۔ (۱۳۸۲) عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ قَالَ حَدَّثَنِیْ أَبُو بَکْرِ بْنُ أَنْسِ ابْنِ مَالِکٍ قَالَ قَدِمِ أَبِیْ مِنَ الشَّامِ وَافِدًا وَأَنَا مَعَہُ فَلَقِیَنَا مَحْمُودُ بْنُ الرَّبیِعِ فَحَدَّثَ أَبِیْ حَدِیثًا عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِکٍ قَالَ أَبِیْ: أَیْ بُنَیَّ اِحْفَظْ ھٰذَا الْحَدِیْثَ فَإِنَّہُ مِنْ کُنُوزِ الْحَدِیْثِ، فَلَمَّا قَفَلْنَا اِنْصَرَفْنَا إِلَی الْمَدِیْنَۃِ فَسَأَلْنَا عَنْہُ فَإِذَا ھُوَ حَیٌّ وَإِذَا شَیْخٌ أَعْمٰی مَعَہُ، قَالَ فَسَأَلْنَا ہُ عَنِ الْحَدِیْثِ فَقَالَ نَعَمْ، ذَھَبَ بَصَرِیْ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ذَھَبَ بَصَرِیْ وَلَا أَسْتَطِیعُ الصَّلَاۃَ خَلْفَکَ، فَلَوْ بَوَّأْتُ فِیْ دَاِریْ مَسْجِدًا فَصَلَّیْتَ فِیْہِ فَأَتَّخِذُہُ مُصَلیًّ قَالَ: ((نَعَمْ، فَإِنِّیْ غَادٍ عَلَیْکَ غَداً۔)) قَالَ: فَلَمَّا صَلّٰی مِنَ الْغَدِ اِلْتَفَتَ إِلَیْہِ فَقَامَ حَتّٰی أَتَاہُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَجَائَ ھُوَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ) فَقَالَ ((یَا عِتْبَانُ! أَیْنَ تُحِبُّ أَنْ أُبَوِّیئَ لَکَ؟)) فَوَصَفَ لَہُ مَکَانًا فََبَوَّأَ لَہُ وَصَلّٰی فِیْہِ، ثُمَّ حُبِسَ أَوْ جَلَسَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَاحْتَبَسُوْا عَلٰی طَعَامٍ) وَبَلَغَ مَنْ حَوْلَنَا مِنَ الْأَنْصَاِر فَجَائُ وْا حَتّٰی مُلِئَتْ عَلَیْنَا الدَّارُ فَذَکَرُوْا الْمُنَافِقِیْنَ وَمَا یَلْقَوْنَ مِنْ أَذَاھُمْ وَشَرِّھِمْ حَتّٰی صَیَّرُوْا أَمْرَھُمْ إِلٰی رَجُلٍ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہُ مَالِکُ بْنُ الدُّخْشُمَ (وَفِیْ
رِوَایَۃٍ الدُّخْشُنِ أَوِ الدُّخَیْشِنِ) وَقَالُوْا مِنْ حَالِہِ وَمِنْ حَالِہِ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سَاکِتٌ، فَلَمَّا اَکْثَرُوْا، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((أَلَیْسَیَشْہَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ؟)) فَلَمَّا کَانَ فِی الثَّالِثَۃِ، قَالُوْا: إِنَّہُ لَیَقُولُہُ، قَالَ: ((وَالَّذِی بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ! لَئِنْ قَالَھَا صَادِقًا مِنْ قَلْبِہِ لَا تَأْ کُلُہٗالنَّارُأَبَدًا۔)) قَالُوْا: فَمَافَرِحُوْابِشَیْئٍ قَطُّ کَفَرَحِہِمْ بِمَا قَالَ۔ (مسند احمد: ۱۶۵۹۸)
ابو بکر بن انس بن مالک کہتے ہیں کہ میرے والد وفد کی صورت میں شام سے آئے،میں بھی ان کے ساتھ تھا،ہمیں محمود بن ربیع ملے، انہوں نے میرے والد کو سیّدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بیان کی، میرے والد کہنے لگے: میرے پیارے بیٹے! یہ حدیثیاد کرلو کیونکہیہ حدیثخزائنِ حدیث میں سے ہے۔ پھر جب ہم واپس گئے تومدینہ جا کر ان کے بارے پوچھا، وہ زندہ تھے اور ان کے پاس ایک نابینا بزرگ بھی تھے۔ ہم نے ان سے حدیث کے بارے میں پوچھا، وہ کہنے لگے: جی ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں میری نظر ختم ہو گئی، اس لیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! میری نظر ختم ہو گئی ہے، میں آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا، اگر آپ میرے گھر میں مسجد کے لیے کوئی جگہ پسند فرما کر اس میں نماز پڑھتے تو میں اسے جائے نماز بنالیتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، کل صبح میں تیرے پاس آؤں گا۔ اگلے دن آپ نے (فجر کی) نماز پڑھی تو اس کی طرف چل پڑے حتی کہ اس کے پاس پہنچ گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہما تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عتبان! تو کہاں پسندکرتاہے کہ میں تیرے لیے (نماز کی) جگہ متعین کروں؟ اس نے ایک جگہ کا تعین کیا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں بیٹھ گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ کھانے کے لیے رک گئے۔ جب اردا گرد کے انصار کو (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا) پتہ چلا تو وہ بھی جمع ہونے لگ گئے حتی کہ ہمارا گھر بھر گیا۔لوگ وہاںمنافقوں اور ان کی
طرف سے آنے والی تکلیف اور شرّ کا ذکر کرنے لگے، حتی کہ مالک بن دخشم (یا دخشن یا دخیشن) نامی آدمی کا تذکرہ چل نکلا، لوگوں نے اس کے بارے میں کافی باتیں کیں کہ وہ ایسا ہے، وہ ویسا ہے، جبکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموشی کے ساتھ تشریف فرما تھے، جب بہت زیادہ باتیں ہونے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیایہ شخص لاإلہ إلا اللہ کی گواہی نہیں دیتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دفعہ یہ سوال کیا، جس کا جواب دیتے ہوئے لوگ کہنے لگے: یہ کلمہ تو وہ پڑھتا ہے۔ یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق دے کر مبعوث کیا ہے! اگر وہ صدقِ دل سے یہکلمہ پڑھتا ہے آگ کبھی بھی اس کو نہیں کھائے گی۔ لوگ کبھی بھی کسی چیز سے اتنے خوش نہیں ہوئے جتنا کہ ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے خوشی ہوئی۔