۔ (۱۳۱۰۴)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبِیْ، قَالَ: ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ اِسْحٰقَ الطَّالقَانِیُّ قَالَ: حَدَّثَنِیْ النَّضْرُ بْنُ شُمَیْلِ نِ الْمَازِنِیُّ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبُوْ نَعَامَۃَ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبُوْ ھُنَیْدَۃَ الْبَرَائُ بْنُ نَوْفَلٍ عَنْ وَالَانَ الْعَدَوِیِّ عَنْ حُذَیْفَۃَ عَنْ اَبِی بَکْرِ نِ الصِّدِّیْقِ رضی اللہ عنہ قَالَ: اَصْبَحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذَاتَ یَوْمٍ فَصَلّٰی الْغَدَاۃَ، ثُمَّ جَلَسَ حَتّٰی اِذَا کَانَ مِنَ الضُّحٰی ضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ثُمَّ جَلَسَ مَکَانَہُ حَتّٰی صَلّٰی الْاُوْلٰی وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ، کُلَّ ذٰلِکَ لاَیَتَکَلَّمُ حَتّٰی صَلّٰی
الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ، ثُمَّ قَامَ اِلٰی اَھْلِہِ فَقَالَ النَّاسُ لِاَبِیْ بَکْرِ رضی اللہ عنہ : اَلَا تَسْاَلُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَا شَاْنُہُ، صَنَعَ الْیَوْمَ شَیْئًا لَمْ یَصْنَعْہُ قَطُّ، قَالَ: فَسَاَلَہُ فَقَالَ: ((نَعَمْ عُرِضَ عَلَیَّ مَا ھُوَکَائِنٌ مِنْ اَمْرِ الدُّنْیَا وَاَمْرِالْآخِرَۃِ فَجُمِعَ الْاَوَّلُوْنَ وَالْآخَرُوْنَ بِصَعِیْدٍ وَاحِدٍ، فَزِعَ النَّاسُ بِذٰلِکَ حَتّٰی انْطَلَقُوْا اِلٰی آدَمَ علیہ السلام وَالْعَرَقُ یَکَادُیُلْجِمُہُمْ فَقَالُوْا: یَاآدَمُ! اَنْتَ اَبُو الْبَشَرِ وَاَنْتَ اصْطَفَاکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ، قَالَ: لَقَدْ لَقِیْتُ مِثْلَ الَّذِیْ لَقِیْتُمْ، اِنْطَلِقُوْا اِلٰی اَبِیْکُمْ بَعْدَ اَبِیْکُمْ اِلٰی نُوْحٍ {اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوْحًا وَآلَ اِبْرَاہِیْمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلٰی الْعَالَمِیْن} قَالَ: فَیَنْطَلِقُوْنَ اِلٰی نُوْحٍ علیہ السلام فَیَقُوْلُوْنَ: اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ, فَاَنْتَ اصْطَفَاکَ اللّٰہُ وَاسْتَجَابَ لَکَ فِیْ دُعَائِکَ وَلَمْ یَدَعْ عَلٰی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا, فَیَقُوْلُ: لَیْسَ ذَاکُمْ عِنْدِیْ, اِنْطَلِقُوْا اِلٰی اِبْرَاہِیْمَ علیہ السلام فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِتَّخَذَہُ خَلِیْلاً، فَیَنْطَلِقُوْنَ اِلٰی اِبْرَاہِیْمَ فَیَقُوْلُ: لَیْسَ ذَاکُمْ عِنْدِیْ، وَلٰکِنْ اِنْطَلِقُوْا اِلٰی مُوْسٰی علیہ السلام فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ کَلَّمَہُ تَکْلِیْمًا فَیَقُوْلُ مُوْسٰی علیہ السلام : لَیْسَ ذَاکُمْ عِنْدِیْ وَلٰکِنِ انْطَلِقُوْا اِلٰی عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فَاِنَّہُ یُبْرِیئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَیُحْیِی الْمَوْتٰی فَیَقُوْلُ عِیْسٰی: لَیْسَ ذَاکُمْ عِنْدِیْ، وَلٰکِنِ انْطَلِقُوْا اِلٰی سَیِّدِ وُلْدِ آدَمَ فَاِنَّہ اَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْاَرْضُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِنْطَلِقُوْا اِلٰی مَحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَیَشْفَعُ لَکُمْ اِلٰی رَبِّکُمْ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: فَیَنْطَلِقُ فَیَاْتِیْ جِبْرِیْلُ علیہ السلام رَبَّہُ، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اِئْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ، قَالَ: فَیَنْطَلِقُ بِہٖجِبْرِیْلُ فَیَخِرُّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَۃٍ وَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ یَا مُحَمَّدُ! وَقُلْ یُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعُ قَالَ: فَیَرْفَعُ رَاْسَہُ فَاِذَا نَظَرَ اِلٰی رَبِّہٖعَزَّوَجَلَّخَرَّسَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَۃٍ اُخْرٰی، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَقُلْ یُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، قَالَ: فَیَذْھَبُ لِیَقَعَ سَاجِدًا فَیَاْخُذُ جِبْرِیْلُ علیہ السلام بِضَبْعَیْہِ فَیَفْتَحُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْہِ مِنَ الدُّعَائِ شَیْئًالَمْیَفْتَحْہُ عَلٰی بَشَرٍ قَطُّ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ خَلَقْتَنِیْ سَیِّدَ وُلْدِ آدَمَ وَلَافَخْرَ وَاَوَّلَ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْاَرْضُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَافَخْرَ، حَتّٰی اِنَّہُ لَیَرِدُ عَلَیَّ الْحَوْضَ اَکْثَرُ مِمَّا بَیْنَ صَنْعَائَ وَاَیْلَۃَ ، ثُمَّ یُقَالُ: اُدْعُوا الصِّدِّیْقِیْنَ فَیَشْفَعُوْنَ، ثُمَّ یُقَالُ: اُدْعُوالْاَنْبِیَائَ قَالَ: فَیَجِیْئُ النَّبِیُّ وَمَعَہُ الْعِصَابَۃُ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہُ الْخَمْسَۃُ وَالسِّتَّۃُ وَالنَّبِیُّ وَلَیْسَ مَعَہُ اَحَدٌ، ثُمَّ یُقَالُ: اُدْعُو الشُّہَدَائَ فَیَشْفَعُوْنَ لِمَنْ اَرَادُوْا، وَقَالَ: فَاِذَا فَعَلَتِ الشُّہَدَائُ ذٰلِکَ قَالَ: یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اَنَا اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ اَدْخِلُوْا جَنَّتِیْ مَنْ کَانَ لَا یُشْرِکُ بِیْ شَیْئًا، قَالَ: فَیَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ قَالَ: ثُمَّ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اُنْظُرُوْا فِی النَّارِ ھَلْ تَلْقَوْنَ مِنْ اَحَدٍ عَمِلَ خَیْرًا قَطُّ؟ قَالَ: فَیَجِدُوْنَ فِی النَّارِ رَجُلًا فَیَقُوْلُ لَہُ: ھَلْ عَمِلْتَ خَیْرًا قَطُّ؟ فَیَقُوْلُ: لَاغَیْرَ اَنِّیْ کُنْتُ اُسَامِحُ النَّاسَ فِی الْبَیْعِ وَالشِّرَائِ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اِسْمَحُوْا لِعَبْدِیْ کَاِسْمَاحِہٖاِلٰی عَبِیْدِیْ، ثُمَّ یُخْرِجُوْنَ مِنَ النَّارِ رَجُلًا فَیَقُوْلُ لَہُ: ھَلْ عَمِلْتَ خَیْرًا قَطُّ، فَیَقُوْلُ: لَا غَیْرَ اَنِّیْ قَدْ اَمَرْتُ وَلَدِیْ اِذَا مِتُّ فَاَحْرِقُوْنِیْ بِالنَّارِ ثُمَّ اطْحَنُوْنِیْ حَتّٰی اِذَا کُنْتُ مِثْلَ الْکُحْلِ، فَاذْھَبُوْا بِیْ اِلَی الْبَحْرِ، فَاذْرُوْنِیْ فِی الرِّیْحِ، فَوَ اللّٰہِ لَایَقْدِرُ عَلَیَّ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ اَبَدًا، فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: لِمَ فَعَلْتَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: مِنْ مَّخَافَتِکَ، قَالَ: فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اُنْظُرْ اِلٰی مُلْکِ اَعْظَمِ مَلِکٍ، فَلَکَ مِثْلُہُ وَعَشْرَۃُ اَمْثَالِہٖ،فَیَقُوْلُ: لِم تَسْخَرُ بِیْ وَاَنْتَ الْمَلِکُ؟ قَالَ: وَذٰلِکَ الَّذِیْ ضَحِکْتُ مِنْہُ مِنَ الضُّحٰی۔)) (مسند احمد: ۱۵)
سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجر کی نماز ادا کر کے بیٹھ گئے، یہاں تک کہ چاشت کا وقت ہوگیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہیں بیٹھے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں بھی وہیں ادا کیں اور کسی سے کوئی بات نہیں کی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز ادا کی اور اٹھ کر اپنے اہل ِ خانہ کی طرف چلے گئے تو لوگوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ اللہ کے رسول سے دریافت نہیں کرتے کہ کیا وجہ ہے کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا عمل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں کیا، چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں، دنیا اور آخرت میں جو کچھ ہونے والا ہے، آج میرے سامنے پیش کیا گیا، پہلے والے اور بعد والے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کیا جائے گا، وہاں وہ شدید کر ب و اذیت میں مبتلا ہوں گے کہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے، لوگوں کو منہوں تک پسینہ آیا ہوگا، وہ کہیں گے: اے آدم ! آپ ابو البشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخلوق میں سے منتخب کیا، آپ اپنے ربّ کے ہاں ہمارے حق میں سفارش کریں۔ وہ کہیں گے:میں بھی اسی قسم کی بے چینی میں مبتلا ہوں، جس میں تم پھنسے ہوئے ہو، تم اس طرح کرو کہ میرے بعد اپنے دوسرے باپ نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرَھِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلٰی الْعٰلَمِیْنَ} ( بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام ، نوح علیہ السلام ، آلِ ابراہیم اور آل عمران کو سارے جہان والوں میں سے منتخب فرمایا ہے۔) چنانچہ لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں جا کر ان سے گزارش کریں گے کہ وہ ان کے حق میں ربّ سے سفارش کریں، آخر اللہ تعالیٰ نے ان کولوگوں میں سے منتخب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، جس کے نتیجے میں اس نے زمین پر بسنے والے ایک کافر کو بھی نہیں چھوڑا، لیکن نوح علیہ السلام معذرت کرتے ہوئے کہیں گے:میں یہ کام نہیں کر سکتا، تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا خلیل بنایا تھا، پس وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جا کر ان سے اپنی بات ذکر کریں گے، لیکن وہ بھی معذرت کرتے ہوئے کہیں گے:میں یہ کام نہیں کر سکتا، تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ اعزاز عطا کیا ہے کہ ان سے براہ راست کلام کیا۔لیکن موسی علیہ السلام بھی یہ کہیں گے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا، تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ خصوصیت دی تھی کہ وہ مادر زا اندھوں کو بینا کر دیتے تھے، برص کے مریضوں کو ٹھیک کر دیتے اور مردوں کو زندہ کر دیتے تھے، لیکن عیسیٰ علیہ السلام بھی کہیں گے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا، البتہ تم اولادِ آدم کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چلے جاؤ۔ قیامت کے دن سب سے پہلے زمین ان سے پھٹی ہے اور وہ سب سے پہلے اٹھے ہیں، بس تم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہی چلے جاؤ، وہ تمہارے ربّ کے ہاں تمہارے حق میں سفارش کر سکتے ہیں۔ اُدھر جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچے گے اور اللہ تعالیٰ ان کو حکم دیتے ہوئے کہیں گے: تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو، حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر جائیں گے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک ہفتے کے برابر طویل سجدہ کریں گے،بالآخر اللہ تعالیٰ فرمائے گا:اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، کہو آپ کی بات سنی جائے گی، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر اٹھائیں گے، لیکن جونہی اپنے ربّ کو دیکھیں گے تو دوبارہ سجدہ ریز ہوجائیں گے اور ایک ہفتہ بھر سجدہ کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا:سر اٹھاؤ، کہو آپ کی بات سنی جائے گی، سفارش کرو آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، آپ پھر سجدہ ریز ہونے لگیں گے کہ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بازوؤں سے پکڑ لیں گے، تب اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی ایسی دعائیں سکھا دے گا کہ اس نے ایسی دعائیں آج تک کسی فرد کو نہیں سکھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں گے: اے میرے رب! تو نے مجھے اولادِ آدم کا سردار بنایا، میں اس پر فخر نہیں کرتا، قیامت کے دن سب سے پہلے زمین سے میں اٹھا، میں اس پر بھی فخر نہیںکرتا اور صنعاء اور ایلہ کے درمیان میں سما جانے والے لوگوں سے زیادہ لوگ پانی پینے کے لیے میرے حوض پر آئیں گے۔ پھر اعلان کیا جائے گا کہ صدّیقوں کو بلاؤ، وہ آکر گنہگاروں کے حق میں سفارش کریںگے، پھر اعلان کیا جائے گا کہ انبیاء کو بلاؤ،چنانچہ کوئی نبی آئے گا اوراس کے ساتھ امتیوں کی چھوٹی سی جماعت ہوگی، کسی نبی کے ساتھ پانچ،کسی کے ساتھ چھ افراد ہوں گے اور بعض نبی ایسے بھی ہوں گے کہ جن کے ساتھ کوئی آدمی نہیں ہوگا، پھر اعلان کیا جائے گا کہ شہداء کو بلاؤ، وہ بھی جن جن کے حق میں چاہیں گے سفارشیں کر یں گے، جب شہداء سفارش سے فارغ ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میںارحم الرحمین (سب سے زیادہ رحم کرنے والا) ہوں، تم ہر اس آدمی کو جنت میں لے جاؤ، جو میرے ساتھ شرک نہیں کرتا تھا، چنانچہ ایسے لوگ جنت میں چلے جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جہنم میں دیکھو، کیا تمہیں کوئی ایسا آدمی نظر آ رہا ہو، جس نے کبھی کوئی نیکی کی ہو؟ چنانچہ جہنم میں ایک آدمی سے کہا جائے گا: تو نے بھی کبھی کوئی نیکی کی تھی؟ وہ کہے گا: جی نہیں، کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، البتہ خرید و فروخت کرتے وقت میں لوگوں سے نرمی کیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ جس طرح میرے بندوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتا تھا، تم بھی میرے اس بندے کے ساتھ اسی طرح نرمی کرو۔اس کے بعد پھر وہ جہنم سے ایک آدمی کو نکال کر لائیں گے، اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نے کبھی کوئی نیکی کی ہے؟ وہ کہے گا: جی نہیں، میں نے تو اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ جب میں مر جاؤں تو تم مجھے آگ سے جلا ڈالنا، پھر میری راکھ کو پیسنا، جب میں سرمہ کی مانند باریک ہوجاؤں تو میری راکھ کو سمندر کی طرف لے جاکر ہواؤں میں اڑاد ینا، اللہ کی قسم، ایسا کرنے سے اللہ ربّ العالمین کو مجھ پر کوئی قدرت نہیں رہے گی، تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: تو نے یہ کام کیوں کیا تھا؟ وہ کہے گا: اے اللہ! تیرے خوف کی وجہ سے۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کی بادشاہت کو تصور کرو، تمہیں جنت میں وہ اور اس کا دس گنا دیا جائے گا۔ یہ سن کر وہ کہے گا: اے اللہ! تو تو بادشاہ ہے، تو میرے ساتھ مذاق کیوں کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ بات تھی، جس کی وجہ سے میں چاشت کے وقت مسکرایا تھا۔