۔ (۱۰۴۳۳)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ صُھَیْبٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: ((کَانَ مَلِکٌ فِیْمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ وَ کَانَ لَہُ سَاحِرٌ فَلَمَّا کَبِرَ السَّاحِرُ، قَالَ لِلْمَلِکِ: اِنِّیْ قَدْ کَبِرَتْ سِنِّیْ وَ حَضَرَ اَجَلِیْ فَادْفَعْ اِلَیَّ خَادِمًا فَلَاُعَلِّمُہُ السِّحْرَ، فَدَفَعَ اِلَیْہِ غُلَامًا فَکَانَ یُعَلِّمُہُ السِّحْرَ، وَ کَانَ بَیْنَ السَّاحِرِ وَ بَیْنَ الْمَلِکِ رَاھِبٌ فَاَتَی الْغُلَامُ عَلَی
الرَّاھِبِ، فَسَمِعَ مِنْ کَلَامِہِ فَاَعْجَبَہُ نَحْوُہُ وَ کَلَامُہُ، فَکَانَ اِذَا اَتَی السَّاحِرَ ضَرَبَہُ وَ قَالَ: مَا حَبَسَکَ؟ وَ اِذَا اَتَی اَھْلَہُ ضَرَبُوْہُ وَ قَالُوْا: مَاحَبَسَکَ؟ فَشَکٰی ذٰلِکَ اِلَی الرَّاھِبِ، فَقَالَ: اِذَا اَرَادَ السَّاحِرُ اَنْ یَضْرِبَکَ فَقُلْ حَبَسَنِیْ اَھْلِیْ، وَ اِذَا اَرَادَ اَھْلُکَ اَنْ یَضْرِبُوْکَ فَقُلْ: حَبَسَنِیْ السَّاحِرُ، وَ قَالَ: فَبَیْنَمَا ھُوَ کَذٰلِکَ اِذْ اَتٰی ذَاتَ یَوْمٍ عَلٰی دَابَّۃٍ فَظِیْعَۃٍ عَظِیْمَۃٍ، وَ قَدْ حَبَسَتِ النَّاسَ فَـلَایَسْتَطِیْعُوْنَ اَنْ یَجُوْزُوْا، فَقَالَ: الْیَوْمَ اَعْلَمُ اَمْرَ الرَّاھِبِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ اَمْ اَمْرَ السَّاحِرِ، فَاَخَذَ حَجَرًا، فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ اَمْرُ الرَّاھِبِ اَحَبَّ اِلَیْکَ وَ اَرْضٰی لَکَ مِنْ اَمْرِ السَّاحِرِ فَاقْتُلْ ھٰذِہِ الدَّابَّۃَ حَتّٰییَجُوْزَ النّاسُ، وَ رَمَاھَا فَقَتَلَھَا، وَ مَشَی النَّاسُ، فَاَخْبَرَ الرَّاھِبَ بِذٰلکِ،َ فَقَالَ: اَیْ بُنَیَّ! اَنْتَ اَفْضَلُ مِنِّیْ وَ اِنَّکَ سَتُبْتَلٰی، فَاِنِ ابْتُلِیْتَ فَـلَا تَدُلَّ عَلَیَّ، فَکَانَ الْغُلَامُیُبْرِیئُ الْاَکْمَہَ وَ سَائِرَ الْاَدْوَائِ، وَ یَشْفِیْھِمْ، وَ کَانَ یَجْلِسُ لِلْمَلِکِ جَلِیْسٌ فَعَمِیَ فَسَمِعَ بِہٖفَاَتَاہُبِھَدَایَا کَثِیْرَۃٍ، فَقَالَ: اشْفِنِیْ وَ لَکَ مَا ھَاھُنَا اَجْمَعُ، فَقَالَ: مَا اَشْفِیْ اَنَا اَحَدًا اِنّمَا یَشْفِیْ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَاِنْ اَنْتَ آمَنْتَ بِہٖدَعَوْتُاللّٰہَفَشَفَاکَ،فَآمَنَفَدَعَا اللّٰہَ لَہُ فَشَفَاہُ، ثُمَّ اَتَی الْمَلِکَ فَجَلَسَ مِنْہُ نَحْوَ مَا کَانَ یَجْلِسُ، فَقَالَ لَہُ الْمَلِکُ: یَا فُلَانُ! مَنْ رَدَّ عَلَیْکَ بَصَرَکَ؟ فَقَالَ: رَبِّیْ، فَقَالَ: اَنَا؟ قَالَ: لَا، وَلٰکِنْ رَبِّیْ وَ رَبُّکَ اللّٰہُ، قَالَ: لَکَ رَبٌّ غَیْرِیْ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَلَمْ یَزَلْیُعَذِّبُہُ حَتّٰی دَلَّہُ عَلَی الْغُلَامِ فَبَعَثَ اِلَیْہِ فَقَالَ: اَیْ بُنَيَّ! قَدْ بَلَغَ مِنْ سِحْرِکَ اَنْ تُبْرِیئَ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ وَ ھٰذِہِ الْاَدْوَائَ، قَالَ: مَا اَشْفِیْ اَنَا اَحَدًا، مَا یَشْفِیْ غَیْرُاللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: اَنَا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: اَوَلَکَ رَبٌّ غَیْرِیْ؟ قَالَ: نَعَمْ رَبِّیْ وَ رَبُّکَ اللّٰہُ، فَاَخَذَہُ اَیْضًا بِالْعَذَابِ فَلَمْ یَزَلْ بِہٖحَتّٰی دَلَّ عَلَی الرَّاھِبِ، فَاُتِیَ بِالرَّاھِبِ فَقَالَ: ارْجِعْ عَنْ دِیْنِکَ فَاَبٰی، فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ فِیْ مَفْرِقِ رَاْسِہِ حَتّٰی وَقَعَ شِقَّاہُ وَ قَالَ لِلْاَعْمٰی: ارْجِعْ عَنْ دِیْنِکَ فَاَبٰی فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ فِیْ مَفْرِقِ رَاْسِہِ حَتّٰی وَقَعَ شِقَّاہُ عَلَی الْاَرْضِ، وَ قَالَ لِلْغُلَامِ: ارْجِعْ عَنْ دِیْنِکَ فَاَبٰی فَبَعَثَ بِہٖمَعَنَفَرٍاِلٰی جَبَلِ کَذَاوَکَذَا فَقَالَ: اِذَا بَلَغْتُمْ ذِرْوَتَہُ فَاِنْ رَجَعَ عَنْ دِیْنِہِ وَ اِلَّا فَدَھْدِھُوْہُ مِنْ فَوَقِہِ فَذَھَبُوْا بِہٖفَلَمَّاعَلَوْابِہٖالْجَبَلَقَالَ: اَللّٰھُمَّاکْفِنِیْھِمْ بِمَا شِئْتَ فَرَجَفَ بِھِمُ الْجَبَلُ فَدَھْدَھُوْا اَجْمَعُوْنَ، وَ جَائَ الْغُلَامُ یَتَلَمَّسُ حَتّٰی دَخَلَ عَلَی الْمَلِکِ فَقَالَ: مَا فَعَلَ اَصْحَابُکَ؟ فَقَالَ: کَفَانِیْھِمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، فَبَعَثَہُ مَعَ نَفَرٍ فِیْ قُرْقُوْرٍ فَقَالَ: اِذَا لَجَجْتُمْ بِہٖالْبَحْرَفَاِنْرَجَعَعَنْدِیْنِہِ وَ اِلَّا فَغَرِّقُوْہُ، فَلَجَّجُوْا بِہٖالْبَحْرَفَقَالَالْغُلَامُ: اَللّٰھُمَّاکْفِنِیْھِمْ بِمَا شِئْتَ! فَغَرَقُوْا اَجْمَعُوْنَ وَ جَائَ الْغُلَامُ یَتَلَمَّسُ حَتّٰی دَخَلَ عَلَی الْمَلِکِ فَقَالَ: مَا فَعَلَ اَصْحَابُکَ؟ فَقَالَ: کَفَانِیْھِمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، ثُمَّ قَالَ لِلْمَلِکِ: اِنَّکَ لَسْتَ بِقَاتِلِیْ حَتّٰی تَفْعَلَ مَا آمُرُکَ بِہٖ،فَاِنْاَنْتَفَعَلْتَ مَا آمُرُکَ بِہٖقَتَلْتَنِیْ وَ اِلَّا فَاِنَّکَ لَا تَسْتَطِیْعُ قَتْلِیْ، قَالَ: وَ مَا ھُوْ؟ قَالَ: تَجْمَعُ النَّاسَ فِیْ صَعِیْدٍ ثُمَّ تَصْلُبُنِیْ عَلَی جِزْعٍ فَتَاْخُذُ سَھْمًا مِنْ کِنَانَتِیْ ثُمَّ قَالَ: بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ، فَاَنْتَ اِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ قَتَلْتَنِیْ، فَفَعَلَ وَ وَضَعَ السَّھْمَ فِیْ کَبِدِ قَوْسِہِ ثُمَّ رَمٰی فَقَالَ: بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ، فَوَقَعَ السَّھْمُ فِیْ صُدْغِہِ فَوَضَعَ الْغُلَامُ یَدَہُ عَلٰی مَوْضِعِ السَّھْمِ، وَ مَاتَ فَقَالَ النَّاسُ: آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ، فَقِیْلَ لِلْمَلِکِ: اَرَاَیْتَ مَاکُنْتَ تَحْذَرُ فَقَدْ وَاللّٰہِ نَزَلَ بِکَ، قَدْ آمَنَ النَّاسُ کُلُّھُمْ، فَاَمَرَ بِاَفْوَاہِ السِّکَکِ فَخُدِّدَتْ فِیْھَا الْاَخَادِیْدُ وَ اُضْرِمَتْ فِیْھَا النِّیْرَانُ، وَ قَالَ: مَنْ رَجَعَ عَنْ دِیْنِہِ فَدَعَوْہُ وَ اِلَّا فَاَقْحِمُوْہُ فِیْھَا قَالَ: فَکَانُوْا یَتَعَادَوْنَ فِیْھَا، وَ یَتَدَافَعُوْنَ، فَجَائَ تِ امْرَاَۃُ بِابْنٍ لَھَا تُرْضِعُہُ فَکَاَنَّھَا تَقَاعَسَتْ اَنْ تَقَعَ فِیْ النَّارِ، فَقَالَ الصَّبِیُّ: یَا اُمَّہْ! اصْبِرِیْ فَاِنَّکِ عَلٰی حَقٍّ۔)) (مسند احمد: ۲۴۴۲۸)
۔ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا، اس کا ایک جادو گر تھا، جب وہ جادو گر بوڑھا ہوا تواس نے بادشاہ سے کہا: میںعمر رسیدہ ہو گیا ہوں اور میری موت کا وقت آ چکا ہے، لہٰذا مجھے کوئی خادم دو، تاکہ میں اس کو جادو کا علم سکھا سکوں، پس اس نے اس کو ایک لڑکا دے دیا اور وہ اس کو جادو کی تعلیم دینے لگا، جادوگر اور بادشاہ کے درمیان ایک پادری تھا، ایک دن وہ بچہ اس پادری کے پاس چلا گیا اور اس کا کلام سنا، اس کا طرز و طریقہ اور کلام اس کو پسند آیا، جب وہ پادری کی وجہ سے لیٹ ہو جاتا اور پھر جادو گر کے پاس پہنچتا تو وہ اس کی پٹائی کرتا اور کہتا: کس چیز نے تجھے روکے رکھا؟ اسی طرح جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچتا تو وہ بھی اس کی پٹائی کرتے اور کہتے: کس چیز نے تجھے روکے رکھا؟ جب اس نے پادری سے یہ شکایت کی تو اس نے کہا: جب جادو گر تجھے سزا دینا چاہے تو یہ کہہ دینا کہ گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب گھر والے سزا دینے لگیں تو کہنا کہ جادو گر نے روک لیا تھا، پس یہی روٹیں جاری رہی، ایک دن اس کا گزر ایک بہت بڑے جانور کے پاس سے ہوا، اس جانور نے لوگوں کو روک رکھا تھا، وہ اس سے آگے گزر جانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، اس لڑکے نے کہا: آج مجھے پتہ چل جائے گا کہ پادری کا معاملہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے یا جادو گر کا معاملہ، پس اس نے پتھر لیا اور کہا: اے اللہ! اگر جادو گر کی بہ نسبت پادری کا معاملہ تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے تو اس جانور کو اس پتھر سے قتل کر دے، تاکہ لوگ گزر سکیں، پھر اس نے وہ پتھر پھینکا اور اس نے تو واقعی جانور کو قتل کر دیا اور لوگ گزر گئے، پھر جب اس لڑکے نے پادری کو اس واقعہ کی خبر دی تو اس نے کہا: اے میرے پیارے بیٹے! تو تو مجھ سے افضل ہے اور عنقریب تجھے آزمایا جائے گا، لیکن اگر تجھ پر آزمائش آ پڑی تو میراکسی کو نہ بتلانا، پس یہ لڑکا پیدائشی اندھوں اور باقی بیماریوںکا علاج کرنے لگا اور ان کو شفا ہونے لگی۔ ایک دن ہوا یوں کہ بادشاہ کا ایک ہم نشیں اندھا ہو گیا، جب اس نے اس لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت زیادہ تحائف لے کر آیا اور اس نے کہا: تو مجھے شفا دے دے اور یہ سب کچھ تیرا ہو گا، اس نے کہا: میں تو شفا نہیں دیتا، بلکہ اللہ تعالیٰ شفا دیتا ہے، اگر تو اس اللہ پر ایمان لے آئے تو میں اس سے دعا کروں گا اور وہ تجھے شفا دے دے گا، پس وہ آدمی ایمان لے آے اور اس لڑکے نے اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس نے اس کو شفا دے دی، پھر وہ ہم نشیں بادشاہ کے پاس آیا اور سابقہ روٹین کے مطابق بیٹھنے لگا، بادشاہ نے اس سے پوچھا: اے فلاں! کس نے تیری نظر لوٹائی ہے؟ اس نے کہا: میرے ربّ نے، بادشاہ نے کہا: میں نے؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ میرے اور تیرے ربّ اللہ نے، اس نے کہا: کیا میرے علاوہ بھی تیرا کوئی ربّ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، پس بادشاہ نے اس شخص کو سزا دینا شروع کر دی،یہاں تک کہ اس نے اس لڑکے کے بارے میں بتلا دیا، پس اس بادشاہ نے اس کو بلا بھیجا اور کہا: اے میرے بیٹے! تیرا جادو تو اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ تو اندھوں، پھل بہریوں اور ان بیماریوں کا علاج کرنے لگ گیا ہے، اس نے کہا: میں نے کسی کو شفا نہیں دی، صرف اللہ تعالیٰ شفا دیتا ہے، بادشاہ نے کہا: یعنی میں، اس لڑکے نے کہا: نہیں، بادشاہ نے کہا: کیامیرے علاوہ بھی تیرا کوئی ربّ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، وہ میرا ربّ بھی ہے اور تیرا بھی اور وہ اللہ ہے، بادشاہ نے اس کو سزا دینا شروع کر دی،یہاں تک کہ اس لڑکے نے پادری کے بارے میں بتلا دیا، پس اس پادری کو لایا گیا، بادشاہ نے اس سے کہا: اپنے دین سے پلٹ جا، لیکن اس نے انکار کیا، پس اس کے سر کی مانگ یعنی سر کے وسط میں آری رکھ کر چلائی گئی،یہاں تک کہ اس کے جسم کے دو ٹکڑے گر پڑے، پھر بادشاہ نے سابق اندھے سے کہا: تو اپنے دین سے مرتد ہو جا، لیکن اس نے بھی انکار کیا، پس اس کے سر کے وسط میں بھی آری رکھ کر چلائی گئی اور اس کے وجود کے دو ٹکڑے زمین پر گر پڑے، پھر بادشاہ نے لڑکے سے کہا: تو اپنے دین سے پلٹ جا، لیکن اس نے انکار کر دیا، پس بادشاہ نے اس کو چند افراد کے ساتھ ایک مخصوص پہاڑ کی طرف بھیجا اور حکم دیا کہ جب تم لوگ اس کی چوٹی پر پہنچ جاؤ تو اس سے پوچھنا، اگر یہ اپنے دین سے پلٹ آئے تو ٹھیک، وگرنہ اس کو وہاں سے لڑھکا دینا، پس وہ اس کو لے گئے اور جب پہاڑ پر چڑھنے لگے تو اس لڑکے نے یہ دعا کی: اے اللہ! تو جس چیز کے ساتھ چاہے، مجھے کفایت کر، پس پہاڑ پر زلزلہ طاری ہو گیا اور وہ سارے کے سارے لڑھک پڑے (اور مرگئے)، وہ لڑکا تلاش کرتے کرتے دوبارہ بادشاہ کے پاس پہنچ گیا، اس نے پوچھا: تیرے ساتھیوں کا کیا بنا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے کفایت کیا ہے، پھر بادشاہ نے اس کو ایک جماعت کے ساتھ ایک بڑی کشتی میں بھیجا اور کہا: جب تم سمندر میں گھس جاؤ تو اس سے پوچھنا، اگر یہ اپنے دین سے باز آجائے تو ٹھیک، وگرنہ اس کو غرق کر دینا، پس جب وہ سمندر میں گھسے تو اس لڑکے نے کہا: اے اللہ! تو جس چیز کے ساتھ چاہتا ہے، مجھے اس کے ساتھ ان سے کفایت کر، پس وہ سارے کے سارے غرق ہو گئے اور وہ لڑکا تلاش کرتے کرتے بادشاہ کے پاس پہنچ گیا، اس نے پوچھا: تیرے ساتھیوںکا کیا بنا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے کفایت کیا ہے، پھر اس بچے نے بادشاہ سے کہا: تو اس وقت تک مجھے قتل نہیں کر سکتا، جب تک میرے حکم پر عمل نہیں کرے گا، اگر تو نے میرے حکم پر عمل کیا تو تب مجھے قتل کر سکے گا، وگرنہ تو مجھے قتل نہیں کر سکتا، بادشاہ نے کہا: وہ کون سا حکم ہے؟ اس نے کہا: تو لوگوں کو ایک میدان میںجمع کر، پھر مجھے ایک تنے پر سولی چڑھا، پھر میرے ترکش سے ایک تیر نکال اور کہہ: بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ (اللہ کے نام کے ساتھ، جو اس لڑکے کا ربّ ہے) ، اگر تو یہ طریقہ اپنائے گا تو مجھے قتل کر لے گا، پس اس بادشاہ نے ایسے ہی کیا اور تیر کو کمان پر رکھا اور کہا: بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ، پس وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی پر لگا، اس نے اپنا ہاتھ تیر والی جگہ پر رکھا اور فوت ہو گیا، لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر کہا: ہم اس لڑکے کے ربّ پر ایمان لائے ہیں، کسی نے بادشاہ سے کہا: کیا تجھے پتہ چل گیا ہے کہ جس چیز سے تو ڈرتا تھا، اللہ کی قسم! تو اسی چیز میں پھنس گیا ہے، سارے لوگ مؤمن ہو گئے ہیں، پس بادشاہ نے سزا دینے کے لیے حکم دیا کہ جہاں سے گلیاں شروع ہوتی ہیں، وہاں کھائیاں کھودی جائیں اور پھر ان میں آگ جلائی جائے، پھر اس نے کہا: جو آدمی اپنے اِس دین سے مرتد ہو جائے، اس کو چھوڑ دو، وگرنہ اُس کو اِس آگ میں دھکیل دو، پس وہ دوڑ کر آتے اور دھکم دھکا ہو کر آگ میں گھس جاتے، یہاں تک ایک خاتون اپنے شیر خوار بچے کو لے کر آئی اور یوں لگ رہا تھا کہ وہ آگ میں گھسنے سے پیچھے ہٹنا چاہتی ہے، لیکن اس بچے نے کہا: اے میری ماں! صبر کر، بیشک تو حق پر ہے۔