۔ (۹۵۲۱)۔ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِیْ سَرِیَّۃٍ مِنْ سَرَایَاہُ، قَالَ: فَمَرَّ رَجُلٌ بِغَارٍ فِیْہِ شَیْئٌ مِنْ مَائٍ، قَالَ: فَحَدَّثَ نَفْسَہُ بِاَنْ یُقِیْمَ فِیْ ذٰلِکَ الْغَارِ فَیَقُوْتُہُ مَا کَانَ فِیْہِ مِنْ مَائٍ، وَیُصِیْبُ مَا حَوْلَہُ مِنَ الْبَقَلِ وَیَتَخَلّٰی مِنَ الدُّنْیَا، ثُمَّ قَالَ: لَوْ اَنَّیْ اَتَیْتُ نَبِیَّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہُ، فَاِنْ اَذِنَ لِیْ فَعَلْتُ وَاِلَّا لَمْ اَفْعَلْ، فَاَتَاہُ، فَقَالَ:یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، اِنِّیْ مَرَرْتُ بِغَارٍ فِیْہِ مَا یَقُوْتُنِیْ مِنَ الْمَائِ وَالْبَقَلِ، فَحَدَّثَتْنِیْ نَفْسِیْ بِاَنْ اُقِیْمَ فِیْہِ وَاَتَخَلّٰی عَنِ الدُّنْیَا، قَالَ: فقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((اِنِّیْ لَمْ اُبْعَثْ بِالْیَھُوْدِیِّۃِ وَلَا النَّصْرَانِیَّۃِ، وَلٰکِنْ بُعِثْتُ بِالْحَنِیِْفِیَّۃِ الْسَّمْحَۃِ، وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَغَدْوَۃٌ، اَوْ رَوْحَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا، وَلَمَقَامُ اَحَدِکُمْ فِی الصَّفِّ خَیْرٌ مِّنْ صَلَاتِہِ سِتِّیْنَ سَنَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۴۷)
۔ سیدناابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک لشکر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے، ایک آدمی کا ایک نشیبی جگہ کے پاس سے گزر ہوا، وہاں پانی کا چشمہ بھی تھا، اسے خیال آیا کہ وہ دنیا سے کنارہ کش ہو کر یہیں فروکش ہو جائے، یہ پانی اور اس کے ارد گرد کی سبزہ زاریاں اسے کفایت کریں گی۔ پھر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور یہ معاملہ آپ کے سامنے رکھوں گا، اگر آپ نے اجازت دے دی تو ٹھیک، وگرنہ نہیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے نبی! میں فلاں نشیبی جگہ سے گزرا، وہاں کے پانی اور سبزے سے میری گزر بسر ہو سکتی ہے، مجھے خیال آیا کہ میں دنیا سے کنارہ کش ہو کر یہیں بسیرا کر لوں، (اب آپ کا کیا خیال ہے)؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں یہودیت اور نصرانیت لے کر نہیں آیا، مجھے نرمی و سہولت آمیز شریعت دے کر مبعوث کیا گیا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ کے راستے میں صبح کا یا شام کا چلنا دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے اور دشمن کے سامنے صف میں کھڑے ہونا ساٹھ سال کی نماز سے افضل ہے۔