۔ (۱۲۷۱) عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بِنْ عَبْدِالْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مُحَیْرِیْزٍ أَخْبَرَ وَ کَانَ یَتِیْمًا فِی حِجْرِ أَبِیْ مَحْذُورَۃَ حِینَ جَہَّزَہُ إِلَی الشَّامِ قَالَ: فَقْلْتُ ِلأَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ: یَاعَمِّ! إِنِّیْ خَارِجٌ إِلَی الشَّامِ وَأَخْشٰی أَنْ أُسْئَلَ عَنْ تَأْذِیْنِکَ، فَأَخْبَرَنِیِْ أَنَّ أَبَا مَحْذُوْرَۃَ قَالَ لَہُ: نَعَمْ، خَرَجْتُ فِی نَفَرٍ (وَفِی رِوَایَۃٍ فِی عَشْرَۃِ فِتْیَانٍ) فَکُنَّا بِبَعْضِ طَرِیقِ حُنَیْنِ، فَقَفَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ حُنَیْنٍ، فَلَقِیَناَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِبَعْضِ الطَّرِیْقِ، فَأَذَّنَ مُؤَذِّنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِالصَّلَاۃِ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فَسَمِعْنَا صَوْتَ الْمُؤَذِّنِ وَنَحْنُ مُتَنَکِّبُوْنَ فَصَرَخْنَا نَحْکِیْہِ وَنَسْتَہْزِیُٔ بِہِ فَسَمِعَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصَّوْتَ، فَأَرْسَلَ إِلَیْنَا إِلیَ أَنْ وَقَفْنَا بَیْنَیَدَیْہِ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((أَیُّکُمُ الَّذِیْ
سَمِعْتُ صَوْتَہُ قَدِ ارْتَفَعَ؟)) فَأَشَارَالْقَوْمُ کُلُّہُمْ إِلَیَّ وَصَدَقُوْا ، فَأَرْسَلَ کُلَّہُمْ وَحَبَسَنِیْ فَقَالَ: ((قُمْ فَأَذِّنْ بِالصَّلَاۃِ۔)) فَقُمْتُ وَلَا شَیْئَ أَکْرَہُ إِلَیَّ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَلَا مِمَّا یَأْمُرُنِیِْ بِہِ، فَقُمْتُ بَیْنَیَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَأَلْقٰی إِلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم التَّأْذِینَ ھُوَ نَفْسُہُ فَقَالَ: ((قُلْ: اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، أَشْھَدُ أنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ)) ثُمَّ قَالَ لِیْ: ((اِرْجِعْ فَامْدُ دْ مِنْ صَوْتِکَ)) ثُمَّ قَالَ: ((أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، أشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ اَللّٰہُ أَکْبَرُ، لَا إِلٰہَ إِلَا اللّٰہُ۔)) ثُمًّ دَعَانِی حِیْنَ قَضَیْتُ التَّأْذِیْنَ فَأَعْطَانِیْ صُرَّۃً فِیْہَا شَیْئٌ مِنْ فِضَّۃٍ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ عَلَی نَاصِیَۃِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ ثُمَّ أَمَرَّھَا عَلیَ وَجْہِہِ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ مَرَّتَیْنِ عَلَییَدَیْہِ ثُمَّ عَلَی کَبِدِہِ ثُمَّ بَلَغَتْ یَدُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سُرَّۃَ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((بَارَکَ اللّٰہُ فِیکََ۔)) فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مُرْنِیْ بِالتَّأْذِیْنِ بِمَکَّۃَ۔ فَقَالَ: ((قَدْ أَمَرْتُکَ بِہِ۔)) وَذَھَبَ کُلُّ شَیْئٍ کَانَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ کَرَاھِیَۃٍ وَعَادَ ذَالِکَ مَحَبَّۃً لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَدِمْتُ عَلَی عَتَّابِ بِنْ أَسِیْدٍ عَامِلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِمَکَّۃَ فَأَذَّنْتُ مَعَہُ بِالصَّلَاۃِ عَنْ أَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَخْبَرنِیْ ذَالِکَ مَنْ أَدْرَکْتُ مِنْ أَھْلِیْ مِمَّنْ أَدْرَکَ أَبَا مَحْذُوْرَۃَ عَلیَ نَحْوِ مَا أَخْبَرَ نِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بِنْ مُحَیْرِیْزٍٍ۔ (مسند احمد: ۱۵۴۵۴)
جس وقت عبد العزیز بن عبد الملک بن أبی محذورہ نے عبد اللہ بن محیریز، جو سیّدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی پرورش میں ایکیتیم تھے، کو شام کی طرف بھیجنے کے لیے تیار کیا تو عبد اللہ بن محیریز نے کہا:میں نے ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے عرض کی اے چچا جان! میں شام کی طرف جا رہا ہوں او رمجھے لگتا ہے کہ آپ کی اذان کے متعلق مجھ سے سوال ہو گا۔ عبد العزیز کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن محیریز نے اس کو بتایا کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا: ٹھیک ہے، میں تجھے اپنی اذان کے بارے میں بتا دیتا ہوں، میں کچھ لوگوں، اور ایک روایت کے مطابق دس نوجوانوں کے ساتھ نکلا،ہم حنین کے کسی راستہ میں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حنین سے واپس آرہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں ایک راستہ میں ملے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مؤذن نے نماز کے لیے اذان کہی، ہم نے مؤذن کی آواز سنی اور راستہ سے پیچھے ہٹ کر اس کی نقل اتارتے ہوئے اور مذاق کرتے ہوئے شور کرنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بلانے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: تم میں سے کون ہے، جس کی بلند آواز میں نے سنی ہے؟ سارے لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا اور وہ سچے تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا اور اور فرمانے لگے: کھڑا ہو جا اور نماز کے لیے اذان کہہ۔ میں کھڑا ہو گیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کا حکم مجھے سب سے بڑھ کر ناپسند تھا۔ بہرحال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذاتِ خود مجھے اذان کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: کہہ: اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، أَشْھَدُ أنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ پھر فرمایا: اپنی آواز بڑھا کر دوبارہ کہہ: أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، أشْھَدُأَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، لَا إِلٰہَ إِلَا اللّٰہُ جس وقت میں نے اذان پوری کر لی تو آپ نے مجھے بلا کر ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی۔ پھر آپ نے ابو محذورہ کی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے اس کے چہرے پر دو مرتبہ پھیرا، پھر اس کے ہاتھوں پر دو دفعہ پھیرا، پھر اس کے جگر پر ہاتھ مارا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ ابو محذورہ کی ناف تک پہنچ گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ (اللہ تجھ میں برکت فرمائے)َ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے مکہ میں اذان دینے کا حکم دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے تجھے یہ حکم دے دیا ہے۔ سیّدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جتنی کراہت تھی، وہ ساری کی ساری ختم ہو گئی او راس کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت پیدا ہو گئی۔ پھر میں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق) مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عامل عتاب بن اسید کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے نماز کے لیے اذان کہنا شروع کر دی۔ عبد العزیز بن عبد الملک کہتے ہیں: میرے گھر والوں میں سے جس جس نے مجھے یہ واقعہ بیان کیا، وہ عبد اللہ بن محیریز کے بیان کردہ واقعہ کے مطابق تھا۔