۔ (۲۰۳۰) (وَمِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ) عَنْ عَبْدِالْوَاحِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ رضی اللہ عنہ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَتَوَجَّہَ نَحْوَ صَدَفَتِہِ فَدَخَلَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ فَخَرَّ سَاجِدًا فَأَطَالَ السُّجُوْدَ حَتّٰی ظَنُنْتُ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَبَضَ نَفْسَہُ فِیْہَا، فَدَنَوْتُ مِنْہُ فَجَلَسْتُ فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ: ((مَنْ ھٰذَا؟)) قُلْتُ: عَبْدُالرَّحْمٰنِ، قَالَ: ((مَاشَأْنُکَ؟)) قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! سَجَدْتَّ سَجْدَۃً خَشِیْتُ أَنْ یَکُونَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ قَدْ قَبَضَ نَفْسَکَ فِیْھَا، فَقَالَ: ((أِنَّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَتَانِیْ فَبَشَّرَنِیْ فَقَالَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ: مَنْ صَلّٰی عَلَیْکَ صَلَّیْتُ عَلَیْہِ، وَمَنْ سَلَّمَ عَلَیْکَ سَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَسَجَدْتُّ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ شُکْرًا۔)) (مسند احمد: ۱۶۶۴)
سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ روایت ہے، وہ کہتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند کھجوروں کی طرف نکلے، ان میں داخل ہوئے اورقبلہ رخ ہو کر سجدہ میں گر پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنا لمبا سجدہ کیاکہ مجھے تو یہ گمان ہونے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کرلی ہے، بہرحال میں آپ کے قریب ہو کر بیٹھ گیا اور اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اٹھا لیا اور فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: عبدالرحمن ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تجھے کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا سجدہ کیا ہے کہ میں ڈر گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت کر دیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بات یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے یہ خوشخبری دی: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جو آدمی آپ کے لیے رحمت کی دعا کرے گا، میں اس پر رحمت بھیجوں گا اور جو آپ پر سلام بھیجے گا، میںبھی اس پر سلام بھیجوں گا، تو میںنے اللہ تعالیٰ کے لئے شکرانے کے طور پر سجدہ
کیا۔