۔ (۹۶۶۹)۔ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ الْفَزَارِیِّ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ مِمَّا یَقُوْلُ لِاَصْحَابِہٖ: ((ھَلْرَاٰی اَحَدٌ مِنْکُمْ رُؤْیًا؟)) قَالَ: فَیَقُصُّ عَلَیْہِ مَنْ شَائَ اللّٰہُ اَنْ یَقُصَّ، قَالَ: وَاِنَّہُ قَالَ لَنَا ذَاتَ غَدَاۃٍ: ((اِنَّہُ آتَانِی اللَّیْلَۃَ آتِیَانِ،وَاِنَّھُمَا ابْتَعَثَانِیْ، وَاِنَّھُمَا قَالَا لِیْ: اِنْطَلِقْ، وَاِنِّیْ اِنْطَلَقْتُ مَعَھُمَا، وَاِنَّا اَتَیْنَا عَلٰی رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ، اِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَیْہِ
بِصَخْرَۃٍ، وَاِذَا ھُوَ یَھْوِیْ بِالصَّخْرَۃِ لِرَاْسِہِ فَیَثْلَغُ بِھَا رَاْسَہُ، فَیَتَدَھْدَہُ الْحَجَرُ ھٰھُنَا، فَیَتْبَعُ الْحَجَرَ یَاْخُذُہُ، فَمَا یَرْجِعُ اِلَیْہِ حَتّٰییَصِحَّ رَاْسُہُ کَمَا کَانَ، ثُمَّ یَعُوْدُ عَلَیْہِ فَیَفْعَلُ بِہٖمِثْلَ مَافَعَلَ الْمَرَّۃَ الْاُوْلٰی، قَالَ: قُلْتُ: سَبْحَانَ اللّٰہِ، مَاھٰذَانِ؟ قَالَ: قَالَالِیْ: اِنْطَلِقْ، اِنْطَلِقْ، فَانْطَلَقْتُ مَعَھُمَا، فَاَتَیْنَا عَلٰی رَجُلٍ مُسْتَلْقٍ لِقَفَاہُ، وَاِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَیْہِ بِکَلُّوْبٍ مِنْ حَدِیْدٍ فَاِذَا ھُوَ یَاْتِیْ اَحَدَ شِقَّیْ وَجْھِہِ، فَیُشَرْشِرُ شِدْقَہُ اِلٰی قَفَاہُ وَمَنْخِرَاہُ اِلٰی قَفَاہُ وَعَیْنَاہُ اِلٰی قَفَاہُ، قَالَ: ثُمَّ یَتَحَوَّلَ اِلَی الْجَانِبِ الْآخَرِ فَیَفْعَلُ بِہٖمِثْلَمَافَعَلَبِالْجَانِبِالْاَوَّلِ،حَتّٰییَصِحَّ الْاَوَّلُ کَمَا کَانَ ثُمَّ یَعُوْدُہُ فَیَفْعَلُ بِہٖمِثْلَمَافَعَلَبِہٖالْمَرَّۃَ الْاُوْلٰی، قَالَ: قُلْتُ: سَبْحَانَ اللّٰہِ، مَاھٰذَانِ؟ قَالَ: قَالَا لِیْ: اِنْطَلِقْ، اِنْطَلِقْ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَاَتَیْنَا عَلٰی مِثْلِ بَنَائِ التَّنُّوْرِ قَالَ عَوْفٌ: وَاَحْسَبُ اَنَّہُ قَالَ: وَاِذَا فِیْہِ لَغَطٌ وَاَصْوَاتٌ، قَالَ: فَاطَّلَعْتُ، فَاِذَا فِیْہِ رِجَالٌ وَنِسَائٌ عُرَاۃٌ، وَاِذَا ھُمْ یَاتِیْھِمْ لَھِیْبٌ مِنْ اَسْفَلَ مِنْھُمْ، فَاِذَا اَتَاھُمْ ذٰلِکَ اللَّھَبُ ضَوْضَوْا ، قَالَ: قُلْتُ: مَاھٰؤُلَائِ؟ قَالَ: قَالَالِیْ: انْطَلِقْ، اِنْطَلِقْ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَاَتَیْنَا عَلَی نَھْرٍ حَسِبْتُ اَنَّہُ اَحْمَرُ مِثْلُ الدَّمِ، وَاِذَا فِیْ النَّھْرِ رَجُلٌ یَسْبَحُ، ثُمَّ یَاْتِیْ ذٰلِکَ الرَّجُلُ الَّذِیْ قَدْ جَمَعَ الْحِجَارَۃَ، فَیَفْغَرُ لَہُ فَاہُ فَیُلْقِمُہُ حَجَرًا حَجَرًا، قَالَ: فَیَنْطَلِقُ فَیَسْبَحُ مَایَسْبَحُ، ثُمَّ یَرْجِعُ اِلَیْہِ، کُلَّمَا رَجَعَ اِلَیْہِ فَغَرَ لَہُ فَاہَ وَاَلْقَمَہُ حَجَرًا،قَالَ: قُلْتُ: مَاھٰذَا؟ قَالَ: قَالَا لِیْ: اِنْطَلِقْ، اِنْطَلِقْ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا: فَاَتَیْنَا عَلَی رَجُلٍ کَرِیْہِ الْمَرْآۃِ کَاَکْرَہِ مَااَنْتَ رَائٍ رَجُلًا مَرْآۃً، فَاِذَا ھُوَ عِنْدَ نَارٍ لَہُ یَحُشُّھَا وَیَسْعٰی حَوْلَھَا، قَالَ: قُلْتُ: لَھُمَا مَاھٰذَا؟ قَالَ: قَالَا لِیْ: اِنْطَلِقْ، اِنْطَلِقْ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَاَتَیْنَا عَلٰی رَوْضَۃٍ مُعْشِبَۃٍ فِیْھَا مِنْ کُلِّ نَوْرِ الرَّبِیْعِ، قَالَ: وَاِذَا بَیْنَ ظَھْرَانَیِ الرَّوْضَۃِ رَجُلٌ قَائِمٌ طَوِیْلٌ لَا اَکَادُ اَنْ اَرٰی رَاْسَہُ طُوْلًا فِیْ السَّمَائِ، وَاِذَا حَوْلَ الرَّجُلِ مِنْ اَکْثَرِ وِلْدَانٍ رَاَیْتُھُمْ قَطُّ وَاَحْسَنِہِ، قَالَ: قُلْتُ: لَھُمَا مَاھٰذَا وَمَا ھٰؤُلَائِ؟ قَالَ: فَقَالَا لِیْ: انْطَلِقْ، اِنْطَلِقْ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا، فَانْتَھَیْنَا اِلٰی دَوْحَۃٍ عَظِیْمَۃٍ لَمْ اَرَ دَوْحَۃً قَطُّ اَعْظَمَ مِنْھَا وَلَا اَحْسَنَ، فَقَالَا لِیْ: اِرْقَ فِیْھَا، فَارْتَقَیْنَا فِیْھَا، فَانْتَھَیْنَا اِلٰی مَدِیْنَۃٍ مَبْنِیَّۃٍ بِلَبِنِ ذَھَبٍ وَلَبِنِ فِضَّۃٍ، فَاَتَیْنَا بَابَ الْمَدِیْنَۃِ، فَاسْتَفْتَحْنَا، فَفُتِحَ لَنَا، فَدَخَلْنَا، فَلَقِیْنَا فِیْھَا رِجَالًا شَطْرٌ مِنْ خَلْقِھِمْ کَاَحْسَنِ مَااَنْتَ رَائٍ، وَشَطْرٌ کَاَقْبَحِ مَااَنْتَ رَائٍ، قَالَ: فَقَالَا لَھُمْ: اِذْھَبُوْا فَقَعُوْا فِیْ ذٰلِکَ النَّھْرِ، فَاِذَا نَھْرٌ صَغِیْرٌ مُعْتَرِضٌ یَجْرِیْ کَاَنّمَا ھُوَ الْمَحْضُ فِیْ الْبَیَاضِ، قَالَ: فَذَھَبُوْا فَوَقَعُوْا فِیْہِ، ثُمَّ رَجَعُوْا اِلَیْنَا وَقَدْ ذَھَبَ ذٰلِکَ السُّوْئُ عَنْھُمْ وَصَارُوْا فِیْ اَحْسَنِ صُوْرَۃٍ، قَالَ: فَقَالَا لِیْ: ھٰذِہِ جَنَّۃُ عَدْنٍ وَھٰذَاکَ مَنْزِلُکُ، قَالَ: فَبَیْنَمَا بَصْرِیْ صُعُدًا فَاِذَا قَصْرٌ مِثْلُ الرَّبَابَۃِ الْبَیْضَائِ، قَالَا لِیْ: ھٰذَاکَ مَنْزِلُکُ، قَالَ: قُلْتُ لَھُمَا: بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکُمَا، ذَرَانِیْ فَلَاَدْخُلُہُ، قَالَ: قَالَالِیْ: اَمَّا الْآنَ فَلَا، وَاَنْتَ دَاخِلُہُ، قَالَ: فَاِنِّیْ رَاَیْتُ مُنْذُ اللَّیْلَۃِ عَجَبًا، فَمَا ھٰذَا الَّذِیْ رَاَیْتُ؟ قَالَ: قَالَا لِیْ: اَمَا اِنَّا سَنُخْبِرُکَ، (اَمَّا) الرَّجُلُ الْاَوَّلُ الَّذِیْ اَتَیْتَ عَلَیْہِیُثْلَغُ رَاْسُہُ بِالْحَجَرِ فَاِنَّہُ رَجُلٌ یَاْخُذُ الْقُرْآنَ فَیَرْفُضُہُ، وَیَنَامُ عَنِ الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَۃِ، (وَاَمَّا) الرَّجُلُ الَّذِیْ اَتَیْتَیُشَرْشَرُ شِدْقُہُ اِلٰی قَفَاہُ وَعَیْنَاہُ اِلٰی قَفَاہُ وَمَنْخَرَاہُ اِلٰی قَفَاہُ فَاِنَّہُ الرَّجُلُ یَغْدُوْ مِنْ بَیْتِہِ فَیَکْذِبُ الْکَذِبَۃَ تَبْلُغُ الْآفَاقَ، (وَاَمَّا) الرِّجَالْ وَالنِّسَائُ الْعُرَاۃُ الّذِیْنَ فِیْ بَنَائٍ مِثْلِ بَنَائِ التَّنُّوْرِ فَاِنَّھُمُ الزُّنَاۃُ وَالزَّوَانِیْ، (وَاَمَّا) الرَّجُلُ الَّذِیْیَسْبَحُ فِیْ النَّھْرِ وَیُلْقَمُ الْحِجَارَۃَ فَاِنَّہُ آکِلُ الرِّبَا (وَاَمَّا) الرَّجُلُ کَرِیْہُ الْمَرْآۃِ الّذِیْ عِنْدَ النَّارِیَحُشُّھَا فَاِنَّہُ مَالِکٌ خَازِنُ جَھَنَّمَ، (وَاَمَّا) الرَّجُلُ الطَّوِیْلُ الّذِیْ رَاَیْتَ فِیْ الرَّوْضَۃ فَاِنّہُ اِبْرَاھِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ،(وَاَمَّا) الْوِلْدَانُ الّذِیْنَ حَوْلَہُ فَکُلُّ مَوْلُوْدٍ مَاتَ عَلَی الْفِطْرَۃِ؟ قَالَ: فَقَالَ: بَعْضُ الْمُسْلِمِیْنَیَارَسُوْلُ اللّٰہِ! وَاَوْلَادُ الْمُشْرِکِیْنَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((وَاَوْلَادُ الْمُشْرِکِیْنَ۔)) (وَاَمَّا) الْقَوْمُ الّذِیْنَ کَانَ شَطَرٌ مِنْھُمْ حَسَنًا وَشَطَرٌ قَبِیْحٌ فَاِنَّھُمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا فَتَجَاوَزَ اللّٰہُ عَنْھُمْ، قَالَ اَبُوْعَبْدِالرَّحْمٰنِ: قَالَ: اَبِیْ سَمِعْتُ مِنْ عَبَّادٍ یُخْبِرُ بِہٖعَنْعَوْفٍ،عَنْاَبِی رَجَائٍ، عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ، عَنْ النَّبِیّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: ((فَیَتَدَھْدَہُ الْحَجَرُ ھٰھُنَا۔)) قَالَ اَبِیْ: فَجَعَلْتُ اَتَعَجَّبُ مِنْ فَصَاحَۃِ عَبَّادٍ۔ (مسند احمد: ۲۰۳۵۴)
۔ سیدنا سمرہ بن جندب فزاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ سے جو باتیں ارشاد فرماتے تھے، ان میں ایک بات یہ ہوتی تھی: کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ جواباً اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق بیان کرنے والے بیان کرتے، ایک صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے کہا: گزشتہ رات کو میرے پاس دو فرشتے آئے، انھوں نے مجھے اٹھایا اور کہا: چلو، میں ان کے ساتھ چل پڑا، ہم ایک ایسے آدمی کے پاس گئے، جو لیٹا ہوا تھا، ایک دوسرا آدمی بڑا پتھر لے کر اس کے پاس کھڑا تھا، وہ اس کو یہ بڑا پتھر مارتا تھا اور اس کا سر کچل دیتا تھا، پتھر لڑھک جاتا تھا، جب وہ اس کو اٹھانے کے لیے جاتا اور واپس آتا تو اس آدمی کا سر پہلے کی طرح صحیح ہو چکا ہو تا تھا، پھر وہ اس کے ساتھ وہی کچھ کرتا، جو پہلی دفعہ کیا، میں نے کہا: سبحان اللہ! یہ دو کون ہیں؟ انھوں نے مجھے کہا: آپ آگے چلیں، آگے چلیں، پس میں ان کے ساتھ چل پڑا، پھر ہم ایک ایسے آدمی کے پاس گئے، جو اپنی گدی کے بل چت لیٹا ہوا تھا، ایک دوسرا شخص لوہے کا کنڈا لے کر کھڑا تھا، وہ اس کے چہرے کی ایک طرف آتا اور اس کی باچھ، نتھنوں اور آنکھوں کو گدی تک چیر دیتا، پھر وہ چہرے کی دوسری جانب جاتا اور یہی کاروائی کرتا، اتنے میں پہلی جانب صحیح ہو جاتی، پھر وہ اس کی طرف لوٹ آتا اور پہلی بار کی طرح ان کو پھر پھاڑ دیتا، میں نے کہا: سبحان اللہ! یہ دو کون ہیں؟ انھوں نے کہا: آپ آگے چلیں، آگے چلیں، پس میں چل پڑا، پھر ایک تنور جیسی چیز کے پاس پہنچے، اس میں شور و غل اور آوازیں تھیں، پس میں نے اس میں جھانکا اور دیکھا کہ اس میں مرد اور عورتیں ننگے تھے، ان کے نیچے سے آگ کا شعلہ اٹھتا تھا، تو وہ چیخ و پکار کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: یہکون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: آپ آگے چلیں، آگے چلیں، پس ہم چل پڑے اور ایک نہر کے پاس پہنچے، خون کی طرح اس کا رنگ سرخ تھا، اس میں ایک آدمی تیر رہا تھا، وہ تیرتا تیرتا ایسے آدمی کے پاس آتا، جس نے پتھر جمع کر رکھے تھے، جب وہ اس کے پاس پہنچتا تو اپنا منہ کھولتا اور وہ اس کے منہ پر پتھر مارتا تھا، پھر وہ تیرنا شروع کر دیتا اور پھر لوٹ آتا اور جب بھی وہ لوٹ کر آتا تو اپنا منہ کھولتا اور وہ اس کے منہ میں پتھر ٹھونس دیتا، میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ انھوں نے مجھے کہا: آپ آگے چلیں، آگے چلیں، پس ہم چل پڑے اور ایسے آدمی کے پاس پہنچے جو بدترین شکل کا تھا، یوں سمجھیں کہ اگر تو دیکھتا تو اس کو سب سے مکروہ شکل والا پاتا، اس کے پاس آگ تھی، وہ آگ کو سلگا رہا تھا اور اس کے ارد گرد دوڑ رہا تھا، میں نے ان سے کہا: یہ کیا ہے؟ انھوں نے مجھے کہا: آپ آگے چلیں، آگے چلیں، پس ہم آگے چلے اور سبز گھاس والے ایک خوبصورت باغ میں پہنچے، اس میں موسم بہار کا ہر رنگ کا پھول تھا، اس باغ کے درمیان میں ایک اتنا دراز قد آدمی کھڑا تھا کہ قریب تھا کہ اس کے لمبے قد کی وجہ سے میں اس کا سر نہ دیکھ سکوں، اس کے ارد گرد بہت خوبصورت اور حسین بچے تھے، میں نے ان سے کہا: یہ کون ہے اور یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا: آپ آگے چلیں، آگے چلیں، پس ہم چل پڑے اور ایک بڑے اور پھیلے ہوئے درخت کے پاس پہنچے، وہ بہت بڑا اور خوبصورت درخت تھا، انھوں نے مجھے کہا: اس پر چڑھو، پس ہم اس میں چڑھے اور ایک ایسے شہر کے پاس پہنچے، جس کی ایک اینٹ سونے کی تھی اور ایک چاندی کی، ہم شہر کے دروازے پر گئے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، پس ہمارے لیے وہ دروازہ کھولا گیا، ہم اس میں داخل ہوئے، اس میں جو لوگ تھے، ان کا کچھ حصہ بڑا خوبصورت تھا اور کچھ حصہ بدصورت، پھر ان دونوں نے ان سے کہا: چلو اور اس نہر میں گر پڑو، ایک چھوٹی سی رواں انتہائی سفید نہر تھی، پس وہ گئے، اس نہر میں داخل ہوئے اور جب لوٹے تو ان کی بد صورتی ختم ہو چکی تھی اور وہ مکمل طور پر بہت خوبصورت بن چکے تھے، پھر ان دونوں نے مجھ سے کہا: یہ عدن جنت ہے اور یہ آپ کا مقام ہے، پھر میری نگاہ اوپر کو اٹھی، وہ سفید بادل کی طرح کا محل تھا، انھوں نے مجھے کہا: یہ آپ کا مقام ہے، میں نے ان سے کہا: اللہ تمہیں برکت دے، مجھے چھوڑو، تاکہ میں اس میں داخل ہو سکوں، لیکن انھوں نے کہا: اب نہیں، بہرحال آپ نے ہی اس میں داخل ہونا ہے۔پھر میں نے ان سے کہا: آج رات سے تو میں نے بڑی عجیب چیزیں دیکھیں، اب یہ تو بتلاؤ کہ یہ چیزیں کیا تھیں؟ انھوں نے کہا: اب ہم آپ کو بتلانے لگے ہیں، جس آدمی کا سر کچلا جا رہا تھا، وہ ایسا شخص تھا، جس نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی اور پھر اس کو چھوڑ دیا اور فرضی نمازوں سے بھی سویا رہا، جس آدمی کی باچھ، آنکھوںاور نتھنوں کو گدی تک چیرا جا رہا تھا، وہ اپنے گھر میں جھوٹ بولتا اور وہ دنیا کے اطراف و اکناف تک پہنچ جاتا، جو ننگے مرد و زن کنویں جیسیچیز میں نظر آ رہے تھے، وہ زناکار تھے، جو آدمی نہر میں تیر رہا تھا اور اس کے منہ میں پتھر ٹھونسا جا رہا تھا، وہ سود خور تھا، آگ کے پاس جو مکروہ شکل والا آگ کو سلگا رہا تھا، وہ جہنم کا منتظم داروغہ تھا، اس کا نام مالک ہے، باغ میں دراز قد آدمی ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے ارد گرد جو بچے نظر آ رہے تھے، وہ وہ تھے، جو فطرت پر فوت ہوئے تھے۔ اس وقت بعض مسلمانوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان میں مشرکوں کے بچے بھی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی، مشرکوں کے بچے بھی تھے، وہ لوگ جن کا کچھ حصہ خوبصورت تھا اور کچھ حصہ بدصورت، وہ وہ لوگ تھے، جنھوں نے نیک عمل بھی کیے تھے اور برے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کر دیا۔