۔ (۲۰۱)۔عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمَرَ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ(ؓ): اِنَّا نُسَافِرُ فِی الْآفَاقِ فَنَلْقٰی قَوْمًا یَقُوْلُوْنَ لَا قَدَرَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اِذَا لَقِیْتُمُوْہُمْ فَأَخْبِرُوْہُمْ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ مِنْہُمْ بِرِیْئٌ وَأَنَّہُمْ مِنْہُ بُرَائُ ثَـلَاثًا، ثُمَّ أَنْشَأَ یُحَدِّثُ، بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَجَائَ رَجُلٌ، فَذَکَرَ مِنْ ہَیْئَتِہِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ((أُدْنُہُ۔)) فَدَنَا، فَقَالَ: ((أدْنُہُ۔)) فَدَنَا، فَقَالَ: ((أدْنُہُ۔)) فَدَنَا حَتَّی کَادَ رُکْبَتَاہُ تَمَسَّانِ رُکْبَتَیْہِ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِیْ مَا الْاِیْمَانُ أَوْ عَنِ الْاِیْمَانِ؟ قَالَ: ((تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ
وَ تُؤْمِنُ بِالْقَدْرِ۔)) قَالَ سُفْیَانُ: أَرَاہُ قَالَ: ((بِخَیْرِہِ وَ شَرِّہِ۔)) قَالَ: فَمَا الْاِسْلَامُ؟ قَالَ: ((اِقَامُ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَائُ الزَّکَاۃِ وَحَجُّ الْبَیْتِ وَصِیَامُ شَہْرِ رَمَضَانَ وَ غُسْلٌ مِنَ الْجَنَابَۃِ۔)) کُلَّ ذٰلِکَ قََالَ: صَدَقْتَ صَدَقْتَ، قَالَ الْقَوْمُ: مَا رَأَیْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِیْرًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ ہٰذَا، کَأَنَّہُ یُعْلِّمُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ، قَالَ: ((أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ۔)) أَوْ ((تَعْبُدُہُ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَا تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ۔)) کُلَّ ذٰلِکَ نَقُوْلُ: مَا رَاَیْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِیْرًا لِرُسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ ہٰذَا، فَیَقُوْلُ: صَدَقْتَ صَدَقْتَ،قَالَ: أَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ، قَالَ: ((مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ بِہَامِنَ السَّائِلِ۔))، قَالَ: فَقَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ ذَاکَ مِرَارًا، مَا رَأَیْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِیْرًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ ہٰذَا، ثُمَّ وَلّٰی، قَالَ سُفْیَانُ: فَبَلَغَنِیْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: ((الْتَمِسُوْہُ۔)) فَلَمْ یَجِدُوْہُ،قَالَ: ((ہٰذَا جِبْرِیْلُ جَائَکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ، مَا أَتَانِیْ فِیْ صُوْرَۃٍ اِلَّا عَرَفْتُہُ غَیْرَ ہٰذِہِ الصُّوْرَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۳۷۴)
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے کہا: ہم لوگ مختلف علاقوں کا سفر کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی تقدیر نہیں ہے، سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا: اب جب تم ان کو ملو تو ان کو یہ بتلا دینا کہ عبد اللہ بن عمر ان سے اور وہ اِن سے بری ہیں، انھوں نے تین دفعہ یہ بات کہی، پھر انھوں نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا، پھر اس کی حالت بیان کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: قریب ہو جا۔ پس وہ قریب ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: مزید قریب ہو جا۔ وہ اور قریب ہو گیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور قریب ہو جاؤ۔ پس وہ اتنا قریب ہو گیا کہ اس کے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھٹنوں کو مسّ کرنے لگے، پھر اس بندے نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے بتلائیں کہ ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالی، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن اور تقدیر، وہ خیر والی ہو یا شرّ والی، پر ایمان لاؤ۔ اس نے کہا: اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور غسلِ جنابت کرنا اسلام ہے۔ ہر دفعہ اس نے جواب میں کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں، آپ سچ فرما رہے ہیں۔ لوگوں نے کہا: ہم نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا کہ جو اس سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توقیر کرنے والا ہو، لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تعلیم دے رہا ہے، بہرحال اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے احسان کے بارے میں بتلائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کر گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ ہر دفعہ ہم کہتے: ہم نے ایسا آدمی نہیں دیکھا جو اس سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توقیر کرنے والا ہو، پھر اس نے کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں، آپ سچ فرما رہے ہیں، اچھا اب مجھے قیامت کے بارے میں بتلائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے بارے میں تو مسئول، سائل سے زیادہ جاننے والا نہیں ہے۔ اس نے کہا: آپ سچ کہہ رہے ہیں، اس نے کئی دفعہ یہ بات کہی، ہم نے اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے زیادہ عزت کرنے والا پایا، پھر وہ چلا گیا۔ سفیان کہتے ہیں: مجھے یہ بات بھی موصول ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کو تلاش کرو۔ لیکن صحابہ اس کو تلاش نہ کر سکے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ جبریلؑ تھے، وہ تم لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے، پہلے تو جس صورت میں آتے تھے، میں اِن کو پہچان لیتا تھا، ما سوائے اس صورت کے، (آج میں اِن کو نہیں پہچان سکا)۔