۔ (۵۳)۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا أَ بُو النَّضْرِ ثَنَا عَبْدُالْحَمِیْدِ یَعْنِی بْنَ بِہْرَامَ ثَنَا شَہْرٌ (یَعْنِی بْنَ حَوْشَبٍ) ثَنَا ابْنُ غَنْمٍ عَنْ حَدِیْثِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (ؓ) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خَرَجَ بِالنَّاسِ قَبْلَ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ،فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحَ صَلّٰی بِالنَّاسِ صَلَاۃَ
الصُّبْحِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَکِبُوْا، فَلَمَّا أَنْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ نَعَسَ النَّاسُ فِی أَثَرِ الدُّلْجَۃِ وَلَزِمَ مُعَاذٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَتْلُوْ أَثَرَہُ وَ النَّاسُ تَفَرَّقَتْ بِہِمْ رِکَابُہُمْ عَلَی جَوَادِّ الطَّرِیْقِ تَأْکُلُ وَ تَسِیْرُ، فَبَیْنَمَا مُعَاذٌ عَلَی أَثَرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَ نَاقَتُہُ تَأْکُلُ مَرَّۃً وَ تَسِیْرُ أُخْرٰی عَثَرَتْ نَاقَۃُ مُعَاذٍ فَکَبَحَہَا بِالزِّمَامِ فَہَبَّتْ حَتَّی نَفَرَتْ مِنْہَا نَاقَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ثُمَّ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَشَفَ عَنْہُ قِنَاعَہُ فَالْتَفَتَ فَإِذَا لَیْسَ مِنَ الْجَیْشِ رَجُلٌ أَدْنٰی إِلَیْہِ مِنْ مُعَاذٍ،فَنَادَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: ((یَا مُعَاذُ!۔)) قَالَ: لَبَّیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، قَالَ: ((أُدْنُ دُوْنَکَ۔))،فَدَنَا مِنْہُ حَتَّی لَصِقَتْ رَاحِلَتُہُمَا أَحَدَاہُمَا بِالْأُخْرٰی فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((مَا کُنْتُ أَحْسِبُ النَّاسَ مِنَّا کَمَکَانِہِمْ مِنَ الْبُعْدِ۔))، فَقَالَ مُعَاذٌ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! نَعَسَ النَّاسُ فَتَفَرَّقَتْ بِہِمْ رِکَابُہُمْ تَرْتَعُ وَ تَسِیْرُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((وَ أَنَا کُنْتُ نَاعِسًا۔))، فَلَمَّا رَأَی مُعَاذٌ بُشْرٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلَیْہِ وَ خَلْوَتَہُ لَہُ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ائْذَنْ لِیْ أَسْأَلُکَ عَنْ کَلِمَۃٍ قَدْ أَمْرَضَتْنِیْ وَ أَسْقَمَتْنِیْ وَ أَحْزَنَتْنِیْ، فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ((سَلْنِیْ عَمَّا شِئْتَ۔))، فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! حَدِّثْنِیْ بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِیَ الْجَنَّۃَ لَا أَسْأَلُکَ عَنْ شَیْئٍ غَیْرِہٖ، قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((بَخٍ بَخٍ بَخٍ لَقَدْ سَأَلْتَ بِعَظِیْمٍ لَقَدْ سَأَلْتَ بِعَظِیْمٍ۔)) ثَـلَاثًا، ((وَ إِنَّہُ لَیَسِیْرٌ عَلَی مَنْ اَرَادَ اللّٰہُ بِہِ الْخَیْرَ۔)) فَلَمْ یُحَدِّثْہُ بِشَیْئٍ إِلَّا قَالَہُ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ یَعْنِیْ أَعَادَہُ عَلَیْہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ حِرْصًا لِکَیْمَا یُتْقِنُہُ عَنْہُ فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((تُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ تُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَ تَعْبُدُ اللّٰہَ وَحْدَہُ لَا تُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا حَتّٰی تَمُوْتَ وَ أَنْتَ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَعِدْ لِیْ، فَأَعَادَہَا لَہُ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُکَ یَا مُعَاذُ بَرَأْسِ ہٰذَا الْأَمْرِ وَ ذِرْوَۃِ سَنَامِہِ۔)) فَقَالَ مُعَاذٌ: بَلٰی بِأَبِیْ وَ أُمِّیْ أَنْتَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ فَحَدِّثْنِیْ، فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((إِنَّ ہَذَا الْأَمْرَ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، وَأَن قِوَامَ ہَذَا الْأَمْرِ إِقَامُ الصَّـلَاۃِ وَ إِیْتَائُ الزَّکَاۃِ، وَأَنَّ ذِرْوَۃَالسَّنَامِ مِنْہُ الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یُقِیْمُوا الصَّـلَاۃَ وَ یُؤْتُوا الزَّکَاۃَ وَ یَشْہَدُوْا أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ فَقَدِ اعْتَصَمُوْا وَ عَصَمُوْا دِمَائَہُمْ وَ أَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔))،وَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا شَحَبَ وَجْہٌ وَلَا اغْبَرَّتْ قَدَمٌ فِی عَمَلٍ تُبْتَغَی فِیْہِ دَرَجَاتُ الْجَنَّۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ الْمَفْرُوْضَۃِ کَجِہَادٍ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَلَا ثَقَّلَ مِیْزَانَ عَبْدٍ کَدَابَّۃٍ تَنْفُقُ لَہُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْ یَحْمِلُ عَلَیْہَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۴۷۳)
سیدنا معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ غزوۂ تبوک سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو لے کر نکلے، جب صبح ہوئی تو نمازِ فجر پڑھائی اور لوگ پھر سوار ہوئے اور چل پڑے، جب سورج طلوع ہوا تو رات کو چلتے رہنے کی وجہ سے لوگ اونگھنے لگ گئے، جبکہ سیدنا معاذ ؓ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، جبکہ لوگ سواریوں کو چرانے کے لیے ان کو لے کر بڑے راستوں کی طرف الگ الگ ہو گئے، بہرحال اُدھر سیدنا معاذؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چل رہے تھے، ان کی اونٹنی چرتی بھی گئی اور چلتی بھی رہی، اچانک وہ پھسل پڑھی، سیدنا معاذؓ نے لگام کھینچی، لیکن وہ دوڑنے لگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی بھی اس کی وجہ سے بدکنے لگی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر سے کپڑا اٹھایا اور پیچھے متوجہ ہوئے اور دیکھا کہ پورے لشکر میں سے سیدنا معاذ ؓہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا: اے معاذ! انھوں نے کہا: جی میں حاضر ہوں، اے اللہ کے نبی! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قریب ہو جا۔ پس وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتنے قریب ہو گئے کہ ایک سواری دوسری کے ساتھ مل گئی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرا یہ خیال تو نہیں تھا کہ لوگ اس قدر ہم سے دور رہ جائیں گے۔ سیدنا معاذ ؓ نے کہا: اے اللہ کے نبی! لوگوں کو اونگھ آنے لگ گئی اور ان کی سواریاں چرنے کے لیے دور دور تک بکھر گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں بھی اونگھ رہا ہوں۔ بہرحال جب سیدنا معاذؓ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ خوش ہیں اور ان کے ساتھ خلوت میں ہیں تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایک ایسی بات پوچھ لینے کی اجازت دیں، جس نے مجھے بیمار اور پریشان کر رکھا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو چاہتے ہو، سوال کر لو۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ مجھے ایسا عمل بتا دیں کہ جو مجھے جنت میں داخل کر دے میں آپ سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے سوال نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: واہ، واہ، واہ،تم نے بڑے عمل کے بارے میں سوال کر دیا ہے، تم نے تو بڑے عمل کے بارے میں سوال کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دفعہ یہ جملہ دوہرایا اور پھر فرمایا: لیکن یہ عمل اس آدمی کے لیے آسان ہے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کر لیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید کوئی بات بیان نہ کی، البتہ ان ہی الفاظ کو تین دفعہ دوہرایا تاکہ سیدنا معاذؓاس کو اچھی طرح یاد کر لیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (وہ عمل یہ ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ اورآخرت کے دن پر ایمان لاؤ، نماز قائم کرو، صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ (اور پھر تم اس سلسلے کو جاری رکھو) یہاں تک کہ اسی پر وفات پا جاؤ۔ انھوںنے آگے سے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ بات دوبارہ ارشاد فرماؤ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دفعہ دوہرا دی، پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! اگر تم چاہتے ہو تو میں اس دین کی اصل اور اس کی کوہان کی چوٹی کی وضاحت کر دیتا ہوں۔ سیدنا معاذ ؓ نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مجھے بیان کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس دین کی اصل یہ ہے کہ تم یہ گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہوں، اور اس دین کا سہارا اور ستون یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے اور زکوۃ ادا کی جائے اور اس کی کوہان کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے، مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے سے قتال کروں، جب تک اس طرح نہ ہو جائے کہ وہ نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں اور یہ شہادت دیں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے، وہ یکتا و یگانہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جب لوگ یہ امور سر انجام دیں گے تو وہ خود بھی بچ جائیں گے اور اپنے خونوں اور مالوں کو بھی بچا لیں گے، مگر ان کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! فرضی نماز کے بعد جنت کے درجات کو پانے کیلئے جہاد فی سبیل اللہ ہی ایک ایسا عمل ہے، جس میں چہرے کو متغیر کیا جائے اور قدموں کو خاک آلود کیا جائے او ربندے کے ترازو کو سب سے زیادہ بھاری کرنے والا یہ عمل ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے راستے میں کوئی چوپایہ خرچ کرو یا اللہ کے راستے میں کسی کو سواری دے دو۔