۔ (۱۲۳۳)۔عَنْ یَزِیْدَ بْنِ صُلَیْحٍ عَنْ ذِیْ مِخْمَرٍ وَکَانَ رَجُلًا مِنَ الْحَبْشَۃِ یَخْدُمُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: کُنَّا مَعَہُ فِیْ سَفَرٍ فَأَسْرَعَ السَّیْرَ حِیْنَ اِنْصَرَفَ وَکَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ لِقِلَّۃِ الزَّادِ، فَقَالَ لَہُ قَائِلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ اِنْقَطَعَ النَّاسُ وَرَائَ کَ، فَحَبَسَ وَحَبَسَ النَّاسُ مَعَہُ حَتّٰی تَکَافَلُوْا اِلَیْہِ،فَقَالَ لَہُمْ: ((ھَلْ لَکُمْ أَنْ نَہْجَعَ ہَجْعَۃً؟)) أَوْ قَالَ لَہُ قَائِلٌ، فَنَزَلَ وَنَزَلُوْا، فَقَالَ: ((مَنْ یَکْلَؤُنَا اللَّیْلَۃَ؟)) فَقُلْتُ: أَنَا جَعَلَنِیَ اللّٰہُ فِدَاکَ، فَأَعْطَانِیْ خِطَامَ نَاقَتِہِ فَقَالَ: ((ہَاکَ لَا تَکُوْنَنَّ لُکَعَ۔)) قَالَ: فَأَخَذْتُ بِخِطَامِ نَاقَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَبِخِطَامِ نَاقَتِیْ، فَتَنَحَّیْتُ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَخَلَّیْتُ سَبِیْلَہَا یَرْعَیَانِ، فَاِنِّیْ کَذَاکَ أَنْظُرُ اِلَیْہِمَا حَتّٰی أَخَذَنِی النَّوْمُ فَلَمْ أَشْعُرْ بِشَیْئٍ حَتّٰی وَجَدْتُّ حَرّ َالشَّمْسِ عَلٰی وَجْہِیْ، فَاسْتَیْقَظْتُ فَنَظَرْتُ یَمِیْنًا وَشِمَالًا فَاِذَا أَنَا بِالرَّاحِلَتَیْنِ مِنِّیْ غَیْرُ بَعِیْدٍ، فَأَخَذْتُ بِخِطَامِ نَاقَۃِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَبِخِطَامِ نَاقَتِیْ، فَأَتَیْتُ أَدْنَی الْقَوْمِ فَأَیْقَظْتُہُ، فَقُلْتُ لَہُ: أَصَلَّیْتُمْ؟ قَالَ: لَا، فَأَیْقَظَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا حَتّٰی اسْتَیْقَظَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ! ھَلْ لِیْ فِیْ
الْمِیْضَأَۃِ؟)) یَعْنِی الْاِدَاوَۃَ، قَالَ: نَعَمْ، جَعَلَنِیَ اللّٰہُ فِدَاکَ، فَأَتَاہُ بِوَضُوْئٍ فَتَوَضَّأَ وُضُوْئً ا لَمْ یَلُتَّ مِنْہُ التُّرَابَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ، ثُمَّ قَامَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَصَلَّی الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ وَھُوَ غَیْرُ عَجِلٍ ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ الصَّلَاۃَ فَصَلّٰی وَھُوَ غَیْرُ عَجِلٍ، فقَالَ لَہُ قَائِلٌ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَفْرَطْنَا، قَالَ: ((لَا، قَبَضَ اللّٰہُ أَرْوَاحَنَا وَقَدْ رَدَّہَا اِلَیْنَا وَقَدْ صَلَّیْنَا۔)) (مسند أحمد: ۱۶۹۴۹)
سیدنا ذو مخمرؓ، جو حبشی آدمی تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کرتے تھے، سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی چلے اور آپ زادِ راہ کے کم ہونے کی وجہ سے ایسا کیا کرتے تھے، کسی آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگ آپ سے پیچھے رہ گئے ہیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رک گئے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ رک گئے، یہاں تک سارے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مکمل ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم کو یہ ضرورت ہے کہ ہم تھوڑا سا سو لیں؟ یا کسی آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرنے کی رائے دی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتر پڑے اور لوگ بھی اتر پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آج رات کون ہماری حفاظت کرے گا۔ میں (ذو مخمر) نے کہا: میں کروں گا، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنی اونٹنی کی لگام تھما دی اور فرمایا: یہ پکڑ اور چھوٹو نہ بن جانا۔ پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی اور اپنی اونٹنی کی لگامیں پکڑیں اور تھوڑا سا دور ہو کر بیٹھ گیا اور ان کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا، میں ان کو دیکھ رہا تھا کہ مجھ پر نیند غالب آ گئی اور مجھے کوئی شعور نہ رہا، یہاں تک کہ میں نے اپنے چہرے پر سورج کی گرمی محسوس کی، پس میں بیدار ہوا اور دائیں بائیں دیکھا، سواریاں تو میرے قریب ہی تھیں، پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی اور اپنی اونٹنی کی لگامیں پکڑیں اور قریبی آدمی کے پاس گیا اور اس کو جگا کر پوچھا: کیا تم لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ اس نے کہا: جی نہیں، پھر لوگ ایک دوسرے کو جگانے لگ گئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بیدار ہو گئے اور فرمایا: بلال! کیا میرے لیے برتن میںپانی ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے، پس وہ وضو کا پانی لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا وضو کیا کہ نیچے والی مٹی بھی مکمل طور پر گیلی نہ ہو سکی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا بلالؓ کو حکم دیا، پس انھوں نے اذان کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فجر سے پہلے دو سنتیں ادا کیں، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی نہیں کر رہے تھے، پھر ان کو حکم دیا اور انھوں نے اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھائی، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدبازی سے کام نہیں لے رہے تھے، کسی نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم نے زیادتی کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اللہ تعالیٰ نے ہماری روحوں کو روکے رکھا اور جب اس نے لوٹایا تو ہم نے نماز پڑھ لی۔