۔ (۲۱۷۳) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ أَنَّ ابْنَ مُحَیْرِیْزٍ الْقُرَشِیَّ ثُمَّ الْجُمَحِیَّ أَخْبَرَہُ وَکَانَ بِالشَّامِ وَکَانَ قَدْ أَدْرَکَ مُعَاوِیَۃَ،
فَأَخْبَرَہُ أَنَّ الْمُخْدِجِیَّ رَجُلاً مِنْ بَنِی کِنَانَۃَ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْأَ نْصَارِ کَانَ بِالشَّامِ یُکَنّٰی أَبَا مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَہُ أَنَّ الْوِتْرَ وَاجِبٌ، فَذَکَرَ الْمُخْدِجِیُّ أَنَّہُ رَاحَ إِلَی عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رضی اللہ عنہ فَذَکَرَلَہَ أَنَّ أَبَا مُحَمَّدٍ یَقُوْلُ: اَلْوِتْرُ وَاجِبٌ، فَقَالَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ رضی اللہ عنہ : کَذَبَ أَبُوْ مُحَمَّدٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ: ((خَمْسُ صَلَواتٍ کَتَبَہُنَّ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلَی الْعِبَادِ مَنْ أَتٰی بِہِنَّ، لَمْ یُضَیِّعْ مِنْھُنَّ شَیْئًا اِسْتِخْفَافًا بِحَقِّہِنَّ کَانَ لَہُ عِنْدَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی عَھْدٌ أَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ، وَمَنْ لَمْ یَأْتِ بِہِنَّ فَلَیْسَ لَہُ عِنْدَ اللّٰہِ عَہْدٌ، اِنْ شَائَ عَذَّبَہُ وَإِنْ شَائَ غَفَرَلَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۰۶۹)
ابن محیریز جمحی شام میں تھے، انھوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی پایا تھا، انھوںنے بتایا کہ بنوکنانہ کے مخدجی آدمی نے بتلایا کہ شام میں سکونت پذیر ایک انصاری آدمی ابو محمد نے کہا کہ وتر واجب ہے، یہ سن کر مخدجی، سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور ان کو بتایا کہ ابو محمدانصاری کہہ رہا ہے کہ وتر واجب ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو محمد نے جھوٹ بولا ہے، میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: پانچ نمازیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے بندوں پر فرض کیا ہے، جس نے ان کو ادا کیا اور کسی کے حق کو کمزور سمجھتے ہوئے ان میں سے کسی نماز کو ضائع نہیں کیا، تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لئے یہ عہد ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، لیکن جس نے ان کو ادا نہ کیا تو اس کے لئے اللہ کے ہاں کوئی عہد نہیں ہے، اگر اس نے چاہا تو اسے عذاب دے گا اور چاہا تو بخش دے گا۔