۔ (۲۳۰۳) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْفَغْوَائِ عَنْ أَبِیْہِ رضی اللہ عنہ قَالَ: دَعَانِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَقَدْ أَرَادَ أَنْ یَبْعَثَنِی بِمَالٍ اِلٰی أَبِی
سُفْیَان یَقْسِمُہُ فِی قُرَیْشٍ بِمَکَّۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ، قَالَ: فَقَالَ: ((الْتَمِسْ صَاحِبًا)) قَالَ: فَجَائَ نِی عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیُّ رضی اللہ عنہ ۔ قَالَ: بَلَغَنِی اَنَّکَ تُرِیْدُ الْخُرُوْجَ وَتَلْتَمِسُ صَاحِبًا؟ قَالَ: قُلْتُ: أَجَلْ، قَالَ: فَأَنَا لَکَ صَاحِبٌ، قَالَ: فَجِئْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقُلْتُ: قَدْ وَجَدْتُ صَاحِباً، وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: ((اِذَا وَجَدْتَّ صَاحِباً فَآذِنِّی۔)) قَالَ: فَقَالَ: ((مَنْ؟)) قُلْتُ: عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیُّ، قَالَ: فَقَالَ: ((اِذَا ھَبَطْتَ بِلَادَ قَوْمِہِ فَاحْذَرْہُ فَاِنَّہُ قَدْ قَالَ الْقَائِلُ ’’أَخُوکَ الْبِکْرِیُّ وَلَا تَأْمَنْہُ‘‘۔)) قَالَ: فَخَرَجْنَا حَتّٰی اِذَا جِئْتُ الْأَبْوَائَ، فَقَالَ لِی: اِنِّی أُرِیْدُ حَاجَۃً اِلٰی قَوْمِی بِوَدَّانَ فَتَلَبَّثْ لِی، قَالَ: قُلْتُ: رَاشِداً، فَلَمَّا وَلّٰی ذَکَرْتُ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَسِرْتُ عَلٰی بَعِیْرِی ثُمَّ خَرَجْتُ أُوضِعُہُ حَتّٰی اِذَا کُنْتُ بِالْأَصَافِرِ اِذَا ھُوَ یُعَارِضُنِی فِی رَھْطِہِ، قَالَ: وَأَوْضَعْتُ فَسَبَقْتُہُ، فَلَمَّا رَآنِی قَدْ فُتُّہُ اِنْصَرَفُوْا وَجَائَ نِی، قَالَ: کَانَتْ لِی اِلٰی قَوْمِی حَاجَۃٌ، قَالَ: قُلْتُ: أَجَلْ، فَمَضَیْنَا حَتّٰی قَدِمْنَا مَکَّۃَ فَدَفَعْتُ الْمَالَ اِلٰی أَبِی سُفْیَانَ۔ (مسند احمد: ۲۲۸۵۹)
عبد اللہ بن عمرو بن فغواء اپنے باپ سیّدنا عمرو بن فغوائ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلایا، کیونکہ آپ مجھے کچھ مال دے کر سیّدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجنا چاہتے تھے، تاکہ وہ یہ مال قریشیوں میں تقسیم کر سکے، یہ فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنا کوئی ساتھی تلاش کر لو۔ میرے پاس عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہا آئے اورکہنے لگے: مجھے پتہ چلا ہے کہ تو (سفر پر)جاناچاہتا ہے اور کوئی ساتھی تلاش کر رہا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، اس نے کہا:میں تیرا ساتھی ہوں۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اطلاع دی کہ مجھے ایک ساتھی مل گیا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا تھا کہ جب تو کسی ساتھی کو پالے تو مجھے اطلاع دینا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: (تیرا ساتھی) ہے کون؟ میں نے کہا:عمر و بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تو اس کی قوم کے علاقے میں اترے تو ذرا اس سے بچ کر رہنا،بے شک کسی کہنے والے نے کہا تھا: تیرا بھائی تجھ سے طاقتور ہے اس سے بے خوف نہ ہوجانا۔ پس ہم نکل پڑے اور ابوائ پہنچ گئے۔ اس ساتھی نے مجھے کہا: میری قوم کا مسکن ودان علاقہ ہے، مجھے ان سے کوئی کام ہے، اس لیے تم میرا انتظار کرو۔ میں نے اسے کہا: ٹھیک ہے (میں انتظار کروں گا)۔ جب وہ چلا گیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحت یاد آگئی، اس لیے میں اپنے اونٹ پر سوار ہوا، وہاں سے نکلا اوراس کو تیزی سے دوڑا نے لگا، یہاں تک کہ میں اصافر مقام پر پہنچ گیا۔ (لیکن میں نے دیکھا کہ) وہ اپنی قوم کے ایک گروہ کے ہمراہ (میرا راستہ ) کاٹنے کے لیے میرے سامنے آ گیا۔ لیکن میں نے اپنے اونٹ کو تیز دوڑایا اور اس سے آگے نکل گیا۔ پھرجب اس نے دیکھا کہ میں اس کے قابو نہیں آ سکتا تو وہ لوگ واپس چلے گئے اور وہ عمرو بن امیہ میرے پاس آکر کہنے لگا: مجھے اپنی قوم سے کوئی کام تھا۔ میں نے (بات چھپا لی اور) کہا: ٹھیک ہے، پھر ہم چلے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور میںنے وہ مال ابوسفیان کے حوالے کردیا۔ طرف بھیجنا چاہتے تھے، تاکہ وہ یہ مال قریشیوں میں تقسیم کر سکے، یہ فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنا کوئی ساتھی تلاش کر لو۔ میرے پاس عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہا آئے اورکہنے لگے: مجھے پتہ چلا ہے کہ تو (سفر پر)جاناچاہتا ہے اور کوئی ساتھی تلاش کر رہا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، اس نے کہا:میں تیرا ساتھی ہوں۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اطلاع دی کہ مجھے ایک ساتھی مل گیا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا تھا کہ جب تو کسی ساتھی کو پالے تو مجھے اطلاع دینا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: (تیرا ساتھی) ہے کون؟ میں نے کہا:عمر و بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تو اس کی قوم کے علاقے میں اترے تو ذرا اس سے بچ کر رہنا،بے شک کسی کہنے والے نے کہا تھا: تیرا بھائی تجھ سے طاقتور ہے اس سے بے خوف نہ ہوجانا۔ پس ہم نکل پڑے اور ابوائ پہنچ گئے۔ اس ساتھی نے مجھے کہا: میری قوم کا مسکن ودان علاقہ ہے، مجھے ان سے کوئی کام ہے، اس لیے تم میرا انتظار کرو۔ میں نے اسے کہا: ٹھیک ہے (میں انتظار کروں گا)۔ جب وہ چلا گیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحت یاد آگئی، اس لیے میں اپنے اونٹ پر سوار ہوا، وہاں سے نکلا اوراس کو تیزی سے دوڑا نے لگا، یہاں تک کہ میں اصافر مقام پر پہنچ گیا۔ (لیکن میں نے دیکھا کہ) وہ اپنی قوم کے ایک گروہ کے ہمراہ (میرا راستہ ) کاٹنے کے لیے میرے سامنے آ گیا۔ لیکن میں نے اپنے اونٹ کو تیز دوڑایا اور اس سے آگے نکل گیا۔ پھرجب اس نے دیکھا کہ میں اس کے قابو نہیں آ سکتا تو وہ لوگ واپس چلے گئے اور وہ عمرو بن امیہ میرے پاس آکر کہنے لگا: مجھے اپنی قوم سے کوئی کام تھا۔ میں نے (بات چھپا لی اور) کہا: ٹھیک ہے، پھر ہم چلے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور میںنے وہ مال ابوسفیان کے حوالے کردیا۔