۔ (۱۳۳۳۶)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِی ثَنَا عَبْْدُ الرَّزَّاقِ اَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّھْرِیِّ فِیْ قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ {کُلُّاُمَّۃٍ تُدْعٰی اِلٰی کِتَابِہَا} عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ النَّاسُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ نَرٰی رَبَّنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((ھَلْ تُضَارُّوْنَ فِی الشَّمْسِ لَیْسَ دُوْنَہَا سَحَابٌ؟)) قَالُوْا: لَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَاِنَّکُمْ تَرَوْنَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَذٰلِکَ یَجْمَعُ اللّٰہُ النَّاسَ فَیَقُوْلُ: مَنْ کَانَ یَعْبُدُ شَیْئًا فَلْیَتَّبِعْہُ، فَیَتَّبِعُ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ الْقَمَرَ الْقَمَرَ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ وَیَتَّبِعُ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ الطَّوَاغِیْتَ الطَّوَاغِیْتَ وَتَبْقٰی ہٰذِہِ الْاُمَّۃُ، فِیْہَا مُنَافِقُوْھَا فَیَاْتِیْہِمِ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْ غَیْرِالصُّوْرَۃِ الَّتِیْ تَعْرِفُوْنَ، فَیَقُوْلُ: اَنَا رَبُّکُمْ، فَیَقُوْلُوْنَ: نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْکَ ہٰذَا مَکَانُنَا حَتّٰییَاتِیَنَا رَبُّنَا، فَاِذَا جَائَ رَبُّنَا عَرَفْنَاہُ، قَالَ: فَیَاْتِیْہِمُ اللّٰہُ فِی الصُّوْرَۃِ الَّتِیْیَعْرِفُوْنَ، فَیَقُوْلُ: اَنَا رَبُّکُمْ، فَیَقُوْلُوْنَ: اَنْتَ رَبُّنَا فَیَتَّبِعُوْنَہُ، قَالَ: وَیُضْرَبُ
جَسْرٌعَلٰی جَہَنَّمَ۔)) قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((فَاَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ یُّجِیْزُ وَدَعْوَی الرُّسُلِ یَوْمَئِذٍ اَللّٰھُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ وَبِہَا کَلَالِیْبُ مِثْلُ شَوْکِ السَّعْدَانِ، ھَلْ رَاَیْتُمْ شَوْکَ السَّعْدَانِ؟)) قَالُوْا: نَعَمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَاِنَّہَا مِثْلُ شَوْکِ السَّعْدَانِ غَیْرَ اَنَّہُ لَایَعْلَمُ قَدْرَ عِظَمِھَا اِلَّا اللّٰہُ تَعَالٰی، فَتَخْطِفُ النَّاسَ بِاَعْمَالِھِمْ فَمِنْہُمُ الْمُوْبَقُ بِعَمَلِہٖوَمِنْہُمُالْمُخَرْدَلُثُمَّیَنْجُوا حَتّٰی اِذَا فَرَغَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الْقَضَائِ بَیْنَ الْعِبَادِ وَاَرَادَ اَنْ یُخْرِجَ مِنَ النَّارِ مَنْ اَرَادَ اَنْ یَّرْحَمَ مِمَّنْ کَانَ یَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اَمَرَ الْمَلَائِکَۃَیُخْرِجُوْھُمْ فَیَعْرِفُوْنَہُمْ بِعَلَامَۃِ آثَارِ السُّجُوْدِ وَحَرَّمَ اللّٰہُ عَلٰی النَّارِ اَنْ تَاْکُلَ مِنِ ابْنِ آدَمَ اَثَرَ السُّجُوْدِ فَیُخْرِجُوْنَہُمْ قَدِ امْتُحِشُوْا، فَیُصَبُّ عَلَیْہِمْ مِنْ مَائٍ یُقَالُ لَہُ: مَائُ الْحَیَاۃِ، فَیَنْبُتُوْنَ نَبَاتَ الْحَبَّۃِ فِیْ حَمِیْلِ السَّیْلِ وَیَبْقٰی رَجُلٌ یُقْبِلُ بِوَجْْہِہٖاِلَی النَّارِ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ قَدْ قَشَبَنِیْ رِیْحُہَا وَاَحْْرَقَنِیْ ذَکَاؤُھَا، فَاصْرِفْ وَجْہِیْ عَنِ النَّارِ فَلَایَزَالُیَدْعُوْ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰییَقُوْلَ: فَلَعَلِّیْ اِنْ اَعْطَیْتُکَ ذٰلِکَ اَنْ تَسْاَلَنِیْ غَیْْرَہُ، فَیَقُوْلُ: لَا وَعِزَّتِکَ! لَااَسْاَلُکَ غَیْرَہُ، فَیَصْرِفُ وَجْہَہُ عَنِ النَّارِ، فَیَقُوْلُ بَعْدَ ذٰلِکَ: یَارَبِّ! قَرِّبْنِیْ اِلٰی بَابِ الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: اَوَلَیْسَ قَدْ زَعَمْتَ اَنْ لَّاتَسْاَلَنِیْ غَیْرَہُ وَیْلَکَیَا ابْنَ آدَمَ! مَا اَغْدَرَکَ، فَلَا یَزَالُیَدْعُوْ حَتّٰییَقُوْلَ: فَلَعَلِّیْ اِنْ اَعْطَیْتُکَ ذٰلِکَ اَنْ تَسْاَلَنِیْ غَیْرَہُ، فَیَقُوْلُ: لَا، وَعِزَّتِکَ! لَااَسْاَلُکَ غَیْرَہُ وَیُعْطِیْ مِنْ عُہُوْدِہِ وَمَوَاثِیْقِہِ اَنْ لَایَسْاَلَ غَیْرَہُ، فَیُقَرِّبُہُ اِلٰی بَابِ الْجَنَّۃِ، فَاِذَا دَنَا مِنْہَا اِنْفَہَقَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ، فَاِذَا رَاٰی مَا فِیْہَا مِنَ الْحَبْرَۃِ وَالسُّرُوْرِ سَکَتَ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یَّسْکُتَ، ثُمَّ یَقُوْلُ: یَارَبِّ اَدْخِلْنِیَ الْجَنَّۃَ، فَیَقُوْلُ: اَوَلَیْسَ قَدْ زَعَمْتَ اَنْ لَّاتَسْاَلَ غَیْرَہُ فَقَدْ اَعْطَیْتَ عُہُوْدَکَ وَمَوَاثِیْقَکَ اَنْ لَاتَسْاَلَنِیْ غَیْرَہُ، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! لَاتَجْعَلْنِیْ اَشْقٰی خَلْقِکَ، فَلَایَزَالُیَدْعُو اللّٰہَ حَتّٰییَضْحَکَ اللّٰہُ فَاِذَا ضَحِکَ مِنْہُ اَذِنَ لَہُ بِالدُّخُوْلِ فِیْہَا، فَاِذَا دَخَلَ قِیْلَ لَہُ: تَمَنَّ مِنْ کَذَا فَیَتَمَنّٰی، ثُمَّ یُقَالُ لَہُ: تَمَنَّ مِنْ کَذَا فَیَتَمَنّٰی، حَتّٰی تَنْقَطِعَ بِہِ الْاَمَانِیُّ، فَیُقَالُ لَہُ: ہٰذَا لَکَ وَمِثْلُہُ مَعَہُ۔)) قَالَ اَبُوْ سَعِیْدٍ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ: ((ہٰذَا لَکَ وَعَشْرَۃُ اَمْثَالِہٖمَعَہُ۔)) قَالَاَبُوْھُرَیْرَۃَ: حَفِظْتُ مِثْلَہُ مَعَہُ، قَالَ اَبُوْ ھُرَیْرَۃَ: وَذٰلِکَ الرَّجُلُ آخِرُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلًا الْجَنَّۃَ۔ (مسند احمد: ۱۰۹۱۹)
اللہ تعالیٰ کے ارشاد {کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعِی اِلٰی کِتاَبھَا}( ہر گروہ کو اس کے نامہ ٔ اعمال کی طرف بلایاجائے گا۔) کی تفسیر میں امام زہری، عطاء بن یزید لیثی سے اور وہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آیا قیامت کے دن ہم اپنے ربّ کا دیدار کریں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا چودھویں شب کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کوئی مشقت پیش آتی ہے، جبکہ اس کے سامنے بادل بھی نہ ہوں؟ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! بالکل نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ کا دیدار کرو گے، اللہ تعالیٰ سب لوگوں کو جمع کر ے گا اور کہے گا: تم دنیامیں جس جس کی عبادت کرتے تھے، اس کے پیچھے چلے جاؤ، چنانچہ چاند کی عبادت کرنے والے چاند کے پیچھے ، سورج کی پوجا کرنے والے سورج کے پیچھے اور دوسرے طاغوتوں کی پوجا پاٹ کرنے والے ان کے پیچھے چل پڑیں گے، اس امت کے لوگ کھڑے رہ جائیںگے، ان میں منافقین بھی ہوںگے، تم اللہ تعالیٰ کی جو صور ت پہچانتے ہو، وہ اس کے علاوہ کسی اور صورت میں تمہارے پاس آکر کہے گا: میں تمہارا ربّ ہوں، وہ کہیں گے: ہم تو تیرے شرّ سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں، ہم تو یہیں ٹھہرے رہیں گے تاآنکہ ہمارا ربّ ہمارے پاس آ جائے، جب ہمارا ربّ ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا، جسے وہ پہچانتے ہوںگے، وہ کہے گا: میں تمہارا ربّ ہوں۔ وہ کہیں گے: واقعی تو ہمارا ربّ ہے، سو وہ اس کے پیچھے چل پڑیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جہنم کے اوپر ایک پل نصب کیا جائے گا، سب سے پہلے میں اسے عبور کروں گا، اس دن تمام انبیاء و رسل بھی خوف اور ڈر کے مارے یہ کہہ رہے ہوں گے: اے اللہ بچانا، اے اللہ محفوظ رکھنا، اس پل پر سعدان کے کانٹوں کی طرح خمدار کانٹے ہوں گے، کیا تم نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں؟ صحابہ نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بات ضرور ہے کہ ان کانٹوں کی ضخامت کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے،لوگوں کو ان کے اعمال کے حساب سے اچک لیاجائے گا،کوئی تو یوں ہی ہلاک ہو جائے گا اور کسی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہلاک کیا جائے گا،یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے کر کے فارغ ہوگا اور وہ توحید کی گواہی دینے والے اہل جہنم میں سے بعض پر رحم کرتے ہوئے ان کو جہنم سے نکالنے کا ارادہ کرے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ ان کو جہنم سے نکال لائیں، فرشتے ان اہل توحید کو سجدوں کے نشانات کی وجہ سے پہچان لیں گے، اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشانات کو کھائے، بہرحال فرشتے ان کو نکال کر لائیں گے، وہ جل جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے، ان پر مائُ الحیاۃ ڈالا جائے گا، اس سے وہ یوں اگیں گے جیسے سیلاب کی جھاگ وغیرہ میں دانے اگتے ہیں، ایسے لوگوں میں سے ایک آدمی باقی رہ جائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر کہے گا: اے میرے رب! مجھے جہنم کی ہوا نے تکلیف دی ہے اور اس کی گرمی کی شدت نے مجھے جلا کر رکھ دیا ہے، لہذا تو میرے چہرے کو آگ سے پھیر دے، وہ مسلسل دعائیں کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: اگر میں تیری یہ دعا قبول کر لوں تو کیا تواس کے علاوہ کوئی سوال تو نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: اے اللہ! مجھے تیری عزت کی قسم ہے کہ میں تجھ سے مزید کوئی مطالبہ نہیں کروں گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو آگ سے پھیر دے گا، لیکن اس کے بعد وہ پھر کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مزید کوئی مطالبہ نہیں کرے گا؟ اے ابن آدم! تجھ پر بڑا افسوس ہے، تو کس قدر وعدہ خلاف ہے، لیکن وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا اور اس سے دعائیں کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: اگر میں تیری یہ بات قبول کر لوں تو تو مزید تو کچھ نہیں مانگے گا؟ وہ کہے گا: اے اللہ! تیری عزت کی قسم! میں تجھ سے مزید کوئی مطالبہ نہیں کروں گا، وہ اس پر اللہ تعالیٰ سے پختہ وعدہ کرے گا، پس اللہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے کے قریب کر دے گا، پھر جب وہ جنت کے دروازے کے قریب پہنچ جائے گا، تو جنت اس کے لیے نمایاں اور وسیع ہوجائے گی، جب وہ جنت کے اندر کی راحتیںاور خوشیاں ملاحظہ کرے گا تو کچھ دیر تو خاموش رہے گا، لیکن بالآخر یوں بول پڑے گا: اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مزید کوئی مطالبہ نہیں کرے گا؟ جبکہ تو اس سلسلہ میں میرے ساتھ پختہ وعدے کر چکا ہے، وہ کہے گا: اے رب! تو اپنی مخلوق میں سے مجھے اپنی نعمتوں سے محروم نہیں رکھ، چنانچہ وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کو پکارتا اور دعائیں کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی باتوں پر ہنس دے گا، جب اللہ تعالیٰ اس کی باتوں پر ہنسے گا تو اسے جنت میں داخل ہونے کی اجازت بھی دے دے گا، جب وہ جنت میں جائے گا تو اس سے کہا جائے گا: تو جو تمنا کر سکتا ہے کر لے، یعنی جو مانگ سکتا ہے مانگ لے، چنانچہ وہ خوب مانگے گا، پھر اس سے کہا جائے گا کہ تو مزید مانگ لے چنانچہ وہ مزید مانگے گا، یہاں تک کہ اس کی خواہشات ختم ہوجائیں گے، اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سے کہاجائے گا: تو نے جو کچھ مانگا ہے، یہ سب اور اتنا مزید تجھے دیا جاتا ہے۔ جب سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بھی ان کے قریب تشریف فرما تھے، انھوں نے ان کی بیان کردہ کسی بھی بات میں کوئی تبدیلی نہیں کی، البتہ آخری بات کے بارے میں سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: میںنے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا تھا: تو نے جو کچھ مانگا، تجھے وہ بھی ملے گا اور اس سے مزید دس گنا دیا جاتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے تو اسی طرح یاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ تو نے جو کچھ مانگا تجھے یہ اور اتنا مزید دیا جاتا ہے، ساتھ ہی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:جنت میں جانے والا سب سے آخری آدمی یہ ہوگا۔