۔ (۱۰۱۸۶)۔ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ، اَنْبَاَنَا ھَمَّامُ بْنُ یَحْيٰ، ثَنَا قَتَادَۃُ، عَنْ اَبِیْ الصِّدِّیْقِ النَّاجِیِّ، عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: لَا اُحَدِّثُکُمْ اِلَّا مَاسَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سَمِعَتْہُ اُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِیْ، ((اَنَّ عَبْدًا قَتَلَ تِسْعَۃً وْتِسْعِیْنَ نَفْسًا، ثُمَّ عَرَضَتْ لَہُ التَّوْبَۃُ، فَسَاَلَ عَنْ اَعْلَمِ اَھْلِ الْاَرْضِ فَدَلَّ عَلٰی رَجُلٍ فَاَتَاہُ فَقَالَ: اِنِّیْ قَتَلْتُ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ نَفْسًا فَھَلْ لِیْ مِنْ تَوْبَۃٍ؟ قََالَ: بَعْدَ قَتْلِ تِسْعَۃٍ وَّتِسْعِیْنَ نَفْسًا؟ قَالَ: فَانْتَضٰی سَیْفَہُ فَقَتَلَہُ بِہٖفَاَکْمَلَبِہٖمِائْۃً، ثُمَّ عَرَضَتْ لَہُ التَّوْبَۃُ، فَسَأَلَ عَنْ اَعْلَمِ اَھْلِ الْاَرْضِ فَدَلَّ عَلٰی رَجُلٍ فَاَتَاہُ فَقَالَ: اِنِّیْ قَتَلْتُ مِائَۃَ نَفْسٍ فَھَلْ لِیْ مِِنْ تَوْبَۃٍ؟ فَقَالَ: وَمَنْ یَحُوْلُ بَیْنَکَ وَبَیْنَ التَّوْبَۃِ؟ اخْرُجْ مِنَ الْقَرْیَۃِ الْخَبِیْثَۃِ الَّتِیْ اَنْتَ فِیْھَا اِلَی الْقَرْیَۃِ الصَّالِحَۃِ قَرْیَۃِ کَذَا وَکَذَا، فَاعْبُدْ رَبَّکَ فِیْھَا، قَالَ: فَخَرَجَ اِلَیالْقَرْیَۃِ الصَّالِحَۃِ فَعَرَضَ لَہُ اَجَلُہُ فِیْ الطَّرِیْقِ،
قَالَ: فَاخْتَصَمَتْ فِیْہِ مَلَائِکَۃُ الرَّحْمَۃِ وَمَلَائِکَۃُ الْعَذَابِ، قَالَ: فَقَالَ اِبْلِیْسُ: فَاِنَّکَ اَوْلٰیْ بِہٖاِنَّہُلَمْیَعْصِنِیْ سَاعَۃً قَطُّ قَالَ: فَقَالَتْ مَلَائِکَۃُ الرَّحْمَۃِ: اِنَّہُ خَرَجَ تَائِبًا۔)) قَالَ ھَمَّامُ: فَحَدَّثَنِیْ حَمِیْدِ الطَّوِیْلُ عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْمُزَنِیِّ، عَنْ اَبِیْ رَافِعٍ قَالَ: ((فَبَعَثَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مَلَکًا فَاخْتَصَمُوْا اِلَیْہِ۔)) ثُمَّ رَجَعَ اِلٰی حَدِیْثِ قَتَادَۃَ، قَالَ: فَقَالَ: انْظُرُوْا اَیَّ الْقَرْیَتَیْنِ کَانَ اَقْرَبَ اِلَیْہِ فَالْحَقُوْہُ بِاَھْلِھَا، قَالَ قَتَادَۃُ: فَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ قَالَ: ((لَمَّا عَرفَ الْمَوْتَ احْتَفَزَ بِنَفْسِہِ فَقَرَّبَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مِنْہُ الْقَرْیَۃَ الصَّــالِحَۃَ، وَبَاعَدَ عَنْہُ الْقَرْیَۃَ الْخَبِیْثۃَ،فَالْحَقُوْہُ بِاَھْلِ الْقَرْیَۃِ الصَّــالِحَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۷۱)
۔ سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کیا میں تمھیں وہ حدیث بیان نہ کروں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی، میرے کانوں نے وہ حدیث سنی او رمیرے دل نے اسے یاد کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے ننانوے افراد قتل کر دیے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا۔ اس نے روئے زمین کے سب سے بڑے عالم کی بابت لوگوں سے پوچھا؟ اسے ایک راہب (پادری) کا پتہ بتایا گیا۔ وہ اس کے پاس پہنچا اور پوچھا کہ وہ ننانوے آدمی قتل کر چکا ہے، کیا ایسے فرد کے لیے توبہ ہے؟ اس نے جواب دیا: کیا ننانوے افراد کے قتل کے بعد؟ (ایسے شخص کے لیے کوئی توبہ نہیں)۔ اس نے تلوار میان سے نکالی اور اسے قتل کر کے سو کی تعداد پوری کر دی۔ پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اس نے لوگوں سے اہل زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا۔ اس کے لیے ایک عالم کی نشاندہی کی گئی، وہ اس کے پاس گیا اور کہا: میں سو افراد قتل کر چکا ہوں، کیا میری لیے توبہ (کی کوئی گنجائش)ہے۔ اس نے کہا: تیرے او ر تیری توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ لیکن تو اس طرح کر کہ اس خبیث بستی سے نکل کر فلاں فلاں کسی نیک بستی کی طرف چلا جا۔ کیونکہ وہاں کے لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تو بھی ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اپنے علاقے کی طرف مت لوٹنا کیونکہیہ بری سرزمین ہے۔ وہ نیک بستی کی طرف چل پڑا، لیکن راستے میں اسے موت آگئی، وہ اپنے سینے کے سہارے سرک کرپہلی زمین سے دور ہو کر(تھوڑا سا) دوسری طرف ہو گیا۔(اسے لینے کے لیے) رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں آ گئے اور ان کے مابین جھگڑا شروع ہو گیا۔ ابلیس نے کہا: میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، اس نے کبھی بھی میری نافرمانی نہیں کی تھی۔ لیکن ملائکہ ٔ رحمت نے کہا: یہ تائب ہو کر آیا تھا اور دل کی پوری توجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والا تھا اور ملائکہ ٔ عذاب نے کہا: اس نے کبھی بھی کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو ایک آدمی کی شکل میں بھیجا۔ انھوں نے اس کے سامنے یہ جھگڑ اپیش کیا۔ اس نے کہا: دیکھو کہ کون سی بستی اس کے قریب ہے، اسی بستی والوں سے اس کو ملا دیا جائے۔ اُدھر اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو (جہاں سے وہ آ رہا تھا) حکم دیاکہ تو دور ہو جا اور ارض صالحین (جس کی طرف وہ جا رہا تھا) حکم دیا کہ تو قریب ہو جا۔ جب انھوں نے اس کی پیمائش کی تو جس زمین کی طرف وہ جا رہا تھا، اسے (دوسری کی بہ نسبت) ایک بالشت زیادہ قریب پایا۔ پس رحمت کے فرشتے اسے لے گئے اور اسے بخش دیا گیا۔ حسن راوی کہتے ہیں: جب اسے موت کا علم ہوا تو وہ (نیک بستی کی طرف) سکڑ گیا ، اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے سینے کے سہارے (نیک بستی کی طرف) سرک گیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اسے قریۂ صالحہ کے قریب کر دیا اور قریۂ خبیثہ سے دور کر دیا، تو ان فرشتوں نے اسے نیک بستی والے لوگوں میں شامل کر دیا۔