۔ (۱۰۹۲)۔عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلَی عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍؓ قَالَ: أُحِیْلَتِ الصَّلَاۃُ ثَلَاثَۃَ أَحْوَالٍ، وَاُحِیْلَ الصِّیَامُ ثَلَاثَۃَ اَحْوَالٍ، فَأَمَّا أَحْوَالُ الصَّلَاۃِ فَاِنَّ النَّبِیَّ َّقَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ وَھُوَ یُصَلِّیْ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا اِلَی بَیْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ اِنَّ اللّٰہَ أنَزَلَ عَلَیْہِ {قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَائِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا، فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہُ} قَالَ: فَوَجَّہَہُ اللّٰہُ اِلٰی مَکَّۃَ، قَالَ: فَھٰذَا حَوْلٌ، (قَالَ) وَکَانُوْا یَجْتَمِعُوْنَ لِلصَّلٰوۃِ وَیُؤْذِنُ بِہَا بَعْضُہُمْ
بَعْضًا حَتّٰی نَقَسُوْا أَوْ کَادُوْا یَنْقُسُوْنَ، قَالَ: ثُمَّ اِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ زَیْدٍ أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنِّیْ رَأَیْتُ فِیْمَا یَرَی النَّائِمُ وَلَوْ قُلْتُ اِنِّیْ لَمْ أَکُنْ نَائِمًا لَصَدَقْتُ، اِنِّیْ بَیْنَمَا أَنَا بَیْنَ النَّائِمِ وَالْیَقْظَانِ اِذْ رَأَیْتُ شَخْصًا عَلَیْہِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ فَقَالَ: اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، أَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، أَشْہَدُ أَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مَثْنٰی، حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الْأَذَانِ ثُمَّ أَمْھَلَ سَاعَۃً، قَالَ: ثُمَّ قَالَ مِثْلَ الَّذِیْ قَالَ غَیْرَ أَنَّہُ یَزِیْدُ فِیْ ذٰلِکَ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ((عَلِّمْہَا بِلَالًا فَلْیُؤَذِّنْ بِہَا۔)) فکَانَ بِلَالٌ أَوَّلَ مَنْ أَذَّنَ بِہَا، قَالَ: وَجَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّہُ قَدْ طَافَ بِیْ مِثْلُ الَّذِیْ أَطَافَ بِہِ غَیْرَ أَنَّہُ سَبَقَنِیْ، فَہٰذَانِ حَوْلَانِ، (قَالَ) وَکَانُوْا یَأْتُوْنَ الصَّلَاۃَ وَقَدْ سَبَقَہُمْ بِبِعْضِہَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، قَالَ: فَکَانَ الرَّجُلُ یُشِیْرُ اِلَی الرَّجُلِ اِذَا جَائَ کَمْ صَلّٰی؟ فَیَقُوْلُ وَاحِدَۃً أَوِ اثْنَتَیْنِ فَیُصَلِّیْہَا ثُمَّ یَدْخُلُ مَعَ الْقَوْمِ فِیْ صَلَاتِہِمْ، قَالَ: فجَائَ مُعَاذٌ فَقَالَ: لَا أَجِدُہُ عَلٰی حَالٍ أَ بَدًا اِلَّا کُنْتُ عَلَیْہَا ثُمَّ قَضَیْتُ مَا سَبَقَنِیْ، قَالَ: فَجَائَ وَقَدْ سَبَقَہُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِبَعْضِہَا، قَالَ: فَثَبَتَ مَعَہُ فَلَمَّا قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صَلَاتَہُ قَامَ فَقَضٰی، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ((اِنَّہُ قَدْ سَنَّ لَکُمْ مُعَاذٌ فَہٰکَذَا فَاصْنَعُوْا۔)) فَہٰذِہِ ثَلَاثَۃُ أَحْوَالٍ، وَأَمَّا أَحْوَالُ الصِّیَامِ (فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ)۔ (مسند أحمد: ۲۲۴۷۵)
سیدنا معاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں کہ نماز کو تین مراحل سے گزارا گیا اور روزوں کی فرضیت بھی تین مراحل میں ہوئی، نماز کے مراحل یہ ہیں: جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سترہ ماہ تک بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب متوجہ کریں گے، جس سے آپ خوش ہو جائیں گے، آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاںکہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ مکرمہ کی طرف متوجہ کر دیا، یہ ایک مرحلہ تھا، (دوسرے مرحلے کی تفصیل یہ ہے کہ) لوگ نماز کے لیے خود جمع ہوجاتے تھے اور وہ ایک دوسرے کو اِس کا بتلا ابتلا دیتے تھے، یہاں تک کہ قریب تھا کہ وہ ناقوس بجانے لگ جائیں، عبد اللہ بن زید ؓنامی ایک انصاری آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے ایک خواب دیکھا ہے، جیسا کہ سونے والا آدمی دیکھتا ہے، اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں سویا ہوا نہیں تھا، تو پھر بھی میں سچا ہوں گا، بس یوں سمجھیں کہ میں سونے اور جاگنے کی درمیانی کیفیت میں تھا کہ میں نے ایک آدمی دیکھا، اس پر دو سبز کپڑے تھے، پس وہ قبلہ رخ ہوا اور کہا: اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، أَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، أَشْہَدُ أَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دو دفعہ، یہاں تک کہ وہ اذان سے فارغ ہوا اور تھوڑی دیر ٹھہر کر پھر اسی طرح کے کلمات دوہرائے، البتہ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ کے الفاظ کا اضافہ کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم بلال کو یہ کلمات سکھا دو، وہ ان کے ذریعے اذان دے۔ پس سیدنا بلال ؓوہ شخصیت ہیں، جنھوں نے سب سے پہلے اذان دی، ان کی اذان سن کر سیدنا عمر بن خطاب ؓتشریف لائے اور کہا: اے اللہ کے رسول! (اذان سکھانے والے) اسی قسم کے ایک فرد نے میرا چکر بھی لگایا ہے، جیسا کہ اس انصاری کا چکر لگایا ہے، بس فرق یہ ہے کہ اس نے مجھ سے پہلے آپ کو اطلاع دے دی ہے، یہ دو تبدیلیاں ہوں گئیں۔ (تیسری تبدیلی اس طرح ہوئی کہ) جب لوگ نماز پڑھنے کے لیے آتے تھے، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے پہلے بعض رکعتیں پڑھا چکے ہوتے تھے تو وہ دوسرے آدمی کی طرف اشارہ کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنی رکعتیں پڑھ چکے، جب وہ جواب دیتا کہ ایک دو رکعتیں پڑھی جا چکی ہیں تو لیٹ آنے والا آدمی پہلے ان دو رکعتوں کو پورا کرتا اور پھر لوگوں کے ساتھ جماعت میں مل جاتا۔ ایک دن سیدنا معاذ ؓآئے اور کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس حالت پر پاؤں گا، اسی کو اختیار کر لوں گا، پھر جتنی رکعتیں مجھ سے پہلے پڑھی جا چکی ہوں گی، ان کو میں بعد میں پورا کر لوں گا۔ پس جب وہ آئے تو نبیِ کریم واقعی کچھ رکعتیں پڑھا چکے تھے، پس وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی مل گئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نماز پوری کی تو سیدنا معاذ ؓکھڑے ہو کر فوت ہو جانے والی رکعتوں کی قضائی دینے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو دیکھ کر فرمایا: بیشک شان یہ ہے کہ معاذ نے تمہارے لیے ایک طریقہ ایجاد کیا ہے، پس اسی طرح کیا کرو۔ یہ کل تین مراحل ہو گئے۔ رہی تفصیل روزوں کے مراحل کی ……۔ (اس کی تفصیل کتاب الصیام کے شروع میں آئے گی۔)