۔ (۹۹۹)۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا اِسْمٰعِیْلُ ثَنَا أَیُّوْبُ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ عَامِرٍ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِنْ بَنِیْ قُشَیْرٍ)
قَالَ: کُنْتُ کَافِرًا فَہَدَانِیَ اللّٰہُ لِلْاِسْلَامِ وکُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَائِ وَمَعِیَ أَہْلِیْ فَتُصِیْبُنِیْ الْجَنَابَۃُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَلَا أَجِدُ الْمَائَ فَأَتَیَمَّمُ) فَوَقَعَ ذٰلِکَ فِیْ نَفْسِیْ وَقَدْ نُعِتَ لِیْ أَبُوْ ذَرٍّ فَحَجَجْتُ فَدَخَلْتُ مَسْجِدَ مِنًی فَعَرَفْتُہُ بِالنَّعْتِ فَاِذَا شَیْخٌ مَعْرُوْقٌ آدَمُ عَلَیْہِ حُلَّۃٌ قِطْرِیٌّ فَذَہَبْتُ حَتَّی قُمْتُ اِلٰی جَنْبِہِ وَھُوَ یُصَلِّیْ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ، ثُمَّ صَلّٰی صَلَاۃً أَتَّمَہَا وَأَحْسَنَہَا وَأَطْوَلَہَا، فَلَمَّا فَرَغَ رَدَّ عَلَیَّ، قُلْتُ: أَنْتَ أَبُوْذَرٍّ؟ قَالَ: اِنَّ أَہْلِیْ لَیَزْعُمُوْنَ ذٰلِکَ، قَالَ: کُنْت کَافِرًا فَہَدَانِیَ اللّٰہُ لِلْاِسْلَامِ وَأَہَمَّنِی دِیْنِیْ وَکُنْت أَعْزُبُ عَنْ الْمَائِ وَمَعِیْ أَہْلِیْ فَتُصِیْبُنِیْ الْجَنَابَۃُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَلَبِثْتُ أَیَّامًا أَتَیَمَّمُ) فَوَقَعَ ذٰلِکَ فِیْ نَفْسِیْ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَأَشْکَلَ عَلَیَّ) قَالَ: ھَلْ تَعْرِفُ أَبَا ذَرٍّ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاِنِّی اجْتَوَیْتُ الْمَدِیْنَۃَ، قَالَ أَیُّوْبُ: أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا، فَأَمَرَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِذَوْدٍ مِنْ اِبِلٍ وَغَنَمٍ، فَکُنْتُ أَکُوْنُ فِیْھَا فکُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَائِ وَمَعِیْ أَہْلِیْ فَتُصِیْبُنِی الْجَنَابَۃُ فَوَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ أَنِّیْ قَدْ ہَلَکْتُ فَقَعَدْتُ عَلَی بَعِیْرٍ مِنْہَا، فَانْتَہَیْتُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نِصْفَ النَّہَارِ وَھُوَ جَالِسٌ فِیْ ظِلِّ الْمَسْجِدِ فِیْ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِہِ فَنَزَلَتُ عَنِ الْبَعِیْرِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَرَفَعَ رَأْسَہُ وَقَالَ: ((سُبْحَانَ اللّٰہِ! أَبُوْ ذَرٍّ؟)) فَقُلْتُ: نَعَمْ وقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہَلَکُتُ، قَالَ: ((وَمَا أَہْلَکَکَ؟)) فَحَدَّثْتُہُ فَضَحِکَ فَدَعَا اِنْسَانًا مِنْ أَہْلِہِ فَجَائَ تْ جَارِیَۃٌ سَوْدَائُ بِعُسٍّ فِیْہِ مَائٌ مَا ہُوَ بِمَلْآنَ اِنَّہُ لَیَتَخَضْخَضُ فَاسْتَتَرْتُ بِالْبَعِیْرِ، فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَجُلًا مِنَ الْقَوْمِ فَسَتَرَنِیْ، فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ أَتَیْتُہُ، فَقَالَ: ((اِنَّ الصَّعِیْدَ الطَّیِّبَ طَہُوْرٌ مَا لَمْ تَجِدِ الْمَائَ وَلَوْ اِلٰی عَشْرِ حِجَجٍ، فَاِذَا وَجَدْتَ الْمَائَ فَأَمِسَّ بَشَرَتَکَ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ((فَأَمْسِسْہُ بَشَرَتَکَ۔)) (مسند أحمد: ۲۱۶۲۹)
بنو عامر کا ایک آدمی (عمرو بن بجدان) کہتا ہے: میں کافر تھا، اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی، میں پانی سے دور تھا، جبکہ میری بیوی میرے ساتھ تھی، پس مجھے جنابت لاحق ہو جاتی تھی اور پانی نہ ہونے کی وجہ سے تیمم کرتا تھا، لیکن میرے دل میں شبہ سا پیدا ہوا اور سیدنا ابو ذر ؓ کے بارے میں بتلایا گیا، پس میں نے حج کیا اور مسجد ِ مِنٰی میں داخل ہوا اور اُن کو اُن کی صفات کی روشنی میں پہنچان لیا، وہ دبلے پتلے اور گندمی رنگ کے بزرگ تھے اور قطری حلہ زیب ِ تن کیا ہوا تھا، پس میں چلا، یہاں تک کہ میں ان کے پہلو کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور ان کو سلام کہا، جبکہ وہ نماز پڑھ رہے، اس لیے انھوں نے میرے سلام کا جواب نہ دیا، انھوں نے مکمل، خوبصورت اور طویل نماز پڑھی، جب وہ فارغ ہوئے تو میرے سلام کا جواب دیا، میں نے کہا: آپ ابو ذر ہیں؟ انھوں نے کہا: جی میرے اہل کا یہی خیال ہے (کہ میں ابو ذر ہوں)۔ میں نے کہا: میں کافر تھا، اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دی ہے، لیکن میرے دین نے مجھے بے چین کیا ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ میں پانی سے دور ہوں اور میرے ساتھ میری بیوی بھی ہے، اس لیے مجھے جنابت لاحق ہو جاتی ہے اور کئی دنوں تک تیمم کرتا رہتا ہوں، اس سے میرے دل میں کھٹکا سا پیدا ہوا ہے۔ انھوں نے کہا: کیا تم ابو ذر کو پہنچانتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، پھر انھوں نے کہا: مدینہ منورہ کی آب و فضا مجھے موافق نہ آئی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لیے چند اونٹوں اور بکریوں کا حکم دیا، پس میں ان میں ہوتا تھا اور پانی سے دور ہوتا تھا، جبکہ میرے ساتھ میری بیوی بھی ہوتی تھی، اس وجہ سے جنابت بھی لاحق ہو جاتی تھی، پس اس وجہ سے میرے دل میں کھٹکا سا پیدا ہوا، سو میں اونٹ پر بیٹھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، یہ نصف النہار کا وقت تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کے ایک گروہ میں مسجد کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، پس میں اونٹ سے اترا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: سبحان اللہ! ابو ذر؟ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! میں ہلاک ہو گیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس چیز نے تجھے ہلاک کر دیا؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری بات بتلائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور اپنے گھر والوں میں سے میں ایک انسان کو بلایا، تو کالے رنگ کی ایک لونڈی پانی کا بڑا پیالہ لے کر آئی، وہ بھراہوا نہیں تھا اور اس میں پانی چھلک رہا تھا، پس میں نے اونٹ کے ساتھ پردہ کیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قوم میں سے ایک آدمی کو حکم دیا اور اس نے میرے سامنے پردہ کیا، پس میں نے غسل کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک پاک مٹی اس وقت تک پاک کرنے والی ہے، جب تک تجھے پانی نہ ملے، اگرچہ دس سال نہ ملے، پھر جب تو پانی پا لے تو اس کو اپنے چمڑے پر لگا۔