۔ (۲۲۳۹) عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَتْ کَانَ النَّاسُ یُصَلُّوْنَ فِی مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی رَمَضَانَ بِاللَّیْلِ أَوْزَاعًا یَکُوْنُ مَعَ الرَّجُلِ شَیْئٌ مِنَ الْقُرْآنِ فَیَکُوْنُ مَعَہُ النَّفَرُ الْخَمْسَۃُ أَوِ السِّتَّۃُ أَوْ أَقَلُّ مِنْ ذٰلِکَ أَوْ أَکْثَرُ فَیُصَلُّوْنَ بِصَلَاتِہِ، قَالَتْ: فَأَمَرَنِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَیْلَۃً مِنْ ذٰلِکَ أَنْ أَنْصِبَ لَہُ حَصِیْراً عَلٰی بَابِ حُجْرَتِی فَفَعَلْتُ فَخَرَجَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بَعْدَ أَنْ صَلَّی الْعِشَائَ اَلْآخِرَۃَ قَالَتْ فَاجْتَمَعَ اِلَیْہِ مَنْ فِی الْمَسْجِدِ فَصَلّٰی بِہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَیْلًا طَوِیْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَدَخَلَ وَتَرَکَ الْحَصِیْرَ عَلٰی حَالِہِ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ تَحَدَّثُوا بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِمَنْ کَانَ مَعَہُ فِی الْمَسْجِدِ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ قَالَتْ وَأَمْسَی الْمَسْجِدُ رَاجَّا بِالنَّاسِ فَصَلّٰی بِہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ ثُمَّ دَخَلَ بَیْتَہُ وَثَبتَ النَّاسُ قَالَتْ: فَقَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((مَا شَأْنُ النَّاسِ یَا عَائِشَۃُ؟)) قَالَتْ: فَقُلْتُ لَہُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! سَمِعَ النَّاسُ بِصَلَاتِکَ الْبَارِحَۃَ بِمَنْ کَانَ فِی الْمَسْجِدِ فَحَشَدُوْا لِذٰلِکَ لِتُصَلِّیَ بِہِمْ۔ قَالَتْ: فَقَالَ: اِطْوِ عَنَّا حَصِیْرَکِ یَا عَائِشَۃُ!)) قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، وَبَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غَیْرَ غَافِلٍ وَثَبَتَ النَّاسُ مَکَانَہُمْ حَتّٰی خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِلَی الصُّبْحِ فَقَالَتْ: فَقَالَ: ((أَیُّہَا النَّاسُ! أَمَا وَاللّٰہِ! مَابِتُّ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ لَیْلَتِی ھٰذِہٖ غَافِلًا وَمَا خَفِیَ عَلَیَّ مَکَانُکُمْ وَلٰکِنِّی تَخَوَّفْتُ أَنْ یُفْتَرَضَ عَلَیْکُمْ فَاکْلَفُوْا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ، فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا۔)) قَالَ: وَکَانَتْ عَائِشَۃُ تَقُوْلُ: اِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ اِلَی اللّٰہِ أَدْوَمُہَا وَاِنْ قَلَّ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۳۸)
ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ زوجۂ رسول سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ لوگ رمضان کی راتوں کو مسجد نبوی میں مختلف ٹولیوں کی صورت میں نماز پڑھا کرتے تھے، ایک آدمی کو کچھ قرآن یاد ہوتا تو اس کے ساتھ پانچ یا چھ یا اس سے کم یا زیادہ لوگ نمازادا کرتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ایک رات حکم دیا کہ میں اپنے حجرے کے دروازے پر ایک چٹائی بچھا دوں۔پس میں نے ایسے ہی کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عشاء ادا کرنے کے بعد اس کی طرف نکلے (اور رات کی نماز پڑھنے لگے، جو لوگ مسجد میں تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو طویل رات نماز پڑھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور چٹائی کو اسی طرح رہنے دیا۔جب صبح ہوئی تو لوگوں نے رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ کے ساتھ صحابہ کی نماز کی باتیں کیں۔ (اس کا اثر یہ ہوا کہ ) شام کے وقت مسجد لوگوں سے بھر گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو عشاء کی نماز پڑھائی اور فارغ ہو کر گھر چلے گئے، لیکن لوگ وہیں پر ٹھہرے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: عائشہ!لوگوں کی کیا صورتحال ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ لوگ رات کو بعض صحابہ کے ساتھ آپ کی نماز کے بارے میں سن کر اب جمع ہو گئے ہیں، تاکہ آپ ان کو نماز پڑھائیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! اپنی چٹائی لپیٹ لو۔ پس میں نے ایسے ہی کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھرمیں ہی رات گذاری، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نماز وغیرہ پڑھنے سے) غافل نہ رہے، لیکن لوگ اسی مقام پر ٹھہرے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازِ فجر کے لیے نکلے اور فرمایا: لوگو! اللہ کا شکر ہے کہ نہ میں نے یہ رات غفلت میں گزاری ہے اور نہ تمہاری حالت مجھ سے پوشیدہ رہی ہے، دراصل بات یہ ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ یہ رات کی نماز تم پر فرض کردی جائے گی، اس لیے اپنی طاقت کے مطابق اعمال کے مکلف بنو،کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک نہیں اکتاتا، جب تک تم نہیں اکتا جاتے۔ ابوسلمہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں : بے شک اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔