۔ (۲۱۴۱) عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ الْمَخْزُوْمِیِّ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَتَیْتُ خَالَتِیْ مَیْمُوْنَۃَ بِنْتَ الْحَارِثَ فَبِتُّ عِنْدَھَا فَوَجَدْتُّ لَیْلَتَہَا تِلْکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْعِشَائِ ثُمَّ دَخَلَ بَیْتَہُ فَوَضَعَ رَأَسَہُ عَلٰی وِسَادَۃٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ، فَجِئْتُ فَوَضَعْتُ رَأْسِیْ عَلٰی نَاحِیَۃٍ مِنْہَا، فَاسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَنَظَرَ فَإِذَا عَلَیْہِ لَیْلٌ فَسَبَّحَ وَکَبَّرَ حَتّٰی نَامَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ وَقَدْ ذَھَبَ شَطْرُ اللَّیْلِ أَوْ قَالَ ثُلُثَاہُ، فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَضٰی حَاجَتَہُ، ثُمَّ جَائَ إِلٰی قِرْبَۃٍ عَلٰی شَجْبٍ، فِیْہَا مَائٌ فَمَضْمَضَ ثَلَاثًا وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا وَغَسَلَ وَجْہَہُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَیْہِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِہِ وَأُذُنَیْہِ، ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَیْہِ، قَالَ یَزِیْدُ حَسِبْتُہُ قَالَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ أَتٰی مُصَلاَّہُ فَقُمْتُ وَصَنَعْتُ کَمَا صَنَعَ، ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ عَنْ یَسَارِہِ وَأَنَا أُرِیْدُ أَنْ أُصَلِِّیَ بِصَلَاتِہِ، فَأَمْہَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتّٰی إِذَا عَرَفَ أَنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أُصَلِّیَ بِصَلَاتِہِ لَفَتَ
یَمِیْنَہُ فَأَخَذَ بِأْذُنِیْ فَأَدَارَنِیْ حَتّٰی أَقَامَنِیْ عَنْ یَمِیْنِہِ، فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَا رَاٰی أَنَّ عَلَیْہِ لَیْلاً رَکْعَتَیْنِ، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّ الْفَجْرَ قَدْ دَنَا قَامَ فَصَلّٰی سِتَّ رَکَعَاتِ أَوْتَرَ بِالسَّابِعَۃِ، حَتّٰی إِذَا ضَائَ الْفَجْرُ قَامَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ وَضَعَ جَنْبَہٗفَنَامَحَتّٰی سَمِعْتُ فَخِیْخَہُ ثُمَّ جَائَ بَلَالٌ فَآذَنَہُ بِالصَّلَاۃِ فَخْرَجَ فَصَلّٰی وَمَا مَسَّ مَائً، فَقُلْتُ لِسَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ: مَا أَحْسَنَ ھٰذَا، فَقَالَ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ: أَمَا وَاللّٰہِ! لَقَدْ قُلْتُ ذَاکَ لِأِبْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: مَہْ، إِنَّہَا لَیْسَتْ لَکَ وَلَا لِأَ صْحَابِکَ، إِنَّہَا لِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِنَّہُ کَانَ یُحْفَظُ۔ (مسند احمد: ۳۴۹۰)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں اپنی خالہ سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور ان کے پاس رات گزاری،اس رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باری انہی کے گھر تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی، پھر اپنے گھر میں داخل ہوئے اورچمڑے کے ایک تکیے پر سر رکھا اور سو گئے، اس تکیے میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے، میں آیا اور اس کے کنارے پر سر رکھ کر سو گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو دیکھا کہ ابھی تک تو رات کا بڑا حصہ باقی ہے، اس لیے آپ سُبْحَانَ اللّٰہِ اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ کا ذکر کرتے کرتے سو گئے، پھر آپ بیدار ہوئے، یہ نصف یا دو تہائی رات گزر جانے کا وقت تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے، قضائے حاجت کی،پھر لکڑیوں پر لٹکے ہوئے ایک مشکیزے کی طرف آئے، اس میں پانی تھا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی چڑھایا، تین مرتبہ چہرہ دھویا اور تین تین مرتبہ بازو دھوئے اور اپنے سر اور کانوں کا مسح کیا، پھر پاؤں بھی تین تین بار دھوئے، پھر اپنی جائے نماز کی طرف آگئے،میں بھی اٹھا اور ایسے ہی کیا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا، پھر میں آکر آپ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا، میں چاہتا تھا کہ آپ کے ساتھ نماز پڑھوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دیر تو ٹھہرے رہے،لیکن جب آپ نے جان لیا کہ میں بھی آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ موڑ کر میرا کان پکڑا اور مجھے گھماکر اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب تک سمجھا کہ ابھی تک رات باقی ہے، دو رکعتیں پڑھتے رہے، پھر جب سمجھا کہ فجر قریب آ چکی ہے، تو اٹھ کر چھ رکعات ادا کیں اور ساتواں وتر پڑھا، پھر جب فجر روشن ہوئی تو اٹھ کر دو رکعتیں پڑھیں، پھر اپنے پہلو پر سوگئے، حتیٰ کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خراٹوں کی آواز آنے لگی، اتنے میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر آپ کو نمازِ فجر کی اطلاع دی،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے گئے اور نماز ادا کی، لیکن پانی کو تو چھوا تک نہیں۔ یہ سن کر عکرمہ نے سعید بن جبیرسے کہا: یہ تو بڑی اچھی بات ہے (کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سونے کے بعد وضو نہیں کیا)۔ لیکن سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: خبردار! اللہ کی قسم! میں نے یہی بات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کی تھی، لیکن انھوں نے کہا تھا: رہنے دو اس بات کو، یہ رخصت نہ تیرے لیے ہے اور نہ تیرے ساتھیوں کے لیے،یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تھی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی جاتی تھی۔