449 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12018

۔ (۱۲۰۱۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، خَرَجَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی وَجَعِہِ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ، فَقَالَ النَّاسُ: یَا أَبَا حَسَنٍ! کَیْفَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: أَصْبَحَ بِحَمْدِ اللّٰہِ بَارِئًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَخَذَ بِیَدِہِ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ: أَلَا تَرٰی أَنْتَ وَاللّٰہِ! إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیُتَوَفّٰی فِی وَجَعِہِ ہٰذَا إِنِّی أَعْرِفُ وُجُوہَ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عِنْدَ الْمَوْتِ، فَاذْہَبْ بِنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلْنَسْأَلْہُ فِیمَنْ ہٰذَا الْأَمْرُ، فَإِنْ کَانَ فِینَا عَلِمْنَا ذٰلِکَ وَإِنْ کَانَ فِی غَیْرِنَا کَلَّمْنَاہُ فَأَوْصٰی بِنَا، فَقَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَاللّٰہِ! لَئِنْ سَأَلْنَاہَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَنَعَنَاہَا لَا یُعْطِینَاہَا النَّاسُ أَبَدًا، فَوَاللّٰہِ! لَا أَسْأَلُہُ أَبَدًا۔ (مسند احمد: ۲۳۷۴)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مرض الموت کے دنوں میں ایک روز سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کے پاس سے باہر تشریف لائے۔ لوگوں نے پوچھا: اے ابو الحسن! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کس حال میں ہیں؟ انہو ں نے کہا: الحمد اللہ بہتر ہیں۔ ان کی بات سن کر سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن عبدالمطلب نے ان کا ہاتھ تھام لیا اور کہا: آپ دیکھتے نہیں؟ اللہ کی قسم! رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی اس بیماری میں فوت ہوجائیں گے، میں عبدالمطب کے خاندان کے افراد کو چہروں سے پہچانتا ہوں کہ موت سے قبل ان کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ آؤ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں جا کر ا س امر (خلافت) کے بارے میں پوچھ لیں۔ اگر یہ ہمارا حق ہو اتو ہمیں پتہ چل جائے گا اور اگر یہ کسی دوسرے کے متعلق بات ہوئی تو ہم اس بارے میں پوچھ گچھ کر لیتے، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے حق میں وصیت کردیںگے۔ یہ سن کر علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں پوچھا اور آپ نے ہمیں اس سے محروم کر دیا تو لوگ کبھی بھی ہمیں یہ حق نہیں دیں گے، لہٰذا اللہ کی قسم ! میں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں کچھ نہ پوچھوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12019

۔ (۱۲۰۱۹)۔ عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ رَجُلٍ،عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّہُ قَالَ یَوْمَ الْجَمَلِ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَعْہَدْ إِلَیْنَا عَہْدًا، نَأْخُذُ بِہِ فِی الْإِمَارَۃِ، وَلٰکِنَّہُ شَیْئٌ رَأَیْنَاہُ مِنْ قِبَلِ أَنْفُسِنَا، ثُمَّ اسْتُخْلِفَ أَبُو بَکْرٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلٰی أَبِی بَکْرٍ، فَأَقَامَ وَاسْتَقَامَ ثُمَّ اسْتُخْلِفَ عُمَرُ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلٰی عُمَرَ، فَأَقَامَ وَاسْتَقَامَ حَتّٰی ضَرَبَ الدِّینُ بِجِرَانِہِ۔ (مسند احمد: ۹۲۱)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے جنگ جمل کے روز فرمایا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے امارت (خلافت) کے بارے میں ہم سے کچھ نہیں فرمایا، بلکہ یہ ایسا معاملہ ہے جسے ہم نے یعنی امت نے اپنے اجتہاد سے اختیار کیا اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خلفیہ منتخب کر لیا گیا، ان پر اللہ کی رحمت ہوـ، انہو ں نے اپنی ذمہ داری کو خوب نبھایا، ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خلیفہ منتخب کر لیا گیا، انہوں نے بھی اپنی ذمہ داری کو اس قد رعمدگی سے ادا کیا کہ روئے زمین پر اسلام کا بول بالا ہوگیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12020

۔ (۱۲۰۲۰)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قِیلَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَنْ یُؤَمَّرُ بَعْدَکَ؟ قَالَ: ((إِنْ تُؤَمِّرُوْا أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ تَجِدُوہُ أَمِینًا، زَاہِدًا فِی الدُّنْیَا، رَاغِبًا فِی الْآخِرَۃِ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوْا عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ تَجِدُوہُ قَوِیًّا أَمِینًا، لَا یَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوْا عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلَا أُرَاکُمْ فَاعِلِینَ، تَجِدُوہُ ہَادِیًا مَہْدِیًّا، یَأْخُذُ بِکُمُ الطَّرِیقَ الْمُسْتَقِیمَ۔)) (مسند احمد: ۸۵۹)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا گیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد کس کو امیربنایا جائے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم ابوبکر کو امیر بناؤ گے تو تم اسے ایسا پاؤ گے کہ اس کو دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی رغبت ہوگی، اگرتم عمر کو امیر بناؤ گے تو تم اسے قوی اور اما نتدار پاؤ گے، جو اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرے گا اور اگر تم علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر بناؤ گے تو تم اس کو رہنما اور ہدایت یافتہ پاؤ گے، جو تمہیں صراط مستقیم پر لے جائے گا، لیکن میرا خیال ہے کہ تم اسے خلیفہ نہیں بناؤ گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12021

۔ (۱۲۰۲۱)۔ عَنْ قَیْسٍ الْخَارِفِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، یَقُولُ عَلٰی ہٰذَا الْمِنْبَرِ: سَبَقَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَصَلَّی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَثَلَّثَ عُمَرُ، ثُمَّ خَبَطَتْنَا فِتْنَۃٌ أَوْ أَصَابَتْنَا فِتْنَۃٌ، فَکَانَ مَا شَائَ اللّٰہُ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: یَعْفُو اللّٰہُ عَمَّنْ یَّشَائُ)۔ (مسند احمد: ۱۲۵۹)
قیس خارفی کہتے ہیں: میں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس ممبر پر یہ کہتے ہوئے سنا: سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے تشریف لے گئے، آپ کے بعد سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے امت کو نمازیں پڑھائیں، تیسرے نمبر پر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے،ان کے بعد تو ہمیں فتنوں اور آزمائشوںنے آلیا، پھر وہی ہوا، جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔ ایک روایت میں ہے: اللہ جس کو چاہے گا، معاف کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12022

۔ (۱۲۰۲۲)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) بِمِثْلِہٖ وَفِیْہِ: ثُمَّ خَبَطَتْنَا أَوْ أَصَابَتْنَا فِتْنَۃٌ فَمَا شَائَ اللّٰہُ جَلَّ جَلَالُہُ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَالَ أَبِی قَوْلُہُ: ثُمَّ خَبَطَتْنَا فِتْنَۃٌ، أَرَادَ أَنْ یَتَوَاضَعَ بِذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۱۰۲۰)
۔ (دوسری سند)اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ہے: ان حضرات کے بعد ہمیں آزمائشوں نے آلیا، پھر وہی ہوا جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔ ابو عبدالرحمن کہتے ہیں: میرے والد نے کہا کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا یہ کہنا کہ ان حضرات کے بعد ہمیں آزمائشوں نے آلیا۔ یہ انہوں نے ازراہ تواضع فرمایا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12023

۔ (۱۲۰۲۳)۔ عَنْ سَہْلٍ أَبِی الْأَسَدِ قَالَ: حَدَّثَنِی بُکَیْرُ بْنُ وَہْبٍ الْجَزَرِیُّ، قَالَ: قَالَ لِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: أُحَدِّثُکَ حَدِیثًا مَا أُحَدِّثُہُ کُلَّ أَحَدٍ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَامَ عَلَی بَابِ الْبَیْتِ وَنَحْنُ فِیہِ، فَقَالَ: ((الْأَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ، إِنَّ لَہُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا، وَلَکُمْ عَلَیْہِمْ حَقًّا مِثْلَ ذٰلِکَ مَا إِنْ اسْتُرْحِمُوْا فَرَحِمُوْا، وَإِنْ عَاہَدُوْا وَفَوْا، وَإِنْ حَکَمُوْا عَدَلُوْا، فَمَنْ لَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ مِنْہُمْ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۳۳۲)
بکیر بن وہب جزری کہتے ہیں: سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: میں تم کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں،یہ حدیث میں نے کسی اور کو بیان نہیں کی،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس گھر کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور ہم بھی اس گھر میں تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حکمران قریش میں سے ہوں گے، تمہارے ذمے ان کے حقوق ہیں اور اسی طرح ان کے ذمے تمہارے حقوق ہیں،اگر ان سے رحم کی درخواست کی جائے گی تو وہ رحم کریں، جب وہ کسی سے کوئی وعدہ کریں، تو اسے پورا کریں گے اور جب وہ فیصلے کریں تو عدل و انصاف سے کریں، اگر ان سے کسی نے یہ ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہوگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12024

۔ (۱۲۰۲۴)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنْ سَہْلٍ أَبِی الْأَسَدِ، عَنْ بُکَیْرٍ الْجَزَرِیِّ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کُنَّا فِی بَیْتِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَجَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی وَقَفَ فَأَخَذَ بِعِضَادَۃِ الْبَابِ فَقَالَ: ((الْأَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ…الخ))۔ (مسند احمد: ۱۲۹۳۱)
۔ (دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک دفعہ ایک انصاری کے گھر میں تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آکر دروازے کی چوکھٹ کے بازوکو پکڑ کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا: حکمران قریش میں سے ہوں گے، …۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12025

۔ (۱۲۰۲۵)۔ حَدَّثَنَا سَیَّارُ بْنُ سَلَامَۃَ، سَمِعَ أَبَا بَرْزَۃَ، یَرْفَعُہُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الْأَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ، إِذَا اسْتُرْحِمُوْا رَحِمُوْا وَإِذَا عَاہَدُوْا وَفَوْا، وَإِذَا حَکَمُوْا عَدَلُوْا، فَمَنْ لَمْ یَفْعَلْ ذَلِکَ مِنْہُمْ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ۔)) (مسند احمد: ۲۰۰۱۵)
سیدنا ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کرتے تھے: کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خلفاء اور حکمران قریش میںسے ہوں گے۔ جب ان سے رحم کی درخواست کی جائے تو وہ رحم کریں، جب وہ کسی سے کوئی وعدہ کریں، تو اسے پورا کریں گے اور جب وہ فیصلے کریں تو عدل و انصاف سے کریں، اگر ان سے کسی نے یہ ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہوگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12026

۔ (۱۲۰۲۶)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: کَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، یُحَدِّثُ أَنَّہُ بَلَغَ مُعَاوِیَۃَ، وَہُوَ عِنْدَہُ فِی وَفْدٍ مِنْ قُرَیْشٍ، أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ یُحَدِّثُ أَنَّہُ سَیَکُونُ مَلِکٌ مِنْ قَحْطَانَ، فَغَضِبَ مُعَاوِیَۃُ، فَقَامَ فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ! فَإِنَّہُ بَلَغَنِی أَنَّ رِجَالًا مِنْکُمْ یُحَدِّثُونَ أَحَادِیثَ لَیْسَتْ فِی کِتَابِ اللّٰہِ، وَلَا تُؤْثَرُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أُولَئِکَ جُہَّالُکُمْ، فَإِیَّاکُمْ وَالْأَمَانِیَّ الَّتِی تُضِلُّ أَہْلَہَا، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ فِی قُرَیْشٍ، لَا یُنَازِعُہُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَکَبَّہُ اللّٰہُ عَلٰی وَجْہِہِ مَا أَقَامُوا الدِّین۔)) (مسند احمد: ۱۶۹۷۷)
امام زہری کہتے ہیں کہ محمد بن جبیر بن مطعم ایک قریشی وفدمیں شریک سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس تھا، انھوں نے بیان کیا کہ معاویہ کو یہ بات پہنچی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ عنقریب قحطان کا ایک بادشاہ ہو گا، تو معاویہ غصے میں آ گئے، کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بعض لوگ ایسی باتیں بیان کرتے ہیں، جو نہ تو اللہ کی کتاب میں پائی جاتی ہیں اور نہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے منقول ہوتی ہیں۔ یہ لوگ پر لے درجے کے جاہل ہیں۔ اس قسم کی خواہشات سے بچوجو خواہش پرستوں کو گمراہ کر دیتی ہیں۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے سنا: یہ (امارت والا) معاملہ قریشیوں میں رہے گا، جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے، ان سے دشمنی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ منہ کے بل گرادے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12027

۔ (۱۲۰۲۷)۔ عن عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: بَیْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَرِیبٍ مِنْ ثَمَانِینَ رَجُلًا مِنْ قُرَیْشٍ، لَیْسَ فِیہِمْ إِلَّا قُرَشِیٌّ، لَا وَاللّٰہِ! مَا رَأَیْتُ صَفْحَۃَ وُجُوہِ رِجَالٍ قَطُّ أَحْسَنَ مِنْ وُجُوہِہِمْ یَوْمَئِذٍ، فَذَکَرُوْا النِّسَائَ فَتَحَـدَّثُوا فِیہِنَّ، فَتَحَدَّثَ مَعَہُمْ حَتَّی أَحْبَبْتُ أَنْ یَسْکُتَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَتَشَہَّدَ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! فَإِنَّکُمْ أَہْلُ ہٰذَا الْأَمْرِ مَا لَمْ تَعْصُوا اللّٰہَ، فَإِذَا عَصَیْتُمُوہُ بَعَثَ إِلَیْکُمْ مَنْ یَلْحَاکُمْ کَمَا یُلْحٰی ہٰذَا الْقَضِیبُ۔)) لِقَضِیبٍ فِی یَدِہِ ثُمَّ لَحَا قَضِیبَہُ فَإِذَا ہُوَ أَبْیَضُ یَصْلِدُ۔ (مسند احمد: ۴۳۸۰)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم تقریبًا قریش کے اسی (۸۰) آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے تھے، تمام کے تمام قریشی تھے۔ اللہ کی قسم! اُس دن یہ لوگ بہت خوبصورت نظر آ رہے تھے، انھوں نے عورتوں کا ذکر کیا، ان کے بارے میں باتیں کیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ان کے ساتھ گفتگو کرتے رہے (اور اتنا زیادہ کلام کیا کہ) میں نے چاہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو جائیں۔ پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، آپ نے خطبۂ شہادت پڑھا اور فرمایا: حمد و صلوۃ کے بعد (میں یہ کہوں گا کہ) قریشیو! تم لوگ اس (امارت) کے مستحق ہو، جب تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرو گے، اگر تم نے نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھیجے گا جو تمھاری چمڑی ادھیڑ دیں گے، جس طرح اس شاخ (جو آپ کے ہاتھ میں تھی) کا چھلکا اتار لیا جاتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی شاخ کا چھلکا اتارا، (جس کی وجہ سے) وہ اچانک سفید اور سخت نظر آنے لگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12028

۔ (۱۲۰۲۸)۔ عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((إِنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ فِیکُمْ وَإِنَّکُمْ وُلَاتُہُ، وَلَنْ یَزَالَ فِیکُمْ حَتّٰی تُحْدِثُوا أَعْمَالًا، فَإِذَا فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ بَعَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْکُمْ شَرَّ خَلْقِہِ، فَیَلْتَحِیکُمْ کَمَا یُلْتَحَی الْقَضِیبُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۱۹۷)
سیدناابو مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: یہ خلافت تمہارے پاس رہے گی اور تم ہی اس کے مالک ہو، یہ اس وقت تک تمہارے پاس رہے گی جب تک تم غیر شرعی کام نہیں کرو گے، جب تم نے غیر شرعی کام کیے تو اللہ تعالیٰ برے لوگوں کو تمہارے خلاف کھڑا کر دے گا اور وہ تمہاری یوں چمڑی ادھیڑیں گے، جیسے چھڑی کو چھیل دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12029

۔ (۱۲۰۲۹)۔ عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ عَبْدٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((الْخِلَافَۃُ فِی قُرَیْشٍ، وَالْحُکْمُ فِی الْأَنْصَارِ، وَالدَّعْوَۃُ فِی الْحَبَشَۃِ، وَالْہِجْرَۃُ فِی الْمُسْلِمِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ بَعْدُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۸۰۴)
سیدنا عتبہ بن عبد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خلافت قریش میں، عہدۂ قضا انصاریوں میں، دعوت و تبلیغ حبشیوں میں اور ہجرت مسلمانوں میں اور بعد والے مہاجروں میں ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12030

۔ (۱۲۰۳۰)۔ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( لَا یَزَالُ ھٰذَا الْاَمْرُ فِیْ قُرَیْشٍ، مَا بَقِیَ مِنَ النَّاسِ اِثْنَانِ۔)) (مسند احمد: ۶۱۲۱)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تک دو آدمی بھی باقی رہیں گے، یہ خلافت قریش میں ہی رہے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12031

۔ (۱۲۰۳۱)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَیْشٍ فِی ہٰذَا الشَّأْنِ، مُسْلِمُہُمْ تَبَعٌ لِمُسْلِمِہِمْ، وَکَافِرُہُمْ تَبَعٌ لِکَافِرِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۷۳۰۴)
سیدنا ابو ہریرۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حکومت کے معاملہ میں لوگ قریش کے تابع ہیں، مسلمان، مسلم قریشیوں کے تابع ہیں اور کافر، کافر قریشیوں کے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12032

۔ (۱۲۰۳۲)۔ وَعَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ اَبِیْ سُفْیَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: َقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَیْشٍ فِی ہٰذَا الْأَمْرِ، خِیَارُہُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُہُمْ فِی الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِہُوا، وَاللّٰہِ! لَوْلَا أَنْ تَبْطَرَ قُرَیْشٌ لَأَخْبَرْتُہَا مَا لِخِیَارِہَا عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۷۰۵۲)
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حکومت کے معاملہ میں لوگ قریش کے تابع ہیں،ـ جو لوگ قبل از اسلام اچھے تھے، وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اچھے ہیں، بشر طیکہ وہ دین میںفقاہت حاصل کرلیں۔ اللہ کی قسم! اگر قریشی لوگوں کے مغرور ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں بتلا دیتا کہ ان میں سے اچھے لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا مقام ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12033

۔ (۱۲۰۳۳)۔ عَنْ ذِیْ مِخْمَرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کَانَ ھٰذَا الْأَمْرُ فِیْ حِمْیَرَ فَنَزَعَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مِنْھُمْ فَجَعَلَہُ فِیْ قُرَیْشٍ وَ سَ یَ عُ وْ دُ إِ لَ یْ ھِمْ۔)) وَکَذَا کَانَ فِیْ کِتَابِ أَبِیْ مُقَطَّعٍ وَحَیْثُ حَدَّثَنَا بِہٖ تَکَلَّمَ عَلَی الْإِسْتَوَائِ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۵۲)
سیدنا ذو مخمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ (خلافت و ملوکیت والا) معاملہ حمیر قبیلے میں تھا، اللہ تعالیٰ نے ان سے سلب کر کے قریش کے سپرد کر دیا، عنقریب یہ معاملہ ان ہی کی طرف لوٹ جائے گا۔ عبد اللہ راوی کہتے ہیں: میرے باپ کی کتاب میں آخری الفاظ مقطّعات شکل میں تھے، البتہ انھوں نے ہم کو بیان کرتے وقت ان کو برابر ہی پڑھا تھا، (جیسے باقی حدیث پڑھی)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12034

۔ (۱۲۰۳۴)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ، قَالَ: کُنَّا قُعُوْدًا فِیْ الْمَسْجِدِ۔ وَکَانَ بَشِیْرٌ رَجُلاً یَکُفُّ حَدِیْثَہٗ۔ فَجَائَ أَبُوْ ثَعْلَبَۃَ الْخُشَنِیِّ، فَقَالَ: یَابَشِیْرُ بْنُ سَعْدٍ! أَتَحْفَظُ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ الْأَمْرِ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: أَنَا أَحْفَظُ خُطْبَتَہٗ فَجَلَسَ أَبُوْ ثَعْلَبَۃَ، قَالَ حُذَیْفَۃُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَائَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللّٰہُ إِذَا شَائَ أَنْ یَّرْفَعَھَاَ، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ فِیْکُمْ مَاشَائَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَائَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا فَتَکُوْنُ مَاشَائَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ یَّرْفَعَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیًّا، فَتَکُوْنُ مَاشَائَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ، ثُمَّ سَکَتَ۔)) (مسند احمد: ۱۸۵۹۶)
سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔بشیر اپنی بات کو روک دیتے تھے۔ اتنے میں ابو ثعلبہ خشنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور کہا: بشیر بن سعد! کیا تجھے امراء کے بارے میں کوئی حدیثِ نبوی یاد ہے؟ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: (اس معاملے میں) مجھے آپ کا خطبہ یاد ہے۔ ابو ثعلبہ بیٹھ گئے اور حذیفہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق کچھ عرصہ تک نبوت قائم رہے گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہیں گے اسے اٹھا لیں گے۔ نبوت کے بعد اس کے منہج پر اللہ کی مرضی کے مطابق کچھ عرصہ تک خلافت ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ اسے ختم کر دیں گے، پھر اللہ کے فیصلے کے مطابق کچھ عرصہ تک بادشاہت ہو گی، جس میں ظلم و زیادتی ہو گا، بالآخر وہ بھی ختم ہو جائے گی، پھر جبری بادشاہت ہو گی، وہ کچھ عرصہ کے بعد زوال پذیر ہو جائے گی، اس کے بعد منہجِ نبوت پر پھر خلافت ہو گی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12035

۔ (۱۲۰۳۵)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَکُونُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ خَلِیفَۃً کُلُّہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ۔)) قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ إِلَی مَنْزِلِہِ فَأَتَتْہُ قُرَیْشٌ فَقَالُوْا: ثُمَّ یَکُونُ مَاذَا؟ قَالَ: ((ثُمَّ یَکُونُ الْہَرْجُ۔)) (مسند احمد: ۲۱۱۵۰)
سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے بعد بارہ خلفا آئیں گے، جن کا تعلق قریش خاندان سے ہوگا۔ یہ کہنے کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر تشریف لے گئے، قریش آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا: اس کے بعد کیاہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے بعد قتل ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12036

۔ (۱۲۰۳۶)۔ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَۃَ عَنْ حَدِیثِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَزَالُ الدِّینُ قَائِمًا حَتّٰییَکُونَ اثْنَا عَشَرَ خَلِیفَۃً مِنْ قُرَیْشٍ، ثُمَّ یَخْرُجُ کَذَّابُونَ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ، ثُمَّ تَخْرُجُ عِصَابَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، فَیَسْتَخْرِجُونَ کَنْزَ الْأَبْیَضِ کِسْرٰی وَآلِ کِسْرٰی، وَإِذَا أَعْطَی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَحَدَکُمْ خَیْرًا فَلْیَبْدَأْ بِنَفْسِہِ وَأَہْلِہِ، وَأَنَا فَرَطُکُمْ عَلَیالْحَوْضِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۰۸۶)
عامر بن سعد کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک حدیث کے بارے میں پوچھا، انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ دین غالب رہے گا، یہاں تک کہ قریش کے بارہ خلفاء ہوں گے، ان کے بعد قیامت سے قبل کچھ جھوٹے لوگ پیدا ہوں گے، ان کے بعد مسلمانوں کی ایک جماعت آئے گی، وہ کسری اور آل کسری کے سفید خزانوں کو باہر نکال لائیں گے، جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کو مال و برکت سے نوازے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ پر اور پھر اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے سے ابتدا کرے اور میںحوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12037

۔ (۱۲۰۳۷)۔ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَہُوَ یُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! ہَلْ سَأَلْتُمْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمْ تَمْلِکُ ہٰذِہِ الْأُمَّۃُ مِنْ خَلِیفَۃٍ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُودٍ: مَا سَأَلَنِی عَنْہَا أَحَدٌ مُنْذُ قَدِمْتُ الْعِرَاقَ قَبْلَکَ، ثُمَّ قَالَ: نَعَمْ، وَلَقَدْ سَأَلْنَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((اثْنَا عَشَرَ کَعِدَّۃِ نُقَبَائِ بَنِی إِسْرَائِیلَ۔)) (مسند احمد: ۳۷۸۱)
مسروق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہ ہمیں قرآن کریم پڑھا رہے تھے، اس دوران ایک آدمی نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمن! کیا آپ نے رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کبھی یہ دریافت کیا کہ اس امت میں کتنے خلفاء آئیں گے؟ انھوں نے کہا: میں جب سے عراق میں آیاہوں، آپ سے پہلے کسی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا، جی ہاں، ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں پوچھا تھا اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاتھا کہ میری امت میںخلفاء کی تعداد بارہ ہو گی، جو بنو اسرائیل کے نقباء کی تعداد تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12038

۔ (۱۲۰۳۸)۔ عَنْ سَفِینَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((الْخِلَافَۃُ ثَلَاثُونَ عَامًا، ثُمَّ یَکُونُ بَعْدَ ذٰلِکَ الْمُلْکُ۔)) قَالَ سَفِینَۃُ: أَمْسِکْ خِلَافَۃَ أَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سَنَتَیْنِ، وَخِلَافَۃَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَشْرَ سِنِینَ، وَخِلَافَۃَ عُثْمَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اثْنَیْ عَشْرَ سَنَۃً، وَخِلَافَۃَ عَلِیٍّ سِتَّ سِنِینَ ۔ (مسند احمد: ۲۲۲۶۴)
سیدنا سفینہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خلافت تیس برس تک رہے گی، بعد ازاں ملوکیت آجائے گی۔ سفینہ نے کہا، ذرا شمار کرو، دو سال سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت، دس سال سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت، بارہ سال سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت اور چھ سال سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12039

۔ (۱۲۰۳۹)۔ عَن عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ، قَالَ: وَفَدْنَا مَعَ زِیَادٍ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَفَدْتُّ مَعَ اَبِیْ) إِلٰی مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ: نَعْزِیْہٖ) وَفِینَا أَبُو بَکْرَۃَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَیْہِ لَمْ یُعْجَبْ بِوَفْدٍ مَا أُعْجِبَ بِنَا، فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرَۃَ! حَدِّثْنَا بِشَیْئٍ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْجِبُہُ الرُّؤْیَا الْحَسَنَۃُ، وَیَسْأَلُ عَنْہَا، فَقَالَ ذَاتَ یَوْمٍ: ((أَیُّکُمْ رَأْی رُؤْیًا؟)) فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا رَأَیْتُ کَأَنَّ مِیزَانًا دُلِّیَ مِنَ السَّمَائِ فَوُزِنْتَ أَنْتَ وَأَبُو بَکْرٍ فَرَجَحْتَ بِأَبِی بَکْرٍ، ثُمَّ وُزِنَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فَرَجَحَ أَبُو بَکْرٍ بِعُمَرَ، ثُمَّ وُزِنَ عُمَرُ بِعُثْمَانَ فَرَجَحَ عُمَرُ بِعُثْمَانَ، ثُمَّ رُفِعَ الْمِیزَانُ فَاسْتَائَ لَہَا، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: أَیْضًا فَسَائَ ہُ ذَاکَ، ثُمَّ قَالَ: ((خِلَافَۃُ نُبُوَّۃٍ ثُمَّ یُؤْتِی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْمُلْکَ مَنْ یَشَائُ))، قَالَ: فَزُخَّ فِی أَقْفَائِنَا فَأُخْرِجْنَا، فَقَالَ زِیَادٌ: لَا أَبًا لَکَ أَمَا وَجَدْتَ حَدِیثًا غَیْرَ ذَا حَدِّثْہُ بِغَیْرِ ذَا، قَالَ: لَا وَاللّٰہِ! لَا أُحَدِّثُہُ إِلَّا بِذَا حَتّٰی أُفَارِقَہُ فَتَرَکَنَا، ثُمَّ دَعَا بِنَا فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرَۃَ! حَدِّثْنَا بِشَیْئٍ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَکَعَہُ بِہِ فَزُخَّ فِی أَقْفَائِنَا فَأُخْرِجْنَا، فَقَالَ زِیَادٌ: لَا أَبًا لَکَ أَمَا تَجِدُ حَدِیثًا غَیْرَ ذَا حَدِّثْہُ بِغَیْرِ ذَا، فَقَالَ: لَا، وَاللّٰہِ! لَا أُحَدِّثُہُ إِلَّا بِہِ حَتّٰی أُفَارِقَہُ، قَالَ: ثُمَّ تَرَکَنَا أَیَّامًا ثُمَّ دَعَا بِنَا فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرَۃَ! حَدِّثْنَا بِشَیْئٍ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَکَعَہُ، فَقَالَ مُعَاوِیَۃُٔ:ٔ أَتَقُولُ: الْمُلْکَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: تَقُوْلُ: اَنَا مُلُوْکٌ) فَقَدْ رَضِینَا بِالْمُلْکِ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمٰنِ: وَجَدْتُ ہٰذِہِ الْأَحَادِیثَ فِی کِتَابِ أَبِی بِخَطِّ یَدِہِ۔ (مسند احمد: ۲۰۷۷۷)
عبدالرحمن بن ابی بکرہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک وفد کی صورت میںزیاد کے ہمراہ گئے، ایک روایت میں ہے کہ میں اپنے والد کی معیت میں وفد کی صورت میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گیا، ایک اور حدیث میںہے کہ عبدالرحمن نے کہا، ہم ان کے ہاں تعزیت کے لیے گئے، جب ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ کسی وفد کی آمد پر اس قدر خوش نہ ہوئے تھے، جس قدر وہ ہمارے وفد کے آنے پر خوس ہوئے، انہو ںنے کہا: ابو بکرہ ! آپ ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث سنائیں، سیدنا ابو بکر ہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اچھے خواب بہت پسند تھے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں سے پوچھا کرتے تھے کہ اگر کسی نے اچھا خواب دیکھا ہو تو وہ بیان کرے۔ ایک دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہوتو وہ بیان کرے۔ ایک آدمی نے کہا: جی میں نے دیکھا کہ گویا ایک ترازو آسمان کی طرف سے نیچے کولٹکا دی گئی ہے، آپ کا اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا وزن کیا گیا، تو ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مقابلے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وزنی رہے، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو تو لاگیا، تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وزنی رہے، اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو تولاگیا، عمر وزنی رہے اس کے بعد ترازو کو اٹھا لیا گیا۔ یہ سن کر سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غمگین ہوگئے، حماد نے بھی بیان کیا کہ یہ بات سن کر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ افسردہ ہوگئے۔ اور پھر کہا: اس حدیث میں میں نبوت والی خلافت کی طرف اشارہ ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا، حکومت عطا فرمائے گا۔ یہ حدیث سن کر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں اپنے دربار سے باہر بھجوادیا، زیاد نے کہا: کیا آپ کو اس کے سوا دوسری کوئی حدیث یاد نہ تھی؟ سیدنا ابوبکر ہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں جب تک ان کے پاس جاتا رہوں گا، ان کو یہی حدیث سناؤں گا، کچھ دنوں بعد ایک دفعہ پھر سیدنا معاویہ نے ہمیں بلوایا اور کہا: ابو بکرہ! آپ ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث ہی بیان کر دیں، انہوں نے وہی حدیث دہرائی۔ سیدنا معاویہ کو یہ حدیث سنناناپسندگزرا اور انہوں نے ہمیں اپنے دربار سے باہر نکلوادیا۔ زیاد نے کہا: کیا تمہیں اس کے علاوہ کوئی اور حدیث یاد نہیں تھی؟ ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں جب تک ان کے ہا ںجاتا رہوں گا، یہی حدیث سناتا رہوں گا، کچھ دنوں بعد سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں پھر بلوایا اور کہا: ابو بکرہ ! ہمیں کوئی حدیث ِ رسول ہی سنا دو، سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پھر وہی حدیث ِ مبارکہ دوہرا دی، انہیں پھر ناگوار گزری، لیکن اس بار سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا آپ ہماری حکومت کو ملوکیت کہتے ہیں؟ ایک روایت میں ہے:آپ ہمیں خلیفہ کی بجائے بادشاہ کہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہم ملوکیت پر ہی راضی ہیں۔ابو عبدالرحمن نے کہا کہ میں نے یہ حدیث اپنے والد کی کتاب میں ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی پائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12040

۔ (۱۲۰۴۰)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَقْرَبَہُمْ مِنْہُ مَجْلِسًا إِمَامٌ عَادِلٌ، وَإِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَشَدَّہُ عَذَابًا إِمَامٌ جَائِرٌ۔)) (مسند احمد: ۱۱۵۴۵)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عادل حکمران قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہوگا اور وہ سب سے بڑھ کر اللہ کے قریب جگہ پائے گا۔ اور قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسند اور سب سے زیادہ سخت عذاب کا مستحق وہ حکمران ہوگا جو دنیا میں دوسروں پر ظلم ڈھاتا رہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12041

۔ (۱۲۰۴۱)۔ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَیْسَ مِنْ وَالِی أُمَّۃٍ قَلَّتْ أَوْ کَثُرَتْ لَا یَعْدِلُ فِیہَا إِلَّا کَبَّہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلٰی وَجْہِہٖفِی النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۵۵۶)
سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کے تھوڑے یا زیادہ افراد پر جس آدمی کو حکومت کرنے کا موقع ملے اور پھر وہ عدل سے کام نہ لے تو اللہ تعالیٰ اسے چہرے کے بل جہنم میں ڈالے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12042

۔ (۱۲۰۴۲)۔ وَعَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا مِنْ أَمِیرِ عَشَرَۃٍ إِلَّا یُؤْتٰی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَغْلُولًا لَا یَفُکُّہُ إِلَّا الْعَدْلُ أَوْ یُوبِقُہُ الْجَوْرُ۔)) (مسند احمد: ۹۵۷۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی دس افراد کی چھوٹی سی جماعت پر امیر اور حاکم مقرر ہوتا ہے، اسے قیامت کے روز باندھ کر پیش کیا جائے گا، اسے اس کا عدل وانصاف رہائی دلائے گااور اس کا ظلم وجور اس کو ہلاک کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12043

۔ (۱۲۰۴۳)۔ عَنْ أَبِی قَحْذَمٍ قَالَ: وُجِدَ فِی زَمَنِ زِیَادٍ أَوْ ابْنِ زِیَادٍ صُرَّۃٌ فِیہَا حَبٌّ أَمْثَالُ النَّوٰی، عَلَیْہِ مَکْتُوبٌ ہٰذَا نَبَتَ فِی زَمَانٍ کَانَ یُعْمَلُ فِیہِ بِالْعَدْلِ۔ (مسند احمد: ۷۹۳۶)
ابو قحذم کہتے ہیں: زیاد یا ابن زیاد کے عہد میں ایک تھیلی میں گٹھلیوں کے برابر غلے کے (موٹے موٹے) دانے ملے، ان پر یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ غلہ اس زمانہ میں ہوتا تھا، جب عدل کا دور دورہ تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12044

۔ (۱۲۰۴۴)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: ((مَا مِنْ رَجُلٍ یَلِی أَمْرَ عَشَرَۃٍ فَمَا فَوْقَ ذٰلِکَ إِلَّا أَتَی اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ مَغْلُولًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِیَدُہُ إِلَی عُنُقِہِ، فَکَّہُ بِرُّہُ أَوْ أَوْبَقَہُ إِثْمُہُ، أَوَّلُہَا مَلَامَۃٌ وَأَوْسَطُہَا نَدَامَۃٌ، وَآخِرُہَا خِزْیٌیَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۵۶)
سیدنا ابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو حکمران دس یا اس سے زیادہ افراد پر حکومت پائے، اسے قیامت کے د ن اللہ تعالیٰ کے حضور اس حال میں پیش کیا جائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن سے بندھا ہوا ہوگا، اس اس کی نیکی اس کو چھڑائے گی یا اس کا گناہ اس کو ہلاک کر دے گا، اس اقتدار کی ابتدا میں ملامت ہے، درمیان میں ندامت ہے اور اس کا انجام قیامت کے روز رسوائی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12045

۔ (۱۲۰۴۵)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَکُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ خَلِیفَۃٌیُعْطِی الْمَالَ وَلَا یَعُدُّہُ عَدًّا))۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ((یَقْسِمُ الْمَالَ وَلَا یَعُدُّہٗ))۔ (مسند احمد: ۱۱۰۲۵)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ میں ایک ایسا خلیفہ ہو گا، جو شمار کیے بغیر لوگوں کو مال عطا کیا کرے گا۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: وہ لوگوں میںاموال تقسیم کرے گا، مگر شمار نہ کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12046

۔ (۱۲۰۴۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہِ، وَیُتَّقٰی بِہِ، فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوٰی وَعَدَلَ فَإِنَّ لَہُ بِذٰلِکَ أَجْرًا، وَإِنْ أَمَرَ بِغَیْرِ ذٰلِکَ فَإِنَّ عَلَیْہِ فِیہِ وِزْرًا۔)) (مسند احمد: ۱۰۷۸۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: امام اور حکمران ایک ڈھال ہے، جس کے پیچھے سے دشمن سے لڑاجاتا ہے اور اس کے ذریعہ دشمن کے وار سے بچاجاتا ہے، اگر وہ تقویٰ کا حکم دے اور عدل سے کام لے تو اسے ان کاموں کا اجر ملے گا اور اگر اس کے سوا کسی دوسری بات کا حکم دے تو اسے اس کا گناہ ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12047

۔ (۱۲۰۴۷)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا یَأْتِی عَلَیْنَا أَمِیرٌ إِلَّا وَہُوَ شَرٌّ مِنْ الْمَاضِی، وَلَا عَامٌ إِلَّا وَہُوَ شَرٌّ مِنْ الْمَاضِی، قَالَ: لَوْلَا شَیْئٌ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقُلْتُ مِثْلَ مَا یَقُولُ، وَلٰکِنْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ مِنْ أُمَرَائِکُمْ أَمِیرًایَحْثِی الْمَالَ حَثْیًا وَلَا یَعُدُّہُ عَدًّا، یَأْتِیہِ الرَّجُلُ فَیَسْأَلُہُ فَیَقُولُ: خُذْ فَیَبْسُطُ الرَّجُلُ ثَوْبَہُ فَیَحْثِی فِیہِ))، وَبَسَطَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِلْحَفَۃً غَلِیظَۃً کَانَتْ عَلَیْہِ،یَحْکِی صَنِیعَ الرَّجُلِ، ثُمَّ جَمَعَ إِلَیْہِ أَکْنَافَہَا، قَالَ: ((فَیَأْخُذُہُ ثُمَّ یَنْطَلِقُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۹۶۲)
ابو الو داک کہتے ہیں: میں نے کہا: ہمارے اوپر جو بھی حکمران آتا ہے، وہ پہلے سے بدتر ہوتا ہے اور ہر آنے والا سال بھی گزشتہ سال سے برا ہوتا ہے۔یہ سن کر سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک حدیث نہ سنی ہوتی تو میں بھی یہی کہتا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے اوپر ایک ایسا حکمران آئے گا جو خوب مال تقسیم کرنے والا ہو گا، اسے شمار تک نہیں کرے گا، جو آدمی اس کے پاس آکر سوال کرے گا، وہ کہے گا: لے جا، چنانچہ وہ آدمی اپنا کپڑا بچھا کر اسے بھر کر لے جائے گا۔ اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوپر ایک موٹی سی چادر تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بچھا کر بیان کیا کہ وہ اسے یوں بھر لے گا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چادر کے کناروں کو پکڑ کر دکھایا۔ اور فرمایا: وہ مال سے بھری چادر کو یوں لے کر چلا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12048

۔ (۱۲۰۴۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((کُلُّکُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، الْإِمَامُ رَاعٍ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، وَالرَّجُلُ فِی أَہْلِہِ رَاعٍ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِی بَیْتِ زَوْجِہَا وَہِیَ مَسْئُولَۃٌ عَنْ رَعِیَّتِہَا، وَالْخَادِمُ فِی مَالِ سَیِّدِہِ رَاعٍ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ۔)) قَالَ: سَمِعْتُ ہٰؤُلَائِ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَحْسَبُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((وَالرَّجُلُ فِی مَالِ أَبِیہِ رَاعٍ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِِِِِ۔)) (مسند احمد: ۶۰۲۶)
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں ہر کوئی نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی، حکمران ذمہ دار ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا، مرد اپنے اہل وعیال کا ذمہ دار ہے، اس سے اس سے متعلقہ افراد کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی، عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے، اس سے اس کی ذمہ داریوں کے متعلق سوال وجواب ہوگا، خادم اپنے آقا کے مال پر نگران ہے، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میںنے یہ الفاظ تو نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے والد کے مال کا ذمہ دار اور نگران ہے، پس اس سے اس کے بارے میں بھی پوچھ گچھ ہوگی، غرضیکہ تم میں سے ہر آدمی نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12049

۔ (۱۲۰۴۹)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَسْتَرْعِی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَبْدًا رَعِیَّۃً قَلَّتْ أَوْ کَثُرَتْ إِلَّا سَأَلَہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَنْہَایَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَقَامَ فِیہِمْ أَمْرَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَمْ أَضَاعَہُ؟ حَتّٰییَسْأَلَہ عَنْ اَھْلِ بَیْتِہٖ خَاصَّۃً۔)) (مسند احمد: ۴۶۳۷)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس بندے کو تھوڑی یا زیادہ رعایا پر حکمرانی عطا فرماتا ہے، اس سے ان کے متعلق قیامت کے روز پوچھے گا کہ اس نے ان میں اللہ کا حکم نافذ کیایا نہیں کیا، یہاں تک کہ خاص طور پر ا س سے اس کے اہل کے بارے میں بھی پوچھے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12050

۔ (۱۲۰۵۰)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) رَأٰی رَاعِیَ غَنَمٍ فِی مَکَانٍ قَبِیحٍ، وَقَدْ رَأَی ابْنُ عُمَرَ مَکَانًا أَمْثَلَ مِنْہُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَیْحَکَیَا رَاعِی! حَوِّلْہَا فَإِنِّی سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((کُلُّ رَاعٍ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ۔)) (مسند احمد: ۵۸۶۹)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بکریوں کے ایک چروا ہے کو دیکھا کہ وہ انتہائی گندی جگہ بکریاں چرا رہا تھا، جبکہ وہ ا س سے بہتر جگہ دیکھ آئے تھے، اس لیے انھوں نے کہا: چرواہے! تجھ پر افسوس ہے، ان بکریوں کو یہاں سے منتقل کر کے وہاں لے جا، کیونکہ میںنے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہر ذمہ دار سے اس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12051

۔ (۱۲۰۵۱)۔ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ مَعْقِلَ بْنَ یَسَارٍ اشْتَکٰی، فَدَخَلَ عَلَیْہِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ زِیَادٍیَعْنِییَعُودُہُ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّی أُحَدِّثُکَ حَدِیثًا لَمْ أَکُنْ حَدَّثْتُکَ بِہِ، إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَوْ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَسْتَرْعِی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَبْدًا رَعِیَّۃً، فَیَمُوتُیَوْمَیَمُوتُ وَہُوَ لَہَا غَاشٌّ إِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ((فَھُوَ فِی النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۵۵۷)
حسن سے روایت ہے کہ سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار پڑ گئے اورعبید اللہ بن زیاد ان کی تیماداری کے لیے آئے، سیدنا معقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں، جو میں نے پہلے نہیں سنائی تھی، میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بند ے کو رعایا پر حکمرانی عطا فرمائے، لیکن اگر وہ حکمران ا س حال میں مرے کہ وہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا تھا تو اللہ تعالیٰ ا س پر جنت کو حرام کردیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: وہ جہنمی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12052

۔ (۱۲۰۵۲)۔ (وَبِالطَّرِیْقِ الثَّانِیْ) عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: مَرِضَ مَعْقِلُ بْنُ یَسَارٍ مَرَضًا ثَقُلَ فِیہِ فَأَتَاہُ ابْنُ زِیَادٍیَعُودُہُ، فَقَالَ: إِنِّی مُحَدِّثُکَ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْیُحِطْہُمْ بِنَصِیحَۃٍ لَمْ یَجِدْ رِیحَ الْجَنَّۃِ، وَرِیحُہَایُوجَدُ مِنْ مَسِیرَۃِ مِائَۃِ عَامٍ۔)) قَالَ ابْنُ زِیَادٍ: أَلَا کُنْتَ حَدَّثْتَنِی بِہٰذَا قَبْلَ الْآنَ، قَالَ: وَالْآنَ لَوْلَا الَّذِی أَنْتَ عَلَیْہِ لَمْ أُحَدِّثْکَ بِہِ۔ (مسند احمد: ۲۰۵۸۱)
۔ (دوسری سند) حسن سے مروی ہے کہ سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار پڑ گئے، مرض شدت اختیار کر گئی، ابن زیاد ان کی تیمارداری کے لیے آئے، سیدنا معقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو حکمرانی ملی اور وہ اپنی رعایا کے ساتھ بھلائی نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا،حالانکہ اس کی خوشبو سوسال کی مسافت سے محسوس ہوجاتی ہے۔ ابن زیادنے کہا: تم نے یہ حدیث اس سے پہلے بیان کیوں نہیں کی؟سیدنا معقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ جس مقام پر اب ہیں، اگر اس پر نہ ہوتے تو میں اب بھی آپ کو یہ حدیث نہ سناتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12053

۔ (۱۲۰۵۳)۔ عَنْ أَبِی الشَّمَّاخِ الْأَزْدِیِّ، عَنِ ابْنِ عَمٍّ لَہُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، أَتٰی مُعَاوِیَۃَ فَدَخَلَ عَلَیْہِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((مَنْ وَلِیَ أَمْرًا مِنْ أَمْرِ النَّاسِ ثُمَّ أَغْلَقَ بَابَہُ دُونَ الْمِسْکِینِ وَالْمَظْلُومِ أَوْ ذِی الْحَاجَۃِ أَغْلَقَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی دُونَہُ أَبْوَابَ رَحْمَتِہِ عِنْدَ حَاجَتِہِ وَفَقْرِہِ أَفْقَرَ مَا یَکُونُ إِلَیْہَا۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۳۷)
ابو الشماخ ازدی اپنے ایک چچا زاد بھائی، جو کہ صحابہ میں سے تھے، سے روایت کرتے ہیں کہ وہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے اور کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو آدمی لوگوں پر حاکم بنا اور اس نے مسکین، مظلوم یا ضرورت مند سے اپنا دروازہ بند کیا، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت اور فقر کے موقع پر اس پر اپنی رحمت کے دروازے بند کر دے گا، جبکہ وہ اس کی رحمت کا شدید محتاج ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12054

۔ (۱۲۰۵۴)۔ عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ وَلِیَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ شَیْئًا، فَاحْتَجَبَ عَنْ أُولِی الضَّعْفَۃِ وَالْحَاجَۃِ، احْتَجَبَ اللّٰہُ عَنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ))۔ (مسند احمد: ۲۲۴۲۶)
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو لوگوں پر حکمرانی حاصل ہو اور وہ کمزروں اور ضرورت مندوں سے الگ تھلگ ہو جائے (اور ان کی ضروریات پوری نہ کرے) تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اس سے منہ موڑ لے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12055

۔ (۱۲۰۵۵)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو حَسَنٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ مُرَّۃَ قَالَ لِمُعَاوِیَۃَ: یَا مُعَاوِیَۃُ! إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا مِنْ إِمَامٍ أَوْ وَالٍ یُغْلِقُ بَابَہُ دُونَ ذَوِی الْحَاجَۃِ وَالْخَلَّۃِ وَالْمَسْکَنَۃِ إِلَّا أَغْلَقَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَبْوَابَ السَّمَائِ، دُونَ حَاجَتِہِ وَخَلَّتِہِ وَمَسْکَنَتِہِ۔)) قَالَ: فَجَعَلَ مُعَاوِیَۃُ رَجُلًا عَلَی حَوَائِجِ النَّاسِ۔ (مسند احمد: ۱۸۱۹۶)
ابو الحسن سے روایت ہے کہ عمروبن مرہ نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے معاویہ! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو حاکم ضرورت مندوں اور مسکینوں کے سامنے اپنا دروازہ بند کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت، حاجت اورمسکینی کے وقت آسمان کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ اس کے بعد سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک شخص مقرر کر دیا، جو لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12056

۔ (۱۲۰۵۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا مِنْ نَبِیٍّ وَلَا وَالٍ إِلَّا وَلَہُ بِطَانَتَانِ، بِطَانَۃٌ تَأْمُرُہُ بِالْمَعْرُوفِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَتَنْہَاہٗعَنِالْمُنْکَرِ)،وَبِطَانَۃٌ لَا تَأْلُوہُ خَبَالًا، وَمَنْ وُقِیَ شَرَّہُمَا فَقَدْ وُقِیَ، وَہُوَ مَعَ الَّتِی تَغْلِبُ عَلَیْہِ مِنْہُمَا))۔ (مسند احمد: ۷۲۳۹)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی اور حاکم کے دو ہم راز ہوتے ہیں، ایک ہم راز اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے اور دوسرا اس کی ہلاکت و تباہی کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا۔ جو حاکم اس کے شرّ سے بچ گیا، وہ تو محفوظ ہو گیا اور وہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جو ان میں سے غالب آجاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12057

۔ (۱۲۰۵۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ وَلَّاہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِینَ شَیْئًا، فَأَرَادَ بِہِ خَیْرًا، جَعَلَ لَہُ وَزِیرَ صِدْقٍ، فَإِنْ نَسِیَ ذَکَّرَہُ، وَإِنْ ذَکَرَ أَعَانَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۹۱۸)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس آدمی کو مسلمانوں کے معاملات سپرد کردے اور پھر اس کے بارے میں خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو مخلص وزیر عطا کر دیتا ہے، وہ اگر بھولنے لگتا ہے تو وہ وزیر اسے یاددہانی کرادیتا ہے اور اگر اسے بات یادرہتی ہے تو وہ وزیر اس کی اعانت کر دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12058

۔ (۱۲۰۵۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا بُعِثَ مِنْ نَبِیٍّ، وَلَا اسْتُخْلِفَ مِنْ خَلِیفَۃٍ، إِلَّا کَانَتْ لَہُ بِطَانَتَانِ، بِطَانَۃٌ تَأْمُرُہُ بِالْخَیْرِ وَتَحُضُّہُ عَلَیْہِ، وَبِطَانَۃٌ تَأْمُرُہُ بِالشَّرِّ وَتَحُضُّہُ عَلَیْہِ، وَالْمَعْصُومُ مَنْ عَصَمَ اللّٰہُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۳۶۲)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا گیا اور کسی خلیفہ کو خلافت عطا نہیں کی گئی، مگر اس کے دو خاص مشیر ہوتے ہیں، ایک مشیر اسے اچھائی کا حکم دیتا ہے اور اس کی ترغیب دلاتا ہے اور دوسرا مشیر اسے برائی کا حکم دیتا اور اس پر آمادہ کرتا رہتا ہے، بہرحال معصوم وہی ہو گا، جس کو اللہ تعالیٰ بچا لے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12059

۔ (۱۲۰۵۹)۔ حَدَّثَنَا حَسَنٌ، وَأَبُو سَعِیدٍ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ ہُبَیْرَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زُرَیْرٍ أَنَّہُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ حَسَنٌ: یَوْمَ الْأَضْحٰی، فَقَرَّبَ إِلَیْنَا خَزِیرَۃً، فَقُلْتُ: أَصْلَحَکَ اللّٰہُ، لَوْ قَرَّبْتَ إِلَیْنَا مِنْ ہٰذَا الْبَطِّ یَعْنِی الْوَزَّ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَکْثَرَ الْخَیْرَ، فَقَالَ: یَا ابْنَ زُرَیْرٍ! إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا یَحِلُّ لِلْخَلِیفَۃِ مِنْ مَالِ اللّٰہِ إِلَّا قَصْعَتَانِ، قَصْعَۃٌیَأْکُلُہَا ہُوَ وَأَہْلُہُ، وَقَصْعَۃٌیَضَعُہَا بَیْنَیَدَیْ النَّاسِ))۔ (مسند احمد: ۵۷۸)
عبداللہ بن زریر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں عیدالا ضحی کے روز سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گیا،انہوں نے خزیرہ ہمیں پیش کیا، میںنے عرض کیا: اللہ آپ کے احوال کی اصلاح فرمائے، اگر آپ اس بطخ کے گوشت میں سے کچھ ہمارے سامنے پیش کر دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا، اللہ نے آپ کو آسودہ اور خوش حال بنایا ہے، انہوںنے کہا: اے ابن زریر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: خلیفہ کے لیے اللہ کے مال یعنی بیت المال میں صرف دو پیالے لینا حلال ہے، ایک پیالہ اپنے اور اس کے اہل و عیال کے کھانے کے لیے اور دوسرا لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12060

۔ (۱۲۰۶۰)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: مَرَّتْ إِبِلُ الصَّدَقَۃِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَأَہْوٰی بِیَدِہِ إِلٰی وَبَرَۃٍ مِنْ جَنْبِ بَعِیرٍ، فَقَالَ: ((مَا أَنَا بِأَحَقَّ بِہٰذِہِ الْوَبَرَۃِ مِنْ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِینَ۔)) (مسند احمد: ۶۶۷)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ صدقہ کے اونٹ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب سے گزرے،آپ نے ایک اونٹ کے پہلو سے اون کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: اس اون کا جتنا حقدار ایک عام مسلمان ہے، میں میرا حق اس سے زیادہ حقدار نہیں ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12061

۔ (۱۲۰۶۱)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَمُرَۃَ، قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ! لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَۃَ، فَإِنَّکَ إِنْ أُعْطِیتَہَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ إِلَیْہَا، وَإِنْ أُعْطِیتَہَا عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْہَا، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلٰییَمِینٍ، فَرَأَیْتَ غَیْرَہَا خَیْرًا مِنْہَا، فَأْتِ الَّذِی ہُوَ خَیْرٌ، وَکَفِّرْ عَنْ یَمِینِکَ۔)) (مسند احمد: ۲۰۸۹۸)
سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عبدالرحمن! حکمرانی یا ذمہ داری طلب نہ کرنا، اگر تجھے تیرے طلب کرنے کے بعد حکمرانی ملی تو تجھے اس کے سپرد کر دیا جائے گا اور اگر تجھے طلب کرنے کے بغیر حکمرانی ملی تو اس بارے میں تیری مدد کی جائے گی اور جب تو کسی کام پر قسم اٹھائے، اسکے بعد تمہیں معلوم ہو کہ اس کے برعکس کام زیادہ بہتر ہے تو وہ کام کر لینا جو زیادہ بہتر ہو اور اپنے حلف کا کفارہ دے دینا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12062

۔ (۱۲۰۶۲)۔ وَعَنِ الْحَارِثِ بْنُ یَزِیدَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ حُجَیْرَۃَ الشَّیْخَیَقُولُ: أَخْبَرَنِی مَنْ سَمِعَ أَبَا ذَرٍّ یَقُولُ: نَاجَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃً إِلَی الصُّبْحِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَمِّرْنِی، فَقَالَ: ((إِنَّہَا أَمَانَۃٌ وَخِزْیٌ وَنَدَامَۃٌیَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِلَّا مَنْ أَخَذَہَا بِحَقِّہَا، وَأَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیہَا۔)) (مسند احمد: ۲۱۸۴۵)
ابن حُجیرہ کہتے ہیں:سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سننے والے آدمی نے مجھے بیان کیا کہ انھوں نے کہا: میںنے ایک رات صبح تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سرگوشیاں کرتا رہا، میںنے باتوں باتوں میں عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے کسی علاقہ کا امیربنادیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ حکمرانی امانت ہے اور قیامت کے دن، شرمندگی، اور رسوائی کا باعث ہوگی، ما سوائے اس آدمی کے، جو اس ذمہ داری کو حق کے ساتھ لے اور اس ضمن میں اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوںکو ادا کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12063

۔ (۱۲۰۶۳)۔ وَعَنْ سَالِمِ بْنِ اَبِیْ سَالِمٍ الْجَیْشَانِیِّ، عَنْ اَبِیْہِ عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((یَا أَبَا ذَرٍّ! لَا تَوَلَّیَنَّ مَالَ یَتِیمٍ، وَلَا تَأَمَّرَنَّ عَلَی اثْنَیْنِِِِِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۸۹۶)
سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: اے ابوذر! تو کسی یتیم کے مال پر نگران نہ بننا اور دوآدمیوں کے اوپر امیر نہ بننا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12064

۔ (۱۲۰۶۴)۔ وعَنِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّکُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَی الْإِمَارَۃِ، وَسَتَصِیرُ حَسْرَۃً وَنَدَامَۃً۔)) قَالَ حَجَّاجٌ: یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، ((نِعْمَتِ الْمُرْضِعَۃُ وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَۃُ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَہٗ: اَنَّالنَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّکُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَی الْإِمَارَۃِ، وَسَتَصِیرُ نَدَامَۃً وَحَسْرَۃًیَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَبِئْسَتِ الْمُرْضِعَۃُ وَنِعْمَتِ الْفَاطِمَۃُ۔)) (مسند احمد: ۱۰۱۶۵)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لوگ عنقریب امارت،حکمرانی کا لالچ کرو گے، لیکن یہ چیز قیامت والے دن بطورِ انجام حسرت اور ندامت ہوئی، یہ دودھ پلانے کے لحاظ سے تو بہت اچھی ہے، لیکن دودھ چھڑانے کی حیثیت میں بہت بری ہے۔ ایک روایت میں ہے: نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم عنقریب امارت اور حکمرانی کا لالچ کر وگے، لیکن قیامت کے دن اس کا انجام مذامت اور حسرت ہوگا، یہ دودھ پلاتے ہوئے بہت اچھی اور دودھ چھڑانے کے بعد بہت بری لگتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12065

۔ (۱۲۰۶۵)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((وَیْلٌ لِلْأُمَرَائِ، وَیْلٌ لِلْعُرَفَائِ، وَیْلٌ لِلْأُمَنَائِ، لَیَتَمَنَّیَنَّ أَقْوَامٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، أَنَّ ذَوَائِبَہُمْ کَانَتْ مُعَلَّقَۃً بِالثُّرَیَّا،یَتَذَبْذَبُونَ بَیْنَ السَّمَائِ، وَالْأَرْضِ وَلَمْ یَکُونُوا عَمِلُوا عَلٰی شَیْئٍ۔)) (مسند احمد: ۱۰۷۶۹)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حکمرانوں کے لیے تباہی ہے، ان کے ماتحت افسروںاور کارندوں کے لیے ہلاکت ہے، دنیا میں جن لوگوں کو امین سمجھ کر امانات ان کے سپرد کی گئیں، ان کے لیے ہدایت ہے، یہ لوگ قیامت کے دن تمنا کریں گے کہ کاش ان کے سر کے بال ثریا ستارے کے ساتھ باندھ دئیے جاتے اور یہ آسمان اور زمین کے درمیان لٹکتے رہتے اور یہ ذمہ داری قبول نہ کرتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12066

۔ (۱۲۰۶۶)۔ وَعَنْہٗبِلَفْظٍآخَرَعَنِالنَّبِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: ((وَیْلٌ لِلْوُزَرَائِ لَیَتَمَنّٰی أَقْوَامٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، أَنَّ ذَوَائِبَہُمْ کَانَتْ مُعَلَّقَۃً بِالثُّرَیَّا،یَتَذَبْذَبُونَ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ، وَأَنَّہُمْ لَمْ یَلُوا عَمَلًا۔)) (مسند احمد: ۱۰۷۶۹)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وزیروں کے لیے ہلاکت ہے، یہ لوگ قیامت کے دن یہ تمنا کریں گے کہ کاش ان کے سر کے بالوں کو ثریا ستارے کے ساتھ لٹکا دیا جاتا اور یہ آسمان و زمین کے درمیان لٹکتے رہتے، لیکن یہ ذمہ داری قبول نہ کرتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12067

۔ (۱۲۰۶۷)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تَجِدُونَ مِنْ خَیْرِ النَّاسِ أَشَدَّہُمْ کَرَاہِیَۃً لِہٰذَا الشَّأْنِ حَتّٰییَقَعَ فِیہِ۔)) (مسند احمد: ۹۴۰۲)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لوگوں میں سب سے اچھا اس آدمی کو پاؤگے جو امارت و حکمرانی کو سب سے زیادہ ناپسند کرتا ہو گا، یہاں تک کہ وہ اس میں پڑ جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12068

۔ (۱۲۰۶۸)۔ عَنْ أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ، قَالَ: قَدِمَ رَجُلَانِ مَعِی مِنْ قَوْمِی، قَالَ: فَأَتَیْنَا إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَا وَتَکَلَّمَا فَجَعَلَا یُعَرِّضَانِ بِالْعَمَلِ، فَتَغَیَّرَ وَجْہُ النَّبِیِّ صَلَّیاللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَوْ رُئِیَ فِی وَجْہِہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ أَخْوَنَکُمْ عِنْدِی مَنْ یَطْلُبُہُ فَعَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) قَالَ: فَمَا اسْتَعَانَ بِہِمَا عَلٰی شَیْئٍ۔ (مسند احمد: ۱۹۷۳۷)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میری قوم کے دو آدمی میرے ساتھ آئے، ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے، ان دونوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے گفتگو کی اور انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مسئولیت کا مطالبہ کیا، ان کی یہ بات سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ مبارک تبدیل ہوگیا یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ناراضی کے آثار آپ کے چہرہ پر دکھائی دینے لگے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ـ: جو آدمی امارت کا طلبگار ہو، میر ے نزدیک تم سب سے بڑھ کر خائن ہے، تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو کسی ذمہ داری پر مامور نہ کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12069

۔ (۱۲۰۶۹)۔ عَنْ سِمَاکٍ، عَنْ ثَرْوَانَ بْنِ مِلْحَانَ قَالَ: کُنَّا جُلُوسًا فِی الْمَسْجِدِ، فَمَرَّ عَلَیْنَا عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ، فَقُلْنَا لَہُ: حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ فِی الْفِتْنَۃِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((یَکُونُ بَعْدِی قَوْمٌ، یَأْخُذُونَ الْمُلْکَ، یَقْتُلُ عَلَیْہِ بَعْضُہُمْ بَعْضًا۔)) قَالَ: قُلْنَا لَہُ: لَوْ حَدَّثَنَا غَیْرُکَ مَا صَدَّقْنَاہُ، قَالَ: فَإِنَّہُ سَیَکُونُ۔ (مسند احمد: ۱۸۵۱۰)
ثروان بن ملحان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم مسجد میں بیٹھے تھے، ہمارے پاس سے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا گزر ہوا، ہم نے ان سے عرض کیا: آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے فتنہ کے بارے میں کچھ سنا ہو تو ہمیں بیان کریں، انہوں نے کہا: میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ میرے بعد کچھ لوگ آئیں گے، جو ایک دوسرے کو قتل کر کے حکومت حاصل کریںگے۔ ہم نے ان سے کہا: اگر کوئی دوسرا آدمی ہمیں یہ حدیث بیان کرتا تو ہم اس کی تصدیق نہ کرتے، انہوں نے کہا: ایسا عنقریب ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12070

۔ (۱۲۰۷۰)۔ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حِینَ بَعَثَنِی إِلَی الشَّامِ: یَایَزِیدُ! إِنَّ لَکَ قَرَابَۃً، عَسَیْتَ أَنْ تُؤْثِرَہُمْ بِالْإِمَارَۃِ، وَذٰلِکَ أَکْبَرُ مَا أَخَافُ عَلَیْکَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ وَلِیَ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِینَ شَیْئًا، فَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ أَحَدًا مُحَابَاۃً، فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ، لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا حَتّٰییُدْخِلَہُ جَہَنَّمَ، وَمَنْ أَعْطٰی أَحَدًا حِمَی اللّٰہِ، فَقَدْ انْتَہَکَ فِی حِمَی اللّٰہِ شَیْئًابِغَیْرِ حَقِّہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ، أَوْ قَالَ: تَبَرَّأَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ))۔ (مسند احمد: ۲۱)
یزید بن ابی سفیان کہتے ہیں: سیدناابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جب مجھے شام کی طرف روانہ کیا تو مجھ سے کہا: اے یزید! وہاں تیری قرابت داری ہے، ہوسکتا ہے تم ذمہ داریاں دینے میں اپنے قرابت داروں کو ترجیح دو، مجھے تمہارے بارے میں اس بات کا سب چیزوں سے زیادہ اندیشہ ہے، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص مسلمانوں کے امور میں سے کسی امر کا ذمہ دار بنے، پھر وہ اپنی پسند کے پیش نظر کسی کو ان پر حاکم بنائے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو گی۔ یایوں فرمایا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا ذمہ ختم ہو جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12071

۔ (۱۲۰۷۱)۔ وعَنْ مَسْعُودِ بْنِ قَبِیصَۃَ، أَوْ قَبِیصَۃَ بْنِ مَسْعُودٍ یَقُولُ: صَلّٰی ہٰذَا الْحَیُّ مِنْ مُحَارِبٍ الصُّبْحَ، فَلَمَّا صَلَّوْا، قَالَ شَابٌّ مِنْہُمْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّہُ سَیُفْتَحُ لَکُمْ مَشَارِقُ الْأَرْضِ وَمَغَارِبُہَا، وَإِنَّ عُمَّالَہَا فِی النَّارِ إِلَّا مَنِ اتَّقَی اللّٰہَ وَأَدَّی الْأَمَانَۃَ۔)) (مسند احمد: ۲۳۴۹۷)
مسعود بن قبییصہ یا قبیصہ بن مسعود کہتے ہیں کہ بنو محارب کے اس قبیلہ کے لوگوں نے نمازِ فجر ادا کی، جب وہ نماز پڑھ چکے تو ان میں سے ایک نوجوان نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: عنقریب تمہارے لیے زمین کے مشرق و مغرب کی فتح ہو گی، لیکن خبردار! نگران حکمران جہنم میں جائیں گے، سوائے ان لوگوں کے جو اللہ سے ڈر گئے اور امانت ادا کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12072

۔ (۱۲۰۷۲)۔ قَالَ عُمَرُ یَعْنِی لِکَعْبٍ: إِنِّی أَسْأَلُکَ عَنْ أَمْرٍ فَلَا تَکْتُمْنِی، قَالَ: وَاللّٰہِ! لَا أَکْتُمُکَ شَیْئًا أَعْلَمُہُ، قَالَ: مَا أَخْوَفُ شَیْئٍ تَخَوَّفُہُ عَلَی أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَئِمَّۃً مُضِلِّینَ، قَالَ عُمَرُ: صَدَقْتَ قَدْ أَسَرَّ ذٰلِکَ إِلَیَّ، وَأَعْلَمَنِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۲۹۳)
سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں، تم نے مجھ سے کوئی بات چھپانی نہیں ہے،سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں جو کچھ جانتا ہوں، اللہ کی قسم! اس میں سے کچھ بھی آپ سے نہیں چھپاؤں گا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم امت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں سب سے زیادہ کس چیز سے خوف کھاتے ہیں؟ انہوں نے کہا: گمراہ کرنے والے حکمرانوں سے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم نے درست کہا ہے،اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ بات راز دارانہ انداز سے بتلائی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12073

۔ (۱۲۰۷۳)۔ وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَقُولُ: کُنْتُ مُخَاصِرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا إِلٰی مَنْزِلِہِ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((غَیْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ عَلٰی أُمَّتِی مِنَ الدَّجَّالِ۔)) فَلَمَّا خَشِیتُ أَنْ یَدْخُلَ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَیُّ شَیْئٍ أَخْوَفُ عَلٰی أُمَّتِکَ مِنَ الدَّجَّالِ، قَالَ: ((الْأَئِمَّۃَ الْمُضِلِّینَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۲۲)
سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو بہ پہلو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر کی طرف جارہا تھا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: دجال کے علاوہ بھی ایک فتنہ ہے، جس کا مجھے اپنی امت پر اندیشہ ہے۔ جب میں اس بات سے ڈرا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو اپنے گھر میں داخل ہونے لگے ہیں تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ اپنی امت پر دجال سے بھی زیادہ کس بات کا اندیشہ رکھتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گمراہ کرنے والے حکمرانوں کا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12074

۔ (۱۲۰۷۴)۔ وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ: عَہِدَ اِلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اَنَّ اَخْوَفَ مَا اَخَافُ عَلَیْکُمْ الْاَئِمَّۃُ الضّٰلُّوْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۸۰۳۳)
سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے تاکیداً فرمایا کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر گمراہ حکمرانوں کا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12075

۔ (۱۲۰۷۵)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِکَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ: ((أَعَاذَکَ اللّٰہُ مِنْ إِمَارَۃِ السُّفَہَائِ۔)) قَالَ: ومَا إِمَارَۃُ السُّفَہَائِ؟ قَالَ: ((أُمَرَائُ یَکُونُونَ بَعْدِی لَا یَقْتَدُوْنَ بِہَدْیِی، وَلَا یَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِی، فَمَنْ صَدَّقَہُمْ بِکَذِبِہِمْ، وَأَعَانَہُمْ عَلٰی ظُلْمِہِمْ، فَأُولَئِکَ لَیْسُوا مِنِّی، وَلَسْتُ مِنْہُمْ، وَلَا یَرِدُوْا1 عَلَیَّ حَوْضِی، وَمَنْ لَمْ یُصَدِّقْہُمْ بِکَذِبِہِمْ، وَلَمْ یُعِنْہُمْ عَلٰی ظُلْمِہِمْ، فَأُولَئِکَ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُمْ، وَسَیَرِدُوْا عَلَیَّ حَوْضِی۔)) (مسند احمد: ۱۴۴۹۴)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا کعب بن عجرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اللہ تمہیں بے وقوفوںاور نااہل لوگوں کی حکمرانی سے بچائے۔ سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بے وقوفوں کی حکومت سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو امراء میرے بعد آئیں گے، وہ میرے طریقے کی اقتداء نہیں کریں گے اور میری سنتوں پر عمل نہیں کریں گے، جس نے ان کے جھوٹے ہونے کے باوجود ان کی تصدیق کی اور ان کے ظلم وجور کے باوجود ان کی مدد کی، ان کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہو گا اور نہ وہ مجھ پر میرے حوض پر آئیں گے اور جس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کی اور نہ ان کے ظلم پر ان کی اعانت نہ کی، وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں اور یہی لوگ میرے پاس میرے حوض پر آئیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12076

۔ (۱۲۰۷۶)۔ عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ دَخَلَ وَنَحْنُ تِسْعَۃٌ، وَبَیْنَنَا وِسَادَۃٌ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ: ((إِنَّہَا سَتَکُونُ بَعْدِی أُمَرَائُ، یَکْذِبُونَ وَیَظْلِمُونَ، فَمَنْ دَخَلَ عَلَیْہِمْ فَصَدَّقَہُمْ بِکِذْبِہِمْ۔)) فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔ (مسنداحمد: ۱۸۳۰۶)
سیدنا کعب بن عجرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے،ہم نو آدمی تھے، ہمارے درمیان چمڑے کا ایک تکیہ پڑا تھا، آپ نے فرمایا: عنقریب میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے، جو جھوٹ بولیں گے اور ظلم کریںگے، جو ان کے پا س گیا اور ان کے جھوٹ پر ان کی تصدیق کی، … پھر سابق روایت کی طرح کے الفاظ ذکر کیے۔ ! مضارع کے نون اعرابی گرنے کی ظاہری کوئی وجہ نظر نہیں آتی (محقق مسند)۔ (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12077

۔ (۱۲۰۷۷)۔ وَعَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَّانِ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوُہُ۔ (مسند احمد: ۲۳۶۴۹)
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی قسم کی حدیث بیان کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12078

۔ (۱۲۰۷۸)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ بَعْدَ صَلَاۃِ الْعِشَائِ، رَفَعَ بَصَرَہُ إِلَی السَّمَائِ ثُمَّ خَفَضَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہُ قَدْ حَدَثَ فِی السَّمَائِ شَیْئٌ، فَقَالَ: ((أَلَا إِنَّہُ سَیَکُونُ بَعْدِی أُمَرَائُ یَکْذِبُونَ وَیَظْلِمُونَ، فَمَنْ صَدَّقَہُمْ بِکَذِبِہِمْ وَمَالَأَہُمْ عَلٰی ظُلْمِہِمْ، فَلَیْسَ مِنِّی وَلَا أَنَا مِنْہُ، وَمَنْ لَمْ یُصَدِّقْہُمْ بِکَذِبِہِمْ وَلَمْ یُمَالِئْہُمْ عَلٰی ظُلْمِہِمْ فَہُوَ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ، أَلَا وَإِنَّ دَمَ الْمُسْلِمِ کَفَّارَتُہُ، أَلَا وَإِنَّ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، ہُنَّ الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۵۴۳)
سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آسمان کی طرف اپنی نظر اٹھائی اور پھر اسے نیچے کیا، یہاں تک کہ ہم نے سمجھاکہ آسمان پر کوئی اہم واقعہ رونماہوا ہے، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے، جو جھوٹ بولیں گے اور ظلم کریں گے، جس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اور ظلم پر ان کی مدد کی، اس کا مجھ سے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں اور جس نے ان کی جھوٹ کی تصدیق نہیں کی اور ان کے ظلم پر ان کی موافقت نہ کی، وہ میرا اور میں اس کا ہوں، خبردار! مسلمان کا خون کفارہ ہے اوریہ کلمات باقی رہنے والے اعمال صالحہ ہیں: سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلَّہِ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ اور اَللَّہُ أَکْبَرُ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12079

۔ (۱۲۰۷۹)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّہُ سَیَکُونُ عَلَیْکُمْ أُمَرَائُ وَتَرَوْنَ أَثْرَۃً۔)) قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَمَا یَصْنَعُ مَنْ أَدْرَکَ ذَاکَ مِنَّا؟ قَالَ: ((أَدُّوا الْحَقَّ الَّذِی عَلَیْکُمْ، وَسَلُوْا اللّٰہَ الَّذِی لَکُمْ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ((اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِیْ اَثْرَۃً وَاُمُوْرًا تُنْکِرُوْنَھَا۔)) قَالَ: قُلْنَا: مَا تَاْمُرُنَا؟ قَالَ: ((اَدُّوْا لَہُمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُو اللّٰہَ حَقَّکُمْ۔)) (مسند احمد: ۳۶۴۰)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب تمہارے اوپر کچھ حکمران مسلط ہوں گے، تم دیکھو گے کہ وہ مستحقین پر غیر مستحق لوگوں کو ترجیح دیں گے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو آدمی ایسے حالات پائے، وہ کیا کرے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ذمہ جو حقوق ہوں، تم ان کو ادا کرنا اور جو تمہارے حقوق ہوں، تم ان کا اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا۔ ایک روایت میں ہے: تم میرے بعد دیکھو گے کہ نا اہل اور غیر مستحق لوگوں کو ترجیح دی جائے گی اور تم ایسے ایسے کام دیکھو گے جنہیں تم اچھا نہیں سمجھو گے۔ ہم نے کہا: ایسی صور ت حال میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ذمے ان کے جو حقوق ہوں، تم انہیں ادا کرتے رہنا اور اپنے حقوق کا اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے رہنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12080

۔ (۱۲۰۸۰)۔ (وَعَنْہٗبِلَفْظٍآخَرَ) قَالَ: قَالَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّہُ سَیَلِی أَمْرَکُمْ مِنْ بَعْدِی رِجَالٌ یُطْفِئُونَ السُّنَّۃَ، وَیُحْدِثُونَ بِدْعَۃً، وَیُؤَخِّرُونَ الصَّلَاۃَ عَنْ مَوَاقِیتِہَا۔)) قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَیْفَ بِی إِذَا أَدْرَکْتُہُمْ، قَالَ: ((لَیْسَیَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ! طَاعَۃٌ لِمَنْ عَصَی اللّٰہَ۔)) قَالَہَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔ (مسند احمد: ۳۷۸۹)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے بعد تم پر ایسے لوگ حکمران ہوں گے، جو سنتوں کو مٹائیں گے،بدعات کو فروغ دیں گے اور نمازوں کو ان کے مقررہ اوقات سے مؤخر کریں گے۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں ان لوگوں کو پالوں تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام عبد کے بیٹے! اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے کی اطاعت نہیں ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار یہ بات ارشاد فرمائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12081

۔ (۱۲۰۸۱)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((سَیَکُونُ عَلَیْکُمْ أُمَرَائٌ یَأْمُرُونَکُمْ بِمَا لَا یَفْعَلُونَ، فَمَنْ صَدَّقَہُمْ بِکِذْبِہِمْ، وَأَعَانَہُمْ عَلٰی ظُلْمِہِمْ، فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُ، وَلَنْ یَرِدَ عَلَیَّ الْحَوْضَ۔)) (مسند احمد: ۵۷۰۲)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب تمہارے اوپر ایسے حکمران آئیں گے کہ وہ تمہیں ایسی باتوں کا حکم دیں گے جن پر خود عمل نہیں کریں گے، جس نے ان کے جھوٹ پر ان کی تصدیق کی اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کی، وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں، ایسا آدمی ہر گز میرے پاس حوض پر نہیں آئے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12082

۔ (۱۲۰۸۲)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((تَکُونُ أُمَرَائُ تَغْشَاہُمْ غَوَاشٍ أَوْ حَوَاشٍ مِنَ النَّاسِ، یَظْلِمُونَ وَیَکْذِبُونَ، فَمَنْ دَخَلَ عَلَیْہِمْ، فَصَدَّقَہُمْ بِکَذِبِہِمْ، وَأَعَانَہُمْ عَلٰی ظُلْمِہِمْ، فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُ، وَمَنْ لَمْ یَدْخُلْ عَلَیْہِمْ، وَیُصَدِّقْہُمْ بِکَذِبِہِمْ، وَیُعِنْہُمْ عَلٰی ظُلْمِہِمْ، فَہُوَ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۱۰)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کچھ حکمران ہوں گے کمینے قسم کے لوگ ان کے پاس کثرت سے ہوں گے، وہ ظلم کریں گے او رجھوٹ بولیں گے، جو آدمی ان کے پاس جا کر ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم پر ان کی اعانت کرے گا، اس کا مجھ سے اور میرا اس سے کچھ تعلق نہیں ہے اور جو آدمی ان کے پاس نہ گیا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کی او رنہ ظلم پر ان کی مدد کی، وہ مجھ سے ہے اور میں اس کاہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12083

۔ (۱۲۰۸۳)۔ وعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّہُ حَدَّثَہُمْ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ضَافَ ضَیْفٌ رَجُلًا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، وَفِی دَارِہِ کَلْبَۃٌ مُجِحٌّ، فَقَالَتِ الْکَلْبَۃُ: وَاللّٰہِ! لَا أَنْبَحُ ضَیْفَ أَہْلِی، قَالَ: فَعَوٰی جِرَاؤُہَا فِی بَطْنِہَا، قَالَ: قِیلَ: مَا ہٰذَا؟ قَالَ: فَأَوْحَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلٰی رَجُلٍ مِنْہُمْ، ہٰذَا مَثَلُ أُمَّۃٍ تَکُونُ مِنْ بَعْدِکُمْ، یَقْہَرُ سُفَہَاؤُہَا أَحْلَامَہَا۔)) (مسند احمد: ۶۵۸۸)
عبد اللہ بن عمر و بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل میں ایک آدمی دوسرے کے ہاں مہمان ٹھہرا، میزبان کے گھر میں ایک حاملہ کتیا تھی، کتیا نے سوچا، اللہ کی قسم! میں اپنے مالکوں کے مہمان کو نہیں بھونکوں گی۔ اتنے میں اس کے پیٹ کا پلّا مسلسل چیخنے لگ گیا، کسی نے کہا: یہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک آدمی کی طرف وحی کی کہ یہ اس امت کی مثال ہے، جو تمہارے بعد آئے گی، اس کے بیوقوف لوگ اس کے عقلمندوں پر غالب آ جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12084

۔ (۱۲۰۸۴)۔ وَعَنْ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ قَالَ: إِنَّا لَقُعُودٌ عَلٰی بَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، نَنْتَظِرُ أَنْ یَخْرُجَ لِصَلَاۃِ الظُّہْرِ، إِذْ خَرَجَ عَلَیْنَا، فَقَالَ: ((اسْمَعُوْا۔)) فَقُلْنَا: سَمِعْنَا، ثُمَّ قَالَ: ((اسْمَعُوْا۔)) فَقُلْنَا: سَمِعْنَا، فَقَالَ: ((إِنَّہُ سَیَکُونُ عَلَیْکُمْ أُمَرَائُ فَلَا تُعِینُوہُمْ عَلٰی ظُلْمِہِمْ، فَمَنْ صَدَّقَہُمْ بِکَذِبِہِمْ، فَلَنْ یَرِدَ عَلَیَّ الْحَوْضَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۳۸۹)
سیدنا خباب بن ارت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دروازے پر بیٹھے اس انتظار میں تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نمازِ ظہر کے لیے باہر تشریف لائیں گے، آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا: سنو! ہم نے عرض کیا: جی ہم سن رہے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ فرمایا: سنو! ہم نے کہا: ہم سن رہے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب تمہارے اوپر حکمران مسلط ہوں گے، تم نے ان کے ظلم پر ان کی مدد نہیں کرنا، جس نے ان کے جھوٹ پر ان کی تصدیق کی وہ حوضِ کوثر پرمیرے پاس نہیں آئے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12085

۔ (۱۲۰۸۵)۔ وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((سَیَکُوْنُ اُمَرَائُ بَعْدِیْ،یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ، وَیَفْعَلُوْنَ مَالَا یُؤْمَرُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۴۳۶۳)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے بعد عنقریب ایسے حکمران آئیں گے، جو ایسی باتیں کریں گے، جن پر ان کا اپنا عمل نہیں ہو گا اور وہ جو کچھ کریں گے، اس کا ان کو حکم نہیں دیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12086

۔ (۱۲۰۸۶)۔ حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، وَأَبُو الْمُنْذِرِ إِسْمَاعِیلُ بْنُ عُمَرَ قَالَا: ثَنَا کَامِلٌ، قَالَ: ثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَا تَذْہَبُ الدُّنْیَا حَتّٰی تَصِیرَ لِلُکَعٍ۔)) قَالَ إِسْمَاعِیلُ بْنُ عُمَرَ: حَتَّی تَصِیرَ لِلُکَعِ بْنِ لُکَعٍ، و قَالَ ابْنُ أَبِی بُکَیْرٍ: لِلَکِیعِ بْنِ لَکِیعٍ، و قَالَ أَسْوَدُ: یَعْنِی اللَّئِیْمَ بْنَ اللَّئِیْمِ۔ (مسند احمد: ۸۳۰۵)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی، جب تک کہ یہ حقیر کی ملکیت میں نہیں آجائے گی۔ اسمٰعیل بن عمر اور ابن بکیر نے کہا: جب تک یہ حقیر بن حقیر کی ملکیت میں نہیں آجائے گی۔ اسود راوی نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد برا شخص کا برا بیٹا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12087

۔ (۱۲۰۸۷)۔ وَعَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ بْنِ نِیَارٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلُہُ۔ (مسند احمد: ۱۵۹۳۱)
سیدنا ابو بردہ بن نیاز ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس قسم کی حدیث بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12088

۔ (۱۲۰۸۸)۔ عَنْ شُرَیْحِ بْنِ عُبَیْدٍ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ وَعَمْرِو بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ وَأَبِی أُمَامَۃَ، قَالَا: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّ الْأَمِیرَ إِذَا ابْتَغَی الرِّیبَۃَ فِی النَّاسِ أَفْسَدَہُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۴۳۱۶)
سیدنا مقداد بن اسود اور سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب حاکم لوگوںکے عیوب ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے تو وہ ان کو خراب کر دیتاہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12089

۔ (۱۲۰۸۸)۔ عَنْ شُرَیْحِ بْنِ عُبَیْدٍ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ وَعَمْرِو بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ وَأَبِی أُمَامَۃَ، قَالَا: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّ الْأَمِیرَ إِذَا ابْتَغَی الرِّیبَۃَ فِی النَّاسِ أَفْسَدَہُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۴۳۱۶)
سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اللہ کی معصیت کر کے اپنے بادشاہ کو تقویت پہنچاتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مکر کو کمزور اور ناکام کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12090

۔ (۱۲۰۹۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِذَا بَلَغَ بَنُو آلِ فُلَانٍ ثَلَاثِینَ رَجُلًا، اتَّخَذُوْا مَالَ اللّٰہِ دُوَلًا، وَدِینَ اللّٰہِ دَخَلًا، وَعِبَادَ اللّٰہِ خَوَلًا۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۸۰)
ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب فلاں آدمی کی اولاد کی تعداد تیس ہوجائے گی تو یہ لوگ اللہ کے مال کو آپس میں ہی ادل بدل کریں گے، اللہ تعالیٰ کے دین میں عیب و نقص نکالیں گے اور اللہ کے بندوں کو غلام بنا لیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12091

۔ (۱۲۰۹۱)۔ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی صَالِحٍ، قَالَ: أَقْبَلَ مَرْوَانُ یَوْمًا، فَوَجَدَ رَجُلًا وَاضِعًا وَجْہَہُ عَلَی الْقَبْرِ فَقَالَ: أَتَدْرِی مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ فَإِذَا ہُوَ أَبُو أَیُّوبَ، فَقَالَ: نَعَمْ، جِئْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((لَا تَبْکُوا عَلَی الدِّینِ إِذَا وَلِیَہُ أَہْلُہُ، وَلٰکِنْ ابْکُوا عَلَیْہِ إِذَا وَلِیَہُ غَیْرُ أَہْلِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۹۸۳)
داود بن ابی صالح کہتے ہیں کہ ایک دن مرو ان آیا اور اس نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے اپنا چہرہ قبر کے اوپر رکھا ہوا تھا، مروان نے کہا: کیا تو جانتا ہے کہ تو کیا کر رہا ہے؟ جب وہ اس پر متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ وہ تو سیدنا ابو ایو ب تھے، پس انہوں نے کہا: ہاں، میں جانتا ہوں، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا ہوں، نہ کہ کسی پتھر کے پاس، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جب دین کے وارث اہل اور مستحق لوگ ہوں تو تم دین پر مت رونا، البتہ تم دین پر اس وقت رونا، جب نا اہل لوگ اس کے وارث اور مالک بن جائیں گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12092

۔ (۱۲۰۹۲)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ، حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ: وَیَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ: دَخَلَ عَائِذُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ یَزِیدُ: وَکَانَ مِنْ صَالِحِی أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، عَلٰی عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ زِیَادٍ، فَقَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((شَرُّ الرِّعَائِ الْحُطَمَۃُ۔)) قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ: فَأَظُنُّہُ قَالَ: إِیَّاکَ أَنْ تَکُونَ مِنْہُمْ، وَلَمْ یَشُکَّ یَزِیدُ فَقَالَ: اجْلِسْ إِنَّمَا أَنْتَ مِنْ نُخَالَۃِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: وَہَلْ کَانَتْ لَہُمْ أَوْ فِیہِمْ نُخَالَۃٌ، إِنَّمَا کَانَتْ النُّخَالَۃُ بَعْدَہُمْ وَفِی غَیْرِہِمْ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۱۳)
حسن کہتے ہیں کہ سیدنا عائذبن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ نیکوکار صحابہ میں سے تھے، عبید اللہ بن زیاد کے ہاں گئے،اور انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بد ترین حکمران وہ ہوں گے جو لوگوں پر ظلم ڈھائیں گے، پس تو ان میں سے ہونے سے بچ جا۔ آگے سے ابن زیاد نے کہا: بیٹھ جا، تو تو آٹے کے چھانن کی طرح کم تر صحابہ میں سے ہے، انھوں نے کہا: صحابۂ کرام میں سے کم تر کوئی نہیں تھا، یہ کمتری تو بعد والوں میں اور غیر صحابہ میں پائی جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12093

۔ (۱۲۰۹۳)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((ہَلَاکُ أُمَّتِی عَلٰییَدِ غِلْمَۃٍ مِنْ قُرَیْشٍ۔)) قَالَ مَرْوَانُ: وَہُوَ مَعَنَا فِی الْحَلْقَۃِ قَبْلَ أَنْ یَلِیَ شَیْئًا، فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ غِلْمَۃً، قَالَ: وَ أَمَا وَاللّٰہِ لَوْ أَشَائُ أَقُولُ بَنُو فُلَانٍ وَبَنُو فُلَانٍ لَفَعَلْتُ، قَالَ: فَقُمْتُ أَخْرُجُ أَنَا مَعَ أَبِی وَجَدِّی إِلٰی مَرْوَانَ بَعْدَمَا مُلِّکُوا، فَإِذَا ہُمْ یُبَایِعُونَ الصِّبْیَانَ مِنْہُمْ، وَمَنْ یُبَایِعُ لَہُ، وَہُوَ فِی خِرْقَۃٍ، قَالَ لَنَا: ہَلْ عَسَی أَصْحَابُکُمْ ہٰؤُلَائِ أَنْ یَکُونُوا الَّذِینَ سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَیَذْکُرُ أَنَّ ہٰذِہِ الْمُلُوکَ یُشْبِہُ بَعْضُہَا بَعْضًا۔ (مسند احمد: ۸۲۸۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کی ہلاکت قریش کے لڑکوں کے ہاتھوں سے ہوگی۔ اس وقت مروان بھی ہمارے ساتھ اس حلقہ درس میں موجود تھا اور ابھی اسے حکومت نہیں ملی تھی، یہ سن کر وہ کہنے لگا: ان نوجوانوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر میں چاہوں تو بیان کرسکتا اور بتاسکتا ہوں کہ وہ بنو فلاں اور بنو فلاں ہوںگے۔ یعنی سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے قبائل اور خاندانوں کے ناموں سے بھی واقف تھے، بعد میں جب مروان کا خاندان بر سراقتدار آیا تو میں اپنے والد اور دادا کے ہمراہ مروان کے ہاں گیا،وہ اپنے لڑکوں کے حق میں بیعت لے رہے تھے اور بیعت کرنے والے بھی لڑکے ہی تھے، مروان شاہی لباس زیب تن کیے ہوئے تھے، اس نے ہم سے کہا: میں نے ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا تھا کہ وہ ذکر کر رہے تھے کہ یہ بادشاہ ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12094

۔ (۱۲۰۹۴)۔ عَنْ مَالِکِ بْنِ ظَالِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَیَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَبَا الْقَاسِمِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃ وَالسَّلَامُ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ، یَقُولُ: ((إِنَّ ہَلَاکَ أُمَّتِی أَوْ فَسَادَ أُمَّتِی رُئُ وْسٌ أُمَرَائُ أُغَیْلِمَۃٌ سُفَہَائُ مِنْ قُرَیْشٍ۔)) (مسند احمد: ۷۹۶۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ابو القاسم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سچے ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تصدیق کی گئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کی ہلاکت اور فساد قریش کے ناسمجھ نوجوان حکمرانوں کے ہاتھوں سے ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12095

۔ (۱۲۰۹۵)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ رَاْسِ السَّبْعِیْنَ، وَاِمَارَۃِ الصِّیْبَانِ۔)) (مسند احمد: ۸۶۳۹)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ستر سال کے بعد والے دور سے اور لڑکوں کی حکومت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12096

۔ (۱۲۰۹۶)۔ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَہْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ کَلِمَتَیْنِ، مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، کَلِمَۃٌ وَمِنَ النَّجَاشِیِّ أُخْرٰی، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((انْظُرُوْا قُرَیْشًا فَخُذُوْا مِنْ قَوْلِہِمْ، وَذَرُوْا فِعْلَہُمْ۔)) وَکُنْتُ عِنْدَ النَّجَاشِیِّ جَالِسًا فَجَائَ ابْنُہُ مِنَ الْکُتَّابِ فَقَرَأَ آیَۃً مِنَ الْإِنْجِیلِ، فَعَرَفْتُہَا أَوْ فَہِمْتُہَا فَضَحِکْتُ، فَقَالَ: مِمَّ تَضْحَکُ أَمِنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی؟ فَوَاللّٰہِ! إِنَّ مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ أَنَّ اللَّعْنَۃَ تَکُونُ فِی الْأَرْضِ، إِذَا کَانَ أُمَرَاؤُہَا الصِّبْیَانَ۔ (مسند احمد: ۱۵۶۲۱)
سیدنا عامر بن شہر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دو خاص باتیں سنی ہیں، ایک نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور دوسری نجاشی سے۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ تم قریش پر نظر رکھنا، تم نے ان کی باتیں قبول کر لینی ہیں اور ان کے کردار کو چھوڑ دینا ہے۔ اور میں نجاشی کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ اس کا بیٹا ایک کتاب لے کرآیا، اس نے انجیل کی ایک آیت پڑھی، میں نے اسے سمجھ لیا تو میں ہنس پڑا، نجاشی نے کہا: تم کس بات پر ہنسے ہو؟ کیا تم اللہ تعالیٰ کی کتاب سن کر ہنسے ہو؟ اللہ کی قسم! عیسیٰ بن مریم پر جو باتیں نازل کی گئی تھیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جب دنیا میں نوجوان حکمران ہوں گے تو زمین پر لعنت اترے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12097

۔ (۱۲۰۹۷)۔ عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ أَنَّہُ شَہِدَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَتَاہُ بَشِیرٌیُبَشِّرُہُ بِظَفَرِ جُنْدٍ لَہُ عَلٰی عَدُوِّہِمْ وَ رَأْسُہُ فِی حِجْرِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، فَقَامَ فَخَرَّ سَاجِدًا، ثُمَّ أَنْشَأَیُسَائِلُ الْبَشِیرَ، فَأَخْبَرَہُ فِیمَا أَخْبَرَہُ أَنَّہُ وَلِیَ أَمْرَہُمُ امْرَأَۃٌ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((الْآنَ ہَلَکَتِ الرِّجَالُ إِذَا أَطَاعَتِ النِّسَائَ، ہَلَکَتِ الرِّجَالُ إِذَا أَطَاعَتِ النِّسَائَ ثَلَاثًا۔)) (مسند احمد: ۲۰۷۲۹)
فصل چہارم: خواتین کی حکومت و سربراہی کا بیان
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12098

۔ (۱۲۰۹۸)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( مَنْ یَلِیْ اَمْرَ فَارِسٍ))) قَالُوْ: اِمْرَاَۃٌ، قَالَ: ((مَا اَفْلَحَ قَوْمٌ یَلِیْ اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۰۷۸۲)
سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایران کا حکمر ان کون ہے؟ صحابہ نے بتلایا کہ ایک عورت ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی، جس پر عورت حکمران ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12099

۔ (۱۲۰۹۹)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِلَفْظٍ: ((لَنْ یُفْلِحَ قَوْمٌ تَمْلِکُھُمْ اِمْرَاَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۰۶۷۳)
۔ (دوسری سند)نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس قوم پر عورت حکمران ہو وہ ہرگز فلاح نہیں پاسکتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12100

۔ (۱۲۱۰۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَنْ یُفْلِحَ قَوْمٌ اَسْنَدُوْا اَمْرَھُمْ اِلٰی اِمْرَاَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۲۰۶۷۳)
سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پاسکتی، جو اپنے معاملات کو عورتوں کے سپرد کردیتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12101

۔ (۱۲۱۰۱)۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ: اَنَّ رَجُلًا مِنْ اَھْلِ فَارِسٍ اَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اِنَّ رَبِّیْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی قَدْ قَتَلَ رَبَّکَ)) (یَعْنِیْ کِسْریٰ)، قَالَ: وَقِیْلَ لَہُ (یَعْنِی لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ): اِنَّہُ قَدِ اسْتَخْلَفَ اِبْنَتَہٗ،قَالَ: فَقَالَ: ((لَا یُفْلِحُ قَوْمٌ تَمْلِکُہُمُ امْرَاَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۰۷۱۰)
سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اہلِ فارس میں سے ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ربّ تبارک وتعالیٰ نے تمہارے ربّ یعنی کسریٰ کو قتل کر دیا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا گیا کہ اس نے اپنی بیٹی کو اپنا نائب بنا رکھا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ قوم فلاح نہیں پائے گی، جس پر عورت حکمران ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12102

۔ (۱۲۱۰۲)۔ عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتْلُوْ عَلَیَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا} حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الْآیَۃِ، ثُمَّ قَالَ: ((یَا أَبَا ذَرٍّ! لَوْ أَنَّ النَّاسَ کُلَّہُمْ أَخَذُوا بِہَا لَکَفَتْہُمْ۔)) قَالَ: فَجَعَلَ یَتْلُو بِہَا وَیُرَدِّدُہَا عَلَیَّ حَتّٰی نَعَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: ((یَا أَبَا ذَرٍّ کَیْفَ تَصْنَعُ إِنْ أُخْرِجْتَ مِنَ الْمَدِینَۃِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: إِلَی السَّعَۃِ وَالدَّعَۃِ أَنْطَلِقُ حَتَّی أَکُونَ حَمَامَۃً مِنْ حَمَامِ مَکَّۃَ، قَالَ: ((کَیْفَ تَصْنَعُ إِنْ أُخْرِجْتَ مِنْ مَکَّۃَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: إِلَی السَّعَۃِ وَالدَّعَۃِ إِلَی الشَّامِ وَالْأَرْضِ الْمُقَدَّسَۃِ، قَالَ: ((وَکَیْفَ تَصْنَعُ إِنْ أُخْرِجْتَ مِنَ الشَّامِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: إِذَنْ وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ أَضَعَ سَیْفِی عَلٰی عَاتِقِی، قَالَ: ((أَوَ خَیْرٌ مِنْ ذٰلِکَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: أَوَ خَیْرٌ مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: ((تَسْمَعُ وَتُطِیعُ وَإِنْ کَانَ عَبْدًا حَبَشِیًّا۔)) (مسند احمد: ۲۱۸۸۴)
سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: {وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا} … جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے نکلنے کی جگہ بنا دیتا ہے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’اے ابو ذر! اگر سب لوگ اس آیت پر عمل کرنے لگ جائیں تو یہ آیت ان سب کے لیے کافی ہو گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس آیت کو پڑھتے اور میرے سامنے بار بار دہراتے رہے، یہاں تک کہ میں اونگھنے لگا۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر! اگر تمہیں مدینہ سے نکال دیا گیا، تو تم کیا کرو گے؟ انھوں نے کہا: میں کسی ایسے علاقے میں چلا جاؤں گا، جہاں وسعت اور فراخی ہوگی، میں مکہ جا کر اس کے کبوتروں میں سے ایک کبوتر بن جاؤںگا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں مکہ سے نکال دیا گیا تو پھر کیا کرو گے؟ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں وسعت وفراخی والی جگہ شام کی طرف چلا جاؤں گا کہ وہ مقدس سرزمین ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں شام سے بھی نکال دیا گیا تو تب کیاکروگے؟ انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! تب میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ لوںگا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تجھے اس سے بہتر چیز نہ بتلا دوں؟ انھوں نے کہا: کیا کوئی کام اس سے بھی بہتر ہے؟ آ پ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم حاکم کی بات سننا اور اس کو مان لینا، خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12103

۔ (۱۲۱۰۳)۔ عَنْ أَبِی ذَرٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((یَا أَبَا ذَرٍّ! کَیْفَ أَنْتَ عِنْد وُلَاۃٍ؟ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: کَیْفَ اَنْتَ وَاٰئِمَّۃٌ مِنْ بَعْدِیْ؟) یَسْتَأْثِرُونَ عَلَیْکَ بِہٰذَا الْفَیْئِ۔)) قَالَ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، أَضَعُ سَیْفِی عَلٰی عَاتِقِی فَأَضْرِبُ بِہِ حَتّٰی أَلْحَقَکَ، قَالَ: ((أَفَلَا أَدُلُّکَ عَلٰی خَیْرٍ لَکَ مِنَ ذٰلِکَ، تَصْبِرُ حَتّٰی تَلْقَانِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۱۸۹۱)
سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! جب ایسے حکمران آجائیں جو مال کے بارے میں تمہارے اوپر دوسروں کو ترجیح دیں گے تو تم کیا کرو گے؟ انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ لوں گا۔ اور پھر اس کے ساتھ لڑنا شروع کر دوں گا، یہاں تک کہ آپ سے آ ملوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتلادوں؟ وہ یہ ہے کہ تم ان حالات پر صبر کرنا، یہاں تک کہ مجھے آملو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12104

۔ (۱۲۱۰۴)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((عَلَیْکَ السَّمْعَ وَالطَّاعَۃَ فِی عُسْرِکَ وَیُسْرِکَ، وَمَنْشَطِکَ وَمَکْرَہِکَ، وَأَثَرَۃٍ عَلَیْکَ وَلَا تُنَازِعِ الْأَمْرَ أَہْلَہُ، وَإِنْ رَأَیْتَ أَنَّ لَکَ۔)) زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: ((مَالَمْ یَاْمُرُوْکَ بِاِثْمٍ بَوَاحٍ۔)) (مسند احمد: ۲۳۱۱۵)
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مشکل ہویا آسانی،خوشی ہو یا غمی اور خواہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے، تم پر لازم ہے کہ تم حکمران کی بات سنو اور اس کو تسلیم کرو اور حکومت کے بارے میں حکومت والوں سے جھگڑا نہ کرواور تم ان کی اطاعت کرو، جب تک وہ تمہیں صریح گناہ کا حکم نہ دیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12105

۔ (۱۲۱۰۵)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((عَلَیْکَ السَّمْعَ وَالطَّاعَۃَ فِی عُسْرِکَ وَیُسْرِکَ، وَمَنْشَطِکَ وَمَکْرَہِکَ، وَأَثَرَۃٍ عَلَیْکَ۔)) (مسند احمد: ۸۹۴۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مشکل ہو یا آسانی، خوشی ہو یا ناخوشی اور بیشک تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے، پھر بھی تم نے حکمران کی بات سننی ہے اور اس کو ماننا ہے۔ ‘
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12106

۔ (۱۲۱۰۶)۔ عَنْ أُمِّ الْحُصَیْنِ الْأَحْمَسِیَّۃِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ بِعَرَفَاتٍ وَہُوَ یَقُولُ: ((وَلَوِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ یَقُودُکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ فَاسْمَعُوا لَہُ وَأَطِیعُوْا۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: و سَمِعْتُ أَبِییَقُولُ: إِنِّی لَأَرٰی لَہُ السَّمْعَ وَالطَّاعَۃَ، فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۱۲)
سیدہ ام حصین احمسیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عرفات میں خطبہ ارشاد فرما تے ہوئے سنا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے اوپر کسی غلام کو حکمران بنا دیاجائے اور وہ کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت و رہنمائی کرے تو تم اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ عبداللہ بن امام احمد کہتے ہیں: میرے والد نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ مشکل ہو یا آسانی، خوشی ہو یا مجبوری، ہر حال میں حکمران کی بات سننی اور اس کی اطاعت کرنی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12107

۔ (۱۲۱۰۷)۔ (وَعَنْھَا مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَتْ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ یَخْطُبُ عَلَی الْمِنْبَرِ، عَلَیْہِ بُرْدٌ لَہُ قَدْ الْتَفَعَ بِہِ مِنْ تَحْتِ إِبْطِہِ، قَالَتْ: فَأَنَا أَنْظُرُ إِلَی عَضَلَۃِ عَضُدِہِ تَرْتَجُّ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! اتَّقُوا اللّٰہَ وَإِنْ أُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ مُجَدَّعٌ، فَاسْمَعُوْا لَہُ وَأَطِیعُوْا مَا أَقَامَ فِیکُمْ کِتَابَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۲۷۸۰۲)
فوائد:… اگر حکمران قرآن و حدیث کی روشنی میں رعایا کی حکمرانی کر رہا ہو تو پھر تو کوئی چارۂ کار نہیں ہو گا، ما سوائے اس کے کہ اس کی بات مانی جائے، اگرچہ وہ ناقص الخلقت اور ادھورا ہو، مال و دولت سے محروم ہو اور حسن و جمال سے خالی ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12108

۔ (۱۲۱۰۸)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((یَکُونُ عَلَیْکُمْ أُمَرَائُ تَطْمَئِنُّ إِلَیْہِمُ الْقُلُوبُ، وَتَلِینُ لَہُمُ الْجُلُودُ، ثُمَّ یَکُونُ عَلَیْکُمْ أُمَرَائُ تَشْمَئِزُّ مِنْہُمُ الْقُلُوبُ، وَتَقْشَعِرُّ مِنْہُمُ الْجُلُودُ۔)) فَقَالَ رَجُلٌ: أَنُقَاتِلُہُمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لَا، مَا أَقَامُوا الصَّلَاۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۴۲)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے او پر ایسے حکمران آئیں گے، جن کی حکمرانی پر تمہارے دل مطمئن ہوںگے اور تمہاری جلد ان کی اطاعت کے لیے نرم ہوگی، لیکن ان کے بعد ایسے حکمران بھی آئیں گے، جن سے تمہارے دل نفرت کریں گے اور ان کے خوف سے تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم ایسے حکمرانوں سے لڑائی کریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تک وہ نماز قائم رکھیں گے، اس وقت تک ان سے لڑنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12109

۔ (۱۲۱۰۹)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّہُ سَتَکُونُ أُمَرَائُ تَعْرِفُونَ وَتُنْکِرُونَ، فَمَنْ أَنْکَرَ فَقَدْ بَرِئَ، وَمَنْ کَرِہَ فَقَدْ سَلِمَ، وَلٰکِنْ مَنْ رَضِیَ وَتَابَعَ۔)) قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَفَلَا نُقَاتِلُہُمْ؟ قَالَ: ((لَا، مَا صَلَّوْا لَکُمُ الْخَمْسَ۔)) (مسند احمد: ۲۷۰۶۳)
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب ایسے حکمران ہوں گے کہ تم ان کے بعض امور کو پسند کرو گے اور بعض کو ناپسند، جس نے ان کے غلط کام پر انکار کیا، وہ بری ہو گیا، (یعنی اس نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی) ،جس نے ان کے غلط کام کو ناپسند کیا، وہ بھی (اللہ کی ناراضگی سے) بچ گیا، لیکن جو آدمی ان کے غلط کاموں پر راضی ہو گیا اور ان کی پیروی کرتا رہا، ( وہ اللہ کی ناراضگی سے نہیں بچ سکے گا۔) صحابہ کرام نے کہا:اللہ کے رسول! کیا ہم ایسے حکمرانوں سے لڑائی نہ کریں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، وہ جب تک تمہارے لیے (یعنی تمہارے سامنے) پانچ نماز ادا کرتے رہیں گے، اس وقت تک نہیں لڑنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12110

۔ (۱۲۱۱۰)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اسْمَعُوا وَأَطِیعُوا، وَإِنْ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ حَبَشِیٌّ، کَأَنَّ رَأْسَہُ زَبِیبَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۱۲۱۵۰)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم حکمران کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، خواہ تمہارے اوپر کوئی ایسا حبشی حکمران بنا دیا جائے، جس کا سر منقّی جیسا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12111

۔ (۱۲۱۱۱)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یُہْلِکُ أُمَّتِی ہٰذَا الْحَیُّ مِنْ قُرَیْشٍ۔)) قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوہُمْ۔)) و قَالَ أَبِی فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ: اضْرِبْ عَلٰی ہٰذَا الْحَدِیثِ فَإِنَّہُ خِلَافُ الْأَحَادِیثِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَعْنِی قَوْلَہُ: ((اسْمَعُوا وَأَطِیعُوا وَاصْبِرُوا۔)) (مسند احمد: ۷۹۹۲)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریش کا قبیلہ میری امت کو ہلاک کرے گا۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسے حالات میں آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر لوگ ان سے الگ تھلک رہیں گے( تو وہ ان کے شرّ سے بچے رہیں گے۔ امام احمد نے مرض الموت کے دنوں میں کہا: اس حدیث کو مٹا دو، کیونکہ یہ حدیث ان احادیث کے خلاف ہے، جن میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم حکمرانوں کی بات سنو، ان کی اطاعت کرو اور صبر کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12112

۔ (۱۲۱۱۲)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ، وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ، وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ۔)) (مسند احمد: ۷۶۴۳)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیرکی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیرکی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12113

۔ (۱۲۱۱۳)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ قَالَ: قُرِئَ عَلٰی سُفْیَانَ، سَمِعْتُ أَبَا الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَسَمِعْتُ سُفْیَانَیَقُولُ: ((مَنْ أَطَاعَ أَمِیرِی فَقَدْ أَطَاعَنِی، وَمَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۷۳۳۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی۔ اور جس نے میری اطاعت کی، اس نے دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12114

۔ (۱۲۱۱۴)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ عَبَدَ اللّٰہَ لَا یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا، فَأَقَامَ الصَّلَاۃَ، وَآتَی الزَّکَاۃَ، وَسَمِعَ وَأَطَاعَ، فَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰییُدْخِلُہُ مِنْ أَیِّ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شَائَ، وَلَہَا ثَمَانِیَۃُ أَبْوَابٍ، وَمَنْ عَبَدَ اللّٰہَ لَا یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا، وَأَقَامَ الصَّلَاۃَ، وَآتَی الزَّکَاۃَ، وَسَمِعَ وَعَصَی، فَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی مِنْ أَمْرِہِ بِالْخِیَارِ، إِنْ شَائَ رَحِمَہُ وَإِنْ شَائَ عَذَّبَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۱۴۸)
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اللہ کی عبادت کرے، ا س کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، حاکم کی بات سنے اور اس کی اطاعت کرے، جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے گا، اللہ اسے اسی دروازے سے جنت میں داخل کرے گااو ر جو آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرے، نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، حاکم کی بات سنے اور اس کی اطاعت نہ کرے، تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے، اگر وہ چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب سے دوچار کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12115

۔ (۱۲۱۱۵)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا طَاعَۃَ لِبَشَرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۱۰۶۵)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی معصیت ہوتو کسی بھی انسان کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12116

۔ (۱۲۱۱۶)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۰۹۵)
۔ (دوسری سند) سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی معصیت ہوتی ہو تو مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12117

۔ (۱۲۱۱۷)۔ (وَعَنْہ) عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیَّۃً، وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَلَمَّا خَرَجُوْا، قَالَ: وَجَدَ عَلَیْہِمْ فِی شَیْئٍ، فَقَالَ لَہُمْ: أَلَیْسَ قَدْ أَمَرَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ تُطِیعُونِی؟ قَالَ: قَالُوْا: بَلٰی، قَالَ: فَقَالَ: اجْمَعُوْا حَطَبًا، ثُمَّ دَعَا بِنَارٍ، فَأَضْرَمَہَا فِیہِ، ثُمَّ قَالَ: عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ لَتَدْخُلُنَّہَا، قَالَ: فَہَمَّ الْقَوْمُ أَنْ یَدْخُلُوہَا، قَالَ: فَقَالَ لَہُمْ شَابٌّ مِنْہُمْ: إِنَّمَا فَرَرْتُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ النَّارِ، فَلَا تَعْجَلُوْا حَتّٰی تَلْقَوُا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَإِنْ أَمَرَکُمْ أَنْ تَدْخُلُوہَا فَادْخُلُوْا، قَالَ: فَرَجَعُوْا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرُوہُ، فَقَالَ لَہُمْ: ((لَوْ دَخَلْتُمُوہَا مَا خَرَجْتُمْ مِنْہَا أَبَدًا، إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوفِ۔))
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک جہادی لشکر روانہ کیااور ایک نصاری کو ان پر امیر مقر ر فرمایا، وہ کسی بات پر اپنے لشکر سے ناراض ہوگیا، اس نے ان سے کہا: کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہیں میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا ہے؟ صحابہ نے کہا: جی ہاں،دیا ہے، پس اس نے کہا: لکڑیاں جمع کرو، پھر اس نے آگ منگوا کر ان کو آگ لگا دی اور کہا:میں تم لوگوں کو تاکیدی حکم دیتا ہو ں کہ تم اس آگ میں کود جاؤ، بعض لوگوں نے تو واقعی آگ میں گھس جانے کا ارادہ کر لیا، اتنے میں ان میں سے ایک نوجوان نے کہا: تم آگ سے بچنے کے لیے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف آئے ہو، لہٰذا جلدبازی نہ کرو، پہلے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تو مل لو، اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آگ میں داخل ہونے کا حکم ہی دیا تو داخل ہوجانا، پس جب وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لوٹے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سارا ماجرہ سنایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: اگر تم آگ میں داخل ہوجاتے تو کبھی بھی اس سے نہ نکل سکتے، اطاعت صرف جائز کا م میں ہوتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12118

۔ (۱۲۱۱۸)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ آخَرَ بِنَحْوِہٖ) وَفِیْہٖ: ((لَوْ دَخَلْتُمُوْھَا لَمْ تَزَالُوْا فِیْھَا اِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) وَقَالَ لِلْاَخَرِیْنْ قَوْلًا حَسَنًا، وَقَالَ: ((لَا طَاعَۃَ فِیْ مَعْصِیَّۃِ اللّٰہِ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ۔)) (مسند احمد: ۷۲۴)
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اسی میں رہتے۔ اور جن لوگوں نے آگ میں داخل ہونے سے انکار کیا تھا، آپ نے ان کے بارے میں اچھی بات ارشاد فرمائی اور فرمایا: اللہ کی معصیت ہو تو کسی کی اطاعت نہیں کی جاسکتی، اطاعت تو صرف جائز کام میں ہوتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12119

۔ (۱۲۱۱۹)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْئِ فِیمَا أَحَبَّ أَوْ کَرِہَ إِلَّا أَنْ یُؤْمَرَ بِمَعْصِیَۃٍ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَۃَََََ۔)) (مسند احمد: ۴۶۶۸)
سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انسان پر لازم ہے کہ وہ حکمران کی بات سنے اور اس کی اطاعت کرے، وہ ان امور کو چاہتا ہو یا نہ چاہتا ہو، ما سوائے اس کے کہ جب اس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو اس حکم کو نہ سنے اور نہ اس کی اطاعت کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12120

۔ (۱۲۱۲۰)۔ وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا طَاعَۃَ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی۔)) (مسند احمد: ۲۰۱۴۶)
سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی کوئی فرمانبرداری نہیںہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12121

۔ (۱۲۱۲۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا یُونُسُ وَحُمَیْدٌ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ زِیَادًا اسْتَعْمَلَ الْحَکَمَ الْغِفَارِیَّ عَلٰی جَیْشٍ، فَأَتَاہُ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ، فَلَقِیَہُ بَیْنَ النَّاسِ فَقَالَ: أَتَدْرِی لِمَ جِئْتُکَ؟ فَقَالَ لَہُ: لِمَ؟ قَالَ: ہَلْ تَذْکُرُ قَوْلَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلرَّجُلِ الَّذِی قَالَ لَہُ أَمِیرُہُ: قَعْ فِی النَّارِ، فَأَدْرَکَ فَاحْتَبَسَ، فَأُخْبِرَ بِذٰلِکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَال:َ ((لَوْ وَقَعَ فِیہَا لَدَخَلَا النَّارَ جَمِیعًا لَا طَاعَۃَ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اِنَّمَا اَرَدْتُّ اَنْ اُذَکِّرُکَ ھٰذَا الْحَدِیْثَ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۳۵)
حسن سے روایت ہے کہ زیاد نے حکم غفاری کو ایک لشکر پر امیر بنایا، سیدناعمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے اور لوگوں کے ما بین اس سے ملے اور کہا: کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ہاں کس لیے آیا ہوں؟ ا س نے کہا: جی بتائیں، کس لیے آئے ہیں؟ انہو ں نے کہا، کیا تمہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وہ بات یاد ہے جوآپ نے اس آدمی سے ارشاد فرمائی تھی، جسے اس کے امیر نے کہا تھا، آگ میں گھس جا، مگر اس آدمی نے یہ بات ماننے سے انکار کیا تھا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: اگر وہ آگ میں داخل ہو جاتا تو وہ دونوں(حکم دینے والا اور اس کو ماننے والا) جہنم میں جاتے، اللہ تعالیٰ کی معصیت ہو رہی ہو تو کسی کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ حکم غفاری نے کہا: جی ہاں، یاد ہے۔ پھر سیدنا عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تمہیں یہ حدیث یاد دلانا چاہتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12122

۔ (۱۲۱۲۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: أَرَادَ زِیَادٌ أَنْ یَبْعَثَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ عَلٰی خُرَاسَانَ فَأَبٰی عَلَیْہِمْ، فَقَالَ لَہُ أَصْحَابُہُ: أَتَرَکْتَ خُرَاسَانَ أَنْ تَکُونَ عَلَیْہَا؟ قَالَ: فَقَالَ: إِنِّی وَاللّٰہِ! مَایَسُرُّنِی أَنْ أُصَلِّیَ بِحَرِّہَا، وَتُصَلُّونَ بِبَرْدِہَا، إِنِّی أَخَافُ إِذَا کُنْتُ فِی نُحُورِ الْعَدُوِّ أَنْ یَأْتِیَنِی کِتَابٌ مِنْ زِیَادٍ، فَإِنْ أَنَا مَضَیْتُ ہَلَکْتُ، وَإِنْ رَجَعْتُ ضُرِبَتْ عُنُقِی، قَالَ: فَأَرَادَ الْحَکَمُ بْنُ عَمْرٍو الْغِفَارِیُّ عَلَیْہَا، قَالَ: فَانْقَادَ لِأَمْرِہِ، قَالَ: فَقَالَ عِمْرَانُ: أَلَا أَحَدٌ یَدْعُو لِی الْحَکَمَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ الرَّسُولُ، قَالَ: فَأَقْبَلَ الْحَکَمُ إِلَیْہِ، قَالَ: فَدَخَلَ عَلَیْہِ، قَالَ: فَقَالَ عِمْرَانُ لِلْحَکَمِ: أَسَمِعْتَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا طَاعَۃَ لِأَحَدٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی؟)) قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ عِمْرَانُ: لِلَّہِ الْحَمْدُ أَوِ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۳۰)
سیدنا عبداللہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ زیاد نے سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خراسان کی طرف بھیجنے کا اردہ کیا، لیکن انھوں نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا، ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا: آپ نے خراسان کی امارت کا انکار کر دیا؟ انہوں نے کہا: مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ امارت کی مشکلات تو میں برداشت کروں اور اس کے ثمرات سے تم فائدہ اٹھاؤ، دراصل میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اگر میں دشمن کے مقابلے میں ہوں اور زیاد کا خط مجھے ملے، (اس خط کے مطابق) اگر میں آگے بڑھوں تو ہلاک ہوتا ہوں اور اگر پیچھے ہٹوں تومجھے قتل کر دیا جائے، پس زیاد نے سیدنا حکم بن عمرو غفاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس لشکر پر امیر بنانے کا ارادہ کیا اور انھوں نے زیاد کے اس حکم کو تسلیم کر لیا، اُدھر سیدنا عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:کوئی ہے جو حکم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو میرے پاس بلا لائے؟ ایک آدمی گیا اور حکم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے،جب وہ ان کے ہا ں پہنچے تو سیدنا عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: کیا تم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ کی معصیت ہوتی ہو تو کسی کی اطاعت نہیں کی جا سکتی۔ ؟ انھوں نے کہا، جی ہاں، عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (نے شکر ادا کرتے ہوئے) لِلّٰہِ الْحَمْدُ یا اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12123

۔ (۱۲۱۲۳)۔ وَعَنْ أَنَسِ بْنَ مَالِکٍ حَدَّثَہُ أَنَّ مُعَاذًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ عَلَیْنَا أُمَرَائُ لَا یَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِکَ، وَلَا یَأْخُذُونَ بِأَمْرِکَ، فَمَا تَأْمُرُ فِی أَمْرِہِمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَا طَاعَۃَ لِمَنْ لَمْ یُطِعْ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۳۲۵۷)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے راویت ہے، سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو آپ کی سنت کی اقتدا نہ کریں اور آپ کے حکم پر عمل نہ کریں تو ان کے بارے میں ہمارے لیے کیا حکم ہو گا؟رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرتا، اس کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12124

۔ (۱۲۱۲۴)۔ فَقَالَ عُبَادَۃُ لِأَبِی ہُرَیْرَۃَ: یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ! إِنَّکَ لَمْ تَکُنْ مَعَنَا إِذْ بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِنَّا بَایَعْنَاہُ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی النَّشَاطِ وَالْکَسَلِ، وَعَلَی النَّفَقَۃِ فِی الْیُسْرِ وَالْعُسْرِ، وَعَلَی الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَعَلٰی أَنْ نَقُولَ فِی اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، وَلَا نَخَافَ لَوْمَۃَ لَائِمٍ فِیہِ، وَعَلٰی َٔنْ نَنْصُرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ عَلَیْنَایَثْرِبَ فَنَمْنَعُہُ مِمَّا نَمْنَعُ مِنْہُ أَنْفُسَنَا وَأَزْوَاجَنَا وَأَبْنَائَ نَا، وَلَنَا الْجَنَّۃُ، فَہٰذِہِ بَیْعَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّتِی بَایَعْنَا عَلَیْہَا، فَمَنْ نَکَثَ فَإِنَّمَایَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہِ، وَمَنْ أَوْفٰی بِمَا بَایَعَ رَسُولَ اللّٰہِ وَفَّی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِمَا بَایَعَ عَلَیْہِ نَبِیَّہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَکَتَبَ مُعَاوِیَۃُ إِلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ قَدْ أَفْسَدَ عَلَیَّ الشَّامَ وَأَہْلَہُ، فَإِمَّا تُکِنُّ إِلَیْکَ عُبَادَۃَ، وَإِمَّا أُخَلِّی بَیْنَہُ وَبَیْنَ الشَّامِ، فَکَتَبَ إِلَیْہِ أَنْ رَحِّلْ عُبَادَۃَ حَتّٰی تُرْجِعَہُ إِلٰی دَارِہِ مِنَ الْمَدِینَۃِ، فَبَعَثَ بِعُبَادَۃَ حَتّٰی قَدِمَ الْمَدِینَۃَ، فَدَخَلَ عَلٰی عُثْمَانَ فِی الدَّارِ وَلَیْسَ فِی الدَّارِ غَیْرُ رَجُلٍ مِنَ السَّابِقِینَ أَوْ مِنَ التَّابِعِینَ، قَدْ أَدْرَکَ الْقَوْمَ فَلَمْ یَفْجَأْ عُثْمَانَ إِلَّا وَہُوَ قَاعِدٌ فِی جَنْبِ الدَّارِ، فَالْتَفَتَ إِلَیْہِ فَقَالَ: یَا عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ! مَا لَنَا وَلَکَ؟ فَقَامَ عُبَادَۃُ بَیْنَ ظَہْرَیِ النَّاسِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَا الْقَاسِمِ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّہُ سَیَلِی أُمُورَکُمْ بَعْدِی رِجَالٌ یُعَرِّفُونَکُمْ مَا تُنْکِرُونَ، وَیُنْکِرُونَ عَلَیْکُمْ مَا تَعْرِفُونَ، فَلَا طَاعَۃ لِمَنْ عَصَی اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، فَلَا تَعْتَلُّوا بِرَبِّکُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۱۴۹)
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوںنے سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: ابو ہریرہ! تم تو اس وقت موجود نہ تھے، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہجرت کر کے ہمارے ہاں یثرب میں تشریف لائے، ہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی کہ ہم چستی اور سستی یعنی ہر حال میں آپ کی بات سن کر اس کی اطاعت کریںگے، اور خوش حالی ہو یا تنگ دستی، جب بھی ضرورت پڑی تو ہر حال میں خرچ کریں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے، اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی والی بات کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے سے خوف زدہ نہیں ہوں گے، ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دل وجان سے مدد کریں گے اورجن جن چیزوں سے ہم اپنی جانوں، بیویوں اور بیٹوں کو بچاتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھی ان سے بچائیں گے اور اس کے بدلے ہمیں جنت ملے گی۔ یہ وہ امورِ بیعت ہیں، جن پر ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ہے، جو اس کی خلاف ورزی کرے گا، اس کا وبال اسی پر ہوگا۔ اللہ کے بارے میں جو بیعت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لی اور کی ہے، کون ہے جو اپنی بیعت کو ان سے بڑھ کر پورا کرنے والا ہو؟ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لکھا کر سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے شام اور اہل شام کو میرے خلاف کر دیا ہے، آپ یا تو عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنے ہاں بلالیں، ورنہ میں انہیں شام سے باہر نکلوا دوں گا۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں لکھا کہ آپ سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مدینہ واپس بھیج دیں، پس سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو واپس بھجوادیا، پس جب وہ مدینہ واپس آئے تو وہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گھرمیں ان کے ہاں گئے، گھر میں سابقین اولین میں سے صرف ایک آدمی تھا اور وہ بھی لوگوںکے پاس چلا گیا، عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے، وہ سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: عبادہ!آپ کا اور ہمارا کیا معاملہ ہے؟ سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور کہا: میں نے ابو القاسم محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ عنقریب تمہارے معاملات پر اسے لوگ غالب آجائیں گے کہ تم جن کاموں کو غلط سمجھتے ہو گے، وہ انہیں صحیح سمجھیں گے اور تم جن کاموں کو اچھا سمجھتے ہو گے، وہ انہیں غلط سمجھیں گے، جو آدمی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے تو اس کی اطاعت نہیں کی جاسکتی، تم اپنے رب کے ہاں اس کی کوئی معذرت پیش نہیں کر سکو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12125

۔ (۱۲۱۲۵)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((نَضَّرَ اللّٰہُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِی ہٰذِہِ فَحَمَلَہَا، فَرُبَّ حَامِلِ الْفِقْہِ فِیہِ غَیْرُ فَقِیہٍ، وَرُبَّ حَامِلِ الْفِقْہِ إِلٰی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ، ثَلَاثٌ لَا یُغِلُّ عَلَیْہِنَّ صَدْرُ مُسْلِمٍ، إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمُنَاصَحَۃُ أُولِی الْأَمْرِ، وَلُزُومُ جَمَاعَۃِ الْمُسْلِمِینَ، فَإِنَّ دَعْوَتَہُمْ تُحِیطُ مِنْ وَرَائِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۱۳۳۸۳)
فصل سوم: حکمرانوں کی خیر خواہی کرنے کے وجوب اوران کو بھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرتے رہنے کا بیان
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12126

۔ (۱۲۱۲۶)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ وَمُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ قَالَا: حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: عَنِ الْقَاسِمِ، وَقَالَیَزِیدُ فِی حَدِیثِہِ: حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ بْنُ عَوْفٍ الشَّیْبَانِیُّ، عَنْ رَجُلٍ، قَالَ: کُنَّا قَدْ حَمَلْنَا لِأَبِی ذَرٍّ شَیْئًا نُرِیدُ أَنْ نُعْطِیَہُ إِیَّاہُ، فَأَتَیْنَا الرَّبَذَۃَ، فَسَأَلْنَا عَنْہُ، فَلَمْ نَجِدْہُ، قِیلَ: اسْتَأْذَنَ فِی الْحَجِّ، فَأُذِنَ لَہُ، فَأَتَیْنَاہُ بِالْبَلْدَۃِ وَہِیَ مِنًی، فَبَیْنَا نَحْنُ عِنْدَہُ إِذْ قِیلَ لَہُ: إِنَّ عُثْمَانَ صَلّٰی أَرْبَعًا، فَاشْتَدَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَبِی ذَرٍّ، وَقَالَ قَوْلًا شَدِیدًا، وَقَالَ: صَلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، وَصَلَّیْتُ مَعَ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ، ثُمَّ قَامَ أَبُو ذَرٍّ فَصَلّٰی أَرْبَعًا، فَقِیلَ لَہُ: عِبْتَ عَلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ شَیْئًا، ثُمَّ صَنَعْتَ، قَالَ: الْخِلَافُ أَشَدُّ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَقَالَ: ((إِنَّہُ کَائِنٌ بَعْدِی سُلْطَانٌ، فَلَا تُذِلُّوہُ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ یُذِلَّہُ، فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہِ، وَلَیْسَ بِمَقْبُولٍ مِنْہُ تَوْبَۃٌ حَتّٰییَسُدَّ ثُلْمَتَہُ الَّتِی ثَلَمَ، وَلَیْسَ بِفَاعِلٍ۔)) ثُمَّ یَعُودُ فَیَکُونُ فِیمَنْیُعِزُّہُ، أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا یَغْلِبُونَا عَلٰی ثَلَاثٍ، أَنْ نَأْمُرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَنْہٰی عَنِ الْمُنْکَرِ، وَنُعَلِّمَ النَّاسَ السُّنَنَ۔ (مسند احمد: ۲۱۷۹۲)
قاسم بن عوف شیبانی، ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں، اس نے کہا:ہم ابوذر کو کوئی چیز بطور ہدیہ دینا چاہتے تھے، ہم وہ اٹھا کر لے گئے اور ربذہ مقام میں پہنچے، جب ہم نے ان کے متعلق دریافت کیا تو بتلایا گیا کہ انہوں نے حج کے لیے جانے کی اجازت مانگی تھی اور انہیںمل گئی تھی، پھر ہم منیٰ میں ان سے ملے، ہم ان کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ان کو بتایا گیا کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مِنی میں چاررکعت پڑھی ہے، یہ بات ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر بہت گراں گزری اور انہوں نے سخت باتیں کہہ دیں اور پھر کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ یہاں نماز پڑھی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو رکعتیں پڑھی تھیں، میں نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ یہاں مِنی میں نماز پڑھی ہے (انھوں نے بھی دو رکعتیں پڑھائی ہیں)، اس کے بعد سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اٹھ کر چار رکعات پڑھیں۔ کسی نے ان سے کہا کہ تم نے جس با ت کو امیر المومنین کے لیے معیوب سمجھا ہے، اس پر خود عمل کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اختلاف کرنا بہت برا ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے بعد ایک بادشاہ آئے گا، تم اسے رسوانہ کرنا، جس نے اسے رسواکرنے کا ارادہ کیا، اس نے اسلام کی رسی کو اپنی گردن سے اتار پھینکا، اور اس کی توبہ اس وقت تک قبول نہ ہوگی، جب تک اس کی ڈالی ہوئی دراڑ ختم نہ ہو گی، مگر وہ ایسا نہ کرسکے گا۔ یعنی اپنی ڈالی ہوئی دراڈ کو پر نہ کر سکے گا۔ اس کے بعد وہ اس بادشاہ کی عزت کرے گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ یہ حکمران تین باتوں میں ہم پر غالب نہ آجائیں یعنی وہ ہمیں ان تین کاموں سے روک نہ سکیں، بلکہ ہم یہ کام برابر کرتے رہیں۔ امر بالمعروف، نہی عن المنکر او رلوگوں کو سنتوں کی تعلیم دینا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12127

۔ (۱۲۱۲۷)۔ وَعَنْ سَعِیدِ بْنِ جُمْہَانَ قَالَ: لَقِیتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِی أَوْفٰی، وَہُوَ مَحْجُوبُ الْبَصَرِ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، قَالَ لِی: مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَنَا سَعِیدُ بْنُ جُمْہَانَ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ وَالِدُکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَتَلَتْہُ الْأَزَارِقَۃُ، قَالَ: لَعَنَ اللّٰہُ الْأَزَارِقَۃَ، لَعَنَ اللّٰہُ الْأَزَارِقَۃَ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَنَّہُمْ کِلَابُ النَّارِ، قَالَ: قُلْتُ: الْأَزَارِقَۃُ وَحْدَہُمْ أَمْ الْخَوَارِجُ کُلُّہَا؟ قَالَ: بَلَی الْخَوَارِجُ کُلُّہَا، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ السُّلْطَانَ یَظْلِمُ النَّاسَ، وَیَفْعَلُبِہِمْ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ یَدِی فَغَمَزَہَا بِیَدِہِ غَمْزَۃً شَدِیدَۃً ثُمَّ قَالَ: وَیْحَکَیَا ابْنَ جُمْہَانَ! عَلَیْکَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ، عَلَیْکَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ، إِنْ کَانَ السُّلْطَانُ یَسْمَعُ مِنْکَ، فَأْتِہِ فِی بَیْتِہِ فَأَخْبِرْہُ بِمَا تَعْلَمُ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْکَ، وَإِلَّا فَدَعْہُ فَإِنَّکَ لَسْتَ بِأَعْلَمَ مِنْہُ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۳۵)
سعید بن جمہان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ نابینا ہوچکے تھے، میں نے سلام کہا، انہوں نے مجھ سے پوچھا، تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں سعید بن جمہان ہوں، انہو ںنے کہا: تمہارے والد کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟ میں نے کہا: ازارقہ نے اسے قتل کر ڈالا۔ انھوں نے کہا: اللہ، ازارقہ پر لعنت کرے، اللہ ازارقہ پر لعنت کرے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے بیان فرمایا تھا کہ یہ لوگ جہنم کے کتے ہیں۔ میں نے پوچھا: صرف ازارقہ یا سارے خوارج؟ انہو ںنے کہا: سارے خوارج۔ میں نے کہا: بادشاہ لوگوں پر ظلم ڈھاتا ہے اور کچھ اچھے کام بھی کرتا ہے، (اس کے بارے میں کیا کہنا یا کرنا چاہیے)؟ انہو ں نے میرا ہاتھ پکڑ کر زور سے دبایا اور پھر کہا: اے ابن جمہان! تم پر افسوس، تم سوا داعظم یعنی بڑے لشکر کے ساتھ رہنا، اگر بادشاہ تمہاری بات سنتا ہو تو اس کے گھر میں اس کے پاس جا کر جو کچھ تم جانتے ہو، اس بتلا دینا، اگر وہ آپ کی بات مان لے تو بہتر، ورنہ رہنے دینا، کیونکہ تم اس سے زیادہ نہیں جانتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12128

۔ (۱۲۱۲۸)۔ وعن شُرَیْحِ بْنِ عُبَیْدٍ الْحَضْرَمِیِّ وَغَیْرِہِ قَالَ: جَلَدَ عِیَاضُ بْنُ غَنْمٍ صَاحِبَ دَارٍ حِینَ فُتِحَتْ، فَأَغْلَظَ لَہُ ہِشَامُ بْنُ حَکِیمٍ الْقَوْلَ حَتّٰی غَضِبَ عِیَاضٌ، ثُمَّ مَکَثَ لَیَالِیَ فَأَتَاہُ ہِشَامُ بْنُ حَکِیمٍ، فَاعْتَذَرَ إِلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ ہِشَامٌ لِعِیَاضٍ: أَلَمْ تَسْمَعِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ عَذَابًا أَشَدَّہُمْ عَذَابًا فِی الدُّنْیَا لِلنَّاسِ۔)) فَقَالَ عِیَاضُ بْنُ غَنْمٍ: یَا ہِشَامُ بْنَ حَکِیمٍ! قَدْ سَمِعْنَا مَا سَمِعْتَ، وَرَأَیْنَا مَا رَأَیْتَ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((مَنْ أَرَادَ أَنْ یَنْصَحَ لِسُلْطَانٍ بِأَمْرٍ فَلَا یُبْدِلَہُ عَلَانِیَۃً، وَلٰکِنْ لِیَأْخُذْ بِیَدِہِ فَیَخْلُوَ بِہِ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْہُ فَذَاکَ، وَإِلَّا کَانَ قَدْ أَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ لَہُ۔)) وَإِنَّکَ یَا ہِشَامُ! لَأَنْتَ الْجَرِیئُ إِذْ تَجْتَرِئُ عَلٰی سُلْطَانِ اللّٰہِ، فَہَلَّا خَشِیتَ أَنْ یَقْتُلَکَ السُّلْطَانُ، فَتَکُونَ قَتِیلَ سُلْطَانِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی۔ (مسند احمد: ۱۵۴۰۸)
شریح بن عبید حضرمی وغیرہ سے مروی ہے کہ ایک علاقہ فتح ہوا اور سیدنا عیاض بن غنم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک گھر کے مالک کی پٹائی کردی، سیدنا ہشام بن حکیم بن حزام نے ان کو سخت قسم کی باتیں کہہ دیں، عیاض ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ناراض ہوگئے، کچھ دنوں کے بعد سیدنا ہشام بن حکیم نے آکر معذرت کی، پھر سیدنا ہشام نے عیاض ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا:کیا تم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو دیا جائے گا، جو دنیا میں لوگوں کو سخت عذاب دیتے ہیں۔ سیدناعیاض بن غنم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہشام! جو کچھ تم نے سنا، وہ ہم بھی سن چکے ہیںاور جو کچھ تم نے دیکھا، وہ ہم بھی دیکھ چکے ہیں۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی بادشاہ کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا ارادہ کرے، وہ لوگوں کے سامنے کچھ نہ کہے، بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر خلوت میں لے جائے، اگر وہ حکمران اس کی بات کو قبول کر لے تو بہتر، ورنہ اس آدمی نے اپنا فریضہ ادا کر دیا۔ اے ہشام! تم بڑے جرأت مند ہو،کیونکہ تم نے تو اللہ کے سلطان پر جرأت کی ہے، کیا تمہیں اس بات سے ڈر نہیں لگتا کہ اللہ تعالیٰ کا بادشاہ تم کو قتل کر دے اور اس طرح تم اللہ کے بادشاہ کے مقتول بن جاؤ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12129

۔ (۱۲۱۲۹)۔ عَنِ الْبَخْتَرِیِّ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ سَلْمَانَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((اثْنَانِ خَیْرٌ مِنْ وَاحِدٍ، وَثَلَاثٌ خَیْرٌ مِنِ اثْنَیْنِ، وَأَرْبَعَۃٌ خَیْرٌ مِنْ ثَلَاثَۃٍ، فَعَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَنْ یَجْمَعَ أُمَّتِی إِلَّا عَلٰی ہُدًی۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۱۷)
سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک کی نسبت دو، دو کی نسبت تین اور تین کی نسبت چا ر بہتر ہیں، پس تم جماعت کے ساتھ رہو، اللہ تعالیٰ میری امت کو ہدایت کے سوا دوسرے کسی کا م پر ہرگز جمع نہیں کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12130

۔ (۱۲۱۳۰)۔ (ز۔وَعَنْہٗاَیْضًا) قَالَ: قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ خَالَفَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا خَلَعَ رِبْقَۃَ الْاِسْلَامِ فِی عُنُقِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۲۱۸۹۳)
سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے مسلمانوں کی جماعت کی ایک بالشت بھر بھی مخالفت کی، اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے اتار پھینکی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12131

۔ (۱۲۱۳۱)۔ وَعَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ قَالَ:انْطَلَقْتُ إِلَی حُذَیْفَۃَ بِالْمَدَائِنِ لَیَالِیَ سَارَ النَّاسُ إِلَی عُثْمَانَ فَقَالَ: یَا رِبْعِیُّ! مَا فَعَلَ قَوْمُکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: عَنْ أَیِّ بَالِہِمْ تَسْأَلُ؟ قَالَ: مَنْ خَرَجَ مِنْہُمْ إِلٰی ہٰذَا الرَّجُلِ، فَسَمَّیْتُ رِجَالًا فِیمَنْ خَرَجَ إِلَیْہِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ، وَاسْتَذَلَّ الْإِمَارَۃَ، لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا وَجْہَ لَہُ عِنْدَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۶۷۲)
ربعی بن حراش کہتے ہیں: جن ایام میں لوگ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مخالفت میں بغاوت کر کے ان کی طرف روانہ ہوئے تو میں انہی راتوں میں سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں مدائن گیا، انہو ںنے مجھ سے کہا: ربعی! تمہاری قوم نے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا: آپ ان کے کس فعل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ انہو ںنے کہا: کون لوگ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف گئے ہیں؟ سو میں نے جانے والوں میں سے کچھ افراد کے نام ذکر کر دئیے، انہو ں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کی اور امارت و حکومت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی، وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں جا کر ملے گا کہ اللہ کے ہاں اس کی کوئی توقیر نہیں ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12132

۔ (۱۲۱۳۲)۔ عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ أَکْرَمَ سُلْطَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِی الدُّنْیَا، أَکْرَمَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ أَہَانَ سُلْطَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِی الدُّنْیَا،أَہَانَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۷۰۵)
سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے بادشاہ کا اکرام کرے، اللہ قیامت کے دن اس کا اکرام کرے گا اور جس نے دنیا میں اللہ کے بنائے ہوئے بادشاہ کی توہین و تذلیل کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلیل ورسوا کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12133

۔ (۱۲۱۳۳)۔عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُبَایِعُ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، ثُمَّ یَقُولُ: ((فِیمَا اسْتَطَعْتَ۔)) وَقَالَ مَرَّۃً: فَیُلَقِّنُ أَحَدَنَا فِیمَا اسْتَطَعْتَ۔ (مسند احمد: ۴۵۶۵)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس چیز کی بیعت لیا کرتے تھے کہ حاکم کا حکم سن کر اس کی اطاعت کی جائے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود ہی فرما دیتے: جتنی تم میں طاقت اور استطاعت ہو۔ ایک راوی نے کہا: پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں لقمہ دیتے اور یادہانی کرا دیتے کہ جتنی تم میں طاقت ہو گی (اس کے مطابق تم حاکم کی اطاعت کرو گے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12134

۔ (۱۲۱۳۴)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، فَقَالَ: ((فِیْمَا اسْتَطَعْتُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۲۲۲۷)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی کہ ہم حکمران کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن تمہاری استطاعت کے مطابق۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12135

۔ (۱۲۱۳۴)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، فَقَالَ: ((فِیْمَا اسْتَطَعْتُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۲۲۲۷)
۔ (دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے اپنے اس دائیں ہاتھ کے ساتھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ میں حکمران کی بات سنوں گا اور اس کی اطاعت کروں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن جتنی طاقت، اس کے مطابق۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12136

۔ (۱۲۱۳۶)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الْوَلِیدِ بْنِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ قَالَ: بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، فِی عُسْرِنَا وَیُسْرِنَا، وَمَنْشَطِنَا وَمَکْرَہِنَا، وَالْأَثَرَۃِ عَلَیْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَہْلَہُ، وَنَقُومَ بِالْحَقِّ حَیْثُ کَانَ، وَلَا نَخَافَ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ))۔ (مسند احمد: ۲۳۱۰۴)
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی کہ ہم مشکل میں اور آسانی میں، چستی میں اور سستی میں اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کے باوجود حاکم کی بات مانیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے اور حکومت کے معاملے میں حکومت کے افراد سے جھگڑا نہیں کریں گے اور ہم حق کے ساتھ کھڑے ہوں گے، وہ جہاں بھی ہو گا، اور ہم اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12137

۔ (۱۲۱۳۷)۔ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ یَحْیَی، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الْوَلِیدِ بْنِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، سَمِعَہُ مِنْ جَدِّہِ، وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: عَنْ جَدِّہِ عُبَادَۃَ، قَالَ سُفْیَانُ: وَعُبَادَۃُ نَقِیبٌ، وَہُوَ مِنْ السَّبْعَۃِ، بَایَعْنَارَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ، وَلَا نُنَازِعُ الْأَمْرَ أَہْلَہُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَاِنْ رَاَیْتَ اِنَّ لَکَ)، نَقُوْلُ بِالْحَقِّ حَیْثُمَا کُنَّا، لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، قَالَ سُفْیَانُ: زَادَ بَعْضُ النَّاسِ مَا لَمْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا۔ (مسند احمد: ۲۳۰۵۵)
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ سات نقباء میں سے ایک تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس بات پر بیعت کی کہ ہم تنگی اور آسانی میں اور خوشی اور ناخوشی میں حکمران کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے، حکومت کے بارے میں اہل حکومت سے جھگڑ انہیں کر یں گے اور ہم جہاں بھی ہوں گے، حق بات کہیں گے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کریں گے۔ سفیان راوی نے کہا: بعض حضرات نے اس حدیث میں یہ الفاظ زائد روایت کیے ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (تم اس وقت تک حکمران کی اطاعت کرنا) جب تک واضح کفر نہ دیکھ لو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12138

۔ (۱۲۱۳۸)۔ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ أَبِی قِلَابَۃَ، قَالَ خَالِدٌ: أَحْسِبُہُ ذَکَرَہُ عَنْ أَبِی أَسْمَائَ، قَالَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ: أَخَذَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا أَخَذَ عَلَی النِّسَائِ سِتًّا: ((أَنْ لَا تُشْرِکُوا بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ، وَلَا یَعْضِدْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا، وَلَا تَعْصُونِی فِی مَعْرُوفٍ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْکُمْ مِنْہُنَّ حَدًّا، فَعُجِّلَ لَہُ عُقُوبَتُہُ، فَہُوَ کَفَّارَتُہُ، وَإِنْ أُخِّرَ عَنْہُ، فَأَمْرُہُ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی، إِنْ شَائَ عَذَّبَہُ وَإِنْ شَائَ رَحِمَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۰۴۴)
سیدناعبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جس طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خواتین سے چھ امور کی بیعت لی تھی، اسی طرح ہم سے بھی اتنے امور کی کی بیعت لی، یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤگے، چوری نہیں کروگے، زنا نہیں کر و گے، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کر و گے، ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہیں کرو گے، اور نیکی کے کسی کام میں میری نافرمانی نہیں کرو گے، تم میں سے جس کسی نے کوئی ایسا کام کیا جس پر شرعی حد واجب ہوتی ہو، تو اگر اس کو دنیا میں اس جرم کی سزا مل گئی تو وہ سزا اس کے لیے کفارہ ہوگی اور اگر سزا آخرت تک مؤخر ہوگئی تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب بھی دے سکتا ہے اور معاف بھی کر سکتا ہے، جیسے اس کی مرضی ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12139

۔ (۱۲۱۳۹)۔ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ الْأَشْجَعِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ: ((أَلَا إِنَّمَا ہُنَّ أَرْبَعٌ، أَنْ لَا تُشْرِکُوا بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَسْرِقُوا۔)) قَالَ: فَمَا أَنَا بِأَشَحَّ عَلَیْہِنَّ مِنِّی إِذْ سَمِعْتُہُنَّ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۹۹)
سیدنا سلمہ بن قیس اشجمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: خبردار! یہ چار امور ہیں، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اللہ نے جس جان کے قتل کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے، اسے ناحق قتل نہ کرنا، زنانہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے جب سے یہ باتیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہیں، اس وقت سے مجھے ان کی کوئی رغبت اور حرص ہی نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12140

۔ (۱۲۱۴۰)۔ عَنْ حَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ: بَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی أَنْ لَا أَخِرَّ إِلَّا قَائِمًا۔ (مسند احمد: ۱۵۳۸۶)
سیدنا حکیم بن حزام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ میں نہیں گروں گا، مگر کھڑے کھڑے ہی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12141

۔ (۱۲۱۴۱)۔ عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی سَدُوسٍ، عَنْ قُطْبَۃَ بْنِ قَتَادَۃَ قَالَ: بَایَعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی ابْنَتِی الْحَوْصَلَۃِ، وَکَانَ یُکَنَّی بِأَبِی الْحَوْصَلَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۶۸۳۹)
سیدناقطبہ بن قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اپنی بیٹی حوصلہ کی طرف سے بیعت کی تھی۔ ان کی کنیت ابو حوصلہ تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12142

۔ (۱۲۱۴۲)۔ حَدَّثَنَا حَسَنٌ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ شَأْنِ ثَقِیفٍ إِذْ بَایَعَتْ فَقَالَ: اشْتَرَطَتْ عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا صَدَقَۃَ عَلَیْہَا وَلَا جِہَادَ، وَأَخْبَرَنِی جَابِرٌ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((سَیَصَّدَّقُونَ وَیُجَاہِدُونَ إِذَا أَسْلَمُوْا)) یَعْنِی ثَقِیفًا۔ (مسند احمد: ۱۴۷۲۹)
ابوزبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بنو ثقیف کے بارے میں پوچھا، جب انھوں نے بیعت کی تھی؟ انہوںنے کہا: بنو ثقیف نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ یہ شرط لگائی تھی کہ نہ ان پر صدقہ ہو گا اور نہ جہاد، پھر ابوزبیر نے کہا کہ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو یہ بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ جب وہ صحیح طور پر مسلمان ہوجائیں گے تو عنقریب صدقہ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12143

۔ (۱۲۱۴۳)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: جَائَ عَبْدٌ فَبَایَعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْہِجْرَۃِ، وَلَمْ یَشْعُرْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ عَبْدٌ، فَجَائَ سَیِّدُہُیُرِیدُہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بِعْنِیہِ۔)) فَاشْتَرَاہُ بِعَبْدَیْنِ أَسْوَدَیْنِ، ثُمَّ لَمْ یُبَایِعْ أَحَدًا بَعْدُ حَتّٰییَسْأَلَہُ: ((أَعَبْدٌ ہُوَ؟)) (مسند احمد: ۱۴۸۳۱)
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک غلام نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہجرت کرنے پر بعیت کر لی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ غلام ہے، اتنے میں اس کا مالک اسے لینے کے لیے آگیا ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا۔ تم یہ غلام مجھے بیچ دو۔ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو سیاہ فام غلاموں کے عوض اس کو خریدلیا، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب تک یہ نہ پوچھ لیتے کہ کیا یہ شخص غلام ہے؟ اس وقت تک کسی سے بیعت نہیں لیتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12144

۔ (۱۲۱۴۴)۔ عَنْ اَبِی صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ (بَنِ اَبِیْ سُفْیَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( مَنْ مَاتَ بِغَیْرِ اِمَامٍ، مَاتَ مِیْتَۃَ جَاھِلِیَّۃٍ۔)) (مسند احمد: ۱۷۰۰۰)
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ٔٔٔٔٔٔٔٔ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی امام اور حکمران کے بغیر مرا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12145

۔ (۱۲۱۴۵)۔ وَعَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ مَاتَ وَلَیْسَتْ عَلَیْہِ طَاعَۃٌ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیَّۃً، فَإِنْ خَلَعَہَا مِنْ بَعْدِ عَقْدِہَا فِی عُنُقِہِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: بَعْدَ عَقْدِہِ اِیَّاھَا فِیْ عُنُقِہِ) لَقِیَ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَلَیْسَتْ لَہُ حُجَّۃٌ۔)) (مسند احمد: ۱۵۷۸۴)
سیدنا عامر بن ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اس حال میں مرا کہ اس نے اپنے اوپر کسی امام کی اطاعت کو لازم نہیں کیا تھا، یعنی کسی کو اپنا امام تسلیم نہیں کیا تھا، و ہ جاہلیت کی موت مرا اور جس نے اپنی گردن سے کسی امام کی اطاعت کا ہار اتارپھینکا، وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اللہ کے ہاں پیش کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12146

۔ (۱۲۱۴۶)۔ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: ((إِنَّ بَنِی إِسْرَائِیلَ کَانَتْ تَسُوسُہُمُ الْأَنْبِیَائُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَ نَبِیٌّ، وَإِنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی، إِنَّہُ سَیَکُونُ خُلَفَائُ فَتَکْثُرُ۔)) قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: ((فُوا بِبَیْعَۃِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ وَأَعْطُوہُمْ حَقَّہُمْ الَّذِی جَعَلَ اللّٰہُ لَہُمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ سَائِلُہُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاہُمْ))۔ (مسند احمد: ۷۹۴۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو اسرائیل کی قیادت ان کے انبیاء کرتے تھے، جب ایک نبی فو ت ہوجاتا تو دوسر ا آجاتا، اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، البتہ خلفاء بکثرت ہوں گے۔ صحابہ نے کہا: تو پھر آپ ہمیں ان کے بارے میں کیا حکم دیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم پہلے خلیفہ سے کی گئی بیعت کوپورا کرنا، پھر جو اس کے بعد ہو، اس کی بیعت کو پورا کرنا اوراللہ نے ان کے لیے جو حقوق مقرر کیے ہیں، وہ ادا کرنا، رہا مسئلہ تمہارے حقوق کا تو اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12147

۔ (۱۲۱۴۷)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ، فَمَاتَ فَمِیتَتُہُ جَاہِلِیَّۃٌ، وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍیَغْضَبُ لِعَصَبَتِہِ وَیُقَاتِلُ لِعَصَبَتِہِ وَیَنْصُرُ عَصَبَتَہُ فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاہِلِیَّۃٌ، وَمَنْ خَرَجَ عَلٰی أُمَّتِییَضْرِبُ بَرَّہَا وَفَاجِرَہَا لَا یَتَحَاشٰی لِمُؤْمِنِہَا وَلَا یَفِی لِذِی عَہْدِہَا فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُ۔)) (مسند احمد: ۷۹۳۱)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی امام اور حاکم کی اطاعت سے نکل گیا اور مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑ گیا اور اسی حالت میں اس کو موت آ گئی تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا، جو اندھا دھند جھنڈے کے نیچے لڑا، جس میں وہ عصبیت کی بنا پر غصے ہوتا ہے اور تعصب کی بنا پر مدد کرتا ہے اور پھر اسی حالت میں قتل ہو جاتا ہے تو اس کا قتل بھی جاہلیت والا ہو گا او رجو آدمی میری امت پر بغاوت کرتے ہوئے نکلا اور نیکوں اور بروں کو مارتا گیا،نہ اس نے اہل ایمان کا لحاظ کیا اور نہ عہد والے کا عہد پورا کیا، اس کا مجھ سے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12148

۔ (۱۲۱۴۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ رَأٰی مِنْ أَمِیرِہِ شَیْئًایَکْرَہُہُ فَلْیَصْبِرْ، فَإِنَّہُ مَنْ خَالَفَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَمَاتَ فَمِیتَتُہُ جَاہِلِیَّۃٌ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ((فَیَمُوْتُ اِلَّا مَاتَ مِیْتَۃَ جَاھِلِیَّۃٍ۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۷)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنے امیر کی طرف سے کوئی ایسی بات دیکھے جواسے اچھی نہ لگے تو وہ صبر کرے، کیونکہ جس نے مسلمانوں کی جماعت کی ایک بالشت بھر بھی مخالفت کی اور اسی حال میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12149

۔ (۱۲۱۴۹)۔ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَۃَ، وَکَانَ ابْنَ عَمِّ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِکٍ یَقولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((خِیَارُ أَئِمَّتِکُمْ مَنْ تُحِبُّونَہُمْ وَیُحِبُّونَکُمْ، وَتُصَلُّونَ عَلَیْہِمْ وَیُصَلُّونَ عَلَیْکُمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِکُمُ الَّذِینَ تُبْغِضُونَہُمْ وَیُبْغِضُونَکُمْ، وَتَلْعَنُونَہُمْ وَیَلْعَنُونَکُمْ۔)) قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَفَلَا نُنَابِذُہُمْ عِنْدَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: ((لَا، مَا أَقَامُوا لَکُمُ الصَّلَاۃَ، أَلَا وَمَنْ وُلِّیَ عَلَیْہِ أَمِیرٌ وَالٍ فَرَآہُ یَأْتِی شَیْئًا مِنْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَلْیُنْکِرْ مَا یَأْتِی مِنْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ، وَلَا یَنْزِعَنَّیَدًا مِنْ طَاعَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۲۴۴۸۱)
سیدنا عوف بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بہترین حکمران وہ ہیں کہ جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور تم ان کے حق میں رحمت کی دعائیں کرو اور وہ تمہارے حق میں رحمت کی دعائیں کریں اور تمہارے بد ترین حکمران وہ ہیں کہ جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں اور تم ان پر لعنتیں کرو اور وہ تم پر لعنتیں کریں۔ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ایسی صورت حال میں ہم ان سے الگ تھلگ نہ ہوجائیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نما زکی پابندی کریں، تم ان سے الگ نہیں ہوسکتے، خبردار! تم میں سے کسی پر کوئی آدمی امیر اورحکمران ہو اور وہ اپنے امیر کو اللہ کی معصیت کا کام کرتے ہوئے دیکھے تو وہ اللہ تعالیٰ کی اس معصیت کا انکار کرے اور اس کی اطاعت سے اپنا ہاتھ نہ کھینچے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12150

۔ (۱۲۱۵۰)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ مَاتَ عَلٰی غَیْرِ طَاعَۃِ اللّٰہِ مَاتَ وَلَا حُجَّۃَ لَہُ، وَمَنْ مَاتَ وَقَدْ نَزَعَ یَدَہُ مِنْ بَیْعَۃٍ، کَانَتْ مِیتَتُہُ مِیتَۃَ ضَلَالَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۵۸۹۷)
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اللہ کی اطاعت کے علاوہ کسی اور چیز پر مرا تو وہ اس حال میں مرے گا کہ اس کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہو گی اور جو اس حال میں مرا کہ اس نے بیعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہو تو اس کی موت گمراہی کی موت ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12151

۔ (۱۲۱۵۱)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُطِیعٍ فَقَالَ: مَرْحَبًا بِأَبِی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، ضَعُوا لَہُ وِسَادَۃً، فَقَالَ: إِنَّمَا جِئْتُکَ لِأُحَدِّثَکَ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((مَنْ نَزَعَ یَدًا مِنْ طَاعَۃِ اللّٰہِ فَإِنَّہُ یَأْتِییَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَا حُجَّۃَ لَہُ، وَمَنْ مَاتَ وَہُوَ مَفَارِقٌ لِلْجَمَاعَۃِ فَإِنَّہُ یَمُوتُ مِیتَۃً جَاہِلِیَّۃً۔)) (مسند احمد: ۵۵۵۱)
زید بن اسلم اپنے والدسے روایت کرتے ہیں، ان کے والد نے کہا: میں سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں عبداللہ بن مطیع کے ہاں گیا، انہو ں نے کہا: ابو عبدالرحمن کو خوش آمدید، ان کے لیے تکیہ لگاؤ، سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تم کو ایک حدیث سنانے کے لیے حاضر ہوا ہوں، جو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی اور جو آدمی اس حال میں مرا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت سے الگ تھلگ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12152

۔ (۱۲۱۵۲)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: انْتَہَیْتُ إِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ، فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: بَیْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا وَفِیْہِ: ((وَمَنْ بَایَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاہُ صَفْقَۃَیَدِہِ وَثَمَرَۃَ قَلْبِہِ فَلْیُطِعْہُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَائَ آخَرُ یُنَازِعُہُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ۔)) قَالَ: فَأَدْخَلْتُ رَأْسِی مِنْ بَیْنِ النَّاسِ فَقُلْتُ: أَنْشُدُکَ بِاللّٰہِ آنْتَ سَمِعْتَ ہٰذَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَأَشَارَ بِیَدِہِ إِلٰی أُذُنَیْہِ، فَقَالَ: سَمِعَتْہُ أُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِی، قَالَ: فَقُلْتُ: ہٗذَاابْنُعَمِّکَمُعَاوِیَۃُیَعْنِییَأْمُرُنَا بِأَکْلِ أَمْوَالِنَا بَیْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَأَنْ نَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} قَالَ: فَجَمَعَ یَدَیْہِ فَوَضَعَہُمَا عَلٰی جَبْہَتِہِ ثُمَّ نَکَسَ ہُنَیَّۃً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ، فَقَالَ: أَطِعْہُ فِی طَاعَۃِ اللّٰہِ، وَاعْصِہِ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔(مسند احمد: ۶۵۰۳)
عبدالرحمن بن عبد ِربّ ِکعبہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبداللہ بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ اس وقت کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے، میں نے ان کو سنا، وہ کہہ رہے تھے: ہم ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں سفر میں تھے، پھر انہو ں نے طویل حدیث بیان کی، اس کا ایک اقتباس یہ تھا: جس نے کسی حکمران کی بیعت کی اور اس سے معاہدہ کیا اور اس کو دل کا پھل دے دیا، تو وہ حسب ِ استطاعت اس کی اطاعت کرے، اگر کوئی دوسرا آدمی آکر اس پہلے حاکم سے اختلا ف کرے تو بعد والے کی گردن اڑادو۔ عبد الرحمن کہتے ہیں: یہ سن کر میں نے اپنا سر لوگوں کے درمیان میںداخل کیا اور کہا: میں تم کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے یہ حدیث اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے خود سنی ہے؟ انہوں نے اپنے ہاتھوں کے ذریعے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس حدیث کو میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے اس کو محفوظ کیا۔ عبدالرحمن نے کہا: یہ آپ کا چچازاد بھائی سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل اور ناجائز طریقوں سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ}… اے ایمان والو! تم اپنے اموال آپس میں باطل طریقوں سے مت کھاؤ۔ یہ سن کر انہو ںنے اپنے دونوں ہاتھ اکٹھے کیے اور انہیں اپنی پیشانی کے اوپر رکھا اور پھر کچھ دیر سر جھکا کر بیٹھے رہے، پھر کچھ دیر بعد سر اٹھایا اور کہا: اللہ کی اطاعت کا کام ہوتو ان کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ کی معصیت اور نافرمانی ہوتو ان کی بات نہ مانو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12153

۔ (۱۲۱۵۳)۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اقْتَدُوْا بِالَّذَیْنِ مِنْ بَّعْدِیْ اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ۔)) (مسند احمد: ۲۳۶۳۴)
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے بعد ان دو حضرات کی اقتدا کرنا، ابوبکر اور عمر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12154

۔ (۱۲۱۵۴)۔ وَعَنْ اَبِیْ جُحَیْفَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَقُوْلُ: اَلَا اُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا اَبُوْ بَکْرٍ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌)، ثُمَّ قَالَ: اَلَا اُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ بَعْدَ اَبِیْ بَکْرٍ، عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۸۳۳)
سیدنا ابو جحیفہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا میںتمہیں نہ بتلاؤں کہ اس امت میں نبی کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ وہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، کیا میں تمہیں یہ بھی بتلا دوں کہ اس امت میں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ وہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12155

۔ (۱۲۱۵۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ عَاصِبًا رَأْسَہُ فِی خِرْقَۃٍ، فَقَعَدَ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ أَمَنَّ عَلَیَّ فِی نَفْسِہِ وَمَالِہِ مِنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی قُحَافَۃَ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِیلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِیلًا، وَلٰکِنْ خُلَّۃُ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ، سُدُّوْا عَنِّی کُلَّ خَوْخَۃٍ فِی ہٰذَا الْمَسْجِدِ غَیْرَ خَوْخَۃِ أَبِی بَکْرٍ))۔ (مسند احمد: ۲۴۳۲)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مرض الموت کے ایام میں اپنے سر پر پٹی باندھے ہوئے باہر تشریف لائے اور ممبر پر جلوہ افروز ہوئے، آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی اورپھر فرمایا: اپنی جان اور مال کے بارے میں ابو بکر بن ابی قحافہ سے بڑھ کر میرا کون محسن نہیں ہے،اگر میں نے لوگوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بنانا ہوتا تو میں نے ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا، البتہ اسلامی دوستی اور تعلق سب سے زیادہ فضیلت والا ہے، اس مسجد کی طرف کھلنے والے ہر دروازے اور راستے کو بند کر دو، ما سوائے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے راستے کے، وہ کھلا رہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12156

۔ (۱۲۱۵۶)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلُہٗ۔ (مسنداحمد: ۱۱۱۵۱)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12157

۔ (۱۲۱۵۷)۔ وَعَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعَمٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اِنَّ امْرَاَۃً اَتَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَلَّمَتْہُ فِی شَیْئٍ فَأَمَرَہَا بِأَمْرٍ، فَقَالَتْ: أَرَأَیْتَیَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنْ لَمْ أَجِدْکَ؟ قَالَ: ((إِنْ لَمْ تَجِدِینِی فَأْتِی أَبَا بَکْرٍ۔)) (مسند احمد: ۱۶۸۷۷)
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک خاتو ن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کسی معاملہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بات کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے حق میں کوئی حکم فرمایا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں آؤںاور آپ کو نہ پاؤں تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس چلی جانا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12158

۔ (۱۲۱۵۸)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخر عَنْ اَبِیْہٖ اَیْضًا) أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُہُ شَیْئًا فَقَالَ لَہَا: ((ارْجِعِی إِلَیَّ۔)) فَقَالَتْ: فَإِنْ رَجَعْتُ فَلَمْ أَجِدْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! تُعَرِّضُ بِالْمَوْتِ؟ فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((فَإِنْ رَجَعْتِ فَلَمْ تَجِدِینِی فَالْقَیْ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔)) (مسند احمد: ۱۶۸۸۹)
۔ (دوسری سند) ایک خاتون، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اوراس نے آپ سے کسی چیز کا مطالبہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: تو میرے پاس دوبارہ آنا۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میںآؤں اور آ پ کو نہ پاؤں تو؟ وہ اشارۃً آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کی بات کر رہی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: جب تم دوبارہ آؤ اور مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مل لینا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12159

۔ (۱۲۱۵۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَمْعَۃَ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَسَدٍ قَالَ: لَمَّا اسْتُعِزَّ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا عِنْدَہُ فِی نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، قَالَ: دَعَا بِلَالٌ لِلصَّلَاۃِ، فَقَالَ: ((مُرُوْا مَنْ یُصَلِّی بِالنَّاسِ۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا عُمَرُ فِی النَّاسِ وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ غَائِبًا، فَقَالَ: قُمْ یَا عُمَرُ! فَصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَ: فَقَامَ فَلَمَّا کَبَّرَ عُمَرُ سَمِعَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَوْتَہُ، وَکَانَ عُمَرُ رَجُلًا مُجْہِرًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((فَأَیْنَ أَبُو بَکْرٍ؟ یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ، یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ۔)) قَالَ: فَبَعَثَ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ فَجَائَ بَعْدَ أَنْ صَلّٰی عُمَرُ تِلْکَ الصَّلَاۃَ فَصَلّٰی بِالنَّاسِ، قَالَ: وَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ زَمْعَۃَ: قَالَ لِی عُمَرُ: وَیْحَکَ مَاذَا صَنَعْتَ بِییَا ابْنَ زَمْعَۃَ! وَاللّٰہِ، مَا ظَنَنْتُ حِینَ أَمَرْتَنِی إِلَّا أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَکَ بِذٰلِکَ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ مَا صَلَّیْتُ بِالنَّاسِ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ، مَا أَمَرَنِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلٰکِنْ حِینَ لَمْ أَرَ أَبَا بَکْرٍ رَأَیْتُکَ أَحَقَّ مَنْ حَضَرَ بِالصَّلَاۃِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۱۳)
سیدنا عبداللہ بن زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر بیماری کا غلبہ تھا تو میں چند مسلمانوں کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تھا، سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نماز پڑھانے کی درخواست کی،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کسی سے کہہ دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ سیدنا ابن زمعہ کہتے ہیں: میں گیا اور دیکھا کہ وہاں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود نہ تھے، البتہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود تھے، میں نے جا کر کہا: اے عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، سو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھ کھڑے ہوئے، چونکہ وہ بلند آواز والے آدمی تھے، اس لیے انہوں نے جب تکبیر کہی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آواز سن لی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو بکر کہاں ہیں؟ اللہ اور مسلمان اس کو نہیں مانیںگے، اللہ اور مسلمان تو اس کا انکار کریں گے۔ بہرحال وہ نماز تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پڑھا دی۔ اس کے بعد سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پیغام بھیجا گیا، بعد میں انہوں نے لوگوں کو نماز یں پڑھائیں۔ سیدنا عبداللہ بن زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: ابن زمعہ! تجھ پر بڑا افسوس ہے، تو نے میرے ساتھ کیا کیا؟ جب تم نے مجھے آکر نماز پڑھانے کا کہا تو میں یہی سمجھا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہیں اسی چیز کا حکم دیا ہے، اگر میرے خیال میں یہ بات نہ ہوتی تو میں لوگوں کو نماز نہ پڑھاتا۔ سیدنا ابن زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو مجھے اس بات کا حکم نہیں دیا تھا (کہ میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کہوں اور آپ کو نہ کہوں)۔ لیکن جب مجھے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نظر نہ آئے تو میں نے موجودہ لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ مستحق سمجھاکہ آپ نماز پڑھائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12160

۔ (۱۲۱۶۰)۔ وعَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ: ((ائْتِنِی بِکَتِفٍ أَوْ لَوْحٍ حَتّٰی أَکْتُبَ لِأَبِی بَکْرٍ کِتَابًا لَا یُخْتَلَفُ عَلَیْہِ۔)) فَلَمَّا ذَہَبَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ لِیَقُومَ قَالَ: ((أَبَی اللّٰہُ وَالْمُؤْمِنُونَ أَنْ یُخْتَلَفَ عَلَیْکَیَا أَبَا بَکْرٍ!)) (مسند احمد: ۲۴۷۰۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شدید بیمار ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم میرے پاس کندھے کی چوڑی ہڈی یا ایک تختی لے کر آؤ تاکہ میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ اس پر اختلاف ہی واقع نہ ہو۔ جب عبدالرحمن اٹھ کر جانے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! اللہ ! مسند میں مذکور ایک راوی عبدالرحمن بن ابی بکر ضعیف ہیں ایک آدمی اس نام (عبدالرحمن بن ابی بکر) سے حدیث میں مذکور ہے یہ صحابی اور ابوبکر صدیق کے بیٹے ہیں۔ (عبداللہ رفیق) اور اہل ایمان نے اس بات سے انکار کر دیا ہے کہ تجھ پر اختلاف کیا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12161

۔ (۱۲۱۶۱)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَتْ: لَمَّا کَانَ وَجَعُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ قَالَ: ّّادْعُوا لِی أَبَا بَکْرٍ، وَابْنَہُ فَلْیَکْتُبْ لِکَیْلَایَطْمَعَ فِی أَمْرِ أَبِی بَکْرٍ طَامِعٌ، وَلَا یَتَمَنّٰی مُتَمَنٍّ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ۔)) مَرَّتَیْنِ، و قَالَ مُؤَمَّلٌ مَرَّۃً: وَالْمُؤْمِنُونَ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَأَبَی اللّٰہُ وَالْمُسْلِمُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ اَبِیْ فَکَانَ اَبِیْ۔ (مسند احمد: ۲۵۲۵۸)
۔ (دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرض الموت میں مبتلا تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ابو بکر اور ان کے بیٹے کو میرے پاس بلا کر لاؤ، تاکہ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے معاملے میں کوئی لالچی لالچ نہ کرے اور اس امر کی خواہش رکھنے والا اس چیز کی خواہش نہ کرے۔ آپ نے یہ کلمہ دو مرتبہ ارشاد فرمایا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں نے اس چیز کا انکار کر دیا ہے (ما سوائے ابو بکر کے)۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ نے اور مسلمانوں نے اس چیز کے لیے لوگوںکا انکار کر دیا ہے، ما سوائے میرے باپ کے اور پھر میرے باپ ہی خلیفہ بنے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12162

۔ (۱۲۱۶۲)۔ عَنْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فِیْ خُطْبَۃٍ خَطَبَہَا عَلٰی مِنْبَرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زَمْنَ خِلَافَتِہٖ،مِنْہَاقَوْلُہٗ: وَقَدْبَلَغَنِی أَنَّ قَائِلًا مِنْکُمْ یَقُولُ: لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَایَعْتُ فُلَانًا، فَلَا یَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ یَقُولَ: إِنَّ بَیْعَۃَ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَتْ فَلْتَۃً، أَلَا وَإِنَّہَا کَانَتْ کَذَلِکَ، أَلَا وَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَقٰی شَرَّہَا، وَلَیْسَ فِیکُمُ الْیَوْمَ مَنْ تُقْطَعُ إِلَیْہِ الْأَعْنَاقُ مِثْلُ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَلَا وَإِنَّہُ کَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِینَ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَلِیًّا وَالزُّبَیْرَ وَمَنْ کَانَ مَعَہُمَا تَخَلَّفُوا فِی بَیْتِ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِنْتِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَتَخَلَّفَتْ عَنَّا الْأَنْصَارُ بِأَجْمَعِہَا فِی سَقِیفَۃِ بَنِی سَاعِدَۃَ، وَاجْتَمَعَ الْمُہَاجِرُونَ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقُلْتُ لَہُ: یَا أَبَا بَکْرٍ! انْطَلِقْ بِنَا إِلٰی إِخْوَانِنَا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْطَلَقْنَا نَؤُمُّہُمْ حَتّٰی لَقِیَنَا رَجُلَانِ صَالِحَانِ، فَذَکَرَا لَنَا الَّذِی صَنَعَ الْقَوْمُ، فَقَالَا: أَیْنَ تُرِیدُونَ؟یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! فَقُلْتُ: نُرِیدُ إِخْوَانَنَا ہٰؤُلَائِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَا: لَا عَلَیْکُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوہُمْ وَاقْضُوْا أَمْرَکُمْ یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَنَأْتِیَنَّہُمْ، فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی جِئْنَاہُمْ فِی سَقِیفَۃِ بَنِی سَاعِدَۃَ، فَإِذَا ہُمْ مُجْتَمِعُونَ، وَإِذَا بَیْنَ ظَہْرَانَیْہِمْ رَجُلٌ مُزَمَّلٌ، فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ فَقَالُوْا: سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ، فَقُلْتُ: مَا لَہُ؟ قَالُوْا: وَجِعٌ، فَلَمَّا جَلَسْنَا قَامَ خَطِیبُہُمْ، فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ، وَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ! فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَکَتِیبَۃُ الْإِسْلَامِ، وَأَنْتُمْ یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! رَہْطٌ مِنَّا، وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّۃٌ مِنْکُمْ، یُرِیدُونَ أَنْ یَخْزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا، وَیَحْضُنُونَا مِنَ الْأَمْرِ، فَلَمَّا سَکَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَکَلَّمَ وَکُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَۃً أَعْجَبَتْنِی، أَرَدْتُ أَنْ أَقُولَہَا بَیْنَیَدَیْ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَقَدْ کُنْتُ أُدَارِی مِنْہُ بَعْضَ الْحَدِّ، وَہُوَ کَانَ أَحْلَمَ مِنِّی وَأَوْقَرَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: عَلٰی رِسْلِکَ، فَکَرِہْتُ أَنْ أُغْضِبَہُ وَکَانَ أَعْلَمَ مِنِّی وَأَوْقَرَ، وَاللّٰہِ! مَا تَرَکَ مِنْ کَلِمَۃٍ أَعْجَبَتْنِی فِی تَزْوِیرِی إِلَّا قَالَہَا فِی بَدِیہَتِہِ، وَأَفْضَلَ حَتّٰی سَکَتَ، فَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ! فَمَا ذَکَرْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَأَنْتُمْ أَہْلُہُ، وَلَمْ تَعْرِفْ الْعَرَبُ ہٰذَا الْأَمْرَ إِلَّا لِہٰذَا الْحَیِّ مِنْ قُرَیْشٍ، ہُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا، وَقَدْ رَضِیتُ لَکُمْ أَحَدَ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ أَیَّہُمَا شِئْتُمْ، وَأَخَذَ بِیَدِی وَبِیَدِ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ، فَلَمْ أَکْرَہْ مِمَّا قَالَ غَیْرَہَا، وَکَانَ وَاللّٰہِ! أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِی، لَا یُقَرِّبُنِی ذٰلِکَ إِلٰی إِثْمٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلٰی قَوْمٍ فِیہِمْ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَّا أَنْ تَغَیَّرَ نَفْسِی عِنْدَ الْمَوْتِ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَاالْمُرَجَّبُ، مِنَّا أَمِیرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیرٌیَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! فَقُلْتُ لِمَالِکٍ: مَا مَعْنَی أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَا الْمُرَجَّبُ؟ قَالَ: کَأَنَّہُ یَقُولُ: أَنَا دَاہِیَتُہَا، قَالَ: وَکَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ حَتّٰی خَشِیتُ الِاخْتِلَافَ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ یَدَکَیَا أَبَا بَکْرٍ! فَبَسَطَ یَدَہُ فَبَایَعْتُہُ وَبَایَعَہُ الْمُہَاجِرُونَ، ثُمَّ بَایَعَہُ الْأَنْصَارُ، وَنَزَوْنَا عَلٰی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْہُمْ: قَتَلْتُمْ سَعْدًا، فَقُلْتُ: قَتَلَ اللّٰہُ سَعْدًا، وَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَمَا وَاللّٰہِ! مَا وَجَدْنَا فِیمَا حَضَرْنَا أَمْرًا ہُوَ أَقْوٰی مِنْ مُبَایَعَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، خَشِینَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَکُنْ بَیْعَۃٌ أَنْ یُحْدِثُوا بَعْدَنَا بَیْعَۃً، فَإِمَّا أَنْ نُتَابِعَہُمْ عَلٰی مَا لَا نَرْضٰی، وَإِمَّا أَنْ نُخَالِفَہُمْ فَیَکُونَ فِیہِ فَسَادٌ، فَمَنْ بَایَعَ أَمِیرًا عَنْ غَیْرِ مَشْوَرَۃِ الْمُسْلِمِینَ، فَلَا بَیْعَۃَ لَہُ وَلَا بَیْعَۃَ لِلَّذِی بَایَعَہُ تَغِرَّۃً أَنْ یُقْتَلَا، قَالَ مَالِکٌ: وَأَخْبَرَنِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، أَنَّ الرَّجُلَیْنِ اللَّذَیْنِ لَقِیَاہُمَا عُوَیْمِرُ بْنُ سَاعِدَۃَ وَمَعْنُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: وَأَخْبَرَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ أَنَّ الَّذِی قَالَ: أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَا الْمُرَجَّبُ، الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ۔ (مسند احمد: ۳۹۱)
سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے دور خلافت میں منبرِ رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایک خطبہ دیا، اس میں آپ نے یہ بھی کہا تھا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کوئی کہنے والا کہتا ہے کہ اگر عمر فوت ہوجائیں تو میں فلاں کی بیعت کروں گا اور کوئی آدمی یہ دھوکا نہ کھائے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت اچانک ہوئی تھی، خبردار! اگرچہ وہ اسی طرح ہی ہوئی تھی، لیکن خبردار! اللہ تعالیٰ نے اچانک ہونے والی بیعت کے شر سے محفوظ رکھا، آج تمہارے اندر ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جیسا ایک بھی آدمی نہیںہے، جسے دیکھنے کے لیے دور دراز کے سفر کیے جائیں، یا د رکھو جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہم سب سے افضل تھے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے ساتھ والے افراد دختر رسول سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر چلے گئے اور تمام انصار سقیفہ بنی ساعدہ میںجمع ہوگئے اور مہاجرین ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف روانہ ہوگئے، میں نے ان سے کہا: اے ابو بکر! آؤانصاری بھائیوں کی طرف چلیں، ہم ان کا قصد کر کے ان کی طرف روانہ ہو گئے، راستے میں ہمیں دو نیک آدمی ملے اور انہوں نے ہمیںلوگوں کے عمل سے مطلع کیا اور انہوں ے پوچھا: اے مہاجرین! تم کدھر جارہے ہو؟ میںنے کہا: ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جارہے ہیں۔ ان دونوں نے کہا: اے مہاجرین کی جماعت! اگر تم ان کے ہاں نہ جاؤ اور اپنا معاملہ خودہی حل کر لو تو تم پر کوئی حرج نہیں ہوگا۔ لیکن میں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ان کے پاس ضرور جائیں گے، پس ہم آگے چل دیئے، یہاں تک کہ ہم سقیفہ بنی ساعدہ میں ان کے پاس پہنچ گئے، وہ لوگ جمع تھے، ان کے درمیان سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود تھے، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ میں نے کہا: ان کو کیا ہوا ہے؟لوگوں نے بتلایا کہ یہ بیمار ہیں، جب ہم بیٹھ گئے تو ان کا ایک مقرر کھڑا ہوا، اس نے اللہ کی کما حقہ حمد و ثنا بیان کی، اس کے بعد اس نے کہا:ہم اللہ تعالیٰ کے انصار اور اسلامی لشکر ہیں اور اے مہاجرو! تم ہمارا ہی چھوٹا سا حصہ ہو، تم میں سے کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے مقام سے نیچے گرادیں اور ہمیں حکمرانی سے محروم کردیں، جب وہ آدمی خاموش ہوا تو میرا (عمر) نے بھی ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی موجودگی میں کچھ کہنے کا ارادہ کیا، میں ایک مقالہ یعنی تقریر تیار کر چکا تھا، وہ خود مجھے بھی خوب اچھی لگ رہی تھی، میں کسی حد تک ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے جھجکتا تھا، وہ مجھ سے زیادہ با حوصلہ اور باوقار تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے فرمایا: ذرا ٹھہر جاؤ، میں نے ان کو ناراض کرنا اچھا نہ سمجھا، جبکہ وہ مجھ سے زیادہ صاحب علم اور صاحب وقا رتھے، اللہ کی قسم! میں اپنی تیار کردہ تقریر میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا، ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فی البدیہ وہ سب کچھ کہہ دیا، یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے، پھر انھوں نے کہا: اے انصار! تم نے جس فضلیت اور خوبی کا تذکرہ کیا ہے، تم واقعی اس کے اہل ہو، لیکن عرب لوگ خلافت کے فضلیت و شرف کا مستحق صرف قریش کو ہی سمجھتے ہیں، وہ اپنے نسب اور سکونت کے لحاظ سے تمام عرب سے اعلیٰ ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے میں (عمر) کااور سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہاتھ پکڑا اور کہا:میں تمہارے لیے ان دو آدمیوں کا انتخاب کر رہا ہوں، تم ان میں سے جسے چاہو اپنا امیر مقرر کر لو، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جتنی باتیں کی تھیں، ان میں سے مجھے صرف یہی بات ناگوار گزری تھی، اللہ کی قسم! اگر مجھے آگے لایا جاتا اور میری گردن اڑادی جاتی اور کوئی سابھی گناہ مجھے اس مقام تک نہ لے جاتا، یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہوتے ہوئے کسی قوم کا امیر بن جاؤں،انصار میں سے ایک کہنے والے نے کہا: میں وہ آدمی ہوں، جس سے اس معاملے کی شفا حاصل کی جا سکتی ہے اور میں ہی وہ شخص ہوں، جس کی طرف اس معاملے میں رجوع ہونا چاہیے، بس اے قریش کی جماعت! ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک تم میں سے۔ میں نے امام مالک سے کہا: مَا مَعْنٰی أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَا الْمُرَجَّبُ کا کیا معنی ہے؟ انھوں نے کہا: شاید وہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں ہی معاملہ فہم ہوں اور اس چیز کا شعور رکھتا ہوں۔ اس پر شور مچ گیا ور آوازیں بلند ہوگئیں، یہاں تک کہ مجھے لڑائی کا خدشہ ہو گیا، میں نے کہا: اے ابوبکر! آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں، انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا،میں نے ان کی بیعت کرلی اور مہاجرین نے بھی ان کی بیعت شروع کر دی، اس کے بعد انصار نے بھی ان کی بیعت کرلی، بیچ میں ہم نے سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اوپر ہجو م کیا، ان میں سے ایک نے کہا: تم نے سعد کو قتل کر دیا ہے۔میںنے کہا: اللہ سعد کو قتل کرے۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمیں جس قدر بھی امور پیش آئے، ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت سے بڑھ کر ہم نے کسی امر کو زیادہ قوی نہیں پایا، ہمیں اندیشہ تھا کہ اگر ہم لوگوں کو چھوڑ گئے او ربیعت نہ ہوئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ کوئی اور بیعت کرلیں، تب یا تو ہم ان سے ایسے امر پر بیعت کریں گے، جو ہمیں پسند نہیں ہو گا، یا ہم ان کی مخالفت کریں گے تو فساد مچ جائے گا، جو آدمی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی امیر کی بیعت کر لے، اس کی بیعت کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا، اسی طرح جس کے حق میں بیعت کی گئی ہو گی، وہ بھی غیر معتبر ہو گا، یہ دونوں بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا قتل کر دئیے جانے کے حقدار ہوں گے۔ امام مالک نے کہا: مجھے ابن شہاب نے عروہ بن زبیر سے بیان کیا کہ جو دو آدمی راستے میں ملے تھے وہ سیدہا عریمر بن ساعدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا معمر بن عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، ابن شہاب نے کہا: سعید بن مسیب نے مجھے بیان کیا کہ جس آدمی نے یہ بات کی تھی کہ میں وہ آدمی ہوں، جس سے اس معاملے کی شفا حاصل کی جا سکتی ہے اور میں ہی وہ شخص ہوں، جس کی طرف اس معاملے میں رجوع ہونا چاہیے۔ وہ سیدنا حباب بن منذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12163

۔ (۱۲۱۶۳)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ خُطَبَائُ الْأَنْصَارِ فَجَعَلَ مِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ: یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنْکُمْ قَرَنَ مَعَہُ رَجُلًا مِنَّا، فَنَرَی أَنْ یَلِیَ ہَذَا الْأَمْرَ رَجُلَانِ أَحَدُہُمَا مِنْکُمْ وَالْآخَرُ مِنَّا، قَالَ: فَتَتَابَعَتْ خُطَبَائُ الْأَنْصَارِ عَلٰی ذَلِکَ، قَالَ فَقَامَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ: فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ، وَإِنَّمَا الْإِمَامُ یَکُونُ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ، وَنَحْنُ أَنْصَارُہُ کَمَا کُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ: جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا مِنْ حَیٍّیَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، وَثَبَّتَ قَائِلَکُمْ، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَوْ فَعَلْتُمْ غَیْرَ ذٰلِکَ لَمَا صَالَحْنَاکُمْ۔ (مسند احمد: ۲۱۹۵۳)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو اتو انصار کے کچھ خطیب اورمقرر حضرات کھڑے ہوئے، ان میں سے بعض نے کہا: اے مہاجرین کی جماعت! اللہ کے رسول جب تم میں سے کسی کو عامل مقرر کرتے تو اس کے ساتھ ہم میں سے ایک آدمی کو بھی مقرر کرتے تھے، اس لیے ہماری رائے یہ ہے کہ دو آدمی حکمران ہوں، ایک تم میں سے اور ایک ہم میں سے۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:تمام انصاری مقررین نے یہی بات دہرائی، پھر سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہاـ: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مہاجرین میں سے تھے، لہٰذا اـمام اور حاکم بھی مہاجرین میں سے ہوگا اور ہم اس کے اسی طرح انصار اورمعاون ہوں گے، جیسے ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے انصار تھے۔ یہ بات سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھے اور انہوں نے کہا: اسے انصار کی جماعت! اللہ آپ کے قبیلے کو جزائے خیرے عطا فرمائے اور اس تجویز دینے والے کو ہمیشہ صراط مستقیم پر قائم رکھے۔ بعد ازاں کہا: اللہ کی قسم! اگر تم اس کے بر خلاف کچھ تجویز کرتے تو ہم تم سے اتفاق نہ کرتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12164

۔ (۱۲۱۶۴)۔ عَنْ رَافِعٍ الطَّائِیِّ رَفِیقِ أَبِی بَکْرٍ فِی غَزْوَۃِ السَّلَاسِلِ، قَالَ: وَسَأَلْتُہُ عَمَّا قِیلَ مِنْ بَیْعَتِہِمْ، فَقَالَ: وَہُوَ یُحَدِّثُہُ عَمَّا تَکَلَّمَتْ بِہِ الْأَنْصَارُ، وَمَا کَلَّمَہُمْ بِہِ، وَمَا کَلَّمَ بِہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْأَنْصَارَ، وَمَا ذَکَّرَہُمْ بِہِ مِنْ إِمَامَتِی إِیَّاہُمْ بِأَمْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَرَضِہِ، فَبَایَعُونِی لِذٰلِکَ، وَقَبِلْتُہَا مِنْہُمْ، وَتَخَوَّفْتُ أَنْ تَکُونَ فِتْنَۃٌ، تَکُونُ بَعْدَہَا رِدَّۃٌ۔ (مسند احمد: ۴۲)
سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے غزوۂ سلا سل کے دوران ساتھ رہنے والے رافع طائی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ان کی بیعت کے بارے میں کہی جانے والی باتوں کے بارے میں سوال کیا، پس انھوں نے وہ کچھ بیان کیا، جو انصار نے کہا، جو انھوں نے خود بیان کیا اور پھر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کے جواب میں جو کچھ کہا، سیدنا عمر نے بیچ میں یہ بات بھی ذکر کی کہ میں (ابوبکر) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مرض الموت کے دوران میں امامت کراتا رہا، پس پھر لوگوں نے میری بیعت کی اور میں نے ان سے ان کی بیعت قبول کی، لیکن مجھے ڈرتھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسا فتنہ بپا ہو جائے کہ جس کے بعد لوگ دین سے مرتد ہونا شروع ہو جائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12165

۔ (۱۲۱۶۵)۔ عَنْ زَائِدَۃَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتِ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِیرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیرٌ، فَأَتَاہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنْ یَؤُمَّ النَّاسَ؟ فَأَیُّکُمْ تَطِیبُ نَفْسُہُ أَنْ یَتَقَدَّمَ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: نَعُوذُ بِاللّٰہِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۳۸۴۲)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو انصاریوں نے کہا:ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک تم مہاجرین میں سے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس گئے اور کہا: اے انصار کی جماعت! کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم فرمایا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ہم جانتے ہیں، پھر انھوں نے کہا: تو پھر تم میں سے کس میں حوصلہ ہے کہ وہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے آگے کھڑا ہو؟ انصار نے کہا: ہم اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے آگے کھڑے ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12166

۔ (۱۲۱۶۶)۔ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ: تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَکْرٍ فِی طَائِفَۃٍ مِنَ الْمَدِینَۃِ، قَالَ: فَجَائَ فَکَشَفَ عَنْ وَجْہِہِ فَقَبَّلَہُ وَقَالَ: فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی، مَا أَطْیَبَکَ حَیًّا وَمَیِّتًا، مَاتَ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، فَذَکَرَ الْحَدِیثَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ یَتَقَاوَدَانِ حَتّٰی أَتَوْہُمْ، فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ وَلَمْ یَتْرُکْ شَیْئًا أُنْزِلَ فِی الْأَنْصَارِ، وَلَا ذَکَرَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ شَأْنِہِمْ إِلَّا وَذَکَرَہُ، وَقَالَ: وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَوْ سَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا، وَسَلَکَتِ الْأَنْصَارُ وَادِیًا، سَلَکْتُ وَادِیَ الْأَنْصَارِ۔)) وَلَقَدْ عَلِمْتَ یَا سَعْدُ! أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ وَأَنْتَ قَاعِدٌ: ((قُرَیْشٌ وُلَاۃُ ہٰذَا الْأَمْرِ، فَبَرُّ النَّاسِ تَبَعٌ لِبَرِّہِمْ، وَفَاجِرُہُمْ تَبَعٌ لِفَاجِرِہِمْ۔)) قَالَ: فَقَالَ لَہُ سَعْدٌ: صَدَقْتَ نَحْنُ الْوُزَرَائُ وَأَنْتُمُ الْأُمَرَائُ۔ (مسند احمد: ۱۸)
حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مدینہ منورہ کے کسی نواحی علاقے میں تھے، پس وہ آئے اور آپ کے چہرۂ اقدس سے چادر ہٹائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بوسہ دیا اور فرمایا: میرے والدین آپ پر فدا ہوں، آپ کس قدر پاکیزہ ہیں، زندہ ہوں یا میت، رب کعبہ کی قسم! محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پاگئے ہیں، پھر راوی نے حدیث ذکر کی، ایک اقتباس یہ تھا: پھر ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چلتے چلتے انصاری لوگوں کے پاس پہنچ گئے، ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے گفتگو کی اور انصار کے حق میں جو کچھ نازل ہوا تھا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو کچھ ان کے بارے میں بیان فرمایا تھا، ان سب فضائل کا ذکر کیا اور ان میںسے کوئی بات بھی نہ چھوڑی، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہارے حق میں فرمایا تھا: اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسرے وادی میں چلیں تو میں انصار والی وادی میں چلو ں گا۔ اسے سعد! تم بھی موجود تھے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ قریش اس اقتدار کے حقدار اور اہل ہیں، نیک لوگ نیک قریشیوں کے تابع ہیں اور فاجر لوگ فاجر قریشیوں کے۔ یہ سن کر سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ نے درست کہا، امیر حکمران آپ ہوں گے اور ہم آپ کے وزیر ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12167

۔ (۱۲۱۶۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، تَسْأَلُہُ مِیرَاثَہَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْہِ بِالْمَدِینَۃِ وَفَدَکَ وَمَا بَقِیَ مِنْ خُمُسِ خَیْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ، إِنَّمَا یَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِی ہٰذَا الْمَالِ۔)) وَإِنِّی وَاللّٰہِ لَا أُغَیِّرُ شَیْئًا مِنْ صَدَقَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِہَا الَّتِی کَانَتْ عَلَیْہَا فِی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَأَعْمَلَنَّ فِیہَا بِمَا عَمِلَ بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَبٰی أَبُو بَکْرٍ أَنْ یَدْفَعَ إِلٰی فَاطِمَۃَ مِنْہَا شَیْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَۃُ عَلٰی أَبِی بَکْرٍ فِی ذٰلِکَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَرَابَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَیَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِی، وَأَمَّا الَّذِی شَجَرَ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ مِنْ ہٰذِہِ الْأَمْوَالِ، فَإِنِّی لَمْ آلُ فِیہَا عَنِ الْحَقِّ، وَلَمْ أَتْرُکْ أَمْرًا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُہُ فِیہَا إِلَّا صَنَعْتُہُ۔ (مسند احمد: ۵۵)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف یہ مطالبہ کرنے کے لیے پیغام بھیجا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مدینہ میں جو مال دیا، اور فدک اور خیبر کے خُمُس میں سے مجھے بطور وراثت میرا حصہ دیا جائے۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: ہمارا چھوڑا ہوا مال بطور وراثت تقسیم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہوتا ہے، البتہ آل محمد اس مال میں سے کھاسکتے ہیں۔ اللہ کی قسم! یہ صدقات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حیا ت مباکہ میں جس طرز پرتھے، میں ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لاؤں گا اور میں ان کو اسی طرح استعمال کروں گا، جس طرح اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو کام میںلاتے تھے، غرضیکہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو ان میں سے کوئی چیز دینے سے انکا کر دیا، اس وجہ سے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ناراض ہوگئیں۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رشتہ دار اپنے رشتہ داروں سے بڑھ کر محبوب ہیں، مگر ان اموال کی وجہ سے میرے اور آپ کے درمیان جو صور ت حال پیدا ہوگئی ہے، میں نے اس میں حق و صداقت پر عمل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس میں جو کچھ کرتے دیکھا، میں نے اس میں سے کسی چیز کو ترک نہیں کیا، بلکہ میں نے ہر کام اسی طرح سرانجام دیا ہے، جس طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12168

۔ (۱۲۱۶۸)۔ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ فَاطِمَۃُ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ: أَنْتَ وَرِثْتَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْ أَہْلُہُ؟ قَالَ: فَقَالَ: لَا، بَلْ أَہْلُہُ، قَالَتْ: فَأَیْنَ سَہْمُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِیًّا طُعْمَۃً ثُمَّ قَبَضَہُ، جَعَلَہُ لِلَّذِییَقُومُ مِنْ بَعْدِہِ۔)) فَرَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَتْ: فَأَنْتَ وَمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْلَمُ۔ (مسند احمد: ۱۴)
سیدنا ابوطفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو اتو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں پیغام بھیجا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے وارث آپ ہیں یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر کے افراد؟ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا وارث میں نہیں ہوں، بلکہ آپ کے اہل خانہ ہی ہیں، سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: تو پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حصہ کہا ںہے؟ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی نبی کو کوئی چیز عطا کرتا ہے اور اسکے بعد اپنے نبی کی روح کو قبض کر لیتا ہے تو وہ چیز اس کے خلیفہ کے کنٹرول میں آجاتی ہے۔ پس میں نے سوچا ہے کہ میں اسے مسلمانوں میں تقسیم کر دوں، سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: تو پھر آپ ہی اس کو جو آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث سنی ہے، بہتر جانتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12169

۔ (۱۲۱۶۹)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰییَقُولُوا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، فَإِذَا قَالُوہَا عَصَمُوا مِنِّی دِمَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ۔)) قَالَ: فَلَمَّا قَامَ أَبُو بَکْرٍ وَارْتَدَّ مَنِ ارْتَدَّ، أَرَادَ أَبُو بَکْرٍ قِتَالَہُمْ، قَالَ عُمَرُ: کَیْفَ تُقَاتِلُ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمَ وَہُمْ یُصَلُّونَ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: وَاللّٰہِ لَأُقَاتِلَنَّ قَوْمًا ارْتَدُّوْا عَنِ الزَّکَاۃِ، وَاللّٰہِ لَوْ مَنَعُونِی عَنَاقًا مِمَّا فَرَضَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ لَقَاتَلْتُہُمْ، قَالَ عُمَرُ: فَلَمَّا رَأَیْتُ اللّٰہَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِی بَکْرٍ لِقِتَالِہِمْ عَرَفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ۔ (مسند احمد: ۱۰۸۵۲)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں، جب تک وہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُکا اقرار نہ کرلیں، پس جب وہ یہ کلمہ پڑھ کر اس کا اقرار کر لیں گے تو وہ اپنی جانیں اور اموال مجھ سے محفوظ کر لیں گے اور اس کے بعد ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہو گا۔ پس جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خلیفہ بنے تو کچھ لوگ اس قدر مرتد ہوگئے (کہ زکوۃ دینے سے انکار کر دیا)، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے قتال کرنے کا ارادہ کیا، لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ ان لوگوں سے قتال کیوں کریں گے، حالانکہ یہ نماز پڑھتے ہیں؟ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جو لوگ زکوٰۃ دینے سے انکاری ہیں، میں ضرور ضرور ان سے قتال کروں گا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ اور اس کے رسول نے ان پر بھیڑ یا بکری کا ایک بچہ بھی بطور زکوٰۃ فرض کی ہے اور اگر یہ لوگ اسے ادا نہیں کریں گے تو میں ان سے قتال کروں گا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب میں نے دیکھا کہ اللہ نے ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سینہ ان لوگوں سے قتال کرنے کے لیے کھول دیا ہے تو میں جان گیا کہ یہی بات حق ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12170

۔ (۱۲۱۷۰)۔ عَنِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَرْسَلَ إِلَیْہِ مَقْتَلَ أَہْلِ الْیَمَامَۃِ، فَإِذَا عُمَرُ عِنْدَہُ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِی، فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ بِأَہْلِ الْیَمَامَۃِ مِنْ قُرَّائِ الْقُرْآنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَنَا أَخْشٰی أَنْ یَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّائِ فِی الْمَوَاطِنِ، فَیَذْہَبَ قُرْآنٌ کَثِیرٌ لَا یُوعٰی، وَإِنِّی أَرٰی أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ لِعُمَرَ: وَکَیْفَ أَفْعَلُ شَیْئًا لَمْ یَفْعَلْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: ہُوَ وَاللّٰہِ! خَیْرٌ، فَلَمْ یَزَلْیُرَاجِعُنِی فِی ذٰلِکَ حَتّٰی شَرَحَ اللّٰہُ بِذٰلِکَ صَدْرِی، وَرَأَیْتُ فِیہِ الَّذِی رَأٰی عُمَرُ، قَالَ زَیْدٌ وَعُمَرُ عِنْدَہُ جَالِسٌ لَا یَتَکَلَّمُ، فَقَالَ أَبُوبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنَّکَ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّہِمُکَ، وَقَدْ کُنْتَ تَکْتُبُ الْوَحْیَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاجْمَعْہُ، قَالَ زَیْدٌ: فَوَاللّٰہِ! لَوْ کَلَّفُونِی نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا کَانَ بِأَثْقَلَ عَلَیَّ مِمَّا أَمَرَنِی بِہِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ: کَیْفَ تَفْعَلُونَ شَیْئًا لَمْ یَفْعَلْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ (مسند احمد: ۷۶)
سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یمامہ کی لڑائی کے متعلق میری طرف پیغام بھیجا، جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے تھے، اس وقت سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان کے پاس موجود تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پا س آئے ہیں اور انہو ں نے بتلایا کہ یمامہ میں شدید لڑائی ہوئی اور بہت سے مسلمان قرائِ کرام شہید ہوگئے ہیں، مجھے خدشہ ہے کہ اگر جنگوںمیں اسی طرح قراء شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم کا بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا، جسے محفوظ نہیں کیا گیا ہوگا۔ میر اخیا ل ہے کہ آپ قرآن کریم کو یکجا جمع کرنے کا حکم صادر فرمائیں، میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: جو کام اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہیں کیا، وہ میں کیونکر کروں؟ انہو ںنے کہا: اللہ کی قسم!یہ کام بہتر ہے، وہ میرے ساتھ اس بارے میں اصرار کرتے رہے تاآنکہ اللہ نے اس کا م کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور میر ی رائے بھی سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے کے موافق ہوگئی۔ سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہاں تشریف فرما تھے، مگر انہوں نے کوئی بات نہ کی، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: زید! تم ایک سمجھدار نوجوان ہو، ہم کسی مسئلے میں تم پر کوئی الزام نہیں لگاتے، تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم سے وحی لکھا کرتے تھے، اب تم ہی اسے ایک جگہ جمع کرو۔ سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اگر وہ مجھے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو وہ میرے لیے اس قدر گراں نہ ہوتا، جتنا میرے لیے قرآن مجید کو یکجا جمع کرنے کا حکم گراں گزرا ہے۔ میں نے بھی ان سے کہا تھا کہ تم لوگ وہ کام کیوں کرتے ہو، جو رسول الہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہیں کیا؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12171

۔ (۱۲۱۷۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَلَا إِنِّی أَبْرَأُ إِلٰی کُلِّ خَلِیلٍ مِنْ خُلَّتِہِ، وَلَوِ اتَّخَذْتُ خَلِیلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِیلًا، إِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۳۵۸۰)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! میں اپنے ہر خلیل کی خلت اور گہری دوستی سے اظہار براء ت کرتا ہوں، اگر میں نے کسی کو خلیل بنانا ہو تا تو ابو بکر کو بتاتا، بیشک تمہارا یہ ساتھی اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12172

۔ (۱۲۱۷۲)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( مَا نَفَعَنِیْ مَالٌ قَطٌّ مَا نَفَعَنِیْ مَالُ اَبِیْ بَکْرٍ۔)) فَبَکٰی اَبُوْ بَکْرٍ وَقَالَ: ھَلْ اَنَا وَمَالِیْ اِلَّا لَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! (مسند احمد: ۷۴۳۹)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جتنا فائدہ مجھے ابو بکر کے مال سے پہنچاہے، اتنا کسی دوسرے کے مال سے نہیںپہنچا۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خوشی سے رو پڑے اور کہا: اللہ کے رسول! میں اور میرا مال، سب کچھ آپ کا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12173

۔ (۱۲۱۷۳)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ حَدَّثَہُ قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی الْغَارِ، وَقَالَ مَرَّۃً: وَنَحْنُ فِی الْغَارِ: لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ نَظَرَ إِلٰی قَدَمَیْہِ لَأَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَیْہِ، قَالَ: فَقَالَ: ((یَا اَبَا بَکْرٍ! مَاظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللّٰہُ ثَالِثُہُمَا؟)) (مسند احمد: ۱۱)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غار میں تھے اور دشمن غار کے منہ پر کھڑے تھے، تو میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اگر ان میںسے کسی نے اپنے پاؤں کی طرف جھانکا تو اپنے قدموں کے نیچے ہمیں دیکھ لے گا، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے، جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12174

۔ (۱۲۱۷۴)۔ عَنْ أَبِی عُثْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ قَالَ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی جَیْشِ ذَاتِ السَّلَاسِلِ، قَالَ: فَأَتَیْتُہُ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَیُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَیْکَ؟ قَالَ: ((عَائِشَۃُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: فَمِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ: ((أَبُوہَا۔)) قُلْتُ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ((عُمَرُ۔)) قَالَ: فَعَدَّ رِجَالًا۔ (مسند احمد: ۱۷۹۶۴)
سیدنا عمر و بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے غزوۂ ذات ِسلاسل کے لیے روانہ کیا، میں اس سے فارغ ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! لوگوں میںسے آپ کو سب سے زیادہ کس کے ساتھ محبت ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ سے۔ میں نے کہا: اور مردو ں میں سے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے والد سے۔ میں نے پوچھا: ان کے بعد؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمر سے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید چند آدمیوں کے نام لیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12175

۔ (۱۲۱۷۵)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ قَالَ: کَانَ رُبَمَا سَقَطَ الْخِطَامُ مِنْ یَدِ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: فَیَضْرِبُ بِذِرَاعِ نَاقَتِہِ فَیُنِیخُہَا فَیَأْخُذُہُ، قَالَ: فَقَالُوْا لَہُ: أَفَلَا أَمَرْتَنَا نُنَاوِلُکَہُ؟ فَقَالَ: إِنَّ حَبِیبِی رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِی أَنْ لَا أَسْأَلَ النَّاسَ شَیْئًا۔ (مسند احمد: ۶۵)
ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ بسا اوقات سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ سے اونٹنی کی مہار چھوٹ کر نیچے گر جاتی تو وہ اونٹنی کی اگلی ٹانگ پر کوئی چیز مارکر اسے بٹھاتے اور خود اتر کر اس کو اٹھاتے تھے، لوگوں نے کہا: آپ ہمیں حکم دے دیتے، ہم آپ کو پکڑا دیتے، انھوں نے کہا: میرے حبیب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12176

۔ (۱۲۱۷۶)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: قِیْلَ لِاَبِیْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَا خَلِیْفَۃَ اللّٰہِ!، فَقَالَ: اَنَا خَلِیْفَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَناَ رَاضٍ بہٖ،وَاَناَرَاضٍبہِ،وَاَناَرَاضٍبہٖ۔ (مسنداحمد: ۵۹)
ابن ابی مکیہ سے مروی ہے کہ اس نے کہا: کسی نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے اللہ کے خلیفہ! تو انھوں نے آگے سے کہا: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خلیفہ ہوں اور میں اسی پر راضی ہوں، میں اسی پر راضی ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12177

۔ (۱۲۱۷۷)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی الْمُعَلَّی، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ یَوْمًا فَقَالَ: ((إِنَّ رَجُلًا خَیَّرَہُ رَبُّہُ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَ أَنْ یَعِیشَ فِی الدُّنْیَا مَا شَائَ أَنْ یَعِیشَ فِیہَا، وَیَأْکُلَ فِی الدُّنْیَا مَا شَائَ أَنْ یَأْکُلَ فِیہَا، وَبَیْنَ لِقَائِ رَبِّہِ فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّہِ، فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّہٖ۔)) قَالَ: فَبَکٰی أَبُو بَکْرٍ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ ہٰذَا الشَّیْخِ، أَنْ ذَکَرَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا صَالِحًا، خَیَّرَہُ رَبُّہُ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَ لِقَائِ رَبِّہِ وَبَیْنَ الدُّنْیَا، فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّہِ، وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ أَعْلَمَہُمْ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: بَلْ نَفْدِیکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ! بِأَمْوَالِنَا وَأَبْنَائِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنُّ عَلَیْنَا فِی صُحْبَتِہِ وَذَاتِ یَدِہِ مِنِ ابْنِ أَبِی قُحَافَۃَ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِی قُحَافَۃَ، وَلٰکِنْ وُدٌّ وَإِخَائُ إِیمَانٍ، وَلٰکِنْ وُدٌّ وَإِخَائُ إِیمَانٍ مَرَّتَیْنِ، وَإِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیلُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۸۰۰۶)
سیدنا ابو معلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن خطاب کیا اور فرمایا: ایک بندے کو اس کے رب نے اختیار دیا ہے کہ و ہ چاہے تو دنیا میں زندہ رہے اور جو چاہے کھائے پئے، اور اگر وہ چاہے تو اپنے ربّ سے جاملے، اس بندے نے اپنے رب کی ملاقات کو پسند کرلیا ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگ گئے، صحابہ نے کہا: اس بزرگ کو دیکھو،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی صالح بندے کا ذکر کیا ہے کہ اس کے رب نے اسے اپنی ملاقات یا دنیا میں رہنے میں سے ایک بات کو منتخب کرنے کا اختیار دیا ہے اور اس نے اپنے رب کی ملاقات کو منتخب کیا۔ (اور ابو بکر نے رونا شروع کر دیا)۔ دراصل سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سن کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اپنے اموال اور اولاد سمیت آپ پر فدا ہوں، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سے کوئی اپنی صحبت اور مال کے لحاظ سے ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر میرا محسن نہیں، اگر میں نے کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو ابن ابی قحافہ کو بناتا، البتہ محبت اور ایمانی بھائی چارہ قائم ہے،البتہ ہمارے درمیان محبت اور اخوّت ِ ایمانی کا تعلق قائم ہے، تمہارا یہ ساتھی اللہ تعالیٰ کا خلیل ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12178

۔ (۱۲۱۷۸)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ قَالَ: إِنِّی لَجَالِسٌ عِنْدَ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَلِیفَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَہْرٍ، فَذَکَرَ قِصَّۃً فَنُودِیَ فِی النَّاسِ أَنَّ الصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ، وَہِیَ أَوَّلُ صَلَاۃٍ فِی الْمُسْلِمِینَ نُودِیَ بِہَا إِنَّ الصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ شَیْئًا صُنِعَ لَہُ کَانَ یَخْطُبُ عَلَیْہِ، وَہِیَ أَوَّلُ خُطْبَۃٍ خَطَبَہَا فِی الْإِسْلَامِ، قَالَ: فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! وَلَوَدِدْتُ أَنَّ ہٰذَا کَفَانِیہِ غَیْرِی، وَلَئِنْ أَخَذْتُمُونِی بِسُنَّۃِ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أُطِیقُہَا، إِنْ کَانَ لَمَعْصُومًا مِنَ الشَّیْطَانِ، وَإِنْ کَانَ لَیَنْزِلُ عَلَیْہِ الْوَحْیُ مِنَ السَّمَائِ۔ (مسند احمد: ۸۰)
قیس بن ابی حازم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے ایک مہینہ بعد خلیفۂ رسول سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں انہیں کوئی بات یا د آئی اور انھوں نے لوگوں میں یہ اعلان کرایا کہ اَلصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ ،مسلمانوں میں یہ پہلی نماز تھی، جس کے لیے اس الصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ کے الفاظ کے ساتھ اعلان کیا گیا، لوگ اکٹھے ہوئے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ منبر پر تشریف لے آئے، اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور کہا: لوگو! میں چاہتا ہو ں کہ اس بارِ خلافت کو کوئی اور آدمی سنبھال لے اور میں نے ا س سے سبکدوش ہو جاؤں، اگر تم اپنے نبی کی سنت کے مطابق میرا مؤاخذہ کرنے لگو تو میں اس کی تاب نہ لاسکوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر تو آسمان سے وحی نازل ہوتی تھی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شیطانی اثر سے معصوم و محفوظ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12179

۔ (۱۲۱۷۹)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) عَنْ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّہُ خَطَبَ فَقَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّکُمْ تَقْرَئُ وْنَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ، وَتَضَعُونَہَا عَلٰی غَیْرِ مَا وَضَعَہَا اللّٰہُ: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ} سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْمُنْکَرَ بَیْنَہُمْ فَلَمْ یُنْکِرُوہُیُوشِکُ أَنْ یَعُمَّہُمُ اللّٰہُ بِعِقَابِہٖ))۔ (مسند احمد: ۵۳)
قیس بن ابی حازم سے یہ بھی روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خطبہ دیا اور کہا: لوگو! تم یہ آیت پڑھتے تو ہو مگر تم اس آیت کو اس کے غیر محل پر چسپاں کر رہے ہو، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر اپنی جانوں کا بچاؤ لازم ہے، تمھیں وہ شخص نقصان نہیں پہنچائے گا جو گمراہ ہے، جب تم ہدایت پا چکے۔ میں نے خود اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لو گ جب کسی برائی کو اپنے درمیا ن دیکھ کر اس پر انکار نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں پر عذاب نازل کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12180

۔ (۱۲۱۸۰)۔ عَنْ أَوْسَطَ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَنَۃٍ، فَأَلْفَیْتُ أَبَا بَکْرٍ یَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْأَوَّلِ فَخَنَقَتْہُ الْعَبْرَۃُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! سَلُوا اللّٰہَ الْمُعَافَاۃَ، فَإِنَّہُ لَمْ یُؤْتَ أَحَدٌ مِثْلَ یَقِینٍ بَعْدَ مُعَافَاۃٍ، وَلَا أَشَدَّ مِنْ رِیبَۃٍ بَعْدَ کُفْرٍ، وَعَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّہُ یَہْدِی إِلَی الْبِرِّ، وَہُمَا فِی الْجَنَّۃِ، وَإِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ، فَإِنَّہُ یَہْدِی إِلَی الْفُجُورِ، وَہُمَا فِی النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۴۴)
اوسط بن عمرو سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے ایک سال بعد میں مدینہ منورہ آیا، میںنے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے، انہوںنے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گزشتہ سال ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، یہ کہہ کر ان کی آواز آنسوؤں کی وجہ سے بند ہو گئی، تین بار ایسے ہی ہوا، بالآخر کہا:لوگو! اللہ سے عافیت کا سوال کرو، عافیت کے بعد ایمان و ایقان جیسی کوئی نعمت نہیں، جو بندے کو دی گئی ہو، اور نہ کفر کے بعد شک و شبہ سے بڑھ کر کوئی سخت گناہ ہے، تم صدق اور سچائی کو لازم پکڑو، یہ انسان کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے، اور صدق اور نیکی کا انجام جنت ہے اور تم جھوٹ سے بچ کر رہو، یہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور جھوٹ اور گناہ کا انجام جہنم ہے۔ُُ
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12181

۔ (۱۲۱۸۱)۔ (عَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: خَطَبَنَا اَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَقَامِیْ ہٰذَا عَامَ الْاَوَّلِ، وَبَکٰی اَبُوْ بَکْرٍ فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ: سَلُوا اللّٰہَ الْمُعَافَاہَ اَوْ قَالَ: الْعَافِیَۃَ، فَذَکَرَ نَحْوَ الْحَدِیْثِالْمُتَقَدِّمِ وَزَادَ: ((وَلَا تَحَاسَدُوْا، وَلَا تَبَاغَضُوْا، وَلَا تَقَاطَعُوْا، وَلَا تَدَابَرُوْا، وَکُوْنُوْا اِخْوَانًا کَمَا اَمَرَکُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔)) (مسند احمد: ۵)
۔ (دوسری سند) اوسط بن عمر و کہتے ہیں: سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہم سے خطاب کیا اور کہا: گزشتہ سال اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میری اسی جگہ پر کھڑے ہوئے، یہ کہہ کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رو پڑے، پھر انھوں نے کہا: تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرو، پھر سابق حدیث کی طرح ذکر کیا اور مزید کہا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو، آپس میں قطع رحمی نہ کرو، باہمی قطع تعلقی اور دشمنی اختیار نہ کرو اور تم بھائی بھائی بن کر رہو، جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12182

۔ (۱۲۱۸۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، أَنَّہَا تَمَثَّلَتْ بِہَذَا الْبَیْتِ، وَأَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقْضِی وَأَبْیَضَیُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْہِہِ، رَبِیعُ الْیَتَامَی عِصْمَۃٌ لِلْأَرَامِلِ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَاللّٰہُ عَنْہُ: ذَاکَ وَاللّٰہِ! رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۲۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہو رہے تھے تو انہوں نے یہ شعر پڑھا۔ وَاَبْیَضَ یُسْتَسْقٰی الْغَمَامُ بِوَجْھِہٖ رَبِیْعُ الْیَتَامٰی عِصْمَۃٌ لِلْاَ رَامِلٖ اور سفید فام، جس کے چہرے کے ذریعے بارش طلب کی جاتی ہے، وہ یتیموں کا مربی اور بیواؤںکا محافظ ہے۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ سن کر کہا: اللہ کی قسم! یہ ہستی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12183

۔ (۱۲۱۸۳)۔ عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَت: لَمَّا ثَقُلَ أَبُو بَکْرٍ، قَالَ: أَیُّیَوْمٍ ہٰذَا؟ قُلْنَا: یَوْمُ الِاثْنَیْنِ، قَالَ: فَأَیُّیَوْمٍ قُبِضَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْنَا: قُبِضَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ، قَالَ: فَإِنِّی أَرْجُو مَا بَیْنِی وَبَیْنَ اللَّیْلِ، قَالَتْ: وَکَانَ عَلَیْہِ ثَوْبٌ فِیہِ رَدْعٌ مِنْ مِشْقٍ، فَقَالَ: إِذَا أَنَا مِتُّ فَاغْسِلُوا ثَوْبِی ہٰذَا، وَضُمُّوا إِلَیْہِ ثَوْبَیْنِ جَدِیدَیْنِ فَکَفِّنُونِی فِی ثَلَاثَۃِ أَثْوَابٍ، فَقُلْنَا: أَفَلَا نَجْعَلُہَا جُدُدًا کُلَّہَا؟ قَالَ: فَقَالَ: لَا، إِنَّمَا ہُوَ لِلْمُہْلَۃِ، قَالَتْ: فَمَاتَ لَیْلَۃَ الثُّلَاثَائِ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۹۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شدید بیمار ہو گئے تو پوچھا کہ آج کو نسا دن ہے؟ ہم نے کہا: جی آج سوموار ہے، انہوںنے پوچھا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کس دن فوت ہوئے تھے؟ ہم نے کہا: سوموار کے دن، انہوںنے کہا: مجھے لگتا ہے کہ میں آج رات تک فوت ہو جاؤں گا،انہوں نے ایک کپڑا زیب تن کیا ہوا تھا، اس پر گیرو کا نشان لگا ہوا تھا، انھوں نے کہا: جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے اسی کپڑے کو دھولینا اور اس کے ساتھ دو نئے کپڑے ملالینا اورمجھے تین کپڑوںمیں کفن دے دینا۔ ہم نے کہا: کیا ہم سارے کپڑے نئے نہ بنا دیں؟ انھوں نے کہا: نہیں، یہ (میت کی) پیپ کے لیے ہیں، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ منگل کی رات کو وفات پا گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12184

۔ (۱۲۱۸۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَالَ لَہَا: فِی أَیِّیَوْمٍ مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: فِییَوْمِ الِاثْنَیْنِ، فَقَالَ: مَا شَائَ اللّٰہُ إِنِّی لَا أَرْجُو فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَ اللَّیْلِ، قَالَ: فَفِیمَ کَفَّنْتُمُوہُ؟ قَالَتْ: فِی ثَلَاثَۃِ أَثْوَابٍ بِیضٍ سُحُولِیَّۃٍیَمَانِیَۃٍ، لَیْسَ فِیہَا قَمِیصٌ وَلَا عِمَامَۃٌ، وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: اُنْظُرِی ثَوْبِی ہٰذَا فِیہِ رَدْعُ زَعْفَرَانٍ، أَوْ مِشْقٍ فَاغْسِلِیہِ وَاجْعَلِی مَعَہُ ثَوْبَیْنِ آخَرَیْنِ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: یَا أَبَتِ! ہُوَ خَلِقٌ؟قَالَ: إِنَّ الْحَیَّ أَحَقُّ بِالْجَدِیدِ، وَإِنَّمَا ہُوَ لِلْمُہْلَۃِ، وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ أَعْطَاہُمْ حُلَّۃً حِبَرَۃً فَأُدْرِجَ فِیہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَخْرَجُوہُ مِنْہَا، فَکُفِّنَ فِی ثَلَاثَۃِ أَثْوَابٍ بِیضٍ، قَالَ: فَأَخَذَ عَبْدُ اللّٰہِ الْحُلَّۃَ، فَقَالَ: لَأُکَفِّنَنَّ نَفْسِی فِی شَیْئٍ مَسَّ جِلْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: بَعْدَ ذٰلِکَ وَاللّٰہِ! لَا أُکَفِّنُ نَفْسِی فِی شَیْئٍ مَنَعَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِیَّہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُکَفَّنَ فِیہِ، فَمَاتَ لَیْلَۃَ الثُّلَاثَائِ، وَدُفِنَ لَیْلًا، وَمَاتَتْ عَائِشَۃُ، فَدَفَنَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ لَیْلًا۔ (مسند احمد: ۲۵۵۱۹)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال کس روز کو ہواتھا؟ انہوں نے کہا: سوموار کو۔انہوں نے کہا: ماء شا اللہ، مجھے لگتا ہے کہ میںآج رات فوت ہوجاؤں گا، انھوں نے پوچھا: تم لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کس قسم کے کپڑوں میںکفن دیا تھا؟ انہوں نے بتلایا کہ یمن کی سحول بستی کے بنے ہوئے تین سفید کپڑوں میں، ان میں قمیض تھی نہ پگڑی، انھوں نے کہا: میرے اس کپڑے کو زعفران کا داغ لگا ہوا ہے، اسے دھولینا اور اس کے ساتھ دو اور کپڑے ملا لینا، سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا:ابا جان! یہ تو پرانا ہے، انہو ں نے کہا: زندہ آدمی نئے کپڑے کا زیادہ مستحق ہوتا ہے، کفن کا کپڑا تو پیپ (گلے سڑے جسم) کے لیے ہوتا ہے، سیدنا عبداللہ بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں ایک دھاری دار چادر دی تھی، جس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھی لپیٹا گیا تھا۔ پھر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ا س سے باہر نکال کر تین سفید کپڑوں میں کفن دیاگیا، بعد میں سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وہ چادر خود رکھ لی تھی اور کہا: میں اپنا کفن اس کپڑے سے تیار کراؤں گا، جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسد اطہر کو مس کر چکا ہو، پھر بعدمیں انہوں نے کہا: اللہ کی قسم!میں خود کو ایسے کپڑے میں دفن نہیں کراؤں گا جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دفن نہیں ہونے دیا۔ پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ منگل کی رات کو انتقال کر گئے اور انہیں رات ہی کو دفن کر دیا گیا اور جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا انتقال ہوا تھا تو سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں بھی رات کو دفن کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12185

۔ (۱۲۱۸۵)۔ عَنْ قَیْسٍ قَالَ: رَأَیْتُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَبِیَدِہِ عَسِیبُ نَخْلٍ، وَہُوَ یُجْلِسُ النَّاسَ یَقُولُ: اسْمَعُوا لِقَوْلِ خَلِیفَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَجَائَ مَوْلًی لِأَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُیُقَالُ لَہُ: شَدِیدٌ بِصَحِیفَۃٍ فَقَرَأَہَا عَلَی النَّاسِ، فَقَالَ: یَقُولُ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: اسْمَعُوا وَأَطِیعُوا لِمَا فِی ہٰذِہِ الصَّحِیفَۃِ، فَوَاللّٰہِ! مَا أَلَوْتُکُمْ، قَالَ قَیْسٌ: فَرَأَیْتُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ عَلَی الْمِنْبَرِ۔ (مسند احمد: ۲۵۹)
قیس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، ان کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی، وہ لوگو ں کو بٹھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خلیفہ کی بات سنو، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ایک خادم، جس کا نام شدید تھا، وہ ایک تحریر لے کر آیا اور اس نے وہ تحریر لوگوں کے سامنے پڑھی۔ اس نے کہا:سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ اس تحریر میں جو کچھ ہے، اسے سنو اور تسلیم کرو۔ اللہ کی قسم! میں نے تمہارے حق میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔قیس کہتے ہیں: اس کے بعد میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو منبر پر دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12186

۔ (۱۲۱۸۶)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَوْ کَانَ مِنْ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۴۰)
سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے: اگر میرے بعد کوئی نبی آنا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12187

۔ (۱۲۱۸۷)۔ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قال: ((اَللّٰہُمَّ اَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِاَحَبِّ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ اِلَیْکَ بِاَبِیْ جَہْلٍ اَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَکَانَ اَحَبُّہُمَا اِلَی اللّٰہِ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔)) (مسند احمد: ۵۶۹۶)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آدمی تجھے زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ کو ان میں زیادہ محبوب سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12188

۔ (۱۲۱۸۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ نَوْفَلٍ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: إِذَا ذُکِرَ الصَّالِحُونَ فَحَیَّہَلًا بِعُمَرَ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۶۷)
ابو نوفل سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جب صالحین کا تذکرہ کیا جائے تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی یاد کیے جانے کے اہل ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12189

۔ (۱۲۱۸۹)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ، عَنْ غُضَیْفِ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّہُ مَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ: نِعْمَ الْفَتٰی غُضَیْفٌ، فَلَقِیَہُ أَبُو ذَرٍّ فَقَالَ: أَیْ أُخَیَّ اسْتَغْفِرْ لِی، قَالَ: أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّیاللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِی، فَقَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُولُ: نِعْمَ الْفَتٰی غُضَیْفٌ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ضَرَبَ بِالْحَقِّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِہِ۔)) قَالَ عَفَّانُ: عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ یَقُولُ بِہِ۔ (مسند احمد: ۲۱۶۲۰)
غضیف بن حارث سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قریب سے گزرے، انہو ں نے کہا، غضیف! اچھا آدمی ہے، پھر غصیف کی سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات ہوئی تو سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: میرے بھائی! آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ غضیف نے کہا: آپ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی ہیں، آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ میرے حق میں دعا کریں، انھوں نے کہا: میں نے عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ غضیف اچھا آدمی ہے، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی دل و زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12190

۔ (۱۲۱۹۰)۔ عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ: جَلَسْتُ إِلَی شَیْبَۃَ بْنِ عُثْمَانَ فِی ہَذَا الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: جَلَسَ إِلَیَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَجْلِسَکَ ہٰذَا، فَقَالَ: لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ لَا أَدَعَ فِیہَا صَفْرَائَ وَلَا بَیْضَائَ إِلَّا قَسَمْتُہَا بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ، قَالَ: لِمَ؟ قُلْتُ: لَمْ یَفْعَلْہُ صَاحِبَاکَ، قَالَ: ہُمَا الْمَرْئَ انِ یُقْتَدٰی بِہِمَا۔ (مسند احمد: ۱۵۴۵۷)
فوائد:… اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زبان کے لیے حق کو لازم قرار دیا ہے، ان کی زبان حق سے باطل کی طرف تجاوز نہیںکر سکتی۔ سبحان اللہ! سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جس آدمی کو اچھا کہہ دیتے، لوگ اسے اچھا سمجھنا شروع کر دیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12191

۔ (۱۲۱۹۱)۔ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ، فَرَأَیْتُ قَصْرًا مِنْ ذَہَبٍ، قُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا: لِشَابٍّ مِنْ قُرَیْشٍ، فَظَنَنْتُ أَنِّی أَنَا ہُوَ، قَالُوْا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ)) (مسند احمد: ۱۳۸۸۳)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: میںجنت میں داخل ہوا اور میں نے وہاں سونے سے بنا ہوا ایک محل دیکھا، میں نے دریافت کیا کہ یہ محل کس کا ہے، انہو ں نے کہا یہ ایک قریشی نوجوان کا ہے، میں نے سمجھا کہ شاید اس سے مراد میں ہوں، انہو ں نے بتلایا کہ یہ عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12192

۔ (۱۲۱۹۲)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((بَیْنَمَا أَنَا أَسِیرُ فِی الْجَنَّۃِ، فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا یَا جِبْرِیلُ؟ وَرَجَوْتُ أَنْ یَکُونَ لِی، قَالَ: قَالَ: لِعُمَرَ، قَالَ: ثُمَّ سِرْتُ سَاعَۃً فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ خَیْرٍ مِنَ الْقَصْرِ الْأَوَّلِ، قَالَ: فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا یَا جِبْرِیلُ؟ وَرَجَوْتُ أَنْ یَکُونَ لِی، قَالَ: قَالَ لِعُمَرَ، وَإِنَّ فِیہِ لَمِنَ الْحُورِ الْعِینِ،یَا أَبَا حَفْصٍ! وَمَا مَنَعَنِی أَنْ أَدْخُلَہُ إِلَّا غَیْرَتُکَ۔)) قَالَ: فَاغْرَوْرَقَتْ عَیْنَا عُمَرَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا عَلَیْکَ فَلَمْ أَکُنْ لِأَغَارَ۔ (مسند احمد: ۱۳۸۸۳)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میںجنت میں چلا جارہا تھا کہ مجھے ایک محل دکھائی دیا، میں نے کہا اے جبریل! یہ کس کا ہے؟ جبکہ مجھے امید تھی کہ یہ میرا ہوگا، انھوں نے کہا: یہ عمر کا ہے، پھر میں مزید کچھ دیر چلا تو پہلے سے زیادہ خوبصورت محل نظر آیا، میں نے کہا: جبریل! یہ کس کا ہے؟ جبکہ مجھے توقع تھی کہ وہ میرا ہوگا، انہو ںنے بتلایا کہ یہ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے اور اس میں فراخ چشم حوریں بھی ہیں، اے عمر! اگر تمہاری غیرت مانع نہ ہوتی تو میں اس کے اندر چلا جاتا۔ یہ سن کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور انہو ںے کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ پر تو غیرت نہیں کھاسکتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12193

۔ (۱۲۱۹۳)۔ وَعَنْ اَبِیْ بَرْزَۃَ الْاَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَصْبَحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا بِلَالًا فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ بِمَ سَبَقْتَنِی إِلَی الْجَنَّۃِ؟ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ قَطُّ إِلَّا سَمِعْتُ خَشْخَشَتَکَ أَمَامِی، إِنِّی دَخَلْتُ الْبَارِحَۃَ الْجَنَّۃَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَکَ، فَأَتَیْتُ عَلٰی قَصْرٍ مِنْ ذَہَبٍ مُرْتَفِعٍ مُشْرِفٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا: لِرَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ، قُلْتُ: أَنَا عَرَبِیٌّ، لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا: لِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: فَأَنَا مُحَمَّدٌ لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔)) فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَوْلَا غَیْرَتُکَیَا عُمَرُ! لَدَخَلْتُ الْقَصْرَ۔)) فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا کُنْتُ لِأَغَارَ عَلَیْکَ، قَالَ: وَقَالَ لِبِلَالٍ: ((بِمَ سَبَقْتَنِی إِلَی الْجَنَّۃِ؟)) قَالَ: مَا أَحْدَثْتُ إِلَّا تَوَضَّأْتُ وَصَلَّیْتُ رَکْعَتَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((بِہٰذَا۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۸۴)
سیدنا ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صبح کے وقت سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلاایا اور ان سے فرمایا: اے بلال! تم کس عمل کی بنا پر جنت میں مجھ سے سبقت لے جا رہے تھے؟ میں جب بھی جنت میں گیا، وہاںمیں نے تمہارے پاؤں کی آہٹ اپنے سامنے سنی ہے۔ گزشتہ رات میں جنت میں گیا تو میں نے تمہاری وہی آواز سنی، پھر میں سونے سے بنے ہوئے ایک بلند وبالا محل کے پاس پہنچا۔ میں نے دریافت کیاکہ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ ایک عربی شخص کا ہے، میں نے کہا: عربی تو میں بھی ہوں، یہ محل ہے کس کا؟ انہو ںنے بتلایا کہ یہ امت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں سے ایک آدمی کا ہے، میں نے کہا: میں ہی محمد ہوں، مجھے بتلاؤ کہ یہ محل کس کا ہے؟ انہو ں نے کہا: یہ عمر بن خطاب کا ہے۔ بعد ازاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عمر! اگر تمہاری غیرت کالحاظ نہ ہوتا تو میں محل کے اندر چلا جاتا۔ یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ پر غیرت نہیں کر سکتا۔ سیدنا ابو برزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم کس عمل کی بنا پر جنت میں مجھ سے سبقت لیے جا رہے تھے؟ انہوں نے کہا: میںجب بھی بے وضو ہوتا ہوں تو وضو کرتا ہوں اور دو رکعت (تحیۃ الوضو پڑھتا ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسی عمل کی وجہ سے ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12194

۔ (۱۲۱۹۴)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((رَأَیْتُنِی دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ، فَإِذَا أَنَا بِالرُّمَیْصَائِ امْرَأَۃِ أَبِی طَلْحَۃَ۔)) قَالَ: ((وَسَمِعْتُ خَشْفًا أَمَامِی، فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: ہٰذَا بِلَالٌ، قَالَ: وَرَأَیْتُ قَصْرًا أَبْیَضَ بِفِنَائِہِ جَارِیَۃٌ، قَالَ: قُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ قَالَ: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ فَأَنْظُرَ إِلَیْہِ، قَالَ: فَذَکَرْتُ غَیْرَتَکَ۔)) فَقَالَ عُمَرُ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی،یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَوَعَلَیْکَ أَغَارُ۔ (مسند احمد: ۱۵۰۶۶)
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12195

۔ (۱۲۱۹۵)۔ عَنْ صَالِحٍ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: حَدَّثَنِی ابْنُ الْمُسَیَّبِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((بَیْنَمَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَیْتُنِی فِی الْجَنَّۃِ، فَإِذَا امْرَأَۃٌ تَوَضَّأُ إِلٰی جَنْبِ قَصْرٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَکَرْتُ غَیْرَتَکَ فَوَلَّیْتُ مُدْبِرًا۔)) وَعُمَرُ رَحِمَہُ اللّٰہُ حِینَیَقُولُ ذٰلِکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسٌ عِنْدَہُ مَعَ الْقَوْمِ، فَبَکٰی عُمَرُ حِینَ سَمِعَ ذٰلِکَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: أَعَلَیْکَ بِأَبِی أَنْتَ أَغَارُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ (مسند احمد: ۸۴۵۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں جنت میں ہوں، ایک خاتون ایک محل کے پاس وضو کر رہی تھی، میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے۔ عمر! (میں نے اس کے اندر جانا چاہا لیکن) مجھے تمہاری غیرت یاد آ گئی، پس میں واپس پلٹ آیا۔ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ بات ارشاد فرما رہے تھے تو اس وقت سیدنا عمر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ بھی لوگوںکے ساتھ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہو ںنے جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ بات سنی تو رونے لگ گئے اور کہا: اللہ کے رسول! میرا والد آپ پر قربان جائے، کیا میں آپ پر غیرت کھا سکتا ہوں؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12196

۔ (۱۲۱۹۵)۔ عَنْ صَالِحٍ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: حَدَّثَنِی ابْنُ الْمُسَیَّبِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((بَیْنَمَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَیْتُنِی فِی الْجَنَّۃِ، فَإِذَا امْرَأَۃٌ تَوَضَّأُ إِلٰی جَنْبِ قَصْرٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَکَرْتُ غَیْرَتَکَ فَوَلَّیْتُ مُدْبِرًا۔)) وَعُمَرُ رَحِمَہُ اللّٰہُ حِینَیَقُولُ ذٰلِکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسٌ عِنْدَہُ مَعَ الْقَوْمِ، فَبَکٰی عُمَرُ حِینَ سَمِعَ ذٰلِکَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: أَعَلَیْکَ بِأَبِی أَنْتَ أَغَارُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ (مسند احمد: ۸۴۵۱)
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یقینا جنتی ہیں، کیونکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیداری کی حالت میں یا خواب کی حالت میں میں جو کچھ دیکھا، وہ برحق ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جنت میں تھا، میں نے ایک محل دیکھا اور پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے، بتلایا گیا کہ یہ عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12197

۔ (۱۲۱۹۵)۔ عَنْ صَالِحٍ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: حَدَّثَنِی ابْنُ الْمُسَیَّبِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((بَیْنَمَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَیْتُنِی فِی الْجَنَّۃِ، فَإِذَا امْرَأَۃٌ تَوَضَّأُ إِلٰی جَنْبِ قَصْرٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَکَرْتُ غَیْرَتَکَ فَوَلَّیْتُ مُدْبِرًا۔)) وَعُمَرُ رَحِمَہُ اللّٰہُ حِینَیَقُولُ ذٰلِکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسٌ عِنْدَہُ مَعَ الْقَوْمِ، فَبَکٰی عُمَرُ حِینَ سَمِعَ ذٰلِکَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: أَعَلَیْکَ بِأَبِی أَنْتَ أَغَارُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ (مسند احمد: ۸۴۵۱)
سیدنا مصعب بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جنتی ہیں، مجھے یہ بات پسند نہیں کہ مجھے انتہائی قیمتی سرخ اونٹ مل جائیں اور تم اٹھ کر چلے جاؤ قبل اس کے کہ میں تمہیں پوری بات بتلاؤں کہ میں نے یہ بات کیوں کہی ہے، ا س کے بعد انہو ں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خواب بیان کیا اور پھر کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خواب حق ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12198

۔ (۱۲۱۹۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ، أُتِیتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْہُ، ثُمَّ أَعْطَیْتُ فَضْلِی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔)) قَالُوْا: فَمَا أَوَّلْتَہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((الْعِلْمُ۔)) (مسند احمد: ۵۸۶۸)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، میں نے اس میں سے نوش کیا اور پھر بچا ہوا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دے دیا۔ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علم۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12199

۔ (۱۲۱۹۹)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَیْنَمَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَیْتُ أَنِّی أَنْزِعُ عَلٰی حَوْضِی، أَسْقِی النَّاسَ، فَأَتَانِی أَبُو بَکْرٍ، فَأَخَذَ الدَّلْوَ مِنْ یَدِی، لِیُرَفِّہَ حَتّٰی نَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَیْنِ، وَفِی نَزْعِہِ ضَعْفٌ، قَالَ: فَأَتَانِی ابْنُ الْخَطَّابِ، وَاللّٰہُ یَغْفِرُ لَہُ، فَأَخَذَہَا مِنِّی فَلَمْ یَنْزِعْ رَجُلٌ حَتّٰی تَوَلَّی النَّاسُ، وَالْحَوْضُ یَتَفَجَّرُ۔)) (مسند احمد: ۸۲۲۲)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، میں نے دیکھا کہ میں اپنے حوض پر کھڑا پانی کھینچ کھینچ کر لوگوں کو پلا رہا ہوں، اتنے میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس آئے، انہوں نے مجھے راحت دلانے کے لیے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا، انہو ں نے ایک دو ڈول کھینچے، ان کے اس عمل میں کچھ کمزوری تھی، اس کے بعدابن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے ڈول لے لیا، اللہ ان کی مغفرت فرمائے،وہ تو مسلسل کھینچتے رہے، یہاں تک کہ سب لوگ سیراب ہو کر واپس چلے گئے، اور حوض جو ش مارہا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12200

۔ (۱۲۲۰۰)۔ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((رَأَیْتُ فِیمَایَرَی النَّائِمُ، کَأَنِّی أَنْزِعُ أَرْضًا، وَرَدَتْ عَلَیَّ غَنَمٌ سُودٌ، وَغَنَمٌ عُفْرٌ، فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ، فَنَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَیْنِ، وَفِیہِمَا ضَعْفٌ، وَاللّٰہُ یَغْفِرُ لَہُ، ثُمَّ جَائَ عُمَرُ، فَنَزَعَ فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا، فَمَلَأَ الْحَوْضَ، وَأَرْوَی الْوَارِدَۃَ، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِیًّا أَحْسَنَ نَزْعًا مِنْ عُمَرَ، فَأَوَّلْتُ أَنَّ السُّودَ الْعَرَبُ، وَأَنَّ الْعُفْرَ الْعَجَمُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۲۱۱)
سیدنا ابوطفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جیسے سونے والا خواب دیکھتا ہے، اسی طرح میں نے دیکھا کہ گویا میں پانی کے ڈول کھینچ کھینچ کر زمین کو سیراب کر رہاہوں، میرے پاس کچھ سیاہ اور کچھ مٹیالے رنگ کی بکریاں آئیں، اتنے میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے، انہوں نے ایک دو ڈول تو کھینچے، لیکن اس کے کھینچنے میں کمزوری تھی، اللہ انہیں معاف کرے، اس کے بعد عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے اور انہوں نے ڈول کھینچنا شروع کیے، وہ ڈول بہت بڑا ڈول بن گیا، انہوں نے پانی کھینچ کھینچ کر حوض کو بھر دیا اور آنے والوں کو خوب سیر کردیا، میں نے کسی جوان کو عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بہتر انداز میں ڈول کھینچتے ہوئے نہیں دیکھا، پھر میں نے اس خواب کی تعبیر یوں کی کہ سیاہ بکریوں سے عرب لوگ اور مٹیالے رنگ والی بکریوں سے مراد عجمی لوگ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12201

۔ (۱۲۲۰۱)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّیَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُ النَّاسَ یُعْرَضُونَ، وَعَلَیْہِمْ قُمُصٌ، مِنْہَا مَا یَبْلُغُ الثَّدْیَ، وَمِنْہَا مَا یَبْلُغُ دُونَ ذٰلِکَ، وَمَرَّ عَلَیَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَیْہِ قَمِیصٌیَجُرُّہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا أَوَّلْتَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((الدِّینُ))۔ (مسند احمد: ۱۱۸۳۶)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں لوگوں کو دیکھا، وہ میرے سامنے آرہے تھے، انہو ںنے قمیصیں پہن رکھی ہیں، کسی کی قمیص اس کی چھاتی تک ہے اور کسی کی اس سے نیچے تک، جب عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے سامنے سے گزرے تو وہ قمیص (لمبی ہونے کی وجہ سے) زمین پر گھسیٹ رہے تھے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دین۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12202

۔ (۱۲۲۰۲)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُ النَّاسَ یُعْرَضُونَ عَلَیَّ، وَعَلَیْہِمْ قُمُصٌ، مِنْہَا مَا یَبْلُغُ الثَّدْیَ، وَفِیہَا مَا یَبْلُغُ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِکَ، فَعُرِضَ عَلَیَّ عُمَرُ، وَعَلَیْہِ قَمِیصٌیَجُرُّہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا أَوَّلْتَ ذَاکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((الدِّینُ۔))(مسند احمد: ۲۳۵۵۹)
سہل بن حنیف کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میں نے لوگوں کو دیکھا، وہ مجھ پر پیش کیے جانے لگے، جبکہ انھوں نے قمیضیں پہنی ہوئی تھیں، کسی کی قمیض چھاتی تک پہنچ رہی تھی اور کسی کی اس سے نیچے تک، اتنے میں عمر کو مجھ پر پیش کیا گیا، (ان کی قمیض تو اس قدر لمبی تھی) کہ وہ اسی کو گھسیٹ رہے تھے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دین۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12203

۔ (۱۲۲۰۲)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُ النَّاسَ یُعْرَضُونَ عَلَیَّ، وَعَلَیْہِمْ قُمُصٌ، مِنْہَا مَا یَبْلُغُ الثَّدْیَ، وَفِیہَا مَا یَبْلُغُ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِکَ، فَعُرِضَ عَلَیَّ عُمَرُ، وَعَلَیْہِ قَمِیصٌیَجُرُّہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا أَوَّلْتَ ذَاکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((الدِّینُ۔))(مسند احمد: ۲۳۵۵۹)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ سے فرمایا: تم میں سے کس نے آج کسی جنازہ میں شرکت کی ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں نے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کس نے آج کسی بیمارکی تیمارداری کی ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں نے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج کسی نے روزہ رکھا ہوا ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں نے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت واجب ہوگئی ہے، واقعی واجب ہوگئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12204

۔ (۱۲۲۰۴)۔ عَنْ أَبِی سِنَانٍ الدُّؤَلِیِّ أَنَّہُ دَخَلَ عَلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَعِنْدَہُ نَفَرٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ، فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَی سَفَطٍ أُتِیَ بِہِ مِنْ قَلْعَۃٍ مِنَ الْعِرَاقِ، فَکَانَ فِیہِخَاتَمٌ، فَأَخَذَہُ بَعْضُ بَنِیہِ، فَأَدْخَلَہُ فِی فِیہِ فَانْتَزَعَہُ عُمَرُ مِنْہُ، ثُمَّ بَکٰی عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ لَہُ مَنْ عِنْدَہُ: لِمَ تَبْکِی؟ وَقَدْ فَتَحَ اللّٰہُ لَکَ وَأَظْہَرَکَ عَلٰی عَدُوِّکَ وَأَقَرَّ عَیْنَکَ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا تُفْتَحُ الدُّنْیَا عَلٰی أَحَدٍ إِلَّا أَلْقَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَائَ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَأَنَا أُشْفِقُ مِنْ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۹۳)
ابوسنان دؤلی سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے، جبکہ ان کے پاس اولین مہاجرین کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی، انہو ں نے پیغام بھیج کر خوشبو کی ڈبیہ منگوائی، جو عراق کے ایک قلعہ سے منگوائی گئی تھی، اس میں ایک انگوٹھی تھی، ان کے ایک بیٹے نے اسے لا کر اپنے منہ میں ڈال لیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے منہ سے نکلو ادی، اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگے، وہاں پر موجود لوگوں میں سے کسی نے ان سے کہا: آپ کیوں روتے ہیں، جبکہ اللہ نے آپ کو فتح سے نوازا اور آپ کو دشمن پر غلبہ دے کر آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا ہے؟ سیدنا عمر نے کہا:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ جس بندے پر دنیا فراخ کر دیتا ہے تو وہ ان لوگوں کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور بغض ڈال دیتا ہے۔ اور مجھے اس بات کا اندیشہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12205

۔ (۱۲۲۰۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((قَدْ کَانَ فِی الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ، فَإِنْ یَکُنْ مِنْ أُمَّتِی فَعُمَرُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۷۸۹)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گزشتہ امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے تھے، جنہیں اللہ کی طرف سے الہام ہوتا تھا، اگر میری امت میں کوئی ایسا آدمی ہے تو وہ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12206

۔ (۱۲۲۰۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّہُ قَدْ کَانَ فِیمَا مَضٰی قَبْلَکُمْ مِنَ الْأُمَمِ نَاسٌ یُحَدَّثُونَ، وَإِنَّہُ إِنْ کَانَ فِی أُمَّتِی ہٰذِہِ مِنْہُمْ أَحَدٌ، فَإِنَّہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ۔)) (مسند احمد: ۸۴۴۹)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے پہلی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے تھے کہ جنہیں اللہ کی طرف سے الہام ہوتا تھا، اگر میری امت میں کوئی ایسا آدمی ہواتو وہ عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12207

۔ (۱۲۲۰۷)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَی قَلْبِ عُمَرَ وَلِسَانِہِ۔)) قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ، فَقَالُوْا فِیہِ، وَقَالَ فِیہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، أَوْ قَالَ عُمَرُ، إِلَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلٰی نَحْوٍ مِمَّا قَالَ عُمَرُُ۔ (مسند احمد: ۵۶۹۷)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دل و زبان پر حق جاری کر دیا ہے۔ جب لوگوں کو کوئی معاملہ پیش آتا اور مختلف افراد اپنی اپنی رائے دیتے اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی رائے دیتے تو قرآن مجید سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے کی موافقت میں نازل ہوتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12208

۔ (۱۲۲۰۸)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَافَقْتُ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ فِی ثَلَاثٍ، أَوْ وَافَقَنِی رَبِّی فِی ثَلَاثٍ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوِ اتَّخَذْتَ الْمَقَامَ مُصَلًّی؟ قَالَ: فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی} وَقُلْتُ: لَوْ حَجَبْتَ عَنْ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ، فَإِنَّہُ یَدْخُلُ عَلَیْکَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَأُنْزِلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ، قَالَ: وَبَلَغَنِی عَنْ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ شَیْئٌ فَاسْتَقْرَیْتُہُنَّ أَقُولُ لَہُنَّ: لَتَکُفُّنَّ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ لَیُبْدِلَنَّہُ اللّٰہُ بِکُنَّ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ حَتّٰی أَتَیْتُ عَلٰی إِحْدٰی أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ، فَقَالَتْ: یَا عُمَرُ! أَمَا فِی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَعِظُ نِسَائَ ہُ حَتّٰی تَعِظَہُنَّ، فَکَفَفْتُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {عَسَی رَبُّہُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُبْدِلَہُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ} الْآیَۃَـ (مسند احمد: ۱۶۰)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے تین باتوں میں اپنے رب کے فیصلہ کی موافقت کی ہے یا میرے ربّ نے تین باتوں میں میری موافقت کی ہے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لیں تو؟ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی}… تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو۔ میںنے کہا:اے اللہ کے رسول! آپ کی خدمت میںنیک اور فاجر ہر قسم کے لوگ آتے ہیں، اس لیے اگر آپ امہات المومنین کو پردہ کر ائیں تو بہتر ہو گا۔ اس کے بعد پردہ سے متعلقہ آیات نازل ہوگئیں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے امہات المومنین کے بارے میں کوئی خبر ملی، سو میں نے ایک ایک سے جاکر کہا کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس قسم کے مطالبات کرنا چھوڑ دو، وگرنہ اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ تم سے بہتر مسلم خواتین کو لے آئے گا، ایک ام المومنین کی خدمت میں جب میں نے گزارش کی تو اس نے تو یہ کہہ دیا کہ عمر! اللہ کے رسول اپنی ازواج کو جو کچھ نصیحت فرماتے ہیں، کیا وہ کافی نہیں ہیں کہ تم بھی اس بارے میں انہیں وعظ کرنے لگے ہو؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی: {عَسٰی رَبُّہٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا} … اس کارب قریب ہے، اگر وہ تمھیں طلاق دے دے کہ تمھارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، اطاعت کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں، شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12209

۔ (۱۲۲۰۹)۔ عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَضَلَ النَّاسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ بِأَرْبَعٍ، بِذِکْرِ الْأَسْرٰییَوْمَ بَدْرٍ أَمَرَ بِقَتْلِہِمْ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ} وَبِذِکْرِہِ الْحِجَابَ أَمَرَ نِسَائَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَحْتَجِبْنَ، فَقَالَتْ لَہُ زَیْنَبُ: وَإِنَّکَ عَلَیْنَایَا ابْنَ الْخَطَّابِ، وَالْوَحْیُیَنْزِلُ فِی بُیُوتِنَا، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوہُنَّ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ} وَبِدَعْوَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہُ: ((اللَّہُمَّ أَیِّدِ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ۔)) وَبِرَأْیِہِ فِی أَبِی بَکْرٍ کَانَ أَوَّلَ النَّاسِ بَایَعَہُ۔ ((مسند احمد: ۴۳۶۲)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چار امور میں لوگوں پر فضیلت لے گئے، انہو ں نے بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا، اللہ تعالیٰ نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چار امور میں لوگوں پر فضیلت لے گئے، انہو ں نے بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا، اللہ تعالیٰ نے
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12210

۔ (۱۲۲۱۰)۔ عَنْ صَالِحٍ، قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: أَخْبَرَنِی عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زَیْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ أَخْبَرَہُ، أَنَّ أَبَاہُ سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ قَالَ: اِسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَعِنْدَہُ نِسَائٌ مِنْ قُرَیْشٍیُکَلِّمْنَہُ وَیَسْتَکْثِرْنَہُ، عَالِیَۃٌ أَصْوَاتُہُنَّ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ قُمْنَ یَبْتَدِرْنَ الْحِجَابَ، فَأَذِنَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعْنِی فَدَخَلَ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَضْحَکُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَجِبْتُ مِنْ ہٰؤُلَائِ اللَّاتِی کُنَّ عِنْدِی، فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَکَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ۔)) قَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کُنْتَ أَحَقَّ أَنْ یَہَبْنَ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: أَیْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِہِنَّ أَتَہَبْنَنِی وَلَا تَہَبْنَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قُلْنَ: نَعَمْ، أَنْتَ أَغْلَظُ وَأَفَظُّ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ مَا لَقِیَکَ الشَّیْطَانُ قَطُّ سَالِکًا فَجًّا إِلَّا سَلَکَ فَجًّا غَیْرَ فَجِّکَ۔)) وَقَالَ یَعْقُوبُ: مَا أُحْصِی مَا سَمِعْتُہُ یَقُولُ: حَدَّثَنَا صَالِحٌ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ۔ (مسند احمد: ۱۴۷۲)
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جانے کی اجازت طلب کی، اس وقت کچھ قریشی خواتین آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بیٹھی گفتگو کر رہی تھیں اور نان ونفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں خاصی بلند ہورہی تھیں، جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اجازت طلب کی تو وہ جلدی سے چھپنے لگ گئیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کوآنے کی اجازت دی، جب وہ آئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا رہے تھے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ آپ کے دانتوں کو ہنستا رکھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے ان خواتین پر تعجب ہو رہا ہے، یہ میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، جب انہو ں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے چھپ گئیں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ آپ سے ڈریں۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اپنی جانوں کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نہیںڈرتیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، تم رسول اللہ کی بہ نسبت سخت اور درشت مزاج ہو، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اے عمر! جب بھی شیطان تجھ سے ملتا ہے تو جس راستے پر تو چل رہا ہوتا ہے، وہ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کر لیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12211

۔ (۱۲۲۱۱)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ، أَنَّ الْأَسْوَدَ بْنَ سَرِیعٍ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی قَدْ حَمِدْتُ رَبِّی تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِمَحَامِدَ وَمدَحٍ وَإِیَّاکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((أَمَا إِنَّ رَبَّکَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰییُحِبُّ الْمَدْحَ، ہَاتِ مَا امْتَدَحْتَ بِہِ رَبَّکَ۔)) قَالَ: فَجَعَلْتُ أُنْشِدُہُ فَجَائَ رَجُلٌ فَاسْتَأْذَنَ أَدْلَمُ أَصْلَعُ أَعْسَرُ أَیْسَرُ، قَالَ: فَاسْتَنْصَتَنِی لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَوَصَفَ لَنَا أَبُو سَلَمَۃَ کَیْفَ اسْتَنْصَتَہُ، قَالَ: کَمَا صَنَعَ بِالْہِرِّ، فَدَخَلَ الرَّجُلُ فَتَکَلَّمَ سَاعَۃً ثُمَّ خَرَجَ، ثُمَّ أَخَذْتُ أُنْشِدُہُ أَیْضًا، ثُمَّ رَجَعَ بَعْدُ فَاسْتَنْصَتَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَوَصَفَہُ أَیْضًا، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَنْ ذَا الَّذِی اسْتَنْصَتَّنِی لَہُ، فَقَالَ: ((ہٰذَا رَجُلٌ لَا یُحِبُّ الْبَاطِلَ ہٰذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ۔)) (مسند احمد: ۱۵۶۷۵)
سیدنا اسودبن سریع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے رب کی تعریفات بیان کی ہیں اور آپ کی بھی مدح سرائی کی ہے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یاد رکھو! تمہارے ربّ حمد کو پسند کرتا ہے، تم نے اپنے رب کی جو مدح کی ہے، وہ ذرا سناؤ تو سہی۔ میںآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنانے لگا، اتنے میں ایک سیاہ فام، دراز قد، گنجا اور اپنے دائیں اور بائیں دونوںہاتھوں سے کام کرنے والا ایک آدمی آگیا۔ اس کے آنے پررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے چپ کر ادیا۔ ابو سلمہ نے ہمارے سامنے ان کے چپ کرانے کی کیفیت بھی بیان کی کہ جیسے بلی کو آوازدی جاتی ہے، پس وہ آدمی آیا، اس نے کچھ دیر گفتگو کی اور اس کے بعد وہ چلا گیا، اس کے جانے کے بعد میں دوبارہ اپنا کلام پیش کرنے لگا، وہ آدمی دوبارہ آگیا، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے پھر خاموش کر ادیا۔ ابو سلمہ نے دوبارہ خاموش کرانے کی کیفیت کو دہرایا، دو تین مرتبہ ایسے ہی ہوا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کون آدمی ہے جس کی آمد پر آپ نے مجھے خاموش کرادیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ وہ آدمی ہے جو لغو کو پسند نہیں کرتا، یہ عمر بن خطاب ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12212

۔ (۱۲۲۱۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کُنْتُ أَدْخُلُ بَیْتِی الَّذِی دُفِنَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبِی، فَأَضَعُ ثَوْبِی، فَأَقُولُ: إِنَّمَا ہُوَ زَوْجِی وَأَبِی، فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَہُمْ فَوَاللّٰہِ! مَا دَخَلْتُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُودَۃٌ عَلَیَّ ثِیَابِی، حَیَائً مِنْ عُمَرَ۔ (مسند احمد: ۲۶۱۷۹)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں اس گھر میں داخل ہوتی رہتی تھی، جس میں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور میرے والد مدفون تھے، میں وہاں کپڑا بھی اتار لیتی تھی اور کہتی تھی کہ ایک میرا شوہر ہیں اور ایک میرے والد، لیکن اللہ کی قسم! جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دفن کیے گئے تو میں ان سے حیا کرتے ہوئے اپنے اوپر کپڑے لپیٹ کر داخل ہوتی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12213

۔ (۱۲۲۱۳)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ أَنَّ أَمَۃً سَوْدَائَ أَتَتْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَجَعَ مِنْ بَعْضِ مَغَازِیہِ، فَقَالَتْ: إِنِّی کُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّکَ اللّٰہُ صَالِحًا، أَنْ أَضْرِبَ عِنْدَکَ بِالدُّفِّ، قَالَ: ((إِنْ کُنْتِ فَعَلْتِ فَافْعَلِی، وَإِنْ کُنْتِ لَمْ تَفْعَلِی فَلَا تَفْعَلِی۔)) فَضَرَبَتْ فَدَخَلَ أَبُو بَکْرٍ وَہِیَ تَضْرِبُ، وَدَخَلَ غَیْرُہُ وَہِیَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ، قَالَ: فَجَعَلَتْ دُفَّہَا خَلْفَہَا، وَہِیَ مُقَنَّعَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ الشَّیْطَانَ لَیَفْرَقُ مِنْکَ یَا عُمَرُ، أَنَا جَالِسٌ ہَاہُنَا، وَدَخَلَ ہٰؤُلَائِ، فَلَمَّا أَنْ دَخَلْتَ، فَعَلَتْ مَا فَعَلَتْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۷۷)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی غزوہ سے واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام لونڈی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا:میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح سالم واپس لائے تومیں آپ کے پاس دف بجاؤں گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم نے یہ نذر مانی ہے تو اسے پورا کر لو اور اگر تم نے یہ منت نہیں مانی تھی تو اس کام کو رہنے دو۔ پس وہ دف بجانے لگ گئی، اسی دوران سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے، وہ دف بجاتی رہی، کچھ دوسرے حضرات بھی آئے، وہ مسلسل دف بجاتی رہی۔ لیکن بعد میں جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تو اس نے دف کو اپنے پیچھے کر لیا اور خود بھی چھپنے لگی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمر! بیشک تجھ سے تو شیطان بھی ڈرتا ہے، میں یہاں بیٹھا ہوں اور یہ لوگ بھی آئے ہیں، یہ لونڈی دف بجانے میں مگن رہی، لیکن جب تم آئے تو اس نے یہ کاروائی کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12214

۔ (۱۲۲۱۴)۔ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْکِنْدِیِّ، أَنَّہُ رَکِبَ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَسْأَلُہُ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ، قَالَ: فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ فَسَأَلَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا أَقْدَمَکَ؟ قَالَ: لِأَسْأَلَکَ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ، قَالَ: وَمَا ہُنَّ؟ قَالَ: رُبَّمَا کُنْتُ أَنَا وَالْمَرْأَۃُ فِی بِنَائٍ ضَیِّقٍ، فَتَحْضُرُ الصَّلَاۃُ، فَإِنْ صَلَّیْتُ أَنَا وَہِیَ کَانَتْ بِحِذَائِی، وَإِنْ صَلَّتْ خَلْفِی خَرَجَتْ مِنَ الْبِنَائِ، فَقَالَ عُمَرُ: تَسْتُرُ بَیْنَکَ وَبَیْنَہَا بِثَوْبٍ، ثُمَّ تُصَلِّی بِحِذَائِکَ إِنْ شِئْتَ، وَعَنْ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ: نَہَانِی عَنْہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَعَنْ الْقَصَصِ فَإِنَّہُمْ أَرَادُونِی عَلَی الْقَصَصِ، فَقَالَ: مَا شِئْتَ کَأَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَمْنَعَہُ، قَالَ: إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَنْتَہِیَ إِلَی قَوْلِکَ، قَالَ: أَخْشٰی عَلَیْکَ أَنْ تَقُصَّ، فَتَرْتَفِعَ عَلَیْہِمْ فِی نَفْسِکَ، ثُمَّ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ حَتّٰییُخَیَّلَ إِلَیْکَ أَنَّکَ فَوْقَہُمْ بِمَنْزِلَۃِ الثُّرَیَّا، فَیَضَعَکَ اللّٰہُ تَحْتَ أَقْدَامِہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقَدْرِ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۱۱۱)
حارث بن معاویہ کندی سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں تین باتیں دریافت کرنے کے لیے سوار ہو کر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف گیا، جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: تم کیوں آئے ہو؟ میں نے بتلایا کہ آپ سے تین امور کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے کہا: وہ کون سے امور ہیں؟ میں نے کہا: بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں اور میری اہلیہ کسی تنگ مکان میں ہوتے ہیں، اتنے میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے، لیکن اگر میں نماز پڑھوں تو وہ میرے سامنے آ جاتی ہے اور اگر وہ میرے پیچھے نماز ادا کرے تو مکان سے باہر نکل جاتی ہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم اپنے اور ا س کے درمیان کپڑا لٹکا لیا کرو، پھر وہ تمہارے سامنے نماز پڑھتی رہے، اگر چاہے تو۔ پھر میں نے ان سے عصر کے بعد دورکعتیں ادا کرنے کے بارے میں پوچھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ان دورکعتوں سے منع فرمایا تھا، پھر میں نے کہا: تیسری بات یہ ہے کہ میں آپ سے وعظ و تقریر کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں، لوگ چاہتے ہیں کہ میں ان کے سامنے وعظ و تقریر کیا کروں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جو تم چاہتے ہو، کر لو۔ بس یوں لگا کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کو اس کام سے روکنے کو ناپسند کیا۔ اس آدمی نے کہا: میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ تم ان کے سامنے وعظ و تقریر کرو گے اور تم دلی طو رپر اپنے آپ کو دوسروں سے اعلی اور برتر سمجھنے لگو، تم پھر وعظ و تقریر کرو گے اور تم اپنے آپ کو ان کے مقابلہ میں یوں سمجھنے لگو گے کہ گویا تم ثریا ستارے کی طرح اعلی و افضل ہو، لیکن تم اپنے آپ کو ان سے جس قدر برتر سمجھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی قدر تمہیں ان کے قدموں کے نیچے ڈالے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12215

۔ (۱۲۲۱۵)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ النَّاسَ، فَقَالَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ رَخَّصَ لِنَبِیِّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا شَائَ، وَإِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ مَضٰی لِسَبِیلِہِ، فَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ کَمَا أَمَرَکُمْ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَحَصِّنُوْا فُرُوجَ ہٰذِہِ النِّسَائِ۔ (مسند احمد: ۱۰۴)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے جو چاہا، اپنے نبی کو رخصتیں دیں اور نبی کریم دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، لہٰذا تم حج و عمرہ کو اللہ تعالیٰ کے لیے اس طرح پورا کرو، جیسا کہ اس نے تمہیں حکم دیا ہے، نیز تم اپنی بیویوں کی شرم گاہوں کو پاکدامن رکھو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12216

۔ (۱۲۲۱۶)۔ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو سَمِعَ بَجَالَۃَیَقُوْلُ: کُنْتُ کَاتِبًا لِجَزْئِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ عَمِّ الْأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ فَأَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ قَبْلَ مَوْتِہِ بِسَنَۃٍ: أَنِ اقْتُلُوْا کُلَّ سَاحِرٍ، وَرُبَمَا قَالَ سُفْیَانُ: وَسَاحِرَۃٍ، وَفَرِّقُوْا بَیْنَ کُلِّ ذِیْ مَحْرَمٍ مِنَ الْمَجُوْسِ وَانْہَوْھُمْ عَنِ الْزَمْزَمَۃِ، فَقَتَلْنَا ثَلَاثَۃَ سَوَا حِرَ،وَجَعَلْنَا نُفَرِّقُ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ حَرِیْمَتِہِ فِی کِتَابِ اللّٰہِ، وَصَنَعَ جَزْئٌ طَعَامًا کَثِیْرًا وَعَرَضَ السَّیْفَ عَلٰی فَخِذِہِ وَدَعَا الْمَجُوْسَ فَأَلْقَوْا وِقْرَ بَغْلٍ أَوْ بَغْلَیْنِ مِنْ وَرِقٍ فَأَکَلُوْا مِنْ غَیْرِ زَمْزَمَۃَ وَلَمْ یَکُنْ عُمَرُ أَخَذَ، وَرُبَمَا قَالَ سُفْیَانُ: قَبِلَ الْجِزْیَۃَ مِنَ الْمَجُوْسِ حَتّٰی شَہِدَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخَذَھَا مِنْ مَجُوْسِ ھَجَرَ، وَقَالَ اَبِیْ: قَالَ سُفْیَانُ: حَجَّ بَجَالَۃُ مَعَ مُصْعَبٍ سَنَۃَ سَبْعِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۶۵۷)
بجالہ کہتے ہیں: میں جزء بن معاویہ کا کاتب تھا، وہ احنف بن قیس کے چچا تھے، ہمارے پاس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا خط آیا، یہ ان کی وفات سے ایک سال پہلے کی بات ہے، اس میں یہ بات تحریر کی گئی تھی کہ ہر جادو گر اور جادو گرنی کو قتل کر دو اور مجوسیوں بجالہ کہتے ہیں: میں جزء بن معاویہ کا کاتب تھا، وہ احنف بن قیس کے چچا تھے، ہمارے پاس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا خط آیا، یہ ان کی وفات سے ایک سال پہلے کی بات ہے، اس میں یہ بات تحریر کی گئی تھی کہ ہر جادو گر اور جادو گرنی کو قتل کر دو اور مجوسیوں
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12217

۔ (۱۲۲۱۷)۔ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ: أَرْسَلَ إِلَیَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَبَیْنَا أَنَا کَذٰلِکَ إِذْ جَائَ ہُ مَوْلَاہُ یَرْفَأُ، فَقَالَ: ہٰذَا عُثْمَانُ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ وَسَعْدٌ وَالزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ ، قَالَ: وَلَا أَدْرِی أَذَکَرَ طَلْحَۃَ أَمْ لَا، یَسْتَأْذِنُونَ عَلَیْکَ، قَالَ: ائْذَنْ لَہُمْ ثُمَّ مَکَثَ سَاعَۃً، ثُمَّ جَائَ فَقَالَ: ہٰذَا الْعَبَّاسُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَسْتَأْذِنَانِ عَلَیْکَ، قَالَ: ائْذَنْ لَہُمَا فَلَمَّا دَخَلَ الْعَبَّاسُ قَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! اقْضِ بَیْنِی وَبَیْنَ ہٰذَا، وَہُمَا حِینَئِذٍیَخْتَصِمَانِ فِیمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ مِنْ أَمْوَالِ بَنِی النَّضِیرِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: اِقْضِ بَیْنَہُمَایَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! وَأَرِحْ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبِہِ، فَقَدْ طَالَتْ خُصُومَتُہُمَا، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ الَّذِی بِإِذْنِہِ تَقُومُ السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ۔))؟ قَالُوْا: قَدْ قَالَ ذٰلِکَ، وَقَالَ لَہُمَا مِثْلَ ذٰلِکَ، فَقَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّی سَأُخْبِرُکُمْ عَنْ ہٰذَا الْفَیْئِ، إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ خَصَّ نَبِیَّہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُ بِشَیْئٍ لَمْ یُعْطِہِ غَیْرَہُ فَقَالَ: {وَمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ} وَکَانَتْ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاصَّۃً، وَاللّٰہِ! مَا احْتَازَہَا دُونَکُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِہَاعَلَیْکُمْ، لَقَدْ قَسَمَہَا بَیْنَکُمْ وَبَثَّہَا فِیکُمْ حَتّٰی بَقِیَ مِنْہَا ہٰذَا الْمَالُ، فَکَانَیُنْفِقُ عَلٰی أَہْلِہِ مِنْہُ سَنَۃً، ثُمَّ یَجْعَلُ مَا بَقِیَ مِنْہُ مَجْعَلَ مَالِ اللّٰہِ، فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَنَا وَلِیُّ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَہُ أَعْمَلُ فِیہَا بِمَا کَانَ یَعْمَلُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہَا۔ (مسند احمد: ۴۲۵)
مالک بن اوس بن حدثان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بلوایا، ابھی تک میں وہیں تھا کہ ان کے خادم یرفا نے آکر بتلایا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا سعد اور سیدنا زبیر بن عوام آئے ہیں، مجھے یہ یاد نہیں کہ اس نے سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام لیا تھا یا نہیں، یہ حضرات آپ کے ہاںآنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: جی ان حضرات کو آنے دو، کچھ دیر کے بعد غلام نے آکر کہا: سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے ہیں، وہ آپ کے پاس آنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں،انہو ں نے کہا: جی ان کو بھی آنے دو۔ جب سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تو انہو ں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ اس کے اور میرے درمیان فیصلہ کر دیں، اس وقت وہ بنو نضیر کے اموال میں سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مالِ فی ٔ کے بارے میں الجھ رہے تھے، ان کی بات سن کر سب لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ ان کے درمیان فیصلہ کر دیں اور دونوں کو ایک دوسرے سے راحت دلائیں۔ ان کا یہ جھگڑا خاصا طو ل ہو چکاہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جس کے حکم سے یہ آسمان اور زمین قائم ہیں! کیاتم جانتے ہو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ ؟ سب نے کہا: جی واقعی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فرمایا تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جب یہی بات ان دونوں سے پوچھی تو انھوں نے بھی مثبت جواب دیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تمہیں اس مالِ فی ٔ کے بارے میں بتلاتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے مالِ فی ٔ کو اپنے نبی کے لیے مخصوص کیا ہے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے علاوہ یہ کسی دوسرے کو نہیں دیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ}… اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے اپنے رسول کو جو مال فے دیا ہے، اس کے حصول کے لیے تم نے گھوڑوں اور سواریوں کو نہیں بھگایا۔ یہ اموال اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے خاص تھے، اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہو اکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سارا مال خود رکھ لیا ہو اور تمہیں نہ دیا ہو اور نہ ہی آپ نے اس مال کے بارے میں دوسروںکو تمہارے ا وپر ترجیح دی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سارے اموال تمہارے درمیان تقسیم کر دیتے، پھر اس سے جو بچ جاتا، آپ اس میں سے سارا سال اپنے اہل خانہ پر خرچ کر تے تھے اور جو بچ جاتا، اس کو اللہ کے مال کے طور پر خرچ کردیتے تھے، جب اللہ کے رسول کا انتقال ہوا تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خلیفہ ہوں، میں اس مال میں اسی طرح تصرف کروں گا، جیسے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تصرف کیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12218

۔ (۱۲۲۱۸)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِی شَیْخٌ مِنْ قُرَیْشٍ مِنْ بَنِی تَمِیْمٍ قَالَ: حَدَّثَنِی فُلَانٌ وَفُلَانٌ، وَقَالَ: فَعَدَّ سِتَّۃً أَوْ سَبْعَۃً کُلُّہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ، فِیہِمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ، قَالَ: بَیْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ عُمَرَ، إِذْ دَخَلَ عَلِیٌّ وَالْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَدِ ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمَا، فَقَالَ عُمَرُ: مَہْ یَا عَبَّاسُ! قَدْ عَلِمْتُ مَا تَقُولُ، تَقُولُ ابْنُ أَخِی وَلِی شَطْرُ الْمَالِ، وَقَدْ عَلِمْتُ مَا تَقُولُیَا عَلِیُّ! تَقُولُ ابْنَتُہُ تَحْتِی وَلَہَا شَطْرُ الْمَالِ، وَہٰذَا مَا کَانَ فِییَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ رَأَیْنَا کَیْفَ کَانَ یَصْنَعُ فِیہِ، فَوَلِیَہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ بَعْدِہِ، فَعَمِلَ فِیہِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَلِیتُہُ مِنْ بَعْدِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَحْلِفُ بِاللّٰہِ لَأَجْہَدَنَّ أَنْ أَعْمَلَ فِیہِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللّٰہِ وَعَمَلِ أَبِی بَکْرٍ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَحَلَفَ بِأَنَّہُ لَصَادِقٌ، أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ النَّبِیَّ لَا یُورَثُ، وَإِنَّمَا مِیرَاثُہُ فِی فُقَرَائِ الْمُسْلِمِینَ وَالْمَسَاکِینِ۔)) و حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَحَلَفَ بِاللّٰہِ إِنَّہُ صَادِقٌ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّ النَّبِیَّ لَا یَمُوتُ حَتّٰییَؤُمَّہُ بَعْضُ أُمَّتِہِ۔)) وَہٰذَا مَا کَانَ فِییَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ رَأَیْنَا کَیْفَ کَانَ یَصْنَعُ فِیہِ، فَإِنْ شِئْتُمَا أَعْطَیْتُکُمَا لِتَعْمَلَا فِیہِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَعَمَلِ أَبِی بَکْرٍ حَتّٰی أَدْفَعَہُ إِلَیْکُمَا، قَالَ: فَخَلَوَا ثُمَّ جَائَ ا فَقَالَ الْعَبَّاسُ: ادْفَعْہُ إِلٰی عَلِیٍّ فَإِنِّی قَدْ طِبْتُ نَفْسًا بِہِ لَہُ۔ (مسند احمد: ۷۸)
عاصم بن کلیب سے مروی ہے کہ قریش کے بنو تمیم کے ایک بزرگ نے ان کو بیان کیا اس نے چھ سات قریشی بزرگوںکا نام لے کر کہا کہ اس کو ان حضرات نے بیان کیا، ان میں سے ایک نام سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بھی تھا، انہوں نے کہا: ہم سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، ان کے جھگڑنے کی وجہ سے ان کی آوازیں بہت بلند ہورہی تھیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: عباس! ذرا رکو تو سہی، تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو میں اسے جانتا ہوں، تم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے بھتیجے تھے، اس لیے مجھے آدھا مال ملنا چاہیے، اور علی! تم بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہو، میں اس کو بھی جانتا ہوں، تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ آپ کی بیٹی تمہاری زوجیت میں ہے اور وہ نصف مال کی حقدار ہے۔ سنو! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ میں جو کچھ تھا، وہ تو وہی ہے جو ہم سب دیکھ چکے ہیں،ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں کیسے تصرف کیا کرتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خلیفہ بنے، انہوں نے بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرح تصرف کیا، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعد میں ان کا نگران مقرر ہوا ہوں، میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکا میں اسی طرح عمل کروں گا۔ اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے قسم اٹھا کر کہا کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سچ بولنے والے تھے، ان سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی نبی کاوارث نہیں ہوتا، ان کی میراث تو تنگ دست و نادار مسلمانوں میں تقسیم کیا جاتی ہے۔ او ر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا، جبکہ اللہ کی قسم ہے کہ وہ سچ بولنے والے تھے، یہ بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا، جب تک وہ اپنی امت میں سے کسی کی اقتدا میں نماز ادا نہ کر لے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جو کچھ تھا، ہم سب دیکھ چکے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں کیسے تصرف کیا کرتے تھے، اب اگرتم دونوں چاہو تو میں یہ مال تمہیںدے دیتا ہوں تاکہ تم بھی اس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرح تصرف کرتے رہو، پس وہ دونوں علیحدہ ہو گئے اور پھر آئے اور سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی آپ یہ مال سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حوالے کر دیں، میں اس بارے میں علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں دلی طور پر راضی ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12219

۔ (۱۲۲۱۹)۔ عَنْ سِمَاکٍ، قَالَ سَمِعْتُ عِیَاضًا الْأَشْعَرِیَّ، قَالَ: شَہِدْتُ الْیَرْمُوکَ، وَعَلَیْنَا خَمْسَۃُ أُمَرَائَ، أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَیَزِیدُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ وَابْنُ حَسَنَۃَ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ وَعِیَاضٌ، وَلَیْسَ عِیَاضٌ ہٰذَا بِالَّذِی حَدَّثَ سِمَاکًا، قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِذَا کَانَ قِتَالٌ فَعَلَیْکُمْ أَبُو عُبَیْدَۃَ، قَالَ: فَکَتَبْنَا إِلَیْہِ أَ نَّہُ قَدْ جَاشَ إِلَیْنَا الْمَوْتُ وَاسْتَمْدَدْنَاہُ، فَکَتَبَ إِلَیْنَا إِنَّہُ قَدْ جَائَ نِی کِتَابُکُمْ تَسْتَمِدُّونِی، وَإِنِّی أَدُلُّکُمْ عَلٰی مَنْ ہُوَ أَعَزُّ نَصْرًا وَأَحْضَرُ جُنْدًا، اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَاسْتَنْصِرُوہُ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نُصِرَ یَوْمَ بَدْرٍ فِی أَقَلَّ مِنْ عِدَّتِکُمْ، فَإِذَا أَتَاکُمْ کِتَابِی ہٰذَا فَقَاتِلُوہُمْ، وَلَا تُرَاجِعُونِی، قَالَ: فَقَاتَلْنَاہُمْ، فَہَزَمْنَاہُمْ، وَقَتَلْنَاہُمْ أَرْبَعَ فَرَاسِخَ، قَالَ: وَأَصَبْنَا أَمْوَالًا فَتَشَاوَرُوا، فَأَشَارَ عَلَیْنَا عِیَاضٌ، أَنْ نُعْطِیَعَنْ کُلِّ رَأْسٍ عَشْرَۃً، قَالَ: وَقَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ: مَنْ یُرَاہِنِّی؟ فَقَالَ شَابٌّ: أَنَا إِنْ لَمْ تَغْضَبْ، قَالَ: فَسَبَقَہُ فَرَأَیْتُ عَقِیصَتَیْ أَبِی عُبَیْدَۃَ تَنْقُزَانِ، وَہُوَ خَلْفَہُ عَلٰی فَرَسٍ عَرَبِیٍّ۔ (مسند احمد: ۳۴۴)
عیاض اشعر ی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں یرموک کے معرکہ میں شامل تھا، پانچ افراد ہمارے اوپر امیر مقرر تھے، سیدنا ابو عبیدہ بن جراح، سیدنا یزید بن ابی سفیان، سیدنا ابن حسنہ، سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عیاض اس جگہ عیاض سے مراد وہ عیاض نہیں جس سے سماک حدیث بیان کرتے ہیں بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ ہدایت دی تھی کہ جب لڑائی شروع ہو تو ابوعبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تمہارے امیر ہوں گے، ہم نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لکھا کہ موت ہمیں نگلنے کے لیے تیارہے، پھر ہم نے ان سے مزید کمک کا مطالبہ کیا۔ انہوںنے جواباً لکھا کہ مجھے تمہاراخط ملا ہے، تم لوگوں نے مجھے سے مزید کمک طلب کی ہے، میں بہت بڑی طاقت اور تعداد کی طرف تمہاری رہنمائی کرتاہوں، تم اللہ تعالیٰ سے نصرت مانگو، بدر کے دن تمہاری بہ نسبت تعداد بہت کم تھی، لیکن پھر بھی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدد کی گئی تھی، میرا یہ خط جب تمہارے پاس پہنچے تو تم دشمن سے لڑائی شروع کر دینا اور مجھ سے مدد طلب نہ کرنا۔ عیاض کہتے ہیں: جب ہماری دشمن سے لڑائی ہوئی تو ہم نے ان کو شکست دے دی اور ہم نے بارہ میل تک انہیں قتل کیا اور ہمیں بہت سارامالِ غنیمت حاصل ہوا، جب لوگوں نے آپس میں مشاورت کی توعیاض نے ہمیں مشورہ دیاکہ ہم ہر سر کی طرف سے دس دیں۔ سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم میں سے کون ہے جو گھڑ دوڑ میں مجھ سے بازی لگائے گا؟ ایک نوجوان نے کہا: اگرآپ ناراض نہ ہوں تو میں حاضر ہوں، چنانچہ وہ آگے آیا، میں نے سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی دونوں لٹوں کودیکھا کہ وہ ہوا میں لہرا رہی تھیں، وہ نوجوان ان کے پیچھے اور ایک عربی گھوڑے پر سوار تھا یعنی وہ نوجوان ابو عبیدہ کے مقابلہ میں پیچھے رہ گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12220

۔ (۱۲۲۲۰)۔ عَنْ سِمَاکٍ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَیَفْتَحَنَّ رَہْطٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ کُنُوزَ کِسْرَی الَّتِی (قَالَ أَبُو نُعَیْمٍ:) الَّذِی بِالْأَبْیَضِ۔)) قَالَ جَابِرٌ: فَکُنْتُ فِیہِمْ فَأَصَابَنِی أَلْفُ دِرْہَمٍ۔ (مسند احمد: ۲۱۳۰۷)
سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کی ایک جماعت کسریٰ کے خزانوں کو ضرورضرور فتح کرے گی۔ ابو نعیم راوی نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا: وہ خزانے جو اس کے سفید محلات میں ہیں۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں بھی ان خزانوں کو فتح کرنے والوں میں شامل تھا اور ایک ہزار درہم میرے حصہ میں آئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12221

۔ (۱۲۲۲۱)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَطَبَ النَّاسَ بِالْجَابِیَۃِ، فَقَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَقَامِی فِیکُمْ، فَقَالَ: ((اسْتَوْصُوا بِأَصْحَابِی خَیْرًا،ثُمَّ الَّذِینَیَلُونَہُمْ، ثُمَّ الَّذِینَیَلُونَہُمْ، ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ حَتّٰی إِنَّ الرَّجُلَ لَیَبْتَدِیُٔ بِالشَّہَادَۃِ قَبْلَ أَنْ یُسْأَلَہَا، فَمَنْ أَرَادَ مِنْکُمْ بَحْبَحَۃَ الْجَنَّۃِ فَلْیَلْزَمِ الْجَمَاعَۃَ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَمَعَ الْوَاحِدِ، وَہُوَ مِنَ الْاِثْنَیْنِ أَبْعَدُ، لَا یَخْلُوَنَّ أَحَدُکُمْ بِامْرَأَۃٍ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ ثَالِثُہُمَا، وَمَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہُ وَسَائَـتْـہُ سَیِّئَتُہُ فَہُوَ مُؤْمِنٌ۔)) (مسند احمد: ۱۱۴)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطاب کیا اور اس میں کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے درمیان اسی طرح کھڑے ہوئے تھے، جیسے میں تمہارے درمیان کھڑ اہوں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیںاپنے صحابہ سے اچھا سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہوں، اور ان کے بعد آنے والے لوگوں اور پھر اُن لوگوں کے بعد آنے والوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی تمہیں وصیت کرتا ہوں، ان زمانوں کے بعد جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ آدمی گواہی کا مطالبہ کیے جانے سے پہلے گواہی دینا شروع کر دے گا، پس تم میں سے جو آدمی جنت کے وسط میں مقام بنانا چاہے، وہ جماعت کے ساتھ مل کر رہے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور اگر دو آدمی اکٹھے ہوں تو وہ ان سے زیادہ دور رہتا ہے اور تم میں سے کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ علیحدہ نہ ہو، کیونکہ ان میں تیسرا شیطان ہو گا، نیز جب کسی آدمی کو اس کی نیکی اچھی لگے اور برائی بری لگے تو وہ مؤمن ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12222

۔ (۱۲۲۲۲)۔ عَنْ نَاشِرَۃَ بْنِ سُمَیٍّ الْیَزَنِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ یَقُولُ فِییَوْمِ الْجَابِیَۃِ وَہُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَنِی خَازِنًا لِہٰذَا الْمَالِ وَقَاسِمَہُ لَہُ، ثُمَّ قَالَ: بَلِ اللّٰہُ یَقْسِمُہُ وَأَنَا بَادِئٌ بِأَہْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ فَفَرَضَ لِأَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشْرَۃَ آلَافٍ إِلَّا جُوَیْرِیَۃَ وَصَفِیَّۃَ ومَیْمُونَۃَ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْدِلُ بَیْنَنَا فَعَدَلَ بَیْنَہُنَّ عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّی بَادِئٌ بِأَصْحَابِی الْمُہَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ، فَإِنَّا أُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا ظُلْمًا وَعُدْوَانًا ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ، فَفَرَضَ لِأَصْحَابِ بَدْرٍ مِنْہُمْ خَمْسَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ کَانَ شَہِدَ بَدْرًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَرْبَعَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ شَہِدَ أُحُدًا ثَلَاثَۃَ آلَافٍ، قَالَ: وَمَنْ أَسْرَعَ فِی الْہِجْرَۃِ أَسْرَعَ بِہِ الْعَطَائُ، وَمَنْ أَبْطَأَ فِی الْہِجْرَۃِ أَبْطَأَ بِہِ الْعَطَائُ، فَلَا یَلُومَنَّ رَجُلٌ إِلَّا مُنَاخَ رَاحِلَتِہِ، وَإِنِّی أَعْتَذِرُ إِلَیْکُمْ مِنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، إِنِّی أَمَرْتُہُ أَنْ یَحْبِسَ ہٰذَا الْمَالَ عَلٰی ضَعَفَۃِ الْمُہَاجِرِینَ، فَأَعْطٰی ذَا الْبَأْسِ وَذَا الشَّرَفِ وَذَا اللَّسَانَۃِ، فَنَزَعْتُہُ وَأَمَّرْتُ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَالَ أَبُو عَمْرِو بْنُ حَفْصِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ: وَاللّٰہِ! مَا أَعْذَرْتَ یَا عُمَرُ بْنَ الْخَطَّابِ! لَقَدْ نَزَعْتَ عَامِلًا اسْتَعْمَلَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَغَمَدْتَ سَیْفًا سَلَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعْتَ لِوَائً نَصَبَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَقَدْ قَطَعْتَ الرَّحِمَ، وَحَسَدْتَ ابْنَ الْعَمِّ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّکَ قَرِیبُ الْقَرَابَۃِ، حَدِیثُ السِّنِّ، مُغْضَبٌ مِنْ ابْنِ عَمِّکَ۔ (مسند احمد: ۱۶۰۰۰)
ناشرہ بن سمی یزنی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جابیہ کے مقام پر سنا، وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مال کا خازن او رتقسیم کنند ہ بنایا ہے۔ پھر کہا: دراصل اللہ تعالیٰ ہی تقسیم کرنے والا ہے، اب میں تقسیم کرتے وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل خانہ سے ابتداء کرتا ہوں، پھر ان کے بعد جو افضل ہو گا، اسے دوں گا، چنانچہ انہوں نے امہات المومنین میں سیدہ جو یریہ، سیدہ صفیہ اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہن کے سوا باقی تمام ازواج مطہرات کے لیے دس دس ہزار مقرر کیے، لیکن جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو ہمارے درمیان عدل اور برابری فرمایا کرتے تھے، پس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سب کو برابر برابر حصہ دیا ہے اورپھر کہا: اب میں سب سے پہلے ان حضرات کو دیتا ہوں جو اولین مہاجرین میں سے ہیں، کیونکہ ان لوگوں پر ظلم اورزیادتی کرتے ہوئے ان کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا تھا، ان کے بعد جو لوگ فضل و شرف والے ہوں گے، ان کو دوں گا، پس انہوں نے اصحاب بدر کے لیے پانچ پانچ ہزار مقرر فرمائے اور انصاری بدری صحابہ کے لیے چار چار ہزار اور شرکائے احد کے لیے تین تین ہزار مقرر کیے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا: جس نے ہجرت کرنے میں جلدی کی، اس کو زیادہ دیا جائے گا اور جس نے ہجرت کرنے میںدیر کی، میں بھی اس کو کم حصہ دوں گا، ہر آدمی اپنے اونٹ کے بٹھانے کی جگہ کو ملامت کرے (یعنی اگر کسی کو حصہ کم دیا جا رہا ہے تو وہ اس کی اپنی تاخیر کی وجہ سے ہے، وہ ہم پر طعن نہ کرے) اورمیں تمہارے سامنے خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں معذرت پیش کرتا ہوں،ـ میں نے انہیں حکم دیا تھا کہ یہ مال کمزور مہاجرین میں تقسیم کریں، لیکن انہوں نے یہ مال تندرست، اصحاب مرتبہ اور چالاک لوگوں میں تقسیم کر دیا، اس لیے میں یہ ذمہ داری ان سے لے کر سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سونپتا ہوں،یہ سن کر ابو عمر بن حفص بن مغیرہ نے کہا: اللہ کی قسم! اے عمر بن خطاب! آپ کا عذر معقول نہیں، آپ نے اس عامل کو معزدل کیا ہے جسے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مقرر فرمایا تھا، آپ نے اس تلوار کو نیام میں بند کیا ہے، جسے اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لہرایا تھا اور آپ نے اس جھنڈے کو لپیٹ دیا ہے، جس کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نصب کیا تھا اور آپ نے یہ کام کر کے اپنے چچا زاد سے قطع رحمی کی ار اس سے حسد کا ثبوت دیا ہے۔ یہ باتیں سن کر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم اپنے اس چچازاد کے قریبی رشتہ دار ہو اور نو عمر ہو، سو تم اس کے حق میں طرف داری کر رہے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12223

۔ (۱۲۲۲۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ إِلَی الشَّامِ، فَلَمَّا جَائَ سَرْغَ بَلَغَہُ أَنَّ الْوَبَائَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ، فَأَخْبَرَہُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِذَا سَمِعْتُمْ بِہِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوْا عَلَیْہِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْہُ۔)) فَرَجَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ سَرْغَ، (وَفِیْ لَفْظٍ) فَحَمِدَ اللّٰہَ عُمَرُ ثُمَّ انْصَرَفَ۔ (مسند احمد: ۱۶۸۲)
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب شام کے لیے روانہ ہوئے، جب ’ ’ سرغ مقام تک پہنچے تو ان کو اطلا ع ملی کہ شام میں (طاعون کی) وبا پھیل چکی ہے۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بتلایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم سنو کہ کسی علاقہ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب تم کسی علاقے میں موجود ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو اس سے ڈر کر وہاں سے نہ نکلو۔ یہ حدیث سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور سرغ مقام سے واپس لوٹ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12224

۔ (۱۲۲۲۴)۔ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِی نَافِعٌ مَوْلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَالزُّبَیْرُ والْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ إِلَی أَمْوَالِنَا بِخَیْبَرَ نَتَعَاہَدُہَا، فَلَمَّا قَدِمْنَاہَا تَفَرَّقْنَا فِی أَمْوَالِنَا، قَالَ: فَعُدِیَ عَلَیَّ تَحْتَ اللَّیْلِ، وَأَنَا نَائِمٌ عَلَی فِرَاشِی، فَفُدِعَتْ یَدَایَ مِنْ مِرْفَقِی، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اسْتُصْرِخَ عَلَیَّ صَاحِبَایَ، فَأَتَیَانِی فَسَأَلَانِی عَمَّنْ صَنَعَ ہٰذَا بِکَ؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِی، قَالَ: فَأَصْلَحَا مِنْیَدَیَّ، ثُمَّ قَدِمُوْا بِی عَلٰی عُمَرَ، فَقَالَ: ہَذَا عَمَلُ یَہُودَ، ثُمَّ قَامَ فِی النَّاسِ خَطِیبًا، فَقَالَ: أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ عَامَلَ یَہُودَ خَیْبَرَ عَلٰی أَنَّا نُخْرِجُہُمْ إِذَا شِئْنَا، وَقَدْ عَدَوْا عَلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَفَدَعُوْا یَدَیْہِ کَمَا بَلَغَکُمْ مَعَ عَدْوَتِہِمْ عَلَی الْأَنْصَارِ قَبْلَہُ لَا نَشُکُّ أَنَّہُمْ أَصْحَابُہُمْ، لَیْسَ لَنَا ہُنَاکَ عَدُوٌّ غَیْرُہُمْ، فَمَنْ کَانَ لَہُ مَالٌ بِخَیْبَرَ فَلْیَلْحَقْ بِہِ، فَإِنِّی مُخْرِجٌ یَہُودَ فَأَخْرَجَہُمْ۔ (مسند احمد: ۹۰)
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں، سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خیبر میں اپنے اموال کی دیکھ بھال کے لیے گئے، وہاں پہنچ کر ہم میں ہر کوئی اپنے اپنے مال میں چلا گیا، میں اپنے بستر پر رات کو سویا ہوا تھا کہ مجھ پر حملہ کر دیا گیا اور کہنیوں سے میرے دونوں بازئوں کو اس طرح کھینچا گیا کہ جوڑوں میں کجی پیدا ہو گئی، جب صبح ہوئی تو میرے دونوں ساتھیوں کو میرے پاس میری مدد کے لیے بلایا گیا،جب وہ میرے پاس آئے تو انہوں نے مجھ سے کہا:تمہارے ساتھ یہ کاروائی کس نے کی ہے؟ میں نے کہا: مجھے تو کوئی پتہ نہیں ہے کہ وہ کون تھے، انہوں نے میرے ہاتھوں کا علاج کیا اور مجھے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس لے گئے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ یہودیوں کی کارستانی ہے، پھر وہ خطاب کرنے کے لیے لوگوں میں کھڑے ہوئے اور کہا، لوگو! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے معاہدہ کیا تھا کہ جب ہم چاہیں گے، انہیں یہاں سے نکال سکیں گے۔ ان لوگوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے زیادتی کی ہے اور ان کے ہاتھ کھینچ ڈالے ہیں، جیسا کہ تم کو پتہ چل چکا ہے اور اس سے پہلے یہ انصاریوں سے دشمنی کا اظہار کر چکے ہیں، اب ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ زیادتیاں انھوں نے ہی کی ہیں، کیونکہ یہاں ہمارا کوئی اور دشمن ہی نہیں ہے، لہذا خیبر میں جس جس آدمی کا مال ہے، وہ جاکر اسے سنبھال لے، میں یہودیوں کو خیبر سے نکالنے ہی والا ہوں۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہودیوںکو وہاں سے جلا وطن کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12225

۔ (۱۲۲۲۵)۔ عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ، عَنْ أَبِی فِرَاسٍ قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَلَا إِنَّا إِنَّمَا کُنَّا نَعْرِفُکُمْ، إِذْ بَیْنَ ظَہْرَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِذْ یَنْزِلُ الْوَحْیُ، وَإِذْ یُنْبِئُنَا اللّٰہُ مِنْ أَخْبَارِکُمْ، أَلَا! وَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِ انْطَلَقَ، وَقَدِ انْقَطَعَ الْوَحْیُ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُکُمْ بِمَا نَقُولُ لَکُمْ مَنْ أَظْہَرَ مِنْکُمْ خَیْرًا، ظَنَنَّا بِہِ خَیْرًا، وَأَحْبَبْنَاہُ عَلَیْہِ، وَمَنْ أَظْہَرَ مِنْکُمْ لَنَا شَرًّا، ظَنَنَّا بِہِ شَرًّا، وَأَبْغَضْنَاہُ عَلَیْہِ سَرَائِرُکُمْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ رَبِّکُمْ، أَلَا! إِنَّہُ قَدْ أَتٰی عَلَیَّ حِینٌ، وَأَنَا أَحْسِبُ أَنَّ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ یُرِیدُ اللّٰہَ، وَمَا عِنْدَہُ فَقَدْ خُیِّلَ إِلَیَّ بِآخِرَۃٍ، أَلَا! إِنَّ رِجَالًا قَدْ قَرَئُ وْہُ یُرِیدُونَ بِہِ مَا عِنْدَ النَّاسِ، فَأَرِیدُوا اللّٰہَ بِقِرَائَتِکُمْ، وَأَرِیدُوہُ بِأَعْمَالِکُمْ، أَلَا! إِنِّی وَاللّٰہِ مَا أُرْسِلُ عُمَّالِی إِلَیْکُمْ لِیَضْرِبُوا أَبْشَارَکُمْ، وَلَا لِیَأْخُذُوْا أَمْوَالَکُمْ، وَلَکِنْ أُرْسِلُہُمْ إِلَیْکُمْ لِیُعَلِّمُوکُمْ دِینَکُمْ وَسُنَّتَکُمْ، فَمَنْ فُعِلَ بِہِ شَیْئٌ سِوَی ذَلِکَ فَلْیَرْفَعْہُ إِلَیَّ، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِذَنْ لَأُقِصَّنَّہُ مِنْہُ، فَوَثَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! أَوَ رَأَیْتَ إِنْ کَانَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ عَلَی رَعِیَّۃٍ، فَأَدَّبَ بَعْضَ رَعِیَّتِہِ، أَئِنَّکَ لَمُقْتَصُّہُ مِنْہُ؟ قَالَ: إِی وَالَّذِی نَفْسُ عُمَرَ بِیَدِہِ! إِذَنْ لَأُقِصَّنَّہُ مِنْہُ، وَقَدْ رَاَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقِصُّ مِنْ نَفْسِہِ، أَلَا! لَا تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِینَ فَتُذِلُّوہُمْ، وَلَا تُجَمِّرُوہُمْ فَتَفْتِنُوہُمْ، وَلَا تَمْنَعُوہُمْ حُقُوقَہُمْ فَتُکَفِّرُوہُمْ، وَلَا تُنْزِلُوہُمْ الْغِیَاضَ فَتُضَیِّعُوہُمْ۔ (مسند احمد: ۲۸۶)
ابو فراس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا: لوگو! جب ہمارے درمیان نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہوا کر تی تھی اور اللہ تعالیٰ تمہاری کاروائیوں سے ہمیں باخبر کر دیا کرتے تھے، ہم تم سب کو اچھی طرح پہچان لیتے تھے، اب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا چکے ہیں اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اب ہم تمہیں جو کچھ کہیں گے، اسی کی روشنی میں تمہیں پہچاننے کی کوشش کریں گے، تم میں سے جو آدمی اچھائی کا اظہار کرے گا، ہم بھی اس کے متعلق اچھا گمان رکھیں گے اور اسی کے مطابق اس کے ساتھ رویہ اختیار کریں گے اور تم میں سے جس نے ہمارے ساتھ برائی کا اظہار کیا، ہم بھی اس کے متعلق برا گمان رکھیں گے اور اسی کے مطابق اس سے بغض رکھیں گے، تمہارے راز اور اندر کی باتیں تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ہیں۔ خبردار! مجھ پر ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے کہ میں جسے قرآن پڑھتا دیکھتا تھا، اس کے بارے میں یہی سمجھتا تھا کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے، اس کو حاصل کرنے کے لیے پڑھ رہا ہے، اس کے بارے میں میں آخر تک یہی سمجھتا رہا، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو قرآن پڑھ کر لوگوں سے اس کا معاوضہ اور مال چاہتے ہیں، میں تم کو یہی کہوں گا کہ تم اپنی قراء ت اور اعمال کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ارادہ کرو۔ خبردار! اللہ کی قسم! میں اپنے عمال اور مسئولین کو تمہاری طرف اس لیے نہیں بھیجتا کہ وہ تمہیں سزائیں دیں اور نہ میں انہیں اس لیے بھیجتا ہوں کہ وہ تمہارے اموال ہتھیا لیں، میرا ان کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ تمہیں تمہارا دین اور سنت سکھائیں، اگر میرا کوئی عامل اس کے الٹ کاروائی کرے تو اس کے بارے میں مجھے خبر دو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے! میں اس سے اس کی کاروائی کا بدلہ دلواؤں گا۔ یہ سن کر سیدنا عمر و بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھے اور انھوں نے کہا: اے امیر المومنین! کیا خیال ہے اگر ایک مسلمان آدمی کچھ لوگوں پر حاکم ہو اور وہ اپنی رعایا کے بعض افراد کو ادب سکھانے کے لیے سزا وغیرہ دیتا ہو تو کیا آپ اس سے بدلہ لیں گے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی ہاں، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے! میں تب بھی ضرور ضرور اس سے بدلہ لوںگا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بدلے کے لیے خود کو پیش کر دیا تھا۔ خبردار! تم مسلمانوں کو سزائیں دے دے کر ان کو ذلیل ورسوانہ کرو اور تم انہیں زیادہ عرصے تک سرحدوں پر روک کر نہ رکھو، اس طرح تم انہیں فتنوں میں مبتلا کر دو گے اور تم انہیں ان کے حق سے محروم نہ کرو، وگرنہ تم انہیں ناشکرے بندے بنا دو گے اور تم لشکروں کو درختوں کے جھنڈوں میں نہ اتارا کرو (کیونکہ اس طرح سے وہ بکھر جائیں گے) اور ضائع ہو جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12226

۔ (۱۲۲۲۶)۔ وَعَنْ اَبِی الْعَجْفَائِ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ یَقُولُ: أَلَا! لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَائِ، فَذَکَرَ الْحَدِیثَ، قَالَ إِسْمَاعِیلُ: وَذَکَرَ أَیُّوبُ وَہِشَامٌ وَابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِی الْعَجْفَائِ، عَنْ عُمَرَ نَحْوًا مِنْ حَدِیثِ سَلَمَۃَ إِلَّا أَنَّہُمْ قَالُوا: لَمْ یَقُلْ مُحَمَّدٌ: نُبِّئْتُ عَنْ أَبِی الْعَجْفَائِ۔ (مسند احمد: ۲۸۷)
ابو العجفاء سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ خبردار! تم عورتوں کے مہر میں غلوّ میں نہ پڑو، پھر باقی حدیث ذکر کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12227

۔ (۱۲۲۲۷)۔ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ اَبِیْ طَلْحَۃَ الْیَعْمُرِیِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ ذَکَرَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَذَکَرَ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، ثُمَّ قَالَ: رَأَیْتُ رُؤْیَا، لَا أُرَاہَا إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِی، رَأَیْتُ کَأَنَّ دِیکًا نَقَرَنِی نَقْرَتَیْنِ، قَالَ: وَذَکَرَ لِی أَنَّہُ دِیکٌ أَحْمَرُ، فَقَصَصْتُہَا عَلَی أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ، امْرَأَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فَقَالَتْ: یَقْتُلُکَ رَجُلٌ مِنَ الْعَجَمِ، قَالَ: وَإِنَّ النَّاسَ یَأْمُرُونَنِی أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُنْ لِیُضَیِّعَ دِینَہُ وَخِلَافَتَہُ الَّتِی بَعَثَ بِہَا نَبِیَّہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ یَعْجَلْ بِی أَمْرٌ فَإِنَّ الشُّورٰی فِی ہٰؤُلَائِ السِّتَّۃِ الَّذِینَ مَاتَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْہُمْ رَاضٍ، فَمَنْ بَایَعْتُمْ مِنْہُمْ فَاسْمَعُوا لَہُ وَأَطِیعُوا، وَإِنِّی أَعْلَمُ أَنَّ أُنَاسًا سَیَطْعَنُونَ فِی ہٰذَا الْأَمْرِ، أَنَا قَاتَلْتُہُمْ بِیَدِی ہٰذِہِ عَلَی الْإِسْلَامِ، أُولَئِکَ أَعْدَائُ اللّٰہِ الْکُفَّارُ الضُّلَّالُ، وَایْمُ اللّٰہِ! مَا أَتْرُکُ فِیمَا عَہِدَ إِلَیَّ رَبِّی فَاسْتَخْلَفَنِی شَیْئًا أَہَمَّ إِلَیَّ مِنَ الْکَلَالَۃِ، وَایْمُ اللّٰہِ! مَا أَغْلَظَ لِی نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَیْئٍ مُنْذُ صَحِبْتُہُ أَشَدَّ مَا أَغْلَظَ لِی فِی شَأْنِ الْکَلَالَۃِ حَتّٰی طَعَنَ بِإِصْبَعِہِ فِی صَدْرِی، وَقَالَ: تَکْفِیکَ آیَۃُ الصَّیْفِ الَّتِی نَزَلَتْ فِی آخِرِ سُورَۃِ النِّسَائِ، وَإِنِّی إِنْ أَعِشْ فَسَأَقْضِی فِیہَا بِقَضَائٍ یَعْلَمُہُ مَنْ یَقْرَأُ وَمَنْ لَا یَقْرَأُ، وَإِنِّی أُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی أُمَرَائِ الْأَمْصَارِ، إِنِّی إِنَّمَا بَعَثْتُہُمْ لِیُعَلِّمُوا النَّاسَ دِینَہُمْ وَیُبَیِّنُوا لَہُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّہِمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیَرْفَعُوا إِلَیَّ مَا عُمِّیَ عَلَیْہِمْ، ثُمَّ إِنَّکُمْ أَیُّہَا النَّاسُ! تَأْکُلُونَ مِنْ شَجَرَتَیْنِ لَا أُرَاہُمَا إِلَّا خَبِیثَتَیْنِ ہٰذَا الثُّومُ وَالْبَصَلُ، وَایْمُ اللّٰہِ! لَقَدْ کُنْتُ أَرٰی نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجِدُ رِیحَہُمَا مِنَ الرَّجُلِ فَیَأْمُرُ بِہِ فَیُؤْخَذُ بِیَدِہِ فَیُخْرَجُ بِہِ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتّٰییُؤْتٰی بِہِ الْبَقِیعَ، فَمَنْ أَکَلَہُمَا لَا بُدَّ فَلْیُمِتْہُمَا طَبْخًا۔ قَالَ: فَخَطَبَ النَّاسَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَأُصِیبَیَوْمَ الْأَرْبِعَائِ۔ (مسند احمد: ۸۹)
معبد بن ابی طلحہ یعمری سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جمعہ کے دن منبر پر کھڑے ہوئے،ا للہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا تذکرہ کیا اور پھر کہا: میں نے ایک خواب دیکھا ہے، میرے خیال میں اس کی تعبیر یہ ہے کہ اب میری وفا ت کا وقت قریب آچکا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ ایک سرـخ مرغ نے مجھے دو ٹھونگیں ماری ہیں، جب میںنے یہ خواب سیدہ اسماء بنت عمیس معبد بن ابی طلحہ یعمری سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جمعہ کے دن منبر پر کھڑے ہوئے،ا للہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا تذکرہ کیا اور پھر کہا: میں نے ایک خواب دیکھا ہے، میرے خیال میں اس کی تعبیر یہ ہے کہ اب میری وفا ت کا وقت قریب آچکا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ ایک سرـخ مرغ نے مجھے دو ٹھونگیں ماری ہیں، جب میںنے یہ خواب سیدہ اسماء بنت عمیس
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12228

۔ (۱۲۲۲۸)۔ عَنْ جُوَیْرِیَۃَ بْنِ قُدَامَۃَ، قَالَ: حَجَجْتُ فَأَتَیْتُ الْمَدِینَۃَ الْعَامَ الَّذِی أُصِیبَ فِیہِ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: فَخَطَبَ فَقَالَ: إِنِّی رَأَیْتُ کَأَنَّ دِیکًا أَحْمَرَ نَقَرَنِی نَقْرَۃً أَوْ نَقْرَتَیْنِ، شُعْبَۃُ الشَّاکُّ، فَکَانَ مِنْ أَمْرِہِ أَنَّہُ طُعِنَ فَأُذِنَ لِلنَّاسِ عَلَیْہِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ عَلَیْہِ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّیاللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ، ثُمَّ أَہْلُ الشَّامِ، ثُمَّ أُذِنَ لِأَہْلِ الْعِرَاقِ فَدَخَلْتُ فِیمَنْ دَخَلَ، قَالَ: فَکَانَ کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہِ قَوْمٌ أَثْنَوْا عَلَیْہِ وَبَکَوْا، قَالَ: فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَیْہِ،قَالَ: وَقَدْ عَصَبَ بَطْنَہُ بِعِمَامَۃٍ سَوْدَائَ، وَالدَّمُ یَسِیلُ، قَالَ: فَقُلْنَا: أَوْصِنَا، قَالَ: وَمَا سَأَلَہُ الْوَصِیَّۃَ أَحَدٌ غَیْرُنَا، فَقَالَ: عَلَیْکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ، فَإِنَّکُمْ لَنْ تَضِلُّوا مَا اتَّبَعْتُمُوہُ، فَقُلْنَا: أَوْصِنَا، فَقَالَ: أُوصِیکُمْ بِالْمُہَاجِرِینَ، فَإِنَّ النَّاسَ سَیَکْثُرُونَ وَیَقِلُّونَ، وَأُوصِیکُمْ بِالْأَنْصَارِ فَإِنَّہُمْ شِعْبُ الْإِسْلَامِ الَّذِی لَجِئَ إِلَیْہِ، وَأُوصِیکُمْ بِالْأَعْرَابِ فَإِنَّہُمْ أَصْلُکُمْ وَمَادَّتُکُمْ، وَأُوصِیکُمْ بِأَہْلِ ذِمَّتِکُمْ فَإِنَّہُمْ عَہْدُ نَبِیِّکُمْ، وَرِزْقُ عِیَالِکُمْ، قُومُوْا عَنِّی، قَالَ: فَمَا زَادَنَا عَلٰی ہَؤُلَائِ الْکَلِمَاتِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: قَالَ شُعْبَۃُ: ثُمَّ سَأَلْتُہُ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَقَالَ فِی الْأَعْرَابِ: وَأُوصِیکُمْ بِالْأَعْرَابِ، فَإِنَّہُمْ إِخْوَانُکُمْ وَعَدُوُّ عَدُوِّکُمْ۔ (مسند احمد: ۳۶۲)
جو یریہ بن قدامہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جس سال سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس سال میں نے حج کیا اور پھر میںمدینہ منورہ آیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا ایک سرخ مرغ نے مجھے ایک دو ٹھونگیں ماری ہیں۔ ، پھر ہوا یوں کہ واقعی ان پر قاتلانہ حملہ ہو گیا، جب لوگوں کو ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت دی گئی تو سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب ان کے پاس گئے، ان کے بعد باقی اہل مدینہ، ان کے بعد اہل شام اور ان کے بعد اہل عراق، میں بھی ان لوگوں میں موجود تھا، جب لو گ ان کے پاس جاتے تو ان کی تعریف کرتے اور رونے لگ جاتے، جب ہم گئے تو ان کے پیٹ کو ایک سیاہ پگڑی کے ساتھ باندھا گیا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ ہم نے کہا: آپ ہمیں وصیت فرمائیں، ہمارے گروہ کے سوا کسی نے وصیت کرنے کی درخواست نہیں کی تھی، ہماری درخواست سن کر انہوں نے کہا: تم اللہ کی کتاب کو لازم پکڑو، تم جب تک اس کی پیروی کرتے رہوگے، اس وقت تک گمراہ نہیں ہوگے۔ ہم نے کہا: آپ ہمیں مزید وصیت کریں، انھوں نے کہا: میں تمہیں مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتاہوں، لوگوں کی تعداد بڑھ رہی اور مہاجرین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور میں تمہیں انصار کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہوں، یہ وہ گھاٹی ہیں، جس میں اسلام نے آکر پناہ لی،میں تمہیں بادیہ نشینوں کے متعلق بھی وصیت کرتاہوں، کیونکہ وہ مسلمانوں کی اصل او ربنیادی جوہر ہیں اور میں تمہیں ذمی لوگوں کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہوں،تمہارے نبی نے ان کو امان دی ہے اور یہ لوگ تمہارے اہل وعیال کی روزی کا ذریعہ بھی ہیں، اب تم میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے زیادہ ہم سے باتیں نہیں کیں۔ شعبہ کہتے ہیں:اس کے بعد ایک بار میں نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے بدوؤں کے بارے میں کہا: میں تمہیں بادیہ نشینوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، کیونکہ یہ تمہارے بھائی ہیں اورتمہارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12229

۔ (۱۲۲۲۹)۔ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ بِالْبَصْرَۃِ، قَالَ: أَنَا أَوَّلُ مَنْ أَتٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حِینَ طُعِنَ، فَقَالَ: احْفَظْ عَنِّی ثَلَاثًا، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ لَا یُدْرِکَنِیالنَّاسُ، أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَقْضِ فِی الْکَلَالَۃِ قَضَائً، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ عَلَی النَّاسِ خَلِیفَۃً، وَکُلُّ مَمْلُوکٍ لَہُ عَتِیقٌ، فَقَالَ لَہُ النَّاسُ: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: أَیَّ ذٰلِکَ أَفْعَلُ فَقَدْ فَعَلَہُ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنِّی، إِنْ أَدَعْ إِلَی النَّاسِ أَمْرَہُمْ، فَقَدْ تَرَکَہُ نَبِیُّ اللّٰہِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃ وَالسَّلَامُ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ فَقَدْ اسْتَخْلَفَ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنِّی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقُلْتُ لَہُ: أَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ، صَاحَبْتَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَطَلْتَ صُحْبَتَہُ وَوُلِّیتَ أَمْرَ الْمُؤْمِنِینَ، فَقَوِیتَ وَأَدَّیْتَ الْأَمَانَۃَ، فَقَالَ: أَمَّا تَبْشِیرُکَ إِیَّایَ بِالْجَنَّۃِ، فَوَاللّٰہِ! لَوْ أَنَّ لِی قَالَ عَفَّانُ: فَلَا، وَاللّٰہِ الَّذِی لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ، لَوْ أَنَّ لِی الدُّنْیَا بِمَا فِیہَا لَافْتَدَیْتُ بِہِ مِنْ ہَوْلِ مَا أَمَامِی قَبْلَ أَنْ أَعْلَمَ الْخَبَرَ، وَأَمَّا قَوْلُکَ فِی أَمْرِ الْمُؤْمِنِینَ فَوَاللّٰہِ، لَوَدِدْتُ أَنَّ ذٰلِکَ کَفَافًا لَا لِیوَلَا عَلَیَّ، وَأَمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ صُحْبَۃِ نَبِیِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۳۲۲)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو میں سب سے پہلے ان کے پاس گیا اور انہوں نے مجھ سے کہا: تم میری تین باتیں یادرکھنا، مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ مجھے نہ مل سکیں گے، ایک یہ کہ میں نے کلالہ کی بابت کوئی حتمی فیصلہ نہیںکیا۔ دوسری یہ کہ میںنے کسی کو لوگوں پر خلیفہ نامزد نہیں کیا اور تیسری یہ کہ تمام غلام جو میری ملکیت میں ہیں، وہ سب آزاد ہیں۔پھر لوگوں نے ان سے کہا: آپ کسی کو خلیفہ نامزد کردیں۔ انہوں نے کہا: میں دو امور میں سے جو بھی کروں، وہی کام مجھ سے افضل ہستی کر چکی ہے، اگر میں خلافت کے معاملے کو لوگوں کے سپرد کر جاؤں تو اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی ایسے ہی کیا تھا،اور اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کر جاؤں تو مجھ سے پہلے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ کام کر چکے ہیں، جبکہ وہ مجھ سے بہتر ہیں۔میں نے ان سے کہا: آپ کو جنت کی بشارت ہو، آپ کو طویل عرصہ تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل رہا، آپ کو امیر المومنین کا منصب سونپا گیا تو آپ نے قوت کا مظاہرہ کیااور امانت کا خوب حق ادا کیا۔ یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جہاں تک تمہارا مجھے جنت کی بشارت دینے کا تعلق ہے، تو اللہ کی قسم ہے کہ مجھے آخرت کا اس قدرڈر ہے کہ اس بارے حتمی خبر جاننے سے قبل اگر میرے پاس دنیا بھر کی دولت بھی ہوتو میں اس ڈر سے بچنے کی خاطر ساری دولت بطور فدیہ دے دوں، اہل ایمان پر خلافت و امارت کے بارے میں جو کچھ تم نے کہا ہے، میں تو یہ پسند کرتاہوں کہ اگر حساب برابر سرابر ہو جائے، یعنی نہ مجھے کچھ ملے اور نہ مجھ پہ کوئی جرم لگایا جائے تو اس چیز کو میں اپنے حق میں کافی سمجھوں گا، البتہ تم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت جو ذکر کیا ہے، وہ شرف باعث ِ اعزاز ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12230

۔ (۱۲۲۳۰)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّہُ قَالَ لِعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنِّی سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُولُونَ مَقَالَۃً، فَآلَیْتُ أَنْ أَقُولَہَا لَکُمْ، زَعَمُوْا أَنَّکَ غَیْرُ مُسْتَخْلِفٍ، فَوَضَعَ رَأْسَہُ سَاعَۃً ثُمَّ رَفَعَہُ فَقَالَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَحْفَظُ دِینَہُ، وَإِنِّی إِنْ لَا أَسْتَخْلِفْ، فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَسْتَخْلِفْ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ فَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدِ اسْتَخْلَفَ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ ذَکَرَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ، فَعَلِمْتُ أَنَّہُ لَمْ یَکُنْیَعْدِلُ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحَدًا، وَأَنَّہُ غَیْرُ مُسْتَخْلِفٍ۔ (مسند احمد: ۳۳۲)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: میں نے لوگوں کو کچھ باتیں کرتے ہوئے سنا ہے تو میں نے عزم کیا کہ ان باتوں کاآپ سے ذکر کروں، لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کر رہے، یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کچھ دیر کے لیے سر جھکا لیا اور پھر سر اٹھا کر کہا: بے شک اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کرے گا،اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد نہ کروں تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی کسی کو نامزد نہیں گیا تھا اوراگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کردوں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہو گا، کیونکہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نامزد کیا تھا۔ یہ سن کر سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جب انہوں نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، اِن دو ہستیوں کا ذکر کیا تو میںجان گیا کہ وہ کسی کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے برابر نہیں کریں گے اور کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کریں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12231

۔ (۱۲۲۳۱)۔ عَنْ أَبِی رَافِعٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَانَ مُسْتَنِدًا إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعِنْدَہُ ابْنُ عُمَرَ وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فَقَالَ: اعْلَمُوا أَنِّی لَمْ أَقُلْ فِی الْکَلَالَۃِ شَیْئًا، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِی أَحَدًا، وَأَنَّہُ مَنْ أَدْرَکَ وَفَاتِی مِنْ سَبْیِ الْعَرَبِ فَہُوَ حُرٌّ مِنْ مَالِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، فَقَالَ سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ: أَمَا إِنَّکَ لَوْ أَشَرْتَ بِرَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِینَ لَأْتَمَنَکَ النَّاسُ، وَقَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأْتَمَنَہُ النَّاسُ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: قَدْ رَأَیْتُ مِنْ أَصْحَابِی حِرْصًا سَیِّئًا، وَإِنِّی جَاعِلٌ ہٰذَا الْأَمْرَ إِلٰی ہَؤُلَائِ النَّفَرِ السِّتَّۃِ، الَّذِینَ مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْہُمْ رَاضٍ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: لَوْ أَدْرَکَنِی أَحَدُ رَجُلَیْنِ ثُمَّ جَعَلْتُ ہٰذَا الْأَمْرَ إِلَیْہِ لَوَثِقْتُ بِہِ، سَالِمٌ مَوْلٰی اَبِیْ حُذَیْفَۃَ وَاَبُوْ عُبَیْدَۃَ ابْنُ الْجَرَّاحِ۔ (مسند احمد: ۱۲۹)
ابو رافع سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے سہارے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، سیدنا ابن عمر اور سیدنا سعید بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی ان کے ہاں موجود تھے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یا درکھو کہ میں نے کلالہ کی بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا اور میں نے اپنے بعد کسی کو خلیفہ کے طور پر نامزد نہیں کیا اور میری وفات کے وقت جتنے عرب غلام میری ملکیت میں ہوں، وہ سب اللہ تعالیٰ کے مال سے آزاد ہوں گے۔ سیدنا سعید بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: اگر آپ خلافت کے بارے میں کسی مسلمان کا اشارہ کر دیں تو لوگ اس بارے میں آپ کو امین خیال کریں گے، جیسا کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایسا کرگئے تھے اور لوگوں نے ان کو امین سمجھا تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے اپنے ساتھیوں میں خلافت کی شدید حرص دیکھی ہے، پس میں اس امر کو ایسے چھ اشخاص کے سپرد کر رہا ہوں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات کے وقت جن سے خوش تھے، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگرمجھے ان دو افراد میں کوئی ایک پا لیتا تو میں یہ معاملہ اس کے سپرد کر کے اس پر اعتماد کرتا، ایک سالم مولی ابی حذیفہ اور دوسرا ابو عبیدہ بن الجراح۔1
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12232

۔ (۱۲۲۳۲)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ، أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ: وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی سَرِیرِہِ، فَتَکَنَّفَہُ النَّاسُ یَدْعُونَ وَیُصَلُّونَ قَبْلَ أَنْ یُرْفَعَ، وَأَنَا فِیہِمْ فَلَمْ یَرُعْنِی إِلَّا رَجُلٌ، قَدْ أَخَذَ بِمَنْکِبِی مِنْ وَرَائِی، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا ہُوَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَتَرَحَّمَ عَلَی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ: مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَیَّ أَنْ أَلْقَی اللّٰہَ تَعَالٰی بِمِثْلِ عَمَلِہِ مِنْکَ، وَایْمُ اللّٰہِ! إِنْ کُنْتُ لَأَظُنُّ لَیَجْعَلَنَّکَ اللّٰہُ مَعَ صَاحِبَیْکَ، وَذٰلِکَ أَنِّی کُنْتُ أُکْثِرُ أَنْ أَسْمَعَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((فَذَہَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا ٔوَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ۔)) وَإِنْ کُنْتُ لَأَظُنُّ لَیَجْعَلَنَّکَ اللّٰہُ مَعَہُمَا۔ (مسند احمد: ۸۹۸)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو ان کو اٹھائے جانے سے قبل لوگوں نے ان کی چارپائی کو گھیر لیا اور ان کے حق میں دعائیں اور رحمت کی التجائیں کرنے لگے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک آدمی نے پیچھے سے میرے ! سالم مولیٰ ابی حذیفہ، ابوبکر کی خلافت میں جنگ یمامہ میں شہید ہوگئے تھے اور ابو عبیدہ بن جراح عہد فاروقی میں ۱۸ ھ میں فوت ہو گئے تھے۔ عمر بن خطاب نے اپنے اس فرمان میں ان دو شخصیات کی عظمت و جلالت کا اعتراف کیا ہے۔ (عبداللہ رفیق) کندھوں کو پکڑا، جب میں اُدھر متوجہ ہوا تو کیا دیکھا کہ وہ سیدنا علی ابن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ انہوں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں دعائے رحمت کی اور کہا: آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا آدمی نہیں چھوڑا کہ جس کے بارے میں میں یہ تمنا کرسکوں کہ جب اللہ تعالیٰ سے ملوں تو میرے اعمال اس کے اعمال جیسے ہوں، اللہ کی قسم!مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ضرور ملائے گا، اس لیے کہ میں کثرت سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کرتا تھا کہ ’‘میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابو بکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں، ابو بکر اور عمر باہر گئے۔ مجھے یقین تھا کہ اللہ آپ کو ان کے ساتھ ضرور ملائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12233

۔ (۱۲۲۳۳)۔ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ بَیْنَ الْمِنْبَرِ وَالْقَبَرِ، فَجَائَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ حَتّٰی قَامَ بَیْنَیَدَیِ الصُّفُوفِ، فَقَالَ: ہُوَ ہٰذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ: رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْکَ، مَا مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ تَعَالٰی أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَلْقَاہُ بِصَحِیفَتِہِ بَعْدَ صَحِیفَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ ہٰذَا الْمُسَجّٰی عَلَیْہِ ثَوْبُہُ۔ (مسند احمد: ۸۶۶)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو منبراور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قبر کے درمیان لا کر رکھا گیا تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آکر صفوں آگے کھڑ ے ہوگئے اور انہوں نے تین بار کہا: آپ پر اللہ کی رحمت ہو، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اس ڈھانپے ہوئے آدمی کے علاوہ کوئی ایسا بشر نہیں ہے کہ میں اس جیسے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پاس جانا پسند کروں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12234

۔ (۱۲۲۳۴)۔ عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِی جُحَیْفَۃَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَہُوَ مُسَجًّی بِثَوْبِہِ، قَدْ قَضٰی نَحْبَہُ، فَجَائَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَکَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْہِہِ، ثُمَّ قَالَ: رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْکَ، أَبَا حَفْصٍ! فَوَاللّٰہِ، مَا بَقِیَ بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَلْقَی اللّٰہَ تَعَالٰی بِصَحِیفَتِہِ مِنْکَ۔ (مسند احمد: ۸۶۷)
ابو حجیفہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس تھا، ان پر ایک کپڑا ڈال کر انہیںڈھانپا گیا، وہ وفات پا چکے تھے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، انہوں نے آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا: اے ابو حفص! آپ پر اللہ کی رحمت ہو، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد آپ سے بڑھ کر کوئی آدمی مجھے اتنا محبوب نہیں کہ میں اس جیسا نامہ اعمال لیے ہوئے اللہ تعالیٰ سے جا کر ملوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12235

۔ (۱۲۲۳۵)۔ وَعَنْ مَعْدَانَ بْنِ اَبِیْ طَلْحَۃَ الْیَعْمُرِیَّ، اَنَّ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اُصِیْبَیَوْمَ الْاَرْبِعَائِ، لِاَرْبَعَ لَیَالٍ بَقِیْنَ مِنْ ذِی الْحَجَّۃِ۔ (مسند احمد: ۳۴۱)
معدان بن ابی طلحہ یعمری سے روایت ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر بدھ کے روز قاتلانہ حملہ ہوا، ابھی تک ماہِ ذوالحجہ کے چار دن باقی تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12236

۔ (۱۲۲۳۶)۔ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ: کَیْفَ بَایَعْتُمْ عُثْمَانَ وَتَرَکْتُمْ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ قَالَ: مَا ذَنْبِی قَدْ بَدَأْتُ بِعَلِیٍّ، فَقُلْتُ: أُبَایِعُکَ عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ وَسُنَّۃِ رَسُولِہِ وَسِیرَۃِ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَالَ: فَقَالَ: فِیمَا اسْتَطَعْتُ، قَالَ: ثُمَّ عَرَضْتُہَا عَلٰی عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَبِلَہَا۔ (مسند احمد: ۵۵۷)
ابووائل سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: یہ کیسے ہوا کہ آپ لوگوں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو چھوڑ کر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت کر لی، انہوں نے کہا: اس میں میراکیا قصور ہے؟میں پہلے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیاا ور میںنے کہا: میں اللہ کی کتاب، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سنت اور ابوبکر و عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی سیرت کی روشنی میں آپ کی بیعت کرتاہوں، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، لیکن میری طاقت کے مطابق، عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پھرمیں نے یہ چیز سیدنا عثمان پر پیش کی تو انہوں نے اسے قبول کرلیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12237

۔ (۱۲۲۳۷)۔ عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ ہِلَالٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِہِ، قَالَ: کَانَ یَقُولُ فِی خِلَافَۃِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ لَا یَمُوتُ عُثْمَانُ حَتّٰییُسْتَخْلَفَ، قُلْنَا: مِنْ أَیْنَ تَعْلَمُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((رَأَیْتُ اللَّیْلَۃَ فِی الْمَنَامِ کَأَنَّہُ ثَلَاثَۃٌ مِنْ أَصْحَابِی وُزِنُوْا فَوُزِنَ أَبُو بَکْرٍ فَوَزَنَ، ثُمَّ وُزِنَ عُمَرُ فَوَزَنَ، ثُمَّ وُزِنَ عُثْمَانُ فَنَقَصَ صَاحِبُنَا، وَہُوَ صَالِحٌ۔)) (مسند احمد: ۱۶۷۲۱)
اسو د بن ہلال اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دور خلافت میںکہا کرتے تھے کہ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جب تک خلافت نہیں ملے گی، انہیں اس وقت تک موت نہیں آئے گی۔ ہم نے کہا: تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے گزشتہ رات نیند میں دیکھا ہے کہ گویا میرے تین صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا وزن کیاگیا، پس ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا وزن کیا گیا، وہ بھاری رہے، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کاوزن کیا گیا، وہ بھی بھاری رہے، بعد ازاں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا وزن کیا گیا تو وہ ذرا کم وزن تھے، بہرحال وہ بھی صالح آدمی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12238

۔ (۱۲۲۳۸)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! لَوْ کَانَ عِنْدَنَا مَنْ یُحَدِّثُنَا۔)) قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا أَبْعَثُ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ؟ فَسَکَتَ ثُمَّ قَالَ: ((لَوْ کَانَ عِنْدَنَا مَنْ یُحَدِّثُنَا۔)) فَقُلْتُ: أَلَا أَبْعَثُ إِلٰی عُمَرَ؟ فَسَکَتَ، قَالَتْ: ثُمَّ دَعَا وَصِیفًا بَیْنَیَدَیْہِ فَسَارَّہُ فَذَہَبَ، قَالَتْ: فَإِذَا عُثْمَانُ یَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَہُ، فَدَخَلَ فَنَاجَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَوِیلًا، ثُمَّ قَالَ: ((یَا عُثْمَانُ! إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ مُقَمِّصُکَ قَمِیصًا، فَإِنْ أَرَادَکَ الْمُنَافِقُونَ عَلٰی أَنْ تَخْلَعَہُ فَلَا تَخْلَعْہُ لَہُمْ وَلَا کَرَامَۃَ۔)) یَقُولُہَا لَہُ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا۔ (مسند احمد: ۲۴۹۷۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میںنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! کاش ہمارے پاس کوئی ایسا آدمی ہوتا جو ہمارے ساتھ باتیں کرتا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، کچھ دیر بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: کاش ہمارے پاس کوئی آدمی ہوتا جو ہمارے ساتھ باتیں کرتا۔ میں نے کہا: کیا میں عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج دوں؟ لیکن آپ اس بار بھی خاموش رہے، کچھ دیر بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خادم کو بلوایا اور راز دارنہ انداز میں اس کے ساتھ کوئی بات کی، وہ چلا گیا،تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اجازت دی اور وہ اندر تشریف لے آئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کافی دیر تک ان کے ساتھ سرگوشی کرتے رہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عثمان! اللہ تعالیٰ تمہیں ایک قمیص پہنائے گا، اگر منافقین اس قمیص کو اتارنے کا مطالبہ کریں تو ان کے کہنے پر تم اسے نہ اتارنا، کیونکہ اس کے اتارنے میں کوئی عزت نہیں رہے گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات دو تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12239

۔ (۱۲۲۳۹)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: أَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ إِلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ أَقْبَلت إِحْدَانَا عَلَی الْأُخْرٰی، فَکَانَ مِنْ آخِرِ کَلَامٍ کَلَّمَہُ أَنْ ضَرَبَ مَنْکِبَہُ، وَقَالَ: ((یَا عُثْمَانُ! اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ عَسٰی أَنْ یُلْبِسَکَ قَمِیْصًا، فَإِنْ أَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلٰی خَلْعِہٖفَلَاتَخْلَعْہٗحَتّٰی تَلْقَانِیْ،یَا عُثْمَانُ! إِنَّ اللّٰہَ عَسٰی أَنْ یُلْبِسَکَ قَمِیْصًا فَإِنْ أَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلٰی خَلْعِہٖفَلَاتَخْلَعْہُحَتّٰی تَلْقَانِیْ ثَلَاثًا۔)) فَقُلْتُ لَہَا: یَا أُمَّ الْمُؤُمِنِیْنَ! فَأَیْنَ کَانَ ہَذٰا عَنْکِ؟ قَالَتْ: نَسِیْتُہُ وَاللّٰہِ! فَمَا ذَکَرْتُہُ، قَالَ: فَأَخْبَرْتُہُ مُعَاوِیَۃَ بْنَ أَبِیْ سُفْیَانَ فَلَمْ یَرْضَ بِالَّذِیْ أَخْبَرْتُہُ حَتّٰی کَتَبَ إِلٰی أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْ اکْتُبِیْ إِلَیَّ بِہِ، فَکَتَبَتْ إِلَیْہِ بِہٖکِتَابًا۔ (مسنداحمد: ۲۵۰۷۳)
سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف پیغام بھیجا، جب وہ آئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے، جب ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس حالت میں دیکھا تو ہم ایک طرف جا کر جمع ہوگئیں، تاکہ آپ آزادی سے گفتگو کرسکیں، بات چیت ہوتی رہی، آخر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے کندھے پر ہاتھ ما ر کر فرمایا: عثمان! امید ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم کو ایک قمیص پہنائے گا، اگر منافقین تم سے اس قمیص کے اتارنے کا مطالبہ کریں تو مجھے ملنے تک اس قمیض کو نہ اتارنا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔ سیدنا نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: یہ حدیث اب تک کہاں رہی؟ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں بھول گئی تھی، اللہ کی قسم! مجھے یاد نہیں رہی تھی، سیدنا نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میںنے یہ حدیث سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بتلائی، لیکن انہیں میری خبر پر تسلی نہ ہوئی، یہاں تک کہ انہوں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی طرف لکھ بھیجا کہ وہ یہ حدیث لکھوا کر ارسال کردیں، پس سیدہ نے ایک تحریر ان کو بھجوادی، جس میں یہ حدیث لکھی ہوئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12240

۔ (۱۲۲۴۰)۔ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: بَلَغَنِی أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ: مَا اسْتَمَعْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَرَّۃً، فَإِنَّ عُثْمَانَ جَائَہُ فِی نَحْرِ الظَّہِیرَۃِ، فَظَنَنْتُ أَنَّہُ جَائَہُ فِی أَمْرِ النِّسَائِ، فَحَمَلَتْنِی الْغَیْرَۃُ عَلٰی أَنْ أَصْغَیْتُ إِلَیْہِ، فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ مُلْبِسُکَ قَمِیصًا، تُرِیدُکَ أُمَّتِی عَلٰی خَلْعِہِ فَلَا تَخْلَعْہُ۔)) فَلَمَّا رَأَیْتُ عُثْمَانَ یَبْذُلُ لَہُمْ مَا سَأَلُوہُ إِلَّا خَلْعَہُ، عَلِمْتُ أَنَّہُ مِنْ عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی عَہِدَ إِلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۴۸)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میںنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بے خبری میں صرف ایک بار آپ کی بات سننے کی کوشش کی اور سنی، تفصیل یہ ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دوپہر کے وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے سمجھا کہ شاید آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویوں کے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے، پس میری غیرت نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں نے اپنے کان اُدھر لگا دئیے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ تم کو ایک قمیص پہنائے گا، میری امت کے لوگ تم سے مطالبہ کریں گے کہ تم اس قمیض کو اتار دو، مگر تم نے وہ قمیص نہیں اتارنی۔ جب میں نے دیکھا کہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں کی ہربات کو پورا کرتے آرہے ہیں، البتہ اس خلافت سے دست بردار نہیں ہورہے تو میں جان گئی کہ یہ وہی بات اور عہد ہے، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12241

۔ (۱۲۲۴۱)۔ حَدَّثَنَا یُونُسُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْیَشْکُرِیُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمِّی تُحَدِّثُ أَنَّ أُمَّہَا انْطَلَقَتْ إِلَی الْبَیْتِ حَاجَّۃً، وَالْبَیْتُیَوْمَئِذٍ لَہُ بَابَانِ، قَالَتْ: فَلَمَّا قَضَیْتُ طَوَافِی، دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَۃَ، قَالَتْ: قُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ! إِنَّ بَعْضَ بَنِیکِ بَعَثَ یُقْرِئُکِ السَّلَامَ، وَإِنَّ النَّاسَ قَدْ أَکْثَرُوا فِی عُثْمَانَ، فَمَا تَقُولِینَ فِیہِ؟ قَالَتْ: لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ لَعَنَہُ، لَا أَحْسِبُہَا إِلَّا قَالَتْ ثَلَاثَ مِرَارٍ، لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُسْنِدٌ فَخِذَہُ إِلٰی عُثْمَانَ، وَإِنِّی لَأَمْسَحُ الْعَرَقَ عَنْ جَبِینِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَإِنَّ الْوَحْیَیَنْزِلُ عَلَیْہِ، وَلَقَدْ زَوَّجَہُ ابْنَتَیْہِ إِحْدَاہُمَا عَلٰی إِثْرِ الْأُخْرٰی، وَإِنَّہُ لَیَقُولُ: ((اُکْتُبْ عُثْمَانُ۔)) قَالَتْ: مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُنْزِلَ عَبْدًا مِنْ نَبِیِّہِ بِتِلْکَ الْمَنْزِلَۃِ إِلَّا عَبْدًا عَلَیْہِ کَرِیمًا۔ (مسند احمد: ۲۶۷۷۷)
عمر بن ابراہیم یشکری نے اپنی ماں سے بیان کیا اور انھوں نے اپنی ماں سے روایت کی ہے کہ وہ حج کے لیے بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئیں، ان دنوں بیت اللہ کے دو درواز ے ہوتے تھے، وہ کہتی ہیں: جب میں نے اپنا طواف مکمل کیا تو میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گئی اور میں نے کہا: آپ کا ایک بیٹا آپ کو سلام کہہ رہا تھا، یہ جو لوگ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں بہت سی باتیں کر رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، جن پر وہ لعنت کرے، یہ بات انہوں نے تین بار دوہرائی، میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ آپ کی ران مبارک سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ ملی ہوئی تھی، جبکہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی ٔ مبارک سے پسینہ صاف کر رہی تھی، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کا نزول ہورہا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیوں کا نکاح سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کیا تھا، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے تھے: عثمان! وحی لکھو۔ پھر انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے ہاں ایسا بلند مرتبہ اپنے کسی مقرب بندے کو ہی دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12242

۔ (۱۲۲۴۲)۔ عَنْ أَبِیْ حَبِیبَۃَ أَنَّہُ دَخَلَ الدَّارَ، وَعُثْمَانُ مَحْصُورٌ فِیہَا، وَأَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَیَسْتَأْذِنُ عُثْمَانَ فِی الْکَلَامِ فَأَذِنَ لَہُ، فَقَامَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّکُمْ تَلْقَوْنَ بَعْدِی فِتْنَۃً وَاخْتِلَافًا، أَوْ قَالَ: اخْتِلَافًا وَفِتْنَۃً۔)) فَقَالَ لَہُ قَائِلٌ مِنْ النَّاسِ: فَمَنْ لَنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((عَلَیْکُمْ بِالْأَمِینِ وَأَصْحَابِہِ۔)) وَہُوَ یُشِیرُ إِلٰی عُثْمَانَ بِذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۸۵۲۲)
ابو حبیبہ سے روایت ہے کہ وہ اس گھر میں داخل ہوئے، جس میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ محصور تھے اور اس نے سنا کہ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کچھ کہنے کی اجازت طلب کر رہے تھے، جب انہوں نے اجازت دی تو سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی اور پھر کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوسنا ہے، آپ فرما رہے تھے کہ تم میرے بعد فتنوں اور اختلافات کو پاؤ گے۔ کسی آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! اس وقت ہمارا کون ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس امانت دار اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑے رہنا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ فرماتے ہوئے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12243

۔ (۱۲۲۴۳)۔ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِتْنَۃً فَمَرَّ رَجُلٌ فَقَالَ: ((یُقْتَلُ فِیْہَا ہٰذَا الْمُقَنَّعُ یَوْمَئِذٍ مَظْلُوْمًا۔)) قَالَ: فَنَظَرْتُ فَاِذَا ھُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۵۹۵۳)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا، اس دوران ایک آدمی کا وہاں سے گزر ہوا، اس کو دیکھ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان دنوں یہ آدمی، جو کپڑا ڈھانپ کر جا رہا ہے، مظلومیت کی حالت میں قتل ہوگا۔ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب میں نے جا کر دیکھا تو وہ آدمی سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12244

۔ (۱۲۲۴۴)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ، عَنِ ابْنِ حَوَالَۃَ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ دَوْمَۃٍ، وَعِنْدَہُ کَاتِبٌ لَہُ یُمْلِی عَلَیْہِ، فَقَالَ: ((أَلَا أَکْتُبُکَ یَا ابْنَ حَوَالَۃَ؟)) قُلْتُ: لَا أَدْرِی مَا خَارَ اللّٰہُ لِی وَرَسُولُہُ، فَأَعْرَضَ عَنِّی، وَقَالَ إِسْمَاعِیلُ مَرَّۃً فِی الْأُولٰی: ((نَکْتُبُکَ؟ یَا ابْنَ حَوَالَۃَ!)) قُلْتُ: لَا أَدْرِی فِیمَیَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَأَعْرَضَ عَنِّی فَأَکَبَّ عَلٰی کَاتِبِہِ یُمْلِی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((أَنَکْتُبُکَ یَا ابْنَ حَوَالَۃَ؟)) قُلْتُ: لَا أَدْرِی مَا خَارَ اللّٰہُ لِی وَرَسُولُہُ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ((نَکْتُبُکَ یَا ابْنَ حَوَالَۃَ!)) قُلْتُ: لَا اَدْرِیْ فِیْمَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَأَعْرَضَ عَنِّی فَأَکَبَّ عَلٰی کَاتِبِہِ یُمْلِی عَلَیْہِ، قَالَ: فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِی الْکِتَابِ عُمَرُ فَقُلْتُ: إِنَّ عُمَرَ لَا یُکْتَبُ إِلَّا فِی خَیْرٍ، ثُمَّ قَالَ: ((أَنَکْتُبُکَ یَا ابْنَ حَوَالَۃَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: ((یَا ابْنَ حَوَالَۃَ! کَیْفَ تَفْعَلُ فِی فِتْنَۃٍ تَخْرُجُ فِی أَطْرَافِ الْأَرْضِ، کَأَنَّہَا صَیَاصِی بَقَرٍ۔)) قُلْتُ: لَا أَدْرِی مَا خَارَ اللّٰہُ لِی وَرَسُولُہُ، قَالَ: ((وَکَیْفَ تَفْعَلُ فِی أُخْرٰی، تَخْرُجُ بَعْدَہَا کَأَنَّ الْأُولٰی فِیہَا انْتِفَاجَۃُ أَرْنَبٍ؟)) قُلْتُ: لَا أَدْرِی مَا خَارَ اللّٰہُ لِی وَرَسُولُہُ، قَالَ: ((اتَّبِعُوا ہٰذَا۔)) قَالَ: وَرَجُلٌ مُقَفٍّ حِینَئِذٍ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَسَعَیْتُ وَأَخَذْتُ بِمَنْکِبَیْہِ، فَأَقْبَلْتُ بِوَجْہِہِ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: ہٰذَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: وَإِذَا ہُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۷۱۲۹)
سیدنا عبداللہ بن حوالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک ٹیلہ کے سائے میں تشریف فرماتھے، ایک کاتب آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے کچھ لکھوا رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن حوالہ! کیا میں تیرا نام بھی لکھوا دوں۔ میں نے کہا: میں اس بارے کچھ نہیں جانتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے میرے لیے کیا پسند ہے؟ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے اعراض کر لیا، اسماعیل راوی نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن حوالہ! کیا ہم تیرا اندراج بھی کر لیں؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نہیں جانتا کہ کس چیز میں اندراج کیا جا رہا ہے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے سے اعراض کر لیا، ایک روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن حوالہ! کیا ہم تیرا نام بھی لکھ لیں؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نہیں جانتا کہ کس چیز میں نام لکھے جا رہے ہیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے کاتب کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے املاء کرواتے رہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن حوالہ! کیا ہم تیرا نام بھی لکھ لیں؟ میں نے کہا: میں نہیں جانتا کہ اللہ اور اس کا رسول میرے لیے کیا پسند کر رہے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے اعراض کر لیا اور اپنے کاتب پر متوجہ ہو کر لکھواتے رہے۔ پھر جب میں نے دیکھا تو اس کتاب میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام لکھا ہوا تھا، میں نے دل میں کہا: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام تو خیر والے امور میں ہی لکھا جا سکتا ہے، اتنے میں پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابن حوالہ! کیا ہم تیرا نام بھی لکھ لیں؟ میں نے کہا: جی ہاں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن حوالہ! اس فتنے میں تو کیا کرے گا، جو گائے کے سینگوں کی طرح (بہت سخت اور مشکلات والا) ہو گا اور زمین کے اطراف و اکناف میں پھیل جائے گا؟ میں نے کہا: میں نہیں جانتا کہ اللہ اور اس کے رسول میرے لیے کس چیز کو ترجیح دیتے ہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا تو اس دوسرے فتنے میں کیا کرے گا، جو اس کے بعد رونما ہو گا اور (وہ اس قدر سخت ہو گا کہ پہلا تو اس کے مقابلے میں خرگوش کی چھلانگ (کی طرح بہت ہلکا اور مختصر) ہی نظر آئے گا؟ میں نے کہا: مجھے پتہ نہیں ہے کہ اللہ اور اس کا رسول میرے لیے کیا پسند کرتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس وقت اس شخص کی پیروی کرنا۔ اس وقت ایک آدمی جا رہا تھا اور اس کی پیٹھ ہماری طرف تھی، میں چلا اور دوڑا اور اس کے کندھوں کو پکڑ کر اس کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف متوجہ کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آدمی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ پس وہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12245

۔ (۱۲۲۴۵)۔ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ قَالَ: کُنَّا مُعَسْکِرِینَ مَعَ مُعَاوِیَۃَ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَامَ کَعْبُ بْنُ مُرَّۃَ الْبَہْزِیُّ فَقَالَ: لَوْلَا شَیْئٌ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قُمْتُ ہٰذَا الْمَقَامَ، فَلَمَّا سَمِعَ بِذِکْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْلَسَ النَّاسَ، فَقَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذْ مَرَّ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ عَلَیْہِ مُرَجِّلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَتَخْرُجَنَّ فِتْنَۃٌ مِنْ تَحْتِ قَدَمَیْ، أَوْ مِنْ بَیْنِ رِجْلَیْ ہٰذَا، ہَذَا یَوْمَئِذٍ وَمَنِ اتَّبَعَہُ عَلَی الْہُدٰی۔)) قَالَ: فَقَامَ ابْنُ حَوَالَۃَ الْأَزْدِیُّ مِنْ عِنْدِ الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: إِنَّکَ لَصَاحِبُ ہٰذَا، قَالَ: نَعَمْ۔ قَالَ: وَاللّٰہِ إِنِّی لَحَاضِرٌ ذٰلِکَ الْمَجْلِسَ، وَلَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِی فِی الْجَیْشِ مُصَدِّقًا، کُنْتُ أَوَّلَ مَنْ تَکَلَّمَ بِہِ۔ (مسند احمد: ۱۸۲۳۵)
جبیر بن نفیر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے بعد ہم سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں ایک لشکر میں تھے، سیدنا کعب بن مرہ بہزی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور انھوں نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک بات نہ سنی ہوتی تو میں اس جگہ کھڑا نہ ہوتا، سیدنامعاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا نام سنا تو لوگوں کو بٹھا دیا۔ انہوں نے کہا: ایک دفعہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھے کہ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا وہاں سے گزر ہوا، اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مستقبل میں اس آدمی کے قدموں سے ایک بہت بڑا فتنہ نمودار ہوگا، ان دنوںیہ شخص اور اس کے پیروکار ہدایت پر ہوں گے۔ یہ سن کر سیدنا ابن حوالہ ازدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ منبر کے قریب سے اٹھے اور کہا: کیا تم نے یہ حدیث خود سنی تھی؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ سیدنا ابن حوالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اس محفل میں میں بھی حاضر تھا، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس لشکر میں کوئی میری تصدیق کرے گا تو سب سے پہلے میں یہ بات بیان کرتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12246

۔ (۱۲۲۴۶)۔ عَنْ أَبِی قِلَابَۃَ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَامَ خُطَبَائُ بِإِیلِیَائَ، فَقَامَ مِنْ آخِرِہِمْ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَالُ لَہُ: مُرَّۃُ بْنُ کَعْبٍ، فَقَالَ: لَوْلَا حَدِیثٌ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قُمْتُ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ فِتْنَۃً، وَأَحْسَبُہُ قَالَ: فَقَرَّبَہَا، شَکَّ إِسْمَاعِیلُ، فَمَرَّ رَجُلٌ مُتَقَنِّعٌ، فَقَالَ: ((ہٰذَا وَأَصْحَابُہُ یَوْمَئِذٍ عَلَی الْحَقِّ۔)) فَانْطَلَقْتُ فَأَخَذْتُ بِمَنْکِبِہِ، وَأَقْبَلْتُ بِوَجْہِہِ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: ہٰذَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: فَإِذَا ہُوَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۸۲۲۷)
ابو قلابہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو ایلیاء میں کچھ خطباء کھڑے ہوئے اورانھوں نے کچھ بیان کیا، سب سے آخرمیں سیدنا مرہ بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نامی صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک حدیث نہ سنی ہوتی تو میں یہاں کھڑا نہ ہوتا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک روز ایک فتنے کا ذکر کیا تھا اور اس کو قریب کر کے بیان کیا، (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ فرمانا چاہ رہے تھے کہ وہ بہت جلد نمودار ہو جائے گا)، اتنے میں ایک آدمی کا وہاں سے گزر ہوا، اس نے کپڑا لپیٹا ہوا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فرمایا: ان دنوں یہ اورا س کے ساتھی حق پر ہوں گے۔ میں آگے کو چلا اور اس آدمی کے کندھے پکڑ کر اس کا چہرہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف موڑا اور کہا: اللہ کے رسول! آپ کی مراد یہ آدمی ہے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ پس وہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12247

۔ (۱۲۲۴۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ حَدَّثَنِی ہَرَمِیُّ بْنُ الْحَارِثِ وَأُسَامَۃُ بْنُ خُرَیْمٍ، وَکَانَا یُغَازِیَانِ فَحَدَّثَانِی حَدِیثًا، وَلَمْ یَشْعُرْ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا أَنَّ صَاحِبَہُ حَدَّثَنِیہِ عَنْ مُرَّۃَ الْبَہْزِیِّ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی طَرِیقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِینَۃِ، فَقَالَ: ((کَیْفَ تَصْنَعُونَ فِی فِتْنَۃٍ، تَثُورُ فِی أَقْطَارِ الْأَرْضِ، کَأَنَّہَا صَیَاصِی بَقَرٍ؟)) قَالُوْا: نَصْنَعُ مَاذَا یَا نَبِیَّ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((عَلَیْکُمْ ہٰذَا وَأَصْحَابَہُ، أَوِ اتَّبِعُوا ہٰذَا وَأَصْحَابَہُ۔)) قَالَ: فَأَسْرَعْتُ حَتّٰی عَیِِیْتُ فَلَحِقْتُ الرَّجُلَ، فَقُلْتُ: ہٰذَا؟ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((ہٰذَا۔)) فَإِذَا ہُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: ((ہٰذَا وَأَصْحَابُہُ۔)) وَذَکَرَہُ (مسند احمد: ۲۰۶۴۳)
عبداللہ بن شقیق سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہرمی بن حارث اور اسامہ بن خریم دونوں نے مجھے علیحدہ علیحدہ بیان کیا اور ان دونوں میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس نے مجھے بیان کیا ہے، وہ دونوں غزوہ میں شریک تھے، ان دونوں نے سیدنا مرہ بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بہزی سے بیان کیا اور انھوں نے کہا: ہم لوگ مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستے پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس فتنہ میں تمہارا کیا حال ہوگا، جو زمین کے اطراف و اکناف میں گائے کے سینگوں کی مانند پھیل جائے گا؟ صحابہ نے کہا: اللہ کے نبی! اس وقت ہم کیا کریں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس آدمی اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑنا۔ سیدنا مرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں تیزی سے اس آدمی کی طرف بڑھا، یہاں تک کہ میں تھک گیا، بہرحال میں نے اس کو پا لیا اور پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف مڑ کر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آدمی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، یہی ہے۔ وہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12248

۔ (۱۲۲۴۸)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ، حَدَّثَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ، أَنَّ عُبَیْدَ اللّٰہِ بْنَ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ، أَخْبَرَہُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ لَہُ: ابْنَ أَخِی! أَدْرَکْتَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَہُ: لَا، وَلٰکِنْ خَلَصَ إِلَیَّ مِنْ عِلْمِہِ وَالْیَقِینِ، مَا یَخْلُصُ إِلَی الْعَذْرَائِ فِی سِتْرِہَا، قَالَ: فَتَشَہَّدَ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ! فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، فَکُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ، وَآمَنَ بِمَا بُعِثَ بِہِ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ہَاجَرْتُ الْہِجْرَتَیْنِ، کَمَا قُلْتُ، وَنِلْتُ صِہْرَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَبَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَوَاللّٰہِ! مَا عَصَیْتُہُ وَلَا غَشَشْتُہُ حَتّٰی تَوَفَّاہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۴۸۰)
عبداللہ بن عدی بن خیار سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: بھتیجے! کیا تم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پایا ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، البتہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے علم اور یقین اس قدر صفائی کے ساتھ میرے پاس پہنچا ہے جیسے کسی پر دہ نشین خاتون کے پاس اس کے پردہ میں بھی کوئی چیز پہنچ جاتی ہے۔ پھر انہوں نے خطبہ دیا، شہادتین کا اقرار کیا اور پھر کہا: أَمَّا بَعْدُ! بے شک اللہ تعالیٰ نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا اورمیں ان لوگوں میں سے تھا، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قبول کیا اور میں اس دین پر ایمان لایا تھا، جس کے ساتھ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مبعوث کیا گیا تھا،پھر میں نے دو ہجرتیں بھی کی۔ (ایک ہجرتِ حبشہ اور دوسری ہجرت ِ مدینہ) اور مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دامادی کا شرف بھی حاصل ہوا اور میں نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیعت بھی کی، اللہ کی قسم! میں نے نہ کبھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نافرمانی کی اور نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے خیانت کی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12249

۔ (۱۲۲۴۹)۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللّٰہِ الْجَسْرِیِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَۃَ، وَعِنْدَہَا حَفْصَۃُ بِنْتُ عُمَرَ، فَقَالَتْ لِی: إِنَّ ہٰذِہِ حَفْصَۃُ زَوْجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَیْہَا فَقَالَتْ: أَنْشُدُکِ اللّٰہَ أَنْ تُصَدِّقِینِی بِکَذِبٍ قُلْتُہُ، أَوْ تُکَذِّبِینِی بِصِدْقٍ قُلْتُہُ، تَعْلَمِینَ أَنِّی کُنْتُ أَنَا وَأَنْتِ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأُغْمِیَ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ لَکِ: أَتَرَیْنَہُ قَدْ قُبِضَ؟ قُلْتِ: لَا أَدْرِی، فَأَفَاقَ فَقَالَ: ((افْتَحُوا لَہُ الْبَابَ۔)) ثُمَّ أُغْمِیَ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ لَکِ: أَتَرَیْنَہُ قَدْ قُبِضَ؟ قُلْتِ: لَا أَدْرِی، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ: ((افْتَحُوا لَہُ الْبَابَ۔)) فَقُلْتُ لَکِ: أَبِی أَوْ أَبُوکِ، قُلْتِ: لَا أَدْرِی، فَفَتَحْنَا الْبَابَ فَإِذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَلَمَّا أَنْ رَآہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((ادْنُہْ۔)) فَأَکَبَّ عَلَیْہِ فَسَارَّہُ بِشَیْئٍ لَا أَدْرِی أَنَا وَأَنْتِ مَا ہُوَ؟ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ، فَقَالَ: ((أَفَہِمْتَ مَا قُلْتُ لَکَ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((ادْنُہْ۔)) فَأَکَبَّ عَلَیْہِ أُخْرٰی مِثْلَہَا فَسَارَّہُ بِشَیْئٍ لَا نَدْرِی مَا ہُوَ؟ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ: ((أَفَہِمْتَ مَا قُلْتُ لَکَ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((ادْنُہُ۔)) فَأَکَبَّ عَلَیْہِ إِکْبَابًا شَدِیدًا فَسَارَّہُ بِشَیْئٍ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ، فَقَالَ: ((أَفَہِمْتَ مَا قُلْتُ لَکَ؟)) قَالَ: نَعَمْ، سَمِعَتْہُ أُذُنَیَّ وَوَعَاہُ قَلْبِی، فَقَالَ لَہُ: ((اخْرُجْ۔)) قَالَ: قَالَتْ حَفْصَۃُ: اللَّہُمَّ نَعَمْ، أَوْ قَالَتْ: اللَّہُمَّ صِدْقٌ۔ (مسند احمد: ۲۶۷۹۹)
ابو عبد االلہ جسری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہا ں گیا، ان کے ہاں سیدہ حفصہ بنت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی موجود تھیں، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بتلایا کہ یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیوی سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ہیں، پھر وہ ان کی طرف متوجہ ہوئیں اور کہا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ اگر میں جھوٹ کہوں تو آپ نے میری تصدیق نہیں کرنی اور اگر میں سچ کہوں تو آپ نے میری تکذیب نہیں کرنی، کیا آپ جانتی ہیں کہ میں اور تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر غشی اور بے ہوشی طاری ہوگئی، میں نے تم سے کہا: تمہارا کیا خیال ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح پرواز تو نہیں کر گئی؟ تم نے کہا تھا: مجھے تو اس بارے کوئی علم نہیں ہے، اتنے میں کچھ دیر کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کچھ افاقہ ہوگیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو۔ پھر آپ پر غشی طاری ہوگئی، میں نے تم سے کہا: دیکھیں، کہیں آپ کی روح تو پرواز نہیں کر گئی؟ تم نے کہا تھا: مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو افاقہ ہوگیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ میرے والد مراد ہیں یا تمہارے والد؟ تم نے کہا تھا: میں نہیں جانتی۔ پھر ہم نے دروازہ کھول دیا تو کیا دیکھا کہ وہ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دیکھا تو فرمایا: قریب ہوجاؤ۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کے اوپر جھک گئے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے ساتھ راز دارانہ بات کی، میں اور تم نہیں جاتی تھیں کہ وہ کیا بات تھی، پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنا سر اوپر اٹھالیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے جو کچھ کہا ہے، تم نے سمجھ لیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ فرمایا: پھر قریب ہو جاؤ۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دوبارہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوپر اسی طرح جھک گئے، جیسے پہلی دفعہ کیاتھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے ساتھ چپکے سے کوئی بات کی، جس کے متعلق ہم نہیں جاتی کہ وہ کیا بات تھی۔ پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنا سر اٹھایا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے جو بات کہی ہے، تونے اچھی طرح سمجھ لی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیسری مرتبہ پھر فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پہلے سے بھی زیادہ جھک گئے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر رازداری اور چپکے سے ان کے ساتھ کوئی بات کی، اس کے بعد انہوں نے اپنا سر اٹھالیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے جو کچھ کہاہے، کیاتم نے خوب سمجھ لیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، میرے کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے سمجھ لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: باہرچلے جاؤ۔ یہ سب کچھ سن کر سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جی ہاں، یہ سب کچھ سچ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12250

۔ (۱۲۲۵۰)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((ادْعُوا لِی بَعْضَ أَصْحَابِی۔)) قُلْتُ: أَبُو بَکْرٍ، قَالَ: ((لَا۔)) قُلْتُ: عُمَرُ، قَالَ: ((لَا۔)) قُلْتُ: ابْنُ عَمِّکَ عَلِیٌّ، قَالَ: ((لَا۔)) قَالَتْ: قُلْتُ: عُثْمَانُ، قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَلَمَّا جَائَ قَالَ: تَنَحَّیْ جَعَلَ یُسَارُّہُ وَلَوْنُ عُثْمَانَ یَتَغَیَّرُ فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الدَّارِ وَحُصِرَ فِیہَا قُلْنَا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! أَلَا تُقَاتِلُ؟ قَالَ: لَا، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَہِدَ إِلَیَّ عَہْدًا، وَإِنِّی صَابِرٌ نَفْسِی عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۴۷۵۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ایک صحابی کو بلاؤ۔ میںنے کہا: سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: آپ کے چچا زاد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ وہ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم ذرا ایک طرف ہوجاؤ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ چپکے سے باتیں کرنا شروع کیں، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا رنگ فق ہونے لگا، پھر جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنے گھر میں محصور کر دیا گیا تو ہم نے کہا: اے امیر المومنین! آپ ان باغیوں کے ساتھ لڑتے کیوں نہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، میں لڑائی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے اس بات کا عہد لیا تھا اور میں ان حالات پر اپنے آپ کو صابر ثابت کرنے والا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12251

۔ (۱۲۲۵۱)۔ عَنْ سَالِمٍ اَبِیْ جَمِیْعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ: وَذَکَرَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَشِدَّۃَ حَیَائِہِ، فَقَالَ: إِنْ کَانَ لَیَکُونُ فِی الْبَیْتِ، وَالْبَابُ عَلَیْہِ مُغْلَقٌ، فَمَا یَضَعُ عَنْہُ الثَّوْبَ، لِیُفِیضَ عَلَیْہِ الْمَائَ،یَمْنَعُہُ الْحَیَائُ أَنْ یُقِیمَ صُلْبَہُ۔ (مسند احمد: ۵۴۳)
ابو جمیع سالم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:حسن نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے شدت حیا کا تذکرہ کیا اور کہا:وہ گھر میں ہوتے اور دروازہ بند ہوتا، تب بھی اپنے اوپر پانی ڈالنے کے لیے کپڑا نہیں اتارتے تھے اور حیاء کی وجہ سے وہ اپنی پشت کو سیدھا نہیں کر پاتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12252

۔ (۱۲۲۵۲)۔ عَنْ شَیْخٍ مِنْ بَجِیلَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِی أَوْفٰییَقُولُ: اسْتَأْذَنَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَہُ جَارِیَۃٌ تَضْرِبُ بِالدُّفِّ فَدَخَلَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فَدَخَلَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فَأَمْسَکَتْ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَیِیٌّ۔)) (مسند احمد: ۱۹۳۲۳)
عبداللہ بن ابی اوفی ٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں ایک بچی دف بجا رہی تھی، اتنے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، پس وہ اندر آ گئے، ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی، وہ بھی داخل ہو گئے، ان کے بعد سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی تو وہ لڑکی دف بجانے سے رک گئی، یہ دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عثمان باحیاآدمی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12253

۔ (۱۲۲۵۳)۔ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا لَیْثٌ، حَدَّثَنِی عُقَیْلٌ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ أَخْبَرَہُ أَنَّ عَائِشَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَعُثْمَانَ حَدَّثَاہُ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اسْتَأْذَنَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَہُوَ مُضْطَجِعٌ عَلٰی فِرَاشِہِ، لَابِسٌ مِرْطَ عَائِشَۃَ، فَأَذِنَ لِأَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَہُوَ کَذٰلِکَ، فَقَضٰی إِلَیْہِ حَاجَتَہُ ثُمَّ انْصَرَفَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَذِنَ لَہُ وَہُوَ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ فَقَضٰی إِلَیْہِ حَاجَتَہُ ثُمَّ انْصَرَفَ، قَالَ عُثْمَانُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُ عَلَیْہِ فَجَلَسَ، وَقَالَ لِعَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : ((اجْمَعِی عَلَیْکِ ثِیَابَکِ۔)) فَقَضٰی إِلَیَّ حَاجَتِی ثُمَّ انْصَرَفْتُ قَالَتْ عَائِشَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا لِی لَمْ أَرَکَ فَزِعْتَ لِأَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ کَمَا فَزِعْتَ لِعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَیِیٌّ، وَإِنِّی خَشِیتُ إِنْ أَذِنْتُ لَہُ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ، أَنْ لَا یَبْلُغَ إِلَیَّ فِی حَاجَتِہِ۔)) و قَالَ اللَّیْثُ: وَقَالَ جَمَاعَۃُ النَّاسِ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا: ((أَلَا أَسْتَحْیِی مِمَّنْ یَسْتَحْیِی مِنْہُ الْمَلَائِکَۃُ))۔ (مسند احمد: ۲۵۷۳۱)
سیدنا سعید بن ابی العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی چادر اوڑھے اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور اسی حالت میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اندر آنے کی اجازت دے دی اور ان کی ضرورت پوری کردی، ان کے چلے جانے کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، انہیں اجازت دے دی گئی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی حالت میں رہے، ان کی ضرورت پوری کردی اور وہ چلے گئے، پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے اور انہوں نے حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، اس بار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سید ھے ہوکر بیٹھ گئے اور سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے فرمایا: تم بھی اپنے کپڑے اچھی طرح اپنے اوپر سمیٹ لو، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری ضرورت پوری کی اور میں چلا گیا، یہ فرق دیکھ کر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے کہ آپ نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آمد پر وہ اہتمام نہیں کیا، جو عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آمد پر کیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ انتہائی شرم و حیا والے آدمی ہیں، اگر میں ان کو اسی حالت میں آنے کی اجازت دے دیتا تو مجھے اندیشہ تھا کہ وہ اپنی آمد کا مقصد بیان نہیں کر سکیں گے۔راوی حدیث لیث کہتے ہیں: اہل علم کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے فرمایا: کیا میں ایسے آدمی سے حیا نہ کروں کہ جس سے اللہ کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12254

۔ (۱۲۲۵۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ،أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ جَالِسًا کَاشِفًا عَنْ فَخِذِہِ، فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَکْرٍ فَأَذِنَ لَہُ وَہُوَ عَلٰی حَالِہِ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَہُ وَہُوَ عَلٰی حَالِہِ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ فَأَرْخٰی عَلَیْہِ ثِیَابَہُ، فَلَمَّا قَامُوْا قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اسْتَأْذَنَ عَلَیْکَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فَأَذِنْتَ لَہُمَا وَأَنْتَ عَلٰی حَالِکَ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ أَرْخَیْتَعَلَیْکَ ثِیَابَکَ، فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! أَلَا أَسْتَحْیِی مِنْ رَجُلٍ وَاللّٰہِ إِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَسْتَحْیِی مِنْہُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۳۴)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف فرما تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران سے کپڑا ہٹا ہوا تھا، اتنے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، انہیں اجازت دے دی گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی طرح بیٹھے رہے، ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی، انہیں بھی آنے کی اجازت دے دی گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی طرح بیٹھے رہے، ان کے بعد جب عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے اپنے اوپر کپڑے کر لیے۔ جب سب لوگ چلے گے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی اور آپ نے ان حضرات کو آنے کی اجازت دے دی، جبکہ آپ اسی حالت میں ہی تشریف فرما رہے، لیکن جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ نے اپنے اوپر کپڑے کر لیے، اس فرق کی کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! کیا میںاس آدمی سے حیا نہ کروں، کہ اللہ کی قسم! جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12255

۔ (۱۲۲۵۵)۔ عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ عُمَرَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ، فَوَضَعَ ثَوْبَہُ بَیْنَ فَخِذَیْہِ، فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ یَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ہَیْئَتِہِ، ثُمَّ جَائَ عُمَرُ یَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَہُ وَرَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ہَیْئَتِہِ، وَجَائَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِہِ فَأَذِنَ لَہُمْ، وَجَائَ عَلِیٌّیَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَہُ وَرَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ہَیْئَتِہِ، ثُمَّ جَائَ عُثْمَانُ فَاسْتَأْذَنَ فَتَجَلَّلَ ثَوْبَہُ ثُمَّ أَذِنَ لَہُ، فَتَحَدَّثُوْا سَاعَۃً ثُمَّ خَرَجُوْا، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! دَخَلَ عَلَیْکَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِیٌّ وَنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِکَ وَأَنْتَ عَلٰی ہَیْئَتِکَ لَمْ تَتَحَرَّکْ، فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ تَجَلَّلْتَ ثَوْبَکَ، فَقَالَ: ((أَلَا أَسْتَحْیِی مِمَّنْ تَسْتَحْیِی مِنْہُ الْمَلَائِکَۃُ۔)) (مسند احمد: ۲۷۰۰۰)
سیدہ حفصہ بنت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک روز میرے پاس تشریف لائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا کپڑا پنی رانوں کے درمیان کرلیا،سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے اور انہوں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اجازت دے دی اور اپنی اسی حالت میںبیٹھے رہے، ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں بھی اندر آنے کی اجازت دے دی اور ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی اسی حالت میں بیٹھے رہے، پھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی، انہیں بھی اجازت دی گئی اور اللہ کے رسول اپنی اسی حالت میں بیٹھے رہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کچھ اور صحابہ آئے اور انھوں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بھی اجازت دے دی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی حالت پر تشریف فرما رہے، ان کے بعد جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے اور انہوںنے اندر آنے کی اجازت طلب کی، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے کپڑوں کو سنبھال کر ترتیب دی اور اس کے بعد سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اندر آنے کی اجازت دی، یہ لوگ کچھ دیر باتیں کرتے رہے، اس کے بعد جب یہ لوگ اٹھ کر چلے گئے تو میں عائشہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ کی خدمت میں سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر ، سیدنا علی اور دوسرے صحابہ تشریف لائے ، لیکن آپ نے کوئی حرکت نہ کی بلکہ اپنی اسی حالت میں بیٹھے رہے، لیکن جب جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تو آپ نے کپڑوں کو سمیٹ کر ترتیب دے دی، اس فرق کی کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں ایسے شخص کا حیا نہ کروں کہ جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12256

۔ (۱۲۲۵۶)۔ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِی الْحَسَنِ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا أَنَا بِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مُتَّکِیئٌ عَلٰی رِدَائِہِ، فَأَتَاہُ سَقَّائَ انِ یَخْتَصِمَانِ إِلَیْہِ، فَقَضٰی بَیْنَہُمَا، ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَنَظَرْتُ إِلَیْہِ فَإِذَا رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْہِ بِوَجْنَتِہِ نَکَتَاتُ جُدَرِیٍّ، وَإِذَا شَعْرُہُ قَدْ کَسَا ذِرَاعَیْہِِِِ۔ (مسند احمد: ۵۳۷)
حسن بن ابی حسن سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی چادر پر ٹیک لگا کر بیٹھے تھے، اسی دوران دو آدمی جو لوگوں کو پانی پلانے کا کام کرتے، اپنے ایک جھگڑے کا فیصلہ کرانے کے لیے ان کی خدمت میں آئے، آپ نے ان کے درمیان فیصلہ کردیا، اس کے بعد میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو بغور دیکھا، میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ خوبصورت چہرے والے آدمی تھے اور آپ کے رخسار پر چیچک کے کچھ داغ تھے اور آپ کے بالوں نے آپ کے بازوؤں کو ڈھانپ رکھا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12257

۔ (۱۲۲۵۷)۔ وَعَنْ اُمِّ مُوْسٰی قَالَتْ: کَانَ عُثْمَانُ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) مِنْ اَجْمَلِ النَّاسِ۔ (مسند احمد: ۵۲۲)
ام موسیٰ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں میں بہت خوبصورت آدمی تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12258

۔ (۱۲۲۵۸)۔ وَعَنْ اُمِّ غُرَابٍ عَنْ بُنَانَۃَ قَالَتْ: مَا خَضبَ عُثْمَانُ قَطُّ۔ (مسند احمد: ۵۳۸)
بنانہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے بالوں کو کبھی رنگا نہیں تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12259

۔ (۱۲۲۵۹)۔ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ زَاہِرٍ أَبَا رُوَاعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَخْطُبُ فَقَالَ: إِنَّا وَاللّٰہِ! قَدْ صَحِبْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی السَّفَرِ وَالْحَضَرِ، وَکَانَ یَعُودُ مَرْضَانَا، وَیَتْبَعُ جَنَائِزَنَا، وَیَغْزُو مَعَنَا، وَیُوَاسِینَا بِالْقَلِیلِ وَالْکَثِیرِ، وَإِنَّ نَاسًا یُعْلِمُونِی بِہِ، عَسٰی أَنْ لَا یَکُونَ أَحَدُہُمْ رَآہُ قَطُّ۔ (مسند احمد: ۵۰۴)
عباد بن زاہرسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ نے کہا:’ اللہ کی قسم! ہمیں سفر وحضر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے مریضوں کی عیادت کرتے تھے، ہمارے جنازوں میں شرکت کرتے تھے، ہمارے ساتھ مل کر لڑائی کرتے تھے اور کوئی چیز تھوڑی ہوتی یا زیادہ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں اس میں شریک کیا کرتے تھے۔ اب کچھ لوگ مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں کچھ باتیں سکھاتے ہیں حالانکہ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کسی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تک نہ ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12260

۔ (۱۲۲۶۰)۔ وَعَنِ الْحَسَنِ قَالَ: شَہِدْتُ عُثْمَانَ یَاْمُرُفِیْ خُطْبَتِہٖبِقَتْلِالْکِلَابِوَذَبْحِالْحَمَامِ۔ (مسنداحمد: ۵۲۱)
حسن سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس موجود تھا، آپ نے اپنے خطبہ میں کتوں کو قتل کرنے اور کبوتروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12261

۔ (۱۲۲۶۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَوْھَبٍ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ مِنْ مِصْرَ یَحُجُّ الْبَیْتَ، قَالَ: فَرَاٰی قَوْمًا جُلُوْسًا، فَقَالَ: مَنْ ھٰوُلائِ الْقَوْمُ؟ فَقَالَ مَنْ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمُ؟ فَقَالُوْا: قُرَیْشٌ، قَالَ: فَمَنِ الشَّیْخُ فِیہِمْ؟ قَالُوْا: عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: یَا ابْنَ عُمَرَ؟ إِنِّی سَائِلُکَ عَنْ شَیْئٍ أَوْ أَنْشُدُکَ أَوْ نَشَدْتُکَ بِحُرْمَۃِ ہٰذَا الْبَیْتِ، أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ یَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَتَعْلَمُ أَنَّہُ غَابَ عَنْ بَدْرٍ فَلَمْ یَشْہَدْہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَتَعْلَمُ أَنَّہُ تَغَیَّبَ عَنْ بَیْعَۃِ الرِّضْوَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَکَبَّرَ الْمِصْرِیُّ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: تَعَالَ أُبَیِّنْ لَکَ مَا سَأَلْتَنِی عَنْہُ، أَمَّا فِرَارُہُ یَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْہَدُ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ عَفَا عَنْہُ وَغَفَرَ لَہُ، وَأَمَّا تَغَیُّبُہُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّہُ کَانَتْ تَحْتَہُ ابْنَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِنَّہَا مَرِضَتْ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَکَ أَجْرُ رَجُلٍ شَہِدَ بَدْرًا وَسَہْمُہُ۔)) وَأَمَّا تَغَیُّبُہُ عَنْ بَیْعَۃِ الرِّضْوَانِ فَلَوْ کَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَہُ، بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ، وَکَانَتْ بَیْعَۃُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَہَبَ عُثْمَانُ، فَضَرَبَ بِہَا یَدَہُ عَلٰییَدِہِ وَقَالَ: ((ہَذِہِ لِعُثْمَانَ۔)) قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اذْہَبْ بِہٰذَا الْآنَ مَعَکَ۔ (مسند احمد: ۵۷۷۲)
عبداللہ بن موہب سے مروی ہے کہ ایک آدمی مصر سے بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے آیا، اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا اور ان کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ قریشی ہیں، اس نے پوچھا کہ ان میںسب سے بزرگ شخص کا کیا نام ہے؟ لوگوں نے بتلایا کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ اس آدمی نے کہا: اے عبداللہ بن عمر! میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں، یا اس نے یوں کہا میں آپ کو بیت اللہ کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ جانتے ہیں کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غزوۂ احد کے دن میدان جنگ سے فرار ہوگئے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، اس نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غزوہ ٔ بدرمیں شریک نہیں ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اس نے مزید پوچھا: کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیعت ِ رضوان میں بھی شامل نہیں تھے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔یہ باتیں سن کر اس مصری نے خوشی کے طور پر اللہ اکبر کہا، اس کے اس انداز کو دیکھ کر سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ادھر آؤ ذرا،تونے مجھ سے جو باتیں پوچھی ہیں، میں تجھ پر ان کی حقیقت واضح کرتا ہوں، جہاں تک احد کے دن ان کے فرار ہونے کی بات ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ نے ان کو معاف کر دیا ہے، جہاں تک غزوۂ بدر میں شامل نہ ہونے کی بات ہے تو تجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی ان کے نکاح میں تھیں، ان دنوںوہ مریض تھیں،تو اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا تھا: تمہیں شرکائے بدر کے برابر ثواب اور حصہ ملے گا۔ باقی رہی ان کے بیعت رضوان سے غیر حاضر ی تو تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت وادی ٔ مکہ میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بڑھ کر اگر کوئی دوسر ا آدمی معتبر ہوتا تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی کو اہل مکہ کی طرف نمائندہ بنا کر روانہ فرماتے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر مکہ والوں کی طرف بھیجا تھا او ربیعت رضوان سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے جانے کے بعد ہوئی تھی، یہ وضاحت کر کے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنا ہاتھ اس آدمی کے ہاتھ پر مارا اور کہا: یہ ہے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر اعتراضات کی حقیقت، اب اس کو اپنے ساتھ لے اور چلا جا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12262

۔ (۱۲۲۶۲)۔ عَنْ شَقِیقٍ، قَالَ: لَقِیَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَۃَ، فَقَالَ لَہُ الْوَلِیدُ: مَا لِی أَرَاکَ قَدْ جَفَوْتَ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ: أَبْلِغْہُ أَنِّی لَمْ أَفِرَّ یَوْمَ عَیْنَیْنِ، قَالَ عَاصِمٌ: یَقُولُ: یَوْمَ أُحُدٍ، وَلَمْ أَتَخَلَّفْ یَوْمَ بَدْرٍ، وَلَمْ أَتْرُکْ سُنَّۃَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ فَخَبَّرَ ذٰلِکَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: فَقَالَ: أَمَّا قَوْلُہُ إِنِّی لَمْ أَفِرَّ یَوْمَ عَیْنَیْنَ، فَکَیْفَیُعَیِّرُنِی بِذَنْبٍ وَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُ؟ فَقَالَ: {إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ} وَأَمَّا قَوْلُہُ: إِنِّی تَخَلَّفْتُ یَوْمَ بَدْرٍ، فَإِنِّی کُنْتُ أُمَرِّضُ رُقَیَّۃَ بِنْتَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ مَاتَتْ، وَقَدْ ضَرَبَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَہْمِی، وَمَنْ ضَرَبَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَہْمِہِ فَقَدْ شَہِدَ، وَأَمَّا قَوْلُہُ: إِنِّی لَمْ أَتْرُکْ سُنَّۃَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَإِنِّی لَا أُطِیقُہَا وَلَا ہُوَ فَأْتِہِ فَحَدِّثْہُ بِذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۴۹۰)
شقیق سے مروی ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ولید بن عقبہ سے ملاقات ہوئی، ولید نے ان سے کہا: کیا بات ہے کہ آپ امیر المومنین سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ بے مروتی کا سلوک کرتے ہیں، سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میری یہ بات ان تک پہنچا دو کہ میں یوم عینین یعنی احد کے دن فرار نہیںہوا تھا اور نہ میں غزوۂ بدر میں پیچھے رہا اور نہ میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے طریقے کو ترک کیا ہے۔ اس کے بعد ولید، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے اور ان سے ان امور کا ذکر کیا، انہوں نے جواباً کہا: ان کا کہنا کہ میں(ابن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) عینین یعنی احد کے دن فرار نہیں ہوا تھا، سوال یہ ہے کہ وہ مجھے ایسی کوتاہی پر کیوں عار دلاتے ہیں،جس کو اللہ تعالیٰ معاف کر چکا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ} … بے شک وہ لوگ جو تم میں سے اس دن پیٹھ پھیر گئے جب دو جماعتیں بھڑیں، شیطان نے انھیں ان بعض اعمال ہی کی وجہ سے پھسلایا جو انھوں نے کیے تھے اور بلاشبہ یقینا اللہ نے انھیں معاف کر دیا۔ (سورۂ آل عمران: ۱۵۵) ان کا یہ کہنا کہ وہ غزوہ ٔ بدر سے پیچھے نہیں رہے تھے تو میں تو سیدہ رقیہ بنت ِ رسول ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھا اور انہیں دنوں وہ انتقال کر گئی تھیں اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اسی قدر حصہ عطافرمایا تھا، جس قدر شرکائے بدر کو دیاتھا، اب جس کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حصہ دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حاضر سمجھا گیا اور ان کایہ کہنا کہ انھوں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے طریقے کو ترک نہیں کیا، تو گزارش یہ ہے کہ میں اس کی استطاعت1 نہیں رکھتا، تم جا کر یہ باتیں ان سے بیان کردینا۔ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے طریقہ کی طاقت نہیں، کا مطلب یہ ہے عمر فاروق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دنیا سے بہت زیادہ بے رغبت، آخرت کی بہت زیادہ فکر کرنے والے، رعایا پر بہت زیادہ مشفق، ان کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے، مظلوم کو انصاف دلانے والے، خوف زدہ کو امن مہیا کرنے والے، دیندار اور اہل فضل کے لیے نہایت نرم اور طلم و ستم کرنے والوں پر نہایت سخت تھے۔ عثمان غنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنا چاہتے ہیں کہ اتنی اعلیٰ صفات اختیار کرنے کی میرے اندر طاقت نہیں ہے۔ [دیکھیں مسند محقق، جلد:۱، ص: ۵۲۶] (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12263

۔ (۱۲۲۶۳)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ: جَائَ إِلٰی عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ فَشَکَوْا سُعَاۃَ عُثْمَانَ، قَالَ: فَقَالَ لِی أَبِی: اذْہَبْ بِہٰذَا الْکِتَابِ إِلٰی عُثْمَانَ، فَقُلْ لَہُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ شَکَوْا سُعَاتَکَ، وَہٰذَا أَمْرُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصَّدَقَۃِ، فَمُرْہُمْ فَلْیَأْخُذُوا بِہِ، قَالَ: فَأَتَیْتُ عُثْمَانَ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہُ، قَالَ: فَلَوْ کَانَ ذَاکِرًا عُثْمَانَ بِشَیْئٍ لَذَکَرَہُ یَوْمَئِذٍیَعْنِی بِسُوئٍ۔ (مسند احمد: ۱۱۹۶)
محمد بن علی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: کچھ لوگ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے عاملوں کی شکایت کی، میرے والد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: تم یہ تحریر لے کر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں جاؤ اور ان سے کہو کہ لوگ آپ کے عاملوں کی شکایتیں کر رہے ہیں، یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا صدقات کے بارے میں حکم ہے، انہیں حکم دیجئے کہ وہ اس کے مطابق صدقات وصول کریں، پس میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گیا اور ان سے اس بات کا ذکر کیا، اگر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں کچھ برا اظہار خیال کرنا ہوتا تو اسی دن کر دیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12264

۔ (۱۲۲۶۴)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ الطَّائِیِّ، عَنْ أَبِی ثَوْرٍ قَالَ: بَعَثَ عُثْمَانُ یَوْمَ الْجَرَعَۃِ بِسَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: فَخَرَجُوا إِلَیْہِ فَرَدُّوہُ، قَالَ: فَکُنْتُ قَاعِدًا مَعَ أَبِی مَسْعُودٍ وَحُذَیْفَۃَ، فَقَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: مَا کُنْتُ أَرٰی أَنْ یَرْجِعَ لَمْ یُہْرِقْ فِیہِ دَمًا، قَالَ: فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: وَلٰکِنْ قَدْ عَلِمْتُ لَتَرْجِعَنَّ عَلٰی عَقِبَیْھَا لَمْ یُہْرِقْ فِیہَا مَحْجَمَۃَ دَمٍ، وَمَا عَلِمْتُ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا إِلَّا عَلِمْتُہُ وَمُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ حَتّٰی إِنَّ الرَّجُلَ لَیُصْبِحُ مُؤْمِنًا ثُمَّ یُمْسِی مَا مَعَہُ مِنْہُ شَیْئٌ، وَیُمْسِی مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ مَا مَعَہُ مِنْہُ شَیْئٌ،یُقَاتِلُ فِئَتَہُ الْیَوْمَ، وَیَقْتُلُہُ اللّٰہُ غَدًا،یَنْکُسُ قَلْبُہُ تَعْلُوہُ اسْتُہُ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَسْفَلُہُ، قَالَ: اسْتُہُ۔ (مسند احمد: ۲۳۷۳۸)
ابو ثور سے مروی ہے کہ جرعہ کے روز سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا سعید بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو روانہ کیا، لیکن لوگ ان کی طرف آئے اور انہیں واپس کر دیا، میں (ابو ثور) سیدنا ابو مسعود واور سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، سیدنا ابو مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نہیں سمجھتا تھا کہ وہ بغیر خون بہائے یوں ہی واپس لوٹ آئے گا، ان کی بات سن کر سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لیکن میں تو اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ لشکر بغیر خون خرابہ کیے یوں ہی اپنی ایڑیوں پر واپس آجائے گا، میں تو یہ بات اس وقت سے جانتا ہوں، جب محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حیات تھے، بلکہ یہاں تک حالات پیدا ہوجائیں گے کہ ایک آدمی ایمان کی حالت میں صبح کر ے گا، لیکن جب شام ہوگی تو وہ ایمان سے فارغ ہو چکا ہو گا اور ایک آدمی ایمان کی حالت میں شام کر ے گا، اور صبح تک اس کے پاس ایمان نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، ایک آدمی اپنے ہی گروہ سے لڑائی کرے گا اور اگلے دن اللہ تعالیٰ اسے قتل کر دے گا اور اس کے دل کو الٹ دے گا اور اس کی دبر اس کے اوپر ہوگی۔ میں نے کہا: نچلی والی طرف اوپر ہو گی؟ انھوں نے کہا: دبر کہہ رہا ہوں، دبر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12265

۔ (۱۲۲۶۵)۔ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ: قَالَ جُنْدُبٌ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْجَرَعَۃِ، وَثَمَّ رَجُلٌ قَالَ: فَقَالَ: وَاللّٰہِ! لَیُہْرَاقَنَّ الْیَوْمَ دِمَائٌ، قَالَ: قَالَ الرَّجُلُ: کَلَّا، وَاللّٰہِ! قَالَ: ہَلَّا قُلْتَ بَلٰی وَاللّٰہِ! قَالَ: کَلَّا وَاللّٰہِ! إِنَّہُ لَحَدِیثُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنِیہِ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُرَاکَ جَلِیسَ سَوْئٍ مُنْذُ الْیَوْمِ تَسْمَعُنِی أَحْلِفُ، وَقَدْ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَنْہَانِی، قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ: مَالِی وَلِلْغَضَبِ، قَالَ: فَتَرَکْتُ الْغَضَبَ وَأَقْبَلْتُ أَسْأَلُہُ، قَالَ: وَإِذَا الرَّجُلُ حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۲۳۷۸۰)
جندب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جرعہ والے دن وہاں ایک آدمی تھا، اس نے کہا: اللہ کی قسم! آج ضرور ضرور کشت و خون ہوگا، اس کی بات سن کر ایک اور آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! ہر گز نہیں، پہلا شخص کہنے لگا: تم نے یوں کیوں نہیں کہا کہ اللہ کی قسم ہاں ضرورت کشت و خون ہوگا؟ دوسرے نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہر گز نہیں ہوگا، یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک حدیث ہے، جو آپ نے مجھ سے خود بیان کی تھی، میں نے کہا: آج آپ میرے برے ہم نشین ہیں۔ میں ایک بات کی قسم اٹھا رہا ہوں اور آپ مجھے سن بھی رہے ہیں، جبکہ اس بارے میں تونے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث بھی سنی ہوئی ہے اور مجھے آپ روک بھی نہیں رہے۔ پھر میں نے سوچا کہ اس میں غصہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، چنانچہ میں نے ناراضگی دور کر دی اور میں اس ساتھی کی طرف لپکا اور اس سے سوال کرنے لگ گیا۔ پھر پتا چلا کہ وہ آدمی حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12266

۔ (۱۲۲۶۶)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ غَنَمٍ، عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنْتُ اَخْدِمُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّٔ آتِی الْمَسْجِدَ، اِذَا أَنَا فَرَغْتُ مِنْ عَمَلِی فَأَضْطَجِعُ فِیہِ، فَأَتَانِی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا وَأَنَا مُضْطَجِعٌ فَغَمَزَنِی بِرِجْلِہِ فَاسْتَوَیْتُ جَالِسًا، فَقَالَ لِی: ((یَا أَبَا ذَرٍّ! کَیْفَ تَصْنَعُ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْہَا؟)) فَقُلْتُ: أَرْجِعُ إِلٰی مَسْجِدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِلٰی بَیْتِی، قَالَ: ((فَکَیْفَ تَصْنَعُ إِذَا أُخْرِجْتَ؟)) فَقُلْتُ: إِذَنْ آخُذَ بِسَیْفِی فَأَضْرِبَ بِہِ مَنْ یُخْرِجُنِی، فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہُ عَلٰی مَنْکِبِی، فَقَالَ: ((غَفْرًا، یَا أَبَا ذَرٍّ! ثَلَاثًا، بَلْ تَنْقَادُ مَعَہُمْ حَیْثُ قَادُوکَ، وَتَنْسَاقُ مَعَہُمْ حَیْثُ سَاقُوکَ، وَلَوْ عَبْدًا أَسْوَدَ۔)) قَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَلَمَّا نُفِیتُ إِلَی الرَّبَذَۃِ أُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ أَسْوَدُ، کَانَ فِیہَا عَلٰی نَعَمِ الصَّدَقَۃِ، فَلَمَّا رَآنِی أَخَذَ لِیَرْجِعَ وَلِیُقَدِّمَنِی فَقُلْتُ: کَمَا أَنْتَ، بَلْ أَنْقَادُ لِأَمْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔(مسند احمد: ۲۱۶۱۵)
سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اور پھر میں مسجدمیں آ جاتا تھا اور اپنے کام سے فارغ ہو کر لیٹ جاتا، ایک دن میں لیٹا ہو ا تھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے پاؤں مبارک سے مجھے تھوڑا سا دبایا، میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ابوذر!اس وقت تیرا کیا حال ہوگا، جب تجھے اس شہر سے نکال دیا جائے گا۔ میں نے کہا: میں اپنے نبی کی مسجداور اپنے گھر میں رہ لوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تجھے یہاں سے نکال دیا جائے گا تو تیرا کیا حال ہوگا؟ میں نے کہا: میں اپنی تلوار سونت لوں گا اور جو مجھے نکالے گا، میں اس پر تلوار چلا دوں گا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے پر رکھ دیا اور فرمایا: ابوذر! معاف کرنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار یہ جملہ دوہرایا اور پھر فرمایا: بلکہ وہ تمہیں جس طرف لے کر چلیں، تم ان کی اطاعت کرنا اور وہ تمہیں جس طرف ہانکیں، اسی طرف چل پڑنا، خواہ وہ سیاہ فام غلا م ہی کیوں نہ ہو؟ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب مجھے ربذہ کی جانب دھکیل دیا گیا اور نماز کی اقامت ہوئی تو ایک سیاہ فام آدمی نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھا، وہ وہاں پربیت المال کے اونٹوں پر مامور تھا، جب اس نے مجھے دیکھا تو وہ مجھے آگے کرنے کے لیے خو د پیچھے کو آنے لگا، لیکن میں نے اسے کہا: تم اپنی جگہ پر رہو (اور نماز پڑھاؤ)، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم کی اطاعت کروں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12267

۔ (۱۲۲۶۷)۔ حَدَّثَنَا ہَاشِمٌ قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ، قَالَ: ثَنَا شَہْرٌ، قَالَ: حَدَّثَتْنِی أَسْمَائُ بِنْتُ یَزِیدَ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ الْغِفَارِیَّ کَانَ یَخْدُمُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْ خِدْمَتِہِ اَوٰی إِلَی الْمَسْجِدِ، فَکَانَ ہُوَ بَیْتَہُیَضْطَجِعُ فِیہِ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ لَیْلَۃً، فَوَجَدَ أَبَا ذَرٍّ نَائِمًا مُنْجَدِلًا فِی الْمَسْجِدِ، فَنَکَتَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرِجْلِہِ حَتَّی اسْتَوٰی جَالِسًا، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((أَلَا أَرَاکَ نَائِمًا؟)) قَالَ أَبُو ذَرٍّ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَأَیْنَ أَنَامُ، ہَلْ لِی مِنْ بَیْتٍ غَیْرُہُ؟ فَجَلَسَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَہُ: ((کَیْفَ أَنْتَ إِذَا أَخْرَجُوکَ مِنْہُ۔)) قَالَ: إِذَنْ أَلْحَقَ بِالشَّامِ، فَإِنَّ الشَّامَ أَرْضُ الْہِجْرَۃِ، وَأَرْضُ الْمَحْشَرِ، وَأَرْضُ الْأَنْبِیَائِ، فَأَکُونُ رَجُلًا مِنْ أَہْلِہَا، قَالَ لَہُ: ((کَیْفَ أَنْتَ إِذَا أَخْرَجُوکَ مِنَ الشَّامِ؟)) قَالَ: إِذَنْ أَرْجِعَ إِلَیْہِ فَیَکُونَ ہُوَ بَیْتِی وَمَنْزِلِی، قَالَ لَہُ: ((کَیْفَ أَنْتَ إِذَا أَخْرَجُوکَ مِنْہُ الثَّانِیَۃَ؟)) قَالَ: إِذَنْ آخُذَ سَیْفِی فَأُقَاتِلَ عَنِّی حَتّٰی أَمُوتَ، قَالَ: فَکَشَّرَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَثْبَتَہُ بِیَدِہِ، قَالَ: ((أَدُلُّکَ عَلَی خَیْرٍ مِنْ ذٰلِکَ؟)) قَالَ: بَلٰی، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّییَا نَبِیَّ اللّٰہِ! قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تَنْقَادُ لَہُمْ حَیْثُ قَادُوکَ،ٔ وَتَنْسَاقُ لَہُمْ حَیْثُ سَاقُوکَ، حَتّٰی تَلْقَانِی وَأَنْتَ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) (مسند احمد: ۲۸۱۴۰)
سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا ابو ذر غفاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کیا کرتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت سے فارغ ہو نے کے بعد وہ مسجد میں چلے جاتے، بس مسجد ہی ان کا گھر تھا، وہ وہاں لیٹ جاتے، ایک رات کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں داخل ہوئے اور ان کو مسجد زمین پر لیٹے ہوئے پایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے پاؤں مبارک سے ان کو ذرا دبایا، وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: میںتمہیں یہاں سوتے دیکھ رہاہوں؟ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میر ااس کے سوا کوئی اور گھر ہے؟ میں یہاں نہ سوؤں تو کہاں سوؤں؟ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس بیٹھ گئے اور ان سے فرمایا: اس وقت تیرا کیا حال ہوگا، جب لوگ تجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ انہوں نے کہا: میں شام کی طرف چلا جاؤں گا، کیونکہ شام ارض ہجرت ہے، ارض محشراور انبیائے کرام کا علاقہ ہے، اس طرح میں وہاں کا باشندہ بن جاؤںـ گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب لوگ تجھے شام سے بھی نکال دیں گے تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ انہوں نے کہا: تب میں مدینہ کی طرف واپس آجاؤں گا، یہی میرا گھر اور یہی میرا ٹھکانہ ہوگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب لوگ تمہیں دوسری مرتبہ یہاں سے بھی نکال دیں گے تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ انہوں نے کہا: تب میں اپنی تلوار اٹھالوں گا اور مرتے دم تک اپنا دفاع کروں گا، ان کی یہ بات سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکر ادئیے اور اپنا ہاتھ مبارک ان پر رکھا اور فرمایا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر کام نہ بتلا دوں؟ انہوںنے کہا: اے اللہ کے نبی! ضرور فرمائیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ تمہیں جہاں لے کر جائیں، ان کے ساتھ چلتے رہنا، یہاں تک کہ اسی حالت میں تم مجھ سے آ ملنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12268

۔ (۱۲۲۶۸)۔ عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّہُ دَخَلَ عَلٰی عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَہُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: إِنَّکَ إِمَامُ الْعَامَّۃِ، وَقَدْ نَزَلَ بِکَ مَا تَرٰی، وَإِنِّی أَعْرِضُ عَلَیْکَ خِصَالًا ثَلَاثًا اخْتَرْ إِحْدَاہُنَّ، إِمَّا أَنْ تَخْرُجَ فَتُقَاتِلَہُمْ، فَإِنَّ مَعَکَ عَدَدًا وَقُوَّۃً وَأَنْتَ عَلَی الْحَقِّ وَہُمْ عَلَی الْبَاطِلِ، وَإِمَّا أَنْ نَخْرِقَ لَکَ بَابًا سِوَی الْبَابِ الَّذِی ہُمْ عَلَیْہِ، فَتَقْعُدَ عَلٰی رَوَاحِلِکَ، فَتَلْحَقَ بِمَکَّۃَ فَإِنَّہُمْ لَنْ یَسْتَحِلُّوکَ وَأَنْتَ بِہَا، وَإِمَّا أَنْ تَلْحَقَ بِالشَّامِ، فَإِنَّہُمْ أَہْلُ الشَّامِ، وَفِیہِمْ مُعَاوِیَۃُ، فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَمَّا أَنْ أَخْرُجَ فَأُقَاتِلَ فَلَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ خَلَفَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أُمَّتِہِ بِسَفْکِ الدِّمَائِ، وَأَمَّا أَنْ أَخْرُجَ إِلٰی مَکَّۃَ، فَإِنَّہُمْ لَنْ یَسْتَحِلُّونِی بِہَا، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((یُلْحِدُ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ بِمَکَّۃَیَکُونُ عَلَیْہِ نِصْفُ عَذَابِ الْعَالَمِ۔)) فَلَنْ أَکُونَ أَنَا إِیَّاہُ، وَأَمَّا أَنْ أَلْحَقَ بِالشَّامِ، فَإِنَّہُمْ أَہْلُ الشَّامِ، وَفِیہِمْ مُعَاوِیَۃُ، فَلَنْ أُفَارِقَ دَارَ ہِجْرَتِی، وَمُجَاوَرَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۴۸۱)
سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ محصور ہوچکے تھے، میں ان کی خدمت میں گیا اور کہا:آپ لوگوں کے امام اور حاکم ہیں اور آپ کے ساتھ جو حالات پیش آچکے ہیں، وہ بھی آ پ کے سامنے ہیں، میں آپ کے سامنے تین صورتیں پیش کرتا ہوں، آپ ان سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں، یا تو آپ باہر نکل کر ان باغیوں سے لڑائی کریں، آپ کے پاس طاقت ہے اور بہت سے افرد آپ کے ساتھ ہیں، اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ حق پر ہیں اور ان لوگوں کا موقف باطل ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ وہ لوگ جس دروازے پر موجود ہیں، اسے چھوڑ کر آپ گھر کی کسی دیوار میں راستہ بنا کر باہر نکل جائیں اور اپنی سواری پر سوار ہو کر مکہ پہنچ جائیں، یہ وہاں آپ کو مارنے کی جسارت نہیں کریں گے، تیسری صورت یہ ہے کہ آپ بلا د شام کی طرف چلے جائیں، وہ لوگ اہل شام ہونے کی وجہ سے اچھے ہیں، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہاں موجود ہیں، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ باتیں سن کر کہا: رہا مسئلہ تمہارے بیان کردہ پہلی صورت کا کہ میں باہر نکل کر قتال کروں، تو یہ نہیں ہوسکتا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سب سے پہلا خون بہانے والا بنو ں، دوسری صورت کہ میںمکہ مکرمہ چلا جاؤں، کیونکہ یہ لوگ وہاں مجھے قتل نہیں کریںگے، تو گزارش ہے کہ میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک قریشی آدمی مکہ میں الحاد کامرتکب ہوگا، ساری دنیا کا نصف عذاب صرف اس ایک آدمی کو دیا جائے گا۔ پس میں وہ آدمی نہیں بنوں گا اور تمہاری بیان کردہ تیسری صورت کہ میں سرزمین شام کی طرف چلا جاؤں کہ شام والے لوگ اچھے ہیں اور سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہاں موجود ہیں ہیں، تو گزارش ہے کہ میں اپنی ہجرت گاہ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پڑوس کو نہیں چھوڑوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12269

۔ (۱۲۲۶۹)۔ عَنِ ابْنِ أَبْزٰی، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ حِینَ حُصِرَ: إِنَّ عِنْدِی نَجَائِبَ قَدْ أَعْدَدْتُہَا لَکَ، فَہَلْ لَکَ أَنْ تَحَوَّلَ إِلٰی مَکَّۃَ؟ فَیَأْتِیَکَ مَنْ أَرَادَ أَنْ یَأْتِیَکَ، قَالَ: لَا، إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((یُلْحِدُ بِمَکَّۃَ کَبْشٌ مِنْ قُرَیْشٍ اسْمُہُ عَبْدُ اللّٰہِ، عَلَیْہِ مِثْلُ نِصْفِ أَوْزَارِ النَّاسِ۔)) (مسند احمد: ۴۶۱)
ابن ابزیٰ سے روایت ہے کہ جب سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو محصور کر دیا گیا تو سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: میرے پاس عمدہ قسم کی اونٹنیاں ہیں، میں نے ان کو آپ کے لیے تیار کر رکھا ہے، اگر آپ چاہیں تو مکہ تشریف لے چلیں، اس کے بعد جو آپ کے پاس آنے کا ارادہ رکھتا ہوگا، وہ آ کر مل لے گا؟ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نہیں، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مکہ مکرمہ میں عبد اللہ نامی ایک قریشی آدمی الحاد کرے گا، اس پر تمام لوگوں کے گناہوں کے نصف کے بقدر گناہ ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12270

۔ (۱۲۲۷۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَہْلَۃَ اَنَّ عُثْمَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ یَوْمَ الدَّارِ حِیْنَ حُصِرَ: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَہِدَ اِلَیَّ عَہْدٌ فَاَنَا صَابِرٌ عَلَیْہِ، قَالَ قَیْسٌ: فَکَانُوْ یَرَوْنَہُ ذٰلِکَ الْیَوْمَ۔ (مسند احمد: ۵۰۱)
ابو سہلہ سے روایت ہے کہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب گھرمیں محصور کر دئیے گئے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا، میں اسی پر کار بند رہو ں گا۔ قیس نے کہا: اس دن لوگ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حسرت سے دیکھ رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12271

۔ (۱۲۲۷۱)۔ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبِیْ عَنْ اَبِیْہِ، اَنَّ عُثْمَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اِنْ وَجَدْتُّمْ فِی کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَنْ تَضَعُوْا رِجْلِیْ فِی الْقَیْدِ فَضَعُوْھَا۔ (مسند احمد: ۵۲۴)
سعدسے مروی ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر تمہیں کتاب اللہ میں سے یہ اجازت ملتی کہ تم میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دو تو تم ایسا کر سکتے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12272

۔ (۱۲۲۷۲)۔ عَنِ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَیْرِیِّ قَالَ: شَہِدْتُ الدَّارَ یَوْمَ أُصِیبَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَاطَّلَعَ عَلَیْہِمْ اطِّلَاعَۃً، فَقَالَ: ادْعُوا لِی صَاحِبَیْکُمْ اللَّذَیْنِ أَلَبَّاکُمْ عَلَیَّ، فَدُعِیَا لَہُ فَقَالَ: نَشَدْتُکُمَا اللّٰہَ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ ضَاقَ الْمَسْجِدُ بِأَہْلِہِ، فَقَالَ: ((مَنْ یَشْتَرِی ہٰذِہِ الْبُقْعَۃَ مِنْ خَالِصِ مَالِہِ؟ فَیَکُونَ فِیہَا کَالْمُسْلِمِینَ، وَلَہُ خَیْرٌ مِنْہَا فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَاشْتَرَیْتُہَا مِنْ خَالِصِ مَالِی، فَجَعَلْتُہَا بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَنْتُمْ تَمْنَعُونِی أَنْ أُصَلِّیَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ لَمْ یَکُنْ فِیہَا بِئْرٌ یُسْتَعْذَبُ مِنْہُ إِلَّا رُومَۃَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ یَشْتَرِیہَا مِنْ خَالِصِ مَالِہِ؟ فَیَکُونَ دَلْوُہُ فِیہَا کَدُلِیِّ الْمُسْلِمِینَ، وَلَہُ خَیْرٌ مِنْہَا فِی الْجَنَّۃِ؟)) فَاشْتَرَیْتُہَا مِنْ خَالِصِ مَالِی، فَأَنْتُمْ تَمْنَعُونِی أَنْ أَشْرَبَ مِنْہَا، ثُمَّ قَالَ: ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّی صَاحِبُ جَیْشِ الْعُسْرَۃِ؟ قَالُوْا: اللَّہُمَّ نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۵۵۵)
ثمامہ بن حزن قشیری سے مروی ہے کہ جس روز سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شہید کیا گیا، میں اس روز ان کے مکان پر حاضر تھا، عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں کی طرف جھانک کر کہا: لوگو تم اپنے ان دو سرکردہ آدمیوں کو بلاؤ، جنہوں نے تمہیںمیرے خلاف اکسایاہے۔ پس جب انہیں بلایا گیا تو انھوں نے کہا: میں آپ لوگوں کو اللہ کاواسطہ دے کر پوچھتا ہوں آیا تم جانتے ہو کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور نمازیوں کے لیے مسجد تنگ ہو گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا کوئی ایسا آدمی ہے جو اپنے خالص مال سے اس قطعہ زمین کو خرید کر مسجد میں شامل کردے اور اس کا اس قطعۂ زمین پر کوئی استحقاق نہ ہو، بلکہ وہ عام مسلمانوں کی طرح ہی اس پر حق رکھتا ہو اور اسے اس کے عوض جنت میں اس سے بہتر جگہ ملے گی۔ تو میں نے اپنے خالص ذاتی مال سے وہ قطعہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا، لیکن اب حال یہ ہے کہ تم لوگ مجھے اس مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے سے بھی روکتے ہو۔ پھر کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو رومہ کے کنوئیں کے علاوہ کوئی کنواں شیریں پانی کا نہیں تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو اپنے ذاتی مال سے یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے اور اس میں اس کا حصہ بھی عام مسلمانوں کی طرح ہی ہو، اس کے عوض اس کے لیے جنت میں اس سے بہتر کنواں ہو گا۔ تو میں نے یہ کنوں اپنے ذاتی مال سے خریدا تھا، لیکن اب حال یہ ہے کہ تم مجھے اس سے پانی تک پینے نہیں دیتے۔ پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ میں جیش العسرۃ یعنی غزوہ تبوک کے لشکر کو تیار کرنے والا ہوں؟ لوگوں نے کہا: اللہ گواہ ہے کہ یہ سب باتیں درست ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12273

۔ (۱۲۲۷۳)۔ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ: أَشْرَفَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنَ الْقَصْرِ وَہُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: أَنْشُدُ بِاللّٰہِ مَنْ شَہِدَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حِرَائٍ إِذَ اہْتَزَّ الْجَبَلُ فَرَکَلَہُ بِقَدَمِہِ ثُمَّ قَالَ: ((اسْکُنْ حِرَائُ لَیْسَ عَلَیْکَ إِلَّا نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیقٌ أَوْ شَہِیدٌ۔)) وَأَنَا مَعَہُ، فَانْتَشَدَ لَہُ رِجَالٌ، قَالَ: أَنْشُدُ بِاللّٰہِ مَنْ شَہِدَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَیَوْمَ بَیْعَۃِ الرِّضْوَانِ، إِذْ بَعَثَنِی إِلَی الْمُشْرِکِینَ إِلٰی أَہْلِ مَکَّۃَ، قَالَ: ((ہٰذِہِ یَدِی وَہٰذِہِ یَدُ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔)) فَبَایَعَ لِی؟ فَانْتَشَدَ لَہُ رِجَالٌ، قَالَ: أَنْشُدُ بِاللّٰہِ مَنْ شَہِدَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ یُوَسِّعُ لَنَا بِہٰذَا الْبَیْتِ فِی الْمَسْجِدِ بِبَیْتٍ فِی الْجَنَّۃِ؟)) فَابْتَعْتُہُ مِنْ مَالِی فَوَسَّعْتُ بِہِ الْمَسْجِدَ، فَانْتَشَدَ لَہُ رِجَالٌ، قَالََ: وَأَنْشُدُ بِاللّٰہِ مَنْ شَہِدَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ جَیْشِ الْعُسْرَۃِ، قَالَ: ((مَنْ یُنْفِقُ الْیَوْمَ نَفَقَۃً مُتَقَبَّلَۃً؟)) فَجَہَّزْتُ نِصْفَ الْجَیْشِ مِنْ مَالِی، قَالَ: فَانْتَشَدَ لَہُ رِجَالٌ، وَأَنْشُدُ بِاللّٰہِ مَنْ شَہِدَ رُومَۃَیُبَاعُ مَاؤُہَا ابْنَ السَّبِیلِ؟ فَابْتَعْتُہَا مِنْ مَالِی فَأَبَحْتُہَا لِابْنِ السَّبِیلِ، قَالَ: فَانْتَشَدَ لَہُ رِجَالٌ۔ (مسند احمد: ۴۲۰)
ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ محصور تھے، تو وہ مکان کے اوپر سے جھانکے اور کہا: لوگو! میں تم کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم میں سے کوئی اس وقت موجود تھا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حراء پر تھے اور پہاڑ جھومنے لگ گیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا قدم مبارک پہاڑ پر مار کر فرمایا تھا: اے حرائ! ٹھہر جا، تیرے اوپر صرف نبی، صدیق یا شہید موجود ہیں۔ اس وقت میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، کئی لوگوں نے ان کی تصدیق کی۔ پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر اس آدمی سے پوچھتا ہوں، جو بیعت رضوان کے دن حاضر تھا اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے مشرکین مکہ کی طرف قاصد بنا کر روانہ کیا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیعت لیتے اور کرتے وقت فرمایا تھا: یہ میرا ہاتھ ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف سے بیعت لی تھی، کئی لوگوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی،پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اس آدمی کو اللہ کاواسطہ دے کر پوچھتا ہوں، جو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس اس وقت موجود ہو، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ کون ہے جو مسجد کے ساتھ والے گھر کو خرید کر مسجد میں شامل کرے اور اسے اس کے عوض جنت میں گھر ملے گا۔ تو میں نے اپنے ذاتی مال سے وہ جگہ خرید کر مسجد کو وسیع کر دیا تھا، بہت سے لوگوں نے اس دعوے کی بھی تصدیق کی، پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، جو جیش العسرہ یعنی غزوہ تبوک کے لشکر کے موقع پر موجود تھا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: کون ہے، جو آج اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اس کا یہ عمل اللہ کے ہاں مقبول ہو۔ تو میں نے اپنے ذاتی مال سے آدھے لشکر کی ضروریات کا انتظام کر دیا تھا، بہت سے لوگوں نے اس منقبت کی بھی تصدیق کی۔ پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ کیا کوئی جانتا ہے کہ رومہ کا پانی مسافروں کو قیمتاً دیا جاتا تھا، میں نے اپنے ذاتی مال سے اسے خرید کر مسافروں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اس کی بھی تصدیق کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12274

۔ (۱۲۲۷۴)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ، قَالَ: کُنَّا مَعَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَہُوَ مَحْصُورٌ فِی الدَّارِ، فَدَخَلَ مَدْخَلًا کَانَ إِذَا دَخَلَہُ یَسْمَعُ کَلَامَہُ مَنْ عَلَی الْبَلَاطِ، قَالَ: فَدَخَلَ ذٰلِکَ الْمَدْخَلَ وَخَرَجَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: إِنَّہُمْ یَتَوَعَّدُونِی بِالْقَتْلِ آنِفًا، قَالَ: قُلْنَا: یَکْفِیکَہُمُ اللّٰہُ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ!، قَالَ: وَبِمَ یَقْتُلُونَنِی؟ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدٰیثَلَاثٍ رَجُلٌ کَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِہِ، أَوْ زَنٰی بَعْدَ إِحْصَانِہِ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا فَیُقْتَلُ بِہَا۔)) فَوَاللّٰہِ! مَا أَحْبَبْتُ أَنَّ لِی بِدِینِی بَدَلًا مُنْذُ ہَدَانِی اللّٰہُ، وَلَا زَنَیْتُ فِی جَاہِلِیَّۃٍ وَلَا فِی إِسْلَامٍ قَطُّ، وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا، فَبِمَ یَقْتُلُوْنَنِی؟ (مسند احمد: ۴۳۷)
ابو امامہ بن سہل سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے گھر میں محصور تھے، وہ اپنے گھر کے ایک ایسے مقام میں آئے، جہاں سے آواز باہر سنی جاسکتی تھی، وہ اس جگہ پر گئے اور ہماری طرف جھانکا اور کہا: اب یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں، ہم نے کہا: اے امیر المومنین! ان کے مقابلے میں آپ کے لیے اللہ کافی ہے، انہوں نے پھر کہا: یہ لوگ مجھے کیونکر قتل کریں گے، جبکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کا خون اِن تین صورتوں کے علاوہ کسی بھی صورت میں حلال نہیں: کوئی آدمی اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے، یا شادی شدہ ہو کر زنا کرے، یا کسی کو قتل کر دے تو اسے اس کے بدلے میں قتل کر دیا جائے۔ اللہ کی قسم! اللہ نے جب سے مجھے ہدایت دی ہے، میں نے اپنے دین کے مقابلے میں کسی دین کو پسند نہیں کیا، اور میں نے قبل ازاسلام یا بعد ازاسلام کبھی بھی زنانہیں کیا اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، پھر یہ لوگ میرے قتل کے درپے کیوں ہیں؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12275

۔ (۱۲۲۷۵)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّہِ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبِیدَۃَ، حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُجَبَّرٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، أَنَّ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَشْرَفَ عَلَی الَّذِینَ حَصَرُوہُ فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ فَلَمْ یَرُدُّوا عَلَیْہِ، فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَفِی الْقَوْمِ طَلْحَۃُ؟ قَالَ طَلْحَۃُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، أُسَلِّمُ عَلٰی قَوْمٍ أَنْتَ فِیہِمْ فَلَا تَرُدُّونَ، قَالَ: قَدْ رَدَدْتُ، قَالَ: مَا ہٰکَذَا الرَّدُّ أُسْمِعُکَ وَلَا تُسْمِعُنِییَا طَلْحَۃُ! أَنْشُدُکَ اللّٰہَ أَسَمِعْتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((لَا یُحِلُّ دَمَ الْمُسْلِمِ إِلَّا وَاحِدَۃٌ مِنْ ثَلَاثٍ، أَنْ یَکْفُرَ بَعْدَ إِیمَانِہِ، أَوْ یَزْنِیَ بَعْدَ إِحْصَانِہِ، أَوْ یَقْتُلَ نَفْسًا فَیُقْتَلَ بِہَا۔)) قَالَ: اللَّہُمَّ نَعَمْ، فَکَبَّرَ عُثْمَانُ فَقَالَ: وَاللّٰہِ! مَا أَنْکَرْتُ اللّٰہَ مُنْذُ عَرَفْتُہُ، وَلَا زَنَیْتُ فِی جَاہِلِیَّۃٍ وَلَا إِسْلَامٍ، وَقَدْ تَرَکْتُہُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ تَکَرُّہًا وَفِی الْإِسْلَامِ تَعَفُّفًا، وَمَا قَتَلْتُ نَفْسًا یَحِلُّ بِہَا قَتْلِی۔ (مسند احمد: ۱۴۰۲)
مجبر کہتے ہیں: جن لوگوں نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مکان کا محاصرہ کیا ہوا تھا، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مکان کے اوپر سے ان کی طرف جھانک کر انہیں سلام کہا، لیکن ان لوگوں نے سلام کا جواب نہیں دیا، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا کہ تم لوگوں میں سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود ہیں؟ سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی ہاں، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، میں لوگوںکو سلام کہہ رہا ہوں، جبکہ تم ان میں موجود ہو اور تم سلام کا جواب نہیں دے رہے؟ یہ کس قدر افسوسناک بات ہے، سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں نے جواب دیا ہے، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: طلحہ! جواب اس طرح نہیں دیا جاتا، تم میری آواز سن رہے ہو اور میں تمہاری آواز نہیں سن رہا، اچھا طلحہ! میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ اِن تین صورتوں کے علاوہ کسی بھی صورت میں کسی مسلمان کاخون بہانا جائز نہیں: ایمان کے بعد کفر کرنا یعنی مرتدّ ہو جاتا، شادی شدہ ہو کر زنا کرنا، یا کسی کو قتل کرنا، قتل کے بدلے قاتل کو قتل کر دیا جائے گا۔ سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ گواہ ہے کہ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سنی ہے، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ اکبر، میں نے جب سے اللہ کو پہچانا ہے، میں نے اس کا انکار نہیں کیا، اور نہ میں نے جاہلیت کے دور میں زنا کیا اور نہ اسلام قبول کرنے کے بعد، میں تو قبل از اسلام بھی اس کو انتہائی ناپسند سمجھتا تھا اور بعد ازاسلام گناہ سے بچتے ہوئے میں نے اس کا ارتکاب نہیں کیااور میں نے کسی ایسی جان کو قتل نہیں کیا، جس کے بدلے میں مجھے قتل کیا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12276

۔ (۱۲۲۷۶)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: شَہِدْتُ عُثْمَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَوْمَ حُوصِرَ فِی مَوْضِعِ الْجَنَائِزِ، وَلَوْ أُلْقِیَ حَجَرٌ لَمْ یَقَعْ إِلَّا عَلٰی رَأْسِ رَجُلٍ، فَرَأَیْتُ عُثْمَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَشْرَفَ مِنَ الْخَوْخَۃِ الَّتِی تَلِی مَقَامَ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَام، فَقَالَ: أَیُّہَا النَّاسُ! أَفِیکُمْ طَلْحَۃُ؟ فَسَکَتُوا، ثُمَّ قَالَ: أَیُّہَا النَّاسُ! أَفِیکُمْ طَلْحَۃُ؟ فَسَکَتُوا، ثُمَّ قَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَفِیکُمْ طَلْحَۃُ؟ فَقَامَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ، فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: أَلَا أَرَاکَ ہَاہُنَا، مَا کُنْتُ أَرٰی أَنَّکَ تَکُونُ فِی جَمَاعَۃٍ تَسْمَعُ نِدَائِی آخِرَ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ، ثُمَّ لَا تُجِیبُنِی، أَنْشُدُکَ اللّٰہَ یَا طَلْحَۃُ! تَذْکُرُ یَوْمَ کُنْتُ أَنَا وَأَنْتَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَوْضِعِ کَذَا وَکَذَا، لَیْسَ مَعَہُ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِہِ غَیْرِی وَغَیْرُکَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ لَکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا طَلْحَۃُ! اِنَّہٗلَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ اِلَّا وَمَعَہٗمِنْاَصْحَابِہٖرَفِیْقٌ مِنْ اُمَّتِہٖمَعَہٗفِی الْجَنَّۃِ، وَاِنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ہَذٰا یَعْنِیْنِیْ رَفِیْقِیْ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ۔)) قَالَ طَلْحَۃُ: اَللّٰہُمَّ نَعَمْ، ثُمَّ انْصَرَفَ، (مسند احمد: ۵۵۲)
اسلم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جن دنوں میں عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ محصور تھے، میں اس جگہ تھا، جہاں جنازے پڑھے جاتے ہیں، اور لوگوں کا ازدحام اس قدر تھا کہ اگر پتھر پھینکا جاتا تو وہ کسی نہ کسی کے سر پر لگتا،میں نے دیکھا کہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے مکان کے اس سوراخ سے باہر کو جھانکا جو مقام جبریل علیہ السلام سے متصل ہے، انہوں نے کہا: لوگو! کیا تمہارے درمیان طلحہ موجود ہیں؟ لوگ خاموش رہے، انھوں نے پھر کہا: لوگو! کیا تمہارے اندر طلحہ موجود ہیں؟ لوگ خاموش رہے، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تیسری بار کہا: لوگو! کیا تمہارے اندر طلحہ موجود ہیں؟ بالآخر سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھ کھڑے ہوئے، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: کیا میں تمہیں ان لوگوں میں نہیں دیکھ رہا؟ میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم کسی جماعت کے اندر ہو اورمیں تمہیں تین بار پکاروں اور تم جواب تک نہ دو؟ طلحہ! اب میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں یا د ہے کہ ایک روز میں اور تم فلاں مقام پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے، میرے اور تمہارے سوا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ کوئی دوسرا ساتھی نہ تھا، سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی ہاںـ،سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تم سے کہا تھا: طلحہ! ہر نبی کا اس کی امت میں سے ایک صحابی جنت میں اس نبی کا ساتھی ہوگا اور یہ عثمان بن عفان جنت میں میرا رفیق ہوگا۔ طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ گواہ ہے، مجھے یاد ہے، اس کے بعد سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ واپس اتر گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12277

۔ (۱۲۲۷۷)۔ عَنْ نَائِلَۃَ بِنْتِ الْفَرَافِصَۃِ امْرَأَۃِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَتْ: نَعَسَ أَمِیرُ ٔٔالْمُؤْمِنِینَ عُثْمَانُ، فَأَغْفٰی فَاسْتَیْقَظَ فَقَالَ: لَیَقْتُلَنَّنِی الْقَوْمُ، قُلْتُ: کَلَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ لَمْیَبْلُغْ ذَاکَ إِنَّ رَعِیَّتَکَ اسْتَعْتَبُوکَ، قَالَ: إِنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَنَامِی وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فَقَالُوْا: تُفْطِرُ عِنْدَنَا اللَّیْلَۃَ۔ (مسند احمد: ۵۳۶)
سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی سیدہ نائلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ امیر المومنین سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اونگھ آئی اور سو گئے، پھر جب بیدار ہوئے تو انھوں نے کہا: یہ لوگ یقینا مجھے قتل کر ڈالیں گے، میںنے کہا: ان شاء اللہ ہر گزنہیں، ابھی تک ایسا معاملہ نہیں ہے، آپ کی رعایا آپ کو محض ڈرا دھمکا رہی ہے، انہوں نے کہا: میں نے خواب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا ہے، انہوںنے کہا ہے کہ آج رات تم ہمارے ہاں روزہ افطار کر و گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12278

۔ (۱۲۲۷۸)۔ عَنْ مُسْلِمٍ أَبِی سَعِیدٍ مَوْلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَعْتَقَ عِشْرِینَ مَمْلُوکًا، وَدَعَا بِسَرَاوِیلَ، فَشَدَّہَا عَلَیْہِ وَلَمْ یَلْبَسْہَا فِی جَاہِلِیَّۃٍ وَلَا إِسْلَامٍ، وَقَالَ: إِنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَارِحَۃَ فِی الْمَنَامِ، وَرَأَیْتُ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَإِنَّہُمْ قَالُوْا لِی: اصْبِرْ فَإِنَّکَ تُفْطِرُ عِنْدَنَا الْقَابِلَۃَ، ثُمَّ دَعَا بِمُصْحَفٍ فَنَشَرَہُ بَیْنَیَدَیْہِ، فَقُتِلَ وَہُوَ بَیْنَیَدَیْہِ۔ (مسند احمد: ۵۲۶)
ابو سعید مسلم سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیس غلام آزاد کیے اور شلوار منگوا کر پہن لی، اس سے پہلے آپ نے دورِ جاہلیت میں یا قبول اسلام کے بعد کبھی بھی شلوار نہیں پہنی تھی، پھر انھوں نے کہا: میں نے آج رات خواب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا ہے، انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ صبر کرنا، آئندہ رات تم ہمارے ہاں روزہ افطار کرو گے۔ اس کے بعد انہوںنے قرآن مجید کا مصحف منگوایا اور اپنے سامنے کھول کر رکھ لیا، پھر وہ اس حال میں شہید ہو گئے کہ مصحف ان کے سامنے کھلا ہوا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12279

۔ (۱۲۲۷۹)۔ عَنْ اَبِی الْعَالِیَۃَ قَالَ: کُنَّا بِبَابِ عُثْمَانَ فِیْ عَشْرِ الْاَضْحٰی۔ (مسند احمد: ۵۵۱)
ابو العالیہ کہتے ہیں:دس ذوالحجہ کو ہم عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12280

۔ (۱۲۲۸۰)۔ وَعَنْ مُعْتَمِرِ بْنِ سُلَیْمَانَ قَالَ: قَالَ اَبِیْ: حَدَّثَنَا اَبُوْ عُثْمَانَ اَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ فِیْ اَوْسَطِ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ۔ (مسند احمد: ۵۴۶)
معتمر بن سلیمان سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میرے والد سلیمان نے کہا کہ ابو عثمان نے ان کو بیان کیا کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ درمیان والے یوم تشریق کو شہید ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12281

۔ (۱۲۲۸۱)۔ وَعَنْ قَتَادَۃَ اَنَّ عُثمَانَ قُتِلَ وَ ھُوَ ابْنُ تِسْعِیْنَ سَنَۃً اَوْ ثَمَانٍ وَّ ثَمَانِیْنَ۔ (مسند احمد: ۵۴۷)
قتادہ سے روایت ہے کہ شہادت کے وقت سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عمر نو ے یا اٹھاسی برس تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12282

۔ (۱۲۲۸۲)۔ وَعَنْ قَتَادَۃَ قَالَ: صَلَّی الزُّبَیْرُ عَلٰی عُثْمَانَ وَدَفَنَہٗوَکَانَاَوْصٰی اِلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۵۴۹)
قتادہ سے مروی ہے کہ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہوں نے ہی ان کو دفن کیا تھا، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود ان کے حق میں وصیت کر گئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12283

۔ (۱۲۲۸۳)۔ وَعَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ فَرُّوْخَ، عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: شَہِدْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ دُفِنَ فِیْ ثِیَابِہٖ بِدِمَائِہٖوَلَمْیُغْسَلْ۔ (مسند احمد: ۵۳۱)
عبداللہ بن فروخ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے جنازے میں شریک تھا، انہیں ان کے خون آلود کپڑوں میں دفن کیا گیااور انہیں غسل بھی نہیں دیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12284

۔ (۱۲۲۸۴)۔ وَعَنْ اُمَیَّۃَ بْنِ شِبْلٍ وَغَیْرِہِ قَالَ: وَلِیَ عُثْمَانُ ثَنْتَیْ عَشَرَۃَ وَکَانَتِ الْفِتْنَۃُ خَمْسَ سِنِیْنَ۔ (مسند احمد: ۵۴۴)
امیہ بن شبل وغیرہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بارہ سال خلیفہ رہے اور پانچ سال تک فتنہ برپا رہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12285

۔ (۱۲۲۸۵)۔ عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ، قَالَ: وَقُتِلَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، لِثَمَانِ عَشْرَۃَ مَضَتْ مِنْ ذِی الْحِجَّۃِ، سَنَۃَ خَمْسٍ وَثَلَاثِینَ، وَکَانَتْ خِلَافَتُہُ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ سَنَۃً إِلَّا اثْنَیْ عَشَرَ یَوْمًا۔ (مسند احمد: ۵۴۵)
ابو معشر سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھارہ ذوالحجہ ۳۵ھ کو شہید ہوئے اور ان کی مدت خلافت بارہ دن کم بارہ سال تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12286

۔ (۱۲۲۸۶)۔ عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: کُنَّا مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَکَانَ إِذَا شَہِدَ مَشْہَدًا، أَوْ أَشْرَفَ عَلَی أَکَمَۃٍ، أَوْ ہَبَطَ وَادِیًا، قَالَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، فَقُلْتُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِییَشْکُرَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ حَتّٰی نَسْأَلَہُ عَنْ قَوْلِہِ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا إِلَیْہِ، فَقُلْنَا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! رَأَیْنَاکَ إِذَا شَہِدْتَ مَشْہَدًا، أَوْ ہَبَطْتَ وَادِیًا، أَوْ أَشْرَفْتَ عَلٰی أَکَمَۃٍ، قُلْتَ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، فَہَلْ عَہِدَ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْکَ شَیْئًا فِی ذٰلِکَ؟ قَالَ: فَأَعْرَضَ عَنَّا وَأَلْحَحْنَا عَلَیْہِ، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ قَالَ: وَاللّٰہِ! مَا عَہِدَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہْدًا إِلَّا شَیْئًا عَہِدَہُ إِلَی النَّاسِ، وَلٰکِنَّ النَّاسَ وَقَعُوا عَلٰی عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَتَلُوہُ، فَکَانَ غَیْرِی فِیہِ أَسْوَأَ حَالًا وَفِعْلًا مِنِّی، ثُمَّ إِنِّی رَأَیْتُ أَنِّی أَحَقُّہُمْ بِہٰذَا الْأَمْرِ، فَوَثَبْتُ عَلَیْہِ فَاللّٰہُ أَعْلَمُ، أَصَبْنَا أَمْ أَخْطَأْنَا۔ (مسند احمد: ۱۲۰۷)
قیس بن عباد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں سفر کر رہے تھے، وہ جب کسی جگہ پہنچتے یا کسی ٹیلے پر چڑھتے یا کسی وادی میں اترتے تو یوں کہتے:سُبْحَانَ اللّٰہِ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔ (اللہ ہر نقص سے پاک ہے، اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا ہے)۔میں نے بنی یشکر کے ایک فرد سے کہا: آؤ امیر المومنین کی خدمت میں چلتے ہیں، تاکہ ان سے اس قول کی بابت دریافت کریں، پس ہم ان کی خدمت میں گئے اور کہا: امیر المومنین! ہم نے دیکھا ہے کہ جب آپ کسی جگہ پہنچے یا کسی وادی میں اترے یا کسی ٹیلے پر چڑھے تو آپ نے یہ کلمات کہے: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔ (اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے)۔ کیا اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آپ کو کوئی خاص ہدایت فرمائی ہے، پس انہوں نے ہم سے اعراض کیا ، لیکن جب ہم نے اصرار کیا تو انہوںنے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو کچھ عام لوگوں سے فرمایا ہے، مجھے بھی وہی حکم دیا ہے، لیکن لوگ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہوگئے اور انہیں شہید کر ڈالا، میرے سوا دوسرے لوگوں کا حال اور فعل بہت برا تھا، سو میں نے دیکھا کہ دوسروں کی بہ نسبت میں اس خلافت کا زیادہ حق دار ہوں تو میں اس کی طرف لپک آیا، اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم نے صحیح کیا یا غلط کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12287

۔ (۱۲۲۸۷)۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِعَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: ((اَنْتَ وَلِیِّیْ فِیْ کُلٍِ مُؤْمِنٍ بَعْدِیْ۔)) (مسند احمد: ۳۰۶۲)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم میرے بعد ہر مومن کے ساتھی اور دوست ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12288

۔ (۱۲۲۸۸)۔ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ، فَأَحْدَثَ شَیْئًا فِی سَفَرِہِ فَتَعَاہَدَ، قَالَ عَفَّانُ: فَتَعَاقَدَ أَرْبَعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَذْکُرُوا أَمْرَہُ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ عِمْرَانُ: وَکُنَّا إِذَا قَدِمْنَا مِنْ سَفَرٍ بَدَأْنَا بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْنَا عَلَیْہِ، قَالَ: فَدَخَلُوا عَلَیْہِ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْہُمْ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنَّ عَلِیًّا فَعَلَ کَذَا وَکَذَا فَأَعْرَضَ عَنْہُ، ثُمَّ قَامَ الثَّانِی: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ عَلِیًّا فَعَلَ کَذَا وَکَذَا، فَأَعْرَضَ عَنْہُ، ثُمَّ قَامَ الثَّالِثُ: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ عَلِیًّا فَعَلَ کَذَا وَکَذَا، فَأَعْرَضَ عَنْہُ، ثُمَّ قَامَ الرَّابِعُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ عَلِیًّا فَعَلَ کَذَا وَکَذَا، قَالَ: فَاَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الرَّابِعِ، وَقَدْ تَغَیَّرَ وَجْہُہُ فَقَالَ: ((دَعُوْا عَلِیًّا، دَعُوْا عَلِیًّا، اِنَّ عَلِیًّا مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ، وَھُوَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۰۱۷۰)
سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا اور سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان پر امیر مقرر فرمایا،دوران سفر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کوئی ایسا کام ہوا کہ چار صحابہ نے مل کر پکا عزم کیا کہ وہ ان کی اس بات کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے ذکر کریںگے، سیدنا عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہمارا معمول تھا کہ جب ہم سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضری دیتے، آپ کو سلام کہتے۔ پس وہ کہتے ہیں: وہ چاروں آدمی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں آئے، ان میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! علی نے ایسے ایسے کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے اعراض کیا، پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے بھی یہی کہا کہ اے اللہ کے رسول! علی نے یوںیوں کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے بھی منہ موڑ لیا، پھر تیسراآدمی اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! علی نے ایسے ایسے کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ا س سے بھی اپنا رخ پھیر لیا، اتنے میں چوتھا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! علی نے ایسے ایسے کیا ہے، بالآخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چوتھے آدمی کی طرف متوجہ ہوئے، جبکہ اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ متغیر ہوچکا تھا، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی کو چھوڑ دو، علی کو چھوڑدو، علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، میرے بعد وہ ہر مومن کا دوست اور ساتھی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12289

۔ (۱۲۲۸۹)۔ وَعَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوُہُ وَفِیْہِ: ((فَاِنَّہُ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ، وَھُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدِیْ، وَاِنَّہٗمِنِّیْ وَأَنَا مِنْہُ وَھُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۴۰۰)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے، البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں: پس بیشک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، میرے بعد وہ تم کا دوست اور ساتھی ہے، وہ مجھ سے ہے اور میں ا س سے ہوں اور وہ میرے بعد تم سب کا دوست ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12290

۔ (۱۲۲۹۰)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: کَانَ لِنَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبْوَابٌ شَارِعَۃٌ فِی الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَقَالَ یَوْمًا: ((سُدُّوا ہٰذِہِ الْأَبْوَابَ إِلَّا بَابَ عَلِیٍّ۔)) قَالَ: فَتَکَلَّمَ فِی ذٰلِکَ النَّاسُ، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَمِدَ اللّٰہَ تَعَالٰی وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! فَإِنِّی أَمَرْتُ بِسَدِّ ہٰذِہِ الْأَبْوَابِ إِلَّا بَابَ عَلِیٍّ، وَقَالَ فِیہِ قَائِلُکُمْ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ! مَا سَدَدْتُ شَیْئًا، وَلَا فَتَحْتُہُ وَلٰکِنِّی أُمِرْتُ بِشَیْئٍ فَاتَّبَعْتُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۹۵۰۲)
سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ کچھ صحابہ کے گھروں کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن فرمایا: علی کے دروازے کے سوا باقی سب دروازے بند کردو۔ لوگوں نے اس بارے میں باتیں کیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناکی اور پھر فرمایا: أَمَّا بَعْدُ! میں نے حکم دیا ہے کہ یہ تمام دروازے بند کر دئیے جائیں، ما سواے علی کے دروازے کے، تم میں سے بعض باتیں بنانے والوں نے کچھ باتیں بنائی ہیں، اللہ کی قسم! میں نے خود کسی چیز کو نہ بند کہا ہے اور نہ کھولا ہے، مجھے تو بس جو حکم ملا ہے، میں اسی کی ابتاع کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12291

۔ (۱۲۲۹۱)۔ عن عَمْرِو بْنِ مَیْمُٔونٍ قَالَ: إِنِّی لَجَالِسٌ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ إِذْ أَتَاہُ تِسْعَۃُ رَہْطٍ، فَقَالُوْا: یَا أَبَا عَبَّاسٍ! إِمَّا أَنْ تَقُومَ مَعَنَا، ٔوَإِمَّا أَنْ یُخْلُونَا ہٰؤُلَائِ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَلْ أَقُومُ مَعَکُمْ، قَالَ: وَہُوَ یَوْمَئِذٍ صَحِیحٌ قَبْلَ أَنْ یَعْمٰی، قَالَ فَابْتَدَء ُوا فَتَحَدَّثُوا فَلَا نَدْرِی مَا قَالُوْا، قَالَ: فَجَائَ یَنْفُضُ ثَوْبَہُ وَیَقُولُ: أُفْ وَتُفْ وَقَعُوا فِی رَجُلٍ لَہُ عَشْرٌ، وَقَعُوا فِی رَجُلٍ قَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا یُخْزِیہِ اللّٰہُ أَبَدًا، یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ۔)) قَالَ: فَاسْتَشْرَفَ لَہَا مَنِ اسْتَشْرَفَ، قَالَ: ((أَیْنَ عَلِیٌّ؟)) قَالُوْا: ہُوَ فِی الرَّحْلِ یَطْحَنُ، قَالَ: وَمَا کَانَ أَحَدُکُمْ لِیَطْحَنَ، قَالَ: فَجَائَ وَہُوَ أَرْمَدُ لَا یَکَادُیُبْصِرُ، قَالَ: فَنَفَثَ فِی عَیْنَیْہِ ثُمَّ ہَزَّ الرَّایَۃَ ثَلَاثًا فَأَعْطَاہَا إِیَّاہُ، فَجَائَ بِصَفِیَّۃَ بِنْتِ حُیَیٍّ، قَالَ: ثُمَّ بَعَثَ فُلَانًا بِسُورَۃِ التَّوْبَۃِ، فَبَعَثَ عَلِیًّا خَلْفَہُ فَأَخَذَہَا مِنْہُ، قَالَ: ((لَا یَذْہَبُ بِہَا إِلَّا رَجُلٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ۔)) قَالَ: وَقَالَ لِبَنِی عَمِّہِ: ((أَیُّکُمْیُوَالِینِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ؟)) قَالَ: وَعَلِیٌّ مَعَہُ جَالِسٌ فَأَبَوْا فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أُوَالِیکَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، قَالَ: ((أَنْتَ وَلِیِّی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) قَالَ: فَتَرَکَہُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلٰی رَجُلٍ مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((أَیُّکُمْیُوَالِینِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ؟)) فَأَبَوْا قَالَ: فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أُوَالِیکَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، فَقَالَ: ((أَنْتَ وَلِیِّی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) َقَالَ: وَکَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ خَدِیجَۃَ، قَالَ: وَأَخَذَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَوْبَہُ فَوَضَعَہُ عَلٰی عَلِیٍّ وَفَاطِمَۃَ وَحَسَنٍ وَحُسَیْنٍ فَقَالَ {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا} قَالَ: وَشَرٰی عَلِیٌّ نَفْسَہُ لَبِسَ ثَوْبَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَامَ مَکَانَہُ، قَالَ: وَکَانَ الْمُشْرِکُونَ یَرْمُونَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ وَعَلِیٌّ نَائِمٌ، قَالَ: وَأَبُو بَکْرٍ یَحْسَبُ أَنَّہُ نَبِیُّ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِ انْطَلَقَ نَحْوَ بِئْرِ مَیْمُونٍ فَأَدْرِکْہُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ فَدَخَلَ مَعَہُ الْغَارَ، قَالَ: وَجَعَلَ عَلِیٌّیُرْمٰی بِالْحِجَارَۃِ کَمَا کَانَ یُرْمٰی نَبِیُّ اللّٰہِ وَہُوَ یَتَضَوَّرُ قَدْ لَفَّ رَأْسَہُ فِی الثَّوْبِ لَا یُخْرِجُہُ حَتّٰی أَصْبَحَ، ثُمَّ کَشَفَ عَنْ رَأْسِہِ فَقَالُوْا: إِنَّکَ لَلَئِیمٌ کَانَ صَاحِبُکَ نَرْمِیہِ فَلَا یَتَضَوَّرُ، وَأَنْتَ تَتَضَوَّرُ، وَقَدِ اسْتَنْکَرْنَا ذٰلِکَ، قَالَ: وَخَرَجَ بِالنَّاسِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: أَخْرُجُ مَعَکَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ نَبِیُّ اللّٰہِ: ((لَا۔)) فَبَکٰی عَلِیٌّ، فَقَالَ لَہُ: ((أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسٰی إِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ، إِنَّہُ لَا یَنْبَغِی أَنْ أَذْہَبَ إِلَّا وَأَنْتَ خَلِیفَتِی)) قَالَ: وَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ: أَنْتَ ((وَلِیِّی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی۔)) وَقَالَ: ((سُدُّوا أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَیْرَ بَابِ عَلِیٍّ۔)) فَقَالَ: فَیَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا وَہُوَ طَرِیقُہُ لَیْسَ لَہُ طَرِیقٌ غَیْرُہُ، قَالَ: وَقَالَ: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَإِنَّ مَوْلَاہُ عَلِیٌّ۔)) قَالَ: وَأَخْبَرَنَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْقُرْآنِ أَنَّہُ قَدْ رَضِیَ عَنْہُمْ عَنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ، فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِہِمْ، ہَلْ حَدَّثَنَا أَنَّہُ سَخِطَ عَلَیْہِمْ بَعْدُ، قَالَ: وَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعُمَرَ حِینَ قَالَ: ائْذَنْ لِی فَلْأَضْرِبْ عُنُقَہُ، قَالَ: ((أَوَکُنْتَ فَاعِلًا، وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدِ اطَّلَعَ إِلٰی أَہْلِ ٔبَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ۔)) (مسند احمد: ۳۰۶۱)
عمرو بن میمون سے مروی ہے کہ میں سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی خدمت میںبیٹھا تھا کہ نو آدمی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوںنے کہا: اے ابو العباس! یا تو آپ اٹھ کر ہمارے ساتھ چلیں یا یہ لوگ اٹھ جائیں اور ہمیں خلوت دیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: میں تمہارے ساتھ اٹھ جاتا ہوں، عمر و بن میمون کہتے ہیں: ان دنوں سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما صحت مند تھے، یہ ان کے نابینا ہونے سے قبل کی بات ہے، عمرو کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے ابتداء کرتے ہوئے بات کی، ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کہا؟ کچھ دیر بعد سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے آگئے، وہ کہہ رہے تھے، ہائے افسوس یہ لوگ اس آدمی پر طعن و تشنیع کرتے ہیں، جسے دس امتیازات حاصل ہیں، یہ اس شخصیت پر معترض ہیں، جس کی بابت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: میں اب ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جسے اللہ کبھی ناکام نہیں کرے گا، وہ اللہ سے اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: آپ کی یہ بات سن کر بہت سے لوگوں نے گردنیں اوپر کو اٹھائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہاں ہیں؟ بتانے والے نے بتایا کہ وہ اپنے خیمے میںآٹا پیس رہے ہیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: اب تم میں سے کوئی آدمی یہ کام نہیں کرتا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں اور وہ دیکھ بھی نہ سکتے تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھو ںمیں لعاب ڈالا، پھر جھنڈے کو تین بار لہرا کر ان کے حوالے کیا، وہ فتح یاب واپس ہوئے اور قیدیوں میں صفیہ بنت حیی بھی تھیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فلاں آدمی کو سورۃ التوبہ دے کر روانہ کیا، اس کے بعد علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کے پیچھے روانہ فرمایا، انہوں نے جا کر اس سے سورۃ التوبہ لے لی، اور آپ نے فرمایا تھا اس سورت کو ایسا آدمی لے جائے، تو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی برادری سے فرمایا تھا کہ تم میں سے کون ہے جو دنیا اور آخرت میں میرا ساتھ دے اور میرے ساتھ رہے؟ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہیں بیٹھے تھے، لوگوں نے انکار کیا تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا میں دنیا اور آخرت میں آپ کے ساتھ رہوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا اور آخرت میں تم میرے ساتھ ہی ہو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہیں چھوڑ کر دوسرے آدمی کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا تم میں سے کون دنیا اور آخرت میں میرا ساتھ دے گا؟ لوگوں نے انکار کیا تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا میں دنیا اور آخرت میں آپ کے ساتھ رہوں گا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے ساتھی ہو، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا کہ سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بعد انہوں نے ہی سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا کپڑا چادر لے کر علی، فاطمہ، حسن اور حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے اوپر ڈال دی اور فرمایا: {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا}… اللہ تعالیٰ تو صرف یہ ارادہ کرتا ہے کہ اے اہل بیت ! تم سے پلیدی دور کر دیں اور تمہیں مکمل طور پر پاک کر دیں۔ (سورۂ احزاب: ۳۳) اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے اپنی جان کا نذرانہ یوں پیش کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا لباس زیب تن کر کے ان کی جگہ پر سوگئے، اور مشرکین رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتھر مار رہے تھے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سوئے ہوئے تھے، انہوںنے سمجھا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں، انہوں نے کہا، اے اللہ کے نبی! تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اللہ کے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو بئر میمون ایک کنویں کا نام ہے، کی طرف تشریف لے گئے ہیں، آپ بھی ان کے پاس چلے جائیں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی پیچھے پہنچ گئے، ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ساتھ چلے اور آپ کے ہم راہ غار میں جا داخل ہوئے، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی اسی طرح پتھر مارے گئے جیسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مارے جاتے تھے، اور وہ کپڑے ہی میں کپڑے کے نیچے ہی الٹ پلٹ رہے تھے انہوں نے اپنا سر کپڑے میں اچھی طرح چھپا لیا، سر کو باہر نہ نکالتے تھے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، اس کے بعد انہوں نے اپنے سر سے کپڑا ہٹایا، تو مشرکین نے کہا تم بڑے ذلیل ہو، ہم تمہارے ساتھی کو پتھر مارتے تھے تو وہ اس طرح الٹتے پلٹتے نہ تھے اور تم تو پتھر لگنے پر الٹے سیدھے ہوتے تھے، اور ہمیں یہ بات کچھ عجیب سی لگتی تھی، اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کو ساتھ لیے تبو ک کی طرف روانہ ہوئے، تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں بھی آپ کے ہمراہ جاؤں گا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انکار کردیا تو وہ رونے لگے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہی تعلق ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کا تھا، فرق صرف اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو، میں جاؤں تو تم میرے خلیفہ نائب کی حیثیت سے یہاں رہو، اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا تھا میرے بعد تم ہر مومن کے دوست ہو، نیز فرمایا تھا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دروازے کو چھوڑ کر باقی تم سب لوگ اپنے اپنے دروازے بند کردو،تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جنابت کی حالت میں بھی مسجد میں داخل ہوجاتے تھے، کیونکہ ان کا ا س کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا، نیز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کا میں دوست ہوں علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کا دوست ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن میں بتلایا کہ کہ وہ اصحاب الشجرہ یعنی صلح حدیبیہ کے موقعہ پر درخت کے نیچے رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں سے راضی ہے، اور ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ تھا اللہ اس سے بھی واقف ہے، کیا اللہ نے اس کے بعد کسی موقعہ پر فرمایا کہ اب وہ ان سے ناراض ہے؟ نیز جب عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک شخص حاطب بن ابی بلقعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں کہا اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑادوں تو اللہ کے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: کیا تم ایسا کرو گے، تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر ڈالی اور فرمایا اب تم جو چاہو کرتے رہو، تمہارا مؤ اخذہ نہیں ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12292

۔ (۱۲۲۹۲)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ اشْتَکَی عَلِیًّا النَّاسُ، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِینَا خَطِیبًا فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((أَیُّہَا النَّاسُ لَا تَشْکُوا عَلِیًّا، فَوَاللّٰہِ! إِنَّہُ لَأُخَیْشِنٌ فِی ذَاتِ اللّٰہِ أَوْ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۸۳۹)
سیدنا ابو سعد خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں شکایتیں کیں، سو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! تم علی کے شکوے مت کیا کرو، وہ اللہ کی ذات کے بارے میں یا اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہت سخت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12293

۔ (۱۲۲۹۳)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شَأْسٍ الْأَسْلَمِیِّ، قَالَ: وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَیْبِیَۃِ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَلِیٍّ إِلَی الْیَمَنِ فَجَفَانِی فِی سَفَرِی ذٰلِکَ حَتّٰی وَجَدْتُ فِی نَفْسِی عَلَیْہِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ أَظْہَرْتُ شِکَایَتَہُ فِی الْمَسْجِدِ حَتّٰی بَلَغَ ذٰلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ ذَاتَ غُدْوَۃٍ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِہِ، فَلَمَّا رَآنِی أَمَدَّنِی عَیْنَیْہِیَقُولُ: حَدَّدَ إِلَیَّ النَّظَرَ حَتّٰی إِذَا جَلَسْتُ قَالَ: ((یَا عَمْرُو وَاللّٰہِ لَقَدْ آذَیْتَنِی۔)) قُلْتُ: أَعُوذُ بِاللّٰہِ أَنْ أُوذِیَکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((بَلٰی مَنْ آذٰی عَلِیًّا فَقَدْ آذَانِی۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۵۶)
سیدنا عمر و بن شاس اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ اصحابِ حدیبیہ میں سے تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں یمن کی جانب گیا، دوران سفر انہوں نے میرے ساتھ کچھ سختی کی، اس سے مجھے دل میں بہت کوفت ہوئی، جب میں واپس آیا تو میں نے اعلانیہ مسجد میں ان کا شکوہ کردیا، یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچ گئی، میں ایک دن صبح کے وقت مسجد میں داخل ہو ا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کے ہمراہ تشریف فرما تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نظریں مجھ پر گاڑھ دیں، پھر میں بیٹھ گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عمرو! اللہ کی قسم! تو نے مجھے تکلیف دی ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ آپ کو ایذا پہنچاؤں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، جس نے علی کو ایذا دی، اس نے درحقیقت مجھے تکلیف پہنچائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12294

۔ (۱۲۲۹۴)۔ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ حُبْشِیِّ بْنِ جُنَادَۃَ، قَالَ یَحْیَی بْنُ آدَمَ: السَّلُولِیُّ،ٔ وَکَانَ قَدْ شَہِدَ یَوْمَ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((عَلِیٌّ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ، وَلَا یُؤَدِّی عَنِّی إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِیٌّ۔)) وَقَالَ ابْنُ أَبِی بُکَیْرٍ: ((لَا یَقْضِی عَنِّی دَیْنِی إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ۔)) (مسند احمد: ۱۷۶۴۵)
سیدنا یحییٰ بن آدم سلولی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حاضرتھے، سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، میری طرف سے ادائیگی یا تو میں خود کروں گا، یا علی کرے گا۔ ابن ابی بکیر کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: میرا قرضہ میں خود ادا کروں گا یا میری طرف سے علی ادا کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12295

۔ (۱۲۲۹۵)۔ وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ لِعَلِیٍّ: ((لَا یُبْغِضُکَ مُؤْمِنٌ وَلَا یُحِبُّکَ مُنَافِقٌ۔)) (مسند احمد: ۲۷۰۴۰)
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: کوئی مومن تجھ سے بغض نہیں رکھ سکتا اور کوئی منافق تجھ سے محبت نہیںکر سکتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12296

۔ (۱۲۲۹۶)۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللّٰہِ الْجَدَلِیِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ، فَقَالَتْ لِی: أَیُسَبُّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیکُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ اللّٰہِ، أَوْ سُبْحَانَ اللّٰہِ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ سَبَّ عَلِیًّا فَقَدْ سَبَّنِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۷۲۸۴)
ابو عبداللہ جدلی کہتے ہیں: میں سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تمہارے ہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو برا بھلا کہا جا رہا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی پناہ، یا کہا: سبحان اللہ! بڑا تعجب ہے، یا اسی قسم کا کوئی کلمہ کہا، (یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو برا بھلا کہا جائے) انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جس نے علی کو برا بھلا کہا، اس نے یقینا مجھے برا بھلا کہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12297

۔ (۱۲۲۹۶)۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللّٰہِ الْجَدَلِیِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ، فَقَالَتْ لِی: أَیُسَبُّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیکُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ اللّٰہِ، أَوْ سُبْحَانَ اللّٰہِ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ سَبَّ عَلِیًّا فَقَدْ سَبَّنِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۷۲۸۴)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے خصوصی طور پر جو باتیں بیان کی، ان میں سے ایک یہ تھی: مجھ سے بغض صرف منافق رکھے گا اور مجھ سے محبت صرف مومن کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12298

۔ (۱۲۲۹۸)۔ عَنِ الْمِنْہَالِ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَسَدِیِّ، عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ {وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ} قَالَ: جَمَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ فَاجْتَمَعَ ثَلَاثُونَ فَأَکَلُوْا وَشَرِبُوْا، قَالَ: فَقَالَ لَہُمْ: ((مَنْ یَضْمَنُ عَنِّی دَیْنِی، وَمَوَاعِیدِی، وَیَکُونُ مَعِی فِی الْجَنَّۃِ، وَیَکُونُ خَلِیفَتِی فِی أَہْلِی۔)) فَقَالَ رَجُلٌ: لَمْ یُسَمِّہِ شَرِیکٌ،یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنْتَ کُنْتَ بَحْرًا مَنْ یَقُومُ بِہٰذَا؟ قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِاٰخَرَ: قَالَ: فَعَرَضَ ذٰلِکَ عَلٰی أَہْلِ بَیْتِہِ، فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَنَا۔ (مسند احمد: ۸۸۳)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب یہ آیت {وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ} … اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ نازل ہوئی، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا، تیس آدمی جمع ہو گئے، انہوںنے کھایا پیا، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم میں سے کون ہے، جو میرے قرض کی ادائیگی اور میرے وعدوں کو پورا کرنے کی ضمانت دے گا، اس کے نتیجہ میں وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا اور میرے اہل میں میرا خلیفہ ہوگا؟ ایک آدمی نے جواباً کہا: اللہ کے رسول! آپ تو سمندر ہیں، کون ان ذمہ داریوں کو ادا کر سکتا ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی اور کو بھی یہ بات کہی پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہی بات جب اپنے اہل بیت پر پیش کی تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں اس کی ضمانت دیتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12299

۔ (۱۲۲۹۹)۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَوَّلُ مَنْ صَلّٰی مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ خَدِیْجَۃَ عَلِیٌّ، وَقَالَ مَرَّۃً: اَسْلَمَ۔ (مسند احمد: ۳۵۴۲)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بعد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ سب سے پہلے نماز پڑھنے والے یا ان کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12300

۔ (۱۲۲۹۹)۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَوَّلُ مَنْ صَلّٰی مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ خَدِیْجَۃَ عَلِیٌّ، وَقَالَ مَرَّۃً: اَسْلَمَ۔ (مسند احمد: ۳۵۴۲)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانہ میں کہا کرتے تھے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب لوگوں سے افضل ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں اور سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو تین ایسی خصوصیات نصیب ہوئی ہیں کہ اگر مجھے ان میں سے کوئی ایک مل جاتی تووہ مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہوتی، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیٹی کی ان سے شادی کی،ان سے ان کی اولاد ہوئی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے دروازے کے علاوہ مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر وادئیے اور خیبر کے روز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں جھنڈا عطا فرمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12301

۔ (۱۲۳۰۱)۔ وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الرَّقِیْمِ الْکِنَانِیِّ، قَالَ: خَرَجْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ زَمْنَ الْجَمَلِ، فَلَقِیْنَا سَعْدَ بْنَ مَالِکٍ بِہَا فَقَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَدِّ الْأَبْوَابِ الشَّارِعَۃِ فِی الْمَسْجِدِ وَتَرْکِ بَابِ عَلِیٍّ۔ (مسند احمد: ۱۵۱۱)
عبد اللہ بن رقیم کنانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:جنگ جمل کے دنوںمیں ہم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے اور سیدنا سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہماری ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں، البتہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا دروازہ کھلا رہنے دیا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12302

۔ (۱۲۳۰۲)۔ عَنْ أَبِی حَسَّانَ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یَأْمُرُ بِالْأَمْرِ فَیُؤْتٰی، فَیُقَالُ: قَدْ فَعَلْنَا کَذَا وَکَذَا، فَیَقُولُ: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ الْأَشْتَرُ: إِنَّ ہٰذَا الَّذِی تَقُولُ قَدْ تَفَشَّغَ فِی النَّاسِ أَفَشَیْئٌ عَہِدَہُ إِلَیْکَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: مَا عَہِدَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا خَاصَّۃً دُونَ النَّاسِ إِلَّا شَیْئٌ سَمِعْتُہُ مِنْہُ، فَہُوَ فِی صَحِیفَۃٍ فِی قِرَابِ سَیْفِی، قَالَ: فَلَمْ یَزَالُوا بِہِ حَتَّی أَخْرَجَ الصَّحِیفَۃَ، قَالَ: فَإِذَا فِیہَا ((مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوٰی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، لَا یُقْبَلُ مِنْہُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ، قَالَ: وَإِذَا فِیہَا إِنَّ إِبْرَاہِیمَ حَرَّمَ مَکَّۃَ وَإِنِّی أُحَرِّمُ الْمَدِینَۃَ حَرَامٌ مَا بَیْنَ حَرَّتَیْھَا وَحِمَاھَا کُلُّہُ لَا یُخْتَلٰی خَلَاھَا وَلَا یُنَفَّرُ صَیْدُھَا وَلَا تُلْتَقَطُ لُقْطَتُھَا اِلاَّ لِمَنْ اَشَارَبِھَا وَلَا تُقْطَعُ مِنْھَا شَجَرَۃٌ اِلاَّ اَنْ یَعْلِفَ رَجُلٌ بَعِیْرَہٗ وَبُجْمَلُ فِیْھَا السِّلَاحُ لِقِتَالٍ وَقَالَ وَاِذَا فِیْھَا الْمُوْمِنُوْنَ تَتَکاَفَؤُ دِمَائَ ہُمْ وَیَسْعٰی بِذِمَّتِھِمْ اَدْنَاھُمْ وَہُمْ یَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاہُمْ اَلَا لَا یُقْتَلُ مُوْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَھْدِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۹۵۹)
ابو حسان سے روایت ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کسی کا م کا حکم دیتے تو لوگ وہ کام کر لینے کے بعد آ کر کہتے کہ ہم نے وہ کام کر لیا، یہ سن کر وہ کہتے: اللہ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سچ فرمایا ہے، اشتر نے ان سے کہا: آپ کی یہ بات اب لوگوں میں عام ہوچکی ہے، اگر اللہ کے رسول نے آپ سے کچھ فرمایا ہوتو اسے بیان کردیا کریں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عام لوگوں سے ہٹ کر مجھے خاص کر کے کچھ نہیں فرمایا، البتہ صرف ایک بات ہے جو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے اور وہ میری تلوار کے نیام میں لکھی ہوئی موجود ہے، لوگ اس کا اصرار کرتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے وہ تحریر نکال دی، اس میں لکھا تھا کہ جو شخص بدعت جاری کر ے یا بدعتی کو پناہ دے تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کی فرضی اور نفلی عبادت قبول نہیں ہوگی۔ اور اس میں یہ بات بھی لکھی ہوئی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا تھا اور میں مدینہ منورہ کوحرم قرار دیتا ہوں اس کے دو میدانوں کے درمیان والا سارا علاقہ حرام ہے۔ اس کی چراگاہ کی گھاس نہ کاٹی جائے اس کے شکار کو بھگایا نہ جائے۔ اس کی گری ہوئی چیز کوئی نہ اٹھائے مگر اس کا اعلان کرنے والا۔ (وہ اٹھا سکتا ہے اس کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے۔ ہاں آدمی اپنے اونٹ کو پتے ڈال سکتا ہے۔ لڑائی کے لیے اس میں ہتھیار نہ اٹھایا جائے۔ اس صحیفہ میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔ ان میں ادنیٰ آدمی کسی کو پناہ دے سکتا۔ وہ کافروں کے خلاف ایک ہاتھ کی طرح اکٹھے اور جماعت ہیں۔ مومن کو کافر کے بدلے میں اور ذمی کو اس کے عہد و پیمان کے دوران قتل نہیں کیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12303

۔ (۱۲۳۰۳)۔ عَنْ مَیْمُونٍ أَبِی عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ زَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ وَأَنَا أَسْمَعُ: نَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِوَادٍ یُقَالُ لَہُ وَادِی خُمٍّ، فَأَمَرَ بِالصَّلَاۃِ فَصَلَّاہَا بِہَجِیرٍ، قَالَ: فَخَطَبَنَا وَظُلِّلَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِثَوْبٍ عَلٰی شَجَرَۃِ سَمُرَۃٍ مِنَ الشَّمْسِ، فَقَالَ: ((أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَوَلَسْتُمْ تَشْہَدُونَ أَنِّی أَوْلٰی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِہِ۔)) قَالُوا: بَلٰی، قَالَ: ((فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَإِنَّ عَلِیًّا مَوْلَاہُ، اَللّٰہُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاہُ وَوَالِ مَنْ وَالَاہُ۔))(مسند احمد: ۱۹۵۴۰)
سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ساتھ ایک وادی میں اترے، اس کو وادی خُم کہتے تھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں ظہر کی نماز پڑھائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور دھوپ سے بچانے کے لیے کیکر کے درخت پر کپڑا ڈال کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سایہ کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے نہیں ہو، یا کیا تم یہ گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کے اس کے نفس سے بھی زیادہ قریب ہوں؟ صحابہ نے کہا: جی کیوں نہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ! تو اس سے دشمنی رکھ، جو علی سے دشمنی رکھتا ہے اور تو اس کو دوست رکھ، جو علی کو دوست رکھتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12304

۔ (۱۲۳۰۴)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: اسْتَشْہَدَ عَلِیٌّ النَّاسَ، فَقَالَ: أَنْشُدُ اللّٰہَ رَجُلًا سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((اللَّہُمَّ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ، اللَّہُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ۔)) قَالَ: فَقَامَ سِتَّۃَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَہِدُوْا۔ (مسند احمد: ۲۳۵۳۱)
سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں سے گواہی طلب کی اور کہا: میں اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو بھی اسے اپنا دوست رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔ یہ سن کر سولہ آدمی کھڑے ہوئے اور انھوں نے یہ شہادت دی (کہ واقعی انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سنی ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12305

۔ (۱۲۳۰۵)۔ عَنْ رِیَاحِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: جَائَ رَہْطٌ إِلٰی عَلِیٍّ بالرَّحْبَۃِ، فَقَالُوْا: السَّلَامُ عَلَیْکَیَا مَوْلَانَا، قَالَ: کَیْفَ أَکُونُ مَوْلَاکُمْ وَأَنْتُمْ قَوْمٌ عَرَبٌ، قَالُوْا: سَمِعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ یَقُولُ: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَإِنَّ ہٰذَا مَوْلَاہُ)) قَالَ رِیَاحٌ: فَلَمَّا مَضَوْا تَبِعْتُہُمْ فَسَأَلْتُ مَنْ ہٰؤُلَائِ؟ قَالُوْا: نَفَرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فِیہِمْ أَبُو أَیُّوبَ الْأَنْصَارِیُّ۔ (مسند احمد: ۲۳۹۵۹) (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: رَاَیْتُ قَوْمًا مِنَ الْاَنْصَارِ قَدِمُوْا عَلٰی عَلِیٍّ فِی الرَّحْبَۃِ، فَقَالَ: مَنِ الْقَوْمُ؟ قَالَ: مَوَالِیْکَ اَیْ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، فَذَ کَرَ مَعْنَاہٗ، (مسنداحمد: ۲۳۹۶۰)
ریاح بن حارث سے مروی ہے کہ لوگوں کی ایک جماعت رحبہ کے مقام پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئی اور انھوں نے کہا: اے ہمارے مولی! تم پر سلامتی ہو، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تمہارا مولیٰ کیسے ہوسکتا ہوں، تم تو عرب قوم ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم نے غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سنا تھا کہ میں جس کا مولیٰ ہوں، یہ علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔ ریاح کہتے ہیں: جب وہ لوگ چلے گئے تو میں ان کے پیچھے ہولیا اور میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ انصاری لوگ ہیں، ان میں سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12306

۔ (۱۲۳۰۶)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی لَیْلٰی قَالَ: شَہِدْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الرَّحَبَۃِیَنْشُدُ النَّاسَ، أَنْشُدُ اللّٰہَ مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُیَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔)) لَمَا قَامَ فَشَہِدَ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ: فَقَامَ اثْنَا عَشَرَ بَدْرِیًّا، کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلٰی أَحَدِہِمْ فَقَالُوْا: نَشْہَدُ أَنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُیَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ: ((أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ، وَأَزْوَاجِی أُمَّہَاتُہُمْ؟)) فَقُلْنَا: بَلٰی،یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ، اللَّہُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ۔)) (مسند احمد: ۹۶۱)
۔ (دوسری سند) ریاح کہتے ہیں: میں نے انصاریوں کی ایک جماعت دیکھی، وہ رحبہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟انہوں نے کہا، اے امیر المومنین! ہم آپ کے دوست ہیں، پھر مذکورہ حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12307

۔ (۱۲۳۰۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) أَنَّہُ شَہِدَ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الرَّحَبَۃِ، قَالَ: أَنْشُدُ اللّٰہَ رَجُلًا سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَشَہِدَہُ یَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ إِلَّا قَامَ، وَلَا یَقُومُ إِلَّا مَنْ قَدْ رَآہُ فَقَامَ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا، فَقَالُوْا: قَدْ رَأَیْنَاہُ وَسَمِعْنَاہُ حَیْثُ أَخَذَ بِیَدِہِیَقُولُ: ((اَللّٰہُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ، وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَہُ، وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ۔)) فَقَامَ إِلَّا ثَلَاثَۃٌ لَمْ یَقُومُوْا فَدَعَا عَلَیْہِمْ فَأَصَابَتْہُمْ دَعْوَتُہُ۔ (مسند احمد: ۹۶۴)
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رحبہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں حاضر تھا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہہ رہے تھے: میں اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، جس نے غدیر خم والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے۔ وہ اٹھ کر گواہی دے، یہ بات سن کر بارہ بدری صحابہ کھڑے ہوئیـ، وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے، گویا میں ان میں سے ہر ایک کو دیکھ رہا ہوں، ان سب نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے غدیر خم کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کیا میں مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ اور کیا میری ازواج ان کی مائیں نہیں ہیں؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! بالکل بات ایسے ہی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میںجس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ! تو اس آدمی کو دوست رکھ، جو علی کو دوست رکھتا ہے اور جو اس سے عداوت رکھے، تو بھی اس سے عداوت رکھ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12308

۔ (۱۲۳۰۸)۔ عَنْ زَاذَانَ أَبِی عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا فِی الرَّحْبَۃِ، وَہُوَ یَنْشُدُ النَّاسَ مَنْ شَہِدَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ؟ وَہُوَ یَقُولُ مَا قَالَ فَقَامَ ثَلَاثَۃَ عَشَرَ رَجُلًا، فَشَہِدُوا أَنَّہُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَقُولُ: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔)) (مسند احمد: ۶۴۱)
۔ (دوسری سند) عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رحبہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس موجود تھا، انھوں نے کہا: میں اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جو غدیر خم والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، وہ کھڑا ہو جائے، یہ بات سن کر بارہ آدمی کھڑے ہو گئے، سب نے کہا:ہم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا ہاتھ بھی پکڑا ہوا تھا: یا اللہ! جو اس علی سے دوستی رکھے تو بھی اسے اپنا دوست رکھ، جو اس سے عداوت رکھے تو بھی ا س سے عداوت رکھ، جو اس کی مدد کرے تو بھی ا س کی مدد کر اور جو اسے چھوڑ جائے تو بھی اسے چھوڑ دے۔ صرف تین آدمی نہیں اٹھے تھے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان پر بددعا کی اور ان کی بددعاان کو لگ گئی تھی۔ ابو عمر زاذان کہتے ہیں:میں نے رحبہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، وہ لوگوں کو اللہ کا واسطہ دے کر کہہ رہے تھے کہ جو آدمی غدیر خم کے روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر تھا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرما رہے تھے جو آپ نے فرمایا (جواب سے آپ کے اس فرمان کی سمجھ آرہی ہے) پس تیرہ آدمی کھڑے ہو گئے اور انھوں نے یہ گواہی دی کہ انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12309

۔ (۱۲۳۰۹)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ وَہْبٍ، وَعَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ قَالَا: نَشَدَ عَلِیٌّ النَّاسَ فِی الرَّحَبَۃِ مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُیَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ إِلَّا قَامَ، قَالَ: فَقَامَ مِنْ قِبَلِ سَعِیدٍ سِتَّۃٌ، وَمِنْ قِبَلِ زَیْدٍ سِتَّۃٌ، فَشَہِدُوْا أَنَّہُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ: ((أَلَیْسَ اللّٰہُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِینَ؟)) قَالُوْا: بَلٰی، قَالَ: ((اللّٰہُمَّ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ، اللَّہُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ۔)) (مسند احمد: ۹۵۰)
سعید بن وہب اور زیدبن یثیع کہتے ہیں: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رحبہ میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہا کہ جس کسی نے غدیر خم کے روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، وہ اٹھ کر کھڑا ہوجائے، پس سعید کی طرف سے چھ اور زید کی جانب سے بھی چھ آدمی کھڑے ہو گئے اور ان سب نے گواہی دی کہ انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غدیر خم کے روز سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے متعلق فرماتے ہوئے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا مومنین پر اللہ کا حق زیادہ نہیں؟ صحابہ نے کہا: جی بالکل، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، یا اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12310

۔ (۱۲۳۱۰)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَکِیْمٍ، اَنْبَاَنَا شَرِیْکٌ، عَنْ اَبِیْ اِسْحٰقَ، عَنْ عَمْرٍو مَرَّ بِمِثْلِ حَدِیْثِ اَبِیْ اِسْحٰقَ یَعْنِیْ عَنْ سَعِیْدٍ وَزَیْدٍ وَزَادَ فِیْہِ: ((وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَہٗوَاخْذُلْمَنْخَذَلَہٗ۔)) (مسنداحمد: ۹۵۱)
سعید اور زید یہ بھی روایت کرتے ہیں، اس میں یہ الفاظ زائد ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! جو علی کی مدد کرے، تو بھی اس کی مدد کر اور جو اس کو چھوڑ دے، تو بھی اس کو چھوڑ دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12311

۔ (۱۲۳۱۱)۔ وَعَنْ سَعِیْدِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ: نَشَدَ عَلِیُّ نِ النَّاسَ، فَقَامَ خَمْسَۃٌ اَوْ سِتَّۃٌ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَشَہِدُوْا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہٗفَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۴۹۵)
سعید بن وہب سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں کو اللہ کا واسطہ دیا، توپانچ چھ صحابہ کھڑے ہوئے اور انھوں نے یہ گواہی دی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12312

۔ (۱۲۳۱۲)۔ وَعَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ: قُلْتُ لِسَعْدِ بْنِ مَالِکٍ: إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْ حَدِیثٍ، وَأَنَا أَہَابُکَ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْہُ، فَقَالَ: لَا تَفْعَلْ یَا ابْنَ أَخِی! إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ عِنْدِی عِلْمًا فَسَلْنِی عَنْہُ وَلَا تَہَبْنِی، قَالَ: فَقُلْتُ: قَوْلُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ حِینَ خَلَّفَہُ بِالْمَدِینَۃِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَقَالَ سَعْدٌ: خَلَّفَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا بِالْمَدِینَۃِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتُخَلِّفُنِی فِی الْخَالِفَۃِ فِی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ: ((أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسٰی؟)) قَالَ: بَلٰی،یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: فَأَدْبَرَ عَلِیٌّ مُسْرِعًا کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلٰی غُبَارِ قَدَمَیْہِیَسْطَعُ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: فَرَجَعَ عَلِیٌّ مُسْرِعًا۔ (مسند احمد: ۱۴۹۰)
سعید بن مسیب ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سعد بن مالک یعنی سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: میں آپ سے ایک حدیث کی بابت دریافت کرنا چاہتا ہوں، لیکن آپ سے ہیبت زدہ بھی ہوں،انہوں نے کہا: بھتیجے! ایسا نہ کرو، اگر تم جانتے ہو کہ میرے پا س کسی چیز کا علم ہے تو پوچھ لو اور مجھ سے مت ڈرو، میں نے کہا: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ تبوک کے موقع پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیچھے مدینہ ـمیں چھوڑ گئے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیچھے مدینہ میں چھوڑا تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے پیچھے رہ جانے والے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہی تعلق ہو جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسو ل! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خوشی خوشی تیزی سے واپس ہوگئے، گویا کہ اب بھی میں ان کے قدموں سے اڑتا غبار دیکھ رہا ہوں۔ حماد راوی کے الفاظ یہ ہیں:یہ سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تیزی سے واپس ہولیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12313

۔ (۱۲۳۱۳)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ آخَرَ) اَنَّ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ خَرَجَ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی جَائَ ثَنِیَّۃَ الْوَادَع وَعَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَبْکِیْیَقُوْلُ: تُخَلِّفُنِیْ مَعَ الْخَوَالِفِ، فَقَالَ: ((اَوَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھٰرُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا النُّبُوَّۃَ؟)) (مسند احمد: ۱۴۶۳)
۔ (دوسری سند) سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ نکلے ،یہاں تک کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثنیۂ وداع تک پہنچے تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے روتے ہوئے کہا: آپ مجھے پیچھے رہ جانے والوں یعنی عورتوں اور بچوں میں چھوڑ ے جارہے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ تمہارا میرے ساتھ وہی تعلق ہو، جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا، ما سوائے نبوت کے فرق کے؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12314

۔ (۱۲۳۱۴)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: لَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُخَلِّفَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ لَہُ عَلِیٌّ: مَا یَقُولُ النَّاسُ فِیَّ إِذَا خَلَّفْتَنِی؟ قَالَ: فَقَالَ: ((مَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسٰی إِلَّا أَنَّہُ لَیْسَ بَعْدِی نَبِیٌّ، أَوْ لَا یَکُونُ بَعْدِی نَبِیٌّ۔)) (مسند احمد: ۱۴۶۹۳)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ (غزوۂ تبوک کے موقع پر ) جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیچھے چھوڑ جانے کا ارادہ کیا تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ مجھے یوں پیچھے چھوڑ جائیں گے تو لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیاتمہیںیہ پسند نہیں کہ تمہارا تعلق میرے ساتھ وہی ہو، جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کا تھا، الایہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12315

۔ (۱۲۳۱۵)۔ عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی فَاطِمَۃَ بِنْتِ عَلِیٍّ فَقَالَ لَہَا رَفِیقِی أَبُو سَہْلٍ: کَمْ لَکِ؟ قَالَتْ: سِتَّۃٌ وَثَمَانُونَ سَنَۃً، قَالَ: مَا سَمِعْتِ مِنْ أَبِیکِ شَیْئًا؟ قَالَتْ: حَدَّثَتْنِی أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَیْسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِعَلِیٍّ: ((أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسٰی إِلَّا أَنَّہُ لَیْسَ بَعْدِی نَبِیٌّ۔)) (مسند احمد: ۲۷۶۲۱)
موسیٰ جہنی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں فاطمہ بنت علی کی خدمت میں گیا،میرے رفیق ابو سہل نے ان سے کہا: آپ کی عمر کتنی ہے؟ انہوںنے کہا: چھیاسی برس، ابو سہل نے کہا: آپ نے اپنے والد (سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کے بارے میں کیا کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تمہارا مجھ سے وہی مقام ہے، جو ہارون علیہ السلام کا موسی علیہ السلام سے تھا، الایہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12316

۔ (۱۲۳۱۶)۔ عَنْ أَبِی حَازِمٍ، أَخْبَرَنِی سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ: ((لَأُعْطِیَنَّ ہٰذِہِ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلَییَدَیْہِ،یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔)) قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوکُونَ لَیْلَتَہُمْ أَیُّہُمْیُعْطَاہَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کُلُّہُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاہَا، فَقَالَ: (أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ؟)) فَقَالَ: ہُوَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! یَشْتَکِی عَیْنَیْہِ، قَالَ: فَأَرْسِلُوا إِلَیْہِ، فَأُتِیَ بِہِ، فَبَصَقَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عَیْنَیْہِ، وَدَعَا لَہُ فَبَرَأَ حَتّٰی کَأَنْ لَمْ یَکُنْ بِہِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ، فَقَالَ عَلِیٌّ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُقَاتِلُہُمْ حَتّٰییَکُونُوا مِثْلَنَا، فَقَالَ: ((انْفُذْ عَلٰی رِسْلِکَ حَتّٰی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْہُمْ بِمَا یَجِبُ عَلَیْہِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ فِیہِ، فَوَاللّٰہِ لَأَنْ یَہْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ یَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۲۰۹)
سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبروالے دن فرمایا: میں کل یہ جھنڈا ایک ایسے آدمی کو تھماؤں گا، جس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گاوہ آدمی اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ لوگ ساری رات اسی شش و پنج میں رہے کہ ان میں سے کسے یہ جھنڈا دیا جائے گا؟ صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہر ایک کو توقع تھی کہ جھنڈا اسے ملے گا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول! ان کی آنکھیں دکھتی ہیں، لوگوں کو انہیں لانے کے لیے بھیجا گیا، جب ان کو لایا گیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب لگایا اور ان کے حق میں دعا فرمائی، وہ فوراً یوں ٹھیک ہوگئے کہ گویا انہیں کوئی تکلیف نہ تھی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں جھنڈا تھما دیا، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول!ـ میں ان کے ساتھ اس وقت تک قتال کرتا رہوں، یہاں تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان ہو جائیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اطمینان کے ساتھ روانہ ہو جاؤ، یہاں تک کہ ان کے سامنے جا پہنچو، تم سب سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دینا اور انہیں بتلانا کہ اسلام میں ان پر اللہ کے فلاں فلاں حق واجب ہیں، اللہ کی قسم! اگر تیرے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو یہ تیرے لیے بیش قیمت سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12317

۔ (۱۲۳۱۷)۔ حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِی الْحُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ، حَدَّثَنِی أَبِی بُرَیْدَۃُ: قَالَ: حَاصَرْنَا خَیْبَرَ فَأَخَذَ اللِّوَائَ أَبُو بَکْرٍ فَانْصَرَفَ وَلَمْ یُفْتَحْ لَہُ، ثُمَّ أَخَذَہُ مِنْ الْغَدِ فَخَرَجَ فَرَجَعَ وَلَمْ یُفْتَحْ لَہُ، وَأَصَابَ النَّاسَ یَوْمَئِذٍ شِدَّۃٌ وَجَہْدٌ، فقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنِّی دَافِعٌ اللِّوَائَ غَدًا إِلٰی رَجُلٍ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، وَیُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، لَا یَرْجِعُ حَتّٰییُفْتَحَ لَہُ۔)) فَبِتْنَا طَیِّبَۃً أَنْفُسُنَا أَنَّ الْفَتْحَ غَدًا، فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلَّی الْغَدَاۃَ ثُمَّ قَامَ قَائِمًا فَدَعَا بِاللِّوَائِ، وَالنَّاسُ عَلٰی مَصَافِّہِمْ، فَدَعَا عَلِیًّا وَہُوَ أَرْمَدُ، فَتَفَلَ فِی عَیْنَیْہِ، وَدَفَعَ إِلَیْہِ اللِّوَائَ، وَفُتِحَ لَہُ، قَالَ بُرَیْدَۃُ: وَأَنَا فِیمَنْ تَطَاوَلَ لَہَا۔ (مسند احمد: ۲۳۳۸۱)
سیدنابریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا، جھنڈا سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ میں تھا، وہ واپس آ گئے اور فتح نہیں ہوئی، دوسرے دن پھر جھنڈا ان ہی کے پاس رہا، اس دن بھی وہ لوٹ آئے اور فتح نہ ہو سکی، اس روز لوگوں کو کافی تکلیف اور مشقت کا سامنا کرنا پڑا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کل یہ جھنڈا ایسے آدمی کے حوالے کروں گا کہ اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، و ہ فتح کے بغیر واپس نہیں آئے گا۔ ہم نے خوشی خوشی میں رات گزاری کہ کل فتح ہو جائے گی، جب صبح کے وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جھنڈا منگوایا، لوگ صفوں میں بیٹھے رہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلوایا، ان کی آنکھیں دکھتی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب مبارک لگایا اور جھنڈا ان کے حوالے کیا، ان کے ہاتھوں فتح نصیب ہوئی۔ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جھنڈا حاصل کرنے کی خواہش میں جن لوگوں نے گردنیں اٹھائی ہوئی تھیں، میں بھی انہی میںشامل تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12318

۔ (۱۲۳۱۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّیَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الرَّایَۃَ فَہَزَّہَا، ثُمَّ قَالَ: ((مَنْ یَأْخُذُہَا بِحَقِّہَا؟)) فَجَائَ فُلَانٌ فَقَالَ: أَنَا، قَالَ: ((أَمِطْ۔)) ثُمَّ جَائَ رَجُلٌ، فَقَالَ: ((أَمِطْ۔)) ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((وَالَّذِی کَرَّمَ وَجْہَ مُحَمَّدٍ لَأُعْطِیَنَّہَا رَجُلًا لَا یَفِرُّ ہَاکَ، یَا عَلِیُّ!)) فَانْطَلَقَ حَتّٰی فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ خَیْبَرَ وَفَدَکَ، وَجَائَ بِعَجْوَتِہِمَا وَقَدِیدِہِمَا، قَالَ مُصْعَبٌ: بِعَجْوَتِہَا وَقَدِیدِہَا۔ (مسند احمد: ۱۱۱۳۹)
سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جھنڈا پکڑ کر لہرایا اور فرمایا: کون ہے جو اس جھنڈے کو لے کر اس کا حق ادا کرے گا؟ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: جی میں ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہٹ جاؤ۔ پھر ایک اور آدمی آیا ، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم بھی ہٹ جاؤ۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے کو عزت سے نوازا ہے، میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا، جو میدان جنگ سے فرار نہیں ہوگا، اے علی! یہ لو جھنڈا۔ چنانچہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جھنڈا تھامے روانہ ہو گئے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں خیبر اور فدک فتح کرا دیا اور وہ وہاں کی عجوہ نامی کھجور اور دھوپ میں خشک کیا ہوا گوشت لے کر واپس لوٹے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12319

۔ (۱۲۳۱۹)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی لَیْلٰی قَالَ: کَانَ أَبِییَسْمُرُ مَعَ عَلِیٍّ فَکَانَ عَلِیٌّیَلْبَسُ ثِیَابَ الصَّیْفِ فِی الشِّتَائِ، وَثِیَابَ الشِّتَائِ فِی الصَّیْفِ، فَقِیلَ لَہُ: لَوْ سَأَلْتَہُ؟ فَسَأَلَہُ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَیَّ وَأَنَا أَرْمَدُ یَوْمَ خَیْبَرَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی رَمِدٌ فَتَفَلَ فِی عَیْنِی، وَقَالَ: ((اللَّہُمَّ أَذْہِبْ عَنْہُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ۔)) فَمَا وَجَدْتُ حَرًّا وَلَا بَرْدًا بَعْدُ، قَالَ: وَقَالَ: ((لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، وَیُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، لَیْسَ بِفَرَّارٍ)) قَالَ: فَتَشَرَّفَ لَہَا النَّاسُ، قَالَ: فَبَعَثَ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۷۷۸)
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے والد، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ رات کو بیٹھے باتیں کیا کرتے تھے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سردیوں میں گرمی والے اور گرمیوں میں سردی والے کپڑے پہنا کرتے تھے، کسی نے میرے والد سے کہا کہ آپ ان سے اس کی وجہ تو دریافت کریں، چنانچہ انہوں نے ان سے اس بارے میں کہا تو انہوں نے کہا: خیبر کے روز میری آنکھیں دکھتی تھیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلوایا اور میری آنکھوں میں اپنا لعاب مبارک لگایا اور مجھے دعادیتے ہوئے فرمایا: یا اللہ! اس سے گرمی سردی کا احساس دور کر دے۔ چنانچہ اس دن سے مجھے نہ گرمی محسوس ہوتی ہے اور نہ سردی، نیز اس دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: میں یہ جھنڈا یسے آدمی کو عطا کر وں گا، جسے اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت رکھتے ہیں اور وہ میدان جنگ سے شکست کھا کر فرار ہونے والا نہیں۔ چنانچہ جھنڈا دئیے جانے کے وقت اس کو حاصل کرنے کے لیے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بہت سے اصحاب نے گردنیں اوپر کو اٹھائیں اور اس وقت آپ نے وہ جھنڈا مجھے عطا فرما دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12320

۔ (۱۲۳۲۰)۔ وَعَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَّاصٍ، قَالَ: وَسَمِعْتُہُ یَقُولُیَوْمَ خَیْبَرَ: ((لَأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ رَجُلًا یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔)) فَتَطَاوَلْنَا لَہَا فَقَالَ: ((ادْعُوا لِی عَلِیًّا۔)) فَأُتِیَبِہِ أَرْمَدَ فَبَصَقَ فِی عَیْنِہِ وَدَفَعَ الرَّایَۃَ إِلَیْہِ فَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَلَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ {نَدْعُ أَبْنَائَ نَا وَأَبْنَائَ کُمْ} [آل عمران: ۶۱] دَعَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا وَفَاطِمَۃَ وَحَسَنًا وَحُسَیْنًا، فَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ ھٰوُلَائِ اَھْلِیْ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۸)
سیدناسعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے خیبر کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا، جسے اللہ اور اسکے رسول سے محبت اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ ہم سب نے جھنڈا حاصل کرنے کی خواہش میں گردنیں اٹھائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی کو بلاؤ۔ پس انہیںلایا گیا، لیکن ان کی آنکھیں دکھتی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھوںمیں لعاب مبارک لگایا اور جھنڈا ان کے حوالے کر دیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائی اور جب یہ آیت {نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ}نازل ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین کو بلایا اور فرمایا: یااللہ! یہ لوگ میرے اہل ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12321

۔ (۱۲۳۲۱)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ خَیْبَرَ: ((لَأَدْفَعَنَّ الرَّایَۃَ إِلٰی رَجُلٍ یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔)) قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: فَمَا أَحْبَبْتُ الْإِمَارَۃَ قَبْلَ یَوْمِئِذٍ فَتَطَاوَلْتُ لَہَا وَاسْتَشْرَفْتُ رَجَائَ أَنْ یَدْفَعَہَا إِلَیَّ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ دَعَا عَلِیًّا عَلَیْہِ السَّلَام فَدَفَعَہَا إِلَیْہِ فَقَالَ: ((قَاتِلْ وَلَا تَلْتَفِتْ حَتّٰییُفْتَحَ عَلَیْکَ۔)) فَسَارَ قَرِیبًا ثُمَّ نَادٰییَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلَامَ أُقَاتِلُ؟ قَالَ: ((حَتّٰییَشْہَدُوْا أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذٰلِکَ فَقَدْ مَنَعُوا مِنِّی دِمَائَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّہَا، وَحِسَابُہُمْ عَلَیاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔))(مسند احمد: ۸۹۷۸)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کے دن فرمایا: اب میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا، جسے اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے، اس لیے کہ اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ فتح نصیب فرمائے گا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا کرتے تھے کہ میں نے اس واقعہ سے پہلے کبھی امارت کی خواہش نہیں کی تھی، اس روز جھنڈا حاصل کرنے کی خواہش میںمیں نے بھی گردن اوپر کو اٹھائی اور اونچا ہو ہو کر دیکھنے لگا کہ شاید آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ جھنڈا مجھے عطا فرما دیں، لیکن جب دوسرا دن ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلوا کر جھنڈا انہیں تھما یااور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ان سے قتال کرتے رہنا، یہاں تک کہ آپ فتح یاب ہو جائیں۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تھوڑ ا سا چلنے کے بعد کہا: اے اللہ کے رسول! بھلا میں ان سے کس بات پر قتال کروں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بات پر قتال کرو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رسالت کی گواہی دیں، وہ لوگ جب یہ کام کر لیں تو وہ اپنے خون اور اموال کو مجھ سے بچا لیں گے، مگر ان کے حق کے ساتھ اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12322

۔ (۱۲۳۲۲)۔ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْیَمَنِ، وَأَنَا حَدِیثُ السِّنِّ، قَالَ: قُلْتُ: تَبْعَثُنِی إِلٰی قَوْمٍ یَکُونُ بَیْنَہُمْ أَحْدَاثٌ وَلَا عِلْمَ لِی بِالْقَضَائِ، قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ سَیَہْدِی لِسَانَکَ، وَیُثَبِّتُ قَلْبَکَ۔)) قَالَ: فَمَا شَکَکْتُ فِی قَضَائٍ بَیْنَ اثْنَیْنِ بَعْدُ۔ (مسند احمد: ۶۳۶)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں ابھی تک نو عمر ہی تھاکہ رسول اللہ نے مجھے یمن کی طرف بھیج دیا، میں نے کہا: آپ مجھے ایسے لوگوں کی طرف روانہ کر رہے ہیں، جن کے مابین جھگڑے ہوں گے اور میں تو فیصلے کرنے کا علم نہیں رکھتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری زبان کو درست اور دل کو مضبوط رکھے گا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد مجھے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی تردد نہیں ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12323

۔ (۱۲۳۲۳)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِذَا بَعَثْتَنِی أَکُونُ کَالسِّکَّۃِ الْمُحْمَاۃِ أَمِ الشَّاہِدُ یَرٰی مَا لَا یَرَی الْغَائِبُ، قَالَ: ((الشَّاہِدُ یَرٰی مَا لَا یَرَی الْغَائِبُ۔)) (مسند احمد: ۶۲۸)
حضرت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول!جب آپ مجھے بھیج ہی رہے ہیں تو اب میں (آپ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے) گرم سکّہ کی طرح بن جاؤں یا ایسا حاضر جو کہ وہ کچھ دیکھ رہا ہے جسے غائب نہیں دیکھ سکتا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایسا حاضر جو کہ وہ کچھ دیکھ رہا ہے جسے غائب نہیں دیکھ سکتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12324

۔ (۱۲۳۲۴)۔ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ: وَضَّأْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ فَقَالَ: ((ہَلْ لَکَ فِی فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَعُودُہَا۔)) فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَامَ مُتَوَکِّئًا عَلَیَّ، فَقَالَ: ((أَمَا إِنَّہُ سَیَحْمِلُ ثِقَلَہَا غَیْرُکَ، وَیَکُونُ أَجْرُہَا لَکَ۔)) قَالَ: فَکَأَنَّہُ لَمْ یَکُنْ عَلَیَّ شَیْئٌ حَتَّی دَخَلْنَا عَلَی فَاطِمَۃَ عَلَیْہَا السَّلَام، فَقَالَ لَہَا: کَیْفَ تَجِدِینَکِ؟ قَالَتْ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ اشْتَدَّ حُزْنِی وَاشْتَدَّتْ فَاقَتِی، وَطَالَ سَقَمِی، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمٰنِ: وَجَدْتُ فِی کِتَابِ أَبِی بِخَطِّ یَدِہِ فِی ہٰذَا الْحَدِیثِ، قَالَ: ((أَوَ مَا تَرْضَیْنَ أَنِّی زَوَّجْتُکِ أَقْدَمَ أُمَّتِی سِلْمَا، وَأَکْثَرَہُمْ عِلْمًا، وَأَعْظَمَہُمْ حِلْمًا۔)) (مسند احمد: ۲۰۵۷۳)
سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو وضو کرایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم فاطمہ کے ہاں جا کر ان کی عیادت کرو گے؟ میںنے کہا: جی ہاں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرا سہارا لے کر اٹھے اور فرمایا: اس کے بوجھ کو تیرے سوا کوئی دوسرا اٹھالے گا اور تجھے اس کا اجر ملے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہ ارشاد سننے کے بعد گویا اب مجھ پر کوئی بوجھ نہ رہا، یہاں تک کہ ہم سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں پہنچے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم اپنے آپ کو کیسی پاتی ہو؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میر ا غم زیادہ ہو چکا ہے اور شدید فاقوں سے دوچار ہوں اور میری بیماری بھی طویل ہو چکی ہے۔ ابو عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے اپنے والد کی کتاب میں ان کے ہاتھوں سے اس حدیث میں یہ بھی لکھاپایا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ میں تمہارا نکاح ایسے آدمی سے کردوں، جو میرے امت میں سب (یعنی اکثر) سے پہلے مسلمان ہونے والا اور سب سے زیادہ صاحب علم اور حوصلہ مند ہے؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12325

۔ (۱۲۳۲۵)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: دَعَانِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((إِنَّ فِیکَ مِنْ عِیسٰی مَثَلًا، أَبْغَضَتْہُ یَہُودُ حَتَّی بَہَتُوا أُمَّہُ، وَأَحَبَّتْہُ النَّصَارٰی حَتّٰیأَنْزَلُوہُ بِالْمَنْزِلِ الَّذِی لَیْسَ بِہِ۔)) اَلَا وَإِنَّہُ یَہْلِکُ فِیَّ اثْنَانِ مُحِبٌّ یُقَرِّظُنِی بِمَا لَیْسَ فِیَّ، وَمُبْغِضٌ یَحْمِلُہُ شَنَآنِی عَلٰی أَنْ یَبْہَتَنِی، أَلَا إِنِّی لَسْتُ بِنَبِیٍّ وَلَا یُوحٰی إِلَیَّ وَلٰکِنِّی أَعْمَلُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَسُنَّۃِ نَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اسْتَطَعْتُ، فَمَا أَمَرْتُکُمْ مِنْ طَاعَۃِ اللّٰہِ فَحَقٌّ عَلَیْکُمْ طَاعَتِی فِیمَا أَحْبَبْتُمْ وَکَرِہْتُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۳۷۷)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا: تم عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہہ ہو، یہود کو ان سے اس قدر بغض تھاکہ انہوں نے ان کی والدہ پر بہتان لگادیا اور نصاریٰ نے ان سے اس قدر محبت کی کہ انہیں وہ درجہ دے دیا، جس پر وہ فائز نہیں تھے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: خبردار! دو قسم کے لوگ میری وجہ سے ہلاکت سے دوچار ہوںگے، ایک تو مجھ سے محبت کرنے والے، وہ فرط محبت میںمیرے متعلق ایسی ایسی باتیں کریں گے، جو درحقیقت مجھ میں نہیں ہیں اور دوسرے مجھ سے بغض رکھنے والے، وہ میری مخالفت میں آکر مجھ پر الزامات لگانے سے بھی نہیں چوکیں گے، خبردار! میں نہ نبی ہوں اور نہ میری طرف وحی آتی ہے، البتہ میں اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کے مطابق عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہوں، پس میں جب تک تمہیں اللہ کی اطاعت کا حکم دوں تو تمہیں اچھا لگے یا نہ لگے اس بارے میں میرے حکم کی تعمیل تم پر لازم ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12326

۔ (۱۲۳۲۶)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ: إِنَّ الشِّیعَۃَیَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَرْجِعُ، قَالَ: کَذَبَ أُولَئِکَ الْکَذَّابُونَ، لَوْ عَلِمْنَا ذَاکَ مَا تَزَوَّجَ نِسَاؤُہُ، وَلَا قَسَمْنَا مِیرَاثَہُ۔ (مسند ٔٔاحمد: ۱۲۶۶)
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں:میں نے سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: شیعہ لوگوں کا خیال ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دوبارہ واپس تشریف لائیں گے، انہوں نے کہا: یہ لوگ جھوٹے ہیں،جھوٹی باتیں کرتے ہیں، اگر یہ بات ہمارے علم میںہوتی تو سیدنا علی کی ازواج شادی نہ کرتیں اور نہ ہم ان کی میراث کو تقسیم کرتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12327

۔ (۱۲۳۲۷)۔ عَنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: خَطَبَنَا عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ عِنْدَنَا شَیْئًا نَقْرَؤُہُ إِلَّا کِتَابَ اللّٰہِ وَہٰذِہِ الصَّحِیفَۃَ، صَحِیفَۃٌ فِیہَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَأَشْیَائُ مِنْ الْجِرَاحَاتِ، فَقَدْ کَذَبَ، قَالَ: وَفِیہَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الْمَدِینَۃُ حَرَمٌ مَا بَیْنَ عَیْرٰ إِلٰی ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِیہَا حَدَثًا أَوْ آوٰی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَدْلًا وَلَا صَرْفًا، وَمَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیہِ أَوْ تَوَلّٰی غَیْرَ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا، وَذِمَّۃُ الْمُسْلِمِینَ وَاحِدَۃٌیَسْعٰی بِہَا أَدْنَاہُمْ۔)) (مسند احمد: ۶۱۵)
ابراہیم تیمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خطبہ دیا اور کہا: جو شخص یہ سمجھے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ کے علاوہ بھی دین کی کوئی بات ہے تو وہ جھوٹ کہتا ہے، اس صحیفہ میں زکوٰۃ کے اونٹوں کی عمروں اور کچھ قصاص کے مسائل کا تذکرہ ہے اور اس صحیفہ میں یہ بھی درج ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاکہ مدینہ منورہ عیرسے ثور تک حرم ہے، جو آدمی اس میں کوئی بدعت نافذ کرے گا یا بدعتی کو پناہ دے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے، اللہ قیامت کے دن اس کی فرض اور نفل عبادت قبول نہیں کرے گا اور جو آدمی اپنے حقیقی باپ یا مالکوں کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے گا، اس پر بھی اللہ کی فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی فرض اورنفل عبادت قبول نہیں کرے گا، تمام مسلمانوں کی پناہ ایک ہی ہے، جس کے متعلق ادنیٰ مسلمان بھی کوشش کرسکتا (یعنی کسی کو پناہ دے سکتا) ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12328

۔ (۱۲۳۲۸)۔ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ قَالَ: شَہِدْتُ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَہُوَ یَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ: وَاللّٰہِ مَا عِنْدَنَا کِتَابٌ نَقْرَؤُہُ عَلَیْکُمْ إِلَّا کِتَابَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَہٰذِہِ الصَّحِیفَۃَ مُعَلَّقَۃً بِسَیْفِہِ، أَخَذْتُہَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہَا فَرَائِضُ الصَّدَقَۃِ، مُعَلَّقَۃً بِسَیْفٍ لَہُ حِلْیَتُہُ حَدِیدٌ أَوْ قَالَ: بَکَرَاتُہُ حَدِیدٌ أَیْ حِلَقُہُ۔ (مسند احمد: ۷۸۲)
طارق بن شہاب سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس تھا، وہ منبر پر کہہ رہے تھے: اللہ کی قسم! ہمارے پاس اللہ کی کتاب کے سوا کوئی کتاب یا تحریر نہیں، جو ہم تم لوگوں کے سامنے پڑھیں اور ایک یہ صحیفہ ہے، جو تلوار کے ساتھ معلق ہے، اس کے بارے میں انھوں نے کہا: یہ صحیفہ میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے لیا ہے، اس میں زکوٰۃ کے جانوروں کی عمروں کا بیان ہے، و ہ صحیفہ جس تلوار کے ساتھ معلق تھا ا س کے حلقے لوہے کے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12329

۔ (۱۲۳۲۹)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: خَطَبَنَا عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: مَا عِنْدَنَا شَیْئٌ مِنَ الْوَحْیِ اَوْ قَالَ: کِتَابٍ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، اِلَّا مَا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ وَہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ الْمَقْرُوْنَۃِ بِسَیْفِیْ، وَعَلَیْہِ سَیْفٌ حِلْیَتُہٗ حَدِیْدٌ وَفِیْہَا فَرَائِضَ الصَّدَقَاتِ۔ (مسند احمد: ۷۹۸)
۔ (دوسری سند) طارق بن شہاب کہتے ہیں: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور اس میں کہا: ہمارے پاس اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی تحریر یا وحی میںسے الگ کوئی چیز نہیں ہے،بس وہی کچھ ہے، جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے اور اس صحیفے میں ہے، جو میری تلوار کے ساتھ ملا ہوا ہے، اس وقت ایک تلوار ان کے پاس تھی، جس کے حلقے لوہے کے تھے اور اس صحیفہ میں زکوٰۃ کے جانوروں کی عمروں کا بیان تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12330

۔ (۱۲۳۳۰)۔ عَنْ حَبَّۃَ الْعُرَنِیِّ قَالَ: رَأَیْتُ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ضَحِکَ عَلَی الْمِنْبَرِ، لَمْ أَرَہُ ضَحِکَ ضَحِکًا أَکْثَرَ مِنْہُ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ، ثُمَّ قَالَ: ذَکَرْتُ قَوْلَ أَبِی طَالِبٍ ظَہَرَ عَلَیْنَا أَبُو طَالِبٍ، وَأَنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ نُصَلِّی بِبَطْنِ نَخْلَۃَ، فَقَالَ: مَاذَا تَصْنَعَانِ یَا ابْنَ أَخِی، فَدَعَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: مَا بِالَّذِی تَصْنَعَانِ بَأْسٌ أَوْ بِالَّذِی تَقُولَانِ بَأْسٌ، وَلٰکِنْ وَاللّٰہِ لَا تَعْلُوَنِی اِسْتِی أَبَدًا وَضَحِکَ تَعَجُّبًا لِقَوْلِ أَبِیہِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّہُمَّ لَا أَعْتَرِفُ أَنَّ عَبْدًا لَکَ مِنْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ عَبَدَکَ قَبْلِی غَیْرَ نَبِیِّکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ النَّاسُ سَبْعًا۔ (مسند احمد: ۷۷۶)
حبہ عرنی کہتے ہیں: میں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، وہ منبر پر خوب ہنسے، میں نے ان کو کبھی بھی اتنا ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا، آپ اس قدر زور سے ہنسے کہ آپ کی داڑھیں نمایاں ہوگئیںاور پھر کہا: مجھے ابو طالب کی بات یاد آئی ہے، میں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ وادیٔ نخلہ میں نماز ادا کر رہا تھا کہ ابو طالب آگئے، انہوں نے کہا:بھتیجے! تم دونوں کیا کر رہے ہو؟ اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی، اس نے کہا: تم جو کام کر رہے ہو، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اللہ کی قسم! میری دبر مجھ سے اونچی کبھی نہ ہوگی۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے والد کی اس بات پر تعجب کرتے ہوئے ہنسے تھے، اس کے بعد انہوں نے کہا: یا اللہ میں نہیں جانتا کہ اس امت میں تیرے نبی کے سوا مجھ سے قبل تیرے کسی بندے نے تیری عبادت کی ہو، یہ بات انہوں نے تین مرتبہ دہرائی، لوگوں کے نماز پڑھنے سے بہت پہلے میںنے نمازیں پڑھی ہیں، یہ بات آپ نے سات مرتبہ دہرائی۔1 ! یا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے نماز پڑھنے سے پہلے میں نے سات دن نماز پڑھی ہے اس کے بعد دیگر لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔ (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12331

۔ (۱۲۳۳۱)۔ أَنْبَأَنَا أَبُو عَامِرٍ الْمُزَنِیُّ، حَدَّثَنَا شَیْخٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ قَالَ: خَطَبَنَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَوْ قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوضٌ، یَعَضُّ الْمُوسِرُ عَلٗی مَا فِییَدَیْہِ، قَالَ: وَلَمْیُؤْمَرْ بِذٰلِکَ، قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ} وَیَنْہَدُ الْأَشْرَارُ، وَیُسْتَذَلُّ الْأَخْیَارُ، وَیُبَایِعُ الْمُضْطَرُّونَ، قَالَ: وَقَدْ نَہٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ بَیْعِ الْمُضْطَرِّینَ، وَعَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ، وَعَنْ بَیْعِ الثَّمَرَۃِ قَبْلَ أَنْ تُدْرِکَ۔ (مسند احمد: ۹۳۷)
بنو تمیم کے ایک بزرگ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور کہا: لوگوں پر ایسا سخت زمانہ بھی آئے گا کہ خوش حال لوگ اپنی چیزوں پر انتہائی بخل کریں گے، حالانکہ انہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے: { وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ} …، نیز انھوںنے کہا: اور برے لوگوں کی تکریم کی جائے گی، اچھے لوگوں کو ذلیل کیا جائے گا اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے خرید وفروخت کی جائے گی، حالانکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجبورکی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیع کرنے سے، دھوکے کی بیع کرنے سے اور پھلوں کے تیار ہونے سے قبل ان کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12332

۔ (۱۲۳۳۲)۔ عَنْ إِسْمَاعِیلَ، حَدَّثَنَا قَیْسٌ، قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَتْ عَائِشَۃُ بَلَغَتْ مِیَاہَ بَنِی عَامِرٍ لَیْلًا نَبَحَتِ الْکِلَابُ، قَالَتْ: أَیُّ مَائٍ ہٰذَا؟ قَالُوْا: مَائُ الْحَوْأَبِ، قَالَتْ: مَا أَظُنُّنِی إِلَّا أَنِّی رَاجِعَۃٌ، فَقَالَ بَعْضُ مَنْ کَانَ مَعَہَا: بَلْ تَقْدَمِینَ فَیَرَاکِ الْمُسْلِمُونَ، فَیُصْلِحُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لَنَا ذَاتَ یَوْمٍ: ((کَیْفَ بِإِحْدَاکُنَّ تَنْبَحُ عَلَیْہَا کِلَابُ الْحَوْأَبِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۷۵۸)
قیس سے مروی ہے کہ جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا (مدینہ منورہ سے بصرہ جاتے ہوئے) بنی عامر کے پانیوں تک پہنچیں تو کتے بھونکنے لگے، انہوں نے کہا: یہ کون سی جگہ ہے؟ لوگوںنے کہا: یہ حوأب کے پانی کا مقام ہے، انھوں نے کہا: میرا خیال تو یہی ہے کہ میں واپس لوٹ جاؤں، لیکن ان کے بعض ہم سفروں نے کہا: اب آپ واپس نہ جائیں، بلکہ آگے بڑھیں، ممکن ہے کہ مسلمان آپ کو دیکھیں اور اللہ تعالیٰ ان کے مابین صلح کر ادے گا، انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک روز ہم سے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک کی اس وقت کیا حالت ہوگی، جب اس پرحوأب کے کتے بھونکیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12333

۔ (۱۲۳۳۳)۔ عَنْ أَبِی رَافِعٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ: ((إِنَّہُ سَیَکُونُ بَیْنَکَ وَبَیْنَ عَائِشَۃَ أَمْرٌ۔)) قَالَ: أَنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: أَنَا، قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: فَأَنَا أَشْقَاہُمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((لَا، وَلٰکِنْ إِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَارْدُدْہَا إِلٰی مَأْمَنِہَا۔)) (مسند احمد: ۲۷۷۴۰)
سیدناابو رافع سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: عنقریب تمہارے اورعائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے مابین جھگڑا ہو گا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میرے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انھوں نے پھر کہا: اللہ کے رسول! کیا میں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تب تو میں سب سے بڑھ کر بد نصیب ہوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ بات نہیں ہے، بس جب ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو عائشہ کو اس کی امن گاہ تک پہنچا دینا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12334

۔ (۱۲۳۳۴)۔ عَنْ ابْنَۃٍ لِأُہْبَانَ بْنِ صَیْفِیٍّ، عَنْ أَبِیہَا وَکَانَتْ لَہُ صُحْبَۃٌ، أَنَّ عَلِیًّا لَمَّا قَدِمَ الْبَصْرَۃَ بَعَثَ إِلَیْہِ فَقَالَ: مَا یَمْنَعُکَ أَنْ تَتْبَعَنِی؟ فَقَالَ: أَوْصَانِی خَلِیلِی وَابْنُ عَمِّکَ، فَقَالَ: ((إِنَّہُ سَیَکُونُ فُرْقَۃٌ وَاخْتِلَافٌ، فَاکْسِرْ سَیْفَکَ، وَاتَّخِذْ سَیْفًا مِنْ خَشَبٍ، وَاقْعُدْ فِی بَیْتِکَ حَتّٰی تَأْتِیَکَیَدٌ خَاطِئَۃٌ أَوْ مَنِیَّۃٌ قَاضِیَۃٌ۔)) فَفَعَلْتُ مَا أَمَرَنِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنْ اسْتَطَعْتَ یَا عَلِیُّ أَنْ لَا تَکُونَ تِلْکَ الْیَدَ الْخَاطِئَۃَ فَافْعَلْ۔ (مسند احمد: ۲۷۷۴۲)
سیدنا اہبان بن صیفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ صحابی ہیں، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب بصرہ میں تشریف لائے تو انہوں نے مجھے بلوا بھیجا اور کہا: میرے ساتھ چلنے میں تمہیں کیا مانع سیدنا اہبان بن صیفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ صحابی ہیں، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب بصرہ میں تشریف لائے تو انہوں نے مجھے بلوا بھیجا اور کہا: میرے ساتھ چلنے میں تمہیں کیا مانع
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12335

۔ (۱۲۳۳۵)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنْ عُدَیْسَۃَ ابْنَۃِ أُہْبَانَ بْنِ صَیْفِیٍّ، أَنَّہَا کَانَتْ مَعَ أَبِیہَا فِی مَنْزِلِہِ فَمَرِضَ، فَأَفَاقَ مِنْ مَرَضِہِ ذٰلِکَ، فَقَامَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ بِالْبَصْرَۃِ، فَأَتَاہُ فِی مَنْزِلِہِ حَتّٰی قَامَ عَلٰی بَابِ حُجْرَتِہِ فَسَلَّمَ، وَرَدَّ عَلَیْہِ الشَّیْخُ السَّلَامَ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: کَیْفَ أَنْتَ؟ یَا أَبَا مُسْلِمٍ! قَالَ: بِخَیْرٍ، فَقَالَ عَلِیٌّ: أَلَا تَخْرُجُ مَعِی إِلٰی ہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ فَتُعِینَنِی؟ قَالَ: بَلٰی، إِنْ رَضِیتَ بِمَا أُعْطِیکَ، قَالَ عَلِیٌّ: وَمَا ہُوَ؟ فَقَالَ الشَّیْخُ: یَا جَارِیَۃُ! ہَاتِ سَیْفِی، فَأَخْرَجَتْ إِلَیْہِ غِمْدًا فَوَضَعَتْہُ فِی حِجْرِہِ، فَاسْتَلَّ مِنْہُ طَائِفَۃً، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلٰی عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ: إِنَّ خَلِیلِی عَلَیْہِ السَّلَام وَابْنَ عَمِّکَ عَہِدَ إِلَیَّ إِذَا کَانَتْ فِتْنَۃٌ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، أَنْ اتَّخِذَ سَیْفًا مِنْ خَشَبٍ، فَہٰذَا سَیْفِی فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ بِہِ مَعَکَ، فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: لَا حَاجَۃَ لَنَا فِیکَ وَلَا فِی سَیْفِکَ، فَرَجَعَ مِنْ بَابِ الْحُجْرَۃِ وَلَمْ یَدْخُلْ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۴۶)
۔ (دوسری سند) عدیسہ بنت اہبان بن صیفی بیان کرتی ہیں کہ وہ اپنے والد سیدنا اہبان بن صیفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر میں ان کے پاس تھیں، وہ بیمار پڑ گئے اور پھر ان کو افاقہ ہو گیا، اس وقت سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بصرہ میں تھے، وہ ان کے گھر تشریف لائے اور ان کے کمرہ کے دروازہ کے پاس کھڑے ہو کر سلام پیش کیا، میرے والد نے انہیں سلام کا جواب دیا، انہوں نے کہا: ابو مسلم! کیسے مزاج ہیں؟ میرے والد نے کہا: ٹھیک ہوں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا تم میرے ساتھ ان لوگوں کے مقابلے میں نکل کر میری مدد نہیں کرو گے؟ میرے والد نے کہا:کیوںنہیں، بشرطیکہ میں جو کچھ بیان کروں، آپ اسے پسند کریں تو میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: وہ کیا؟ پس میرے والدنے کہا: لڑکی! ذرا میری تلوار لے آؤ۔ میں نے میان نکال کر ان کی گود میں لے جا کر رکھ دی، انہوںنے میان سے تھوڑی سی تلوار نکالی اور پھر اپنا سر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف اٹھایا اور کہا: میرے خلیل اور آپ کے چچا زاد یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا تھاکہ: جب مسلمانوں کے مابین فتنہ و اختلاف بپا ہو تو لکڑی کی تلوار بنا لینا۔ پس میری تو یہی تلوار ہے، اگر آپ چاہیں تو میں یہ لے کر آپ کے ساتھ نکلتا ہوں، یہ سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہمیں تمہارے اور تمہاری تلوار کی کوئی ضرورت نہیں، پھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کمرے کے دروازے سے باہر چلے گئے اور واپس نہ آئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12336

۔ (۱۲۳۳۶)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ بِنَحْوِہٖوَفِیْہِ) فَقَالَ: أَوْصَانِی خَلِیلِی وَابْنُ عَمِّکِ یَعْنِی رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((سَتَکُونُ فِتَنٌ وَفُرْقَۃٌ، فَإِذَا کَانَ ذَلِکَ فَاکْسِرْ سَیْفَکَ، وَاتَّخِذْ سَیْفًا مِنْ خَشَبٍ۔)) فَقَدْ وَقَعَتْ الْفِتْنَۃُ وَالْفُرْقَۃُ وَکَسَرْتُ سَیْفِی وَاتَّخَذْتُ سَیْفًا مِنْ خَشَبٍ، وَأَمَرَ أَہْلَہُ حِینَ ثَقُلَ أَنْ یُکَفِّنُوہُ، وَلَا یُلْبِسُوہُ قَمِیصًا، قَالَ: فَأَلْبَسْنَاہُ قَمِیصًا، فَأَصْبَحْنَا وَالْقَمِیصُ عَلَی الْمِشْجَبِ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۴۷)
۔ (تیسری سند) سیدنا اہبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرے خلیل اور آپ کے چچا زاد یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: عنقریب فتنے اور اختلافات رونما ہوں گے، جب ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو اپنی تلوار توڑ کر لکڑی کی تلوار بنا لینا۔ اور جب میرے والد زیاد ہ بیمار ہوئے تو انہوں نے اپنے اہل خانہ کو حکم دیا کہ جب وہ ان کو کفن دیں تو قمیص نہ پہنائیں، لیکن ہم نے انہیں قمیص پہنا دی، جب صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ وہ قمیص کھونٹی پر لٹکی ہوئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12337

۔ (۱۲۳۳۷)۔ وَعَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِی الصَّلْتِ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ: إِنَّ عَلِیًّا بَعَثَ إِلَی مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ فَجِیْئَ بِہِ، فَقَالَ: مَا خَلَّفَکَ عَنْ ہَذَا الْأَمْرِ؟ قَالَ: دَفَعَ إِلَیَّ ابْنُ عَمِّکَ یَعْنِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَیْفًا فَقَالَ: ((قَاتِلْ بِہِ مَا قُوتِلَ الْعَدُوُّ، فَإِذَا رَأَیْتَ النَّاسَ یَقْتُلُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، فَاعْمَدْ بِہِ إِلَی صَخْرَۃٍ، فَاضْرِبْہُ بِہَا، ثُمَّ الْزَمْ بَیْتَکَ حَتَّی تَأْتِیَکَ مَنِیَّۃٌ قَاضِیَۃٌ أَوْ یَدٌ خَاطِئَۃٌ۔)) قَالَ: خَلُّوا عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۸۱۴۲)
حسن سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے محمد بن مسلمہ کو بلوایا، جب ان کو لایا گیا تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے فرمایا: تم اس لڑائی سے پیچھے کیوں ہو؟ انہوں نے جواب دیا: آپ کے چچا زاد یعنی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک تلوار عنایت کی تھی اور فرمایا تھا: جب تک دشمنان اسلام کے ساتھ قتال ہوتا رہے تو تم اس تلوار کے ذریعے قتال کرتے رہنا اور جب تم دیکھو کہ لوگ یعنی مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے کی خون ریزی کر رہے ہیں تو تم اسے پتھر پر مار کر توڑ ڈالنا اور پھر اپنے گھر کے اند رہی رہنا تاآنکہ تمہیں موت آجائے یا کوئی ظالم ہاتھ تمہارے اوپر آئے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: انہیں چھوڑ دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12338

۔ (۱۲۳۳۸)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَلِیٍّ: أَرَأَیْتَ مَسِیرَکَ ہٰذَا عَہْدٌ، عَہِدَہُ إِلَیْکَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْ رَأْیٌ رَأَیْتَہُ، قَالَ: مَا تُرِیدُ إِلٰی ہٰذَا؟ قُلْتُ: دِینَنَا دِینَنَا، قَالَ: مَا عَہِدَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِ شَیْئًا وَلٰکِنْ رَأْیٌ رَأَیْتُہُ۔ (مسند احمد: ۱۲۷۱)
قیس بن عبادسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سید نا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے گزارش کی کہ آپ جس راہ پر چل رہے ہیں، اس بارے میں آپ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے کوئی حکم ہوا تھا یا یہ آپ کی اپنی رائے ہے؟ انہوں نے کہا: تمہیں اس سے کیا؟ میں نے کہا:ہمارا دین ہے، یہ ہمارے دین کی بات ہے، یہ ایسی ویسی چیز نہیں ہے، انہوں نے کہا: اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے کچھ نہیں فرمایا، بس یہ میری اپنی رائے ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12339

۔ (۱۲۳۳۹)۔ عَنِ الْحَکَمِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ قَالَ: لَمَّا بَعَثَ عَلِیٌّ عَمَّارًا وَالْحَسَنَ إِلَی الْکُوفَۃِ لِیَسْتَنْفِرَاہُمْ، فَخَطَبَ عَمَّارٌ فَقَالَ: إِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّہَا زَوْجَتُہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَلٰکِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ابْتَلَاکُمْ لِتَتَّبِعُوہُ أَوْ إِیَّاہَا۔ (مسند احمد: ۱۸۵۲۱)
ابو وائل سے مروی ہے کہ جب سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کو کوفہ کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ لوگوں کو لڑائی کے لیے نکلنے پر آمادہ کریں، تو سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خطبہ دیا اور کہا: میں جانتا ہوں کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا دنیا و آخرت میں رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زوجہ ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس موقع پر آزمایا ہے کہ تم سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ساتھ دیتے ہو یا سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12340

۔ (۱۲۳۴۰)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ عَبَّادٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَیْتَ قِتَالَکُمْ رَأْیًا رَأَیْتُمُوہُ؟ قَالَ حَجَّاجٌ: أَرَأَیْتَ ہٰذَا الْأَمْرَ یَعْنِی قِتَالَہُمْ رَأْیًا رَأَیْتُمُوہُ؟ فَإِنَّ الرَّأْیَیُخْطِیُٔ وَیُصِیبُ، أَوْ عَہْدٌ عَہِدَہُ إِلَیْکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ فَقَالَ: مَا عَہِدَ إِلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا لَمْ یَعْہَدْہُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً، وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ فِی أُمَّتِی، قَالَ شُعْبَۃُ: وَیَحْسِبُہُ قَالَ: حَدَّثَنِی حُذَیْفَۃُ: إِنَّ فِی أُمَّتِی اثْنَیْ عَشَرَ مُنَافِقًا۔)) فَقَالَ: ((لَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ، وَلَا یَجِدُونَ رِیحَہَا حَتّٰییَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ، ثَمَانِیَۃٌ مِنْہُمْ تَکْفِیکَہُمُ الدُّبَیْلَۃُ سِرَاجٌ مِنْ نَارٍ، یَظْہَرُ فِی أَکْتَافِہِمْ حَتّٰییَنْجُمَ فِی صُدُورِہِمْ))۔ (مسند احمد: ۱۹۰۹۱)
قیس بن عباد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے گزارش کی کہ آپ اپنی اس لڑائی کے متعلق ذرا یہ واضح کریں کہ آیا یہ آپ کی اپنی رائے اور ذاتی موقف ہے،کیونکہ ایسی رائے تو غلط بھی ہوسکتی ہے اور درست بھی، یا یہ تم لوگوں کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے کوئی حکم دیا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں الگ سے ایسا کوئی حکم نہیں دیا جو عام لوگوں کے لیے نہ ہو،نیز انہوں نے کہا: البتہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ میری امت میں بارہ منافق ہوں گے، و ہ جنت میں داخل نہ ہوسکیں گے اور نہ وہ جنت کی خوشبو پائیں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے نکے میں داخل ہو جائے، ان میں سے آٹھ کو ایک پھوڑا کافی ہوگا، یہ آگ کے شعلہ کی مانند ہوگا، جو ان کے کندھوں پر ابھرے گا اور ان کے سینوں پر جا کر ظاہر ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12341

۔ (۱۲۳۴۱)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ)) عَنْ قَیْسٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَیْتُمْ صَنِیعَکُمْ ہٰذَا الَّذِی صَنَعْتُمْ فِیمَا کَانَ مِنْ أَمْرِ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ رَأْیًا رَأَیْتُمُوہُ أَمْ شَیْئًا عَہِدَ إِلَیْکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: لَمْ یَعْہَدْ إِلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا، لَمْ یَعْہَدْہُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً، وَلٰکِنَّ حُذَیْفَۃَ أَخْبَرَنِی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((فِی أَصْحَابِی اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، مِنْہُمْ ثَمَانِیَۃٌ لَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ، حَتّٰییَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۷۰۸)
۔ (دوسری سند) قیس کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تم لوگ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں جو کچھ کہہ رہے ہو، ذرا اس کے متعلق یہ تو بتلاؤ کہ یہ تمہاری اپنی رائے ہے یا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہیں اس بارے میں کچھ ہدایات دی ہیں؟ انہوںنے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں الگ سے کوئی ایسا حکم نہیں دیا، جو عام لوگوں کو نہ دیا ہو، البتہ سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ساتھیوں میں بارہ منافق ہوں گے، ان میں آٹھ جنت میں ہرگز نہیں جاسکیں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے نکے میں سے گزر جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12342

۔ (۱۲۳۴۲)۔ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ قَالَ: حَدَّثَنَاحَدَّثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ، عَنْ جَدِّ أَبِیہِ الْمُخَارِقِ، قَالَ: لَقِیتُ عَمَّارًا یَوْمَ الْجَمَلِ، وَہُوَ یَبُولُ فِی قَرْنٍ، فَقُلْتُ: أُقَاتِلُ مَعَکَ فَأَکُونُ مَعَکَ، قَالَ: قَاتِلْ تَحْتَ رَایَۃِ قَوْمِکَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَسْتَحِبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ یُقَاتِلَ تَحْتَ رَایَۃِ قَوْمِہِ۔ (مسند أحمد: ۱۸۵۰۶)
مخارق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں جنگ ِ جمل والے دن سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ملا، جبکہ وہ سینگ میں پیشاب کر رہے تھے، میں نے کہا: میں تمہارے ساتھ مل کر لڑنا چاہتا ہوں، اس طرح تمہارے ساتھ رہوں گا، لیکن انھوں نے کہا: تو اپنی قوم کے جھنڈے کے نیچے رہ کر لڑائی کر، کیونکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ پسند کیا کرتے تھے کہ آدمی اپنی قوم کے جھنڈے کے نیچے رہ کر قتال کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12343

۔ (۱۲۳۴۳)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَلَمَۃَیَقُولُ: رَأَیْتُ عَمَّارًا یَوْمَ صِفِّینَ شَیْخًا کَبِیرًا آدَمَ طُوَالًا آخِذًا الْحَرْبَۃَ بِیَدِہِ وَیَدُہُ تَرْعَدُ، فَقَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَقَدْ قَاتَلْتُ بِہٰذِہِ الرَّایَۃِ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَہٰذِہِ الرَّابِعَۃُ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ ضَرَبُونَا حَتّٰییَبْلُغُوا بِنَا شَعَفَاتِ ہَجَرَ، لَعَرَفْتُ أَنَّ مُصْلِحِینَا عَلَی الْحَقِّ، وَأَنَّہُمْ عَلَی الضَّلَالَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۹۰۹۰)
عبداللہ بن سلمہ سے مروی ہے، وہ کہتے تھے: میںنے جنگ صفین کے روز سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے، ان کا رنگ گندمی اور قد طویل تھا، وہ اپنے ہاتھ میں نیزہ تھامے ہوئے تھے اور ان کا ہاتھ کانپ رہا تھا، انہوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس جھنڈے کے ساتھ ہیں رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں تین جنگیں لڑچکا ہوـں، آج چوتھی جنگ ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اگر یہ لوگ ہمیںمار مار کر ہجر کے پہاڑوں کی طرف مار بھگائیں، تب بھی میں جانتا ہوں کہ ہماری اصلاح کرنے والے حق پر اور دوسرے گمراہی کی راہ پر ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12344

۔ (۱۲۳۴۴)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَۃَ بْنِ خُزَیْمَۃَ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: مَا زَالَ جَدِّی (یَعْنِیْ خُزَیْمَۃَ بْنَ ثَابِتٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) کَافًّا سِلَاحَہُ یَوْمَ الْجَمَلِ حَتّٰی قُتِلَ عَمَّارٌ بِصِفِّینَ، فَسَلَّ سَیْفَہُ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۲۱۷)
محمد بن عمارہ کہتے ہیں: میرا دادا سیدنا خزیمہ بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جنگ جمل کے دن اپنا اسلحہ روکے رکھا، یہاں تک کہ جب صفین میں سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہوگئے، تو انہوںنے اپنی تلوار نکالی اور شہید ہونے تک لڑتے رہے، انہوں نے وجہ یہ بیان کی تھی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک باغی گروہ عمار کوقتل کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12345

۔ (۱۲۳۴۵)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((وَیْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُیَدْعُوہُمْ إِلَی الْجَنَّۃِ وَیَدْعُونَہُ إِلَی النَّارِِ۔)) قَالَ: فَجَعَلَ عَمَّارٌ یَقُولُ: أَعُوذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنَ الْفِتَنِ۔ (مسند احمد: ۱۱۸۸۳)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: افسوس کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا، یہ ان کو جنت کی طرف بلائے گا، لیکن وہ اس کو جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے۔ یہ سن کر سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنے لگے:میں فتنوں سے رحمان کی پناہ چاہتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12346

۔ (۱۲۳۴۶)۔ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ قَالَ: قَالَ عَمَّارٌ یَوْمَ صِفِّینَ: ائْتُونِی بِشَرْبَۃِ لَبَنٍ، فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((آخِرُ شَرْبَۃٍ تَشْرَبُہَا مِنَ الدُّنْیَا شَرْبَۃُ لَبَنٍ۔)) فَأُتِیَ بِشَرْبَۃِ لَبَنٍ فَشَرِبَہَا، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقُتِلَ۔ (مسند احمد: ۱۹۰۸۶)
ابو بختری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: صفین کے روز سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرے پاس پینے کے لیے دودھ لاؤ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم دنیا کا جو مشروب آخر میں پیو گے، وہ دودھ ہو گا۔ پس ان کی خدمت میں دودھ پیش کیا گیا، انہوں نے وہ پی لیا، اس کے بعد وہ میدان کی طرف بڑھ گئے اور شہید ہوئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12347

۔ (۱۲۳۴۷)۔ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ دَخَلَ عَمْرُو بْنُ حَزْمٍ عَلٰی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقَالَ: قُتِلَ عَمَّارٌ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَزِعًا یُرَجِّعُ حَتَّی دَخَلَ عَلٰی مُعَاوِیَۃَ، فَقَالَ لَہُ مُعَاوِیَۃُ: مَا شَأْنُکَ؟ قَالَ: قُتِلَ عَمَّارٌ، فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ: قَدْ قُتِلَ عَمَّارٌ فَمَاذَا؟ قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) فَقَالَ لَہُ مُعَاوِیَۃُ: دُحِضْتَ فِی بَوْلِکَ أَوَ نَحْنُ قَتَلْنَاہُ؟ إِنَّمَا قَتَلَہُ عَلِیٌّ وَأَصْحَابُہُ، جَائُ وْا بِہِ حَتّٰی أَلْقَوْہُ بَیْنَ رِمَاحِنَا أَوْ قَالَ بَیْنَ سُیُوفِنَا۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۱)
محمد بن عمروبن حزم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہوئے تو سیدنا عمر و بن حزم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے اور انہیں بتلایاکہ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہوگئے ہیں، جبکہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھاکہ ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا عمروبن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گھبرا گئے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہوئے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پہنچ گئے، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کی حالت دیکھ کر پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہوگئے ہیں، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: عمار قتل ہوگئے تو پھر کیا ہوا؟ سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوفرماتے سنا ہے کہ ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: تم اپنے پیشاب میں پھسلو، کیا ہم نے اس کو قتل کیاہے؟ اسے تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے ساتھیوں نے مروایا ہے، وہ لوگ انہیں لے آئے اور لا کر ہمارے نیزوں یا تلواروں کے درمیان لا کھڑا کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12348

۔ (۱۲۳۴۸)۔ عَنْ أَبِی غَادِیَۃَ قَالَ: قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ فَأُخْبِرَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ قَاتِلَہُ وَسَالِبَہُ فِی النَّارِ۔)) فَقِیلَ لِعَمْرٍو: فَإِنَّکَ ہُوَ ذَا تُقَاتِلُہُ، قَالَ: إِنَّمَا قَالَ: ((قَاتِلَہُ وَسَالِبَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۹۲۹)
ابو غادیہ کہتے ہیں: جب سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو گئے اور لوگوں نے سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس کی اطلاع دی تو انہوں نے کہا: میں نے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کو قتل کرنے والا اور ان کے قتل کے بعد ان کے سامان کو قبضہ میں لینے والا جہنم میں جائے گا۔ کسی نے سیدنا عمر و ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تم خود بھی تو ان ہی سے لڑ رہے ہیں؟ انہوں نے جواباً کہا کہ رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے قاتل اور ان کا مال قبضہ میں کر لینے والے کے حق میں یہ فرمایا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12349

۔ (۱۲۳۴۹)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زِیَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: إِنِّی لَأَسِیرُ مَعَ مُعَاوِیَۃَ فِی مُنْصَرَفِہِ مِنْ صِفِّینَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: یَا أَبَتِ! مَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ لِعَمَّارٍ: ((وَیْحَکَیَا ابْنَ سُمَیَّۃَ، تَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ؟)) قَالَ: فَقَالَ عَمْرٌو لِمُعَاوِیَۃَ: أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُولُ ہٰذَا؟ فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ: لَا تَزَالُ تَأْتِینَا بِہَنَۃٍ، أَنَحْنُ قَتَلْنَاہُ إِنَّمَا قَتَلَہُ الَّذِینَ جَائُ وْا بِہِ۔ (مسند احمد: ۶۴۹۹)
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں: جنگ صفین سے واپسی پر میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے درمیان چلا آرہا تھا، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ابا جان! کیا آپ نے سنا نہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا تھا کہ اے ابن سمیہ! افسوس ایک باغی گروہ تجھے قتل کرے گا۔ سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ سن رہے ہیں کہ یہ کیا کہہ رہا ہے؟ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ ہمیشہ باعث ِ تکلیف بات ہی کرتے ہیں؟ کیا ہم نے اس کو قتل کیا ہے؟ اسے تو ان لوگوں نے قتل کیاہے، جو اسے میدان کارزار میں لے کر آئے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12350

۔ (۱۲۳۵۰)۔ عَنْ حَنْظَلَۃَ بْنِ خُوَیْلِدٍ الْعَنْبَرِیٌّ، قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا عِنْدَ مُعَاوِیَۃَ إِذْ جَائَ ہُ رَجُلَانِ یَخْتَصِمَانِ فِی رَأْسِ عَمَّارٍ، یَقُولُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا: أَنَا قَتَلْتُہُ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو: لِیَطِبْ بِہِ أَحَدُکُمَا نَفْسًا لِصَاحِبِہِ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) قَالَ مُعَاوِیَۃُ: فَمَا بَالُکَ مَعَنَا؟ قَالَ: إِنَّ أَبِی شَکَانِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((أَطِعْ أَبَاکَ مَا دَامَ حَیًّا وَلَا تَعْصِہِ۔)) فَأَنَا مَعَکُمْ وَلَسْتُ أُقَاتِلُ۔ (مسند احمد: ۶۵۳۸)
حنظلہ بن خویلد عنبری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میںسیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس موجود تھا کہ ان کے ہاں دو آدمی آئے، وہ دونوں عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سر کے بارے میں جھگڑ رہے تھے، ان میں سے ہر ایک کہتا تھاکہ اس نے قتل کیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بہتر ہے کہ تم میں سے ایک یہ بات اپنے ساتھی کے بارے میں بخوشی تسلیم کر لے، (یہ کوئی باعث ِ ناز بات تو نہیں ہے)، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: ایک باغی گروہ عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر ے گا۔ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:اگر یہ بات ہے تو تم ہمارے ساتھ کیوں ملے ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا: میرے والد نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جاکر میری شکایت کر دی تھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ حکم دیاتھا کہ تمہارا والد جب تک زندہ ہے، ان کی بات ماننا اور ان کی نافرمانی نہ کرنا۔ اس لیے میں تمہارے ساتھ تو ہوں مگر لڑائی میں شامل نہیں ہوتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12351

۔ (۱۲۳۵۱)۔ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ کُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ قَالَ: کُنَّا بِوَاسِطِ الْقَصَبِ عِنْدَ عَبْدِ الْأَعْلَی بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: فَإِذَا عِنْدَہُ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ: أَبُو الْغَادِیَۃِ اسْتَسْقٰی مَائً، فَأُتِیَ بِإِنَائٍ مُفَضَّضٍ فَأَبٰی أَنْ یَشْرَبَ، وَذَکَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ ہٰذَا الْحَدِیثَ ((لَا تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا، أَوْ ضُلَّالًا، شَکَّ ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ،یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔)) فَإِذَا رَجُلٌ یَسُبُّ فُلَانًا فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَئِنْ أَمْکَنَنِی اللّٰہُ مِنْکَ فِی کَتِیبَۃٍ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ صِفِّینَ إِذَا أَنَا بِہِ وَعَلَیْہِ دِرْعٌ، قَالَ: فَفَطِنْتُ إِلَی الْفُرْجَۃِ فِی جُرُبَّانِ الدِّرْعِ فَطَعَنْتُہُ فَقَتَلْتُہُ فَإِذَا ہُوَ عَمَّارُ بْنُیَاسِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: وَأَیَّیَدٍ کَفَتَاہُ یَکْرَہُ أَنْ یَشْرَبَ فِی إِنَائٍ مُفَضَّضٍ، وَقَدْ قَتَلَ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ۔ (مسند احمد: ۱۶۸۱۸)
کلثوم بن جبر کہتے ہیں:کہ ہم واسط القصب نامی مقام میں عبد الا علی بن عبداللہ بن عامر کے ہاں موجود تھے، وہاں محفل میں ابو الغادیہ نامی ایک آدمی تھا، اس نے پینے کے لیے پانی طلب کیا، ایک ایسے برتن میں اسے پانی دیا گیاجس کا کنارا ٹوٹا ہوا تھا، اس نے اس برتن میں پانی پینے سے انکار کر دیا اور دوران گفتگو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کا بھی ذکر ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے بعد کا فریا گمراہ نہ ہو جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ وہی آدمی دوران گفتگو سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے لگا، میں نے کہا: اللہ کی قسم اگر کسی لشکر میں اللہ نے مجھے تجھ پر موقع دیا تو دیکھی جائے گی، جنگ صفین کے دن وہ زرہ پہنے ہوئے تھا، زرہ کے حلقوں میں خالی جگہ کو تاک کرمیں نے اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا، وہ عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، کلثوم کہتے ہیں: اس نوجوان کی طرح کا کون سا ہاتھ ہے ایک دن حدیث نبوی کے پیش نظر کنارا ٹوٹے ہوئے برتن میںپانی پینے سے انکار کر دیا اور ایک موقع یہ بھی تھا کہ اس نے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12352

۔ (۱۲۳۵۲)۔ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ قَالَ: أَتَیْتُ أَبَا وَائِلٍ فِی مَسْجِدِ أَہْلِہِ، أَسْأَلُہُ عَنْ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ الَّذِینَ قَتَلَہُمْ عَلِیٌّ بِالنَّہْرَوَانِ، فَفِیمَا اسْتَجَابُوا لَہُ؟ وَفِیمَا فَارَقُوہُ؟ وَفِیمَا اسْتَحَلَّ قِتَالَہُمْ؟ قَالَ: کُنَّا بِصِفِّینَ فَلَمَّا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ بِأَہْلِ الشَّامِ اعْتَصَمُوا بِتَلٍّ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِمُعَاوِیَۃَ: أَرْسِلْ إِلٰی عَلِیٍّ بِمُصْحَفٍ وَادْعُہُ إِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ فَإِنَّہُ لَنْ یَأْبٰی عَلَیْکَ، فَجَائَ بِہِ رَجُلٌ فَقَالَ: بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ: {أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ أُوتُوْا نَصِیبًا مِنْ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ إِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیقٌ مِنْہُمْ وَہُمْ مُعْرِضُونَ} [آل عمران: ۲۳] فَقَالَ عَلِیٌّ: نَعَمْ، أَنَا أَوْلٰی بِذٰلِکَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ، قَالَ: فَجَائَتْہُ الْخَوَارِجُ، وَنَحْنُ نَدْعُوہُمْ یَوْمَئِذٍ الْقُرَّائَ، وَسُیُوفُہُمْ عَلٰی عَوَاتِقِہِمْ، فَقَالُوْا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! مَا نَنْتَظِرُ بِہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ الَّذِینَ عَلَی التَّلِّ، أَلَا نَمْشِی إِلَیْہِمْ بِسُیُوفِنَا حَتّٰییَحْکُمَ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ، فَتَکَلَّمَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ فَقَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! اتَّہِمُوا أَنْفُسَکُمْ، فَلَقَدْ رَأَیْتُنَایَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ،یَعْنِی الصُّلْحَ الَّذِی کَانَ بَیْنَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَالْمُشْرِکِینَ، وَلَوْ نَرٰی قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، فَجَائَ عُمَرُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَہُمْ عَلٰی بَاطِلٍ؟ أَلَیْسَ قَتْلَانَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلَاہُمْ فِی النَّارِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قَالَ: فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمِ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ؟ فَقَالَ: ((یَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّی رَسُولُ اللّٰہِ، وَلَنْ یُضَیِّعَنِی أَبَدًا۔)) قَالَ: فَرَجَعَ وَہُوَ مُتَغَیِّظٌ فَلَمْ یَصْبِرْ حَتّٰی أَتٰی أَبَا بَکْرٍ، فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرٍ! أَلَسْنَا عَلٰی حَقٍّ وَہُمْ عَلٰی بَاطِلٍ؟ أَلَیْسَ قَتْلَانَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلَاہُمْ فِی النَّارِ؟ قَالَ: بَلٰی، قَالَ: فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمِ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ؟ فَقَالَ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! إِنَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَنْ یُضَیِّعَہُ اللّٰہُ أَبَدًا، قَالَ: فَنَزَلَتْ سُورَۃُ الْفَتْحِ، قَالَ: فَأَرْسَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی عُمَرَ فَأَقْرَأَہَا إِیَّاہُ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَفَتْحٌ ہُوَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۷۱)
حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا ابو وائل کے ہاں ان کی مسجد میں حاضر ہوا، میں ان سے ان لوگوں کی بابت دریافت کرنا چاہتا تھا جن کو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نہروان کے مقام پر قتل کیا تھا، کہ لوگوں نے کیونکر ان کی بات مانی اور نہ ماننے والوں نے کیونکر ان کی بات نہ مانی اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کیونکر ان کوقتل کرنا حلال سمجھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ صفین کے مقام پر موجود تھے، جب اہل شام کے ساتھ گھمسان کی لڑائی ہونے لگی، تو انہوں نے ٹیلے کی طرف پناہ لی، سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف مصحف بھیجیں اور انہیں کتاب اللہ کے فیصلہ پر آنے کی دعوت دیں، وہ اس بات کو قبول کرنے سے انکار نہیں کریںگے، تو ایک آدمی سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں قرآن لے کر آیا اور اس نے کہاہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ وَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ} … ٍٍِْْ بھلا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو اللہ کی کتاب میں سے حصہ دیا گیا اور انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ کتاب ان لوگوں کے مابین ہونے والے تنازعات کا فیصلہ کردے تو ان میں سے ایک فریق کج ادائی کے ساتھ منہ موڑ جاتا ہے۔ یہ سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:ٹھیک ہے، میں اس بات کا زیادہ مستحق ہوں، ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب حاکم ہے، خارجی لوگ جنہیں ہم ان دنوں قراء کہا کرتے تھے، وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے، وہ اپنی تلواریں اپنے کندھوں پر لٹکائے ہوئے تھے، انہوںنے کہا: امیر المومنین! یہ لوگ جو ٹیلے کی طرف پناہ لیے ہوئے ہیں، ہم ان کی انتظارکیوں کر رہے ہیں؟ ہم کیوںنہ تلواریں تان کر ان کی طرف لڑنے کو نکلیں تاآنکہ اللہ ہمارے اور انکے درمیان فیصلہ کردے، یہ سن کر سیدنا سہل بن حنیف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بولے، انہوں نے کہا: لوگو! اپنی رائے یا بات پر نظر ثانی کرو، میںنے دیکھا کہ صلح حدیبیہ کے دن جو صلح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور مشرکین کے مابین ہوئی، اس روز اگر ہم لڑنا چاہتے تو لڑ سکتے تھے، صلح کی بات ہوئی تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں؟ اور کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے مقتول جہنمی نہیں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کمزوری کیوں دکھائیں؟ اورہم یوں واپس کیوں لوٹ جائیں، جب کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے مابین فیصلہ نہیں کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غصہ کے عالم میں واپس لوٹ آئے، ان سے صبر نہ ہو وہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے اور کہا: اے ابو بکر! کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا وہ لوگ کفر پر نہیں ہیں؟ اور کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنمی نہیں؟ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی بالکل، تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو پھر ہم اپنے دین کے بارے میں اتنی کمزوری کیوں دکھائیں؟اور ہم یوں ہی واپس کیوںچلے جائیں؟ جب کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے مابین فیصلہ نہیں کیا؟ تو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے ابن خطاب! وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا، سیدنا سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد سورۂ فتح نازل ہوئی، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیجا کہ جا کر انہیں سنا آؤ؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس صلح کا انجام فتح ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12353

۔ (۱۲۳۵۳)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: بَعَثَ عَلِیٌّ مِنَ الْیَمَنِ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذَہَبَۃٍ فِی أَدِیمٍ مَقْرُوظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِہَا، فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَرْبَعَۃٍ بَیْنَ زَیْدِ الْخَیْرِ وَالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ وَعُیَیْنَۃَ بْنِ حِصْنٍ وَعَلْقَمَۃَ بْنِ عُلَاثَۃَ أَوْ عَامِرِ بْنِ الطُّفَیْلِ شَکَّ عُمَارَۃُ، فَوَجَدَ مِنْ ذٰلِکَ بَعْضُ أَصْحَابِہِ وَالْأَنْصَارُ وَغَیْرُہُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((أَلَا تَأْتَمِنُونِی وَأَنَا أَمِینُ مَنْ فِی السَّمَائِ، یَأْتِینِی خَبَرٌ مِنَ السَّمَائِ صَبَاحًا وَمَسَائً۔)) ثُمَّ أَتَاہُ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَیْنَیْن، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ، نَاشِزُ الْجَبْہَۃِ، کَثُّ اللِّحْیَۃِ، مُشَمَّرُ الْإِزَارِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: اتَّقِ اللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَہُ إِلَیْہِ فَقَالَ: ((وَیْحَکَ أَلَسْتُ أَحَقَّ أَہْلِ الْأَرْضِ أَنْ یَتَّقِیَ اللّٰہَ أَنَا؟)) ثُمَّ أَدْبَرَ، فَقَالَ خَالِدٌ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَہُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((فَلَعَلَّہُ یَکُونُیُصَلِّی)) فَقَالَ: إِنَّہُ رُبَّ مُصَلٍّ یَقُولُ بِلِسَانِہِ مَا لَیْسَ فِی قَلْبِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنِّی لَمْ أُومَرْ أَنْ أُنَقِّبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُونَہُمْ۔)) ثُمَّ نَظَرَ إِلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: ((ہَا إِنَّہُ سَیَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ ہٰذَا قَوْمٌ یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِِِِِ)) زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: ((یَقْتُلُونَ أَہْلَ الْإِسْلَامِ، وَیَدَعُونَ أَہْلَ الْأَوْثَانِ، لَئِنْ أَنَا أَدْرَکْتُہُمْ لَأَقْتُلَنَّہُمْ قَتْلَ عَادٍ۔)) (مسند احمد: ۱۱۶۷۱)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یمن سے رنگے ہوئے چمڑے میں بند سونا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھیجاہے، جسے ابھی مٹی سے صاف نہیںکیا گیا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ سونا زید خیر، اقرع بن حابس، عیینہ بن حصن اور علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل یہ شک اس حدیث کے ایک راوی عمارہ کو ہے (صحیح علقمہ بن علاثہ ہے کیونکہ عامر کئی سال پہلے کا فوت ہو چکا ہے)، میں تقسیم فرمایا: تو بعض صحابہ اور انصار وغیرہ کو یہ کافی محسوس ہوا، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ مجھے امین،دیانت دار نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں اللہ کا امین ہوں اور میرے پاس صبح شام آسمان سے خبریں آتی ہیں۔ دوسری روایت ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس تقسیم پر قریش اور انصار کے کچھ لوگ غضناک ہوئے، انہوںنے کہا:آپ اہل نجد کے بڑے بڑے لوگوں کو عطیات دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میںان کی دل جوئی کرتا ہوں، اس کے بعدایک آدمی آپ کے پاس آیا، اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، رخسار ابھرے ہوئے اور پیشانی اونچی،داڑھی گھنی،چادر خوب اونچی اور سرمنڈا ہواتھا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے ڈریں، دوسری روایت میں ہے، اس نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر مبارک اس کی طرف اٹھایا اور فرمایا: تم پر افسوس ہے کہ تمام روئے زمین والوں میں سے میں سب سے زیاد ہ اس بات کا حقدار نہیں کہ اللہ سے ڈروں؟ اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا، یہ سارا ماجرا دیکھ کر خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میںاس کی گردن نہ اڑادوں؟ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں!شاید یہ نماز پڑھتا ہو۔ تو خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بعض نماز ی اپنی زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں: جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں،تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس بات کا مکلف نہیں ٹھہرایاگیا کہ میں لوگوں کے دلوں اور ان کے پیٹوں کو چیر چیر کر دیکھوں۔ وہی آدمی پیٹھ موڑ کر جا رہا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا: اس کی نسل میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے، وہ قرآن تو پڑھیں گے مگر وہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے شکار میں سے تیر تیزی سے نکل جاتا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوںکو کچھ نہیں کہیں گے، اگر میں نے ان کو پایا تو ان کو یوں قتل کر وں گا جس طرح قوم عاد کو قتل کیا گیا تھا کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12354

۔ (۱۲۳۵۴)۔ حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الشَّحَّامُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ سَاجِدٍ، وَہُوَ یَنْطَلِقُ إِلَی الصَّلَاۃِ، فَقَضَی الصَّلَاۃَ،وَرَجَعَ عَلَیْہِ وَہُوَ سَاجِدٌ، فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((مَنْ یَقْتُلُ ہٰذَا؟)) فَقَامَ رَجُلٌ فَحَسَرَ عَنْ یَدَیْہِ فَاخْتَرَطَ سَیْفَہُ وَہَزَّہُ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، کَیْفَ أَقْتُلُ رَجُلًا سَاجِدًا یَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ؟ ثُمَّ قَالَ: ((مَنْ یَقْتُلُ ہٰذَا؟)) فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: أَنَا، فَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَیْہِ وَاخْتَرَطَ سَیْفَہُ وَہَزَّہُ حَتّٰی أُرْعِدَتْیَدُہُ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَیْفَ أَقْتُلُ رَجُلًا سَاجِدًا یَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَوْ قَتَلْتُمُوہُ لَکَانَ أَوَّلَ فِتْنَۃٍ وَآخِرَہَا۔)) (مسند احمد: ۲۰۷۰۳)
مسلم بن ابی بکرہ اپنے سے والد بیان کرتے ہیں: کہ ایک آدمی سجدہ کی حالت میں تھا کہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پا س سے گزرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی اس وقت نماز کے لیے تشریف لے جارہے تھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز ادا کرنے کے بعد واپس ہوئے تووہ ابھی تک سجدہ ہی میں تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رک گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے کون قتل کرے گا،؟ تو ایک آدمی نے اٹھ کر اپنے بازوں سے آستین اوپر کو چڑھائی اور تلوار نکال کر اسے لہرایا، پھر کہا: اللہ کے نبی میرے ماں باپ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر فدا ہوں، میں کیونکر ایسے آدمی کو قتل کروں جو سجدہ میں ہے اور اللہ کی وحدانیت اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اللہ کے بندے اور رسول ہونے کی شہادت دیتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: اسے کون قتل کرے گا؟ تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: میں، پھر اس نے اپنے آستین چڑھا لیے اور تلوار نکال کر اس قدر لہرایا کہ اس کا ہاتھ کانپنے لگا، اس نے کہا: اللہ کے نبی! میں کیونکر ایسے آدمی کو قتل کروںجو سجدہ کی حالت میں ہے اور وہ اللہ کی توحید اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12355

۔ (۱۲۳۵۵)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ جَائَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی مَرَرْتُ بِوَادِی کَذَا وَکَذَا، فَإِذَا رَجُلٌ مُتَخَشِّعٌ حَسَنُ الْہَیْئَۃِیُصَلِّی، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((اذْہَبْ إِلَیْہِ فَاقْتُلْہُ۔))قَالَ: فَذَہَبَ إِلَیْہِ أَبُو بَکْرٍ فَلَمَّا رَآہُ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ کَرِہَ أَنْ یَقْتُلَہُ فَرَجَعَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعُمَرَ: ((اذْہَبْ فَاقْتُلْہُ۔)) فَذَہَبَ عُمَرُ فَرَآہُ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ الَّتِی رَآہُ أَبُو بَکْرٍ، قَالَ: فَکَرِہَ أَنْ یَقْتُلَہُ، قَالَ: فَرَجَعَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی رَأَیْتُہُیُصَلِّی مُتَخَشِّعًا فَکَرِہْتُ أَنْ أَقْتُلَہُ، قَالَ: (یَا عَلِیُّ! اذْہَبْ فَاقْتُلْہُ۔)) قَالَ: فَذَہَبَ عَلِیٌّ فَلَمْ یَرَہُ فَرَجَعَ عَلِیٌّ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّہُ لَمْ یُرَہْ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ ہَذَا وَأَصْحَابَہُ یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ،یَمْرُقُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنْ الرَّمِیَّۃِ، ثُمَّ لَا یَعُودُونَ فِیہِ حَتَّییَعُودَ السَّہْمُ فِی فُوقِہِ، فَاقْتُلُوہُمْ ہُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۳۵)
سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اور کہا: اللہ کے رسول! میرا فلاں وادی میں گزر ہوا تو وہاں ایک حسین وجمیل آدمی انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کررہا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جا کر اسے قتل کردو۔ ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کی طرف واپس گئے تو اسے اسی حالت میں پایا، آپ نے اسے قتل کرنا مناسب نہ سمجھا،آپ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس آگئے، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم جا کر اسے قتل کرآؤ۔ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہا ں گئے، تو اسے اسی حالت میں پایا جس حالت میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے دیکھا تھا، انہوں نے بھی اسے قتل کر ناٹھیک نہ سمجھا، انہوں نے واپس آکر کہا: اللہ کے رسول! میں نے اسے انتہائی خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے دیکھا اس لیے اس کو قتل کرنا ٹھیک نہ سمجھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی! تم جاؤ اور اسے قتل کردو۔ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گئے تو آپ نے اسے وہاں نہ دیکھا، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے واپس آکر کہا: اللہ کے رسول! وہ مجھے تو نظر نہیں آیا، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ اور اس کے ساتھی قرآن کی تلاوت خوب کریں گے، مگر وہ ان کے سینے سے نیچے نہ اترے گا اور یہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے کمان میں سے تیر نکل جاتا ہے، یہ دین میں واپس نہیں آئیں گے حتی کہ تیر اپنی کمان میں واپس آجائے، تم انہیں قتل کر دینا، یہ تمام لوگوںمیں سے بد ترین لوگ ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12356

۔ (۱۲۳۵۶)۔ عَنْ مِقْسَمٍ أَبِی الْقَاسِمِ مَوْلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَتَلِیدُ بْنُ کِلَابٍ اللَّیْثِیُّ، حَتّٰی أَتَیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَہُوَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ مُعَلِّقًا نَعْلَیْہِ بِیَدِہِ، فَقُلْنَا لَہُ: ہَلْ حَضَرْتَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَیُکَلِّمُہُ التَّمِیمِیُّیَوْمَ حُنَیْنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍیُقَالُ لَہُ: ذُو الْخُوَیْصِرَۃِ، فَوَقَفَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُعْطِی النَّاسَ، قَالَ: یَا مُحَمَّدُ! قَدْ رَأَیْتَ مَا صَنَعْتَ فِی ہٰذَا الْیَوْمِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَجَلْ، فَکَیْفَ رَأَیْتَ؟)) قَالَ: لَمْ أَرَکَ عَدَلْتَ، قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: ((وَیْحَکَ إِنْ لَمْ یَکُنِ الْعَدْلُ عِنْدِی فَعِنْدَ مَنْ یَکُونُ؟)) فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا نَقْتُلُہُ؟ قَالَ: ((لَا، دَعُوہُ فَإِنَّہُ سَیَکُونُ لَہُ شِیعَۃٌ،یَتَعَمَّقُونَ فِی الدِّینِ حَتّٰییَخْرُجُوا مِنْہُ، کَمَا یَخْرُجُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ،یُنْظَرُ فِی النَّصْلِ فَلَا یُوجَدُ شَیْئٌ، ثُمَّ فِی الْقِدْحِ فَلَا یُوجَدُ شَیْئٌ، ثُمَّ فِی الْفُوقِ فَلَایُوجَدُ شَیْئٌ، سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ۔)) قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمٰنِ: أَبُو عُبَیْدَۃَ ہٰذَا اسْمُہُ مُحَمَّدٌ ثِقَۃٌ، وَأَخُوہُ سَلَمَۃُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارٍ، لَمْ یَرْوِ عَنْہُ إِلَّا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ، وَلَا نَعْلَمُ خَبَرَہُ، وَمِقْسَمٌ لَیْسَ بِہِ بَأْسٌ، وَلِہٰذَا الْحَدِیثِ طُرُقٌ فِی ہٰذَا الْمَعْنَی، وَطُرُقٌ أُخَرُ فِی ہٰذَا الْمَعْنَی صِحَاحٌ، وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی أَعْلَمُ۔ (مسند احمد: ۷۰۳۸)
مقسم ابو القاسم مولی عبداللہ بن حارث بن نوفل سے مروی ہے کہ میں اور تلید بن کلاب لیثی روانہ ہوئے اور ہم عبداللہ بن عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پہنچے، وہ اپنے جوتے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، میں نے ا ن سے کہا: کہ کیا آ پ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حنین کے دن اس وقت موجود تھے، جب ایک تمیمی آپ سے محو کلام تھا؟ انہوںنے کہا: ہاں، بنوتمیم کاایک آدمی آیا تھا، جسے ذوالخویصر، کہا جاتا ہے: وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آکر کھڑا ہوگیا، آپ اس وقت لوگوں میں عطیات تقسیم فرمارہے تھے، اس نے کہا: اے محمد آپ آج جو کام کر رہے ہیں، میں نے دیکھ لیا ہے، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں تم نے کیا دیکھا ہے؟ اس نے کہا:میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا، اس کی اس بات پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غضبناک ہوگئے اور فرمایا: تجھ پر افسوس ہے، اگر میرے پاس عدل نہیں تو اور کس کے پاس ہوگا؟ تو عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے گزارش کی: اللہ کے رسول! کیا ہم اسے قتل نہ کردیں؟ آپ نے فرمایا: نہیںاسے چھوڑ دو، کچھ لوگ اس کے معاون ہوںگے اور وہ دین میں اس حد تک گہرائی میں جائیں گے کہ دین میں سے یوںنکل جائیں گے جیسے شکار میں سے تیر نکل جاتا ہے، تیرکو اچھی طرح دیکھیں تو اس کے کسی بھی حصہ پر خون کا نشان تک نہیں ہوتا، وہ خون اور گو بر کے درمیان سے تیزی سے نکل جاتا ہے۔ ابوعبدالرحمن نے کہا ہے: اس حدیث کے راوی ابو عبیدہ کا نام محمد ہے اور وہ ثقہ راوی ہے اس کے بھائی سلمہ بن محمد بن عمار سے صرف علی بن زید نے روایت حدیث کی ہے ہم اس کے حالات سے واقف نہیں، مقسم بھی مقبول راوی ہے۔ اس حدیث کے بہت سے طرق صحیح ہیں۔واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12357

۔ (۱۲۳۵۷)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوُہُ وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِہِ: ((سَبَقَ الْفَرَثَ وَالدَّمَ۔)) مِنْہُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ فِی إِحْدٰییَدَیْہِ أَوْ قَالَ إِحْدٰی ثَدْیَیْہِ مِثْلُ ثَدْیِ الْمَرْأَۃِ، أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَۃِتَدَرْدَرُ،یَخْرُجُونَ عَلٰی حِینِ فَتْرَۃٍ مِنَ النَّاسِ، فَنَزَلَتْ فِیہِمْ: {وَمِنْہُمْ مَنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ} الْآیَۃَ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: أَشْہَدُ أَنِّی سَمِعْتُ ہَذَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَشْہَدُ أَنَّ عَلِیًّا حِینَ قَتَلَہُ وَأَنَا مَعَہُ جِیئَ بِالرَّجُلِ عَلَی النَّعْتِ، الَّذِی نَعَتَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۱۵۵۸)
سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے گزشتہ حدیث کی مانند روایت کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ ان لوگوں میں ایک آدمی سیاہ فام ہوگا جس کا ایک بازو عورت کے پستان کی مانند ہوگا، یا یوں فرمایا کہ اس کا ایک باز و گوشت کے لوتھڑے کی مانند ہوگا اور حرکت کرتا ہوگا، یہ لوگ ایک زمانے1 میں نکلیں گے، انہی لوگوں کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی: {وَمِنْہُمْ مَنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ}… اور ان میں کچھ لوگ صدقات کی تقسم میں آپ پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جب سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے قتل کیا تو میں اس وقت ان کے ساتھ تھا اور وہ آدمی ویسا ہی تھاجیسا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیان فرمایا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12358

۔ (۱۲۳۵۸)۔ عَنْ شَرِیکِ بْنِ شِہَابٍ، قَالَ: کُنْتُ أَتَمَنّٰی أَنْ أَلْقٰی رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یُحَدِّثُنِی عَنِ الْخَوَارِجِ، فَلَقِیتُ أَبَا بَرْزَۃَ فِییَوْمِ عَرَفَۃَ فِی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِہِ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا بَرْزَۃَ! حَدِّثْنَا بِشَیْئٍ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُہُ فِی الْخَوَارِجِ، فَقَالَ: أُحَدِّثُکَ بِمَا سَمِعَتْ أُذُنَیَّ وَرَأَتْ عَیْنَایَ، أُتِیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِدَنَانِیرَ، فَکَانَ یَقْسِمُہَا، وَعِنْدَہُ رَجُلٌ أَسْوَدُ مَطْمُومُ الشَّعْرِ، عَلَیْہِ ثَوْبَانِ أَبْیَضَانِ، بَیْنَ عَیْنَیْہِ أَثَرُ السُّجُودِ، فَتَعَرَّضَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَتَاہُ مِنْ قِبَلِ وَجْہِہِ، فَلَمْ یُعْطِہِ شَیْئًا، ثُمَّ أَتَاہُ مِنْ خَلْفِہِ فَلَمْ یُعْطِہِ شَیْئًا، فَقَالَ: وَاللّٰہِ، یَا مُحَمَّدُ! مَا عَدَلْتَ مُنْذُ الْیَوْمِ فِی الْقِسْمَۃِ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَضَبًا شَدِیدًا، ثُمَّ قَالَ: ((وَاللّٰہِ! لَا تَجِدُونَ بَعْدِی أَحَدًا أَعْدَلَ عَلَیْکُمْ مِنِّی۔)) قَالَہَا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: ((یَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ رِجَالٌ، کَاَنَّ ہٰذَا مِنْہُمْ، ہَدْیُہُمْ ہٰکَذَا یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ، لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ،یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ، لَا یَرْجِعُونَ إِلَیْہِ، وَوَضَعَ یَدَہُ عَلٰی صَدْرِہِ، سِیمَاہُمْ التَّحْلِیقُ، لَا یَزَالُونَیَخْرُجُونَ حَتّٰییَخْرُجَ آخِرُہُمْ، فَإِذَا رَأَیْتُمُوہُمْ فَاقْتُلُوہُمْ، قَالَہَا ثَلَاثًا، شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِیقَۃِ، قَالَہَا ثَلَاثًا۔)) وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: لَا یَرْجِعُونَ فِیہِ۔ (مسند احمد: ۲۰۰۲۱)
شریک بن شہاب کہتے ہیں: میںتمنا کیا کرتا تھاکہ میری کسی ایسے صحابی سے ملاقات ہو جو مجھے خوارج کے متعلق بتلائے، اتفاق سے میری ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے عرفہ کے دن ملاقات ہوگئی، وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ تھے، میںنے کہا: اے ابو برزہ! آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیں جس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خوراج کے متعلق بیان فرمایا ہو، انہوںنے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں دینار لا ئے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہ تقسیم فرما رہے تھے، ایک سیاہ فام اور گنجاآدمی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کھڑا تھا،جس نے دو سفید کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے اور اس کی آنکھوں کے ! آگے حدیث ۱۲۳۶۸ میں آرہاہے کہ لوگوں کے اختلاف و افتراق کے وقت یہ گروہ وجود میں آئے گا۔ (عبداللہ رفیق) درمیان سجدوں کے نشانات تھے، وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کی طرف سے آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کوئی چیز نہ دی، پھروہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کی طرف سے آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر بھی اسے کچھ نہ دیا، اس نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے آج کی تقسیم میں انصاف بالکل نہیں کیا، اس کی یہ بات سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شدید غضبناک ہوئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! تم میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی کو انصاف کرنے والا نہیں پاؤ گے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مشرق کی جانب سے کچھ لوگ ظاہر ہوں گے، یہ آدمی گویا انہی لوگوں میں سے ہے وہ ایسے ہوں گے کہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے سینے سے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جسے شکار میں سے تیر صاف نکل جاتا ہے۔ اس سند کے ایک راوی حما د نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر یوں بیان کیاکہ: وہ لوگ دین کی طرف پلٹ کر نہیں آئیں گے، ان کی علامت یہ ہوگی کہ وہ سرمنڈاتے ہوں گے، وہ دین سے نکلتے جائیں گے، یہاں تک کہ ان کا آخری آدمی (دجال کے ساتھ) نکلے گا، تم انہیں دیکھو تو انہیں قتل کر دینا۔ یہ بھی آپ نے تین مرتبہ فرمایا: وہ سب لوگوں سے بدترین ہوں گے۔ یہ بات بھی آپ نے تین مرتبہ دہرائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12359

۔ (۱۲۳۵۹)۔ وَعَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: أُتِیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِدَنَانِیرَ فَکَانَ یَقْسِمُہَا، فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ اَبِیْ بَرْزَۃَ الْمُتَقَدِّمِ۔ (مسند احمد: ۲۰۷۰۶)
سیدناابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دینار لائے گئے، اس سے آگے ابو بزرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی گزشتہ حدیث کی مانند ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12360

۔ (۱۲۳۶۰)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ: إِنِّی دَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَیْسَ عِنْدَہُ أَحَدٌ إِلَّا عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، فَقَالَ: ((یَا ابْنَ أَبِی طَالِبٍ کَیْفَ أَنْتَ وَقَوْمَ کَذَا وَکَذَا؟)) قَالَ: قُلْتُ: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((قَوْمٌ یَخْرُجُونَ مِنَ الْمَشْرِقِ، یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ، لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ،یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ مُرُوقَ السَّہْمِ مِنَ الرَّمِیَّۃِ، فَمِنْہُمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْیَدِ، کَأَنَّ یَدَیْہِ ثَدْیُ حَبَشِیَّۃٍ۔)) (مسند احمد: ۱۳۷۸)
فصل دوم: خوارج، ان کے قائد کی علامت اور ان کی خدمت اور اس کا بیان کہ ان کو قتل کرنے کا حکم ہے اور یہ بیان کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا گروہ بر حق تھا
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12361

۔ (۱۲۳۶۱)۔ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: ذُکِرَ الْخَوَارِجُ فَقَالَ: فِیہِمْ مُخْدَجُ الْیَدِ، أَوْ مُودَنُ الْیَدِ أَوْ مُثَدَّنُ الْیَدِ، لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوْا لَحَدَّثْتُکُمْ بِمَا وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِینَیَقْتُلُونَہُمْ عَلٰی لِسَانِ مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنْ مُحَمَّدٍ؟ قَالَ: إِی وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، إِی وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، إِی وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ (مسند احمد: ۶۲۶)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ خوارج کا ذکرکیا گیا تو انھوں نے کہا:ان میں سے ایک آدمی ناقص ہاتھ والا ہوگا، اگر اس بات کا اندیشہ نہ ہو کہ تم فخرو غرور میں مبتلا ہوجاؤ گے، تو میں تمہیں بتلاتاکہ اللہ تعالیٰ نے ان خوارج کو قتل کرنے والوں کے لیے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زبان پر کیا وعدہ فرمایا ہے، میں نے کہا: کیا واقعی آپ نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں، رب کعبہ کی قسم! جی ہاں، رب کعبہ کی قسم! جی ہاں، رب کعبہ کی قسم!
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12362

۔ (۱۲۳۶۲)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِیدَۃَ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ذَکَرَ أَہْلَ النَّہْرَوَانِ، فَقَالَ: فِیہِمْ رَجُلٌ مُودَنُ الْیَدِ، أَوْ مَثْدُونُ الْیَدِ، أَوْ مُخْدَجُ الْیَدِ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔ (مسند احمد: ۹۰۴)
۔ (دوسری سند)سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اہل نہروان کا ذکرکرتے ہوئے کہا: ان میں سے ایک آدمی ناقص ہاتھ والا ہوگا، … پھر اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12363

۔ (۱۲۳۶۳)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا حَلَفَ وَاجْتَہَدَ فِی الْیَمِینِ، قَالَ: ((لَا، وَالَّذِی نَفْسُ أَبِی الْقَاسِمِ بِیَدِہِ، لَیَخْرُجَنَّ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِی، تُحَقِّرُونَ أَعْمَالَکُمْ مَعَ أَعْمَالِہِمْ، یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ، لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ،یَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ، کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔)) قَالُوْا: فَہَلْ مِنْ عَلَامَۃٍیُعْرَفُونَ بِہَا؟ قَالَ: ((فِیہِمْ رَجُلٌ ذُو یُدَیَّۃٍ أَوْ ثُدَیَّۃٍ مُحَلِّقِی رُئُ وْسِہِمْ۔)) قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: فَحَدَّثَنِی عِشْرُونَ أَوْ بِضْعٌ وَعِشْرُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَلِیَ قَتْلَہُمْ، قَالَ: فَرَأَیْتُ أَبَا سَعِیدٍ بَعْدَمَا کَبِرَ وَیَدَاہُ تَرْتَعِشُ یَقُولُ: قِتَالُہُمْ أَحَلُّ عِنْدِی مِنْ قِتَالِ عِدَّتِہِمْ مِنَ التُّرْکِ۔ (مسند احمد: ۱۱۳۰۵)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بہت زیادہ پختہ قسم اٹھاتے تو اس طرح فرماتے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے! میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ تم ان کے اعمال کے مقابلہ میں اپنے اعمال کو معمولی سمجھو گے، وہ قرآن تو پڑھیں گ، لیکن قرآن ان کے سینوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے، جیسے شکار میں سے تیر صاف نکل جاتا ہے۔ صحابۂ کرام نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی کچھ علامات بیان فرما دیں، جن سے وہ پہنچانے جاسکیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے ایک آدمی کا ہاتھ یوں ہوگا، جیسے عورت کا پستان ہوتا ہے اور ان کے سرمنڈے ہوئے ہوں گے۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: مجھ سے بیس یا اس سے بھی زائد صحابہ نے بیان کیا کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو قتل کیا تھا۔ عاصم سے مروی ہے کہ میں نے ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا وہ عمر رسیدہ ہوچکے تھے اور ان کے ہاتھوں میں رعشہ تھا، وہ کہتے تھے: ان خوارج کو قتل کرنا میرے نزدیک انہی کے بقدر ترکوں سے لڑنے سے افضل اور اہم ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12364

۔ (۱۲۳۶۴)۔ عَنْ یَزِیدَ الْفَقِیرِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ: إِنَّ مِنَّا رِجَالًا ہُمْ أَقْرَؤُنَا لِلْقُرْآنِ وَأَکْثَرُنَا صَلَاۃً، وَأَوْصَلُنَا لِلرَّحِمِ، وَأَکْثَرُنَا صَوْمًا، خَرَجُوْا عَلَیْنَا بِأَسْیَافِہِمْ، فَقَالَ أَبُو سَعِیدٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((یَخْرُجُ قَوْمٌ یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ، یَمْرُقُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۵۰۸)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: ہم میں سے کچھ لوگ بہت زیادہ قرآن پڑھتے تھے، نماز ادا کرتے تھے، سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرتے اور روزے رکھتے تھے اوروہی تلواریں نکال کر ہمارے خلاف نکل آئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: کچھ لوگ ظاہر ہوں گے، وہ قرآن پڑھیں گے، لیکن قرآن ا ن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے یوں نکل جائیں گے، جیسے تیر تیزی کے ساتھ شکار میں سے صاف نکل جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12365

۔ (۱۲۳۶۵)۔ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلـٰـی أَبِــی سَعِیدٍ فَقَالَ: ہَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ فِی الْحَرُورِیَّۃِ شَیْئًا؟ قَالَ: سَمِعْتُہُ یَذْکُرُ قَوْمًا یَتَعَمَّقُونَ فِی الدِّینِیَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَہُ عِنْدَ صَلَاتِہِمْ، وَصَوْمَہُ عِنْدَ صَوْمِہِمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ، أَخَذَ سَہْمَہُ فَنَظَرَ فِی نَصْلِہِ فَلَمْ یَرَ شَیْئًا، ثُمَّ نَظَرَ فِی رُصَافِہِ فَلَمْ یَرَ شَیْئًا، ثُمَّ نَظَرَ فِی قِدْحَتِہِ فَلَمْ یَرَ شَیْئًا، ثُمَّ نَظَرَ فِی الْقُذَذِ فَتَمَارٰی ہَلْ یَرٰی شَیْئًا أَمْ لَا۔ (مسند احمد: ۱۱۳۱۱)
ابو سلمہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ کیا آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حروریوں یعنی خوارج کی بابت کچھ بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوںنے کہا: میںنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ دین میں بہت زیادہ باریکیوں اور گہرائی میںجائیں گے اور وہ اس قدر نیک ہوں گے کہ تم ان کے مقابلہ میں اپنی نمازوں کو اور اپنے روزوں کو معمولی سمجھو گے، لیکن وہ دین سے یوں صاف نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار میں سے اس طرح تیزی کے ساتھ نکل جاتا ہے کہ شکاری اپنے تیر کو اٹھا کر اس کو دیکھتا ہے، لیکن اس میں کوئی اثر نظر نہیں آتی، پھر وہ اس کے پھل کا جائزہ لیتا ہے، لیکن وہ کوئی علامت دیکھ نہیں پاتا،پھر وہ اس کے بعد والے حصے کو دیکھتا ہے اس میں بھی کوئی اثر نظر نہیں آتا پھر پروں کو بھی اچھی طرح دیکھتا ہے، اور وہ اس بارے متردد ہو جاتا ہے کہ کیا کوئی اثر ہے یا نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12366

۔ (۱۲۳۶۶)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَفْتَرِقُ أُمَّتِی فِرْقَتَیْنِ، فَیَتَمَرَّقُ بَیْنَہُمَا مَارِقَۃٌ،یَقْتُلُہَا أَوْلَی الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۷۲)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت د وگروں میں تقسیم ہو جائے گی، پھر ان کے درمیان ایک تیسرا گروہ نکلے گا، دونوں میں سے جو گروہ حق کے زیادہ قریب ہوگا، وہ اس گروہ کو قتل کر ے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12367

۔ (۱۲۳۶۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتّٰییَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِیمَتَانِ، دَعْوَاہُمَا وَاحِدَۃٌ، تَمْرُقُ بَیْنَہُمَا مَارِقَۃٌ،یَقْتُلُہَا أَوْلَاہُمَا بِالْحَقِّ۔)) (مسند احمد: ۱۱۹۲۸)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک کہ دو بڑے گروہ آپس میں نہیںلڑیں گے، جبکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا، پھر ان دونوں کے درمیان سے ایک تیسرا گروہ جنم لے گا، ان دونوں بڑے گروہوں میں سے جو حق کے زیادہ قریب ہوگا، وہ اس گروہ کو قتل کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12368

۔ (۱۲۳۶۸)۔ عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ قَوْمًا یَکُونُونَ فِی أُمَّتِہِ، یَخْرُجُونَ فِی فِرْقَۃٍ مِنَ النَّاسِ، سِیمَاہُمْ التَّحْلِیقُ، ہُمْ شَرُّ الْخَلْقِ، أَوْ مِنْ شَرِّ الْخَلْقِیَقْتُلُہُمْ أَدْنَی الطَّائِفَتَیْنِ مِنَ الْحَقِّ، قَالَ: فَضَرَبَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَہُمْ مَثَلًا أَوْ قَالَ قَوْلًا: الرَّجُلُ یَرْمِی الرَّمِیَّۃَ، أَوْ قَالَ: الْغَرَضَ فَیَنْظُرُ فِی النَّصْلِ فَلَا یَرٰی بَصِیرَۃً، وَیَنْظُرُ فِی النَّضِیِّ فَلَا یَرٰی بَصِیرَۃً، وَیَنْظُرُ فِی الْفُوقِ فَلَا یَرٰی بَصِیرَۃً، قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: وَأَنْتُمْ قَتَلْتُمُوہُمْ یَا أَہْلَ الْعِرَاقِ۔ (مسند احمد: ۱۱۰۳۱)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی امت کے کچھ لوگوں کا ذکر کیا، جو امت میں افترق و اختلاف کے وقت ظاہر ہوں گے،ان کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ سرمنڈاتے ہوں گے یہ مخلوق سے بدترین ہے۔ ان کو دو گروہوں میں حق کے زیادہ قریب گروہ قتل کرے گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس موقع پر ایک مثال پیش کی کہ آدمی شکار پر تیر چلاتا ہے (وہ تیر شکار کے خون اور گوبر میں سے گزر کر گیا ہے) لیکن وہ تیر کے پھل پر کوئی چیز نہیں دیکھتا۔ اس کی لکڑی پر کوئی اثر نہیں دیکھتا۔ اس کی چٹکی پر کوئی نشان نہیں۔ (اس طرح قرآن مجید پڑھنے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو گا)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12369

۔ (۱۲۳۶۹)۔ وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ اَوْفٰی ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اَلْخَوَارِجُ ھُمْ کِلَابُ النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۳۴۱)
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خوارج جہنم کے کتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12370

۔ (۱۲۳۷۰)۔ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الشَّحَّامُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ وَسَأَلَہُ ہَلْ سَمِعْتَ فِی الْخَوَارِجِ مِنْ شَیْئٍ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ وَالِدِی أَبَا بَکْرَۃَیَقُولُ: عَنْ نَبِیِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((أَلَا إِنَّہُ سَیَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ، أَشِدَّائُ أَحِدَّائُ ذَلِقَۃٌ أَلْسِنَتُہُمْ بِالْقُرْآنِ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ، أَلَا فَإِذَا رَأَیْتُمُوہُمْ فَأَنِیمُوہُمْ، ثُمَّ إِذَا رَأَیْتُمُوہُمْ فَأَنِیمُوہُمْ، فَالْمَأْجُورُ قَاتِلُہُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۰۷۱۹)
عثمان شحام سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: ہمیں مسلم بن ابی بکرہ نے بیان کیا کہ انہوں نے اس سے پوچھا کہ آیا انھوںنے خوارج کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے کیا: میں نے اپنے والد سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! عنقریب میری امت سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دینی امور میں سختی کرنے والے اور تیز ہوں گے، ان کی زبانیں قرآن کے ساتھ بڑی ماہر ہوں گی، مگر وہ ان کی ہنسلی کی ہڈیوں سے نیچے نہیں اترے گا، جب تم انہیں دیکھو تو قتل کر ڈالنا، پھر کہتاہوں کہ تم جب انہیں دیکھو تو ان کو قتل کر دینا، ان کو قتل کرنے والا اجر کا مستحق ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12371

۔ (۱۲۳۷۱)۔ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ أَنَّ رَجُلًا وُلِدَ لَہُ غُلَامٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِبَشَرَۃِ وَجْہِہِ وَدَعَا لَہُ بِالْبَرَکَۃِ، قَالَ: فَنَبَتَتْ شَعَرَۃٌ فِی جَبْہَتِہِ کَہَیْئَۃِ الْقَوْسِ وَشَبَّ الْغُلَامُ، فَلَمَّا کَانَ زَمَنُ الْخَوَارِجِ أَحَبَّہُمْ، فَسَقَطَتِ الشَّعَرَۃُ عَنْ جَبْہَتِہِ، فَأَخَذَہُ أَبُوہُ فَقَیَّدَہُ وَحَبَسَہُ مَخَافَۃَ أَنْ یَلْحَقَ بِہِمْ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَیْہِ فَوَعَظْنَاہُ وَقُلْنَا لَہُ فِیمَا نَقُولُ: أَلَمْ تَرَ أَنَّ بَرَکَۃَ دَعْوَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ وَقَعَتْ عَنْ جَبْہَتِکَ، فَمَا زِلْنَا بِہِ حَتّٰی رَجَعَ عَنْ رَأْیِہِمْ، فَرَدَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ الشَّعَرَۃَ بَعْدُ فِی جَبْہَتِہِ وَتَابَ۔ (مسند احمد: ۲۴۲۱۵)
سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کے ہاں بیٹا پیدا ہوا، وہ اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے کر آ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے چہرے کا چمڑہ پکڑ کر اس کے حق میں برکت کی دعا کی، پس اس بچے کی پیشانی پر کمان کی مانند بال اگ آیا اور وہ بچہ جوان ہوگیا، جب خوارج کادور آیا تو وہ بچہ ان کی طرف مائل ہوا اور ان سے محبت کرنے لگا، تو اس کے چہرے کا وہ بال جھڑ گیا، یہ دیکھ کر اس کے والد نے اسے پکڑ کر قید کر کے محبو س کر دیا، اسے اندیشہ تھا کہ کہیں یہ ان کے ساتھ مکمل طور پر نہ مل جائے، سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:ہم اس کے پاس گئے اور جا کر وعظ نصیحت کی اور اپنی باتوں میں ہم نے اس سے یہ بھی کہاکہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعاکی برکت تمہاری پیشانی سے جھڑ گئی ہے، ہم اسے مسلسل وعظ کرتے رہے تاآنکہ اس نے خوارج کی رائے سے رجوع کرلیا، اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کر لی اور اس کے بعد اس کی پیشانی پر بال دوبارہ اگ آیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12372

۔ (۱۲۳۷۲)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ: لَمَّا خَرَجَتِ الْخَوَارِجُ بِالنَّہْرَوَانِ، قَامَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی أَصْحَابِہِ فَقَالَ: إِنَّ ہَؤُلَائِ الْقَوْمَ قَدْ سَفَکُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِی سَرْحِ النَّاسِ، وَہُمْ أَقْرَبُ الْعَدُوِّ إِلَیْکُمْ، وَإِنْ تَسِیرُوْا إِلٰی عَدُوِّکُمْ أَنَا أَخَافُ أَنْ یَخْلُفَکُمْ ہٰؤُلَائِ فِی أَعْقَابِکُمْ، إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((تَخْرُجُ خَارِجَۃٌ مِنْ أُمَّتِی لَیْسَ صَلَاتُکُمْ إِلٰی صَلَاتِہِمْ بِشَیْئٍ، وَلَا صِیَامُکُمْ إِلٰی صِیَامِہِمْ بِشَیْئٍ، وَلَا قِرَائَتُکُمْ إِلٰی قِرَائَتِہِمْ بِشَیْئٍ،یَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ یَحْسِبُونَ أَنَّہُ لَہُمْ وَہُوَ عَلَیْہِمْ، لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ، وَآیَۃُ ذٰلِکَ أَنَّ فِیہِمْ رَجُلًا، لَہُ عَضُدٌ وَلَیْسَ لَہَا ذِرَاعٌ، عَلَیْہَا مِثْلُ حَلَمَۃِ الثَّدْیِ، عَلَیْہَا شَعَرَاتٌ بِیضٌ، لَوْ یَعْلَمُ الْجَیْشُ الَّذِینَیُصِیبُونَہُمْ، مَا لَہُمْ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّہِمْ، لَاتَّکَلُوا عَلَی الْعَمَلِ، فَسِیرُوا عَلَی اسْمِ اللّٰہِ۔)) فَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِطُولِہِ۔ (مسند احمد: ۷۰۶)
زید بن وہب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب نہروان میں خوارج کا ظہور ہوا تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے رفقاء میں کھڑے ہو کر کہا: ان لوگوں نے نا حق خون بہایااور انھوں نے لوگوں کے جانوروں کو لوٹا اور وہ تمہارے دشمنوں میں سے قریب ترین بھی ہیں، اندیشہ ہے کہ اگر تم اپنے دوسرے دشمن کی طرف جاؤ تو یہ تمہارے بعد باقی ماندہ افراد و اموال پر چڑھ آئیں گے، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے: میری امت میں ایسا گروہ بھی آئے گا کہ تمہاری نمازیں اور روزے ان کی نمازوں اور روزوں کے بالمقابل کچھ بھی نہ ہوںگی اور تمہاری تلاوت ان کی تلاوت کا مقابلہ نہیں کر سکے گی، وہ قرآن کو پڑھیں گے اور سمجھیں گے کہ یہ ان کے حق میں ہے، جبکہ درحقیقت وہ ان کے خلاف ہوگا اور وہ ان کے حلقوں سے نیچے تک نہیں اترے گا، وہ اسلام میں سے یوں نکل جائے گیں، جیسے تیر شکار میں سے کچھ نشان لیے بغیر گزر جاتا ہے، ان کی علامت یہ ہے کہ ان میںسے ایک آدمی کا بازو محض کہنی کے اوپر والا حصہ ہوگا اور کہنی سے نیچے والا حصہ نہ ہوگا اور وہ بھی پستان کی مانند ہو گا، اس پر کچھ سفید بال ہوں گے، اگر ان کو قتل کرنے والوں کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرمان سے اپنے عمل اور اس کے ثواب کا علم ہو جائے تو وہ اپنے اسی عمل پر کفایت کر کے اعمال کرنا چھوڑ دیں گے، پس تم اللہ کا نام لے کر چل پڑو۔ اس کے بعد باقی حدیث ذکر بیان کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12373

۔ (۱۲۳۷۳)۔ عَنْ طَارِقِ بْنِ زِیَادٍ قَالَ: سَارَ عَلِیٌّ إِلَی النَّہْرَوَانِ، فَقَتَلَ الْخَوَارِجَ، فَقَالَ: اطْلُبُوا فَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((سَیَجِیئُ قَوْمٌ یَتَکَلَّمُونَ بِکَلِمَۃِ الْحَقِّ، لَا یُجَاوِزُ حُلُوقَہُمْیَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ، سِیمَاہُمْ أَوْ فِیہِمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ، مُخْدَجُ الْیَدِ، فِییَدِہِ شَعَرَاتٌ سُودٌ۔)) إِنْ کَانَ فِیہِمْ فَقَدْ قَتَلْتُمْ شَرَّ النَّاسِ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِیہِمْ فَقَدْ قَتَلْتُمْ خَیْرَ النَّاسِ۔ قَالَ: ثُمَّ إِنَّا وَجَدْنَا الْمُخْدَجَ، قَالَ: فَخَرَرْنَا سُجُودًا وَخَرَّ عَلِیٌّ سَاجِدًا مَعَنَا۔ (احمد: ۸۴۸)
طارق بن زیاد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں خوارج کے مقابلہ کے لیے نکلے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کوقتل کیااور پھر کہا: ذرادیکھو، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ عنقریب ایک قوم نکلے گی کہ وہ بات تو حق کی کریں گے، لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی، وہ حق سے یوں نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار میںسے گزر جاتا ہے، ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی سیاہ فام، ناقص ہاتھ والا ہوگا، اس کے ہاتھ پر سیاہ بال ہوں گے۔ اب دیکھو کہ اگر کوئی مقتول ایسا ہو تو تم نے ایک بدترین لوگوں کو قتل کیا اور اگر کوئی مقتول ایسا نہ ہو تو تم نے نیک ترین لوگوں کو قتل کیا۔پھر ہم نے واقعی ناقص ہاتھ والے ایسے مقتول کو پا لیا، پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے اور ہمارے ساتھ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی سجدہ میں گر گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12374

۔ (۱۲۳۷۴)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ أَبِی صَالِحٍ أَنَّ أَبَا الْوَضِیئِ عَبَّادًا حَدَّثَہُ: أَنَّہُ قَالَ: کُنَّا عَامِدِینَ إِلَی الْکُوفَۃِ مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَلَمَّا بَلَغْنَا مَسِیرَۃَ لَیْلَتَیْنِ أَوْ ثَلَاثٍ مِنْ حَرُورَائَ، شَذَّ مِنَّا نَاسٌ کَثِیرٌ، فَذَکَرْنَا ذٰلِکَ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ: لَا یَہُولَنَّکُمْ أَمْرُہُمْ، فَإِنَّہُمْ سَیَرْجِعُونَ، فَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِطُولِہِ، قَالَ: فَحَمِدَ اللّٰہَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَاللّٰہُ عَنْہُ وَقَالَ: إِنَّ خَلِیلِی أَخْبَرَنِی أَنَّ قَائِدَ ہٰؤُلَائِ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْیَدِ، عَلٰی حَلَمَۃِ ثَدْیِہِ شَعَرَاتٌ، کَأَنَّہُنَّ ذَنَبُ الْیَرْبُوعِ، فَالْتَمَسُوہُ فَلَمْ یَجِدُوہُ فَأَتَیْنَاہُ فَقُلْنَا: إِنَّا لَمْ نَجِدْہُ، فَقَالَ: فَالْتَمِسُوہُ فَوَاللّٰہِ! مَا کَذَبْتُ وَلَا کُذِبْتُ ثَلَاثًا، فَقُلْنَا: لَمْ نَجِدْہُ فَجَائَ عَلِیٌّ بِنَفْسِہِ، فَجَعَلَ یَقُولُ: اِقْلِبُوا ذَا، اِقْلِبُوا ذَا، حَتّٰی جَائَ رَجُلٌ مِنَ الْکُوفَۃِ، فَقَالَ: ہُوَ ذَا، قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: اَللّٰہُ أَکْبَرُ! لَا یَأْتِیکُمْ أَحَدٌ یُخْبِرُکُمْ مَنْ أَبُوہُ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَقُولُونَ: ہَذَا مَالِکٌ، ہَذَا مَالِکٌ، یَقُولُ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: اِبْنُ مَنْ ہُوَ؟ (مسند احمد: ۱۱۸۹)
ابو وضیئی عباد کہتے ہیں: ہم علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں کوفہ کی طرف جا رہے تھے، جب ہم حروراء سے دو تین راتوں کی مسافت آگے گئے تو ہم میں سے بہت سے لوگ الگ ہوگئے، ہم نے علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس چیز کا ذکر کیا، انہوں نے کہا: ان کی یہ حرکت تمہیں پریشان نہ کرے، یہ لوگ عنقریب لوٹ جائیںگے،اس کے بعد انہوں نے ساری حدیث ذکر کی، پھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: میرے خلیل ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بتلایا تھا کہ ان لوگوں کا سردار نامکمل ہاتھ والا ہو گا اور اس کے سرِ پستان پر کچھ بال ہوں گے، جیسے ایک قسم کے چھوٹے چوہے کی دم ہوتی ہے۔ اب تم لوگ اسے تلاش کرو، انہیں ایسا کوئی آدمی نہ ملا، ہم نے ان کی خدمت میں آکر عرض کی کہ ہمیں تو ایسا کوئی آدمی نہیںملا، انہوں نے کہا: پھر تلاش کرو، اللہ کی قسم نہ میں نے غلط بات کہی ہے اور نہ مجھے غلط بات بتائی گئی ہے، یہ بات انھوں نے تین بار دہرائی، ہم نے کہا: ہمیں تو ایسا کوئی آدمی نہیں ملا، پھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود تشریف لائے اور کہنے لگے: اسے الٹ کر دیکھو، اسے الٹو، یہاں تک کہ ایک کوفی آدمی آیا اور اس نے کہا: یہ ہے وہ آدمی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اللہ اکبر کہا اور پھر کہا: کوئی آدمی تمہیں یہ نہیںبتلا سکے گا کہ اس کاباپ کون ہے؟ لوگ کہنے لگے: یہ مالک ہے، یہ مالک ہے، انھوں نے کہا: یہ تو بتلاؤ یہ کس کا بیٹا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12375

۔ (۱۲۳۷۵)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) أَنَّہُ قَالَ: کُنَّا عَامِدِینَ إِلَی الْکُوفَۃِ مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَذَکَرَ حَدِیثَ الْمُخْدَجِ، قَالَ عَلِیٌّ: فَوَاللّٰہِ! مَا کَذَبْتُ وَلَا کُذِبْتُ ثَلَاثًا، فَقَالَ عَلِیٌّ: أَمَا إِنَّ خَلِیلِی أَخْبَرَنِی ثَلَاثَۃَ إِخْوَۃٍ مِنَ الْجِنِّ، ہٰذَا أَکْبَرُہُمْ، وَالثَّانِی لَہُ جَمْعٌ کَثِیرٌ، وَالثَّالِثُ فِیہِ ضَعْفٌ۔ (مسند احمد: ۱۱۹۷)
۔ (دوسری سند) ابو وضیئی کہتے ہیں: ہم سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں کوفہ کی طرف جا رہے تھے، پھر انہوں نے ناقص ہاتھ والے آدمی سے متعلقہ حدیث کا ذکر کیا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تین بار کہا: اللہ کی قسم! نہ تو میںنے جھوٹ کہا ہے اور نہ مجھے جھوٹی بات بیان کی گئی ہے، پھر کہا: میرے خلیل ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بتلایاتھاکہ جنوںمیں سے تین بھائی ہیں، یہ سب سے بڑا ہے، دوسرے کی بہت بڑی جمعیت ہے اور تیسرے میں ضعف اور کمزوری ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12376

۔ (۱۲۳۷۶)۔ عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِیدَۃَ قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ أَہْلَ النَّہْرَوَانِ، قَالَ: الْتَمِسُوہُ، فَوَجَدُوہُ فِی حُفْرَۃٍ تَحْتَ الْقَتْلٰی فَاسْتَخْرَجُوہُ، وَأَقْبَلَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَلٰی أَصْحَابِہِ فَقَالَ: لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَأَخْبَرْتُکُمْ مَا وَعَدَ اللّٰہُ مَنْ یَقْتُلُ ہٰؤُلَائِ عَلٰی لِسَانِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِی وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ (مسند احمد: ۹۸۳)
عبیدہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:جب سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اہل نہروان کو قتل کیاتو انہوں نے کہا: اس قسم کے مقتول کو تلاش کرو، لوگوں نے اسے مقتولین کے نیچے ایک گڑھے میں گرا ہوا پایا، انھوں نے اس کو نکالا اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا: اگر اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ تم فخر و غرور میںمبتلا ہوجاؤ گے تو میں تمہیں بتلاتا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زبانی ان لوگوں کے قاتلین کے لیے کیا وعدہ فرمایا ہے، میں نے کہا: اے علی! کیاآپ نے خود یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، رب کعبہ کی قسم ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12377

۔ (۱۲۳۷۷)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ جُمْہَانَ، قَالَ: کُنَّا نُقَاتِلُ الْخَوَارِجَ، وَفِینَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أَوْفٰی، وَقَدْ لَحِقَ لَہُ غُلَامٌ بِالْخَوَارِجِ، وَہُمْ مِنْ ذَلِکَ الشَّطِّ، وَنَحْنُ مِنْ ذَا الشَّطِّ، فَنَادَیْنَاہُ أَبَا فَیْرُوزَ! أَبَا فَیْرُوزَ! وَیْحَکَ، ہٰذَا مَوْلَاکَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أَوْفٰی، قَالَ: نِعْمَ الرَّجُلُ ہُوَ لَوْ ہَاجَرَ، قَالَ: مَا یَقُولُ عَدُوُّ اللّٰہِ؟ قَالَ: قُلْنَا: یَقُولُ: نِعْمَ الرَّجُلُ لَوْ ہَاجَرَ، قَالَ: فَقَالَ: أَہِجْرَۃٌ بَعْدَ ہِجْرَتِی مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((طُوبٰی لِمَنْ قَتَلَہُمْ وَقَتَلُوہُ۔)) (مسند احمد: ۱۹۳۶۲)
سعید بن جمہان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم خوراج سے قتال کر رہے تھے، ہمارے ساتھ سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے، ان کا ایک غلام جا کر خوارج کے ساتھ مل گیا، وہ ایک کنارے پر تھے اور ہم دوسری طرف، ہم نے اسے آواز دی، ابو فیروز! ابو فیروز، تمہارے آقا سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہاں ہیں، اس نے کہا: اگر ہجرت کر آئیں تو بہت ہی اچھے ہیں، سیدنا ابن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: وہ اللہ کا دشمن کیا کہہ رہا ہے؟ ہم نے کہا وہ کہہ رہا ہے کہ وہ اچھا آدمی ہے اگر وہ ہجرت کرے اس کی بات سن کر ابن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہجرت کے بعد مزید ہجرت ہے؟ پھر کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ اس آدمی کے لیے خوشخبری ہے، جو ان کو قتل کرے یا جس کو یہ قتل کریں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12378

۔ (۱۲۳۷۸)۔ حَدَّثَنَا أَبُو کَثِیرٍ مَوْلَی الْأَنْصَارِ، قَالَ: کُنْتُ مَعَ سَیِّدِی عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَیْثُ قُتِلَ أَہْلُ النَّہْرَوَانِ، فَکَأَنَّ النَّاسَ وَجَدُوا فِی أَنْفُسِہِمْ مِنْ قَتْلِہِمْ، فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ حَدَّثَنَا بِأَقْوَامٍ یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ، ثُمَّ لَا یَرْجِعُونَ فِیہِ أَبَدًا حَتّٰییَرْجِعَ السَّہْمُ عَلٰی فُوقِہِ، وَإِنَّ آیَۃَ ذٰلِکَ أَنَّ فِیہِمْ رَجُلًا أَسْوَدَ، مُخْدَجَ الْیَدِ إِحْدٰییَدَیْہِ کَثَدْیِ الْمَرْأَۃِ، لَہَا حَلَمَۃٌ کَحَلَمَۃِ ثَدْیِ الْمَرْأَۃِ، حَوْلَہُ سَبْعُ ہُلْبَاتٍ۔ فَالْتَمِسُوہُ فَإِنِّی أُرَاہُ فِیہِمْ فَالْتَمَسُوہُ فَوَجَدُوہُ إِلٰی شَفِیرِ النَّہَرِ تَحْتَ الْقَتْلٰی، فَأَخْرَجُوہُ فَکَبَّرَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: اللّٰہُ أَکْبَرُ، صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، وَإِنَّہُ لَمُتَقَلِّدٌ قَوْسًا لَہُ عَرَبِیَّۃً، فَأَخَذَہَا بِیَدِہِ فَجَعَلَ یَطْعَنُ بِہَا فِی مُخْدَجَتِہِ، وَیَقُولُ: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، وَکَبَّرَ النَّاسُ حِینَ رَأَوْہُ وَاسْتَبْشَرُوْا، وَذَہَبَ عَنْہُمْ مَا کَانُوا یَجِدُونَ۔ (مسند احمد: ۶۷۲)
انصار کے غلام ابو کثیر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں اپنے سردار سیدنا علی ابن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ تھا، جب انہوں نے اہل نہروان کو قتل کیا تو یو ں محسوس ہواکہ ان کو قتل کرنے کے بعد لوگوں کو ندامت اور افسوس محسوس ہوا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ صورت بھانپ کر کہا: لوگو! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ایسے لوگوں کی بابت بتلایا تھا جو دین میں سے اس طرح نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار میں سے گزر جاتا ہے، وہ کبھی دین کی طرف واپس نہیں آئیں گے، یہاں تک کہ تیر کمان میں واپس آ جائے، ان کی ایک علامت یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی سیاہ فام ناقص ہاتھ والا ہوگا، اس کا وہ ہاتھ عورت کے پستان کی مانند ہوگا اور اس پریوں سرا بنا ہوگا جیسے پستان کے اوپر ہوتا ہے، اس کے ارد گرد سات بال ہوں گے، تم اسے تلاش کرو، میرا خیال ہے کہ وہ انہی میں ہوگا،لوگوں نے اسے تلاش کیا اوراسے نہر کے کنارے پر مقتولوں کے ڈھیر کے نیچے پایا، لوگوں نے اسے نکالا تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: اللہ اور اس کے رسول کی بات سچ ہے، اس وقت سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی عربی کمان لٹکائے ہوئے تھے، وہ اسے اس مقتول کے ناقص ہاتھ والے گوشت کے ٹکڑے پر لگاتے اور کہتے جاتے تھے: اللہ اور اس کے رسول کا فرمان سچ ہے، لوگوںنے بھی جب اسے دیکھا تو اللہ اکبر کہنے لگے اور خوشی کا اظہار کیا اور ان کے افسوس کی کیفیت جاتی رہی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12379

۔ (۱۲۳۷۹)۔ عَنْ بَکْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ عَنْ سَعْدٍ قِیلَ لِسُفْیَانَ: عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((شَیْطَانُ الرَّدْہَۃِیَحْتَدِرُہُیَعْنِی رَجُلًا مِنْ بَجِیلَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۵۵۱)
سیدنا سعد سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خوارج کے سردار شیطان کو بنی بجیلہ کا ایک آدمی لڑ ھکائے گا یعنی قتل کرے گا۔ کسی نے سفیان سے کہا: کیا یہ روایت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مروی ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12380

۔ (۱۲۳۸۰)۔ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِیِّ، قَالَ: جَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ شَدَّادٍ، فَدَخَلَ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَنَحْنُ عِنْدَہَا جُلُوسٌ، مَرْجِعَہُ مِنَ الْعِرَاقِ لَیَالِیَ قُتِلَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَتْ لَہُ: یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ شَدَّادٍ! ہَلْ أَنْتَ صَادِقِی عَمَّا أَسْأَلُکَ عَنْہُ، تُحَدِّثُنِی عَنْ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ الَّذِینَ قَتَلَہُمْ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: وَمَا لِی لَا أَصْدُقُکِ؟ قَالَتْ: فَحَدِّثْنِی عَنْ قِصَّتِہِمْ، قَالَ: فَإِنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا کَاتَبَ مُعَاوِیَۃَ وَحَکَمَ الْحَکَمَانِ خَرَجَ عَلَیْہِ ثَمَانِیَۃُ آلَافٍ مِنْ قُرَّائِ النَّاسِ، فَنَزَلُوْا بِأَرْضٍ یُقَالُ لَہَا: حَرُورَائُ مِنْ جَانِبِ الْکُوفَۃِ، وَإِنَّہُمْ عَتَبُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا: انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِیصٍ أَلْبَسَکَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَاسْمٍ سَمَّاکَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِہِ، ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَکَّمْتَ فِی دِینِ اللّٰہِ، فَلَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ تَعَالَی، فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا عَتَبُوْا عَلَیْہِ، وَفَارَقُوہُ عَلَیْہِ، فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا، فَأَذَّنَ أَنْ لَا یَدْخُلَ عَلٰی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ إِلَّا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ، فَلَمَّا أَنْ امْتَلَأَتِ الدَّارُ مِنْ قُرَّائِ النَّاسِ دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِیمٍ فَوَضَعَہُ بَیْنَیَدَیْہِ، فَجَعَلَ یَصُکُّہُ بِیَدِہِ وَیَقُولُ: أَیُّہَا الْمُصْحَفُ! حَدِّثِ النَّاسَ، فَنَادَاہُ النَّاسُ فَقَالُوْا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! مَا تَسْأَلُ عَنْہُ؟ إِنَّمَا ہُوَ مِدَادٌ فِی وَرَقٍ، وَنَحْنُ نَتَکَلَّمُ بِمَا رُوِینَا مِنْہُ، فَمَاذَا تُرِیدُ؟: قَالَ أَصْحَابُکُمْ ہٰؤُلَائِ الَّذِینَ خَرَجُوْا، بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ کِتَابُ اللّٰہِ، یَقُولُ اللّٰہُ تَعَالٰی فِی کِتَابِہِ فِی امْرَأَۃٍ وَرَجُلٍ: {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِنْ أَہْلِہِ وَحَکَمًا مِنْ أَہْلِہَا إِنْ یُرِیدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا} فَأُمَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَۃً مِنْ امْرَأَۃٍ وَرَجُلٍ، وَنَقَمُوا عَلَیَّ أَنْ کَاتَبْتُ مُعَاوِیَۃَ، کَتَبَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، وَقَدْ جَائَ نَا سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَیْبِیَۃِ حِینَ صَالَحَ قَوْمَہُ قُرَیْشًا، فَکَتَبَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَقَالَ سُہَیْلٌ: لَا تَکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَقَالَ: ((کَیْفَ نَکْتُبُ؟)) فَقَالَ: اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((فَاکْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ۔)) فَقَالَ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ لَمْ أُخَالِفْکَ، فَکَتَبَ ہٰذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ قُرَیْشًا،یَقُولُ اللّٰہُ تَعَالٰی فِی کِتَابِہِ: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ} فَبَعَثَ إِلَیْہِمْ عَلِیٌّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَخَرَجْتُ مَعَہُ حَتّٰی إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْکَرَہُمْ، قَامَ ابْنُ الْکَوَّائِ یَخْطُبُ النَّاسَ فَقَالَ: یَا حَمَلَۃَ الْقُرْآنِ! إِنَّ ہٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَمَنْ لَمْ یَکُنْیَعْرِفُہُ، فَأَنَا أُعَرِّفُہُ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ مَا یَعْرِفُہُ بِہِ ہٰذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِیہِ وَفِی قَوْمِہِ {قَوْمٌ خَصِمُونَ} فَرُدُّوہُ إِلٰی صَاحِبِہِ، وَلَا تُوَاضِعُوہُ کِتَابَ اللّٰہِ، فَقَامَ خُطَبَاؤُہُمْ فَقَالُوْا: وَاللّٰہِ! لَنُوَاضِعَنَّہُ کِتَابَ اللّٰہِ، فَإِنْ جَائَ بِحَقٍّ نَعْرِفُہُ لَنَتَّبِعَنَّہُ، وَإِنْ جَائَ بِبَاطِلٍ لَنُبَکِّتَنَّہُ بِبَاطِلِہِ، فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللّٰہِ الْکِتَابَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، فَرَجَعَ مِنْہُمْ أَرْبَعَۃُ آلَافٍ کُلُّہُمْ تَائِبٌ، فِیہِمْ ابْنُ الْکَوَّائِ حَتّٰی أَدْخَلَہُمْ عَلٰی عَلِیٍّ الْکُوفَۃَ، فَبَعَثَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی بَقِیَّتِہِمْ، فَقَالَ: قَدْ کَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَیْتُمْ، فَقِفُوا حَیْثُ شِئْتُمْ حَتّٰی تَجْتَمِعَ أُمَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ، أَنْ لَا تَسْفِکُوا دَمًا حَرَامًا، أَوْ تَقْطَعُوا سَبِیلًا، أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّۃً، فَإِنَّکُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَیْکُمُ الْحَرْبَ عَلٰی سَوَائٍ، إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَائِنِینَ، فَقَالَتْ لَہُ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا: یَا ابْنَ شَدَّادٍ! فَقَدْ قَتَلَہُمْ، فَقَالَ: وَاللّٰہِ! مَا بَعَثَ إِلَیْہِمْ حَتّٰی قَطَعُوا السَّبِیلَ، وَسَفَکُوا الدَّمَ، وَاسْتَحَلُّوا أَہْلَ الذِّمَّۃِ، فَقَالَتْ: أَاللّٰہِ؟ قَالَ: أَاللّٰہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ؟ لَقَدْ کَانَ قَالَتْ فَمَا شَیْئٌ بَلَغَنِی عَنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ،یَتَحَدَّثُونَہُیَقُولُونَ ذُو الثُّدَیِّ وَذُو الثُّدَیِّ، قَالَ: قَدْ رَأَیْتُہُ وَقُمْتُ مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَیْہِ فِی الْقَتْلٰی، فَدَعَا النَّاسَ، فَقَالَ: أَتَعْرِفُونَ ہٰذَا؟ فَمَا أَکْثَرَ مَنْ جَائَ یَقُولُ: قد رأَیْتُہُ فی مَسْجِدِ بَنِی فُلَانٍ یُصَلِّی، وَرَأَیْتُہُ فِی مَسْجِدِ بَنِی فُلَانٍ یُصَلِّی، وَلَمْ یَأْتُوا فِیہِ بِثَبَتٍ یُعْرَفُ إِلَّا ذٰلِکَ، قَالَتْ: فَمَا قَوْلُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حِینَ قَامَ عَلَیْہِ کَمَا یَزْعُمُ أَہْلُ الْعِرَاقِ، قَالَ: سَمِعْتُہُ یَقُولُ: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، قَالَتْ: ہَلْ سَمِعْتَ مِنْہُ أَنَّہُ قَالَ غَیْرَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: اللّٰہُمَّ لَا، قَالَتْ: أَجَلْ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، یَرْحَمُ اللّٰہُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، إِنَّہُ کَانَ مِنْ کَلَامِہِ لَا یَرٰی شَیْئًایُعْجِبُہُ إِلَّا قَالَ: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، فَیَذْہَبُ أَہْلُ الْعِرَاقِ یَکْذِبُونَ عَلَیْہِ وَیَزِیدُونَ عَلَیْہِ فِی الْحَدِیثِ۔ (مسند احمد: ۶۵۶)
عبیداللہ بن عیاض بن عمرو قاری کہتے ہیں کہ ہم سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں حاضر تھے کہ عبیداللہ بن شداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، یہ سید نا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے دنوں کا واقعہ ہے، وہ عراق سے آئے تھے، تو سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے فرمایا، عبیداللہ بن شداد! میں تم سے جو پوچھوں کیا تم مجھے سچ سچ بتلاؤ گے؟ تم مجھے ان لوگوں کے متعلق بتلاؤ جن کو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے قتل کیا؟ وہ کہنے لگے مجھے کیا ہے کہ میں آپ کو سچ سچ نہ بتلاؤں؟ تو سیدہ نے فرمایا تو مجھے ان کا پورا واقعہ بیان کر، انہوںنے کہا کہ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ خط و خطابت کی اور دو حاکموں نے فیصلہ کیا تو آٹھ ہزار قاریوں نے ان کے خلاف خروج کیا اور وہ کوفہ کے قریب حروراء کے مقام پر جمع ہوگئے اور انہوں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو صلح کرنے پر سرزنش کی، وہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قمیص پہنایا اور ایک نام دیا ہے،(قمیص سے مرادخلافت اور نام سے امیر المومنین کا لقب ہے)۔آپ یہ صلح کر کے ان دونوں کے اہل نہیں رہے ہے، کیونکہ آپ نے اللہ کے دین میںغیر کو حکم تسلیم کیاہے، جبکہ فیصلہ کرنا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، جب سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تک ان لوگوں کی یہ بات پہنچی جس کی اساس پر وہ لوگ ان سے الگ ہوئے تھے تو انہوں نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا اس نے اعلان کیا کہ امیر المومنین کے پاس صرف وہ آدمی آئے جسے قرآن مجید یا دہو، قراء سے گھر بھر گیا تو انہوں نے قرآن مجید منگوا کر اپنے سامنے رکھا اور اس پر آہستہ آہستہ ہاتھ مارنے لگے اور کہتے جاتے اے قرآن! لوگوں کو کچھ بیان کر، تو لوگوں نے کہا، امیرالمومنین! آپ سے کیا پوچھ رہے ہیں؟ یہ تو محض اور اق پر روشنائی ہے، اس کی بابت جو کچھ ہمیںبیان کیا گیا ہو ہم بولتے ہیں، آپ اصل بات بتلائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا، تمہارے یہ ساتھی جو الگ ہوئے ہیں، ان کے اور میرے مابین اللہ کی کتاب حکم ہے، اللہ تعالیٰ نے ایک شوہر اور اسکی بیوی کے بارے میں اپنی کتاب میں فرمایا: {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِنْ أَہْلِہِ وَحَکَمًا مِنْ أَہْلِہَا إِنْ یُرِیدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا}… اور اگر تمہیں ان کے مابین اختلاف کا اندیشہ ہو تو ایک مصنف مرد کی طرف سے اور ایک عورت کی طرف سے مقرر کردو، اگر دونوں منصف اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں کے مابین موافقت پیدا کر دے گا۔ امت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خون اور حرمت ایک مرد اور عورت سے کہیں بڑ ھ کر ہے، یہ لوگ مجھ پر معترض ہیں کہ میں نے معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے صلح کر لی ہے، حالانکہ جب حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی قوم قریش کے ساتھ خط و خطابت کی (یعنی صلح کر لی) تھی اور اور کفار کی طرف سے سہیل بن عمرو آیا تھا، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے صلح نامہ لکھوایا تھا اور وہ سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یعنی میں نے ہی لکھا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ لکھوایا، لیکن سہل نے کہا: تم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ مت لکھو،رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو کیا لکھیں؟ وہ بولا کہ یہ لکھو: بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ لکھو۔ لیکن سہل نے پھر کہا: اگر میں یہ مانتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو میں آپ کی مخالفت نہ کروں، تو آپ نے لکھوایا، یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے قریش کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ} … یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سیرت میںبہترین نمونہ ہے، یعنی اس آدمی کے لیے جو اللہ تعالیٰ سے ملنے اور یوم آخرت کے آنے پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے بعد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان لوگوں کی طرف روانہ کیا، میں بھی عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ تھا، جب ہم ان لوگوں کے لشکر کے وسطہ میں پہنچے تو ابن الکواء نے کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کیا اور کہا اے قرآن کے حاملین! یہ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں جو انہیں نہ جانتا ہو، وہ نہ جانتا ہوگا، میں تو انہیں خوب جانتا ہوںاللہ کی کتاب ان کا تعارف کراتی ہے، ان کے اور ان کی قوم کے بارے میں یہ الفاظ نازل ہوئے: {قَوْمٌ خَصِمُونَ۔} جھگڑنے والی قوم ہے۔ تم انہیں ان کے ساتھی کی طرف بھیج دو اور کتاب اللہ کے بارے میں ان سے مناظرہ مباحثہ نہ کرو تو ان کے خطیب حضرات اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے، اللہ کی قسم! ہم اللہ کی کتاب کے بارے میں ان سے مباحثہ کریں گے، اگر انہوں نے کوئی ایسی حق بات کہی جسے ہم جانتے ہوں تو ان کی پیروی کر لیں گے اور اگر انہوںنے کوئی غلط بات کہی تو ہم ان کے باطل کے ذریعہ ہی ان کا مقابلہ کریں گے، تو انہوں نے تین دن تک ان سے مباحثہ کیا، بالآخر ان میں سے چار ہزار آدمیوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا، ابن الکواء بھی ان توبہ کرنے والوں میں شامل تھا، عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان سب کو لے کر کوفہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں حاضر ہوئے،اس کے بعد علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے باقی ماندہ لوگوں کو پیغام بھیجا، کہ ہمارے اور لوگوں کے مابین جو کچھ ہو چکا تم وہ سب دیکھ چکے ہو، اب تم جہاں چاہو ٹھہرے رہو تاآنکہ امت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی بات پر مجتمع ہوجائے، ہمارے اور تمہارے مابین یہ طے ہے کہ تم کسی حرمت والے کی خون ریزی نہ کرو اور نہ لوٹ مار کرو اور نہ کسی ذمی کے ذمہ کو توڑو اگر تم نے یہ کام کیے تو ہماری تم سے لڑائی ہوگی، بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، تو سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اس سے کہا، اسے ابن شداد! علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تو اپنے معاہدہ کے برعکس ان لوگوں کو قتل کیا، تو اس نے جواب دیا اللہ کی قسم! سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ان کے مقابلہ کے لیے اپنے آدمی اس وقت تک نہیں بھیجے جب تک کہ انہوں نے لوٹ مار نہ کی، خوں ریزی نہ کی اور ذمیوں کے ذمہ کو نہ توڑا تو سیدہ نے از راہ تعجب کہا، کیا واقعی اللہ کی قسم؟ ابن شداد نے کہا اللہ کی قسم، اسی اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ایسے ہی ہوا ہے؟تو سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے فرمایا، اہل ذمہ کی جو بات مجھ تک پہنچی ہے اس کا کیا مفہوم ہے؟ وہ کہتے ہیں ذوالثدی، ذوالثدی یعنی عورت کے پستان جیسے بازووالا مارا گیا، ابن شداد نے کہا میں نے اسے دیکھا ہے، میں علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ مقتولین کے پاس کھڑا تھا، انہوں نے لوگوںکو بلواکر پوچھا کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ تو کوئی آدمی اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا کہ میں نے اسے بنو فلاں کی مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے اور کوئی آدمی اسے جاننے پہچاننے کے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا اہل عراق جیسے بیان کرتے ہیں وہاں کھڑے ہو کر علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کیا کہا؟ ابن شداد نے کہا، میںنے ان کو وہاں سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کیا تم نے ان کو اس کے علاوہ بھی کچھ کہتے سنا؟ اس نے کہا، اللہ گواہ ہے کہ میں نے ان سے اس کے علاوہ کچھ نہیں سنا، سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا ہاں، اللہ اور اس کے رسول کی بات سچ ہے، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر اللہ کی رحمت ہو انہیں جب بھی کوئی بات اچھی لگتی تو کہا کرتے اللہ اور اس کے رسول کی بات سچ ہے ، عراقی لوگ ان پر جھوٹ باندھتے اور ان کی باتوں میں ازخود اضافے کردیتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12381

۔ (۱۲۳۸۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا غَالِبٍ یَقُولُ: لَمَّا أُتِیَ بِرُئُ وْسِ الْأزَارِقَۃِ، فَنُصِبَتْ عَلٰی دَرَجِ دِمَشْقَ، جَائَ أَبُو أُمَامَۃَ فَلَمَّا رَآہُمْ دَمَعَتْ عَیْنَاہُ، فَقَالَ: کِلَابُ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ہٰؤُلَائِ شَرُّ قَتْلٰی قُتِلُوْا تَحْتَ أَدِیمِ السَّمَائِ، وَخَیْرُ قَتْلٰی قُتِلُوْا تَحْتَ أَدِیمِ السَّمَائِ الَّذِینَ قَتَلَہُمْ ہٰؤُلَائِ، قَالَ: فَقُلْتُ: فَمَا شَأْنُکَ دَمَعَتْ عَیْنَاکَ؟ قَالَ: رَحْمَۃً لَہُمْ إِنَّہُمْ کَانُوْا مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، قَالَ: قُلْنَا: أَبِرَأْیِکَ؟ قُلْتَ: ہٰؤُلَائِ کِلَابُ النَّارِ، أَوْ شَیْئٌ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: إِنِّی لَجَرِیئٌ، بَلْ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرَ مَرَّۃٍ وَلَا ثِنْتَیْنِ وَلَا ثَلَاثٍ، قَالَ: فَعَدَّ مِرَارًا۔ (مسند احمد: ۲۲۵۳۶)
ابو غالب کہتے ہیں: خارجیوں کے قتل کیے جانے کے بعد ان کے لا کر دمشق کی سیڑھی پر رکھ دئیے گئے، سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، انہوںنے ان کو دیکھا تو ان کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں، وہ کہنے لگے:یہ لوگ جہنم کے کتے ہیں، آسمان کے نیچے قتل ہونے والوں میں سے یہ بد ترین مقتول ہیں اور اِنہوں نے جن لوگوں کو قتل کیا،وہ آسمان کے نیچے قتل ہونے والوں میں سے بہترین مقتول ہیں۔ ابو غالب کہتے ہیں: میںنے ان سے کہا: تو پھر آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں آگئے ہیں؟ انھوں نے کہا: ان لوگوں پر ترس آجانے کی وجہ سے، کیونکہ یہ لوگ بنیادی طور پر اہل اسلام ہیں۔ ابو غالب کہتے ہیں: ہم نے کہا: آپ نے ان کے متعلق کہا کہ یہ جہنم کے کتے ہیں، یہ بات آپ نے اپنی طرف سے کہی ہے یا یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: اگر میں اپنی طرف سے کہوںتو پھر تو میں بڑا جری ہوں، یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی، بلکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک، دو یا تین مرتبہ نہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ مرتبہ سنی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12382

۔ (۱۲۳۸۲)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنْ أَبِی غَالِبٍ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ أَنُہْ رَأَی رُئُ وْسًا مَنْصُوبَۃً عَلَی دَرَجِ مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَقَالَ أَبُو أُمَامَۃَ: کِلَابُ النَّارِ، کِلَابُ النَّارِ، ثَلَاثًا، شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أَدِیمِ السَّمَائِ خَیْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوہُ، ثُمَّ قَرَأَ: {یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ} الْآیَتَیْنِ، قُلْتُ لِأَبِی أُمَامَۃَ: أَسَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَوْ لَمْ أَسْمَعْہُ إِلَّا مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا أَوْ سِتًّا أَوْ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُکُمْ۔ (مسند احمد: ۲۲۵۶۱)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انہوںنے جامع مسجد دمشق کی سیڑھیوں پر نصب شدہ سر دیکھے تو تین مرتبہ کہا: یہ جہنم کے کتے ہیں، یہ جہنم کے کتے ہیں، آسمان کے چھت کے نیچے قتل ہونے والوں میںسے یہ بد ترین مقتول ہیں اور اِنھوں نے جن لوگوں کو قتل کیا وہ آسمان کی چھت کے نیچے قتل ہونے والوں میںسے بہترین مقتول ہیں، پھر انہوں نے یہ دو آیات تلاوت کیںـ: {یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ} … قیامت کے رو ز بہت سے چہرے روشن اور بہت سے چہرے سیاہ ہوں گے۔ (سورۂ آل عمران:۱۰۶) میں ابو غالب نے سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا:آیا آپ نے یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: اگر میں نے یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دو، تین، چار، پانچ، چھ یا سات مرتبہ بھی نہ سنی ہوتی تو تم سے بیان نہ کرتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12383

۔ (۱۲۳۸۳)۔ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ قَالَ: سَمِعْتُ صَفْوَانَ بْنَ سُلَیْمٍیَقُولُ: دَخَلَ أَبُو أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیُّ دِمَشْقَ فَرَأَی رُئُ وْسَ حَرُورَائَ قَدْ نُصِبَتْ، فَقَالَ: کِلَابُ النَّارِ، کِلَابُ النَّارِ ثَلَاثًا، شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ ظِلِّ السَّمَائِ، خَیْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوا، ثُمَّ بَکَی فَقَامَ إِلَیْہِ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا أَبَا أُمَامَۃَ! ہَذَا الَّذِی تَقُولُ مِنْ رَأْیِکَ أَمْ سَمِعْتَہُ؟ قَالَ: إِنِّی إِذًا لَجَرِیئٌ کَیْفَ أَقُولُ ہَذَا عَنْ رَأْیٍ؟ قَالَ: قَدْ سَمِعْتُہُ غَیْرَ مَرَّۃٍ وَلَا مَرَّتَیْنِ، قَالَ: فَمَا یُبْکِیکَ؟ قَالَ: أَبْکِی لِخُرُوجِہِمْ مِنَ الْإِسْلَامِ، ہٰؤُلَائِ الَّذِینَ تَفَرَّقُوْا وَاتَّخَذُوا دِینَہُمْ شِیَعًا۔ (مسند احمد: ۲۲۶۷۰)
صفوان بن سلیم سے مروی ہے کہ سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دمشق میں داخل ہوئے اورانہوں نے حروری یعنی خارجی لوگوں کے سرلٹکے ہوئے دیکھے تو انھوں نے تین بار کہا: یہ لوگ جہنم کے کتے ہیں، یہ لوگ جہنم کے کتے ہیں، آسمان کی چھت کے نیچے قتل ہونے والوں میںسے یہ بد ترین مقتول ہیں اور اِنہوں نے جن لوگوں کو قتل کیا، وہ آسمان کی چھت کے نیچے قتل ہونے والوں میںسے بہترین مقتول ہیں۔ پھر وہ رونے لگے: ایک آدمی آپ کی طرف اٹھا اور اس نے کہا:اے ابوامامہ آپ ان کو دیکھ کرکیوں روئے؟ انہوںنے کہا:میں اس لیے رو رہا ہوں کہ یہ لوگ دائرہ اسلام سے نکل گئے، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تفرقہ ڈالا اور دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12384

۔ (۱۲۳۸۴)۔ (وَعَنْ سَیَّارٍ) قَالَ: جِیئَ بِرُئُ وْسٍ مِنْ قِبَلِ الْعِرَاقِ فَنُصِبَتْ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، وَجَاء َ أَبُو أُمَامَۃَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَیْہِمْ، فَنَظَرَ إِلَیْہِمْ، فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ: شَرُّ قَتْلٰی تَحْتَ ظِلِّ السَّمَائِ ثَلَاثًا، فَذَ کَرَ نَحْوَہٗ۔ (مسنداحمد: ۲۲۵۰۳)
سیار سے مروی ہے کہ کچھ لوگوں کے سر عراق سے لا کر اور مسجد کے دروازے کے پاس نصب کر دیئے گئے، سیدنا ابوامامہ آئے اور مسجد میں داخل ہو ئے، دو رکعت نماز ادا کی،پھر ان کی طرف نکلے، ان کو دیکھا اور پھر سر اٹھایا اور کہا: یہ آسمان کے نیچے سب سے برے مقتول ہیں۔ یہ بات تین دفعہ دہرائی، پھر سابق روایت کے طرح آگے بیان کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12385

۔ (۱۲۳۸۵)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ، حَدَّثَنِی اَبِیْ، ثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، ثَنَا مُحَمَّدٌ یَعْنِی ابْنَ رَاشِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ، عَنْ فَضَالَۃِ بْنِ اَبِیْ فَضَالَۃَ الْاَنْصَارِیِّ وَکَانَ اَبُوْ فَضَالَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ اَھْلِ بَدْرٍ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ اَبِیْ عَائِدٍ اِلٰی عَلِی بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ مَرْضٍ اَصَابَہُ ثَقَلٌ مِنْہُ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ اَبِیْ: مَا یُقِیْمُکَ فِیْ مَنْزِلِکَ ہٰذَا؟ لَوْ اَصَابَکَ اَجَلُکَ لَمْ یَلِکَ عِنْدَکَ اِلَّا اَعْرَابُ جُہَیْنۃَ، تُحْمَلُ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ، فَاِنْ اَصَابَکَ اَجَلُکَ وَلِیَکَ اَصْحَابُکَ وَصَلَّوْا عَلَیْکَ، فَقَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: انَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَہِدَ اِلَیَّ اَنْ لَا اَمُوْتَ حَتّٰی اُؤَمَّرَ ثُمَّ تُخْضَبَ ہٰذِہِ یَعْنِیْ لِحْیَتَہُ مِنْ دَمٍ ہٰذَا یَعْنِیْ ہَامَّتَہُ، فَقْقِلَ وَقُتِلَ اَبُوْ فَضٰلَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مَعَ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَوْمَ صِفِّیْنَ۔ (مسند احمد: ۸۰۲)
فضالہ بن ابی فضالہ انصاری سے روایت ہے، ان کے والد سیدنا ابو فضالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بدری صحابی تھے، فضالہ کہتے ہیں: میں اپنے باپ کی معیت میں سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عیادت کے لیے گیا، وہ کافی بیمار تھے، میرے والد نے ان سے کہا: آپ اپنی جگہ پر کس لیے ٹھہرے ہوئے ہیں؟ اگر آپ کا آخری وقت آگیا تو بنو جہینہ کے چند بدو آپ کے پاس ہوں گے،آپ کو مدینہ منورہ لے چلیں، وہاں اگر آپ کو موت آئی تو آپ کے دوست احباب پاس ہوں گے اور آپ کی نماز جنازہ ادا کریں گے، یہ سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے فرما چکے ہیں کہ مجھے اس وقت تک موت نہ آئے گی، جب تک کہ مجھے امارت نہ ملے، پھر میرے سر کے خون سے میری داڑھی رنگین نہ ہوجائے، چنانچہ ایسے ہی ہوا اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قتل ہو گئے۔ سیدنا ابو فضالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ صفین کی جنگ میں قتل ہو گئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12386

۔ (۱۲۳۸۶)۔ وعَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ، قَالَ: کُنْتُ أَنَا وَعَلِیٌّ رَفِیقَیْنِ فِی غَزْوَۃِ ذَاتِ الْعُشَیْرَۃِ، فَلَمَّا نَزَلَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَقَامَ بِہَا رَأَیْنَا أُنَاسًا مِنْ بَنِی مُدْلِجٍ، یَعْمَلُونَفِی عَیْنٍ لَہُمْ فِی نَخْلٍ، فَقَالَ لِی عَلِیٌّ: یَا أَبَا الْیَقْظَانِ! ہَلْ لَکَ أَنْ تَأْتِیَ ہٰؤُلَائِ فَنَنْظُرَ کَیْفَیَعْمَلُونَ؟ فَجِئْنَاہُمْ فَنَظَرْنَا إِلٰی عَمَلِہِمْ سَاعَۃً، ثُمَّ غَشِیَنَا النَّوْمُ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَعَلِیٌّ، فَاضْطَجَعْنَا فِی صَوْرٍ مِنَ النَّخْلِ فِی دَقْعَائَ مِنَ التُّرَابِ فَنِمْنَا، فَوَاللّٰہِ! مَا أَہَبَّنَا إِلَّا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحَرِّکُنَا بِرِجْلِہِ، وَقَدْ تَتَرَّبْنَا مِنْ تِلْکَ الدَّقْعَائِ، فَیَوْمَئِذٍ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ: ((یَا أَبَا تُرَابٍ۔)) لِمَا یُرَی عَلَیْہِ مِنَ التُّرَابِ، قَالَ: ((أَلَا أُحَدِّثُکُمَا بِأَشْقَی النَّاسِ رَجُلَیْنِ؟)) قُلْنَا: بَلٰی،یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((أُحَیْمِرُ ثَمُودَ الَّذِی عَقَرَ النَّاقَۃَ، وَالَّذِییَضْرِبُکَیَا عَلِیُّ! عَلَی ہَذِہِ یَعْنِی قَرْنَہُ حَتّٰی تُبَلَّ مِنْہُ ہٰذِہِ یَعْنِی لِحْیَتَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۵۱۱)
سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غزوۂ ذی العشیرہ میں رفیق تھے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں اترے اور قیام کیا تو ہم نے بنو مدلج قبیلے کے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ کھجوروں میں اپنے ایک چشمے میں کام کر رہے تھے۔ سیدنا علی نے مجھے کہا: ابو الیقظان! کیا خیال ہے کہ اگر ہم ان کے پاس چلے جائیں اور دیکھیں کہ یہ کیسے کام کرتے ہیں؟ سو ہم ان کے پاس چلے گئے اور کچھ دیر تک ان کا کام دیکھتے رہے، پھر ہم پر نیند غالب آ گئی۔ میں اور سیدنا علی کھجوروں کے ایک جھنڈ میں چلے گئے اور مٹی میں لیٹ کر سو گئے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہی ہمیں اپنے پاؤں کے ساتھ حرکت دے کر جگایا اور ہم مٹی آلود ہو چکے تھے۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی پر مٹی دیکھی تو فرمایا: اے ابو تراب! (یعنی مٹی والے) پھر آپ نے فرمایا: کیا میں تمھارے لیے دو بدبخت ترین مردوں کی نشاندہی نہ کروں؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: احیمر ثمودی، جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دی تھیں اور وہ آدمی جو (اے علی!) تیرے سر پر مارے گا، حتی کہ تیری (داڑھی) خون سے بھیگ جائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12387

۔ (۱۲۳۸۷)۔ وَعَنْ زَیْدِ بْنِ وَھْبٍ قَالَ: قَدِمَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی قَوْمٍ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ مِنَ الْخَوَارِجِ، فِیہِمْ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ: الْجَعْدُ بْنُ بَعْجَۃَ، فَقَالَ لَہُ: اتَّقِ اللّٰہَ یَا عَلِیُّ، فَإِنَّکَ مَیِّتٌ، فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: بَلْ مَقْتُولٌ ضَرْبَۃٌ عَلٰی ہٰذَا تَخْضِبُ ہٰذِہِ یَعْنِی لِحْیَتَہُ مِنْ رَأْسِہِ، عَہْدٌ مَعْہُودٌ وَقَضَائٌ مَقْضِیٌّ، وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰی، وَعَاتَبَہُ فِی لِبَاسِہِ، فَقَالَ: مَا لَکُمْ وَلِلِبَاسِیْ؟ ہُوَ أَبْعَدُ مِنْ الْکِبْرِ، وَأَجْدَرُ أَنْ یَقْتَدِیَ بِیَ الْمُسْلِمُ۔ (مسند احمد: ۷۰۳)
زید بن وہب سے روایت ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اہل بصرہ کے خوارج میں سے ایک قو م کے پاس تشریف لے گئے، ان میں سے ایک آدمی کا نام جعد بن بعجہ تھا، اس نے کہا: علی! اللہ سے ڈرو، تم نے بالآخر مرنا ہی ہے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا: میں نے مرنا نہیں، بلکہ قتل ہونا ہے، میرے سر پر وار لگے گا، جس سے یہ میری داڑھی رنگین ہوجائے گی، یہ پختہ خبر ہے اور اللہ کی طرف سے فیصلہ ہوچکا ہے اور جس نے جھوٹ باندھا اس نے نقصان اٹھایا، پھر جب اس آدمی نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لباس پر اعتراض کیا تو انھوں نے کہا: تمہیں میرے اس لباس سے کیا؟ یہ تکبر سے بالکل بر ی ہے اور اس لائق ہے کہ اہل اسلام اس سلسلہ میں میری اقتداء کریں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12388

۔ (۱۲۳۸۸)۔ عَنْ أَبِی تِحْیَی قَالَ: لَمَّا ضَرَبَ ابْنُ مُلْجِمٍ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ الضَّرْبَۃَ، قَالَ عَلِیٌّ: افْعَلُوا بِہِ کَمَا أَرَادَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَفْعَلَ بِرَجُلٍ أَرَادَ قَتْلَہُ، فَقَالَ: اقْتُلُوہُ ثُمَّ حَرِّقُوہُ۔ (مسند احمد: ۷۱۳)
ابو تحیی سے مروی ہے کہ جب ابن ملجم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پروار کیا تو انہوں نے کہا: تم اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا، جو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی کے ساتھ کیا تھا،جس نے آپ کوقتل کرنے کا ارادہ کیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ اسے قتل کر د و اور پھر اسے جلا ڈالو۔ 1
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12389

۔ (۱۲۳۸۹)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَبُعٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُولُ: لَتُخْضَبَنَّ ہٰذِہِ مِنْ ہٰذَا فَمَا یَنْتَظِرُ بِی الْأَشْقٰی، قَالُوْا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ فَأَخْبِرْنَا بِہِ نُبِیرُ عِتْرَتَہُ، قَالَ: إِذًا تَاللّٰہِ تَقْتُلُونَ بِی غَیْرَ قَاتِلِی، قَالُوْا: فَاسْتَخْلِفْ عَلَیْنَا، قَالَ: لَا، وَلٰکِنْ أَتْرُکُکُمْ إِلٰی مَا تَرَکَکُمْ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالُوْا: فَمَا تَقُولُ لِرَبِّکَ إِذَا أَتَیْتَہُ؟ وَقَالَ وَکِیعٌ مَرَّۃً: إِذَا لَقِیتَہُ، قَالَ: أَقُولُ اللَّہُمَّ تَرَکْتَنِی فِیہِمْ مَا بَدَا لَکَ، ثُمَّ قَبَضْتَنِی إِلَیْکَ وَأَنْتَ فِیہِمْ، فَإِنْ شِئْتَ أَصْلَحْتَہُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَفْسَدْتَہُمْ۔ (مسند احمد: ۱۰۷۸)
عبداللہ بن سبع سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے ! حدیث ضعیف ہے اور آگ کے ساتھ کسی ذی روح کو عذاب دینا یا جلانا منع ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ النَّارَ لَا یُعَذِّبُ بِھَا اَحَدٌ اِلاَّ اللّٰہُ)) (صحیح بخاری: ۲۹۵۴) آگ کے ساتھ اللہ کے سوا کوئی عذاب نہیں دیتا (یعنی کوئی عذاب نہ دے)۔ (عبداللہ رفیق) سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میری یہ داڑھی میرے سر کے خون سے رنگین ہوگی اور انتہائی بدبخت آدمی میرے ساتھ ایسا سلوک کرنے کا منتظر ہے۔ لوگوںنے کہا: اے امیر المومنین! آپ ہمیںاس کے متعلق بتلا دیں تو ہم اس کی اولاد تک کا نام و نشان نہ چھوڑیں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر میں ایسا کروں تو تم میرے اصل قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کر دو گے۔ لوگوں نے کہا: اچھاآپ کسی کو ہمارے اوپر خلیفہ نامزد کردیں، انھوں نے اس سے بھی انکار کر دیا اور کہا: میں تمہیں اسی طرح چھوڑ کر جاؤں گا، جس طرح اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہیں چھوڑگئے تھے، یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا، لوگوں نے کہا: آپ اپنے رب کے ہاں جا کر کیا کہیں گے؟ انھوں نے کہا: میں کہوں گا: یاا للہ! جب تک تجھے منظور تھا تو نے مجھے ان کے درمیان باقی رکھا، پھر تو نے مجھے اپنی طرف بلالیا اور ان لوگوں میں میرے بعد تو ہی تھا، تو چاہتا ہے تو ان کی اصلاح کردے اور اگر چاہتا ہے تو ان میں فساد برپا کر دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12390

۔ (۱۲۳۹۰)۔ عَنْ اَبِیْ اِسْحٰقَ، عَنْ ھُبَیْرَۃَ، خَطَبَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: لَقَدْ فَارَقَکُمْ رَجُلٌ بِالْاَمْسِ، لَمْ یَسْبِقْہُ الْاَوَّلُوْنَ بِعِلْمٍ وَلَا یُدْرِکْہُ الْآخِرُوْنَ، کَانَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَبْعَثُہُ بِالرَّاْیَۃِ، جِبْرِیْلُ عَنْ یَمِیْنِہِ وَمِیْکَائِیْلُ عَنْ شِمَالِہِِ، لَا یَنْصَرِفُ حَتّٰییُفْتَحَ لَہُ۔ (مسند احمد: ۱۷۱۹)
ہبیرہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا حسن بن علی علیہ السلام نے ہمیں خطبہ دیا اور کہا: کل ایک ایسا آدمی تمہیںداغ مفارقت دے گیا ہے کہ نہ تو پہلے لوگوں میں سے کوئی علمی طور پر اس سے سبقت لے گیا ہے اورنہ بعد والوںمیں سے کوئی اس کے مقام کو پاسکے گا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے جھنڈا دے کر روانہ کرتے تو جبریل علیہ السلام اس کی داہنی جانب ہوتا اور میکائیل علیہ السلام اس کی بائیں جانب اور وہ فتح کے بغیر نہ لوٹتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12391

۔ (۱۲۳۹۱)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ بِنَحْوِہِ) وَزَادَ: وَمَا تَرَکَ مِنْ صَفْرَائَ وَلَا بَیْضَائَ إِلَّا سَبْعَ مِائَۃِ دِرْہَمٍ مِنْ عَطَائِہِ کَانَ یَرْصُدُہَا لِخَادِمٍ لِأَہْلِہِ۔ (مسند احمد: ۱۷۲۰)
۔ (دوسری سند) اس میں یہ الفاظ زائد ہیں: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سونا اور چاندی چھوڑکر نہیں گئے، بس صرف سات سو درہم تھے، جو انہوں نے اہل خانہ کے خادم کے لیے الگ محفوظ رکھے ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12392

۔ (۱۲۳۹۲)۔ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ الْأَقْمَرِ قَالَ: بَیْنَمَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّیَخْطُبُ بَعْدَمَا قُتِلَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، إِذْ قَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَزْدِ آدَمُ طُوَالٌ، فَقَالَ: لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاضِعَہُ فِی حَبْوَتِہِ، یَقُولُ: ((مَنْ أَحَبَّنِی فَلْیُحِبَّہُ، فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ۔)) وَلَوْلَا عَزْمَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا حَدَّثْتُکُمْ۔ (مسند احمد: ۲۳۴۹۴)
زہیربن اقمر سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے بعد ایک دن سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خطاب کر رہے تھے کہ بنواز د کے ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جسے مجھ سے محبت ہے، وہ اس سے بھی محبت کرے،جو لو گ یہاں موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں تک پہنچا دیں، جو یہاں نہیں ہیں۔ اگر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے یہ تاکید نہ ہوتی تومیں تمہیں یہ حدیث نہ سناتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12393

۔ (۱۲۳۹۳)۔ ثَنَا ہَاشِمٌ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَکُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرَۃَ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی بِالنَّاسِ، وَکَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَثِبُ عَلٰی ظَہْرِہِ، إِذَا سَجَدَ فَفَعَلَ ذٰلِکَ غَیْرَ مَرَّۃٍ،(وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَیَرْفَعُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَفْعًا رَقِیْقًا لِئَلَّا یُصْرِعَہُ) أَبُوبَکْرَۃَ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی بِالنَّاسِ، وَکَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَثِبُ عَلٰی ظَہْرِہِ إِذَا سَجَدَ، فَفَعَلَ ذٰلِکَ غَیْرَ مَرَّۃٍ، فَقَالُوْا لَہُ: وَاللّٰہِ! إِنَّکَ لَتَفْعَلُ بِہٰذَا شَیْئًا مَا رَأَیْنَاکَ تَفْعَلُہُ بِأَحَدٍ، قَالَ الْمُبَارَکُ: فَذَکَرَ شَیْئًا ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ ابْنِیْ ہَذَا سَیِّدٌ، وَسَیُصْلِحُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔)) فَقَالَ الْحَسَنُ: فَوَاللّٰہِ وَاللّٰہِ بَعْدَ أَنْ وَلِیَ لَمْ یُہْرَقْ فِی خِلَافَتِہِ مِلْئُ مِحْجَمَۃٍ مِنْ دَمٍ۔ (مسند احمد: ۲۰۷۲۱)
سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کود کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کمر پر چڑھ جاتے، انھوں نے ایسے کئی بار کیا۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نرمی سے اٹھتے تھے تاکہ وہ گر نہ جائیں، یہ منظر دیکھ کر صحابہf نے کہا: اللہ کی قسم! آپ جیسا سلوک اس کے ساتھ کرتے ہیں، ویسا کسی اور کے ساتھ نہیں کرتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوںکی دو بڑی جماعتوں میں صلح کراے گا۔ حسن بصری نے کہا: پس اللہ کی قسم، اللہ کی قسم ہے کہ ان کی خلافت میں ایک شیشی کی مقدار بھی خون نہیں بہایا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12394

۔ (۱۲۳۹۴)۔ عَنْ أَبِی مُوسٰی وَیُقَالُ لَہُ: إِسْرَائِیلُ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بَکْرَۃَ، وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمِنْبَرِ وَحَسَنٌ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَعَہُ وَہُوَ یُقْبِلُ عَلَی النَّاسِ مَرَّۃً وَعَلَیْہِ مَرَّۃً وَیَقُولُ: ((إِنَّ ابْنِی ہٰذَا سَیِّدٌ، وَلَعَلَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَنْ یُصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۰۶۶۳)
سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف فرما تھے اور سیدنا حسن علیہ السلام بھی آپ کے ہمراہ تھے، آپ ایک بار لوگوں کی طرف دیکھتے اور ایک بار ان پر نظر ڈالتے اور فرماتے تھے: میرا یہ بیٹا سردار ہوگا اور امید ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ا س کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12395

۔ (۱۲۳۹۵)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَن الْحَسَنِ عَن أَبِی بَکْرَۃَ، قَالَ: بَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍیَخْطُبُ إِذْ جَائَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ، فَصَعِدَ إِلَیْہِ الْمِنْبَرَ، فَضَمَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیْہِ، وَمَسَحَ عَلٰی رَأْسِہِ، وَقَالَ: ((ابْنِی ہٰذَا سَیِّدٌ، وَلَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُصْلِحَ عَلٰییَدَیْہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔)) (مسند احمد: ۲۰۷۷۳)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے، وہ آکر آپ کے پاس منبر پر چلے گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اپنے سینے سے لگالیا اور ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا: میر ایہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کراے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12396

۔ (۱۲۳۹۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِحَسَنٍ: ((اَللّٰہُمَّ اِنِّی اُحِبُّہُ فَاَحِبَّہٗوَاَحِبَّمَنْیُّحِبُّہٗ۔)) (مسند احمد: ۷۳۹۲)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے متعلق ارشاد فرمایا: یااللہ! مجھے اس سے محبت ہے،پس تو اس سے بھی محبت کرے اور اس سے محبت کرنے والے سے بھی محبت کر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12397

۔ (۱۲۳۹۷)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سُوقٍ مِنْ أَسْوَاقِ الْمَدِینَۃِ، فَانْصَرَفَ وَانْصَرَفْتُ مَعَہُ، فَجَائَ إِلٰی فِنَائِ فَاطِمَۃَ فَنَادَی الْحَسَنَ، فَقَالَ: ((أَیْ لُکَعُ! أَیْ لُکَعُ! أَیْ لُکَعُ!)) قَالَہُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمْ یُجِبْہُ أَحَدٌ، قَالَ: فَانْصَرَفَ وَانْصَرَفْتُ مَعَہُ، قَالَ: فَجَائَ إِلٰی فِنَائِ عَائِشَۃَ فَقَعَدَ، قَالَ: فَجَائَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ،قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: ظَنَنْتُ أَنَّ أُمَّہُ حَبَسَتْہُ لِتَجْعَلَ فِی عُنُقِہِ السِّخَابَ، فَلَمَّا جَائَ الْتَزَمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالْتَزَمَ ہُوَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((اللَّہُمَّ إِنِّی أُحِبُّہُ فَأَحِبَّہُ، وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُ۔)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔ (مسند احمد: ۸۳۶۲)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ مدینہ کے ایک بازار میں تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس ہوئے تو میں بھی آپ کے ساتھ واپس آگیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر کی طرف گئے اور سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلاتے ہوئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: او بچے! او چھوٹو! او بچے! کسی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات کا جواب نہ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس آگئے، میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ لوٹ آیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر جاکر بیٹھ گئے، اتنے میں سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی آگئے، سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ان کو ان کی والدہ نے ان کے گلے میں ہار کی مانند کوئی چیز ڈالنے کے لیے روک لیا تھا، جب وہ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو گلے لگالیا اور وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گلے سے لگ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس وقت تین بار فرمایا: یا اللہ! مجھے اس سے محبت ہے، پس تو اس سے بھی محبت کر اور اس سے محب کرنے والے سے بھی محبت کر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12398

۔ (۱۲۳۹۸)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی سُوقِ بَنِی قَیْنُقَاعَ مُتَّکِئًا عَلٰییَدِی، فَطَافَ فِیہَا ثُمَّ رَجَعَ فَاحْتَبٰی فِی الْمَسْجِدِ، وَقَالَ: ((أَیْنَلُکَاعٌ؟ ادْعُوا لِی لُکَاعًا۔)) فَجَائَ الْحَسَنُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَاشْتَدَّ حَتّٰی وَثَبَ فِی حَبْوَتِہِ فَأَدْخَلَ فَمَہُ فِی فَمِہِ ثُمَّ قَالَ: ((اللَّہُمَّ إِنِّی أُحِبُّہُ فَأَحِبَّہُ، وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُ۔)) ثَلَاثًا، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: مَا رَأَیْتُ الْحَسَنَ إِلَّا فَاضَتْ عَیْنِی أَوْ دَمَعَتْ عَیْنِی، أَوْ بَکَتْ شَکَّ الْخَیَّاطُ(الرَّاوِیْ)۔ (مسند احمد: ۱۰۹۰۴)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاتھ پر ٹیک لگائے ہوئے بنو قینقاع کے بازار کی طرف تشریف لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں چکر لگایا، اس کے بعد واپس آکر مسجد میں بیٹھ گئے اور فرمایا: چھوٹا کہاںہے؟ چھوٹو کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔ اتنے میں سیدنا حسن علیہ السلام آگئے اور دوڑ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گود میں بیٹھ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا منہ اس کے منہ کے ساتھ لگایا اور تین بار فرمایا: یا اللہ! مجھے اس سے محبت ہے، تو بھی اس سے اور اس سے محبت کرنے والوں سے محبت فرما۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں جب بھی سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12399

۔ (۱۲۳۹۹)۔ عَنْ مُعَاوِیَۃَ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمُصُّ لِسَانَہُ، أَوْ قَالَ: شَفَتَہُ یَعْنِی الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ، وَإِنَّہُ لَنْ یُعَذَّبَ لِسَانٌ أَوْ شَفَتَانِ مَصَّہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۷۳)
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زبان کو یا ہونٹ کو چوس رہے تھے اور جس زبان یا ہونٹوں کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چوما ہو، اسے عذاب نہیں ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12400

۔ (۱۲۴۰۰)۔ عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: کُنْتُ مَعَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ فَلَقِیَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ، فَقَالَ: أَرِنِی أُقَبِّلْ مِنْکَ حَیْثُ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ، قَالَ: فَقَالَ: بِالْقَمِیصَۃِ، قَالَ: فَقَبَّلَ سُرَّتَہُ۔ (مسند احمد: ۷۴۵۵)
عمیر بن اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ تھا کہ ہم سے سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آملے اور انہوں نے لپا: حسن! مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے اس مقام کو بوسہ دوں، جس مقام پر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بوسہ دیتے دیکھا ہے، پھر انہوں نے ان کی قمیص اوپر اٹھا کر ان کی ناف پر بوسہ دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12401

۔ (۱۲۴۰۱)۔ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ کُلَیْبٍ، حَدَّثَنِی أَبِی أَنَّہِ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَیَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ رَآنِی فِی الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِی، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَتَمَثَّلُ بِی۔)) قَالَ عَاصِمٌ: قَالَ أَبِی: فَحَدَّثَنِیہِ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَأَخْبَرْتُہُ أَنِّی قَدْ رَأَیْتُہُ قَالَ: رَأَیْتَہُ؟ قُلْتُ: إِی وَاللّٰہِ لَقَدْ رَأَیْتُہُ، قَالَ: فَذَکَرْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ قَالَ: إِنِّی وَاللّٰہِ قَدْ ذَکَرْتُہُ وَنَعَتُّہُ فِی مِشْیَتِہِ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّہُ کَانَ یُشْبِہُہُ۔ (مسند احمد: ۸۴۸۹)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے خواب میں مجھے دیکھا، اس نے مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ عاصم کہتے ہیں: میرے والد نے کہا:جب یہی حدیث سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے مجھ کو بیان کی تو میں نے کہا: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خواب میںدیکھا ہے، انہوں نے پوچھا: کیا واقعی تم نے دیکھا ہے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں، اللہ کی قسم! میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ہے اور میں نے حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام لیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے مشابہ تھے اور میں نے آپ کے چلنے کے انداز کا بھی ذکر کیا، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مشابہ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12402

۔ (۱۲۴۰۲)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ، أَخْبَرَنِی عُقْبَۃُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ بَعْدَ وَفَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلَیَالٍ، وَعَلِیٌّ عَلَیْہِ السَّلَامُ یَمْشِی إِلٰی جَنْبِہِ، فَمَرَّ بِحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّیَلْعَبُ مَعَ غِلْمَانٍ، فَاحْتَمَلَہُ عَلٰی رَقَبَتِہِ، وَہُوَ یَقُولُ: وَا بِأَبِی شَبَہُ النَّبِیِّ، لَیْسَ شَبِیہًا بِعَلِیِّ، قَالَ: وَعَلِیٌّیَضْحَکُ۔ (مسند احمد: ۴۰)
عقبہ بن حارث سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے چند راتوں بعد میں ایک دن عصر کی نماز کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ نکلا، ان کے پہلو میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی چلے آر ہے تھے، اتنے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس سے گزرے، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں اپنی گردن پر سوار کر لیا اور کہا: واہ! میرا باپ قربان ہو، یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مشابہ ہے، یہ اپنے والد علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مشابہت نہیں رکھتا۔ یہ بات سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسکرا دئیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12403

۔ (۱۲۴۰۳)۔ عَنْ اَبِیْ جُحَیْفَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّہٗرَاٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ اَشْبَہَ النَّاسِ بِہِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ۔ (مسند احمد: ۱۸۹۵۲)
سیدنا ابو جحیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوںمیں سے سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے زیادہ مشابہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12404

۔ (۱۲۴۰۴)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ قَالَ: کَانَتْ فَاطِمَۃُ تَنْقُزُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ، وَتَقُولُ: بِأَبِی شَبَہُ النَّبِیِّ لَیْسَ شَبِیہًا بِعَلِیٍّ۔ (مسند احمد: ۲۶۹۵۴)
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ،سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیار و محبت سے اچھالتیں تو کہا کرتی تھیں: میرا باپ قربان، یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مشابہ ہے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مشابہ نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12405

۔ (۱۲۴۰۵)۔ وَعَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَلْحَسْنُ اَشْبَہُ النَّاسِ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا بَیْنَ الصَّدْرِ اِلَی الرَّاْسِ، وَالْحُسَیْنُ اَشْبَہُ النَّاسِ بِالنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا کَانَ اَسْفَلُ مِنْ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۷۷۴)
سیدناعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سینے سے سر تک اور حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سینے سے نیچے تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12406

۔ (۱۲۴۰۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ حَسَنٌ وَحُسَیْنٌ، ہٰذَا عَلٰی عَاتِقِہِ وَہٰذَا عَلٰی عَاتِقِہِ، وَہُوَ یَلْثِمُ ہٰذَا مَرَّۃً وَیَلْثِمُ ہٰذَا مَرَّۃً حَتَّی انْتَہٰی إِلَیْنَا، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّکَ تُحِبُّہُمَا، فَقَالَ: ((مَنْ أَحَبَّہُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِی، وَمَنْ اَبْغَضَہُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ۔)) (مسند احمد: ۹۶۷۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے،اس وقت آپ نے سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایک کندھے پر اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دوسرے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کبھی اس کا بوسہ لیتے اور کبھی اُس کا، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلتے چلتے ہمارے پاس آگئے، ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوان دونوں سے محبت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جسے ان دونوں سے محبت ہے،اسے مجھ سے محبت ہے اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12407

۔ (۱۲۴۰۷)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) قَالَ: کُنَّا نُصَلِّی مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْعِشَائَ، فَإِذَا سَجَدَ وَثَبَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ عَلٰی ظَہْرِہِ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ أَخَذَہُمَا بِیَدِہِ مِنْ خَلْفِہِ أَخْذًا رَفِیقًا، وَیَضَعُہُمَا عَلَی الْأَرْضِ، فَإِذَا عَادَ عَادَا حَتّٰی إِذَا قَضٰی صَلَاتَہُ، أَقْعَدَہُمَا عَلٰی فَخِذَیْہِ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَیْہِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَرُدُّہُمَا فَبَرَقَتْ بَرْقَۃٌ، فَقَالَ لَہُمَا: ((الْحَقَا بِأُمِّکُمَا۔)) قَالَ: فَمَکَثَ ضَوْئُ ہَا حَتّٰی دَخَلَا عَلٰی اُمِّہِمَا۔ (مسند احمد: ۱۰۶۶۹)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ عشاء کی نماز ادا کررہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سجدہ میں جاتے تو سیدنا حسن اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ عشاء کی نماز ادا کررہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سجدہ میں جاتے تو سیدنا حسن اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12408

۔ (۱۲۴۰۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۹۹)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمایا: حسن اور حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12409

۔ (۱۲۴۰۹)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ، عَنْ یَعْلَی الْعَامِرِیِّ أَنَّہُ جَائَ حَسَنٌ وَحُسَیْنٌ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا یَسْتَبِقَانِ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَضَمَّہُمَا إِلَیْہِ، وَقَالَ: ((إِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَۃٌ مَجْبَنَۃٌ وَإِنَّ آخِرَ وَطْأَۃٍ وَطِئَہَا الرَّحْمَنُ عَزَّ وَجَلَّ بِوَجٍّ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۰۵)
یعلی عامری سے روایت ہے کہ سیدنا حسن اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دوڑتے ہوئے آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونو ںکو اپنے ساتھ لگا لیا اور فرمایا: بے شک اولاد بخل اور بزدلی کا باعث بنتی ہے اور فتح مکہ کے بعد رحمان کی طرف سے مشرکین کی آخری گرفت غزوۂ طائف میں وادیٔ وج کے مقام پر ہوئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12410

۔ (۱۲۴۱۰)۔ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِی کَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ إِلٰی مُعَاوِیَۃَ فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ تُوُفِّیَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَہُ مُعَاوِیَۃُ: أَتُرَاہَا مُصِیبَۃً؟ فَقَالَ: وَلِمَ لَا أَرَاہَا مُصِیبَۃً؟ وَقَدْ وَضَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حِجْرِہِ، وَقَالَ: ((ہٰذَا مِنِّی وَحُسَیْنٌ مِنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ۔)) (مسند احمد: ۱۷۳۲۱)
سیدنا مقدام بن معدی کرب اور سیدنا عمرو بن اسود معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی خدمت میں گئے، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا مقدام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیاآپ کو معلوم ہے کہ حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوگیا ہے؟ یہ سن کر مقدام نے اِنَّا لِلّٰہِ وَِاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون پڑھا، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ اس واقعہ کو مصیبت خیال کرتے ہیں؟ سیدنا مقدام نے کہا:میں اسے مصیبت کیوں نہ سمجھوں،جبکہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اپنی گودمیں بٹھایا اور فرمایا تھا: یہ حسن میرا ہے اور حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12411

۔ (۱۲۴۱۱)۔ عَنْ عَمْروِ بْنِ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّییُحَدِّثُ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ أَخَذَ الْإِدَاوَۃَ بَعْدَ أَبِی ہُرَیْرَۃَیَتْبَعُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہَا، وَاشْتَکٰی أَبُوہُرَیْرَۃَ فَبَیْنَا ہُوَ یُوَضِّیئُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَیْہِ مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ: ((یَا مُعَاوِیَۃُ! إِنْ وُلِّیتَ أَمْرًا فَاتَّقِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَاعْدِلْ۔)) قَالَ: فَمَا زِلْتُ أَظُنُّ أَنِّیمُبْتَلًی بِعَمَلٍ لِقَوْلِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتَّی ابْتُلِیتُ۔ (مسند احمد: ۱۷۰۵۷)
ابو امیہ عمرو بن یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: میں نے اپنے دادا سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار پڑ گئے تھے اوران کے بعد سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وضو کا برتن سنبھال لیا اور وہ برتن لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ساتھ رہنے لگے، ایک دن وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو وضو کرا رہے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دو دفعہ اپنا سرمبارک ان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: معاویہ! گرتجھے حکومت ملے تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور عدل کا دامن تھامے رکھنا۔ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس بات کے پیش نظر مجھے یقین تھا کہ مجھے حکومت کے معاملے میں آزمایا جائے گا، بالآخر یہی ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12412

۔ (۱۲۴۱۲)۔ عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وَہُوَ یَدْعُونَا إِلَی السَّحُورِ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ: ((ہَلُمُّوا إِلَی الْغَذَائِ الْمُبَارَکِ۔)) ثُمَّ سَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((اللَّہُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَۃَ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ۔)) (مسند احمد: ۱۷۲۸۲)
سیدنا عرباض بن ساریہ سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنا، آپ ہمیں ماہ رمضان میں سحری کی دعوت دیتے ہوئے فرمارہے تھے: تم بابرکت کھانے کی طرف آؤ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: یا اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطافرما اور اسے عذاب سے محفوظ رکھ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12413

۔ (۱۲۴۱۳)۔ وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ عُمَیْرَۃَ الْاَزْدِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہٗذَکَرَمُعَاوِیَۃَ وَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہٗھَادِیًا مَہْدِیًّا وَاھْدِ بِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۰۵۵)
سیدنا عبدالرحمن بن ابی عمیرہ ازدی سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یا اللہ! اسے راہ نما اور ہدایت یافتہ بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت نصیب فرما۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12414

۔ (۱۲۴۱۴)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ دَخَلَ عَلٰی عَائِشَۃَ فَقَالَتْ لَہُ: أَمَا خِفْتَ أَنْ أُقْعِدَ لَکَ رَجُلًا فَیَقْتُلَکَ؟ فَقَالَ: مَا کُنْتِ لِتَفْعَلِیہِ وَأَنَا فِی بَیْتِ أَمَانٍ، وَقَدْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: یَعْنِی ((اَلْإِیمَانُ قَیْدُ الْفَتْکِ۔)) کَیْفَ أَنَا فِی الَّذِی بَیْنِی وَبَیْنَکِ وَفِی حَوَائِجِکِ؟ قَالَتْ: صَالِحٌ، قَالَ: فَدَعِینَا وَإِیَّاہُمْ حَتّٰی نَلْقٰی رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۵۷)
سعید بن مسیب ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مروی ہے کہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لائے،سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے کہا: تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ میں کسی آدمی کوتمہاری تاک میں بٹھادوں جو تمہیں قتل کر دے؟ انھوں نے کہا: آپ ایسا کام نہیں کریں گی، کیونکہ میں حفظ وامان کے مرکز میں ہوں اور میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سن چکا ہوں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ ایمان بے خبری میں کسی کو قتل کرنے سے روکتا ہے۔ میراآپ کے ساتھ اور آپ کی ضروریات کے بارے میں رویہ کیسا ہے؟ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جی ٹھیک ہے، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو پھر آپ میرے اور ان لوگوں کے معاملات کو رہنے دیں تاآنکہ ہم اللہ تعالیٰ سے جاملیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12415

۔ (۱۲۴۱۵)۔ حَدَّثَنِی أَبُو عَبْدِ رَبِّہِ قَالَ سَمِعْتُ مُعَاوِیَۃَیَقُولُ: عَلٰی ہٰذَا الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ مَا بَقِیَ مِنَ الدُّنْیَا بَلَائٌ وَفِتْنَۃٌ، وَإِنَّمَا مَثَلُ عَمَلِ أَحَدِکُمْ کَمَثَلِ الْوِعَائِ، إِذَا طَابَ أَعْلَاہُ طَابَ أَسْفَلُہُ، وَإِذَا خَبُثَ أَعْلَاہُ خَبُثَ أَسْفَلُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۶۹۷۸)
سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے منبر پر کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا کا جو حصہ اب باقی ہے، وہ محض مصائب اور فتنے ہیں اور تمہارے اعمال کی مثال برتن کی مانند ہے، اگر اس کا اوپر والا حصہ پاک ہو تو نیچے والا حصہ بھی پاک ہوگا اور اگر اوپر والا حصہ ناپاک ہو ا تو نیچے والا بھی ناپاک ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12416

۔ (۱۲۴۱۶)۔ عَنْ أَبِی عَامِرٍ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ لُحَیٍّ قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَکَّۃَ قَامَ حِینَ صَلّٰی صَلَاۃَ الظُّہْرِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّ أَہْلَ الْکِتَابَیْنِ افْتَرَقُوا فِی دِینِہِمْ عَلٰی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً، وَإِنَّ ہٰذِہِ الْأُمَّۃَ سَتَفْتَرِقُ عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً،یَعْنِی الْأَہْوَائَ کُلُّہَا فِی النَّارِ إِلَّا وَاحِدَۃً وَہِیَ الْجَمَاعَۃُ، وَإِنَّہُ سَیَخْرُجُ فِی أُمَّتِی أَقْوَامٌ تَجَارٰی بِہِمْ تِلْکَ الْأَہْوَائُ کَمَا یَتَجَارَی الْکَلَبُ بِصَاحِبِہِ، لَا یَبْقٰی مِنْہُ عِرْقٌ، وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دَخَلَہُ وَاللّٰہِ۔)) یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ! لَئِنْ لَمْ تَقُومُوا بِمَا جَائَ بِہِ نَبِیُّکُمْ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَغَیْرُکُمْ مِنْ النَّاسِ أَحْرٰی أَنْ لَا یَقُومَ بِہِ۔ (مسند احمد: ۱۷۰۶۱)
ابو عامر عبداللہ بن لحی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں حج کے لیے گئے، جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نماز ظہر ادا کرنے کے بعد کھڑے ہوئے اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اہل کتاب اپنے دین کے متعلق بہتر گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور یہ امت تہتر گروہوں میں بٹ جائے گی،یعنی یہ لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کریں گے، ایک گروہ کے سوا باقی تمام جہنم رسید ہوں گے، اور وہ ایک گروہ جماعت ہے اور میری امت میں ایسے ایسے بھی لوگ پیدا ہوں گے کہ ان کے اندر خواہشات یوں سرایت کر جائیں گے جیسے باؤلے کتے کے کاٹے کے اثرات مریض کے پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں، اس کی کوئی رگ اور جوڑ اس کے اثر سے محفوظ نہیں رہتی۔)) اے عربو! اللہ کی قسم تمہارا نبی جو دین اور دعوت لے کر تمہارے پاس آیا ہے، اگر تم اس پر عمل نہ کرو گے تو دوسرے لوگ کہاں کریںگے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12417

۔ (۱۲۴۱۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بِشْرٍ الْخَثْعَمِیُّ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِینِیَّۃُ فَلَنِعْمَ الْأَمِیرُ أَمِیرُہَا، وَلَنِعْمَ الْجَیْشُ ذٰلِکَ الْجَیْشُ۔)) قَالَ: فَدَعَانِی مَسْلَمَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ فَسَأَلَنِی فَحَدَّثْتُہُ فَغَزَا الْقُسْطَنْطِینِیَّۃَ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۶۵)
سیدنا بشر خثعمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قسطنطنیہ ضرور فتح ہوگا، تو اس کا امیر بہترین امیر ہو گا اور وہ لشکر بہترین لشکر ہوگا۔ وہ کہتے ہیں: مسلمہ بن عبدالملک نے مجھے بلو ا کر اس بارے میں پوچھاتو میں نے انہیں یہ حدیث بیان کی، سو وہ قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12418

۔ (۱۲۴۱۸)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ، حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ، حَدَّثَنِیْ صَخْرُ بْنُ جُوَیْرِیَۃَ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: لَمَّا خَلَعَ النَّاسُ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ، جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ بَنِیہِ وَأَہْلَہُ، ثُمَّ تَشَہَّدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ! فَإِنَّا قَدْ بَایَعْنَا ہٰذَا الرَّجُلَ عَلٰی بَیْعِ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ، وَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ الْغَادِرَ یُنْصَبُ لَہُ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِیُقَالُ: ہٰذِہٖغَدْرَۃُ فُلَانٍ۔)) وَإِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْغَدْرِ اِلاَّ أَنْ یَکُونَ الْإِشْرَاکُ بِاللّٰہِ تَعَالٰی أَنْ یُبَایِعَ رَجُلٌ رَجُلًا عَلٰی بَیْعِ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ، ثُمَّ یَنْکُثَ بَیْعَتَہُ، فَلَا یَخْلَعَنَّ أَحَدٌ مِّنْکُمْیَزِیدَ، وَلَا یُشْرِفَنَّ أَحَدٌ مِنْکُمْ فِی ہَذَا الْأَمْرِ، فَیَکُونَ صَیْلَمٌ بَیْنِی وَ بَیْنَہُ۔ (مسند احمد: ۵۰۸۸)
باب اول: یزید کی بیعت اور بعض لوگوںکی اس کی بیعت سے بے زاری اور سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا بیان کہا: ہم نے اللہ اوراس کے رسول کی خاطر اس یزید کی بیعت کی ہے اور میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سن چکا ہوں کہـ: بے وفا دھوکہ باز کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا او رکہاجائے گا کہ یہ فلاں کے دھوکہ کی علامت ہے۔ سب سے بڑا دھوکہ اور بے وفائی اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہی نہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ کوئی آدمی اللہ اور اس کے رسول کی خاطر کسی آدمی کی بیعت کرے اور پھر اس کو توڑڈالے، تم میں سے کوئی بھی یزید کا ساتھ نہ چھوڑے اور خلافت و امارت کے سلسلہ میں کسی بھی دوسری طرف نہ جھانکے، ورنہ اور اس کے میرے درمیان تلوار ہو گی (یعنی میں اس کے ساتھ سخت معاملہ کروں گا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12419

۔ (۱۲۴۱۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ نُجَیٍّ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ سَارَ مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَکَانَ صَاحِبَ مِطْہَرَتِہِ، فَلَمَّا حَاذٰی نِینَوٰی، وَہُوَ مُنْطَلِقٌ إِلٰی صِفِّینَ، فَنَادٰی عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ، اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ بِشَطِّ الْفُرَاتِ، قُلْتُ: وَمَاذَا؟ قَالَ: قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ وَعَیْنَاہُ تَفِیضَانِ، قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَغْضَبَکَ أَحَدٌ؟ مَا شَأْنُ عَیْنَیْکَ تَفِیضَانِ؟ قَالَ: ((بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِی جِبْرِیلُ قَبْلُ، فَحَدَّثَنِی أَنَّ الْحُسَیْنَیُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ، قَالَ: فَقَالَ: ہَلْ لَکَ إِلٰی أَنْ أُشِمَّکَ مِنْ تُرْبَتِہِ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَمَدَّ یَدَہُ فَقَبَضَ قَبْضَۃً مِنْ تُرَابٍ، فَأَعْطَانِیہَا فَلَمْ أَمْلِکْ عَیْنَیَّ أَنْ فَاضَتَا۔)) (مسند احمد: ۶۴۸)
عبداللہ بن نجی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ طہارت والے پانی کا برتن اٹھا کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ چل رہے تھے، جب وہ صفین کی طرف جاتے ہوئے نینوی مقام تک پہنچے، تو سیدنا علی نے آواز دی: ابو عبداللہ! ٹھہر جاؤ ، دریائے فرات کے کنارے ٹھہر جاؤ۔ میں نے کہا: ادھر کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا، اس حال میں کہ آپ کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کسی نے آپ کو غصہ دلایا ہے؟ آپ کی آنکھیں کیوں آنسو بہار ہی ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ کی آمد سے قبل جبریل امین میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں، انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین کو دریائے فرات کے کنارے قتل کر دیا جائے گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے کہا: میں آپ کو اس کی مٹی کی خوشبو سونگھاؤں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ پس اس نے اپنا ہاتھ لمبا کیا، مٹی کی مٹھی بھری اور مجھے دے دی۔ میں اپنے آپ پر قابو نہ پا سکا اور رونے لگ گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12420

۔ (۱۲۴۲۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ مَلَکَ الْمَطَرِ اسْتَأْذَنَ رَبَّہُ أَنْ یَأْتِیَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَذِنَ لَہُ فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَۃَ: امْلِکِی عَلَیْنَا الْبَابَ لَا یَدْخُلْ عَلَیْنَا أَحَدٌ قَالَ وَجَائَ الْحُسَیْنُ لِیَدْخُلَ فَمَنَعَتْہُ فَوَثَبَ فَدَخَلَ فَجَعَلَ یَقْعُدُ عَلٰی ظَہَرِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلٰی مَنْکِبِہِ وَعَلٰی عَاتِقِہِ قَالَ فَقَالَ الْمَلَکُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتُحِبُّہُ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ أَمَا إِنَّ أُمَّتَکَ سَتَقْتُلُہُ وَإِنْ شِئْتَ أَرَیْتُکَ الْمَکَانَ الَّذِییُقْتَلُ فِیہِ فَضَرَبَ بِیَدِہِ فَجَائَ بِطِینَۃٍ حَمْرَاء َ فَأَخَذَتْہَا أُمُّ سَلَمَۃَ فَصَرَّتْہَا فِی خِمَارِہَا قَالَ قَالَ ثَابِتٌ بَلَغَنَا أَنَّہَا کَرْبَلَائُ۔ (مسند احمد: ۱۳۵۷۳)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ بارش والے فرشتے نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہو نے کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی، اللہ نے اسے اجازت دے دی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے فرمایا: تم دروازے کے قریب رہنا اور کسی کو ہمارے پاس نہ آنے دینا۔ سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، وہ اندر آنے لگے، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کوروکا، مگر وہ چھلانک لگا کر اندر چلے گئے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت مبارک اور کندھے پر بیٹھنے لگے، اس فرشتے نے کہا: کیاآپ کو اس سے محبت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں اس فرشتے نے کہا: اس کو تو آپ کی امت قتل کر دے گی۔ آپ چاہیں تو میں آپ کو ان کی قتل گاہ دیکھا سکتا ہوں، اس نے اپنا ہاتھ مارا اور سرخ مٹی لے آیا، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے وہ مٹی لے کر اپنے دوپٹے میں ڈال لی، ثابت کہتے ہیں: ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ ان کی قتل گاہ کربلا کی زمین ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12421

۔ (۱۲۴۲۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أَوْ أُمِّ سَلَمَۃَ، قَالَ: وَکِیعٌ شَکَّ ہُوَ یَعْنِی عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَعِیدٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِإِحْدَاہُمَا: ((لَقَدْ دَخَلَ عَلَیَّ الْبَیْتَ مَلَکٌ لَمْ یَدْخُلْ عَلَیَّ قَبْلَہَا، فَقَالَ لِی: إِنَّ ابْنَکَ ہٰذَا حُسَیْنٌ مَقْتُولٌ، وَإِنْ شِئْتَ أَرَیْتُکَ مِنْ تُرْبَۃِ الْأَرْضِ الَّتِییُقْتَلُ بِہَا، قَالَ: فَأَخْرَجَ تُرْبَۃً حَمْرَائَ۔)) (مسند احمد: ۲۷۰۵۹)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا یا سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: میرے پاس گھر میں ایک فرشتہ آیا ہے، جو اس سے پہلے کبھی میرے پاس نہیں آیا تھا، اس نے بتلایاہے کہ آپ کا یہ بیٹا حسین قتل ہوگا، اگر آپ چاہیں تو آپ کو اس سرزمین کی مٹی دکھاؤں، جہاں یہ قتل ہوگا، پھر اس نے سرخ مٹی دکھائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12422

۔ (۱۲۴۲۲)۔ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أُتِیَ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ زِیَادٍ بِرَأْسِ الْحُسَیْنِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَجُعِلَ فِی طَسْتٍ، فَجَعَلَ یَنْکُتُ عَلَیْہِ، وَقَالَ فِی حُسْنِہِ شَیْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ: إِنَّہُ کَانَ أَشْبَہَہُمْ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکَانَ مَخْضُوبًا بِالْوَسْمَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۳۷۸۴)
انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سرلایاگیا، وہ ایک تھال میں رکھا ہوا تھا، تو وہ اپنی لاٹھی سے مارنے لگا اور اس نے ان کے حسن کے بارے میں کچھ نازیبا الفاظ بھی کہے، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے، ان کے بال وسمہ سے رنگین تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12423

۔ (۱۲۴۲۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَایَرَی النَّائِمُ بِنِصْفِ النَّہَارِ وَہُوَ قَائِمٌ أَشْعَثُ أَغْبَرُ، بِیَدِہِ قَارُورَۃٌ فِیہَا دَمٌ، فَقُلْتُ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّییَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا ہٰذَا؟ قَالَ: ((ہٰذَا دَمُ الْحُسَیْنِ وَأَصْحَابِہِ۔)) لَمْ أَزَلْ أَلْتَقِطُہُ مُنْذُ الْیَوْمِ، فَأَحْصَیْنَا ذٰلِکَ الْیَوْمَ، فَوَجَدُوہُ قُتِلَ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ۔ (مسند احمد: ۲۵۵۳)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دوپہر کے وقت خواب میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک شیشی ہے جس میں خون تھا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، جسے میں آج جمع کر رہا ہوں۔ ہم نے اس دن کا حساب لگایا تو وہ وہی دن تھا، جس دن سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12424

۔ (۱۲۴۲۴)۔ عن شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ جَائَ نَعْیُ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ، لَعَنَتْ أَہْلَ الْعِرَاقِ، فَقَالَتْ: قَتَلُوہُ قَتَلَہُمُ اللّٰہُ، غَرُّوہُ وَذَلُّوہُ، قَتَلَہُمُ اللّٰہُ، فَإِنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَائَ تْہُ فَاطِمَۃُ غَدِیَّۃً بِبُرْمَۃٍ، قَدْ صَنَعَتْ لَہُ فِیہَا عَصِیدَۃً، تَحْمِلُہُ فِی طَبَقٍ لَہَا حَتّٰی وَضَعَتْہَا بَیْنَیَدَیْہِ، فَقَالَ لَہَا: أَیْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ قَالَتْ: ہُوَ فِی الْبَیْتِ، قَالَ: ((فَاذْہَبِی فَادْعِیہِ وَائْتِنِی بِابْنَیْہِ۔)) قَالَتْ: فَجَائَتْ تَقُودُ ابْنَیْہَا کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا بِیَدٍ، وَعَلِیٌّیَمْشِی فِی إِثْرِہِمَا حَتّٰی دَخَلُوا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَجْلَسَہُمَا فِی حِجْرِہِ، وَجَلَسَ عَلِیٌّ عَنْ یَمِینِہِ، وَجَلَسَتْ فَاطِمَۃُ عَنْ یَسَارِہِ، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: فَاجْتَبَذَ مِنْ تَحْتِی کِسَائً خَیْبَرِیًّا، کَانَ بِسَاطًا لَنَا عَلَی الْمَنَامَۃِ فِی الْمَدِینَۃِ، فَلَفَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ جَمِیعًا، فَأَخَذَ بِشِمَالِہِ طَرَفَیِ الْکِسَائِ وَأَلْوٰی بِیَدِہِ الْیُمْنٰی إِلٰی رَبِّہِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَہْلِی أَذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا، اللَّہُمَّ أَہْلُ بَیْتِی أَذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا، اللَّہُمَّ أَہْلُ بَیْتِی أَذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَسْتُ مِنْ أَہْلِکَ؟ قَالَ: ((بَلٰی، فَادْخُلِی فِی الْکِسَائِ۔)) قَالَتْ: فَدَخَلْتُ فِی الْکِسَائِ بَعْدَمَا قَضٰی دُعَائَہُ لِابْنِ عَمِّہِ عَلِیٍّ وَابْنَیْہِ وَابْنَتِہِ فَاطِمَۃَ ۔ (مسند احمد: ۲۷۰۸۵)
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ جب سیدنا حسین بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کی خبر آئی تو میں نے سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو سنا کہ انہوں نے اہل عراق پر لعنت کی اور کہا: انہوں نے سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کیا ہے، اللہ ان لوگوں کو قتل کرے، اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرے، انہوں نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور بے وفائی کی، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا صبح سویرے ایک دیگچی لے کر آئیں، جس میںانہوں نے کھانا تیار کیا تھا اور اسے ایک تھا ل میں رکھا ہوا تھا،انہوں نے اسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے رکھ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہاراچچازاد کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: وہ گھر پر ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کو اور دونوں بچوں کو بھی بلاؤ، وہ جا کر اپنے دونوں بچوں کو لے آئیں، دونوںکو ایک ایک ہاتھ میں پکڑ کر لا رہی تھیں اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پیچھے پیچھے تھے وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بچوں کو اپنی گود میں بٹھالیا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کی دائیں جانب اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بائیں جانب بیٹھ گئیں، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے نیچے سے خیبری چادر کھینچ لی، وہ مدینہ میں ہمارے بچھونے کی چادر تھی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ چادر ان سب کے اوپر ڈال دی اور اپنے بائیں ہاتھ سے چادر کی دونوں اطراف کو پکڑ کر دایاں ہاتھ اللہ کی طرف اٹھا کر فرمایا: یا اللہ یہ لوگ میرے اہل خانہ ہیں، ان سے پلیدی کو دور کر اور انہیں خوب پاک کردے۔ یہ دعا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین مرتبہ کی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ کے اہل میں سے نہیں ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، تم بھی چادر کے اندر آجاؤ۔ جب میں چادر کے اندر داخل ہوئی تو اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے چچا زاد سیدنا علی، اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور ان کے بیٹوں کے حق میں دعا کر کے فارغ ہوچکے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12425

۔ (۱۲۴۲۵)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِییَعْقُوبَ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِی نُعَیْمٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَسَأَلَہُ رَجُلٌ عَنْ شَیْئٍ، قَالَ شُعْبَۃُ: وَأَحْسِبُہُ سَأَلَہُ عَنِ الْمُحْرِمِ یَقْتُلُ الذُّبَابَ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: أَہْلُ الْعِرَاقِ یَسْأَلُونَ عَنِ الذُّبَابِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ بِنْتِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہُمَا رَیْحَانَتَیَّ مِنَ الدُّنْیَا۔)) (مسند احمد: ۵۵۶۸)
شعبہ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ کسی (عراقی آدمی) نے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ سوال کیا کہ اگر کوئی آدمی احرام کی حالت میں مکھی مارڈالے تو اس کا کیا کفارہ ہے؟ انھوں نے کہا: اہل عراق مکھی مارنے کے متعلق دریافت کرتے ہیں، حالانکہ ان لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نواسے کو قتل کر ڈالا ہے، جس کے متعلق رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ دونوں یعنی حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12426

۔ (۱۲۴۲۶)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ، حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا دَاوٗدُبْنُعُمَرَ،ثَنَانَافِعُبْنُعُمَرَبْنِجَمِیْلٍ الْجُمَحِیِّ، قَالَ: رَاَیْتُ عَطَائَ بْنَ اَبِیْ مُلَیْکَۃَ وَ عِکْرَمَۃَ بْنَ خَالِدٍ یَرْمُوْنَ الْجَمْرَۃَ قَبْلَ الْفَجْرِ یَوْمَ النَّحْرِ، فَقَالَ لَہُ اَبِیْ: یَا اَبَا سُلَیْمَانَ! أَیَّ سَنَۃٍ سَمِعْتَ مِنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ؟ قَالَ: سَنَۃَ تِسْعٍ وَسِتِّینَ وَمِائَۃٍ سَنَۃَ وَقْعَۃِ الْحُسَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۰۵۴۷)
نافع بن عمر جمحی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے عطاء بن ابی ملیکہ اور عکرمہ بن خالد کو دیکھا، انھوں نے نحر والے دن یعنی دس ذوالحجہ کو قبل از فجر رمی یعنی جمرے کو کنکریاں ماریں،میرے والد نے ان سے کہا: اے ابو سلیمان! آپ نے نافع بن عمر سے یہ حدیث کس سال سنی؟ انھوں نے کہا: حسین کی شہادت والے سال ۱۶۹ ہجری میں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12427

۔ (۱۲۴۲۷)۔ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ اَبِیْ رَاشِدٍ، عَنْ یَعْلَی الْعَامِرِیِّ اَنَّہٗخَرَجَمَعَرَسُوْلِاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلٰی طَعَامٍ دُعُوا لَہُ، قَالَ: فَاسْتَمْثَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ عَفَّانُ: قَالَ وُہَیْبٌ: فَاسْتَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَامَ الْقَوْمِ، وَحُسَیْنٌ مَعَ غِلْمَانٍ یَلْعَبُ، فَأَرَادَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَأْخُذَہُ، قَالَ: فَطَفِقَ الصَّبِیُّ ہَاہُنَا مَرَّۃً وَہَاہُنَا مَرَّۃً، فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُضَاحِکُہُ حَتّٰی أَخَذَہُ، قَالَ: فَوَضَعَ إِحْدٰییَدَیْہِ تَحْتَ قَفَاہُ وَالْأُخْرٰی تَحْتَ ذَقْنِہِ فَوَضَعَ فَاہُ عَلٰی فِیہِ فَقَبَّلَہُ، وَقَالَ: ((حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ أَحَبَّ اللّٰہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا، حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۰۴)
سیدنا یعلی عامری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکلے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھانے کے لیے بلایا گیا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے آگے آگے چل رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو پکڑنے کا ارادہ کیا تو وہ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر بھاگ جاتے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ان کو ہنساتے رہے، بالآخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو پکڑ لیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ایک ہاتھ ان کی گدی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ ان کی تھوڑی کے نیچے رکھ دیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا منہ ان کے منہ پر رکھ کر اسے بوسہ دیا اور فرمایا: حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں، جو حسین سے محبت رکھے، اللہ اس سے محبت رکھے، حسین (خیر و بھلائی والی) امتوں میں سے ایک امت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12428

۔ (۱۲۴۲۸)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ مَوْلَی الْمَہْرِیِّ، أَنَّہُ جَائَ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ لَیَالِیَ الْحَرَّۃِ، فَاسْتَشَارَہُ فِی الْجَلَائِ مِنَ الْمَدِینَۃِ، وَ شَکَا إِلَیْہِ أَسْعَارَہَا وَکَثْرَۃَ عِیَالِہِ، وَأَخْبَرَہُ أَنَّہُ لَا صَبْرَ لَہُ عَلٰی جَہْدِ الْمَدِینَۃِ، فَقَالَ: وَیْحَکَ! لَا آمُرُکَ بِذٰلِکَ، إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((لَا یَصْبِرُ أَحَدٌ عَلٰی جَہْدِ الْمَدِینَۃِ وَلَأْوَائِہَا فَیَمُوتُ إِلَّا کُنْتُ لَہُ شَفِیعًا أَوْ شَہِیدًایَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِذَا کَانَ مُسْلِمًا۔)) (مسند احمد: ۱۱۵۷۵)
مولائے مہری ابو سعید سے روایت ہے کہ وہ واقعہ حرہ کے دوران سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے اور مدینہ منورہ سے باہر کسی دوسری جگہ جانے کی بابت ان سے مشورہ طلب کیا اور بطور شکوہ کہا کہ اس کے اہل و عیال بہت ہیں اور یہاں کافی مہنگائی ہے، اس لیے وہ یہاں کی مشقت کو برداشت نہیں کرسکتا، انہوں نے فرمایا: تجھ پر افسوس ہے،میں تمہیں اس بات کا مشورہ نہیں دے سکتا، کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے: جو مسلمان مدینہ منورہ میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب کو برداشت کرے اور اسی حال میں وفات پا جائے تو میں قیامت کے روز اس کے حق میں سفارشی ہوں گا، یا یوں فرمایا کہ اس کے حق میں گواہ ہوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12429

۔ (۱۲۴۲۹)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّ أَمِیرًا مِنْ أُمَرَائِ الْفِتْنَۃِ قَدِمَ الْمَدِینَۃَ، وَکَانَ قَدْ ذَہَبَ بَصَرُ جَابِرٍ، فَقِیلَ لِجَابِرٍ: لَوْ تَنَحَّیْتَ عَنْہُ، فَخَرَجَ یَمْشِی بَیْنَ ابْنَیْہِ فَنُکِّبَ، فَقَالَ: تَعِسَ مَنْ أَخَافَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ ابْنَاہُ أَوْ أَحَدُہُمَا: یَا أَبَتِ وَکَیْفَ أَخَافَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ مَاتَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((مَنْ أَخَافَ أَہْلَ الْمَدِینَۃِ فَقَدْ أَخَافَ مَا بَیْنَ جَنْبَیَّ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۷۸)
زید بن اسلم سے مروی ہے کہ فتنے والے امراء میں ایک امیر مدینہ منورہ آیا، ان دنوں سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بینائی سے محروم ہو چکے تھے، کسی نے ان سے کہا: اگر آپ اس سے دور ہو جائیں (تو بہتر ہے)، پس وہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان چلتے ہوئے ایک طرف نکل گئے اور کہا: وہ آدمی تباہ و برباد ہو، جس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ڈرایا اور خوف زدہ کیا، ان کے دونوں بیٹوں نے یا ان میںسے کسی ایک نے کہا: اباجان! اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا تو انتقال ہو چکا ہے، اس نے آپ کو کیسے خوف زدہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا: میں نے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اہل مدینہ کو خوف زدہ کیا، اس نے میرے دل کو خوف زدہ کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12430

۔ (۱۲۴۳۰)۔ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَشْرَفَ عَلَی أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِینَۃِ، فَقَالَ: ((ہَلْ تَرَوْنَ مَا أَرٰی إِنِّی لَأَرٰی مَوَاقِعَ الْفِتَنِ۔)) (مسند احمد: ۲۲۰۹۱)
سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے کی طرف نظر ڈالی اور فرمایا: جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں، کیا تمہیں بھی دکھائی دے رہا ہے؟ میں فتنوں اور مصیبتوں کے مقامات دیکھ رہا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12431

۔ (۱۲۴۳۱)۔ عَنْ مَیْمُونَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ: ((کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا مَرِجَ الدِّینُ، وَظَہَرَتِ الرَّغْبَۃُ، وَاخْتَلَفَتِ الْإِخْوَانُ، وَحُرِّقَ الْبَیْتُ الْعَتِیقُ۔)) (مسند احمد: ۲۷۳۶۶)
سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، جب دین میں فساد پیدا ہو جائے گا، خیر کی بجائی شرّ کی رغبت پیدا ہو جائے گی، بھائیوں میں اختلاف پڑ جائے گا اور بیت اللہ کو جلا دیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12432

۔ (۱۲۴۳۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیُّ، قَالَ: بَعَثَنَا یَزِیدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ إِلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ دَخَلْتُ عَلٰی فُلَانٍ نَسِیَ زِیَادٌ اسْمَہُ، فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَنَعُوا مَا صَنَعُوا فَمَا تَرٰی؟ فَقَالَ: أَوْصَانِی خَلِیلِی أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ((إِنْ أَدْرَکْتَ شَیْئًا مِنْ ہٰذِہِ الْفِتَنِ فَاعْمَدْ إِلٰی أُحُدٍ،فَاکْسِرْ بِہِ حَدَّ سَیْفِکَ، ثُمَّ اقْعُدْ فِی بَیْتِکَ، قَالَ: فَإِنْ دَخَلَ عَلَیْکَ أَحَدٌ إِلَی الْبَیْتِ فَقُمْ إِلَی الْمَخْدَعِ، فَإِنْ دَخَلَ عَلَیْکَ الْمَخْدَعَ فَاجْثُ عَلٰی رُکْبَتَیْکَ، وَقُلْ بُؤْ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ فَتَکُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ، وَذٰلِکَ جَزَائُ الظَّالِمِینَ، فَقَدْ کَسَرْتُ حَدَّ سَیْفِیْ وَقَعَدْتُ فِیْ بَیْتِیْ))۔ (مسند احمد: ۱۸۱۴۵)
ابو ا شعت صنعانی سے مروی ہے ، انھوں نے کہا: یزید بن معاویہ نے ہمیں سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مقابلہ کے لیے بھیجا، میں مدینہ منورہ پہنچا تو فلاں کے پاس حاضرہوا، زیاد نے اس کا نام بیان کیا تھا، اس نے کہا: لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، آپ سب دیکھ رہے ہیں؟ ان حالات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا: میرے خلیل ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے وصیت کی تھی کہ اگر تم ان فتنوں میں سے کسی فتنہ کو دیکھو تو اپنی تلوار کی دھار توڑ کر گھر کے اندر بیٹھ رہنا، اگر کوئی فتنہ باز شخص تمہارے گھر کے اندر گھس آئے تو تم کسی کوٹھڑی کے اندر چھپ جانا اور اگر کوئی تمہاری کو ٹھڑی میں آجائے تو تم اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جانا اور کہنا کہ تو میرے قتل کے گناہ اور اپنے گناہوں کے ساتھ واپس جا، تیرا نجام جہنم ہے اور ظالموں کا یہی بدلہ ہے، لہٰذا اے بھائی! میں تو اپنی تلوار کی دھار توڑ کر گھر کے اندر بیٹھا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12433

۔ (۱۲۴۳۳)۔ عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ، قَالَ: لَمَّا بَعَثَ عَمْرُو بْنُ سَعِیدٍ إِلٰی مَکَّۃَ بَعْثَہُ یَغْزُو ابْنَ الزُّبَیْرِ أَتَاہُ أَبُو شُرَیْحٍ، فَکَلَّمَہُ وَأَخْبَرَہُ بِمَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلٰی نَادِی قَوْمِہِ فَجَلَسَ فِیہِ، فَقُمْتُ إِلَیْہِ فَجَلَسْتُ مَعَہُ فَحَدَّثَ قَوْمَہُ، کَمَا حَدَّثَ عَمْرَو بْنَ سَعِیدٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَمَّا قَالَ لَہُ عَمْرُو بْنُ سَعِیدٍ، قَالَ: قُلْتُ: ہٰذَا إِنَّا کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ افْتَتَحَ مَکَّۃَ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ عَدَتْ خُزَاعَۃُ عَلٰی رَجُلٍ مِنْ ہُذَیْلٍ فَقَتَلُوہُ وَہُوَ مُشْرِکٌ، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِینَا خَطِیبًا، فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ مَکَّۃَیَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَہِیَ حَرَامٌ مِنْ حَرَامِ اللّٰہِ تَعَالٰی إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ، لَا یَحِلُّ لِامْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَسْفِکَ فِیہَا دَمًا، وَلَا یَعْضِدَ بِہَا شَجَرًا، لَمْ تَحْلِلْ لِأَحَدٍ کَانَ قَبْلِی، وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ یَکُونُ بَعْدِی، وَلَمْ تَحْلِلْ لِی إِلَّا ہٰذِہِ السَّاعَۃَ غَضَبًا عَلٰی أَہْلِہَا، أَ لَا ثُمَّ قَدْ رَجَعَتْ کَحُرْمَتِہَا بِالْأَمْسِ، أَ لَا! فَلْیُبَلِّغْ الشَّاہِدُ مِنْکُمْ الْغَائِبَ، فَمَنْ قَالَ لَکُمْ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قَاتَلَ بِہَا فَقُولُوْا: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَحَلَّہَا لِرَسُولِہِ وَلَمْ یُحْلِلْہَا لَکُمْ، یَا مَعْشَرَ خُزَاعَۃَ وَارْفَعُوا أَیْدِیَکُمْ عَنِ الْقَتْلِ، فَقَدْ کَثُرَ أَنْ یَقَعَ لَئِنْ قَتَلْتُمْ قَتِیلًا لَأَدِیَنَّہُ، فَمَنْ قُتِلَ بَعْدَ مَقَامِی ہٰذَا، فَأَہْلُہُ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ إِنْ شَائُ وْا فَدَمُ قَاتِلِہِ، وَإِنْ شَائُ وْا فَعَقْلُہُ۔)) ثُمَّ وَدٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَ الَّذِی قَتَلَتْہُ خُزَاعَۃُ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَعِیدٍ لِأَبِی شُرَیْحٍ: انْصَرِفْ أَیُّہَا الشَّیْخُ! فَنَحْنُ أَعْلَمُ بِحُرْمَتِہَا مِنْکَ، إِنَّہَا لَا تَمْنَعُ سَافِکَ دَمٍ، وَلَا خَالِعَ طَاعَۃٍ، وَلَا مَانِعَ جِزْیَۃٍ، قَالَ: فَقُلْتُ: قَدْ کُنْتُ شَاہِدًا وَکُنْتَ غَائِبًا، وَقَدْ بَلَّغْتُ، وَقَدْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُبَلِّغَ شَاہِدُنَا غَائِبَنَا، وَقَدْ بَلَّغْتُکَ فَأَنْتَ وَشَأْنُکَ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۹۰)
ابوشریح خزاعی سے مروی ہے کہ جب عمرو بن سعید نے سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مقابلہ کے لیے مکہ کی طرف لشکربھیجا تو ابو شریح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے پاس آکر اس سے گفتگو کی اور انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جو سنا تھا اسے وہ بتلایا، اس کے بعد وہ اپنی قوم میں آکر بیٹھ گئے، تو میں بھی اٹھ کر ان کے پاس جا بیٹھا، تو انہو ںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی جو بات عمرو بن سعید کو سنائی اور اس کے جواب میں عمرو بن سعید نے جو کچھ کہا، انہوں نے وہ ساری بات قوم کو سنائی،انہوں نے بتلایا کہ میں نے اس سے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو دوسرے ہی دن بنو خزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک آدمی پر حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا، مقتول مشرک تھا، ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ دور جاہلیت میں اس نے ان کے کسی آدمی کو مارا تھا، تو انہوں نے اس کا انتقام کے لیا، کیونکہ وہ مدت سے اسی تاک میں تھے تو اس واقعہ کے بعد اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ نے جب سے آسمان اور زمین بنائے ہیں اس نے اسی دن سے مکہ کو حرمت والا قرا ردیا ہے، لہٰذ ا یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق قیامت تک حرم ہی رہے گا، جس آدمی کا اللہ پر اور آخرت پر ایمان ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس شہر میں کسی کا ناحق خون بہائے، وہ ان اس کے کسی درخت کو کاٹے مجھ سے پہلے اور میرے بعد اس میں لڑائی کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں اور اہل مکہ پر غضب کی وجہ سے مجھے بھی صرف اس تھوڑے سے وقت کے لیے اجازت دی گئی تھی، خبردار! اب دوبارہ اس کی حرمت اسی طرح ہے جیسے کل تھی، خبردار! تم میں سے جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، اگر کوئی تم سے کہے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو مکہ میں لڑائی لڑی ہے، توتم اس سے کہنا:کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لیے تو مکہ میں لڑائی کی اجازت دی تھی، اس نے تمہیں اس کی اجازت نہیں دی ہے، اے خزاعہ کے خاندان! تم قتل سے اپنے ہاتھوں کو روک لو، یہ کام بہت ہو چکا، تم ایک آدمی کو قتل کر چکے ہو، اس کی دیت یعنی خون بہا میں ادا کروں گا، اس وقت کے بعد جو آدمی مارا گیا تو اس کے ورثاء کو دو بہترین میں سے کسی ایک کا اختیار ہو گا، وہ چاہیں گے تو قاتل کو قتل کر یں گے اور اگر چاہیں گے تو خون بہا وصول کریں گے۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی کا خون بہا ادا کر دیا، جو بنو خزاعہ نے مارا تھا،یہ ساری حدیث سن کر عمرو بن سعید نے ابو شریح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا ارے بوڑھے! جا جا مکہ کی حرمت کو ہم تم سے بہتر جانتے ہیں، یہ حرمت ناحق خون بہانے والے اطاعت سے منہ موڑنے والے اور کسی مجرم کے لیے نہیں ہے، ابو شریح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بتلایا کہ عمرو کی یہ بات سن کر میں نے ان سے کہا: کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی، میں وہاں موجود تھا، تم نہیں تھے اور میں یہ حدیث تم تک پہنچا چکا کیونکہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم فرمایا تھا کہ ہم سے جو بھی وہاں موجود ہے وہ یہ بات ان لوگوں تک پہنچادے جو وہاں ا س وقت موجود نہ تھے، میں یہ بات تم تک پہنچاچکا ہوں، اب تم جانو اور تمہارا کام۔ عبداللہ بن امام احمد کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث اپنے والد کی کتاب میں ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی پائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12434

۔ (۱۲۴۳۴)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْعَدَوِیِّ، أَنَّہُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ وَہُوَ یَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلٰی مَکَّۃَ: ائْذَنْ لِی أَیُّہَا الْأَمِیرُ! أُحَدِّثْکَ قَوْلًا قَامَ بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ، سَمِعَتْہُ أُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِی وَأَبْصَرَتْہُ عَیْنَایَ حَیْثُ تَکَلَّمَ بِہِ، أَنَّہُ حَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَہَا اللّٰہُ۔)) فَذَکَرَ نَحْوَہ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۸۷)
۔ (دوسری سند) سعید مقبری سے روایت ہے کہ جب عمرو بن سعید مکہ کی طرف لشکر روانہ کر رہا تھا تو ابو شریح العدوی نے اس سے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئے کہ میں تمہیں وہ باتیں بیان کروں جو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح مکہ سے اگلے دن اپنے خطبہ میں ارشاد فرمائی تھیں، جن کو میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا، جب آپ نے یہ باتیں ارشاد فرمائیں تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرمت والا قرار دیا ہے، …۔ پھر سابقہ روایت کی طرح کی روایت ذکر کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12435

۔ (۱۲۴۳۵)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، أَخْبَرَنِی مَنْ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَیَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((لَیَرْعَفَنَّ عَلٰی مِنْبَرِی جَبَّارٌ مِنْ جَبَابِرَۃِ بَنِی أُمَیَّۃَیَسِیلُ رُعَافُہُ۔)) قَالَ: فَحَدَّثَنِی مَنْ رَأٰی عَمْرَو بْنَ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ رَعَفَ عَلٰی مِنْبَرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی سَالَ رُعَافُہُ۔ (مسند احمد: ۱۰۷۷۴) (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: حَدَّثَنِیْ مَنْ سَمِعَ اَبَا ھُرَیْرَۃَیَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَیَرْتَقِیَنَّ جَبَّارٌ مِنْ جَبَابِرَۃِ بَنِیْ اُمَیَّۃَ عَلٰی مِنْبَرِیْ ہٰذَا۔)) (مسند احمد: ۸۹۸۸)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس منبر پر فرماتے سنا ہے بنوامیہ کے ظالم حکمرانوں میں سے ایک ظالم کی نکسیر میرے منبر پر پھوٹے گی۔ علی بن زید کہتے ہیں: ایک آدمی، جس نے عمرو بن سعید کو دیکھا تھا، نے بتلایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منبر پر عمرو بن سعید کی نکسیر پھوٹ پڑی تھی۔ علی بن زید سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں:ایک آدمی نے مجھے بیان کیا کہ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنوامیہ کا ایک ظالم حکمران میرے اس منبرپر چڑھے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12436

۔ (۱۲۴۳۶)۔ عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ الْبَرَّائِ قَالَ: أَخَّرَ ابْنُ زِیَادٍ الصَّلَاۃَ، فَأَتَانِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الصَّامِتِ، فَأَلْقَیْتُ لَہُ کُرْسِیًّا، فَجَلَسَ عَلَیْہِ، فَذَکَرْتُ لَہُ صَنِیعَ ابْنِ زِیَادٍ، فَعَضَّ عَلٰی شَفَتِہِ وَضَرَبَ فَخِذِی، وَقَالَ: إِنِّی سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ کَمَا سَأَلْتَنِی فَضَرَبَ فَخِذِی کَمَا ضَرَبْتُ عَلٰی فَخِذِکَ، وَقَالَ: إِنِّی سَأَلْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا سَأَلْتَنِی فَضَرَبَ فَخِذِی کَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَکَ، فَقَالَ: ((صَلِّ الصَّلَاۃَ لِوَقْتِہَا، فَإِنْ أَدْرَکَتْکَ مَعَہُمْ فَصَلِّ وَلَا تَقُلْ اِنِّیْ قَدْ صَلَّیْتُ، وَلَا اُصَلِّیْ۔)) (مسند احمد: ۲۱۷۵۳)
ابو عالیہ براء سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:عبداللہ بن زیاد نے نماز کو مؤخر کر دیا، عبداللہ بن صامت میرے پاس آئے، میں نے ان کے لیے کرسی بچھا دی، وہ اس پر تشریف فرما ہوئے تو میں نے ابن زیاد کے اس کام کا ان کے سامنے تذکرہ کردیا، تو وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگے اور میری ران پر ہاتھ مار کر کہا: جیسے تم نے مجھ سے یہ بات پوچھی ہے، اسی طرح میں نے بھی سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا تھا: انہوں نے بھی میری ران پر اسی طرح ہاتھ مارا تھا، جیسے میں نے تمہاری ران پر ہاتھ مارا ہے، انہوںنے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے وہی سوال کیا تھا جو تم نے مجھ سے کیا ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری ران پر اسی طرح ہاتھ مارا، جیسے میں نے تیری ران پر مارا ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم وقت پر نماز ادا کر لینا، اس کے بعد اگر ان کے ساتھ بھی نماز پڑھنے کا موقع مل جائے تو نماز پڑھ لینا اور یہ نہ کہنا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، اس لیے نہیں پڑھتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12437

۔ (۱۲۴۳۷)۔ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ، کَتَبَ إِلٰی قَیْسِ بْنِ الْہَیْثَمِ حِینَ مَاتَ یَزِیدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ: سَلَامٌ عَلَیْکَ أَمَّا بَعْدُ! فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، فِتَنًا کَقِطَعِ الدُّخَانِ، یَمُوتُ فِیہَا قَلْبُ الرَّجُلِ، کَمَا یَمُوتُ بَدَنُہُ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا، وَیُمْسِی مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیعُ أَقْوَامٌ خَلَاقَہُمْ وَدِینَہُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا۔)) وَإِنَّ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ قَدْ مَاتَ، وَأَنْتُمْ إِخْوَانُنَا وَأَشِقَّاؤُنَا، فَلَا تَسْبِقُونَا حَتّٰی نَخْتَارَ لِأَنْفُسِنَا۔ (مسند احمد: ۲۴۲۹۰)
جب یزید بن معاویہ کی وفات ہوئی توضحاک بن قیس نے قیس بن ہیثم کو خط لکھا، اس کا مضمون یہ تھا، تم پرسلامتی ہو، أَمَّا بَعْدُ! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت سے پہلے اندھیری رات کے ٹکڑوں جیسے شدید اور خوفناک فتنے بپا ہوں گے اور کچھ فتنے دھوئیں کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے، تب لوگوں کے دل یوں مردہ ہوجائیںگے، جیسے بدن مردہ ہو جاتے ہیں،ایک آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور کفر کی حالت میں شام کرے گا اور ایک آدمی شام کو مومن اور صبح کو کافر ہوگا اور لوگ اپنے دین و اخلاق کو دنیا کے بدلے فروخت کرنے لگیں گے۔ یزید بن معاویہ فوت ہو چکا ہے اور تم ہمارے بھائی ہو، تم کسی معاملہ میں ہم سے سبقت نہ کرنا تاآنکہ ہم خود کسی بات کو اپنے لیے اختیار نہ کر لیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12438

۔ (۱۲۴۳۸)۔ عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَتٰی أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ، فَقَالَ: یَا أَبَا سَعِیدٍ! أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّکَ بَایَعْتَ أَمِیرَیْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَجْتَمِعَ النَّاسُ عَلٰی أَمِیرٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، بَایَعْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ فَجَائَ اَھْلُ الشَّامِ فَسَاقُوْنِیْ إِلَی جَیْشِ بْنِ دَلَحَۃَ فَبَایَعْتُہُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِیَّاہَا کُنْتُ أَخَافُ إِیَّاہَا کُنْتُ أَخَافُ وَمَدَّ بِہَا حَمَّادٌ صَوْتَہُ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! أَوَلَمْ تَسْمَعْ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا یَنَامَ نَوْمًا، وَلَا یُصْبِحَ صَبَاحًا، وَلَا یُمْسِیَ مَسَائً إِلَّا وَعَلَیْہِ أَمِیرٌ۔))؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلٰکِنِّی أَکْرَہُ أَنْ أُبَایِعَ أَمِیرَیْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَجْتَمِعَ النَّاسُ عَلٰی أَمِیرٍ وَاحِدٍ۔ (مسند احمد: ۱۱۲۶۷)
بشر بن حرب سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے اور ان سے کہا: مجھے اطلاع پہنچی ہے کہ کہ لوگوں کے ایک امیر کی امارت پر متفق ہونے سے پہلے ہی آپ نے دو امیروں کی بیعت کر لی ہے؟ انہوںنے کہا: جی ہاں، میں سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر چکا تھا کہ شامی آگئے اوروہ مجھے ابن دلحہ کے لشکر کی طرف لے گئے، میں نے اس کی بیعت بھی کرلی، سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے اس بات کا اندیشہ تھا، میں اسی سے ڈرتا تھا، ان الفاظ کو ادا کرتے ہوئے حماد بن سلمہ نے اپنی آواز کو لمبا کر کے کھینچا،ابو سعید نے کہا: اے ابو عبدالرحمن! کیا آپ نے نہیں سنا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے اگر کوئی آدمی اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ کسی امیر کی امارت کے نہ ہوتے ہوئے نہ صبح کرے اور نہ شام کرے تو اسے ضرورکسی کی امارت میں چلے جانا چاہیے۔ ؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کے کسی ایک امیر کی امارت پر متفق ہونے سے پہلے میں دوامیروں کی بیعت کروں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12439

۔ (۱۲۴۳۹)۔ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ، قَالَ: قُلْتُ لِجُنْدُبٍ: إِنِّی قَدْ بَایَعْتُ ہٰؤُلَائِ یَعْنِی ابْنَ الزُّبَیْرِ، وَإِنَّہُمْ یُرِیدُونَ أَنْ أَخْرُجَ مَعَہُمْ إِلَی الشَّامِ، فَقَالَ: أَمْسِکْ، فَقُلْتُ: إِنَّہُمْ یَأْبَوْنَ، فَقَالَ: افْتَدِ بِمَالِکَ، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّہُمْ یَأْبَوْنَ إِلَّا أَنْ أَضْرِبَ مَعَہُمْ بِالسَّیْفِ، فَقَالَ جُنْدُبٌ: حَدَّثَنِی فُلَانٌ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((یَجِیئُ الْمَقْتُولُ بِقَاتِلِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَیَقُولُ: یَا رَبِّ سَلْ ہٰذَا فِیمَ قَتَلَنِی۔)) قَالَ شُعْبَۃُ: فَأَحْسِبُہُ قَالَ: فَیَقُولُ: عَلَامَ قَتَلْتَہُ؟ فَیَقُولُ: قَتَلْتُہُ عَلٰی مُلْکِ فُلَانٍ۔)) قَالَ: فَقَالَ جُنْدُبٌ: فَاتَّقِہَا۔ (مسند احمد: ۲۳۵۷۶)
ابو عمران سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے جندب سے کہا: میں ان لوگوں یعنی سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت کر چکا ہوں،اب یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں ان کے ہمراہ شام کی طرف جاؤں، انہوں نے کہا: مت جانا، میں نے کہا: وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر مصر ہیں، انہوںنے کہا: تم مال دے کر جان چھڑا لو، میں نے کہا: ان کا ایک ہی اصرا ر ہے کہ میں ان کے ساتھ مل کر قتال میں حصہ لوں، جندب نے کہا: مجھے فلاں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کاارشاد ہے: قیامت کے دن ایک مقتول اپنے قاتل کو ساتھ لے کر آئے گا اور کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھ کیوں قتل کیا تھا؟شعبہ کے الفا ظ ہیں: وہ کہے گا کہ اس نے مجھے کس وجہ سے قتل کیا تھا؟ وہ کہے گا: میں نے فلاں کی حکومت بچانے کے لیے اسے قتل کیا تھا۔ تو جندب نے کہا: پس تم بچ ہی جاؤ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12440

۔ (۱۲۴۴۰)۔ عَنْ أَسْمَائَ أَنَّہَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ بِمَکَّۃَ، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَیْتُ الْمَدِینَۃَ، فَنَزَلْتُ بِقُبَائَ فَوَلَدْتُہُ بِقُبَائَ، ثُمَّ أَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعْتُہُ فِی حِجْرِہِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَۃٍ فَمَضَغَہَا ثُمَّ تَفَلَ فِی فِیہِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَا دَخَلَ فِی جَوْفِہِ رِیقُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: ثُمَّ حَنَّکَہُ بِتَمْرَۃٍ ثُمَّ دَعَا لَہُ، وَبَرَّکَ عَلَیْہِ، وَکَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِی الْإِسْلَامِ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۷۷)
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ وہ مکہ میں عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے حاملہ ہوئیں، وہ کہتی ہیں: ایام پورے ہوچکے تھے کہ میں ہجرت کے سفر پر روانہ ہو گئی، قباء پہنچ کر ٹھہری اور میںنے وہاں اس بچے کو جنم دیا، میں اسے لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئی اور جا کر آپ کی گود میں رکھ دیا، آپ نے کھجور منگوائی اور اسے چبا کر اس کے منہ میں ڈال دی، اس کے پیٹ میں سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کالعاب داخل ہواتھا، اس طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کھجور کی گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی، یہ اسلام میں پیدا ہونے والا سب سے پہلا بچہ تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12441

۔ (۱۲۴۴۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: اَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِاِبْنِ الزُّبَیْرِ فَحَنَّکَہُ بِتَمْرَۃٍ وَقَالَ: ((ہٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ وَاَنْتِ اُمُّ عُبْدِ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۱۲۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں(اپنے بھانجے) ابن زبیر کو لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کھجور کی گھٹی دی اورفرمایا: یہ عبداللہ ہے اور تم ام عبداللہ ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12442

۔ (۱۲۴۴۲)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ: أَتَذْکُرُ یَوْمَ اسْتَقْبَلْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحَمَلَنِی وَتَرَکَکَ؟ وَکَانَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسْتَقْبَلُ بِالصِّبْیَانِ إِذَا جَائَ مِنْ سَفَرٍ۔ (مسند احمد: ۱۶۲۲۸)
عرو ہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبداللہ بن جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا تمہیں وہ دن یاد ہے، جس دن ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے آئے تھے اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اپنی سواری پر سوار کر لیا تھا اور تمہیں چھوڑ دیا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر سے واپس تشریف لاتے تو بچوں کے ساتھ آپ کا استقبال کیا جاتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12443

۔ (۱۲۴۴۳)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ قَالَ: انْتَہَیْتُ إِلٰی عَائِشَۃَ أَنَا وَعَمَّارٌ وَالْأَشْتَرُ، فَقَالَ عَمَّارٌ: السَّلَامُ عَلَیْکِیَا أُمَّتَاہُ، فَقَالَتْ: السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی، حَتّٰی أَعَادَہَا عَلَیْہَا مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَاللّٰہِ! إِنَّکِ لَأُمِّی وَإِنْ کَرِہْتِ، قَالَتْ: مَنْ ہٰذَا مَعَکَ؟ قَالَ: ہٰذَا الْأَشْتَرُ، قَالَتْ: أَنْتَ الَّذِی أَرَدْتَ أَنْ تَقْتُلَ ابْنَ أُخْتِی، قَالَ: نَعَمْ، قَدْ أَرَدْتُ ذٰلِکَ وَأَرَادَہُ، قَالَتْ: أَمَا لَوْ فَعَلْتَ مَا أَفْلَحْتَ، أَمَّا أَنْتَ یَا عَمَّارُ! فَقَدْ سَمِعْتَ أَوْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ إِلَّا مَنْ زَنٰی بَعْدَ مَا أُحْصِنَ، أَوْ کَفَرَ بَعْدَ مَا أَسْلَم، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا فَقُتِلَ بِہَا۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۰۸)
عمرو بن غالب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں، سیدنا عمار اور اشتر، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں گئے، سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: امی جان! آپ پر سلامتی ہو، سیدہ نے جواباًکہا: اَلسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی (سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے) عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سلام کے یہ کلمات دو یا تین مرتبہ دہرائے، پھرکہا! اللہ کی قسم! آپ میرے ما ں ہیں، خواہ آپ مجھ سے نفرت کریں، سیدہ نے کہا: یہ تمہارے ساتھ کون کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ اشتر ہے، سیدہ نے کہا: تم ہی ہو نا جس نے میرے بھانجے کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا؟ اس نے کہا: جی ہاں! واقعی میں نے اس بات کا ارادہ کیا تھا اور ان کا بھی یہی ارادہ تھا کہ وہ مجھے قتل کردیں، سیدہ نے کہا: اگر تم یہ کام کرلیتے تو کامیاب نہ ہوتے اور عمار! آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ کسی مسلمان کا خون تین صورتوں کے علاوہ کسی بھی صورت میں حلال نہیں، شادی شدہ زنا کرے یا وہ مرتد ہوجائے یاکسی کو قتل کرے اور اسے اس کے بدلے میں قتل کردیاجائے۔ (تو کیا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان میں سے کوئی جر م کیا تھاکہ ان کو قتل کر دیا گیا؟)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12444

۔ (۱۲۴۴۴)۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ لِلْأَشْتَرِ: أَنْتَ الَّذِی أَرَدْتَ قَتْلَ ابْنِ أُخْتِی؟ قَالَ: قَدْ حَرَصْتُ عَلٰی قَتْلِہِ وَحَرَصَ عَلٰی قَتْلِی، قَالَتْ: أَوَمَا عَلِمْتَ مَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَحِلُّ دَمُ رَجُلٍ إِلَّا رَجُلٌ ارْتَدَّ، أَوْ تَرَکَ الْإِسْلَامَ، أَوْ زَنٰی بَعْدَمَا أُحْصِنَ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ۔)) (مسند احمد: ۲۵۹۹۲)
۔ (دوسری سند) عرو ہ بن غالب سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اشتر سے کہا: تم ہی ہو جس نے میرے بھانجے کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا؟ اس نے کہا: جی ہاں، میں ان کو قتل کرنے کا حریص تھا اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے، انہوں نے کہا:کیا تم نہیںجانتے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاہے: کسی مسلمان کا خون بہانا کسی بھی صورت میں جائز نہیں الایہ کہ کوئی مرتد ہوجائے یا شادی شدہ ہو کر زنا کا ارتکاب کرے یا کسی مسلمان کو ناحق قتل کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12445

۔ (۱۲۴۴۵)۔ عَنِ الْأَسْوَدِ قَالَ: قَالَ لِی ابْنُ الزُّبَیْرِ: حَدِّثْنِی بَعْضَ مَا کَانَتْ تُسِرُّ إِلَیْکَ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ، فَرُبَّ شَیْئٍ کَانَتْ تُحَدِّثُکَ بِہِ تَکْتُمُہُ النَّاسَ، قَالَ: قُلْتُ: لَقَدْ حَدَّثَتْنِی حَدِیثًا حَفِظْتُ أَوَّلَہُ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْلَا أَنَّ قَوْمَکِ حَدِیثٌ عَہْدُہُمْ بِجَاہِلِیَّۃٍ، أَوْ قَالَ: بِکُفْرٍ، قَالَ: یَقُولُ ابْنُ الزُّبَیْرِ، لَنَقَضْتُ الْکَعْبَۃَ فَجَعَلْتُ لَہَا بَابَیْنِ فِی الْأَرْضِ بَابًا یُدْخَلُ مِنْہُ وَبَابًا یُخْرَجُ مِنْہُ۔)) قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: فَأَنَا رَأَیْتُہَا کَذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۲۵۲۱۶)
اسود سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے کہا: تم مجھے ایسی باتیں بیان کرو،جو سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تمہارے ساتھ خصوصی طور پر کیا کرتی تھیں اور جن کو وہ لوگوں سے چھپاتی تھیں،اسود نے کہا: انہوں نے مجھے ایک بات بیان کی تھی جس کا ابتدائی حصہ مجھے خوب یاد ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! اگر تمہاری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میںکعبہ کی عمارت کو گرا کر نئی تعمیر کرتا اور میں اس کے برابر کے دو دروازے بناتا، ایک اندر جانے کے لیے اور دوسرا باہر آنے کے لیے۔ ابو اسحاق کہتے ہیں: میں نے بیت اللہ کو اس انداز سے تعمیر شدہ دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12446

۔ (۱۲۴۴۶)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مِینَائَ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِیَقُولُ: حَدَّثَتْنِی خَالَتِی عَائِشَۃُ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لَہَا: ((لَوْلَا أَنَّ قَوْمَکِ حَدِیثُ عَہْدٍ بِشِرْکٍ أَوْ بِجَاہِلِیَّۃٍ، لَہَدَمْتُ الْکَعْبَۃَ فَأَلْزَقْتُہَا بِالْأَرْضِ، وَجَعَلْتُ لَہَا بَابَیْنِ بَابًا شَرْقِیًّا وَبَابًا غَرْبِیًّا، وَزِدْتُ فِیہَا مِنَ الْحِجْرِ سِتَّۃَ أَذْرُعٍ، فَإِنَّ قُرِیْشًا اقْتَصَرَتْہَا حِینَ بَنَتْ الْکَعْبَۃَ۔)) (مسند احمد: ۲۵۹۷۷)
سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میری خالہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیاکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا تھا: اگر تمہاری قوم نئی نئی شرک یاجاہلیت یعنی کفر کو چھوڑ کر نہ آئی ہوتی تو میں کعبہ کو منہدم کر کے زمین کے برابر کر دیتا اور اس کے دو دورازے اس طرح بناتا کہ ایک مشرق کی طرف ہوتا اور دوسرا مغرب کی طرف اور حجر یعنی حطیم میں سے چھ ہاتھ کے برابر جگہ بیت اللہ میں شامل کر دیتا، کیونکہ جب قریش نے اس کی تعمیر کی تھی تو وسائل کی کمی کے باعث وہ اسے کعبہ کی تعمیر میںشامل نہ کر سکے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12447

۔ (۱۲۴۴۷)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَوْ کَانَ عِنْدَنَا سَعَۃٌ لَہَدَمْتُ الْکَعْبَۃَ، وَلَبَنَیْتُہَا وَلَجَعَلْتُ لَہَا بَابَیْنِ بَابًا یَدْخُلُ النَّاسُ مِنْہُ وَبَابًایَخْرُجُونَ مِنْہُ۔)) قَالَتْ: فَلَمَّا وَلِیَ ابْنُ الزُّبَیْرِ ہَدَمَہَا فَجَعَلَ لَہَا بَابَیْنِ، قَالَتْ: فَکَانَتْ کَذٰلِکَ فَلَمَّا ظَہَرَ الْحَجَّاجُ عَلَیْہِ ہَدَمَہَا وَأَعَادَ بِنَائَ ہَا الْأَوَّلَ۔ (مسند احمد: ۲۵۵۶۲)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر ہمارے اندر طاقت ہوتی تو میں کعبہ کو منہدم کر کے اس کی جدید تعمیر کرتا اور اس دو دروازے بناتا، ایک دروازے سے لوگ اندر داخل ہوتے اور دوسرے سے نکل جاتے۔ پھر جب سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حکمران بنے تو انہوں نے رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خواہش کے مطابق اسے منہدم کر کے اس کے دو دروازے بنائے، لیکن ان کے بعد جب حجاج کا دور آیا تو اس نے اسے دوبارہ منہدم کر کے اس کی سابقہ بنیادوں پر تعمیر کردی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12448

۔ (۱۲۴۴۸)۔ عَنْ أَبِی قَزَعَۃَ أَنَّ عَبْدَ الْمَلِکِ بَیْنَمَا ہُوَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ إِذْ قَالَ: قَاتَلَ اللّٰہُ ابْنَ الزُّبَیْرِ حَیْثُیَکْذِبُ عَلٰی أُمِّ الْمُؤْمِنِینَیَقُولُ: سَمِعْتُہَا وَہِیَ تَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِکِ بِالْکُفْرِ لَنَقَبْتُ الْبَیْتَ۔)) قَالَ أَبِی: قَالَ الْأَنْصَارِیُّ: ((لَنَقَضْتُ الْبَیْتَ حَتّٰی أَزِیدَ فِیہِ مِنْ الْحِجْرِ، فَإِنَّ قَوْمَکِ قَصَّرُوا عَنِ الْبِنَائِ۔)) فَقَالَ الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ: لَا تَقُلْ ہٰذَا یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، فَأَنَا سَمِعْتُ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ تُحَدِّثُ ہٰذَا، فَقَالَ: لَوْ کُنْتُ سَمِعْتُ ہٰذَا قَبْلَ أَنْ أَہْدِمَہُ لَتَرَکْتُہُ عَلٰی بِنَائِ ابْنِ الزُّبَیْرِ۔ (مسند احمد: ۲۶۶۸۱)
ابو قزعہ سے مروی ہے کہ عبدالملک بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا، اس دوران اس نے کہا: اللہ تعالیٰ ابن زبیر کوہلاک کرے، وہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پر جھوٹ باندھتا اور کہتا تھا کہ سیدہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اگر تمہاری قوم نئی نئی کفر کو چھو ڑ کر مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں بیت اللہ کو گرا کر حطیم میں سے کچھ حصہ ا س میں شامل کردیتا، تمہاری قوم قریش نے جب اسے تعمیر کیا تھا تو پور اتعمیر نہیں کر سکے تھے۔ اس کی یہ بات سن کر حارث بن عبداللہ بن ابی ربیعہ نے کہا: امیر المومنین! یہ بات نہ کہیں، میں نے خودسیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، عبد الملک نے کہا: اگر کعبہ کو گرانے سے پہلے میں نے یہ بات سنی ہوتی تو میں بیت اللہ کو ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تعمیر پر باقی رہنے دیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12449

۔ (۱۲۴۴۹)۔ عَنْ سَیَّارِ بْنِ سَلَامَۃَ أَبِی الْمِنْہَالِ الرِّیَاحِیِّ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِی عَلٰی أَبِی بَرْزَۃَ الْأَسْلَمِیِّ، وَإِنَّ فِی أُذُنَیَّیَوْمَئِذٍ لَقُرْطَیْنِ، قَالَ: وَإِنِّی لَغُلَامٌ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَرْزَۃَ: إِنِّی أَحْمَدُ اللّٰہَ، أَنِّی أَصْبَحْتُ لَائِمًا لِہٰذَا الْحَیِّ مِنْ قُرَیْشٍ، فُلَانٌ ہَاہُنَا یُقَاتِلُ عَلَی الدُّنْیَا، وَفُلَانٌ ہَاہُنَا یُقَاتِلُ عَلَی الدُّنْیَا،یَعْنِی عَبْدَ الْمَلِکِ بْنَ مَرْوَانَ، قَالَ: حَتّٰی ذَکَرَ ابْنَ الْأَزْرَقِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَیَّ لَہٰذِہِ الْعِصَابَۃُ الْمُلَبَّدَۃُ الْخَمِیصَۃُ بُطُونُہُمْ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِینَ، وَالْخَفِیفَۃُ ظُہُورُہُمْ مِنْ دِمَائِہِمْ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الْأُمَرَائُ مِنْ قُرَیْشٍ الْأُمَرَائُ مِنْ قُرَیْشٍ، الْأُمَرَائُ مِنْ قُرَیْشٍ، لِی عَلَیْہِمْ حَقٌّ، وَلَہُمْ عَلَیْکُمْ حَقٌّ، مَا فَعَلُوْا ثَلَاثًا، مَا حَکَمُوا فَعَدَلُوا، وَاسْتُرْحِمُوا فَرَحِمُوا، وَعَاہَدُوْا فَوَفَوْا، فَمَنْ لَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ مِنْہُمْ، فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ۔)) (مسند احمد: ۲۰۰۴۳)
سیار بن سلامہ ابو منہال ریاحی سے سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں اپنے والد کے ہمراہ سیدنا ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گیا، میں اس قدر چھوٹا تھاکہ ان دنوںمیرے کانوں میںبالیاں ڈالی ہوئی تھیں، ابو برزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں کہ میں قریش کی حرکت پر انہیں ملامت کرتا رہتا ہوں، یہاں فلاں اور فلاں آدمی ہے، جو حصول دنیا کے لیے قتال کرتا ہے، ان کا اشارہ عبدالملک بن مروان کی طرف تھا، یہاں تک کہ انہوں نے ابن الازرق کا نام بھی لیا، پھر کہا:سب لوگوںمیں سے مجھے یہ لوگ زیادہ پسند ہیں، جو خرقہ پوش ہیں اوران کے پیٹ مسلمانوں کے اموال سے خالی اور ان کی پیٹھوں پر مسلمان کا خون لدا ہوا نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے: حکمران قریش سے ہوں گے، حکمران قریش سے ہوں گے، حکمران قریش سے ہوں گے، میرا ان پر حق ہے، اور ان کا تم پر حق ہے، جب تک وہ تین کام کریں کہ وہ عدل و انصاف سے فیصلے کریں،ان سے رحم کی اپیل کی جائے تو رحم کریں اورمعاہدے کریں توان کو پورا کریں، تو ان میں سے جو آدمی یہ کام نہ کرے، اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12450

۔ (۱۲۴۵۰)۔ عَنْ رِفَاعَۃَ الْقِتْبَانِیِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی الْمُخْتَارِ قَالَ: فَأَلْقٰی لِی وِسَادَۃً، وَقَالَ: لَوْلَا أَنَّ أَخِی جِبْرِیلَ قَامَ عَنْ ہٰذِہِ لَأَلْقَیْتُہَا لَکَ، قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَہُ، فَذَکَرْتُ حَدِیثًا حَدَّثَنِی بِہِ أَخِی عَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((أَیُّمَا مُؤْمِنٍ أَمَّنَ مُؤْمِنًا عَلٰی دَمِہِ فَقَتَلَہُ فَأَنَا مِنَ الْقَاتِلِ بَرِیئٌ۔)) (مسند احمد: ۲۲۲۹۳)
رفاعہ قتبانی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں مختار کے ہاں گیا، اس نے ایک تکیہ میری طرف کیا اور کہا: اگر میر ا بھائی جبرائیل اس سے اٹھ کر نہ گیا ہوتا تو میں یہ تکیہ آپ کو دے دیتا، رفاعہ کہتے ہیں: اس کی یہ بات سن کر مجھے غصہ آیا، میں نے ارادہ کیاکہ میںاس کی گردن اڑادوں، لیکن اچانک مجھے ایک حدیث یاد آگئی جو مجھے میرے بھائی سیدنا عمرو بن حمق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سنائی تھی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس مومن نے کسی مومن کو اس کی جان کی امان دی ہوا ور پھر اسے قتل کردے تومیں اس سے لا تعلق اور بری ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12451

۔ (۱۲۴۵۱)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ کُنْتُ أَقُومُ عَلَی رَأْسِ الْمُخْتَارِ، فَلَمَّا عَرَفْتُ کَذِبَہُ ہَمَمْتُ أَنْ أَسُلَّ سَیْفِی، فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ، فَذَکَرْتُ حَدِیثًا، حَدَّثَنَاہُ عَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ أَمَّنَ رَجُلًا عَلٰی نَفْسِہِ فَقَتَلَہُ أُعْطِیَ لِوَائَ الْغَدْرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۲۲۹۴)
۔ (دوسری سند) رفاعہ کہتے ہیں:میں مختار کے سر پر کھڑا تھا،جب مجھے اس کے جھوٹا ہونے کا یقین ہوگیا تو میںنے ارادہ کیا کہ تلوار سونت کر اس کی گردن اڑا دوں، لیکن مجھے وہ حدیث یاد آگئی جو سیدنا عمرو بن حمق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کی تھی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی کسی کو اس کی جان کی امان دینے کے بعد اس کو قتل کر دے تو قیامت کے دن اسے دھوکے والا جھنڈا دیاجائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12452

۔ (۱۲۴۵۲)۔ عَنْ أَبِی عُکَّاشَۃَ الْہَمْدَانِیِّ قَالَ: قَالَ رِفَاعَۃُ الْبَجَلِیُّ: دَخَلْتُ عَلَی الْمُخْتَارِ بْنِ أَبِی عُبَیْدٍ قَصْرَہُ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: مَا قَامَ جِبْرِیلُ إِلَّا مِنْ عِنْدِی قَبْلُ، قَالَ: فَہَمَمْتُ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَہُ، فَذَکَرْتُ حَدِیثًا حَدَّثَنَاہُ سُلَیْمَانُ بْنُ صُرَدٍ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ: ((إِذَا أَمَّنَکَ الرَّجُلُ عَلٰی دَمِہِ فَلَا تَقْتُلْہُ۔)) قَالَ: وَکَانَ قَدْ أَمَّنَنِی عَلٰی دَمِہِ فَکَرِہْتُ دَمَہُ۔ (مسند احمد: ۲۷۷۴۹)
ابو رفاعہ بجلی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں مختار بن ابی عبید کے پاس اس کے محل میں داخل ہوا، میں نے سنا وہ کہہ رہاتھا کہ میرا بھائی جبرئیل ابھی میرے ہاں سے گیا ہے، اس کی یہ بات سن کر میں نے ارادہ کیا کہ اس کی گردن اڑادوں، پھر مجھے ایک حدیث یاد آئی جو مجھ سے سلیمان بن صرد نے بیان کی تھی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی اپنے خون پر تم کو امین سمجھ لے تو اسے قتل نہ کرنا۔ اور اس مختار نے مجھ سے اپنی جان کی امان طلب کی ہوئی تھی، اس لیے میں نے اسے قتل کرنا مناسب نہ سمجھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12453

۔ (۱۲۴۵۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّہُ کَانَ عِنْدَہُ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ، فَجَعَلَ یُحَدِّثُہُ عَنِ الْمُخْتَارِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِنْ کَانَ کَمَا تَقُولُ فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ ثَلَاثِینَ کَذَّابًا۔)) (مسند احمد: ۵۹۸۵)
سیدناابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کسی کوفی کے ہاں تھے، وہ ان کو مختار کے بارے میںکچھ باتیں سنانے لگا، سیدناابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا کہ قیامت سے پہلے تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12454

۔ (۱۲۴۵۴)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِی ہِنْدٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ یُقَالُ لَہُ: عَمَّارٌ، قَالَ: أَدْرَبْنَا عَامًا ثُمَّ قَفَلْنَا، وَفِینَا شَیْخٌ مِنْ خَثْعَمٍ، فَذُکِرَ الْحَجَّاجُ فَوَقَعَ فِیہِ وَشَتَمَہُ، فَقُلْتُ لَہُ: لِمَ تَسُبُّہُ وَہُوَ یُقَاتِلُ أَہْلَ الْعِرَاقِ فِی طَاعَۃِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ؟ فَقَالَ: إِنَّہُ ہُوَ الَّذِی أَکْفَرَہُمْ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((یَکُونُ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ خَمْسُ فِتَنٍ۔)) فَقَدْ مَضَتْ أَرْبَعٌ وَبَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ الصَّیْلَمُ، وَہِیَ فِیکُمْیَا أَہْلَ الشَّامِ، فَإِنْ أَدْرَکْتَہَا فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُونَ حَجَرًا فَکُنْہُ، وَلَا تَکُنْ مَعَ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِیقَیْنِ أَلَا فَاتَّخِذْ نَفَقًا فِی الْأَرْضِ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: وَلَا تَکُنْ، وَقَدْ حَدَّثَنَا بِہِ حَمَّادٌ قَبْلَ ذَا، قُلْتُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ أَفَلَا کُنْتَ أَعْلَمْتَنِی أَنَّکَ رَأَیْتَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی أُسَائِلَکَ؟ (مسند احمد: ۲۰۹۷۲)
داؤ د بن ابی ہند نے عمار نامی ایک شخص سے بیان کیا، جس کا تعلق ملک شام سے تھا، اس نے کہا: ایک سال ہم روم کی طرف گئے اور وہاں سے واپس آئے، ہمارے قافلے میں قبیلہ خثعم کا ایک آدمی بھی تھا، اس نے حجاج کا ذکر کیا اور اسے خوب برا بھلاکہنے لگا، میں نے اس سے کہا:آپ اسے گالیاں کیوں دیتے ہیں؟ وہ تو امیر المومنین کے حکم کو بجا لاتے ہوئے اہل عراق سے بر سر پیکار ہے، اس نے کہا:اس نے تو انہیں کفر میں مبتلا کیا ہوا ہے، پھر اس نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا کہ اس امت میں پانچ بڑے بڑے فتنے رونما ہوں گے۔ ان میں سے چار وقوع پذیر ہو چکے ہیں اور ایک باقی ہے اور وہ بہت بڑا فتنہ ہوگا، اہل شام یاد رکھو وہ فتنہ تمہارے اندر رونماہوگا، اگر تم اس فتنہ کو پاؤ تو اگر ہوسکے تو پتھر بن جانا یعنی دو فریقوں میں سے کسی ایک کا بھی ساتھ نہ دینا، بلکہ ہوسکے تو زمین میں سرنگ بنا کر چھپ جانا، میں نے کہا:کیا آپ نے خود یہ حدیث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، میںنے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ نے پہلے کیوں نہیں بتلایا کہ آپ نبی کی زیارت سے مشرف ہوچکے ہیں، تاکہ میں آپ سے مزید کچھ دریافت کرلیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12455

۔ (۱۲۴۵۴)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِی ہِنْدٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ یُقَالُ لَہُ: عَمَّارٌ، قَالَ: أَدْرَبْنَا عَامًا ثُمَّ قَفَلْنَا، وَفِینَا شَیْخٌ مِنْ خَثْعَمٍ، فَذُکِرَ الْحَجَّاجُ فَوَقَعَ فِیہِ وَشَتَمَہُ، فَقُلْتُ لَہُ: لِمَ تَسُبُّہُ وَہُوَ یُقَاتِلُ أَہْلَ الْعِرَاقِ فِی طَاعَۃِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ؟ فَقَالَ: إِنَّہُ ہُوَ الَّذِی أَکْفَرَہُمْ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((یَکُونُ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ خَمْسُ فِتَنٍ۔)) فَقَدْ مَضَتْ أَرْبَعٌ وَبَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ الصَّیْلَمُ، وَہِیَ فِیکُمْیَا أَہْلَ الشَّامِ، فَإِنْ أَدْرَکْتَہَا فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُونَ حَجَرًا فَکُنْہُ، وَلَا تَکُنْ مَعَ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِیقَیْنِ أَلَا فَاتَّخِذْ نَفَقًا فِی الْأَرْضِ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: وَلَا تَکُنْ، وَقَدْ حَدَّثَنَا بِہِ حَمَّادٌ قَبْلَ ذَا، قُلْتُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ أَفَلَا کُنْتَ أَعْلَمْتَنِی أَنَّکَ رَأَیْتَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی أُسَائِلَکَ؟ (مسند احمد: ۲۰۹۷۲)
ابو صدیق ناجی سے مروی ہے کہ حجاج بن یوسف جب سیدنا عبداللہ زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر چکا تو اس کے بعد ان کی والدہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں گیا اور کہنے لگا: تمہارے بیٹے نے بیت اللہ کے اندر الحاد کیا تھا،سو اللہ تعالیٰ نے اسے درد ناک عذاب سے دو چار کیا اور اس کے ساتھ بہت کچھ کیا، سیدہ اسماء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: تو جھوٹ کہتا ہے، وہ تو اپنے والدین کا انتہائی خدمت گزارتھا، وہ دن کو بہت زیادہ روز ے رکھنے والا اور رات کو بہت زیادہ قیام کرنے والا تھا، اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں اطلاع دے چکے ہیں کہ عنقریب قبیلہ ثقیف میں سے دو جھوٹے آدمی ظاہر ہوں گے، ان میںسے بعد والا پہلے سے بھی برا ہوگا اوروہ بہت ہی خون ریزہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12456

۔ (۱۲۴۵۶)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ قَالَ: وَجَدْتُ فِی کِتَابِ أَبِی ہٰذَا الْحَدِیثَ بِخَطِّ یَدِہِ، حَدَّثَنَا سَعِیدٌیَعْنِی ابْنَ سُلَیْمَانَ سَعْدَوَیْہِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادٌ یَعْنِی ابْنَ الْعَوَّامِ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: لَمَّا قَتَلَ الْحَجَّاجُ ابْنَ الزُّبَیْرِ وَصَلَبَہُ مَنْکُوسًا، فَبَیْنَا ہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ إِذْ جَائَتْ أَسْمَائُ، وَمَعَہَا أَمَۃٌ تَقُودُہَا، وَقَدْ ذَہَبَ بَصَرُہَا، فَقَالَتْ: أَیْنَ أَمِیرُکُمْ؟ فَذَکَرَ قِصَّۃً، فَقَالَتْ: کَذَبْتَ وَلٰکِنِّی أُحَدِّثُکَ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((یَخْرُجُ مِنْ ثَقِیفٍ کَذَّابَانِ، الْآخِرُ مِنْہُمَا أَشَرُّ مِنْ الْأَوَّلِ، وَہُوَ مُبِیرٌ۔)) (مسند احمد: ۲۷۵۱۴)
عنترہ سے مروی ہے کہ جب حجاج نے سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کیا اور انہیں الٹا کر کے لٹکا دیا، تو وہ اس دوران منبر پر تھاکہ اچانک سیدہ اسماء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا آ گئیں، ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی، ایک لونڈی ان کاہاتھ پکڑے ان کو لائی، سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لوگو! تمہارا امیر کہاں ہے؟ اس کے بعدعنترہ نے مفصل واقعہ بیان ہے، اس کے آخر میں ہے:سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حجاج سے کہا: تو جھوٹ کہتا ہے، میں تمہیں ایک حدیث سناتی ہوں، جو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قبیلہ ثقیف میں دو جھوٹے آدمی نکلیں گے، ان میں سے بعد والا پہلے سے بھی زیادہ شر والا ہوگا اور وہ بہت ہی خون ریز ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12457

۔ (۱۲۴۵۷)۔ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ فِیْ ثَقِیْفٍ مُبِیْرًا وَ کَذَّابًا۔)) (مسند احمد: ۴۷۹۰)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قبیلہ ثقیف میں ایک ہلاک کرنے والا یعنی خون ریز آدمی ہوگا اور ایک جھوٹا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12458

۔ (۱۲۴۵۸)۔ عَنْ الزُّبَیْرِیَعْنِی ابْنَ عَدِیٍّ، قَالَ: شَکَوْنَا إِلٰی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ مَا نَلْقٰی مِنَ الْحَجَّاجِ، فَقَالَ: اصْبِرُوا فَإِنَّہُ لَا یَأْتِی عَلَیْکُمْ عَامٌ أَوْ یَوْمٌ إِلَّا الَّذِی بَعْدَہُ شَرٌّ مِنْہُ، حَتّٰی تَلْقَوْا رَبَّکُمْ عَزَّ وَجَلَّ، سَمِعْتُہُ مِنْ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۲۳۷۲)
زبیر بن عدی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:ہم نے حجاج کے مظالم کا سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے شکوہ کیا،انہوں نے کہا: صبر کرو، میں نے تمہارے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ تم پر جو بھی دن اور سال آتا ہے، اس سے بعد والا دن اور سال پہلے سے بدتر ہوتا ہے، یہاں تک کہ تم اپنے رب عزوجل سے جا ملو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12459

۔ (۱۲۴۵۹)۔ وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ: مَا أَعْرِفُ شَیْئًا مِمَّا عَہِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْیَوْمَ، فَقَالَ أَبُو رَافِعٍ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ! وَلَا الصَّلَاۃَ؟ فَقَالَ: أَوَلَیْسَ قَدْ عَلِمْتَ مَا صَنَعَ الْحَجَّاجُ فِی الصَّلَاۃِ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۰۰)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہ کر جو کچھ دیکھ چکا ہوں،آج مجھے ان میں سے کچھ بھی نظرنہیں آتا، ابورافع نے کہا: اے ابو حمزہ! کیا نماز بھی ویسی نہیں رہی؟ انہوں نے کہا: کیا تم نہیںجانتے کہ حجاج1 نے نماز کا بھی کیا حشر کر دیا ہے؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12460

۔ (۱۲۴۶۰)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ، حَدَّثَنَا فِطْرُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبِی قَالَ: سَمِعْتُ مَالِکَ بْنَ دِینَارٍیَقُولُ: یَقُولُ النَّاسُ: مَالِکُ بْنُ دِینَارٍیَعْنِی مَالِکَ بْنَ دِینَارٍ زَاہِدٌ، إِنَّمَا الزَّاہِدُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ الَّذِی أَتَتْہُ الدُّنْیَا فَتَرَکَہَا۔ (مسند احمد: ۲۲۴۹۵)
مالک بن دینار سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: لوگ کہتے ہیں کہ مالک بن دینار زاہد اور نیک ہیں، جبکہ زاہد تو عمر بن عبد العزیز ہیں، جن کے پاس دنیا تو آئی مگر انھوں نے اس کو ٹھکرا دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12461

۔ (۱۲۴۶۱)۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ یَزْدَوَیْہِ قَالَ: خَرَجْتُ إِلَی الْمَدِینَۃِ مَعَ عُمَرَ بْنِ یَزِیدَ، وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَامِلٌ عَلَیْہَا قَبْلَ أَنْ یُسْتَخْلَفَ، قَالَ: فَسَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ، وَکَانَ بِہِ وَضَحٌ شَدِیدٌ، قَالَ: وَکَانَ عُمَرُ یُصَلِّی بِنَا، فَقَالَ أَنَسٌ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَشْبَہَ صَلَاۃً بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ ہٰذَا الْفَتٰی، کَانَ یُخَفِّفُ فِی تَمَامٍ۔ (مسند احمد: ۱۳۷۰۷)
عثمان بن یزدویہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں عمر بن یزید کی معیت میں مدنیہ منورہ گیا، ان دنوں عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بننے سے قبل وہاں کے عامل اور گورنر تھے، ، اس وقت میںنے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جن کے جسم پر پھلبہری کے کافی سفید نشانات تھے، کو یہ کہتے ہوئے سنا،انھوں نے کہا: میں نے اس نوجوان یعنی عمر بن عبدالعزیز سے بڑھ کر کسی کو ! خادمِ رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شام کے علاقے میں آئے اور انھوں نے نماز کے ضائع ہونے کا ذکر کیا تھا کیونکہ حجاج نماز کو لیٹ کرکے پڑھتا تھا۔ اس کے بر خلاف مدینہ میں آنے پر انھوں نے کہا تھا تم صرف صف بندی صحیح نہیں کرتے۔ باقی معاملات کو انھوں نے درست قرار دیا تھا۔ [فتح الباری، ج:۲، ص: ۱۴] (عبداللہ رفیق) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا، یہ پوری نماز پڑھنے کے باوجود مختصر پڑھا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12462

۔ (۱۲۴۶۲)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَا رَأَیْتُ إِمَامًا أَشْبَہَ بِصَلَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ إِمَامِکُمْ ہٰذَا لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ، وَہُوَ بِالْمَدِینَۃِیَوْمَئِذٍ، وَکَانَ عُمَرُ لَا یُطِیلُ الْقِرَائَ ۃَ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۹۲)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے تمہارے اس امام سے بڑھ کر کسی کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز جیسی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، عمر بن عبدالعزیز نماز میں طویل قراء ت نہیں کیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12463

۔ (۱۲۴۶۳)۔ حَدَّثَنَا یُونُسُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْیَشْکُرِیُّ، حَدَّثَنَا شَیْخٌ کَبِیرٌ مِنْ بَنِی عُقَیْلٍیُقَالُ لَہُ: عَبْدُ الْمَجِیدِ الْعُقَیْلِیُّ، قَالَ: انْطَلَقْنَا حُجَّاجًا لَیَالِیَ خَرَجَ یَزِیدُ بْنُ الْمُہَلَّبِ، وَقَدْ ذُکِرَ لَنَا أَنَّ مَائً بِالْعَالِیَۃِ،یُقَالُ لَہُ: الزُّجَیْجُ، فَلَمَّا قَضَیْنَا مَنَاسِکَنَا جِئْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الزُّجَیْجَ، فَأَنَخْنَا رَوَاحِلَنَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا عَلٰی بِئْرٍ،ٔعَلَیْہِ أَشْیَاخٌ مُخَضَّبُونَ یَتَحَدَّثُونَ، قَالَ: قُلْنَا: ہٰذَا الَّذِی صَحِبَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْنَ بَیْتُہُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، صَحِبَہُ وَہٰذَاکَ بَیْتُہُ، فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الْبَیْتَ فَسَلَّمْنَا، قَالَ: فَأَذِنَ لَنَا فَإِذَا ہُوَ شَیْخٌ کَبِیرٌ مُضْطَجِعٌ، یُقَالُ لَہُ: الْعَدَّائُ بْنُ خَالِدٍ الْکِلَابِیُّ، قُلْتُ: أَنْتَ الَّذِی صَحِبْتَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّیاللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلَوْلَا أَنَّہُ اللَّیْلُ لَأَقْرَأْتُکُمْ کِتَابَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیَّ، قَالَ: فَمَنْ أَنْتُمْ؟ قُلْنَا: مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِکُمْ، مَا فَعَلَ یَزِیدُ بْنُ الْمُہَلَّبِ؟ قُلْنَا: ہُوَ ہُنَاکَ یَدْعُو إِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَإِلٰی سُنَّۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فِیمَا ہُوَ مِنْ ذَاکَ، فِیمَا ہُوَ مِنْ ذَاکَ، قَالَ: قُلْتُ: أَیًّا نَتَّبِعُ ہٰؤُلَائِ أَوْ ہٰؤُلَائِ یَعْنِی أَہْلَ الشَّامِ أَوْ یَزِیدَ، قَالَ: إِنْ تَقْعُدُوْا تُفْلِحُوْا وَتَرْشُدُوا، إِنْ تَقْعُدُوْا تُفْلِحُوْا وَتَرْشُدُوْا، لَا أَعْلَمُہُ إِلَّا قَالَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَیَوْمَ عَرَفَۃَ وَہُوَ قَائِمٌ فِی الرِّکَابَیْنِیُنَادِی بِأَعْلٰی صَوْتِہِ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَیُّیَوْمِکُمْ ہٰذَا؟)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((فَأَیُّ شَہْرٍ شَہْرُکُمْ ہٰذَا؟)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((فَأَیُّ بَلَدٍ بَلَدُکُمْ ہٰذَا؟)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((یَوْمُکُمْیَوْمٌ حَرَامٌ، وَشَہْرُکُمْ شَہْرٌ حَرَامٌ، وَبَلَدُکُمْ بَلَدٌ حَرَامٌ۔)) قَالَ: فَقَالَ: ((أَلَا إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَۃِیَوْمِکُمْ ہٰذَا، فِی شَہْرِکُمْ ہٰذَا، فِی بَلَدِکُمْ ہٰذَا، إِلٰییَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، فَیَسْأَلُکُمْ عَنْ أَعْمَالِکُمْ۔)) قَالَ: ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَائِ فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہِمْ، اللَّہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہِمْ۔)) ذَکَرَ مِرَارًا فَلَا أَدْرِی کَمْ ذَکَرَہُ۔ (مسند احمد: ۲۰۶۰۲)
قبیلہ بنو عقیل کے ایک بڑے شیخ عبدالمجید عقیلی نے بیان کیاکہ جن دنوں یزید بن مہلب نے یزید بن عبدالملک کے خلاف خروج کیا، ان دنوں ہم حج کرنے کے لیے گئے، ہمارے سامنے العالیہ کے نواح میں الزجیج نامی ایک مقام کا ذکر کیا گیا، ہم جب مناسک حج سے فارغ ہوئے تو الزجیج پہنچے، ہم نے وہاں اپنی سواریوں کو بٹھایا اور ہم چلتے چلتے ایک کنوئیں پر جا پہنچے، وہاں کچھ بزرگ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے، ان کے بال رنگے ہوئے تھے، ہم نے پوچھا، یہاں جو آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا صحابی ہے، اس کا گھر کہاں ہے؟لوگوں نے بتلایا کہ ہاں وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا صحابی ہے اور وہ اس کا گھر ہے، ہم اس کے گھر چلے، ہم نے جا کر انہیں سلام کہا، تو انہوں نے ہمیں اندر آنے کی اجازت دے دی، وہ ایک عمر رسیدہ بزرگ آدمی تھے، وہ لیٹے ہوئے تھے ان کا نام عداء بن خالد کلابی تھا،میں نے کہا: کیا آپ ہی وہ شخص ہیں جنہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! اگر اب رات نہ ہوتی تو میں تمہیں وہ خط پڑھاتا جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے لکھا تھا،انہوں نے کہا تم کون ہو؟ ہم نے کہا: ہم بصرہ کے باشندے ہیں،انہوںنے کہا: آپ کی آمد مبارک ہو، بزید بن مہلب کیا کر رہا ہے؟ ہم نے بتلایا کہ وہ وہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہے، انہوںنے کہا: اس کی وہاں کیا پوزیشن ہے؟ میں نے پوچھا، ہم وہاں کس کا ساتھ دیں؟ اہل شام یا یزید کا؟ انہوں نے فرمایا: اگر تم غیر جانب دار ہو کر ایک طرف ہو کر بیٹھ رہو تو فلاح پاؤ گے اور کامیاب رہوگے، انہوں نے یہ بات تین دفعہ دہرائی اور کہامیں نے عرفہ کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کودیکھا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر کھڑے بلند آواز سے فرما رہے تھے،: لوگو! آج کونسا دن ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جاتنے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کونسا مہینہ ہے؟ لوگوںنے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کونسا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا آج کا دن حرمت والا ہے، یہ مہینہ بھی حرمت والا ہے، یہ شہر بھی حرمت والا ہے، خبردار! تمہارے خون اور اموال قیامت تک ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں، جس طرح آج کے دن کی اس مہینے اور اس شہر میں حرمت ہے، پس وہ تم سے ملاقات کے دن تمہارے اعمال کی بابت پوچھ گچھ کرے گا۔ پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور فرمایا: یااللہ گواہ رہنا یا اللہ ان پر گواہ رہنا۔ انہوں نے اس بات کا کئی دفعہ ذکر کیا مجھے یاد نہیں کہ کتنی دفعہ کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12464

۔ (۱۲۴۶۴)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: وُلِدَ لِأَخِی أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غُلَامٌ فَسَمَّوْہُ الْوَلِیدَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((سَمَّیْتُمُوہُ بِأَسْمَائِ فَرَاعِنَتِکُمْ، لَیَکُونَنَّ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ: الْوَلِیدُ، لَہُوَ شَرٌّ عَلٰی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ مِنْ فِرْعَوْنَ لِقَوْمِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۰۹)
سیدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ زوجۂ رسول سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بھائی کے ہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی، انہوں نے اس کا نام ولید رکھا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے اس کا نام اپنے فرعونوں میں سے ایک فرعون کے نام پر رکھا ہے، اس امت میں ولید نامی ایک شخص ہوگا، وہ اس امت کے لیے اس سے بھی برا اور سخت ثابت ہوگا، جیسے بنی اسرائیل کے لیے فرعون تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12465

۔ (۱۲۴۶۴)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: وُلِدَ لِأَخِی أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غُلَامٌ فَسَمَّوْہُ الْوَلِیدَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((سَمَّیْتُمُوہُ بِأَسْمَائِ فَرَاعِنَتِکُمْ، لَیَکُونَنَّ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ: الْوَلِیدُ، لَہُوَ شَرٌّ عَلٰی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ مِنْ فِرْعَوْنَ لِقَوْمِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۰۹)
سیدناعباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک رات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم آسمان پر کوئی تارا دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کیا دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا: میں ثریا تارے دیکھ رہا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہاری نسل میں سے ثریا ستاروں کی تعداد کے بقدر دو آدمی ہر ایک فتنہ کے زمانہ میں اس امت پر حکم رانی کریں گے1۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12466

۔ (۱۲۴۶۴)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: وُلِدَ لِأَخِی أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غُلَامٌ فَسَمَّوْہُ الْوَلِیدَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((سَمَّیْتُمُوہُ بِأَسْمَائِ فَرَاعِنَتِکُمْ، لَیَکُونَنَّ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ: الْوَلِیدُ، لَہُوَ شَرٌّ عَلٰی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ مِنْ فِرْعَوْنَ لِقَوْمِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۰۹)
سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا کے ختم ہونے اور فتنوں کے ظہور کے وقت سفاح نامی ایک آدمی ظاہر ہوگا، وہ دونوں ہاتھ بھر بھر کر لوگوںمیں مال و دولت تقسیم کرے گا۔

Icon this is notification panel