۔ (۱۰۲۹۰)۔ حَدَّثَنَا عَارِمٌ، وَعَفَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ: قَالَ اَبِیْ: حَدَّثَنِیْ اَبُوْتَمِیْمَۃَ عَنْ عَمْروٍ لَعَلَّہُ اَنْ یَکُوْنَ قَدْ قَالَ: اَلْبِکَالِیُّیُحَدِّثُہُ عَمْرٌو عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ ، قَالَ عَمْروٌ: اِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ قَالَ: اِسْتَبْعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی اَتَیْتُ مَکَانَ کَذَا وَکَذَا فَخَطَّ
لِیْ خِطَّۃً فَقَالَ لِیْ: کُنْ بَیْنْ ظَھْرَیْ ھٰذِہِ لَا تَخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ اِنْ خَرَجْتَ ھَلَکْتَ، قَالَ: فَکُنْتُ فِیْھَا قَالَ: فَمَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خَذَفَۃً اَوْ اَبْعَدَ شَیْئًا اَوْ کَمَا قَالَ: ثُمَّ اِنَّہُ ذَکَرَ ھَنِیْنًا کَاَنَّھُمُ الزُّطُّ قَالَ عَفَّانُ (اَوْ کَمَا قَالَ عَفَّانُ): اِنْ شَائَ اللّٰہُ لَیْسَ عَلَیْھِمْ ثِیَابٌ وَلَا اَرٰی سَوْآتِھِمْ طِوَالًا قَلِیْلٌ لَحْمُھُمْ، قَالَ: فَاَتَوْا فَجَعَلُوْا یَرْکَبُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: وَجَعَلَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقْرَاُ عَلَیْھِمْ، قَالَ: وَجَعَلُوْا یَاْتُوْنِیْ فَیُخَیِّلُوْنَ حَوْلِیْ وَ یَعْتَرِضُوْنَ لِیْ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَاُرْعِبْتُ مِنْھُمْ رُعْبًا شَدِیْدًا، قَالَ: فَجَلَسْتُ (اَوْ کَمَا قَالَ) قَالَ: فَلَمَّا اِنْشَقَّ عُمُوْدُ الصُّبْحِ جَعَلُوْا یَذْھَبُوْنَ (اَوْ کَمَا قال) قَالَ: ثُمَّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جَائَ ثَقِیْلًا وَجِعًا اَوْ یَکَادُ اَنْ یَکُوْنَ وَجِعًا مِمَّا رَکِبُوْہُ، قَالَ: ((اِنِّیْ لَاَجِدُنِیْ ثَقِیْلًا)) اَوْ کَمَا قال، فَوَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَاْسَہَ فِیْ حِجْرِیْ (اَوْ کَمَا قال) ثُمَّ اِنَّ ھُنَیْئًا اَتَوْا، عَلَیْھِمْ ثِیَابٌ بِیْضٌ طِوَالٌ (اَوْ کَمَا قَالَ) وَقَدْ اَغْفٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَاُرْعِبْتُ اَشَدَّ مِمَّا اُرْعِبْتُ الْمَرَّۃَ الْاُوْلٰی قَالَ عَارِمٌ فِیْ حَدِیْثِہِ: فَقَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ: لَقَدْ اُعْطِیَ ھٰذَا الْعَبْدُ خَیْرًا، اَوْ کَمَا قَالُوْا، اِنَّ عَیْنَیْہِ نَائِمَتَانِ اَوْ قَالَ: عَیْنُہُ اَوْ کَمَا قَالُوْا، وَقَلْبُہُ یَقْظَانُ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ عَارِمٌ وَعَفَّانٌ: قَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ: ھَلُمَّ فَلْنَضْرِبْ بِہٖ مَثَلًا اَوْ کَمَا قَالُوْا، قَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ: اِضْرِبُوْا لَہُ مَثَلًا وَنُؤَوِّلُ نَحْنُ اَوْ نَضْرِبُ نَحْنُ وَتُؤَوِّلُوْنَ اَنْتُمْ، فَقَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ: مَثَلُہُ کَمَثَلِ سَیِّدٍ ابْتَنٰی بُنْیَانًا حَصِیْنًا ثُمَّ اَرْسَلَ اِلَی النَّاسِ بِطَعَامٍ اَوْ کَمَا قَالَ، فَمَنْ لَمْ یَاْتِ طَعَامَہُ اَوْ قَالَ: لَمْ یَتْبَعْہُ عَذَّبَہُ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ کَمَا قَالُوْا، قَالَ الْآخَرُوْنَ: اَمَّا السَّیِّدُ فَھُوَ رَبُّ الْعَالَمِیْنْ، وَاَمَّا الْبُنْیَانُ فَھُوَ الْاِسْلَامُ، وَالطَّعَامُ الْجَنَّۃُ، وَھُوَ الدَّاعِیْ فَمَنِ اتَّبَعَہُ کَانَ فِی الْجَنَّۃِ، قَالَ عَارِمٌ فِیْ حَدِیْثِہِ: اَوْ کَمَا قَالُوْا، وَمَنْ لَمْ یَتَّبِعْہُ عُذِّبَ اَوْ کَمَا قَالَ، ثُمَّ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسْتَیْقَظَ فَقَالَ: مَا رَاَیْتَیَا ابْنَ اُمِّ عَبْدٍ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: رَاَیْتُ کَذَا وَکَذَا، فقَالَ النَّبیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَا خَفِیَ عَلَیَّ مِمَّا قَالُوْا شَیْئٌ، قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((ھُمْ نَفَرٌ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ)) اَوْ قَالَ: ((ھُمْ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ اَوْ کَمَا شَائَ اللّٰہُ ۔)) (مسند احمد: ۳۷۸۸)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے بھی ساتھ چلنے کاتقاضا کیا، پس ہم چل پڑے، جب میں فلاں مقام پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لیے لکیر لگائی اور مجھے فرمایا: تو اس کے درمیان بیٹھ جا، تو نے اس سے باہر نہیں نکلنا، وگرنہ ہلاک ہو جائے گا۔پس میں اسی میں بیٹھا رہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کنکری کی پھینک پر یا اس سے کچھ زیادہ آگے چلے گئے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان جنوں کا ذکر کیا تو ایسے لگ رہا تھا کہ وہ زُط ہیں، ایک راوی کہتا ہے: اگر اللہ نے چاہا تو (ان کے بارے میں میرایہ بیان درست ہو گا کہ) ان پر کپڑے نہیں تھے، لیکن ان کی شرمگاہیں بھی نظر نہ آئیں، وہ دراز قد اور کم گوشت تھے، پس وہ آپ پر سوار ہونا شروع ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پر قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہے، وہ جن میرے پاس بھی آتے، دل میںمختلف خیال ڈالتے اور میرے سامنے پیش آتے، میں ان سے بڑا خوفزدہ ہو گیا، پس میں بیٹھ گیا، جب صبح کی روشنی پھوٹنے لگی تو وہ چلے جانے لگے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، آپ بہت تھکے ہوئے اور تکلیف میں تھے، یایوں کہیے کہ قریب تھا کہ آپ کوتکلیف شروع ہو جاتی،یہ سارا کچھ ان کے سوار ہونے کی وجہ سے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے آپ کو تھکا ہوا پاتا ہوں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک میری گودی میں رکھا، پھر کچھ افراد آ گئے، انھوں نے سفید کپڑے زیب ِ تن کیے ہوئے تھے اور دراز قد تھے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو گئے تھے، میں پہلے کی بہ نسبت زیادہ گھبرا گیا تھا، ان میں سے بعض نے بعض سے کہا: اس بندے یعنیآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیر عطا کی گئی ہے، اس کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتا ہے، آؤ اس کی ایک مثال بیان کرتے ہیں اور پھر اس کی تاویل کرتے ہیں،یا ان میں سے بعض نے کہا: ہم مثال بیان کرتے ہیں اور تم اس کی تاویل کرو گے، پھر بعض نے بعض سے کہا: اس کی مثال اس سردار کی مثال کی طرح ہے،جس نے قلعہ تعمیر کیا اور پھر لوگوں کو کھانے کے لیے بلا بھیجا، جو کھانے کے لیے نہ آیا،یا اس کی بات نہ مانی، اس نے اس کو سخت سزا دی، دوسروں نے تاویل کرتے ہوئے کہا: سردار سے مراد ربّ العالمین، قلعہ سے مراد اسلام اور کھانے سے مراد جنت ہے اور داعی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہیں، جس نے آپ کی پیروی کی، وہ جنت میں ہو گا اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت نہ کی،اس کو عذاب دیا جائے گا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو گئے اور پوچھا: اے ابن ام عبد تو نے کیا کچھ دیکھا ہے؟ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے یہ کچھ دیکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ انھوں نے کہا، اس میں سے کوئی چیز مجھ پر مخفی نہیں ہے، یہ فرشتوں کا ایک گروہ تھا۔