کو بڑھا اور دیکھا کہ جنت میں زیادہ تر لوگ فقراء مہاجرین اور مسلمانوں کے بچے ہیں اور سب سے کم مالدار لوگ اور عورتیں ہیں، پھر مجھے بتلایا گیا کہ مالدار لوگوں کا جنت کے دروازے پر ابھی محاسبہ کیا جا رہا ہے اور ان کی مزید جانچ پڑتال کی جا رہی ہے، رہا مسئلہ خواتین کا، تو دو سرخ چیزوںیعنی سونے اور ریشم نے ان کو غافل کر دیا تھا، پھر ہم جنت کے آٹھ دروازوں میں سے کسی ایک دروازے سے باہر آئے، جب میں دروازے پر ہی تھا تو میرے پاس ایک پلڑا لایا گیا اور مجھے اس میں اور میرے امت کو دوسرے پلڑے میں رکھا گیا، پس میں بھاری ثابت ہوا، پھر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لا کر ایک پلڑے میں رکھا گیا اور باقی امت کو دوسرے میں، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ والا پلڑا جھک گیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لایا گیا اور ایک پلڑے میں رکھا اور باقی ساری امت کو دوسری پلڑے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھاری ثابت ہوئے، پھر میری امت کے ایک ایک آدمی کو پیش کیا گیا، پس وہ آگے کو گزرتے گئے، میں نے اس معاملے میں سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو سست اور متأخر پایا، پھر وہ ناامید ہو جانے کے بعدا ٓیا، میں نے کہا: عبد الرحمن! انھوں نے کہا: جی اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، آپ تک پہنچنے سے پہلے مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ میں کبھی بھی آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا، مگر بڑھاپوں کے بعد، میں نے کہا: وہ کیوں؟ انھوں نے کہا: میرے مال کی کثرت کی وجہ سے میرا محاسبہ ہوتا رہا اور مزید جانچ پڑتال کی جاتی رہی۔