۔ (۱۰۳۸۳)۔ حَدَّثَنِیْ اَبُوْ عُثْمَانَ، عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُکَیْرٍ النَّاقِدُ ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَمْروٍ یَعْنِیْ ابْنَ دِیْنَارٍ، عَنْ
سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ: قُلْتُ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ: اِنَّ نَوْفًا الشَّامِیَّیَزْعَمُ اَوْ یَقُوْلُ: لَیْسَ مُوْسٰی صَاحِبُ خَضِرٍ مُوْسٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ، قَالَ: کَذَبَ نَوْفٌ عَدُوُّ اللّٰہِ، حَدَّثَنِیْ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ رضی اللہ عنہ ، عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنَّ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ قَامَ فِیْ بَنِیْ اِسْرَئِیْلَ خَطِیْبًا فَقَالُوْا لَہُ: مَنْ اَعْلَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: اَنَا، فَاَوْحَی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَاَلٰی اِلَیْہِ اِنَّ لِیْ عَبْدًا اَعْلَمَ مِنْکَ، قَالَ: رَبِّ فَاَرِنِیْہِ؟ قَالَ: قِیْلَ تَاْخُذْ حُوْتًا فَتَجْعَلُہُ فِیْ مِکْتَلٍ فَحَیْثُمَا فَقَدْتَہُ فَھُوَ ثَمَّ، قَالَ: فَاَخَذَ حُوْتًا فَجَعَلَہُ فِیْ مِکْتَلٍ وَ جَعَلَ ھُوَ وَ صَاحِبُہُ یَمْشِیَانِ عَلَی السَّاحِلِ حَتّٰی اَتَیَا الصَّخْرَۃَ رَقَدَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ اضْطَرَبَ الْحُوْتُ فِیْ الْمِکْتَلِ فَوَقَعَ فِیْ الْبَحْرِ، فَحَبَسَ اللّٰہُ جِرْیَۃَ الْمَائِ فَاضْطَرَبَ الْمَائُ فَاسْتَیْقَظَ مُوْسٰی فَقَالَ: {لِفَتَاہُ آتِنَا غَدَائَ نَا لَقَدَ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا ھٰذَا نَصَبًا} وَ لَمْ یُصِبِ النَّصَبَ حَتّٰیجَاوَزَ الَّذِیْ اَمَرَہُ اللّٰہُ تَباَرَکَ وَ تَعَالٰی فَقَالَ: {اَرَاَیْتَ اِذْ اَوَیْنَا اِلَی الصَّخْرِۃِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ وَ مَا اَنْسَانِیْہِ اِلَّا الشَّیْطَانُ} { فَارْتَدَّا عَلَیَّ آثَارِھِمَا قَصَصًا} فَجَعَلَا یَقُصَّانِ آثَارَھُمَا {وَاتَّخَذَ سَبِیْلََہُ فِیْ الْبَحْرِ سَرَبًا} قَالَ: اَمْسَکَ عَنْہُ جِرْیَۃَ الْمَائِ فَصَارَ عَلَیْہِ مِثْلُ الطَّاقِ فَکَانَ لِلْحُوْتِ سَرَبًا وَ کَانَ لِمُوْسٰی عَلَیْہِ عَجَبًا حَتَّی انْتَھَیَا اِلَی الصَّخْرَۃِ فَاِذَا رَجُلٌ مُسَجِّیٌ عَلَیْہِ ثَوْبٌ، فَسَلَّمَ مُوْسٰی علیہ السلام ، فَقَالَ: وَ اَنّٰی بِاَرْضِکَ السَّلَامُ، قَالَ: اَنَا مُوْسٰی، قَالَ: مُوْسٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، {اَتَّبِعُکَ عَلَی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا} قَالَ: یَا مُوْسٰی! اِنِّیْ عَلٰی عِلْمٍ مِنَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی لَا تَعْلَمُہُ، وَ اَنْتَ عَلٰی عِلْمٍ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَّمَکَہُ اللّٰہُ، فَانْطَلَقَا یَمْشِیَانِ عَلَی السَّاحِلِ فَمَرَّتْ سَفِیْنَۃٌ فَعَرَفُوْا الْخَضِرَ فَحُمِلَ بِغَیْرِ نَوْلٍ فَلَمْ یُعْجِبْہُ، وَ نَظَرَ فِیْ السَّفِیْنَۃِ فَاَخَذَ الْقَدُوْمَ یُرِیْدُ اَنْ یَکْسِرَ مِنْھَا لَوْحًا، فَقَالَ: حُمِلْنَا بِغَیْرِ نَوْلٍ وَ تُرِیْدُ اَنْ تَخْرُقَھَا لِتُغْرِقَ اَھْلَھَا {قَالَ اَ لَمْ اَقُلْ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا} قَالَ: اِنِّیْ نَسِیْتُ، وَ جَائَ عُصْفُوْرٌ فَنَقَرَ فِیْ الْبَحْرِ قَالَ الْحَضِرُ: مَا یُنْقِصُ عِلْمِیْ وَ لَا عِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللّٰہِ تَعَالَی اِلَّا کَمَا یُنْقِصُ ھٰذَا الْعُصْفُوْرُ مِنْ ھٰذَا الْبَحْرِ {فَانْطَلَقَا حَتّٰی اِذَا اَتَیَا اَھْلَ قِرْیَۃٍ اسْْتَطْعَمَا اَھْلَھَا فَاَبَوْا اَنْ یُضَیِّفُوْھُمَا} فَرَاٰی غُلَامًا فَاَخَذَ رَاْسَہُ فَانْتَزَعَہُ فَقَالَ: {اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُکْرًا، قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَکَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا} قَالَ: سُفْیَانُ: قَالَ عَمْرٌو: وَ ھٰذِہِ اَشَدُّ مِنَ الْاُوْلٰی، قَالَ: فَانْطَلَقَا فَاِذَا جِدَارٌ یُرِیْدُ اَنْ یَنْقَضَّ فَاَقَامَہُ، اَرَانَا سُفْیَانُ بِیَدِہِ فَرَفَعَ یَدَہُ ھٰکَذَا رَفَعًا فَوَضَعَ رَاحَتَیْہِ فَرَفَعَھُمَا لِبَطْنِ کَفَّیْہِ رَفْعًا فَقَالَ: {لَوْ شِئْتَ لَا تَّخَذْتَ عَلَیْہِ اَجْرًا قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِکَ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کَانَتِ الْاَوْلیٰ نِسْیَانًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی لَوْ کَانَ صَبَرَ حَتّٰییَقُصَّ عَلَیْنَا مِنْ اَمْرِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۴۳۱)
۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: نوف شامی کا خیال ہے کہ جس موسی کی خضر سے ملاقات ہوئی تھی، وہ بنی اسرائیل والے موسی نہیں ہیں، انھوں نے کہا: اللہ کے دشمن نوف نے جھوٹ بولا ہے، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک موسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، لوگوں نے ان سے پوچھا: لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا کون ہے؟ انھوں نے کہا: میں ہوں، اُدھر سے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کر دی کہ میرا ایک بندا تجھ سے زیادہ علم والا ہے، انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! تو پھر وہ مجھے دکھاؤ، ان سے کہا گیا کہ تم ایک مچھلی پکڑو اور اس کو ایک ٹوکرے میں ڈالو، جہاں تم اس کو گم پاؤ گے، تو وہ وہاں ہو گا، پس انھوں نے مچھلی پکڑی اور اس کو ایک ٹوکرے میں رکھا اور انھوں نے اور ان کے ایک ساتھی نے ساحل کی طرف چلنا شروع کر دیا،یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچ گئے، موسی علیہ السلام وہاں سو گئے، مچھلی نے ٹوکرے میں حرکت کی اور سمندر میں کود گئی، اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے داخل ہونے والی جگہ کا پانی روک لیا (اور یوں ایک غار سی نظر آنے لگی)، جب پانی مضطرب ہوا تو موسی علیہ السلام بیدار ہو گئے (اور کہیں آگے جا کراپنے نوجوان سے) کہا: لا ہمارا کھانا دے، ہمیں تو اپنے اس سفر سے تھکاوٹ اٹھانی پڑی۔ موسی علیہ السلام نے اس مقام سے آگے گزر کر تھکاوٹ محسوس کی، جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا، آگے سے اس نوجوان نے جواب دیا کہ کیا آپ نے دیکھا بھی؟ جب کہ ہم چٹان پر ٹیک لگا کر آرام کر رہے تھے، وہیں میں مچھلی بھول گیا تھا ، دراصل شیطان نے مجھے بھلا دیا۔ چنانچہ وہیں سے وہ اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس لوٹے۔ پس انھوں نے اپنے قدموں کے نشانات کو ڈھونڈنا شروع کر دیا، اور اس مچھلی نے انوکھے طریقہ سے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کا چلاؤ روک لیا اور وہ جگہ طاق کی طرح نظر آنے لگی،یہ مچھلی کے لیے انوکھا اور موسی علیہ السلام کے لیےعجیب کام تھا، بہرحال وہ دونوں بالآخر اس چٹان تک پہنچ گئے، مطلوبہ مقام پر پہنچ کر انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی ہے، اس نے کپڑا ڈھانپا ہوا ہے، موسی علیہ السلام نے اس کو سلام کہا، اس نے آگے سے کہا: تیری علاقے میں سلام کیسے آ گیا؟ انھوں نے کہا: میں موسی ہوں، خضر علیہ السلام نے کہا: بنو اسرائیل کا موسی؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، میں آپ کی تابعداری کروں کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں۔ خضر علیہ السلام نے کہا: اے موسی! بیشک مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم دیا گیا ہے کہ تم اس کو نہیں جانتے اور تم کو اسی کی طرف سے ایسا علم دیا گیا ہے کہ میں اس کیمعرفت نہیں رکھتا، پھر وہ دونوں ساحل پر چل پڑے (اور خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام پر پابندی لگا دی کہ انھوں نے اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کرنا)، وہاں سے ایک کشتی گزری، انھوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیے، اس لیے ان کو بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا گیا، لیکن اس چیز نے ان کو تعجب میں ڈالا، پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کو دیکھا اور کلہاڑا لے کر اس کی ایک تختی کو توڑنا چاہا، موسی علیہ السلام نے کہا: ان لوگوں نے ہمیں اجرت کے بغیر سوار کر لیا اور اب تم اس کشتی کو توڑ کر سب سواروں کو غرق کرنا چاہتے ہو؟ انھوں نے کہا: میں نے تو پہلے ہی تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہ کر سکے گا۔ موسی علیہ السلام نے کہا: بیشک میں بھول گیا تھا، پھر ایک پرندہ آیا اور اس نے سمندر سے اپنی چونچ بھری، خضر علیہ السلام نے اس کو دیکھ کر کہا: اے موسی! میرے اور تیرے علم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں اتنی کمی کی ہے، جتنی کہ اس پرندے نے اس سمندر میں کی ہے، پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ وہ دونوں ایک گاؤں والوں کے پاس آ کر ان سے کھانا طلب کیا، لیکن انھوں نے ان کی مہمان داری سے صاف انکار کر دیا۔ نیز خضر علیہ السلام نے وہاں ایک لڑکا دیکھا اور اس کو پکڑ کر اس کا سر اکھاڑ دیا، موسی علیہ السلام نے کہا: کیا تو نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا، بیشک تو نے تو بڑی ناپسندیدہ حرکت کی، انھوں نے کہا: کیا میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر ہر گز صبر نہیں کر سکتے۔ عمرو نے اپنی روایت میں کہا: یہ پہلے کام سے زیادہ سخت کام تھا، پھر وہ دونوں چل پڑے، جب خضر علیہ السلام نے دیوار کو گرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے اس کو سیدھا کر دیا، سفیان راوی نے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو اس طرح بلند کیا، پھر اپنی ہتھیلیوں کو رکھا اور پھر ان کو ہتھیلیوں کی اندرونی سمت کی طرف سے بلند کیا، موسی علیہ السلام نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے، اس نے کہا: بس یہ جدائی ہے میرے اور تیرے درمیان۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: پہلی بار تو موسی علیہ السلام بھول گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ موسی علیہ السلام پر رحم کرے، کاش وہ صبر کرتے تاکہ وہ ہم پر اپنے مزید معاملات بیان کرتے۔