۔ (۸۴۰)۔حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ قَالَ: حَدَّثَنِیْ أَبِیْ
قَالَ: ثَنَا یَحْیٰی بْنُ آدَمَ قَالَ: ثَنَا زُہَیْرٌوَابْنُ اِدْرِیْسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحٰقَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِی حَبِیْبٍ عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِیْ حَبِیبَۃَ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ زُہَیْرٌ فِی حَدِیْثِہِ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ وَکَانَ عَقَبِیًّا بَدَرِیًّا، قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ فَقِیْلَ لَہُ: اِنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ یُفْتِی النَّاسَ فِی الْمَسْجِدِ، قَالَ زُہَیْرٌ فِی حَدِیْثِہِ: یُفْتِی النَّاسَ بِرَأْیِہِ فِی الَّذِیْ یُجَامِعُ وَلَا یُنْزِلُ، فَقَالَ: أَعْجِلْ بِہِ، فَأَتٰی بِہِ فَقَالَ: یَا عَدُوَّ نَفْسِہِ! أَوَ قَدْ بَلَغْتَ أَنْ تُفْتِیَ النَّاسَ فِی مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِرَأْیِکَ، قَالَ: مَا فَعَلْتُ وَلَکِنْ حَدَّثَنِیْ عُمُومَتِیْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، قَالَ: أَیُّ عُمُومَتِکَ؟ قَالَ: أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ، قَالَ زُہَیْرٌ وَأَبُوْ أَیُّوْبَ وَرِفَاعَۃُ بْنُ رَافِعٍ: فَالْتَفَتَ اِلَیَّ وَقَالَ: مَا یَقُوْلُ ھٰذَا الْفَتٰی؟ وَقَالَ زُہَیْرٌ: مَا یَقُولُ ھٰذَا الْغُلَامُ؟ فَقُلْتُ: کُنَّا نَفْعَلُہُ فِی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، قَالَ: فَسَأَلْتُمْ عَنْہُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ قَالَ: کُنَّا نَفْعَلُہُ عَلٰی عَہْدِہِ فَلَمْ نَغْتَسِلْ، قَالَ: فَجَمَعَ النَّاسَ وَاتَّفَقَ النَّاسُ عَلٰی أَنَّ الْمَائَ لَا یَکُونُ الِاَّ مِنَ الْمَائِ اِلَّا رَجُلَیْنِ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَالَا: اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ، قَالَ: فَقَالَ عَلِیٌّ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اِنَّ أَعْلَمَ النَّاسِ بِھٰذَا أَزْوَاجُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فَأَرْسَلَ اِلٰی حَفْصَۃَ فَقَالَتْ: لَا عِلْمَ لِیْ، فَأَرْسَلَ اِلٰی عَائِشَۃَ فَقَالَتْ: اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ وَجَبَ الْغُسْلُ، قَالَ: فَتَحَطَّمَ عُمَرُ یَعْنِی تَغَیَّظَ ثُمَّ قَالَ: لَا یَبْلُغُنِیْ أَنَّ أَحَدًا فَعَلَہُ وَلَا یَغْتَسِلُ اِلَّا أَنْہَکْتُہُ عُقُوْبَۃً۔ (مسند أحمد: ۲۱۴۱۳)
سیدنا رفاعہ بن رافعؓ، جو کہ بیعت ِ عقبہ اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عمرؓ کے پاس تھا، کسی نے ان سے کہا: سیدنا زید بن ثابت مسجد میں لوگوں کو اپنے رائے کی روشنی میں اس آدمی کے بارے فتوی دیتے ہیں جو مجامعت کرتا ہے، لیکن اس کو انزال نہیں ہوتا۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: اس کو جلدی جلدی میرے پاس لے آؤ، پس وہ اس کو لے آئے، سیدنا عمر ؓ نے کہا: او اپنی جان کے دشمن! کیا تو اس حدتک پہنچ گیا ہے کہ تو نے لوگوں کو مسجد ِ نبوی میں اپنی رائے کی روشنی میں فتوے دینا شروع کر دیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے تو ایسی کوئی کاروائی نہیں کی، البتہ میرے چچوں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: کون سے تیرے چچے؟ انھوں نے کہا: سیدنا ابی بن کعب، سیدنا ابو ایوب اور سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہم ۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: یہ نوجوان کیا کہتا ہے؟ میں نے جواباً کہا: جی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایسے ہی کرتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: تو پھر کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تھا؟ میں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایسے ہی کرتے تھے اور غسل نہیں کرتے تھے۔ پھر انھوں نے لوگوں کو جمع کر کے یہ بات پوچھی، ہوا یوں کہ سب لوگوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ غسل کا پانی منی کے پانی کے خروج سے ہی استعمال کیا جاتا تھا، ما سوائے دو آدمیوں سیدنا علی اور سیدنا معاذؓ کے، یہ دو کہتے تھے: جب ختنے والی جگہ ختنے والی جگہ کو لگ جاتی ہے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا عمرؓ سے کہا: اے امیر المؤمنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں اس چیز کو زیادہ جاننے والی ہیں، تو آپ نے سیدہ حفصہؓ کی طرف اس بارے میں پیغام بھیجا۔ انھوں نے جواباً کہا: مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے، پھر انھوں نے سیدہ عائشہؓکی طرف پیغام بھیجا، انھوں نے کہا: جب ختنے والی جگہ ختنے والی جگہ کو لگ جاتی ہے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمر ؓ کو غصہ آ گیا اور انھوں نے کہا: مجھے یہ بات موصول نہ ہونے پائے کہ کسی نے ایسا کام کیا ہو اور پھر غسل نہ کیا ہو، وگرنہ میں اسے سخت ترین سزا دوں گا۔