۔ (۹۹۲۱)۔ عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ رضی اللہ عنہا ، اَنَّ اَبَا بَکْرٍ خَرَجَ تَاجِرًا اِلٰی بُصْرٰی، وَمَعَہُ نُعَیْْمَانُ وَسُوَیْبِطُ بْنُ حَرْمَلَۃَ، وَکِلَاھُمَا بَدْرِیٌّ، وَکَانَ سُوَیْبِطُ عَلَی الزَّادِ، فَجَائَ ہُ نُعَیْمَانُ فَقَالَ: اَطْعِمْنِیْ، فَقَالَ: لَا، حَتّٰییَاْتِیَ اَبُوْبَکْرٍ، وَ کَانَ نُعَیْمَانُ رَجُلًا مِضْحَاکًا مَزَّاحًا، فَقَالَ: لَاُغِیْظَنَّکَ، فَجَائَ اِلَی اُنَاسٍ جَلَبُوْا ظَھْرًا، فَقَالَ: ابْتَاعُوْا مِنِّیْ غُلَامًا عَرَبِیًّا فَارِھًا، وَھُوَ ذُوْ لِسَانٍ، وَلَعَلَّہُ یَقُوْلُ : اَنَا حُرٌّ، فَاِنْ کُنْتُمْ تَارِکِیْہِ لِذٰلِکَ فَدَعُوْنِیْ، لَا تُفْسِدُوْا عَلَیَّ غُلَامِیْ، فَقَالُوْا: بَلْ نَبْتَاعُہُ مِنْکَ بِعَشْرِ قَلَائِصَ، فَاَقْبَلَ بِھَا یَسُوْقُھَا، وَاَقْبَلَ بِالْقَوْمِ حَتَّی عَقَلَھَا، ثُمَّ قَالَ لِلْقَوْمِ: دُوْنَکُمْ ھُوَ ھٰذَا، فَجَائَ الْقَوْمُ، فَقَالُوْا: قَدِ اشْتَرَینَاکَ، قَالَ سُوَیْبِطُ: ھُوَ کَاذِبٌ اَنَا رَجُلٌ حُرٌّ، فَقَالُوْا: قَدْ اَخْبَرَنَا خَبْرَکَ وَطَرَحُوْا الْحَبْلَ فِیْ رَقَبَتِہِ، فَذَھَبُوْا بِہٖفَجَائَاَبُوْبَکْرٍفَاَخْبَرَ،
فَذَھَبَ ھُوَ وَاَصْحَابٌ لَہُ، فَرَدُّوْا الْقَلَائِصَ وَاَخَذُوْہُ، فَضَحِکَ مِنْھَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَاَصْحَابُہُ حَوْلًا۔ (مسند احمد: ۲۷۲۲۲)
۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ تجارت کی غرض سے بصری کی طرف نکلے، سیدنا نعیمان اور سیدنا سویبط رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ تھے، یہ دونوں بدری صحابی تھے، زادِ سفر سیدنا سویبط رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، سیدنا نعیمان رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: مجھے کھانا کھلاؤ، انھوں نے کہا: جی نہیں،یہاں تک کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ آجائیں۔ سیدنا نعیمان بہت زیادہ ہنسانے والے اور مذاق کرنے والے آدمی تھے، پس انھوں نے کہا: میں تجھے ضرور ضرور غصہ دلاؤں گا، پس وہ ایسے لوگوں کے پاس گئے جو سواریاں لے کر جا رہے تھے اور ان سے کہا: تم لوگ مجھ سے ایک پھرتیلا اور چست عربی غلام خرید لو، البتہ وہ زبان دراز ہے، ممکن ہے کہ وہ یہ کہے کہ وہ تو آزاد شخص ہے، اگر اس کی اس بات کی وجہ سے تم نے اس کو چھوڑ دینا ہے تو پھر سودا ہی رہنے دو اور مجھ پر میرے غلام کو خراب نہ کرو، انھوں نے کہا: نہیں، بلکہ ہم تجھ سے دس اونٹنیوں کے عوض خریدیں گے، پس سیدنا نعیمان رضی اللہ عنہ اس ساتھی کو کھینچ کر لے آئے اور اس کو لوگوں کے سامنے لا کر باندھ دیا اور ان کو کہا: یہ لو، وہ غلام یہ ہے، پس لوگ آئے اور انھوں نے اس سے کہا: ہم نے تجھے خرید لیا ہے، سیدنا سویبط رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ جھوٹا ہے، میں تو آزاد آدمی ہوں، انھوں نے کہا: اس نے ہمیں تیری ساری بات بتلا دی ہے، پھر انھوں نے اس کی گردن میں رسی ڈالی اور اس کو لے گئے، اتنے میں اُدھر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ آ گئے اور انھوں نے ان کو واقعہ کی خبر دی، پس وہ اور ان کے ساتھی گئے اور ان کی اونٹنیاں واپس کر کے اس کو واپس لے آئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ ایک سال تک اس واقعہ سے ہنستے رہے۔