۔ (۱۹۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ عَدِیٍّ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ (یَعْنِیْ ابْنَ سِیْرِیْنَ) عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِحْدٰی صَلَاتَیِ الْعَشِیِّ، قَالَ: ذَکَرَھَا أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ وَنَسِیَہَا مَحَمَّدٌ، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ وَأَتٰی خَشَبَۃً مُعْرُوْضَۃً فِی الْمَسْجِدِ (وَفِی رِوَایَۃٍ: ثُمَّ أَتٰی جِذْعًا فِی الْقِبْلَۃِ کَانَ یُسْنِدُ إِلَیْہِ ظَھْرَہُ فَأَسْنَدَ إِلَیْہِ ظَھْرَہُ) فَقَالَ بِیَدِہِ عَلَیْہَا کَأَنَّہُ غَضْبَانُ وَخَرَجَتِ السَّرْعَانُ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ قَالُوْا: قُصِرَتِ الصَّلَاۃُ، قَالَ: وَفِی الْقَوْمِ أَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ، فَہَابَاہُ اَنْ یُکَلِّمَاہُ، وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ فِیْیَدَیْہِ طُوْلٌ، یُسَمّٰی ذَا الْیَدَیْنِ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَنَسِیْتَ أَمْ قُصِرَتِ الصَّلَاۃُ؟ فَقَالَ: ((لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تُقَصَرِ الصَّلَاۃُ (وَفِی رِوَایَۃٍ مَاقُصِرَتْ وَمَا نَسِیْتُ)۔)) قَالَ: فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ إِلاَّ رَکْعَتَیْنِ، قَالَ: ((کَمَا یَقُوْلُ ذَُوالْیَدَیْنِ؟)) قَالُوْا: نَعَمْ، فَجَائَ فَصَلَّی الَّذِی تَرَکَ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ کَبَّرَ فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُوْدِہِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ وَکَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ
سُجُوْدِہِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ وَکَبَّرَ، قَالَ: فَکَانَ مُحَمَّدٌ یُسْئَلُ: ثُمَّ سَلَّمَ؟ فَیَقُوْلُ: نُبِّئْتُ أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ قَالَ: ثُمَّ سَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۷۲۰۰)
سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پچھلے پہر کی (ظہر اور عصر کی) دو نمازوں میں سے ایک نماز پڑھائی، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے تو اس نماز کا ذکر کیا تھا، لیکن ابن سیرین اس کو بھول گئے تھے، بہرحال آپ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا اور مسجد میں پڑی ہوئی ایک لکڑی کے پاس آ گئے۔ایک روایت میں ہے: پھر آپ قبلہ کی سمت پڑے ہوئے ایک تنے کے پاس آئے آپ اس کے ساتھ کمر کی ٹیک لگا لیا کرتے تھے۔ پس آپ نے اس کے ساتھ کمر کی ٹیک لگا لی اور اپنا ہاتھ بھی اس پر رکھ لیا، گویا کہ آپ غصے میں ہیں،اُدھر مسجد کے دروازوں سے جلد باز لوگ یوں کہتے ہوئے نکلتے گئے: نماز کم ہو گئی ہے۔ لوگوں میں سیدنا ابو بکراورسیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے، لیکن وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کرنے سے گھبرا گئے، لوگوں میں ایک آدمی تھا، اس کے ہاتھ ذرا لمبے تھے، اسی وجہ سے اسے ذوالیدین کہتے تھے، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیںیا نماز کم ہوگئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم ہوئی ہے۔ وہ کہنے لگا: یقینا آپ نے دو رکعتیں پڑھائی ہیں۔ آپ نے پوچھا: (بات ایسے ہی ہے) جیسے ذوالیدین کہہ رہا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور نماز کی جتنی رکعتیں رہ گئی تھیں، وہ ادا کیں، پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبر کہا اور عام سجدوں کی طرح یا ان سے بھی لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور اللہ اکبر کہا، پھر عام سجدوں کی طرح یا لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور اللہ اکبر کہا، ابن عون کہتے ہیں: جب محمد بن سیرین سے پوچھا گیا کہ کیا (سجدوں کے بعد) سلام پھیرا تھا، تو انھوں نے کہا: مجھے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ بتلایا گیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تھا۔