۔ (۷۶۲)۔عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَتْ: أَتَتْ سَلْمٰی مَوْلَاۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَوْ امْرَأۃُ أَبِیْ رَافِعٍ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تَسْتَأْذِنُہُ عَلٰی أَبِیْ رَافِعٍ قَدْ ضَرَبَہَا، قَالَتْ: قَالَ
رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِأَبِیْ رَافِعٍ: ((مَالَک وَلَہَا یَا أَبَا رَافِعٍ؟)) قَالَ: تُؤْذِیْنِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((بِمَ آذَیْتِیْہِ یَا سَلْمٰی؟)) قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا آذَیْتُہُ بِشَیْئٍ وَلَکِنَّہُ أَحْدَثَ وَہُوَ یُصَلِّیْ، فَقُلْتُ لَہُ: یَا أَبَا رَافِعٍ! اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَدْ أَمَرَ الْمُسْلِمِیْنَ اِذَا خَرَجَ مِنْ أَحَدِہِمُ الرِّیَحُ أَن یَتَوَضَّأَ، فَقَامَ فَضَرَبَنِیْ، فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَضْحَکُ وَیَقُوْلُ: ((یَا أَبَا رَافِعٍ! اِنَّہَا لَمْ تَأْمُرْکَ اِلَّا بِخَیْرٍ۔)) (مسند أحمد: ۲۶۸۷۰)
زوجۂ رسول سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ کی لونڈی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام سیدنا ابو رافعؓکی بیوی سیدہ سلمی اپنے خاوند کی شکایت کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں، اس نے اس کو مارا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا ابو رافعؓ سے فرمایا: ابو رافع! تیرا اور اس کا کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ مجھے تکلیف دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سلمی! تو نے اس کو کون سی تکلیف دی ہے ؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس کو کوئی تکلیف نہیں دی، یہ بات ضرور ہوئی کہ نماز کے اندر اس کا وضو ٹوٹ گیا، اس لیے میں نے اس سے کہا: اے ابو رافع! بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو وہ وضو کیا کرے، لیکن یہ کہنا تھا کہ انھوں نے اٹھ کر مجھے مارنا شروع کر دیا، رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر مسکرانے لگ گئے اور یہ فرمانے لگے: ابو رافع! اس نے تو تجھے خیر کا ہی حکم دیا تھا۔