۔ (۱۱۳۲۲)۔ حَدَّثَنَا یَحْیٰ، عَنْ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا
أَبُوْ رَجَائٍ، حَدَّثَنِی عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: کُنَّا فِی سَفَرٍ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَإِنَّا أَسْرَیْنَا، حَتّٰی إِذَا کُنَّا فِی آخِرِ اللَّیْلِ وَقَعْنَا تِلْکَ الْوَقْعَۃَ، فَلَا وَقْعَۃَ أَحْلٰی عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْہَا، قَالَ: فَمَا أَیْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، وَکَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَیْقَظَ فُلَانٌ ثُمَّ فُلَانٌ،کَانَ یُسَمِّیْہِمْ أَبُوْ رَجَائٍ وَنَسِیَہُمْ عَوْفٌ، ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ الرَّابِعُ، وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِذَا نَامَ لَمْ نُوْقِظْہُ حَتّٰییَکُوْنَ ھُوَ یَسْتَیْقِظُ، ِلأَناَّ لاَ نَدْرِیْ ماَ یُحْدِثُ أَوْ یَحْدُثُ لَہُ فِی نَوْمِہِ، فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ عُمَرُ وَرَأٰی مَا أَصَابَ النَّاسَ ،وَکَانَ رَجُلاً أَجْوَفَ جَلِیْدًا، قَالَ: فَکَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَہُ بِالتَّکْبِیْرِ حَتَّیاسْتَیْقَظَ لِصَوْتِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شَکَوْا الَّذِی أَصَابَہُمْ، فَقَالَ: ((لَا ضَیْرَ أَوْلایَضِیْرُ، اِرْتَحِلُوْا۔)) فَارْتَحَلَ، فَسَارَ غَیْرَ بَعِیْدٍ ثُمَّ نَزَلَ، فَدَعَا بِالْوَضُوْئِ فَتَوَضَّأَ، وَ نُوْدِیَ بِالصَّلَاۃِ، فَصَلّٰی بِالنَّاسِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِہِ إِذَا ھُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ یُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: ((مَا مَنَعَکَ یَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّیَ مَعَ الْقَوْمِ؟)) فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَصَابَتْنِی جَنَابَۃٌ وَلَا مَائَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((عَلَیْکَ بِالصَّعِیْدِ فَإِنَّہُ یَکْفِیْکَ۔)) ثُمَّ سَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَاشْتَکٰی إِلَیْہِ النَّاسُ الْعَطَشَ، فَنَزَلَ فَدَعَا فُلَانًا کَانَ یُسَمِّیْہِ أَبُوْ رَجَائٍ وَنَسِیَہُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِیًّا رضی اللہ عنہ ، فَقَالَ: ((اذْ ھَبَا فَابْغِیَا لَنَا الْمَائَ۔))قَالَ: فَانْطَلَقَا،فَیَلْقَیَانِ امْرَأَۃً بَیْنَ مَزَادَ تَیْنِ أَوْ سَطِیْحَتَیْنِ مِنْ مَائٍ عَلٰی بَعِیْرٍ لَھَا، فَقَالَا لَھَا: أَیْنَ الْمَائُ؟ فَقَالَتْ: عَہْدِی بِالْمَائِ أَمْسِ ھٰذِہِ السَّاعَۃَ، وَنَفَرُنَا خُلُوْفٌ، قَالَ: فَقَالَا لَھَا: انْطَلِقِی إِذًا، قَالَتْ: إِلٰی أَیْنَ؟ قَالَا: إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قَالَتْ: ھٰذَا الَّذِییُقَالُ لَہُ الصَّابِیُٔ؟ قَالَا: ھُوَ الَّذِیْ تَعْنِیْنَ, فَانْطَلِقِی إِذًا، فَجَائَ ابِہَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَحَدَّثَاہُ الْحَدِیْثَ، فَاسْتَنْزَلُوْھَا عَنْ بَعِیْرِھَا، وَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِإِنَائٍ، فَأَفْرَغَ فِیْہِ مِنْ أَفْوَاہِ الْمَزَادَتَیْنِ أَوِ السَّطِیْحَتَیْنِ وَأَوْکَأَ أَفْوَاھَہُمَا، فَأَطْلَقَ الْعَزَالِیَ وَنُوْدِیَ فِی النَّاسِ أَنِ اسْقُوْا وَاسْتَقُوْا، فَسَقٰی مَنْ شَائَ وَاسْتَقٰی مَنْ شَائَ، وَکَانَ آخِرُ ذٰلِکَ أَنْ أَعْطَی الَّذِی أَصَابَتْہُ الْجَنَابَۃُ إِنَائً مِنْ مَائٍ، فَقَالَ: ((اذْھَبْ فَأَفْرِغْہُ عَلَیْکَ۔)) قَالَ: وَھِیَ قَائِمَۃٌ تَنْظُرُ مَا یُفْعَلُ بِمَائِہَا، قَالَ: وَأَیْمُ اللّٰہِ! لَقَدْ أَقْلَعَ عَنْہَا، وَإِنَّہُ لَیُخَیَّلُ إِلَیْنَا أَنَّہَا أَشَدُّ مِلْأَۃً مِنْہَا حِیْنَ ابْتَدَأَ فِیْہَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((اجْمَعُوْا لَھَا۔)) فَجَمَعَ لَھَا مِنْ بَیْنِ عَجْوَۃٍ وَ دَقِیْقَۃٍ وَ سُوَیْقَۃٍ حَتّٰی جَمَعُوْا لَھَا طَعَامًا کَثِیْرًا، وَجَعَلُوْہُ فِی ثَوْبٍ، وَحَمَلُوْھَا عَلٰی بَعِیْرِھَا وَوَضَعُوْا الثَّوْبَ بَیْنَیَدَیْہَا، فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((تَعْلَمِیْنَ وَاللّٰہِ مَا رَزَأْنَاکَ مِنْ مَائِکَ شَیْئًا، وَلٰکِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ ھُوَ سَقَانَا۔)) قَالَ: فَأَتَتْ أَھْلَہَا، وَقَدِ احْتَبَسَتْ عَنْہُمْ، فَقَالُوا: مَا حَبَسَکِ یَا فُلَانَۃُ؟ فَقَالَتِ: الْعَجَبُ! لَقِیَنِی رَجُلَانِ، فَذَھَبَا بِی إِلٰی ھٰذَا الَّذِییُقَالُ لَہُ الصَّابِیُٔ، فَفَعَلَ بِمَائِی کَذَا وَکَذَا، لِلَّذِی قَدْ کَانَ، فَوَاللّٰہِ! إِنَّہُ لَأَسْحَرُ مِنْ بَیْنِ ھٰذِہِ وَ ھٰذِہِ، قَالَتْ بِأُصْبُعَیْہَا الْوُسْطٰی وَالسَّبَّابَۃِ فَرَفَعَتْہُمَا إِلَی السَّمَائِ یَعْنِی السَّمَائَ وَالْأَرْضَ، أَوْ إِنَّہُ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ حَقًّا، قَالَ: وَکَانَ الْمُسْلِمُوْنَ بَعْدُ یُغِیْرُوْنَ عَلٰی مَاحَوْلَھَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَلَا یُصِیْبُوْنَ الصِّرْمَ الَّذِی ھِیَ فِیْہِ، فَقَالَتْ یَوْمًا لِقَوْمِہَا: مَا أَرٰی أَنَّ ھٰؤُلَائِ الْقَوْمَ یَدَعُوْنَکُمْ عَمَدًا، فَہَلْ لَکُمْ فِی الْإِسْلَامِ؟ فَأَطَاعُوْھَا ،فَدَخَلُوْا فِی الْإِسْلَامِ۔ (مسند احمد: ۲۰۱۴۰)
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم راہ تھے، ہم ساری رات چلتے رہے، یہاں تک کہ رات کے آخری حصے میں ہم ایسی کیفیت میں چلے گئے، جس سے زیادہ پسندیدہ کیفیت مسافر کی نظر میں اور کوئی نہیں ہوتییعنی ہم سو گئے۔ ہمیں سورج کی گرمی نے بیدار کیا، سب سے پہلے فلاں اور اس کے بعد فلاں آدمی بیدار ہوا۔ ابو رجاء (راوی) ان کے نام ذکر کیا کرتے تھے لیکن ان کے شاگرد عوف کویہ نام بھول گئے۔ ان کے بعد چوتھے نمبر پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے، معمول یہ تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سوئے ہوتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدا ر نہ کرتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بیدار نہ ہو جائیں۔ کیونکہ ہمیں یہ معلوم نہ ہو تا تھا کہ نیند کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا کیفیت در پیش ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو پیش آمدہ صورت حال ملاحظہ کی، وہ بلند آواز اور بہادر آدمی تھے۔ انہوں نے اللہ اکبر کہتے ہوئے اپنی آواز بلندی کی۔ یہاں تک کہ ان کی آواز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوگئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو صحابہ نے اپنے ساتھ پیش آمدہ صورت حال کا شکوہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی بات نہیں، اب چلو۔ وہاں سے روانہ ہو کرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑی دور جا کر رک گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کا پانی طلب فرما کر وضو کیا، نماز کے لیے اذان کہی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو نمازپڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر مڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو الگ تھلگ بیٹھا تھا، اس نے لوگوں کے ساتھ مل کر نماز ادا نہ کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے فلاں! تجھے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرنے سے کس چیز نے منع کیا؟ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! مجھے جنابت کا عارضہ پیش آگیا ہے اور غسل کے لیے پانی موجود نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم مٹی استعمال کر لو (یعنی مٹی سے تیمم کر لو)۔ تمہارے لیےیہی کافی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے روانہ ہوئے ۔ لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سواری سے اتر کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ایک آدمی کو بلایا۔ راوی حدیث ابو رجاء اس کا نام بیان کیا کرتے تھے، لیکن ان کے شاگرد عوف بھول گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: تم دونوں جا کر ہمارے لیے پانی تلاش کر کے لائو۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وہ دونوں چلے گئے۔ ان کی ایک عورت سے ملاقات ہوئی, وہ اپنے اونٹ پر پانی کے دو مشکیزے لادے جا رہی تھی۔ انہو ںنے اس سے دریافت کیا: پانی کہاں سے ملے گا؟ وہ بولی: پانییہاں سے بہت دور ہے, میں کل اس وقت سے یہ پانی لے کر چلی ہوں اور ابھی تک سفر میں ہوں, ہمارے مرد موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے اس سے کہا: اچھا تو پھر ہمارے ساتھ چلو۔ وہ بولی: کہاں؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف۔ وہ کہنے لگی: آیا اس شخص کی طرف جسے صابی(لا مذہب اور لادین) کہا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں وہ وہی ہے جسے تو اس طرح سمجھ رہی ہے، پس اب تو چل۔ وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے آئے اور سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوش گزار کیا۔ صحابہ نے اس خاتون کو سواری سے اترنے کو کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک برتن منگوا کر مشکیزوں کے منہ کھول کر برتن میں پانی انڈیلا اور لوگوں میں اعلان کر دیا گیا کہ پانی پیو اور جانوروں کو پلاؤ۔جس نے پینا تھا اس نے پی لیااور جس نے جانوروں کو پلانا تھا پلالیا۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آدمی کو بھی پانی کا ایک برتن دیا جسے جنابت کا عارضہ لاحق ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جا کر یہ پانی اپنے اوپر بہا لو، یعنی غسل کر لو۔ وہ خاتون کھڑییہ سارے مناظر دیکھتی رہی کہ اس کے پانی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اللہ کی قسم! اس خاتون کو جب جانے کی اجازت دی گئی تو ہمیںیوں لگ رہا تھا کہ اس کے مشکیزے پہلے سے زیادہ بھرے ہوئے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اسے دینے کے لیے کچھ سامان جمع کرو۔ صحابہ نے اس کے لیے عجوہ کھجور، آٹا اور ستو وغیرہ کافی کچھ جمع کر دیا،یہ سارا سامان ایک کپڑے میں ڈالااور عورت کو اس کے اونٹ پر سوار کر کے یہ کپڑا اس کے آگے رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: اللہ کی قسم!تم جانتی ہو کہ ہم نے تیرے پانی میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں کی۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے پینے کے لیے پانی مہیا کیاہے۔ وہ عورت اپنے خاندان میںواپس گئی، وہ کافی لیٹ ہو چکی تھی، اس کے گھر والوںنے تاخیر کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ ایک عجیب واقعہ پیش آگیا۔ مجھے دو آدمی ملے۔ وہ مجھے اس آدمی کے پاس گئے جس صابی (لا دین و لا مذہب) کہا جاتا ہے ۔ اس نے تو میرے پانی کے ساتھ یہیہ کیا۔ اس نے وہ سارا واقعہ بیان کیا جو پیش آ چکا تھا۔ اس نے اپنی درمیانی اور شہادت والی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہا: اللہ کی قسم! وہ یا تو زمین و آسمان کے درمیان موجود لوگوں میں سب سے بڑا جادو گر ہے یا پھرواقعی اللہ کا رسول ہے۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد مسلمان اس علاقہ کے مشرکین پر حملہ آور ہوئے۔ لیکن جس قبیلہ کی وہ خاتون تھی اس پر حملہ نہ کرتے تھے۔ وہ ایک دن اپنی قوم سے کہنے لگی: میرا خیال ہے کہ یہ مسلمان جان بوجھ کر تم سے صرف نظر کرتے ہیں۔ کیا تم اسلام قبول نہیں کرلیتے؟ چنانچہ قبیلے کے لوگوں نے اس کی بات مان لی اور وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔