۔ (۹۴۴۸)۔ عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ، عَامِرِ بْنِ وَاثِلَۃَ، اَنَّ رَجُلًا مَرَّ عَلٰی قَوْمٍ، فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ، فَرَدُّوْا عَلَیْہِ السَّلامَ، فَلَمَّا جَاوَزَھُمْ قَال رَجُلٌ مِنْھُمْ: وَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَاُبْغِضُ ھٰذَا فِی اللّٰہِ، فَقَالَ اَھْلُ الْمَجْلِسِ: فَبِئْسَ وَاللّٰہِ مَا قُلْتَ، اَمَا وَاللّٰہِ
لَنُنَبِّئَنَّہُ، قُمْ یَا فُلَانُ! رَجُلٌ مِنْھُمْ، فَاَخْبِرُہُ، قَالَ: فَاَدْرَکَہُ رَسُوْلُھُمْ فَاَخْبَرَہُ بِمَا قَالَ، فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ حَتّٰی اَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَرَرْتُ بِمَجْلِسٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْھِمْ فُلانٌ فَسَلَّمْتُ عَلَیْھِمْ فَرَدُّوْا السَّلَامَ فَلَمَّا جَاوَزْتُھُمْ اَدْرَکَنِیْ رَجُلٌ مِنْھُمْ فَاَخْبَرَنِیْ اَنَّ فُلَانًا قَالَ: وَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَاُبْغِضُ ھٰذَا الرَّجُلَ فِی اللّٰہِ، فَادْعُہُ، فَسَلْہُ عَلٰی مَایُبْغِضُنِیْ؟ فَدَعَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَساَلَہُ عَمَّا اَخْبَرَہُ الرَّجُلُ، فَاعْتَرَفَ بِذٰلِکَ، وَقَالَ: قَدْ قُلْتُ لَہُ ذٰلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((فَلِمَ تُبْغِضُہُ؟)) قَالَ: اَنَا جَارُہُ وَاَنَا بِہٖخَابِرٌ،وَاللّٰہِمَارَاَیْتُہُیُصَلِّیْ صَلَاۃً قَطُّ اِلَّا ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ الْمَکْتُوْبَۃَ الَّتِیْیُصَلِّیْھَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ الرَّجُلُ: سَلْہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ رَآنِیْ قَطُّ اَخَّرْتُھَا عَنْ وَقْتِھَا، اَوْ اَسَأْتُ الْوُضُوْئَ لَھَا؟ اَوْ اَسَأْتُ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ فِیْھَا؟ فَساَلَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قَالَ: واللّٰہِ! مَارَاَیْتُہُیَصُوْمُ قَطُّ اِلَّا ھٰذَا الشَّھْرَ الَّذِیْیَصُوْمُہُ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ: فَسَلْہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ رَآنِیْ قَطُّ اَفْطَرْتُ فِیْہِ، اَوِ انْتَقَصْتُ مِنْ حَقِّہِ شَیْئًا؟ فَسَالَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ مَارَاَیْتُہُیُعْطِیْ سَائِلًا قَطُّ، وَلَارَاَیْتُہُیُنْفِقُ مِنْ مالِہِ شَیْئًا فِیْ شَیْئٍ مِنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِخَیْرٍاِلَّا بِخَیْرٍ اِلَّا ھٰذِہِ الصَّدَقَۃَ الَّتِیْیُؤَدِّیْھَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ: فَسَلْہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ کَتَمْتُ مِنَ الزَّکَاۃِ شَیْئًا قَطُّ اَوْ مَاکَسْتُ فِیْھَا طَالِبَھَا؟ قَالَ: فَسَاَلَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ: لا، فقَالَ َلہ: رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((قُمْ اِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّہُ خَیْرٌ مِنْکَ۔)) (مسند احمد: ۲۴۲۱۳)
۔ سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا، اس نے سلام کہا اور انھوں نے سلام کا جوا ب دیا، جب وہ آگے گزر گیا تو ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس آدمی سے بغض رکھتا ہوں، اہلِ مجلس نے کہا: اللہ کی قسم! تو نے بری بات کی ہے، اللہ کی قسم! ہم ضرور ضرور اس کو بتلائیں گے، او فلاں! کھڑا ہو اور اس کو بتلا کے آ، پس ان کے قاصد نے اس کو شخص کو پا لیا اور ساری بات اس کو بتلا دی، وہ آدمی وہاں سے پھرا اور سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا پہنچا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں مسلمانوں کی ایک مجلس سے گزرا، ان میں فلاں آدمی بھی بیٹھا ہوا تھا، میں نے ان کو سلام کہا اور انھوں نے سلام کا جواب دیا، جب میں ان سے تجاوز کر گیا تو ان میں سے ایک آدمی مجھے پیچھے سے آ کر ملا اور کہا کہ فلاں آدمی کہہ رہا ہے کہ اللہ کی قسم ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے لیے تجھ سے بغض رکھتا ہے، اے اللہ کے رسول! اب آپ اس کو بلائیں اور پوچھیں کہ کس وجہ سے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بلایا اور اس آدمی کی بتائی ہوئی بات کے بارے میں پوچھا، اس نے اعتراف کر لیا اور کہا: جی اللہ کے رسول! میں نے یہ بات کہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتا کہ تو اس سے بغض کیوں رکھتا ہے؟ اس نے کہا: جی میں اس کا ہمسایہ ہوں اور اس کے بارے میں باخبر ہوں، اللہ کی قسم! میں نے اس کو دیکھا ہے، یہ صرف فرضی نماز ادا کرتا ہے، جو ہر نیک و بد پڑھ رہا ہے۔ لیکن اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا میں نے ان نمازوں کو ان کے اوقات سے مؤخر کیا ہے؟ یا میں نے کبھی وضو میں کمی کی ہے؟ یا میں نے رکوع و سجود کو ناقص ادا کیا ہے؟ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس سے یہ سوالات کیے تو اس نے منفی میں جواب دیا (یعنی واقعییہ بات تو ہے کہ یہ وقت پر اور مکمل نماز وضو کا اہتمام کرتا ہے)۔ پھر اس اعتراض کرنے والے نے کہا: اللہ کی قسم ہے، میں نے اس کو دیکھا کہ یہ صر ف ماہِ رمضان کے روزے رکھتا ہے، جس کے روزے ہر نیک و بد رکھتا ہے۔ لیکن اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا میں نے رمضان میں کبھی کوئی روزہ چھوڑا ہے، یا روزے کے حق میں کوئی کمی کی ہے؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے منفی میں جواب دیا (یعنییہ بات تو ٹھیک کہ یہ آدمی اچھے انداز میں روزے رکھتا ہے)۔ اعتراض کرنے والے نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں نے اس کو نہیں دیکھا کہ اس نے کسی سائل کو کبھی کوئی چیز دی ہو، یا اللہ کے راستے میں کوئی مال خرچ کیا ہو، ما سوائے اس زکوۃ کے، جو ہر نیک و بد ادا کرتا ہے۔ لیکن اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا میں نے زکوۃ میں سے کبھی کوئی چیز چھپائی ہے، یا زکوۃ لینے والے سے کمی کروائی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اس کے بارے میں پوچھاتو اس نے منفی میں جواب دیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کھڑا ہو جا تو، میں نہیں جانتا ہو سکتا ہے کہ وہ تجھ سے بہتر ہو۔