۔ (۱۲۳۸۰)۔ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِیِّ، قَالَ: جَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ شَدَّادٍ، فَدَخَلَ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَنَحْنُ عِنْدَہَا جُلُوسٌ، مَرْجِعَہُ مِنَ الْعِرَاقِ لَیَالِیَ قُتِلَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَتْ لَہُ: یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ شَدَّادٍ! ہَلْ أَنْتَ صَادِقِی عَمَّا أَسْأَلُکَ عَنْہُ، تُحَدِّثُنِی عَنْ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ الَّذِینَ قَتَلَہُمْ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: وَمَا لِی لَا أَصْدُقُکِ؟ قَالَتْ: فَحَدِّثْنِی عَنْ قِصَّتِہِمْ، قَالَ: فَإِنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا کَاتَبَ مُعَاوِیَۃَ وَحَکَمَ الْحَکَمَانِ خَرَجَ عَلَیْہِ ثَمَانِیَۃُ آلَافٍ مِنْ قُرَّائِ النَّاسِ، فَنَزَلُوْا بِأَرْضٍ یُقَالُ لَہَا: حَرُورَائُ مِنْ جَانِبِ الْکُوفَۃِ، وَإِنَّہُمْ عَتَبُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا: انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِیصٍ أَلْبَسَکَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَاسْمٍ سَمَّاکَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِہِ، ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَکَّمْتَ فِی دِینِ اللّٰہِ، فَلَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ تَعَالَی، فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا عَتَبُوْا عَلَیْہِ، وَفَارَقُوہُ عَلَیْہِ، فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا، فَأَذَّنَ أَنْ لَا یَدْخُلَ عَلٰی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ إِلَّا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ، فَلَمَّا
أَنْ امْتَلَأَتِ الدَّارُ مِنْ قُرَّائِ النَّاسِ دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِیمٍ فَوَضَعَہُ بَیْنَیَدَیْہِ، فَجَعَلَ یَصُکُّہُ بِیَدِہِ وَیَقُولُ: أَیُّہَا الْمُصْحَفُ! حَدِّثِ النَّاسَ، فَنَادَاہُ النَّاسُ فَقَالُوْا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! مَا تَسْأَلُ عَنْہُ؟ إِنَّمَا ہُوَ مِدَادٌ فِی وَرَقٍ، وَنَحْنُ نَتَکَلَّمُ بِمَا رُوِینَا مِنْہُ، فَمَاذَا تُرِیدُ؟: قَالَ أَصْحَابُکُمْ ہٰؤُلَائِ الَّذِینَ خَرَجُوْا، بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ کِتَابُ اللّٰہِ، یَقُولُ اللّٰہُ تَعَالٰی فِی کِتَابِہِ فِی امْرَأَۃٍ وَرَجُلٍ: {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِنْ أَہْلِہِ وَحَکَمًا مِنْ أَہْلِہَا إِنْ یُرِیدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا} فَأُمَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَۃً مِنْ امْرَأَۃٍ وَرَجُلٍ، وَنَقَمُوا عَلَیَّ أَنْ کَاتَبْتُ مُعَاوِیَۃَ، کَتَبَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، وَقَدْ جَائَ نَا سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَیْبِیَۃِ حِینَ صَالَحَ قَوْمَہُ قُرَیْشًا، فَکَتَبَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَقَالَ سُہَیْلٌ: لَا تَکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَقَالَ: ((کَیْفَ نَکْتُبُ؟)) فَقَالَ: اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((فَاکْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ۔)) فَقَالَ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ لَمْ أُخَالِفْکَ، فَکَتَبَ ہٰذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ قُرَیْشًا،یَقُولُ اللّٰہُ تَعَالٰی فِی کِتَابِہِ: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ} فَبَعَثَ إِلَیْہِمْ عَلِیٌّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَخَرَجْتُ مَعَہُ حَتّٰی إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْکَرَہُمْ، قَامَ ابْنُ الْکَوَّائِ یَخْطُبُ النَّاسَ فَقَالَ: یَا حَمَلَۃَ الْقُرْآنِ! إِنَّ ہٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَمَنْ لَمْ یَکُنْیَعْرِفُہُ، فَأَنَا أُعَرِّفُہُ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ مَا یَعْرِفُہُ بِہِ ہٰذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِیہِ وَفِی قَوْمِہِ {قَوْمٌ خَصِمُونَ} فَرُدُّوہُ إِلٰی صَاحِبِہِ، وَلَا تُوَاضِعُوہُ کِتَابَ اللّٰہِ، فَقَامَ خُطَبَاؤُہُمْ فَقَالُوْا: وَاللّٰہِ! لَنُوَاضِعَنَّہُ کِتَابَ اللّٰہِ، فَإِنْ جَائَ بِحَقٍّ نَعْرِفُہُ لَنَتَّبِعَنَّہُ، وَإِنْ جَائَ بِبَاطِلٍ لَنُبَکِّتَنَّہُ بِبَاطِلِہِ، فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللّٰہِ الْکِتَابَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، فَرَجَعَ مِنْہُمْ أَرْبَعَۃُ آلَافٍ کُلُّہُمْ تَائِبٌ، فِیہِمْ ابْنُ الْکَوَّائِ حَتّٰی أَدْخَلَہُمْ عَلٰی عَلِیٍّ الْکُوفَۃَ، فَبَعَثَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی بَقِیَّتِہِمْ، فَقَالَ: قَدْ کَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَیْتُمْ، فَقِفُوا حَیْثُ شِئْتُمْ حَتّٰی تَجْتَمِعَ أُمَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ، أَنْ لَا تَسْفِکُوا دَمًا حَرَامًا، أَوْ تَقْطَعُوا سَبِیلًا، أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّۃً، فَإِنَّکُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَیْکُمُ الْحَرْبَ عَلٰی سَوَائٍ، إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَائِنِینَ، فَقَالَتْ لَہُ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا: یَا ابْنَ شَدَّادٍ! فَقَدْ قَتَلَہُمْ، فَقَالَ: وَاللّٰہِ! مَا بَعَثَ إِلَیْہِمْ حَتّٰی قَطَعُوا السَّبِیلَ، وَسَفَکُوا الدَّمَ، وَاسْتَحَلُّوا أَہْلَ الذِّمَّۃِ، فَقَالَتْ: أَاللّٰہِ؟ قَالَ: أَاللّٰہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ؟ لَقَدْ کَانَ قَالَتْ فَمَا شَیْئٌ بَلَغَنِی عَنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ،یَتَحَدَّثُونَہُیَقُولُونَ ذُو الثُّدَیِّ وَذُو الثُّدَیِّ، قَالَ: قَدْ رَأَیْتُہُ وَقُمْتُ مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَیْہِ فِی الْقَتْلٰی، فَدَعَا النَّاسَ، فَقَالَ: أَتَعْرِفُونَ ہٰذَا؟ فَمَا أَکْثَرَ مَنْ جَائَ یَقُولُ: قد رأَیْتُہُ فی مَسْجِدِ بَنِی فُلَانٍ یُصَلِّی، وَرَأَیْتُہُ فِی مَسْجِدِ بَنِی فُلَانٍ یُصَلِّی، وَلَمْ یَأْتُوا فِیہِ بِثَبَتٍ یُعْرَفُ إِلَّا ذٰلِکَ، قَالَتْ: فَمَا قَوْلُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حِینَ قَامَ عَلَیْہِ کَمَا یَزْعُمُ أَہْلُ الْعِرَاقِ، قَالَ: سَمِعْتُہُ یَقُولُ: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، قَالَتْ: ہَلْ سَمِعْتَ مِنْہُ أَنَّہُ قَالَ غَیْرَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: اللّٰہُمَّ لَا، قَالَتْ: أَجَلْ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، یَرْحَمُ اللّٰہُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، إِنَّہُ کَانَ مِنْ کَلَامِہِ لَا یَرٰی شَیْئًایُعْجِبُہُ إِلَّا قَالَ: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، فَیَذْہَبُ أَہْلُ الْعِرَاقِ یَکْذِبُونَ عَلَیْہِ وَیَزِیدُونَ عَلَیْہِ فِی الْحَدِیثِ۔ (مسند احمد: ۶۵۶)
عبیداللہ بن عیاض بن عمرو قاری کہتے ہیں کہ ہم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر تھے کہ عبیداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ تشریف لائے، یہ سید نا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دنوں کا واقعہ ہے، وہ عراق سے آئے تھے، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا، عبیداللہ بن شداد! میں تم سے جو پوچھوں کیا تم مجھے سچ سچ بتلاؤ گے؟ تم مجھے ان لوگوں کے متعلق بتلاؤ جن کو علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا؟ وہ کہنے لگے مجھے کیا ہے کہ میں آپ کو سچ سچ نہ بتلاؤں؟ تو سیدہ نے فرمایا تو مجھے ان کا پورا واقعہ بیان کر، انہوںنے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خط و خطابت کی اور دو حاکموں نے فیصلہ کیا تو آٹھ ہزار قاریوں نے ان کے خلاف خروج کیا اور وہ کوفہ کے قریب حروراء کے مقام پر جمع ہوگئے اور انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو صلح کرنے پر سرزنش کی، وہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قمیص پہنایا اور ایک نام دیا ہے،(قمیص سے مرادخلافت اور نام سے امیر المومنین کا لقب ہے)۔آپ یہ صلح کر کے ان دونوں کے اہل نہیں رہے ہے، کیونکہ آپ نے اللہ کے دین میںغیر کو حکم تسلیم کیاہے، جبکہ فیصلہ کرنا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک ان لوگوں کی یہ بات پہنچی جس کی اساس پر وہ لوگ ان سے الگ ہوئے تھے تو انہوں نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا اس نے اعلان کیا کہ امیر المومنین کے پاس صرف وہ آدمی آئے جسے قرآن مجید یا دہو، قراء سے گھر بھر گیا تو انہوں نے قرآن مجید منگوا کر اپنے سامنے رکھا اور اس پر آہستہ آہستہ ہاتھ مارنے لگے اور کہتے جاتے اے قرآن! لوگوں کو کچھ بیان کر، تو لوگوں نے کہا، امیرالمومنین! آپ سے کیا پوچھ رہے ہیں؟ یہ تو محض اور اق پر روشنائی ہے، اس کی بابت جو کچھ ہمیںبیان کیا گیا ہو ہم بولتے ہیں، آپ اصل بات بتلائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا، تمہارے یہ ساتھی جو الگ ہوئے ہیں، ان کے اور میرے مابین اللہ کی کتاب حکم ہے، اللہ تعالیٰ نے ایک شوہر اور اسکی بیوی کے بارے میں اپنی کتاب میں فرمایا: {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِنْ أَہْلِہِ وَحَکَمًا مِنْ أَہْلِہَا إِنْ یُرِیدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا}… اور اگر تمہیں ان کے مابین اختلاف کا اندیشہ ہو تو ایک مصنف مرد کی طرف سے اور ایک عورت کی طرف سے مقرر کردو، اگر دونوں منصف اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں کے مابین موافقت پیدا کر دے گا۔ امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خون اور حرمت ایک مرد اور عورت سے کہیں بڑ ھ کر ہے، یہ لوگ مجھ پر معترض ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی ہے، حالانکہ جب حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قوم قریش کے ساتھ خط و خطابت کی (یعنی صلح کر لی) تھی اور اور کفار کی طرف سے سہیل بن عمرو آیا تھا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے صلح نامہ لکھوایا تھا اور وہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یعنی میں نے ہی لکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ لکھوایا، لیکن سہل نے کہا: تم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ مت لکھو،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو کیا لکھیں؟ وہ بولا کہ یہ لکھو: بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ لکھو۔ لیکن سہل نے پھر کہا: اگر میں یہ مانتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو میں آپ کی مخالفت نہ کروں، تو آپ نے لکھوایا، یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے قریش کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ} … یقینا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میںبہترین نمونہ ہے، یعنی اس آدمی کے لیے جو اللہ تعالیٰ سے ملنے اور یوم آخرت کے آنے پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کی طرف روانہ کیا، میں بھی عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھا، جب ہم ان لوگوں کے لشکر کے وسطہ میں پہنچے تو ابن الکواء نے کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کیا اور کہا اے قرآن کے حاملین! یہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہیں جو انہیں نہ جانتا ہو، وہ نہ جانتا ہوگا، میں تو انہیں خوب جانتا ہوںاللہ کی کتاب ان کا تعارف کراتی ہے، ان کے اور ان کی قوم کے بارے میں یہ الفاظ نازل ہوئے: {قَوْمٌ خَصِمُونَ۔} جھگڑنے والی قوم ہے۔ تم انہیں ان کے ساتھی کی طرف بھیج دو اور کتاب اللہ کے بارے میں ان سے مناظرہ مباحثہ نہ کرو تو ان کے خطیب حضرات اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے، اللہ کی قسم! ہم اللہ کی کتاب کے بارے میں ان سے مباحثہ کریں گے، اگر انہوں نے کوئی ایسی حق بات کہی جسے ہم جانتے ہوں تو ان کی پیروی کر لیں گے اور اگر انہوںنے کوئی غلط بات کہی تو ہم ان کے باطل کے ذریعہ ہی ان کا مقابلہ کریں گے، تو انہوں نے تین دن تک ان سے مباحثہ کیا، بالآخر ان میں سے چار ہزار آدمیوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا، ابن الکواء بھی ان توبہ کرنے والوں میں شامل تھا، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ان سب کو لے کر کوفہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاں حاضر ہوئے،اس کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے باقی ماندہ لوگوں کو پیغام بھیجا، کہ ہمارے اور لوگوں کے مابین جو کچھ ہو چکا تم وہ سب دیکھ چکے ہو، اب تم جہاں چاہو ٹھہرے رہو تاآنکہ امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات پر مجتمع ہوجائے، ہمارے اور تمہارے مابین یہ طے ہے کہ تم کسی حرمت والے کی خون ریزی نہ کرو اور نہ لوٹ مار کرو اور نہ کسی ذمی کے ذمہ کو توڑو اگر تم نے یہ کام کیے تو ہماری تم سے لڑائی ہوگی، بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سے کہا، اسے ابن شداد! علی رضی اللہ عنہ نے تو اپنے معاہدہ کے برعکس ان لوگوں کو قتل کیا، تو اس نے جواب دیا اللہ کی قسم! سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ان کے مقابلہ کے لیے اپنے آدمی اس وقت تک نہیں بھیجے جب تک کہ انہوں نے لوٹ مار نہ کی، خوں ریزی نہ کی اور ذمیوں کے ذمہ کو نہ توڑا تو سیدہ نے از راہ تعجب کہا، کیا واقعی اللہ کی قسم؟ ابن شداد نے کہا اللہ کی قسم، اسی اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ایسے ہی ہوا ہے؟تو سیدہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، اہل ذمہ کی جو بات مجھ تک پہنچی ہے اس کا کیا مفہوم ہے؟ وہ کہتے ہیں ذوالثدی، ذوالثدی یعنی عورت کے پستان جیسے بازووالا مارا گیا، ابن شداد نے کہا میں نے اسے دیکھا ہے، میں علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مقتولین کے پاس کھڑا تھا، انہوں نے لوگوںکو بلواکر پوچھا کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ تو کوئی آدمی اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا کہ میں نے اسے بنو فلاں کی مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے اور کوئی آدمی اسے جاننے پہچاننے کے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا اہل عراق جیسے بیان کرتے ہیں وہاں کھڑے ہو کر علی رضی اللہ عنہ نے کیا کہا؟ ابن شداد نے کہا، میںنے ان کو وہاں سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کیا تم نے ان کو اس کے علاوہ بھی کچھ کہتے سنا؟ اس نے کہا، اللہ گواہ ہے کہ میں نے ان سے اس کے علاوہ کچھ نہیں سنا، سیدہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہاں، اللہ اور اس کے رسول کی بات سچ ہے، علی رضی اللہ عنہ پر اللہ کی رحمت ہو انہیں جب بھی کوئی بات اچھی لگتی تو کہا کرتے اللہ اور اس کے رسول کی بات سچ ہے ، عراقی لوگ ان پر جھوٹ باندھتے اور ان کی باتوں میں ازخود اضافے کردیتے ہیں۔