۔ (۲۰۶۹) عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ھِشَامٍ قَالَ: أَجْمَعَ أَبِیْ عَلَی الْعُمْرَۃِ، فَلَمَّا حَضَرَ خُرُوْجُہُ، قَالَ: أَیْ بُنَیَّ! لَوْ دَخَلْنَا عَلَی الْأَمِیْرِ فَوَدَّعْنَاہُ، قُلْتُ: مَاشِئْتَ، قَالَ: فَدَ خَلْنَا عَلٰی مَرْوَانَ وَعِنْدَہُ
نَفَرٌ فِیْہِمْ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ رضی اللہ عنہ ، فَذَکَرُوْا الرَّکَعَتَیْنِ الَّتِیْیُصَلِّیْھِمَا ابْنُ الزُّبَیْرِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فََقَالَ لَہُ مَرْوَانُ: مِمَّنْ أَخَذْتَہُمَا یَا ابْنَ الزُّبَیْرِ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِی بِہِمَا أَبُوھُرَیْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ، فَأَرْسَلَ مَرْوَانُ إِلٰی عَائِشَۃَ: مَا رَکْعَتَانِ یَذْ کُرُھُمَا ابْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ أَبَا ھُرَیْرَۃَ أَخْبَرَہُ عَنْکِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْہِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ؟ فَأَرْسَلَتْ إِلَیْہِ أَخْبَرَتْنِیْ أُمُّ سَلَمَۃَ رضی اللہ عنہا ، فأَرْسَلَ إِلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ: مَارَکْعَتَانَ زَعَمَتْ عَائِشَۃُ أَنَّکِ أَخْبَرْتِیْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْہِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَتْ: یَغْفِرُ اللّٰہُ لِعَائِشَۃَ، لَقَدْ وَضَعَتْ أَمْرِیْ عَلٰی غَیْرِ مَوْضِعِہِ، صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الظُّہْرَ وَقَدَ أُتِیَ بِمَالٍ، فَقَعَدَ یَقْسِمُہُ حَتّٰی أَتَاہُ الْمُؤَذِّنُ بِالْعَصْرَ، فَصَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَیَّ وَکَانَ یَوْمِیْ، فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ، فَقُلْنَا: مَاھَاتَانِ الرَّ کْعَتَانِیَارَسُولَ اللّٰہِ؟ أُمِرْتَ بِہِمَا؟ قَالَ: ((لَا، وَلٰکِنَّھُمَا رَکْعَتَانِ کُنْتُ أَرْکَعُہُمَا بَعْدَ الظُّہْرِ فَشَغَلَنِی قَسْمُ ھٰذَا الْمَالِ حَتّٰی جَائَ نِی الْمُؤَذِّنُ بِالْعَصْرِ فَکَرِھْتُ أَنْ أَدَعَہُمَا۔)) فَقَالَ ابْنُ الزُّبِیْرِ: اَللّٰہُ أَکْبَرُ، أَلَیْسَ قَدَ صَلاَّھُمَا مَرَّۃً وَاحِدَۃً؟ وَاللّٰہِ! لَا أَدَعُہُمَا أَبَدًا، وَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: مَارَأَیْتُہُ صَلاَّھُمَا قَبْلَہَا وَلَا بَعْدَھَا۔ (مسند احمد: ۲۷۰۹۵)
ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں: میرے باپ نے عمرہ کرنے کا ارادہ کیا، جب ان کے سفر کے لئے نکلنے کا وقت آیا تو انھوں نے مجھے کہا: اے میرے پیارے بیٹے! اگر ہم امیر (مروان بن حکم) کے پاس جائیں اور اس سے الوداع ہوں(تواچھا ہو گا)، میں نے کہا: جیسے آپ چاہیں، پھر ہم مروان کے پا س گئے اور اس وقت اس کے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے، ان میں سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی تھے، انہوں نے ان دو رکعتوں کا تذکرہ کیا، جنہیں سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ عصر کے بعد پڑھتے تھے، مروان نے ان سے کہا: اے ابن زبیر! آپ نے دو رکعتیں کس سے لی ہیں؟ انہوں نے کہا: جی سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے مجھے ان کے بارے میں بتایا ہے، مروان نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا کہ ان دو رکعتیں کی حقیقت کیا ہے، جو سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وساطت سے آپ کی طرف منسوب کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کے بعد ان کو ادا کیا کرتے تھے؟ انہوں نے جواباً یہ پیغام بھیجا کہ مجھے تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا تھا، یہ سن کر مروان نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا کہ ان دو رکعتوں کی کیا حقیقت ہے، جن کے متعلق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خیال کیا ہے کہ آپ نے انہیں بتایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کے بعد یہ دو رکعتیں پڑھی ہیں، انہوں نے کہا: اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو معاف فرمائے، انھوں نے میری خبر کو اس کے غیرمحل پر رکھ دیا ہے، بہرحال معاملہ اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی، اسی وقت آپ کے پاس کچھ مال لایا گیا اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے تقسیم کرنے بیٹھ گئے، حتیٰ کہ مؤذن عصر کا پیغام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آگیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر پڑھی اور پھر میری طرف آئے، کیونکہیہ میری باری کا دن تھا، اس وقت آپ نے ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھیں، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ دو رکعتیں کیسی ہیں؟ آپ کو اِن کے متعلق کوئی نیا حکم دیاگیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بات یہ ہے کہ میں ظہر کے بعد جو دو رکعتیں پڑھا کرتا تھا، مال کی تقسیم نے مجھے ان سے مشغول کردیا، حتیٰ کہ مؤذن عصر کا پیغام لے کر میرے پاس آگیا، اب میں نے ان کو چھوڑنا ناپسند کیا۔ یہ سن کر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ اکبر، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ تو یہ رکعتیں پڑھی ہیں، لہٰذا اللہ کی قسم ہے کہ میں تو ان کو نہیں چھوڑوں گا، لیکن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انھوں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے اس واقعہ سے پہلے یہ دو رکعتیں پڑھی ہوں یا بعد میں۔