۔ (۳۲۱)۔عن أَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلیِّ ؓ قَالَ: لَمَّا کَانَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَھُوَ یَوْمَئِذٍ مُرْدِفٌ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ عَلَی جَمَلٍ آدَمَ فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا
النَّاسُ! خُذُوْا مِنَ الْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ الْعِلْمُ وَقَبْلَ أَنْ یُرْفَعَ الْعِلْمُ۔)) وَقَدْ کَانَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {یَا أَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَسْأَلُوْا عَنْ أَشْیَائَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُوئْ کُمْ، وَاِنْ تَسْأَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنْزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَلَکُمْ، عَفَااللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ} قَالَ: فَکُنَّا نَذْکُرُہَا کَثِیْرًا مِنْ مَسْأَلَتِہِ وَاتَّقَیْنَا ذَاکَ حِیْنَ أنَزَلَ اللّٰہُ عَلَی نَبِیِّہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، قَالَ: فَأَتَیْنَا أَعْرَابِیًّا فَرَشَوْنَاہُ بِرِدَائٍ، قَالَ: فَاعْتَمَّ بِہِ حَتَّی رَأَیْتُ حَاشِیَۃَ الْبُرْدِ خَارِجَۃً مِنْ حَاجِبِہِ الْأَیْمَنِ، قَالَ: ثُمَّ قُلْنَا لَہُ: سَلِ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، قَالَ: فَقَالَ لَہُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَیْفَ یُرْفَعُ الْعِلْمُ مِنَّا وَبَیْنَ أَظْہُرِنَا الْمَصَاحِفُ وَقَدْ تَعَلَّمْنَا مَا فِیْھَا وَعَلَّمْنَا ہَا نِسَائَ نَا وَذَرَارِیَّنَا وَخَدَمَنَا؟ قَالَ: فَرَفَعَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمرَأْسَہُ وَقَدْ عَلَتْ وَجْہَہُ حُمْرَۃٌ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: فَقَالَ: ((أَیْ ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ، وَہٰذِہِ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَارٰی بَیْنَ أَظْہُرِہُمُ الْمَصَاحِفُ لَمْ یُصْبِحُوْا یَتَعَلَّقُوْا بِحَرْفٍ مِمَّا جَائَ تْہُمْ بِہ أَنْبِیَائُ ہُمْ، أَلَا وَاِنَّ مِنْ ذَہَابِ الْعِلْمِ أَنْ یَذْہَبَ حَمَلَتُہُ۔)) ثَلَاثَ مِرَارٍ۔ (مسند أحمد: ۲۲۶۴۶)
سیدنا ابو امامہ باہلیؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید اونٹ پر سوار تھے اور سیدنا فضل بن عباس ؓ کو پیچھے بٹھایا ہوا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگو! علم حاصل کرو، قبل اس کے کہ علم سلب کر لیا جائے اور اس کو اٹھا لیا جائے۔ اُدھر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان بھی نازل کر دیا تھا: اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانۂ نزولِ قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کی دی جائیں گی، سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کر دیئے اور اللہ بڑی مغفرت والابڑے حلم والا ہے۔ (سورۂ مائدہ:۱۰۱) ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑے سوالات کرتے تھے، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی تو ہم نے سوال کرنے سے بچنا شروع کر دیا۔ (ایک دن ایک سوال کرنے کی خاطر) ہم ایک بدّو کے پاس گئے اور یہ کام کروانے کے لیے اسے ایک چادر دی، اس نے اس سے پگڑی باندھی اور چادر کا کنارہ دائیں ابرو کی طرف سے نکلا ہوا نظر آ رہا ہے، پھر ہم نے اس سے کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک سوال کر، پس اس نے سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم سے علم کیسے اٹھایا جائے گا، جبکہ ہمارے اندر قرآن مجید موجود ہے اور ہم نے اس کی تعلیم حاصل کی ہے اور اپنی عورتوں، بچوں اور خادموں کو اس کی تعلیم دی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور غصے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر سرخی نظر آ رہی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: او فلاں! تجھے تیری ماں گم پائے، یہ یہودی اور عیسائی ہیں، ان کے اندر ان کی کتابیں موجود ہیں،لیکن صورتحال یہ ہے کہ ان کے انبیاء جو کچھ لائے ہیں، یہ اس کی ایک شق پر بھی عمل پیرا نہیں ہیں، خبردار! علم کا اٹھ جانا یہ ہے کہ حاملینِ علم اٹھ جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی۔