۔ (۹۷۴)۔عَنْ عِمْرَانَ بْنِ طَلْحَۃَ عَنْ أُمِّہِ حَمْنَۃَ بِنْتِ جَحْشٍؓ قَالَتْ: کُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَیْضَۃً شَدِیْدَۃً کَثِیْرَۃً، فَجِئْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَسْتَفْتِیْہِ وَأُخْبِرُہُ فَوَجَدْتُہُ فِیْ بَیْتِ أُخْتِیْ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ لِیْ اِلَیْکَ حَاجَۃً، فَقَالَ: ((مَاہِیَ؟)) فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنِّیْ اُسْتَحَاضُ حَیْضَۃً کَثِیْرَۃً شَدِیْدَۃً فَمَا تَرٰی فِیْہَا؟ قَدْ مَنَعَتْنِیَ الصَّلوٰۃَ وَالصِّیَامَ، قَالَ: ((أَنْعَتُ لَکِ الْکُرْسُفَ فَاِنَّہُ یُذْہِبُ الدَّمَ)) قَالَتْ: ہُوَ أَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: ((فَتَلَجَّمِیْ)) قَالَتْ: اِنَّمَا أَثُجُّ ثَجًا؟ فَقَالَ لَہَا: ((سَآمُرُکِ بِأَمَرَیْنِ، أَیُّہُمَا فَعَلْتِ فَقَدْ أَجْزَأَ عَنْکِ مِنَ الْآخَرِ، فَاِنْ قَوِیْتِ عَلَیْہِمَا فَأَنْتِ أَعْلَمُ۔)) فقَالَ لَہَا: ((اِنَّمَا ہٰذِہِ رَکَضَۃٌ مِنْ رَکَضَاتِ الشَّیْطَانِِ، فَتَحَیَّضِیْ سِتَّۃَ أَیَّامٍ اِلٰی سَبْعَۃٍ فِیْ عِلْمِ اللّٰہِ ثُمَّ اغْتَسِلِیْ حَتّٰی اِذَا رَأَیْتِ أَنَّکِ قَدْ طَہُرْتِ وَاسْتَیْقَنْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ فَصَلِّیْ أَرْبَعًا وَعِشْرِیْنَ لَیْلَۃً أَوْ ثَلَاثًا وَعِشْرِیْنَ لَیْلَۃً وَأَیَّامَہَا وَصُوْمِیْ فَاِنَّ ذٰلِکِ یُجْزِئُکِ وَکَذٰلِکِ فَافْعَلِیْ فِیْ کُلِّ شَہْرٍ کَمَا تَحِیْضُ النِّسَائُ وَکَمَا یَطْہُرْنَ بِمِیْقَاتِ حَیْضِہِنِّ وَطُہْرِہِنَّ، وَاِنْ قَوِیْتِ عَلٰی أَنْ
تُؤَخِّرِی الظُّہْرَ وَتُعَجِّلِیْ الْعَصْرَ فَتَغْتَسِلِیْنَ ثُمَّ تُصَلِّیْنَ الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ جَمِیْعًا ثُمَّ تُؤَخِّرِیْنَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلِیْنَ الْعِشَائَ ثُمَّ تَغْتَسِلِیْنَ وَتجْمَعِیْنَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ فَافْعَلِیْ، وَتَغْتَسِلِیْنَ مَعَ الْفَجْرِ وَتُصَلِّیْنَ، وَکذٰلِکِ فَافْعَلِیْ وَصَلِّیْ وَصُوْمِیْ اِنْ قَدَرْتِ عَلَی ذٰلِکَ)) وَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ((وَہٰذَا أَعْجَبُ الْأَمْرَیْنِ اِلَیَّ)) (مسند أحمد: ۲۸۰۲۲)
سیدہ حمنہ بنت جحش ؓ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: مجھے بڑی کثرت اور شدت سے استحاضہ کا کون آتا تھا، پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فتوی پوچھنے اور آپ کو اپنا مسئلہ بتانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی بہن سیدہ زینب بن جحشؓ کے گھر پایا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے آپ سے کوئی کام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے بڑی کثرت اور شدت سے استحاضہ کا خون آتا ہے، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، اس نے تو مجھے نماز اور روزے سے روک دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تجھے روئی کی تجویز دیتا ہوں، وہ خون کو ختم کر دے گی۔ میں نے کہا: وہ خون تو اس سے زیادہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر لنگوٹ کس لے۔ اس نے کہا: میں تو بہت خون بہا رہی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تجھے دو حکم دیتا ہوں، تو ان میں سے جو بھی کرے گی، وہ تجھے کفایت کرے گا، پس اگر تجھے اِن دونوں کو کرنے کی طاقت ہو تو تو خود بہتر جانتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ شیطان کی ٹھوکروںمیں سے ایک ٹھوکر ہے، پس تو چھ سے سات دن اپنے آپ کو حائضہ شمار کر جو بھی اللہ کے علم کے مطابق ہو، پھر اس طرح غسل کر کہ تجھے نظر آنے لگے کہ واقعی تو پاک اور صاف ہو گئی ہے اور تجھے اس چیز کا یقین ہو گیا ہے، پھر تو تئیس یا چوبیس دن نماز پڑھ اور روزے رکھ، پس یہ عمل تجھے کفایت کرے گا، پس تو ہر ماہ کو اسی طرح کر، جیسا کہ خواتین کو ان کے حیض اور طہر کے وقت میں حیض آتا ہے اور پھر وہ پاک ہو جاتی ہیں اور اگر تجھ میں اتنی قدرت ہے کہ تو ظہر کو مؤخر کر کے اور عصر کو معجل کر کے ان کیلئے غسل کر ے اور اِن دونوں کو اکٹھا کرکے ادا کرے، مغر ب کو مؤخر کر کے اور عشاء کو معجل کر کے ان کیلئے غسل کرے اور اِن دونوں کو اکٹھا کر کے ادا کرے اور فجر کے لیے علیحدہ غسل کر کے اس کو ادا کر لے، تو تو اسی طرح کر اور نماز پڑھ اور روزے رکھ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِن دو حکموں میں سے یہ عمل مجھے زیادہ پسند ہے۔