۔ (۹۴۱۹)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ، عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: تَزَوَّجَ اَبُوْطَلْحَۃَ اُمَّ سُلَیْمٍ وَھِیَ اُمُّ اَنَسٍ (بْنِ مالک) وَالْبَرَائِ، قَالَ: فَوَلَدَتْ لَہُ بُنَیًّا، قَالَ: فَکَانَ یُحِبُّہُ حُبًّا شَدِیْدًا، قَالَ: فَمَرِضَ الْغُلَامُ مَرْضًا شَدِیْدًا، فَکَانَ اَبُوْ طَلْحَۃَیَقُوْمُ صَلَاۃَ الْغَدَاۃِیَتَوَضَّاُ وَیَاْتِیْ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَیُصَلِّیْ مَعَہُ، وَیَکُوْنُ مَعَہُ اِلٰی قَرِیْبٍ مِّنْ نِصْفِ النَّھَارِ، وَیَجِيْئُیَقِیْلُ وَیَاْکُلُ، فَاِذَا صَلَّی الظُّھْرَ تَھَیَّاَ وَذَھَبَ فَلَمْ یَجِیئْ اِلٰی صَلَاۃِ الْعَتَمَۃِ قَالَ: فَرَاحَ عَشِیَّۃً وَمَاتَ الصَّبِیُّ، قَالَ: وَجَائَ اَبُوْ طَلْحَۃَ قَالَ: نَسَجَتْ عَلَیْہِ ثَوْبًا وَتَرَکَتْہُ، قَالَ: فقَالَ لَھْا اَبُوْ طلحۃ: یَا اُمَّ سُلَیْمٍ! کَیْفَ بَاتَ بُنَیَّ اللَّیْلَۃَ؟ قَالَتْ: یَا اَبَا طَلْحَۃَ! مَا کَانَ ابْنُکَ مُنْذُ اشْتَکٰی اَسْکَنَ مِنْہُ اللَّیْلَۃَ، قَالَ: ثُمَّ جَائَ تْہُ بِالطَّعَامِ فَاَکَلَ وَطَابَتْ نَفْسُہُ، قَالَ: فَقَامَ اِلٰی فِرَاشِہِ فَوَضَعَ رَاْسَہُ قَالَتْ: وَقُمْتُ اَنَا فَمَسِسْتُ شَیْئًا مِنْ طِیْبٍ ثُمَّ جِئْتُ حَتّٰی
دَخَلْتُ مَعَہُ الْفِرَاشَ، فَمَا ھُوَ اِلَّا اَنْ وَجَدَ رِیْحَ الْطِیْبِ کَانَ مِنْہُ مَایَکُوْنُ مِنَ الرَّجُلِ اِلَیٰ اَھْلِہِ، قَالَ: ثُمَّ اَصْبَحَ اَبُوْطَلْحَۃَیَتَھَیَّاُ کَمَا کاَنَ یَتَھَیَّاُ کُلَّ یَوْمٍ، قَالَ: فَقَالَتْ لَہُ: یَا اَبَا طَلْحَۃَ! اَرَاَیْتَ لَوْ اَنَّ رَجُلًا اِسْتَوْدَعَکَ وَدِیْعَۃً فَاسْتَمْتَعْتَ بِھَا ثُمَّ طَلَبَھَا فَاَخَذَھَا مِنْکَ تَجْزَعُ مِنْ ذٰلِکَ؟ قَالَ: لَا ، قَالَتْ: فَاِنَّ ابْنَکَ قَدْ مَاتَ، قَالَ اَنَسٌ فَجَزِعَ عَلَیْہِ جَزْعًا شَدِیْدًا، وَحَدَّثَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِمَا کَانَ مِنْ اَمْرِھَا فِی الطَّعَامِ وَالطِّیْبِ، وَمَا کَانَ مِنْہُ اِلَیْھَا، قَالَ: فَقَالَ َرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((فَبِتُّمَا عَرُوْسَیْنِ وَھُوَ اِلٰی جَنْبِکُمَا؟)) قَالَ: نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، فَقَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((بَارَکَ اللّٰہُ لَکَمَا فِیْ لَیْلَتِکُمَا۔)) قَالَ: فَحَمَلَتْ اُمُّ سلیم تِلْکَ اللَّیْلَۃِ، قَالَ: فَتَلِدُ غُلَامًا، قَالَ: فَحِیْنَ اَصْبَحْنَا قَالَ لِیْ اَبُوْ طَلْحَۃَ رضی اللہ عنہ احْمِلْہُ فِیْ خِرْقَۃٍ حَتّٰی تَاْتِیَ بِہٖرَسُوْلَاللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَاحْمَلْ مَعَکَ تَمْرَ عَجْوَۃٍ، قَالَ: فَحَمَلْتُہُ فِیْ خِرْقَۃٍ قَالَ: وَلَمْ یُحَنِّکْ وَلَمْ یَذُقْ طَعَامًا وَلَا شَیْئًا، قَالَ: فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَلَدَتْ اُمُّ سُلَیْمٍ، قَالَ: ((اَللّٰہُ اَکْبَرُ، مَا وَلَدَتْ؟)) قُلْتُ: غُلَامًا، قَالَ: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔))، فَقَالَ: ((ھَاتِہِ اِلَیَّ۔)) فَدَفَعْتُہُ اِلَیْہِ فَحَنَّکَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ثُمَّ قَالَ لِیْ: ((مَعَکَ تَمْرُ عَجْوَۃٍ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، فَاَخْرَجْتُ تَمَرَاتٍ فَاَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تَمْرَۃً وَاَلْقَاھَا فِیْ فِیْہِ، فَمَا زَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَلُوْکُھَا حَتَّی اخْتَلَطَتْ بِرِیْقِہِ ثُمَّ دَفَعَ الصَّبِیَّ فَمَا ھُوَ اِلَّا اَنْ وَجَدَ الصَّبِیُّ حَلَاوَۃَ التَّمْرِ، جَعَلَ یَمُصُّ بَعْضَ حَلَاوَۃِ التَّمْرِ وَرَیِقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ اَنَسٌ: فَکَانَ اَوَّلُ مَنْ فَتَحَ اَمْعَائَ ذٰلِکَ الصَّبِیِّ عَلٰی رِیْقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((حِبُّ الْاَنْصَارِ التَّمْرُ۔)) فَسَمَّی عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ اَبِی طَلْحَۃَ، قَالَ: فَخَرَجَ مِنْہُ رَجُلٌ کَثِیْرٌ قَالَ: وَاسْتُشْھِدَ عَبْدُ اللّٰہِ بِفَارِسَ۔(مسند احمد: ۱۲۸۹۶)
۔ (دوسری سند) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا سے شادی کی،یہ سیدنا انس بن مالک اور سیدنا براء رضی اللہ عنہما کی ماں تھیں، سیدہ ام سلیم نے ان کے لیے ایک پیارا سا بیٹا جنم دیا، سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اس سے بہت محبت کرتے تھے، لیکن ہوا یوں کہ بچہ بہت سخت بیمار ہو گیا، سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی روٹینیہ تھی کہ وہ نماز فجر کے لیے اٹھتے، وضو کرتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور نصف النہار کے قریب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی ٹھہرتے، پھر واپس آ کر قیلولہ کرتے اور کھانا کھاتے، پھر نمازِ ظہر کی تیاری کر کے چلے جاتے اور نمازِ عشا تک واپس نہیں آتے تھے، ایک دن جب وہ رات کو واپس آئے تو بچہ فوت ہو چکا تھا، سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے (شروع میں اس کی موت کو چھپانے کے لیے) اس کپڑے سے ڈھانپ دیا اور اس کو چھوڑ دیا، جب سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ واپس آئے تو کہا: اے ام سلیم! میرے پیارے بیٹے نے رات کیسے گزاری ہے؟ انھوں نے کہا: اے ابو طلحہ! تیرا بیٹا جس دن سے بیمار ہوا، آج رات کو سب سے زیادہ سکون میں تھا، پھر وہ کھانا لے کر آئیں، انھوں نے کھانا کھایا اور ان کا نفس خوشگوار ہو گیا، پھر وہ اپنے بستر کی طرف گئے اور سونے کے لیے اپنا سر رکھا، سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے خوشبو لگائی اور ان کے پاس آ کر بستر میں ان کے ساتھ داخل ہو گئی، جب انھوں نے خوشبو محسوس کی تو وہی معاملہ چلا جو میاں بیوی کا ہوتا ہے ، پھر جب صبح ہوئی تو انھوں نے روٹین کے مطابق تیاری کرنا شروع کر دی، جیسا کہ ہر روز کرتے تھے، اب سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: اے ابو طلحہ! اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک آدمی نے آپ کو امانت دی، آپ نے اس سے استفادہ کیا، پھر اس نے تجھ سے طلب کی اور پھر لے لی، کیا تو اس معاملے میں بے صبری کرے گا؟ انھوں نے کہا: نہیں، سیدہ نے کہا: تو پھر آپ کا بیٹا فوت ہو چکا ہے، وہ بہت زیادہ گھبرائے اور پریشان ہوئے اور جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارے معاملے کی خبردی کہ اس کی بیوی نے اس طرح کھانا کھلایا، خوشبو لگائی اور پھر جو کچھ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے حق زوجیت ادا کیا ہے اور وہ بچہ تمہارے پہلوؤں میں تھا؟ انھوں نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری اس رات میں برکت فرمائے۔ پس سیدہ ام سلیم کو اسی رات حمل ہو گیا، بعد میں جب انھوں نے بچہ جنم دیا تو صبح کو سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے میں (انس) سے کہا: اس کو کسی کپڑے میں اٹھا لے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے جا اور عجوہ کھجور بھی لیتا جا، پس میں نے اس کو کپڑے میں لپیٹ کر اٹھایا، نہ اس کو گڑتی دی گئی تھی، نہ اس نے کھانا کھایا، بلکہ کوئی چیز نہیں چکھی، جب میں پہنچا تو کہا: اے اللہ کے رسول! سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کا بچہ پیدا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (خوشی سے) فرمایا: اَللّٰہُ اَکْبَرُ، کیا جنم دیا ہے اس نے؟ میں نے کہا: جی لڑکا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، لے آ اس کو میرے پاس۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکڑا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو گڑتی دینا چاہی، اس لیے مجھ سے پوچھا: کیا تیرے پاس عجوہ کھجور ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں ہے، پھر میں نے کھجوریں نکالیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کھجور لے کر اس کو اپنے منہ مبارک میں ڈالا اور اتنی دیر تک چبایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب کے ساتھ مکس ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچے کو دی اور فوراً یوں لگا کہ بچہ کھجور کی مٹھاس محسوس کر رہا ہے، وہ کھجور کی حلاوت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تھوک کو چوسنے لگا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پہلی چیز جس نے اس بچے کی انتڑیاں کھولیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھوک تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انصاریوں کی محبوب چیز کھجور ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بچے کا نام عبد اللہ رکھا، اس عبد اللہ کی کافی ساری اولاد پیدا ہوئی تھی،یہ عبد اللہ فارس میں شہید ہو گئے تھے۔